آپ «کراچی کا دبستانِ نعت۔ایک مطالعہ ۔ سید معراج جامی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 16: سطر 16:


یہ جو تذکرے ہوتے ہیں یہ دراصل سوانح ، ادبی تنقید اور تاریخ کی اساس ہوتے ہیں ، ان تذکروں کو کسی حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان تذکروں ہی سے اردو زبان اور ادب کی ارتقائی منزلوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:
یہ جو تذکرے ہوتے ہیں یہ دراصل سوانح ، ادبی تنقید اور تاریخ کی اساس ہوتے ہیں ، ان تذکروں کو کسی حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان تذکروں ہی سے اردو زبان اور ادب کی ارتقائی منزلوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:


’’اردو شعرا کے تذکروں کو ادبی تنقید ، سوانح اور تاریخ کی اساس خیال کرنا چاہیے ۔ان تذکروں کو نظر انداز کر کے نہ تو ہم اردو زبان و ادب کی ارتقائی منزلوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی رشتہ قائم کر سکتے ہیں ۔چنانچہ کلاسیکل شاعری اور ادب دونوں کے متعلق آج ہم جو کچھ جانتے ہیں انھیں تذکروں کے توسط سے جانتے ہیں اور آئندہ بھی ادبی تاریخ و تنقید یا تحقیق و سوانح نگاری کا کوئی کام ان قدیم ماخذات سے یکسر بے نیاز رہ کر نہیں کیا جا سکتا ۔تذکروں کی یہی وہ اہمیت ہے جو کسی ادیب یا ناقد کو ان کے تفصیلی مطالعہ پر اکساتی بھی ہے اور مجبور بھی کرتی ہے۔‘‘۱؎
’’اردو شعرا کے تذکروں کو ادبی تنقید ، سوانح اور تاریخ کی اساس خیال کرنا چاہیے ۔ان تذکروں کو نظر انداز کر کے نہ تو ہم اردو زبان و ادب کی ارتقائی منزلوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی رشتہ قائم کر سکتے ہیں ۔چنانچہ کلاسیکل شاعری اور ادب دونوں کے متعلق آج ہم جو کچھ جانتے ہیں انھیں تذکروں کے توسط سے جانتے ہیں اور آئندہ بھی ادبی تاریخ و تنقید یا تحقیق و سوانح نگاری کا کوئی کام ان قدیم ماخذات سے یکسر بے نیاز رہ کر نہیں کیا جا سکتا ۔تذکروں کی یہی وہ اہمیت ہے جو کسی ادیب یا ناقد کو ان کے تفصیلی مطالعہ پر اکساتی بھی ہے اور مجبور بھی کرتی ہے۔‘‘۱؎


یہ تذکرے اسی لیے مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ حال کے طالب علم اور آئندہ کے محقق ان تذکروں کی مدد سے اس دور کے اردو ادب کے ارتقاکا جائزہ بہ آسانی لے سکیں ۔ ان تذکروں سے نہ صرف اردو ادب کی مسلسل رفتار کاپتہ چلتا ہے بلکہ بہت سے ایسے شعر ا ء کرام جو اپنے درویشانہ مزاج کے مطابق ادب کے منظر نامے میں نظر نہیں آتے مگر ان کے مجموعے کی اشاعت کی وجہ سے اپنے دور میں زندہ رہ جاتے ہیں، ان تذکروں کی وجہ سے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
یہ تذکرے اسی لیے مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ حال کے طالب علم اور آئندہ کے محقق ان تذکروں کی مدد سے اس دور کے اردو ادب کے ارتقاکا جائزہ بہ آسانی لے سکیں ۔ ان تذکروں سے نہ صرف اردو ادب کی مسلسل رفتار کاپتہ چلتا ہے بلکہ بہت سے ایسے شعر ا ء کرام جو اپنے درویشانہ مزاج کے مطابق ادب کے منظر نامے میں نظر نہیں آتے مگر ان کے مجموعے کی اشاعت کی وجہ سے اپنے دور میں زندہ رہ جاتے ہیں، ان تذکروں کی وجہ سے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
تذکرہ نویسی کی ابتدا کب ہوئی، کس زبان میں ہوئی اور کس موضوع پر ہوئی یہ سب باتیں تو بہت تفصیل طلب ہیں جو اس مقدمے کے لیے بہت طویل ہو جائے گی ۔ ہمیں تو صرف اردو زبان کے شعرا کے تذکروں پر بات کرنی ہے مگر چونکہ اردو سخن کا منبع فارسی ادبیات سے نکلا ہے اس لیے یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فارسی شعرا کا پہلا تذکرہ ’’لباب الالباب ‘‘ ہے اور پہلا فارسی کا تذکرہ نگار محمد غوثی ہے ۔ تذکرہ لباب الالباب ۶۱۷ھ سے ۶۱۸ ھ کے درمیان تکمیل کو پہنچا اور اس کی دو جلدیں اور بارہ ابواب ہیں۔
تذکرہ نویسی کی ابتدا کب ہوئی، کس زبان میں ہوئی اور کس موضوع پر ہوئی یہ سب باتیں تو بہت تفصیل طلب ہیں جو اس مقدمے کے لیے بہت طویل ہو جائے گی ۔ ہمیں تو صرف اردو زبان کے شعرا کے تذکروں پر بات کرنی ہے مگر چونکہ اردو سخن کا منبع فارسی ادبیات سے نکلا ہے اس لیے یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فارسی شعرا کا پہلا تذکرہ ’’لباب الالباب ‘‘ ہے اور پہلا فارسی کا تذکرہ نگار محمد غوثی ہے ۔ تذکرہ لباب الالباب ۶۱۷ھ سے ۶۱۸ ھ کے درمیان تکمیل کو پہنچا اور اس کی دو جلدیں اور بارہ ابواب ہیں۔


یہ معلوم کرنا کہ اردو شعرا ء کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ اس کے بار ے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
یہ معلوم کرنا کہ اردو شعرا ء کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ اس کے بار ے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:


’’اب رہا یہ سوال اردو شعرا کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ ان سوالوں کا حتمی جواب ذرا مشکل ہے ۔قدیم تذکروں کے مطالعے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اردو میں تذکرہ نگاری کا رواج میر ؔ اور درد ؔ کے عہد ہی سے ہو گیا تھا اور بعض معاصرین مثلاً محمد یار خاں خاکسار ؔ ،رفیع الدین سوداؔ، سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور سید امام الدین وغیرہ نے اردو شعرا کے تذکرے بھی مرتب کیے تھے لیکن وہ دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے ۔چونکہ یہ تذکرے آج ناپید و نایاب ہیں اس لیے ان کے آغاز و انجام یا نوعیت و کیفیت کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی ۔ ہاں قدیم ترین دستیاب تذکروں کو سامنے رکھ کر ان کی تقدیم و تاخیر کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ اردو کے قدیم ترین تذکروں میں مندرجہ ذیل کے نام لیے جا سکتے ہیں:
’’اب رہا یہ سوال اردو شعرا کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ ان سوالوں کا حتمی جواب ذرا مشکل ہے ۔قدیم تذکروں کے مطالعے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اردو میں تذکرہ نگاری کا رواج میر ؔ اور درد ؔ کے عہد ہی سے ہو گیا تھا اور بعض معاصرین مثلاً محمد یار خاں خاکسار ؔ ،رفیع الدین سوداؔ، سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور سید امام الدین وغیرہ نے اردو شعرا کے تذکرے بھی مرتب کیے تھے لیکن وہ دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے ۔چونکہ یہ تذکرے آج ناپید و نایاب ہیں اس لیے ان کے آغاز و انجام یا نوعیت و کیفیت کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی ۔ ہاں قدیم ترین دستیاب تذکروں کو سامنے رکھ کر ان کی تقدیم و تاخیر کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ اردو کے قدیم ترین تذکروں میں مندرجہ ذیل کے نام لیے جا سکتے ہیں:
سطر 42: سطر 38:


مجھے ان تذکروں پر بھی اظہار خیال کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بھی بہت تفصیل طلب تذکرہ ہے اور یہاں قدرے غیر ضروری البتہ تذکرہ نگاری کے محرکات پر بات کی جاسکتی ہے ۔ مثلا تذکرہ نگاری کا اولین محرک بھی انسان کا وہی فطری جذبہ ہے جو اپنے بعد اپنی ایسی یادگار چھوڑجانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام تا قیامت دعائوں کے ساتھ لیا جائے اور وہ زندہ جاوید ہو جائے ۔ انتخاب اشعاریا بیاض نگاری کا شوق بھی اس کا دوسرا بڑا محرک ہے ۔
مجھے ان تذکروں پر بھی اظہار خیال کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بھی بہت تفصیل طلب تذکرہ ہے اور یہاں قدرے غیر ضروری البتہ تذکرہ نگاری کے محرکات پر بات کی جاسکتی ہے ۔ مثلا تذکرہ نگاری کا اولین محرک بھی انسان کا وہی فطری جذبہ ہے جو اپنے بعد اپنی ایسی یادگار چھوڑجانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام تا قیامت دعائوں کے ساتھ لیا جائے اور وہ زندہ جاوید ہو جائے ۔ انتخاب اشعاریا بیاض نگاری کا شوق بھی اس کا دوسرا بڑا محرک ہے ۔


تیسرا محرک اس تذکرے کو ترقی دینے کا یہ ہے کہ شعرا ء کی معاصرانہ چشمک ، باہم رقابت ، گروہ بندی اور علاقائی تعصب کو ہوا دینا ہے ۔  
تیسرا محرک اس تذکرے کو ترقی دینے کا یہ ہے کہ شعرا ء کی معاصرانہ چشمک ، باہم رقابت ، گروہ بندی اور علاقائی تعصب کو ہوا دینا ہے ۔  


اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کے آغاز و ارتقا کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں:
اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کے آغاز و ارتقا کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں:


اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کا آغاز تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط سے ہوتا ہے اور’’ آب حیات ‘‘مولفہ ۱۸۸۰ء تک برابر قائم رہتا ہے اس کے بعد حقیقتاً تذکرہ نگاری کا دور ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ مغرب کے زیر اثر تنقید ، تاریخ اور سوانح نگاری لے لیتی ہے ۔خود آب حیات طر زِ قدیم کے تذکروں سے بالکل مختلف چیز ہے اس میں اردو زبان کی تاریخ ،لسانی مسائل، مختلف ادوار کی خصوصیات اور شعراء کی شخصیت و کلام پررائے زنی کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو تاریخ و سوانح کا خاصا ہونا چاہیے چنانچہ ارد و زبان و ادب کے تقریباً سارے ناقدین آب حیات کو اردو ادب کی پہلی تاریخی و تنقیدی کتاب خیال کرتے ہیں ۔‘‘۳؎
اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کا آغاز تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط سے ہوتا ہے اور’’ آب حیات ‘‘مولفہ ۱۸۸۰ء تک برابر قائم رہتا ہے اس کے بعد حقیقتاً تذکرہ نگاری کا دور ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ مغرب کے زیر اثر تنقید ، تاریخ اور سوانح نگاری لے لیتی ہے ۔خود آب حیات طر زِ قدیم کے تذکروں سے بالکل مختلف چیز ہے اس میں اردو زبان کی تاریخ ،لسانی مسائل، مختلف ادوار کی خصوصیات اور شعراء کی شخصیت و کلام پررائے زنی کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو تاریخ و سوانح کا خاصا ہونا چاہیے چنانچہ ارد و زبان و ادب کے تقریباً سارے ناقدین آب حیات کو اردو ادب کی پہلی تاریخی و تنقیدی کتاب خیال کرتے ہیں ۔‘‘۳؎


اس کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری آب حیات کی طرز پر لکھے گئے کئی تذکروں کا ذکر کرتے ہیںجن میں چند یہ ہیں :’’ آثار الشعرائے ہنود‘‘،’’ جلوئہ خضر‘‘،’’ یادگار ضیغم‘‘ ، ’’آثارالشعرا ء‘‘،’’ آب بقا‘‘، تذکرے شعرائے دکن’’ بہار سخن‘‘ وغیرہم ۔
اس کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری آب حیات کی طرز پر لکھے گئے کئی تذکروں کا ذکر کرتے ہیںجن میں چند یہ ہیں :’’ آثار الشعرائے ہنود‘‘،’’ جلوئہ خضر‘‘،’’ یادگار ضیغم‘‘ ، ’’آثارالشعرا ء‘‘،’’ آب بقا‘‘، تذکرے شعرائے دکن’’ بہار سخن‘‘ وغیرہم ۔


تذکروں کے بارے میں جیسا کہ اوپر بیان ہے کہ تنقید ، سوانح اور تاریخ کے ساتھ مرتب کیے جاتے ہیں مگر ان تذکروں پر ایک عمومی تبصرہ بھی کیا گیا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر فرمان لکھتے ہیں:
تذکروں کے بارے میں جیسا کہ اوپر بیان ہے کہ تنقید ، سوانح اور تاریخ کے ساتھ مرتب کیے جاتے ہیں مگر ان تذکروں پر ایک عمومی تبصرہ بھی کیا گیا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر فرمان لکھتے ہیں:


’’تذکروں پر عمومی تبصرہ کے طور پر ’’دنیائے تذکرہ‘‘ کے نام سے افسرامروہوی صاحب کا بھی ایک مضمون فاضل زیدی کے توسط سے ہمیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس مضمون میں اردو ،فارسی کے شعرا کے تذکروں، گلدستوں ،بیاضوں ،شعر ی مجموعوں اور سوانحی و تاریخ کتابوں پر ملا جلا سرسری تبصرہ کیا گیا ہے لیکن اس میں نہ کوئی تاریخی ترتیب یا توقیت ملحوظ رکھی گئی ہے اور نہ تذکرہ نگاری کے ادوار یا عہد متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ابتدا سے لے کر ۱۹۳۷ء تک کی ایسی متعدد مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کے نام اس میں آگئے ہیں جو فارسی یا اردو ادب سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں بلکہ اس مضمون سے بعض ایسی کتابوں کا سراغ بھی مل جاتا ہے جو مضمون کی اشاعت کے وقت زیر ترتیب یازیرِ تکمیل تھیں ۔۴؎
’’تذکروں پر عمومی تبصرہ کے طور پر ’’دنیائے تذکرہ‘‘ کے نام سے افسرامروہوی صاحب کا بھی ایک مضمون فاضل زیدی کے توسط سے ہمیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس مضمون میں اردو ،فارسی کے شعرا کے تذکروں، گلدستوں ،بیاضوں ،شعر ی مجموعوں اور سوانحی و تاریخ کتابوں پر ملا جلا سرسری تبصرہ کیا گیا ہے لیکن اس میں نہ کوئی تاریخی ترتیب یا توقیت ملحوظ رکھی گئی ہے اور نہ تذکرہ نگاری کے ادوار یا عہد متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ابتدا سے لے کر ۱۹۳۷ء تک کی ایسی متعدد مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کے نام اس میں آگئے ہیں جو فارسی یا اردو ادب سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں بلکہ اس مضمون سے بعض ایسی کتابوں کا سراغ بھی مل جاتا ہے جو مضمون کی اشاعت کے وقت زیر ترتیب یازیرِ تکمیل تھیں ۔۴؎
سطر 130: سطر 120:




ایک دو تذکرے اور بھی ہو سکتے ہیں جو فی الحال میری دسترس میں نہیں ہیں۔
ایک دو تذکرے اور بھی ہو سکتے ہیں جو فی الحال میری دسترس میں نہیں ہیں۔




براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: