"نعت کا ایک باکمال شاعر--سید وحید القادری عارف ۔ عزیزؔ بلگامی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: نعت کا ایک باکمال شاعر--سید وحید القادری عارف جناب عزیزؔ بلگامی صاحب شاعروں کی فن کارانہ زندگی می...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک دوسرے صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 1: سطر 1:
نعت کا ایک باکمال شاعر--سید وحید القادری عارف
{{بسم اللہ }}
[[زمرہ: احباب کی نعتیہ شاعری پر تبصرے ]]
جناب عزیزؔ بلگامی صاحب
 
وحید القادری عارف کی شاعری پر ایک مضمون
 
از عزیزؔ بلگامی
 
=== نعت کا ایک باکمال شاعر--سید وحید القادری عارف ===


شاعروں کی فن کارانہ زندگی میں جس طرح نعت گوئی ایک کٹھن مرحلہ ہے،کہ ذرا سی غفلت شاعر کی اُخروی زندگی کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے، ٹھیک اُسی طرح، ایک تبصرہ نگار کے لیے بھی کسی نعت گو شاعر کی نعت گوئی پر اِظہار خیال بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا، کہ شاعرِنعت کے انتخاب، اُس کی ہمت افزائی یا تنقیداور اُس کی توصیف یا سرزنش وغیرہ جیسے اُمور میں کسی قسم کا سہو، ناانصافی یا کوتاہی خود تبصرہ نگار کو خطا کاری، ایمان کے زیاں اوراُس کی عقبیٰ کی رُوسیاہی کی سرحد تک اُسے لے جا سکتی ہے۔اِس لیے جب بھی ہمارے کندھوں پرکسی شاعرِ نعت پر کچھ کہنے کی ذمہ داری آن پڑتی ہے توہم کچھ زیادہ ہی چوکنّا ہو جاتے ہیں۔ یا تو ایسی کسی ذمہ داری سے ہم دامن کش ہو جاتے ہیں یامستحق شاعرکے حق میں خصوصی دعاﺅں کے ساتھ ضروری ہمّت جُٹاکر قلم تھام لیتے ہیں۔اِس وقت ہم عزم و ہمت کے اِسی مرحلہء شوق سے گزر رہے ہیں اور دکن کے ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاعرِ نعت محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی پر اِظہارِ خیال کی ہمّت جٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نہایت احتیاط اور گہرے احساس ذمہ داری کے ساتھ کچھ باتیں عرض کرکے خود بھی فارغ ہوجانا چاہتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی فراغت بخش دینا چاہتے ہیں، تاکہ فرض کی ادائیگی کے ساتھ، تبصرہ نگاری کے تکلفّات و تصنع سے جلد از جلد ہم سب کو خلاصی مل سکے اور نوکِ قلم کی کسی ممکنہ خطا سے دامن کو بچایا جاسکے۔
شاعروں کی فن کارانہ زندگی میں جس طرح نعت گوئی ایک کٹھن مرحلہ ہے،کہ ذرا سی غفلت شاعر کی اُخروی زندگی کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے، ٹھیک اُسی طرح، ایک تبصرہ نگار کے لیے بھی کسی نعت گو شاعر کی نعت گوئی پر اِظہار خیال بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا، کہ شاعرِنعت کے انتخاب، اُس کی ہمت افزائی یا تنقیداور اُس کی توصیف یا سرزنش وغیرہ جیسے اُمور میں کسی قسم کا سہو، ناانصافی یا کوتاہی خود تبصرہ نگار کو خطا کاری، ایمان کے زیاں اوراُس کی عقبیٰ کی رُوسیاہی کی سرحد تک اُسے لے جا سکتی ہے۔اِس لیے جب بھی ہمارے کندھوں پرکسی شاعرِ نعت پر کچھ کہنے کی ذمہ داری آن پڑتی ہے توہم کچھ زیادہ ہی چوکنّا ہو جاتے ہیں۔ یا تو ایسی کسی ذمہ داری سے ہم دامن کش ہو جاتے ہیں یامستحق شاعرکے حق میں خصوصی دعاﺅں کے ساتھ ضروری ہمّت جُٹاکر قلم تھام لیتے ہیں۔اِس وقت ہم عزم و ہمت کے اِسی مرحلہء شوق سے گزر رہے ہیں اور دکن کے ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاعرِ نعت محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی پر اِظہارِ خیال کی ہمّت جٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نہایت احتیاط اور گہرے احساس ذمہ داری کے ساتھ کچھ باتیں عرض کرکے خود بھی فارغ ہوجانا چاہتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی فراغت بخش دینا چاہتے ہیں، تاکہ فرض کی ادائیگی کے ساتھ، تبصرہ نگاری کے تکلفّات و تصنع سے جلد از جلد ہم سب کو خلاصی مل سکے اور نوکِ قلم کی کسی ممکنہ خطا سے دامن کو بچایا جاسکے۔


فیس بک کے بازار میں....جہاں فکر و نظر کی دکان کھولنے کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں پڑتی، آج کل.... ناقص و عمدہ....مناسب و غیر مناسب.... خام و پختہ مال دھڑلے سے بک رہا ہے۔بعض مستثنیات کے ساتھ یہاں حسن بک رہا ہے،حسین بک رہے ہیں، فحاشی کا بازار گرم ہے،کھوٹے سکے خوب چلائے جارہے ہیں.... دور دورتک اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی کہ کہیں پر رُکیں اور کسی پر نظر ٹک جائے۔اہلِ بازار انگشت بدنداں ہیں،خریدارمحوِ حیرت ہیں کہ کہاں سے خالص مال دستیاب ہو سکے گا، ہو گا بھی کہ نہیں۔ہر طرف فیض یابی کے سوتے خشک نظر آتے ہیں۔لیکن، تاریکی کے اِس ماحول میں ایسابھی نہیں کہیں کوئی اُجالا موجود ہی نہیں....ہاں، بے شک موجود ہے۔ فکر و نظر کے اِس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی کچھ چراغ ضرور ٹمٹماتے نظر آتے ہیں ، جن کی لو بظاہرمدھم ہے لیکن ہماری نظر میں یہ کسی سورج سے کم نہیں۔اِن چراغوں میں محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی کا چراغ ابھی جل رہا ہے اور جس شان سے عقیدت کے گہروہ مسلسل لُٹا رہے ہیں،اس سے تو یہی اُمید بندھتی ہے کہ یہ چراغ نہ صرف فروزاں رہے گا بلکہ اپنے ماحول کو پر نور بنانے تک دم نہیں لے گا۔
فیس بک کے بازار میں....جہاں فکر و نظر کی دکان کھولنے کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں پڑتی، آج کل.... ناقص و عمدہ....مناسب و غیرمناسب.... خام و پختہ مال دھڑلے سے بک رہا ہے۔بعض مستثنیات کے ساتھ یہاں حسن بک رہا ہے،حسین بک رہے ہیں، فحاشی کا بازار گرم ہے،کھوٹے سکے خوب چلائے جارہے ہیں.... دور دورتک اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی کہ کہیں پر رُکیں اور کسی پر نظر ٹک جائے۔اہلِ بازار انگشت بدنداں ہیں،خریدارمحوِ حیرت ہیں کہ کہاں سے خالص مال دستیاب ہو سکے گا، ہو گا بھی کہ نہیں۔ہر طرف فیض یابی کے سوتے خشک نظر آتے ہیں۔لیکن، تاریکی کے اِس ماحول میں ایسابھی نہیں کہیں کوئی اُجالا موجود ہی نہیں....ہاں، بے شک موجود ہے۔ فکر و نظر کے اِس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی کچھ چراغ ضرور ٹمٹماتے نظر آتے ہیں ، جن کی لو بظاہرمدھم ہے لیکن ہماری نظر میں یہ کسی سورج سے کم نہیں۔اِن چراغوں میں محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی کا چراغ ابھی جل رہا ہے اور جس شان سے عقیدت کے گہروہ مسلسل لُٹا رہے ہیں،اس سے تو یہی اُمید بندھتی ہے کہ یہ چراغ نہ صرف فروزاں رہے گا بلکہ اپنے ماحول کو پر نور بنانے تک دم نہیں لے گا۔


میرے اِن احساسات کو جن شعروں نے مہمیزعطا کی ہے وہ اُن کے درجِ ذیل شعر ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدحتِ رسول کے میدا ن کا یہ شہسوار کس طرح کشاکش ِ حیات کی جنگاہ میں اپنی فن کارانہ جوانمردی کے جوہر دکھاتا ہے، مگرجو بالآخر عقیدت کے پھول ہی ثابت ہوتے ہیں۔نعت نبی کے حوالے سے اپنے قاری کو عقیدت کے دائرے سے نکال کر اطاعت کے دائرے میں لانے کے لیے عارف بھائی نے شعوری اور دانستہ کوششیں کی ہیں۔ گالیوں اور دشنام طرازی کے جواب میں اپنے دشمن کو دعاﺅ ں سے نوازنا حضور پر نور کے اُسوے کا حصہ ہے جسے ہم سب بھلا بیٹھے ہیں:
میرے اِن احساسات کو جن شعروں نے مہمیزعطا کی ہے وہ اُن کے درجِ ذیل شعر ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدحتِ رسول کے میدا ن کا یہ شہسوار کس طرح کشاکش ِ حیات کی جنگاہ میں اپنی فن کارانہ جوانمردی کے جوہر دکھاتا ہے، مگرجو بالآخر عقیدت کے پھول ہی ثابت ہوتے ہیں۔نعت نبی کے حوالے سے اپنے قاری کو عقیدت کے دائرے سے نکال کر اطاعت کے دائرے میں لانے کے لیے عارف بھائی نے شعوری اور دانستہ کوششیں کی ہیں۔ گالیوں اور دشنام طرازی کے جواب میں اپنے دشمن کو دعاﺅ ں سے نوازنا حضور پر نور کے اُسوے کا حصہ ہے جسے ہم سب بھلا بیٹھے ہیں:
سطر 30: سطر 35:


سب جھوم اُٹھیں ایسی اک نعت سنا دینا
سب جھوم اُٹھیں ایسی اک نعت سنا دینا


یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جس کتاب نے آدمی کو جینا سکھایا ، نعت کہنے والے اُسی”الکتاب“ کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنی دانست میں سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نعت کا حق ادا کر دیا۔ لیکن عارف صاحب اپنے نعتیہ شعروں میں کتابِ ہدایت سے استفادے کاقرینہ بھی لے آتے ہیں:
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جس کتاب نے آدمی کو جینا سکھایا ، نعت کہنے والے اُسی”الکتاب“ کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنی دانست میں سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نعت کا حق ادا کر دیا۔ لیکن عارف صاحب اپنے نعتیہ شعروں میں کتابِ ہدایت سے استفادے کاقرینہ بھی لے آتے ہیں:

حالیہ نسخہ بمطابق 08:09، 10 جولائی 2017ء


وحید القادری عارف کی شاعری پر ایک مضمون

از عزیزؔ بلگامی

نعت کا ایک باکمال شاعر--سید وحید القادری عارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعروں کی فن کارانہ زندگی میں جس طرح نعت گوئی ایک کٹھن مرحلہ ہے،کہ ذرا سی غفلت شاعر کی اُخروی زندگی کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے، ٹھیک اُسی طرح، ایک تبصرہ نگار کے لیے بھی کسی نعت گو شاعر کی نعت گوئی پر اِظہار خیال بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا، کہ شاعرِنعت کے انتخاب، اُس کی ہمت افزائی یا تنقیداور اُس کی توصیف یا سرزنش وغیرہ جیسے اُمور میں کسی قسم کا سہو، ناانصافی یا کوتاہی خود تبصرہ نگار کو خطا کاری، ایمان کے زیاں اوراُس کی عقبیٰ کی رُوسیاہی کی سرحد تک اُسے لے جا سکتی ہے۔اِس لیے جب بھی ہمارے کندھوں پرکسی شاعرِ نعت پر کچھ کہنے کی ذمہ داری آن پڑتی ہے توہم کچھ زیادہ ہی چوکنّا ہو جاتے ہیں۔ یا تو ایسی کسی ذمہ داری سے ہم دامن کش ہو جاتے ہیں یامستحق شاعرکے حق میں خصوصی دعاﺅں کے ساتھ ضروری ہمّت جُٹاکر قلم تھام لیتے ہیں۔اِس وقت ہم عزم و ہمت کے اِسی مرحلہء شوق سے گزر رہے ہیں اور دکن کے ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاعرِ نعت محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی پر اِظہارِ خیال کی ہمّت جٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نہایت احتیاط اور گہرے احساس ذمہ داری کے ساتھ کچھ باتیں عرض کرکے خود بھی فارغ ہوجانا چاہتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی فراغت بخش دینا چاہتے ہیں، تاکہ فرض کی ادائیگی کے ساتھ، تبصرہ نگاری کے تکلفّات و تصنع سے جلد از جلد ہم سب کو خلاصی مل سکے اور نوکِ قلم کی کسی ممکنہ خطا سے دامن کو بچایا جاسکے۔

فیس بک کے بازار میں....جہاں فکر و نظر کی دکان کھولنے کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں پڑتی، آج کل.... ناقص و عمدہ....مناسب و غیرمناسب.... خام و پختہ مال دھڑلے سے بک رہا ہے۔بعض مستثنیات کے ساتھ یہاں حسن بک رہا ہے،حسین بک رہے ہیں، فحاشی کا بازار گرم ہے،کھوٹے سکے خوب چلائے جارہے ہیں.... دور دورتک اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی کہ کہیں پر رُکیں اور کسی پر نظر ٹک جائے۔اہلِ بازار انگشت بدنداں ہیں،خریدارمحوِ حیرت ہیں کہ کہاں سے خالص مال دستیاب ہو سکے گا، ہو گا بھی کہ نہیں۔ہر طرف فیض یابی کے سوتے خشک نظر آتے ہیں۔لیکن، تاریکی کے اِس ماحول میں ایسابھی نہیں کہیں کوئی اُجالا موجود ہی نہیں....ہاں، بے شک موجود ہے۔ فکر و نظر کے اِس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی کچھ چراغ ضرور ٹمٹماتے نظر آتے ہیں ، جن کی لو بظاہرمدھم ہے لیکن ہماری نظر میں یہ کسی سورج سے کم نہیں۔اِن چراغوں میں محترم سید وحید القادری عارف صاحب کی نعت گوئی کا چراغ ابھی جل رہا ہے اور جس شان سے عقیدت کے گہروہ مسلسل لُٹا رہے ہیں،اس سے تو یہی اُمید بندھتی ہے کہ یہ چراغ نہ صرف فروزاں رہے گا بلکہ اپنے ماحول کو پر نور بنانے تک دم نہیں لے گا۔

میرے اِن احساسات کو جن شعروں نے مہمیزعطا کی ہے وہ اُن کے درجِ ذیل شعر ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدحتِ رسول کے میدا ن کا یہ شہسوار کس طرح کشاکش ِ حیات کی جنگاہ میں اپنی فن کارانہ جوانمردی کے جوہر دکھاتا ہے، مگرجو بالآخر عقیدت کے پھول ہی ثابت ہوتے ہیں۔نعت نبی کے حوالے سے اپنے قاری کو عقیدت کے دائرے سے نکال کر اطاعت کے دائرے میں لانے کے لیے عارف بھائی نے شعوری اور دانستہ کوششیں کی ہیں۔ گالیوں اور دشنام طرازی کے جواب میں اپنے دشمن کو دعاﺅ ں سے نوازنا حضور پر نور کے اُسوے کا حصہ ہے جسے ہم سب بھلا بیٹھے ہیں:

تم خلق مجسم ہو، تم پیکرِ رحمت ہو

آسان نہیں ورنہ ، دُشمن کو دُعا دینا

نیز یہ شعرملاحظہ ہو:

ذرا چل کر تو دیکھواُسوہء سرکار پر عارف ؔ

ابھی ہر درد ہر رنج ومحن کافور ہو جائے

اِس شعر میں فکر کے ساتھ جس شان سے اُن کا فن بول رہا ہے وہ ہر صاحبِ نظر محسوس کر سکتا ہے۔ محشر کے ساتھ حشر اُٹھانے کی فن کاری سے ہم تو بہت محظوظ ہوئے:

سرکار نظر آئیں جب عرصہء محشر میں

ہر سمت درودوں کا اک حشر اُٹھا دینا

اُن کی ہر نعت پریہ احساس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے ہماری فرمائش پر نعت تخلیق فرمائی ہے اور وہ اپنی تازہ نعت سنا دیتے ہیں تو ہم واقعتا ً جھوم اُٹھتے ہیں:

جب بھی کبھی چھائی ہوپژ مردہ فضا عارفؔ

سب جھوم اُٹھیں ایسی اک نعت سنا دینا

یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جس کتاب نے آدمی کو جینا سکھایا ، نعت کہنے والے اُسی”الکتاب“ کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنی دانست میں سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نعت کا حق ادا کر دیا۔ لیکن عارف صاحب اپنے نعتیہ شعروں میں کتابِ ہدایت سے استفادے کاقرینہ بھی لے آتے ہیں:

نہ کیوں لطفِ قرآن خوانی رہے

کہ خود عینِ قرآں مدینہ میں ہے

حضور کی محبت میں الل ٹپ خیالات کا اِظہار کرنے والے آج کے متشاعر اِس شعر سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں:

وابستہ اِن سے جو ہے پذیرائیوں میں ہے

جو اِن سے دور ہوگیا ، رُسوائیوں میں ہے

یہ خوبصورت شعر مشامِ جاں کو معطر کرد یتا ہے:

پھر تصور میں وہاں کا لالہ زار آنے کو ہے

اے مشامِ جاں ، ہوائے مشک بار آنے کو ہے

یہ شعر واقعی وجد کی کیفیت طاری کر دیتا ہے:

اُن کی اُلفت نے کیا ہے وہ تاثر پیدا

وجد میں لانے لگے خود مرے اشعار مجھے

پھر کیوں نہ عارف صاحب کی دیوانگی کا چرچا ہوگا:

جدھر جاؤں اُدھر غل ہویہ دیوانہ ہے آقا کا

مری دیوانگی کچھ اِس طرح مشہور ہو جائے

اِن کے اِن شعروں میں عقیدت کو ایک نیا زاویہ فراہم ہو گیا ہے:

نسبتِ احمد مختار سے ہوں جو کچھ ہوں

مری نسبت مرا ہر گام بھرم رکھتی ہے

غلامی اُن کے در کی باعث ِ صد فخر ہے ہم کو

یہی ہے اصل اپنی ہم اِسی سے جانے جائیں گے

عارف صاحب کے اِس شعر نے ہمیں حفیظ میرٹھی صاحب کی یاددلادی:

کسی قیصر کسی کسریٰ کو خاطر میں نہیں لاتے

غلامانِ محمد کی ادا سب سے نرالی ہے

اِس کا نتیجہ جو کچھ ہے وہ اِس شعر میں اُمنڈ آیا ہے:

اُن کی نسبت نے یہ پہچان بدل کررکھ دی

اُن کے دیوانے کو دُنیا نے سیانا جانا

اللہ کا شکر ہے کہ نعت کے حوالے سے اُن کی عقیدتمندی کا والہانہ سفر مسلسل جاری ہے،اس کا خوبصورت اعلان و اِظہار ملاحظہ ہو:

کیف میں میں نے ابھی نعت نبی لکھی تھی

اور ابھی بارِ دگر نعتِ نبی لکھی ہے

محض تبرکاً اُن کے یہ چند شعر پیش ہیں جن کے ذریعہ ہم عارف صاحب کی عقیدتوں کو سلام کرنا چاہتے ہیں ورنہ اُن کی زنبیل میں کبھی ختم نہ ہونے والا ایک خزانہ ہے جس سے بیش از بیش استفادے کے امکانات نہایت روشن ہیں اور ہمیں اِن ہی اِمکانات سے اُمید ہے کہ ملت کے اِس وفا شعار شاعر کی عالمی سطح پر پذیرائی جاری رہے گی۔خدا کرے کہ اللہ اُن کے فن کو نئے نئے آفاق عطا کرے ۔ آمین۔

Azeez Belgaumi

(BANGALORE, Karnataka State (India

http://www.azeezbelgaumi.com