پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو


کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا

یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں

ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو


کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی

یوں جایئے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو


ایسا گُمادے ان کی وِلا میں خدا ہمیں

ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو


آ دِل حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج

یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو


اے شوقِ دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں

اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو


ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں جہاں

گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو