"کشکول آرزو ۔ ریاض حسین چودھری" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ریاض ’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل 1423ھ مطابق مئی 2002ء): ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآل...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
ریاض ’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل 1423ھ مطابق مئی 2002ء): ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔یہ کتاب پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظموں کے شاہکار فن پاروں کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز کشکولِ آرزو کی شعریت کا حظ یوں اٹھاتے ہیں: ’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔‘‘
[[ریاض حسین چودھری]]  کا مجموعہ کلام ’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل 1423ھ مطابق مئی 2002ء): ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔یہ کتاب پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظموں کے شاہکار فن پاروں کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز کشکولِ آرزو کی شعریت کا حظ یوں اٹھاتے ہیں: ’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔‘‘


http://riaznaat.com/bookid/5
http://riaznaat.com/bookid/5

نسخہ بمطابق 11:21، 23 اکتوبر 2019ء

ریاض حسین چودھری کا مجموعہ کلام ’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل 1423ھ مطابق مئی 2002ء): ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔یہ کتاب پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظموں کے شاہکار فن پاروں کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز کشکولِ آرزو کی شعریت کا حظ یوں اٹھاتے ہیں: ’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔‘‘

http://riaznaat.com/bookid/5