آپ «نعت میں نظریاتی افکار و خیالات ۔ سراج احمد قادری» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 22: سطر 22:




’’بغیر کسی ادعایت کے عرض کرنا چاہوںگا کہ یہ مقالہ ایک طرح کا د أیرۃالمعارف یا انسایکلو پیڈیا ہے، جس میں نعت شہ کونینؐ سے متعلق ممکنہ معلومات کا ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے ۔ ان کے متعلقات بھی زیر بحث لائے گیٔ ہیں۔ عربی فارسی ، اور اردو کے نعتیہ تحقیق کاروں کو ترتیب کے ساتھ تذکرے میں شامل کیا گیا ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ ایک ارتقائی تاریخ کے لیے بھی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نعت کے اس خو شہ و خر من کے مجموعے کو برق و باراں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ راقم ان کی کاوش کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے کہ انہوں نے ادب و انتقاد کو ارجمندی بخشی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری کوتاہ بینی نے نعت کو صنف شاعری قرار دینے میں بخل برتا ۔ اگر مثنوی و مرثیہ اصناف شعر تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ اور نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ تو نعت سے گریزپائی کیوں ہے؟ تنگ دلی اور ترقی پسندی ہی سنگ راہ بنی ۔ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف ادب کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘۲ ؎
’’بغیر کسی ادعایت کے عرض کرنا چاہوںگا کہ یہ مقالہ ایک طرح کا د أیرۃالمعارف یا انسایکلو پیڈیا ہے، جس میں نعت شہ کونین Vسے متعلق ممکنہ معلومات کا ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے ۔ ان کے متعلقات بھی زیر بحث لائے گیٔ ہیں۔ عربی فارسی ، اور اردو کے نعتیہ تحقیق کاروں کو ترتیب کے ساتھ تذکرے میں شامل کیا گیا ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ ایک ارتقائی تاریخ کے لیے بھی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نعت کے اس خو شہ و خر من کے مجموعے کو برق و باراں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ راقم ان کی کاوش کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے کہ انہوں نے ادب و انتقاد کو ارجمندی بخشی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری کوتاہ بینی نے نعت کو صنف شاعری قرار دینے میں بخل برتا ۔ اگر مثنوی و مرثیہ اصناف شعر تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ اور نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ تو نعت سے گریزپائی کیوں ہے؟ تنگ دلی اور ترقی پسندی ہی سنگ راہ بنی ۔ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف ادب کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘۲ ؎




سطر 28: سطر 28:




ڈ اکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مقالے کا موضوع ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو تو چاہیے تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہ کر نعت گوئی کے موضوعات پر قرآن و احادیث، سیرت ِرسول اکرمؐ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نیز دربارِ رسالت مآبؐ کے ان جلیل القدر شعراے ٔ کرام کے اقوا ل و اشعار سے ان موضوعات کی تحقیق وتفحص کرکے نشان دہی کرتے جس سے کہ عصر حاضر یا بعد کے نعت گو شعرا ٔیا نعت خواں حضرات کو راہ راست کی ضیا ٔ ملتی۔ مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے اپنے اس تحقیقی مقالے کو بالکل نظریاتی مقالہ بنا دیا اور گھما پھرا کر وہی باتیں تحریر کی ہیں جو ان کے اپنے من کی بات یا ان کا اپنا خود کا عقیدہ و نظریہ ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ جب ان کو نظریاتی مقالہ لکھنا ہی تھا تو وہ کسی اور موضوع کا انتخاب کرتے۔ اتنے حساس اور نازک موضوع کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا ۔ اور اگر توفیق رب سے انہوں نے اس موضوع کا انتخاب کر ہی لیا تھا تو قلم کی دھار کو بہت سنھال کر استعمال کرتے اس لیے کہ نعت نبی اکرم وؐ سے عشاق جہاں کے دل وابستہ ہیں ۔ عشاق رسولؐ  کے احساس کا اندازہ میر تقی میر ؔ کے درج ذیل شعر سے کیا جا سکتا ہے ۔ اگر چہ میرؔ صاحب نے اس شعر کو کسی اور مقام کی مناسبت سے تحریر کیاہے ۔
ڈ اکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مقالے کا موضوع ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو تو چاہیے تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہ کر نعت گوئی کے موضوعات پر قرآن و احادیث، سیرت ِرسول اکرم V اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نیز دربارِ رسالت مآب V کے ان جلیل القدر شعراے ٔ کرام کے اقوا ل و اشعار سے ان موضوعات کی تحقیق وتفحص کرکے نشان دہی کرتے جس سے کہ عصر حاضر یا بعد کے نعت گو شعرا ٔیا نعت خواں حضرات کو راہ راست کی ضیا ٔ ملتی۔ مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے اپنے اس تحقیقی مقالے کو بالکل نظریاتی مقالہ بنا دیا اور گھما پھرا کر وہی باتیں تحریر کی ہیں جو ان کے اپنے من کی بات یا ان کا اپنا خود کا عقیدہ و نظریہ ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ جب ان کو نظریاتی مقالہ لکھنا ہی تھا تو وہ کسی اور موضوع کا انتخاب کرتے۔ اتنے حساس اور نازک موضوع کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا ۔ اور اگر توفیق رب سے انہوں نے اس موضوع کا انتخاب کر ہی لیا تھا تو قلم کی دھار کو بہت سنھال کر استعمال کرتے اس لیے کہ نعت نبی اکرم وV سے عشاق جہاں کے دل وابستہ ہیں ۔ عشاق رسول V کے احساس کا اندازہ میر تقی میر ؔ کے درج ذیل شعر سے کیا جا سکتا ہے ۔ اگر چہ میرؔ صاحب نے اس شعر کو کسی اور مقام کی مناسبت سے تحریر کیاہے ۔


لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
سطر 44: سطر 44:




’’یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے، اس سے نعت کو مزید عروج اور مقبولیت بھی حاصل ہو ئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نعت میں تو مولا ناحالی نے امت کی بددینی اور در پیش مسائل کا ذکر آںحضرتؐ  کے حضور کیا ہے۔ مگر بعد میں شعرا ٔاس سے پھسل کر استغاثہ، استمداد اور استعانت تک پہونچ گیٔ،جو قطعی مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوںکہ اگر کسی سے فریاد کی جا سکتی ہے ۔ کسی سے مدد مانگی جا سکتی ہے تو وہ ذات صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔‘‘ ۳؎
’’یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے، اس سے نعت کو مزید عروج اور مقبولیت بھی حاصل ہو ئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نعت میں تو مولا ناحالی نے امت کی بددینی اور در پیش مسائل کا ذکر آںحضرت V کے حضور کیا ہے۔ مگر بعد میں شعرا ٔاس سے پھسل کر استغاثہ، استمداد اور استعانت تک پہونچ گیٔ،جو قطعی مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوںکہ اگر کسی سے فریاد کی جا سکتی ہے ۔ کسی سے مدد مانگی جا سکتی ہے تو وہ ذات صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔‘‘ ۳؎




سطر 50: سطر 50:




’’یاد رہنا چاہیٔے کہ براہ راست فریاد کرنا، مدد چاہنا، اور پناہ مانگنا ،( استمداد، استعانت،استغاثہ، استعاذہ) وغیرہ بھی شریعت کے دائرے سے باہر ہیں ۔آپؐ کے توسل اور طفیل سے دعأ مانگنے سے ہی بعض علمأ منع کرتے ہیں تو پھر آنحضرتؐ روز قیامت اپنی امت کی شفارش بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہی فرمائیںگے ۔ بیشک اللہ ہی قادر مطلق ہے اس امر کا ہر وقت لحا ظ رکھنا ضروری ہے ورنہ شاعر اور شاعری دونوں خسرالدنیا والآخرۃ کا مصداق بن سکتے ہیں۔ ‘‘۴ ؎
’’یاد رہنا چاہیٔے کہ براہ راست فریاد کرنا، مدد چاہنا، اور پناہ مانگنا ،( استمداد، استعانت،استغاثہ، استعاذہ) وغیرہ بھی شریعت کے دائرے سے باہر ہیں ۔آپ V کے توسل اور طفیل سے دعأ مانگنے سے ہی بعض علمأ منع کرتے ہیں تو پھر آنحضرت V روز قیامت اپنی امت کی شفارش بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہی فرمائیںگے ۔ بیشک اللہ ہی قادر مطلق ہے اس امر کا ہر وقت لحا ظ رکھنا ضروری ہے ورنہ شاعر اور شاعری دونوں خسرالدنیا والآخرۃ کا مصداق بن سکتے ہیں۔ ‘‘۴ ؎




مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ڈاکٹر حبیب الر حمن رحیمی صاحب کھل کر اپنے دل کی بات تحریر نہیں کر سکے اس لیے کہ انہوں نے سوچا ہوگا اگر میں خواجہ الطاف حالیؔ جیسی مقتدر ہستی پر کھل کر قلم اتھاتا ہوں جن کا خود تحقیق و تنقید میں ایک ا علیٰ مقام ہے۔ تو میری بڑی جگ ہنسائی ہوگی ۔ اسی لیے انہوں نے حزم واحتیاط کی زبان استعمال کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ انہیں کے ایک ہم نو ا پر وفیسر عبداللہ شاہین صا حب جو ڈاکٹریٹ بھی ہیں، اور ایوارڈ یافتہ بھی، ان کی دریدہ دہنی اور بے باکی اوج ثریا کو بھی مات دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کیا ْ؟عظیم عاشق رسولؐ حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے عقیدے اور نظرییٔ کا نشانہ بناتے ہو ے ’’ ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی‘‘ کا ذمہ دار ان کو ٹھرایا ہے۔ چناںچہ وہ اپنی تحقیقی کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ڈاکٹر حبیب الر حمن رحیمی صاحب کھل کر اپنے دل کی بات تحریر نہیں کر سکے اس لیے کہ انہوں نے سوچا ہوگا اگر میں خواجہ الطاف حالیؔ جیسی مقتدر ہستی پر کھل کر قلم اتھاتا ہوں جن کا خود تحقیق و تنقید میں ایک ا علیٰ مقام ہے۔ تو میری بڑی جگ ہنسائی ہوگی ۔ اسی لیے انہوں نے حزم واحتیاط کی زبان استعمال کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ انہیں کے ایک ہم نو ا پر وفیسر عبداللہ شاہین صا حب جو ڈاکٹریٹ بھی ہیں، اور ایوارڈ یافتہ بھی، ان کی دریدہ دہنی اور بے باکی اوج ثریا کو بھی مات دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کیا ْ؟عظیم عاشق رسول V حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے عقیدے اور نظرییٔ کا نشانہ بناتے ہو ے ’’ ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی‘‘ کا ذمہ دار ان کو ٹھرایا ہے۔ چناںچہ وہ اپنی تحقیقی کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔




سطر 67: سطر 67:




اس مقام پر ٹھہر کر میں اپنی علمی کم مائیگی کو پیش نظر رکھتے ہوے ڈاکٹر رحیمی صا حب سے ان کے ایک جملے کی وضاحت چاہوں گا انہوں نے بریکٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ (استمداد ۔۔۔۔ استعاذہ) یہ استعاذہ کیا ہے ؟ اسکو لوگ کب مانگتے ہیں ؟ اور کس سے مانگتے ہیں ؟ کیا کوئی بندۂ مومن اللہ کے پیارے حبیبؐ سے بھی استعاذہ مانگتا ہے؟میرے اپنے علم میں استعاذہ علم القراۃ کی اصطلاح ہے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجییم پڑھنے کو استعاذہ کہتے ہیں اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کو بسملہ کہتے ہیں ۔ اور اگر اسکے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو میرے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ میں آپکا مرہون منت ہوںگا ۔
اس مقام پر ٹھہر کر میں اپنی علمی کم مائیگی کو پیش نظر رکھتے ہوے ڈاکٹر رحیمی صا حب سے ان کے ایک جملے کی وضاحت چاہوں گا انہوں نے بریکٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ (استمداد ۔۔۔۔ استعاذہ) یہ استعاذہ کیا ہے ؟ اسکو لوگ کب مانگتے ہیں ؟ اور کس سے مانگتے ہیں ؟ کیا کوئی بندۂ مومن اللہ کے پیارے حبیب V سے بھی استعاذہ مانگتا ہے؟میرے اپنے علم میں استعاذہ علم القراۃ کی اصطلاح ہے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجییم پڑھنے کو استعاذہ کہتے ہیں اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کو بسملہ کہتے ہیں ۔ اور اگر اسکے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو میرے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ میں آپکا مرہون منت ہوںگا ۔




افسوس صد افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات کی نگاہیں حقائق کی طرف کیوں نہیں جاتیں ۔ اور اگر جاتی بھی ہیں تو حقائق سے کیوں اغماض بر تتے ہیں؟ میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب کی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘سے ہی آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میرے اپنے خیال میں یہ دونوں حضرات بھی انہیں کے ہم عقیدہ و ہم نظریہ بھی ہیں ۔ مگر انہوں نے بہت سے مقامات پر حقائق کو اپنی مذکورہ کتاب میں جگہ دی ہے۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں ایک مشہور جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک نعت پاک نقل فرمایا ہے۔ جس میں حضرت زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور کائنات حضور رحمت عالم، سید عالم روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعا لیٰ کے احوال و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ حالت کفر میں اسلام کے خلاف کفار مکہ کو بھڑکایا کرتے تھے ۔ اور حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ کا مقابلہ اشعار سے قریش کی طرف سے کیا کرتے تھے ۔مگر آقا و مولیٰ حضور رحمت عالم ، سید عالم روحی فداؐ کے د امن کرم سے وابستہ ہو نے کے بعدکتنے عاجزانہ انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پرا ظہار ندامت کرتے ہوے ٔ آقا علیھم ا لسلام سے اپنی گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ ان کی نعت پاک کے درج ذیل شعر سے اس قدر محبت رسولؐ ٹپک رہی ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہر عاشق رسول کی روح وجد کرنے لگتی ہے اور ایمان میں فرحت و تازگی آجاتی ہے۔ ملاحظہ ہووہ روح افزا شعر ؎
افسوس صد افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات کی نگاہیں حقائق کی طرف کیوں نہیں جاتیں ۔ اور اگر جاتی بھی ہیں تو حقائق سے کیوں اغماض بر تتے ہیں؟ میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب کی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘سے ہی آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میرے اپنے خیال میں یہ دونوں حضرات بھی انہیں کے ہم عقیدہ و ہم نظریہ بھی ہیں ۔ مگر انہوں نے بہت سے مقامات پر حقائق کو اپنی مذکورہ کتاب میں جگہ دی ہے۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں ایک مشہور جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک نعت پاک نقل فرمایا ہے۔ جس میں حضرت زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور کائنات حضور رحمت عالم، سید عالم روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی V سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعا لیٰ کے احوال و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ حالت کفر میں اسلام کے خلاف کفار مکہ کو بھڑکایا کرتے تھے ۔ اور حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ کا مقابلہ اشعار سے قریش کی طرف سے کیا کرتے تھے ۔مگر آقا و مولیٰ حضور رحمت عالم ، سید عالم روحی فدا V کے د امن کرم سے وابستہ ہو نے کے بعدکتنے عاجزانہ انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پرا ظہار ندامت کرتے ہوے ٔ آقا علیھم ا لسلام سے اپنی گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ ان کی نعت پاک کے درج ذیل شعر سے اس قدر محبت رسول V ٹپک رہی ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہر عاشق رسول کی روح وجد کرنے لگتی ہے اور ایمان میں فرحت و تازگی آجاتی ہے۔ ملاحظہ ہووہ روح افزا شعر ؎


فاغفر فدیًً لک والدی کلاھما ذنبی ،فانک راحم مرحوم
فاغفر فدیًً لک والدی کلاھما ذنبی ،فانک راحم مرحوم
سطر 80: سطر 80:




میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر شاہین صاحب سے ادب کے ساتھ پوچھناچاہوںگا کہ کیا حکم صادر فرمائیںگے اس جلیل القدر صحابی رسول کے بارے میں جنہوں نے آقا علیھم السلام سے براہ راست اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ؟ جبکہ قران پاک تو ارشاد فرماتا ہے۔واللّٰہ غفور الرحیم ۔ حضرت سیدنا امام محمدبن سعید بوصیری رحمۃاللہ علیہ نے عشق رسول اور نعت مصطفیؐ کا جو عظیم سرمایہ ہمیںعطا کیا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ پوری دنیا کے عشاق رسول مل کر اگر انکے اس عظیم کارنامے کا بدل دینا چاہیں تو مجھے ممکن نہیں لگتا ہے کہ دنیا کی کو ئی شئے ان کے اس کارنامے کا کویٔ بدل بن سکتی ہے ۔ میں تو یہی کہوںگا کہ نہ ان کے عشق رسولؐ کا کوئی بدل ہے او ر نہ ہی ان کے نعتیہ سرمایہ کا۔
میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر شاہین صاحب سے ادب کے ساتھ پوچھناچاہوںگا کہ کیا حکم صادر فرمائیںگے اس جلیل القدر صحابی رسول کے بارے میں جنہوں نے آقا علیھم السلام سے براہ راست اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ؟ جبکہ قران پاک تو ارشاد فرماتا ہے۔واللّٰہ غفور الرحیم ۔ حضرت سیدنا امام محمدبن سعید بوصیری رحمۃاللہ علیہ نے عشق رسول اور نعت مصطفی V کا جو عظیم سرمایہ ہمیںعطا کیا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ پوری دنیا کے عشاق رسول مل کر اگر انکے اس عظیم کارنامے کا بدل دینا چاہیں تو مجھے ممکن نہیں لگتا ہے کہ دنیا کی کو ئی شئے ان کے اس کارنامے کا کویٔ بدل بن سکتی ہے ۔ میں تو یہی کہوںگا کہ نہ ان کے عشق رسول V کا کوئی بدل ہے او ر نہ ہی ان کے نعتیہ سرمایہ کا۔




سطر 86: سطر 86:




’’لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں صدی ھجری میں جب تصوف اور بدعت نے زور پکڑلیا تھا ، اہل تصوف نے اسلام کے منہج اور مدح کے طریقے سے یکسر خلاف نبیؐ کی شان اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبیؐ کو اُلوہیت کے درجے پر فائز کرنے کی کو شش کی گیٔ اور آپ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ۔
’’لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں صدی ھجری میں جب تصوف اور بدعت نے زور پکڑلیا تھا ، اہل تصوف نے اسلام کے منہج اور مدح کے طریقے سے یکسر خلاف نبی V کی شان اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبی V کو اُلوہیت کے درجے پر فائز کرنے کی کو شش کی گیٔ اور آپ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ۔




اس رسم بد کی ابتدا ٔمحمد بن سعید بو صیری کے ہاتھوں ہوئی جو ۶۹۵؁ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس نے نبیؐ کے متعلق قصیدے لکھے جن میں سے دو بہت مشہور ہوے ٔ۔ ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ ۔ ان میں سے موخرالذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’ الکو اکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘رکھا ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افترا کی بنیاد پر اس کا نام ’’ قصیدہ بردہ‘‘ رکھ دیا ۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کرکے ثابت کرنے کی کو شش کی گیٔ کہ اس قصیدے کے سننے سے نبیؐ بہت خوش ہوے ٔاور انعام کے طور پر خواب ہی میں اپنی چادر عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بیدار ہونے کے بعد مولف قصیدہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑ گیا ۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں ۔ بہر حال بوصیری کے بعد نبیؐ کی مدح و نعت میں غلو و افراط کا عنصر شامل ہو تا گیا یہاں تک کہ بر صغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو و افراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا۔ ‘‘۷ ؎
اس رسم بد کی ابتدا ٔمحمد بن سعید بو صیری کے ہاتھوں ہوئی جو ۶۹۵؁ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس نے نبی V کے متعلق قصیدے لکھے جن میں سے دو بہت مشہور ہوے ٔ۔ ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ ۔ ان میں سے موخرالذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’ الکو اکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘رکھا ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افترا کی بنیاد پر اس کا نام ’’ قصیدہ بردہ‘‘ رکھ دیا ۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کرکے ثابت کرنے کی کو شش کی گیٔ کہ اس قصیدے کے سننے سے نبی V بہت خوش ہوے ٔاور انعام کے طور پر خواب ہی میں اپنی چادر عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بیدار ہونے کے بعد مولف قصیدہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑ گیا ۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں ۔ بہر حال بوصیری کے بعد نبی V کی مدح و نعت میں غلو و افراط کا عنصر شامل ہو تا گیا یہاں تک کہ بر صغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو و افراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا۔ ‘‘۷ ؎




سطر 95: سطر 95:




’’عہد رسالت کے بعد ایک قصیدہ بہت ہی مشہور ہوا ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شہرت ما قبل کے تمام مدحیہ اور نعتیہ قصائد پر غالب آگیٔ ، اسکے شاعر ساتویں صدی ھجری کے ایک نامور مورخ مداح نبی محمد بن سعید البوصیری ( ۶۰۸ھ تا ۶۹۷) ہیں ۔ شاعر نے اس قصیدے کا نام ’’الکواکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ۔ لیکن بعد میں قصیدہ بردہ کے نام سے موسوم و معروف ہوا ۔ روایت ہے کہ بوصیری کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہوا ، اسی حال میں انہوں نے یہ قصیدہ کہا اور خواب میں آپ کیؐ زیارت سے مشرف ہوے ٔ، آنحضرتؐ نے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور سر پر دست مبارک پھیرا ۔ بوصیری صبح کو بیدار ہوے ٔ تو فالج سے صحت یاب ہو چکے تھے ۔ سارا قصیدہ عشق رسول میں ڈوب کر کہا گیا ہے ۔ اس لیے اسے عالم اسلام میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بطور وظیفہ پڑھا جانے لگا ، اپنی شہرت و مقبولیت میں یہ قصید ہ کعب بن زہیر کے قصیدہ سے بھی آگے بڑھ گیا ۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میںشائع ہو چکا ہے ، متعدد زبانوں میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے ،سیکڑوں شعرا ٔنے اس کی بحر میں اپنے قصیدے لکھے ، اس کی تضامین کہیں ( ۴۲) اس قصیدے کے مضامین کی تر تیب یہ ہے۔
’’عہد رسالت کے بعد ایک قصیدہ بہت ہی مشہور ہوا ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شہرت ما قبل کے تمام مدحیہ اور نعتیہ قصائد پر غالب آگیٔ ، اسکے شاعر ساتویں صدی ھجری کے ایک نامور مورخ مداح نبی محمد بن سعید البوصیری ( ۶۰۸ھ تا ۶۹۷) ہیں ۔ شاعر نے اس قصیدے کا نام ’’الکواکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ۔ لیکن بعد میں قصیدہ بردہ کے نام سے موسوم و معروف ہوا ۔ روایت ہے کہ بوصیری کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہوا ، اسی حال میں انہوں نے یہ قصیدہ کہا اور خواب میں آپ کی V زیارت سے مشرف ہوے ٔ، آنحضرت V نے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور سر پر دست مبارک پھیرا ۔ بوصیری صبح کو بیدار ہوے ٔ تو فالج سے صحت یاب ہو چکے تھے ۔ سارا قصیدہ عشق رسول میں ڈوب کر کہا گیا ہے ۔ اس لیے اسے عالم اسلام میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بطور وظیفہ پڑھا جانے لگا ، اپنی شہرت و مقبولیت میں یہ قصید ہ کعب بن زہیر کے قصیدہ سے بھی آگے بڑھ گیا ۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میںشائع ہو چکا ہے ، متعدد زبانوں میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے ،سیکڑوں شعرا ٔنے اس کی بحر میں اپنے قصیدے لکھے ، اس کی تضامین کہیں ( ۴۲) اس قصیدے کے مضامین کی تر تیب یہ ہے۔


۱۔ تشبیب کے بعد نفسانی فریب کاریوں سے آگاہی
۱۔ تشبیب کے بعد نفسانی فریب کاریوں سے آگاہی


۲۔ گریز ، مدح رسولؐ
۲۔ گریز ، مدح رسول V


۳۔ ولادت نبوی اور معجزات کا ذکر
۳۔ ولادت نبوی اور معجزات کا ذکر
سطر 129: سطر 129:




لیکن ان کی شہرت ومقبولیت کا سبب ’’ قصیدۂ بردہ‘‘ ہے، جس کے متعلق یہ روایت ہے کہ ان کے جسم کے نصف حصے پر فالج گر گیا تھا اس حال میں انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تھا ، خواب میں حضور انورؐ کی زیارت سے مشرف ہوے ٔ، اور آپؐ نے ان پر اپنی چادرڈال دی او ر د ست مبارک ان کے رخسار اور سرپر پھیرا ، جب بیدار ہوے ٔ تو اپنے فالج شدہ حصۂ جسم میں نشاط محسوس کیا اور فالج کا اثر ختم ہو گیا ، صبح کو کہیں جارہے تھے کہ کوئی فقیر ملا اس نے کہا کہ بو صیری ! وہ قصیدہ لاو ٔ جو تم نے رسول اللہؐ کی نعت میں کہا ہے ، بوصیری نے اس قصیدے کا حال کسی کو نہیں بتایا تھا ، مگر رسول اللہؐ کے اس معجزے پر یقین تھا ،اس لیے انہوں نے اس فقیر سے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار نہیں کیا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا ، مگر خود اس فقیر نے کہا کہ میں نے رات دیکھا کہ تم آںحضرت کی مجلس شریف میں اپنا قصیدہ سنا رہے ہو ، اور حضورؐ پر وجد کی کیفیت طاری ہے، چناںچہ اس قصیدے کی شہرت اس فقیر کے ذریعے ہوئی ۔ اس قصیدے کا عنوان علامہ بوصیری نے ’’ الکو کب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ، لیکن اپنی مقبولیت کی وجہ سے ’’ قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ، بعض لوگوں نے کعب بن زہیرؓ کے ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ اور اس قصیدہ کے درمیان تمیز کرنے کے لیے بوصیری کے قصیدہ کو ’’ بردہ منامیہ ‘‘ بھی کہا ہے، کیوں کہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کو عالم رویا میں بردہ مرحمت فرمایا گیا تھا ، ،عوام میں مشہور ہے کہ شیخ بوصیری رحمۃاللہ علیہ جب خواب سے بیدار ہوے ٔ تو انہوں نے بردہ مبارک کو موجود پایا جو خواب میں ان کو مرحمت فرمایا گیا تھا ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور نہ کسی معتبر تاریخ میں کہی گیٔ ہے، لیکن جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ یہ قصیدہ جس درجہ مقبول ہوا اس درجہ قصیدہ ’’ بانت سعاد ‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ، لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے، اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی نیٔ شرح لکھتا رہتا ہے ، سیکڑوں (بلا مبالغہ)قصیدے اس زمین پر کہے جا چکے ،پچاسوں تضمینیں اور مشطر ،مخمس ، مسدس،مسبع،اور معشر کہے گئے۔ ‘‘ ۹ ؎
لیکن ان کی شہرت ومقبولیت کا سبب ’’ قصیدۂ بردہ‘‘ ہے، جس کے متعلق یہ روایت ہے کہ ان کے جسم کے نصف حصے پر فالج گر گیا تھا اس حال میں انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تھا ، خواب میں حضور انور V کی زیارت سے مشرف ہوے ٔ، اور آپ V نے ان پر اپنی چادرڈال دی او ر د ست مبارک ان کے رخسار اور سرپر پھیرا ، جب بیدار ہوے ٔ تو اپنے فالج شدہ حصۂ جسم میں نشاط محسوس کیا اور فالج کا اثر ختم ہو گیا ، صبح کو کہیں جارہے تھے کہ کوئی فقیر ملا اس نے کہا کہ بو صیری ! وہ قصیدہ لاو ٔ جو تم نے رسول اللہ V کی نعت میں کہا ہے ، بوصیری نے اس قصیدے کا حال کسی کو نہیں بتایا تھا ، مگر رسول اللہ V کے اس معجزے پر یقین تھا ،اس لیے انہوں نے اس فقیر سے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار نہیں کیا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا ، مگر خود اس فقیر نے کہا کہ میں نے رات دیکھا کہ تم آںحضرت کی مجلس شریف میں اپنا قصیدہ سنا رہے ہو ، اور حضور V پر وجد کی کیفیت طاری ہے، چناںچہ اس قصیدے کی شہرت اس فقیر کے ذریعے ہوئی ۔ اس قصیدے کا عنوان علامہ بوصیری نے ’’ الکو کب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ، لیکن اپنی مقبولیت کی وجہ سے ’’ قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ، بعض لوگوں نے کعب بن زہیرؓ کے ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ اور اس قصیدہ کے درمیان تمیز کرنے کے لیے بوصیری کے قصیدہ کو ’’ بردہ منامیہ ‘‘ بھی کہا ہے، کیوں کہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کو عالم رویا میں بردہ مرحمت فرمایا گیا تھا ، ،عوام میں مشہور ہے کہ شیخ بوصیری رحمۃاللہ علیہ جب خواب سے بیدار ہوے ٔ تو انہوں نے بردہ مبارک کو موجود پایا جو خواب میں ان کو مرحمت فرمایا گیا تھا ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور نہ کسی معتبر تاریخ میں کہی گیٔ ہے، لیکن جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ یہ قصیدہ جس درجہ مقبول ہوا اس درجہ قصیدہ ’’ بانت سعاد ‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ، لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے، اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی نیٔ شرح لکھتا رہتا ہے ، سیکڑوں (بلا مبالغہ)قصیدے اس زمین پر کہے جا چکے ،پچاسوں تضمینیں اور مشطر ،مخمس ، مسدس،مسبع،اور معشر کہے گئے۔ ‘‘ ۹ ؎




سطر 237: سطر 237:




پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ حضرت محسن ؔکاکوروی نے اپنے مذکورہ قصیدہ میں لفط ’’ سری کرشن ‘‘ کا جو استعمال فرمایا ہے کیایہ استعارتاً آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰؐ کے لیے استعمال کیا گیاہے یا حقیقتاً سری کرشن کے لیے ؟۔ کیوں کہ میری اپنی معلومات میں مذکورہ شعر حضرت محن ؔ کاکوروی کے مذکورہ قصیدہ ’’ قصیدہ مدیح خیرالمرسلینؐ ‘‘ کے تشبیب کا شعر ہے جو اپنے اصل معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔اس لیے کہ قصائد کی تشابیب میں اس طرح کے الفاظ کی بندش کوئی نئی ٔ چیز ٔ نہیں ۔ اس سے شاعر کا مقصد اصل موضوع کو تیز تر کرنا ، اور اس میں جان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم نعت گوئی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں عہد نبویؐ کے مشہور شاعر اور صحابی رسول حضر ت سیدنا کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ’’ بانت سعاد ‘‘ کی تشبیب میں بھی اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں ان کی معشوقہ کی یادوں سے وابستہ تھے ۔نیز انہیں کی اتباع میں کہے گیٔ حضرت امام بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘ میں بھی تشبیب کایہی حال ہے۔جب یہ تشیبیب کا شعر ہے تو استعارتاً سرور انبیأؐ پر چسپا کرنا،اور انتہائی سو ٔ ادب بتانا کہاں کی علمی دیانتداری ہے؟ ان کی مذکورہ تحریر خود ان کے مبلغ علم اور ان کے افکار و خیالات کی غماض ہے۔
پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ حضرت محسن ؔکاکوروی نے اپنے مذکورہ قصیدہ میں لفط ’’ سری کرشن ‘‘ کا جو استعمال فرمایا ہے کیایہ استعارتاً آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰ V کے لیے استعمال کیا گیاہے یا حقیقتاً سری کرشن کے لیے ؟۔ کیوں کہ میری اپنی معلومات میں مذکورہ شعر حضرت محن ؔ کاکوروی کے مذکورہ قصیدہ ’’ قصیدہ مدیح خیرالمرسلین V ‘‘ کے تشبیب کا شعر ہے جو اپنے اصل معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔اس لیے کہ قصائد کی تشابیب میں اس طرح کے الفاظ کی بندش کوئی نئی ٔ چیز ٔ نہیں ۔ اس سے شاعر کا مقصد اصل موضوع کو تیز تر کرنا ، اور اس میں جان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم نعت گوئی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں عہد نبوی؍V کے مشہور شاعر اور صحابی رسول حضر ت سیدنا کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ’’ بانت سعاد ‘‘ کی تشبیب میں بھی اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں ان کی معشوقہ کی یادوں سے وابستہ تھے ۔نیز انہیں کی اتباع میں کہے گیٔ حضرت امام بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘ میں بھی تشبیب کایہی حال ہے۔جب یہ تشیبیب کا شعر ہے تو استعارتاً سرور انبیأ V پر چسپا کرنا،اور انتہائی سو ٔ ادب بتانا کہاں کی علمی دیانتداری ہے؟ ان کی مذکورہ تحریر خود ان کے مبلغ علم اور ان کے افکار و خیالات کی غماض ہے۔




سطر 243: سطر 243:




ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تشبیب میں ( جو اس قصیدے کی روح ہے) غیر مشروع موضوعات کو جگہ دی گیٔ ہے ، لیکن یہ اعتراض زیادہ قوی نہیں ہے، کیوں کہ تشبیب کی روایت اردو میں عربی سے آئی ہے اور عربی روایت کے مطابق تشبیب میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے ہر طرح کے مضامین کو نظم کیا جا سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عربی کے بہترین نعتیہ قصائد میں مختلف موضوعات پر مشتمل تشبیب ملتی ہے ، قصدہ بردہ (بانت سعاد ) کو آپؐ نے پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ اس میں اصلاح بھی کی ، جب کہ اس کی تشبیب میں محبوبہ سعاد کا ذکر کیا گیا ہے ،اللہ کے رسول کے مقابل سعاد کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ، ایسا ہی اس قصیدے کی تشبیب میں کیا گیا ہے کہ کفر و اسلام دو متضاد چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ در اصل یہاں کفر کی نفی کرکے اسلام و ایمان کی ترغیب دی گیٔ ہے۔ امیر ؔ مینایٔ نے اس اعتراض کا جواب بہت مناسب طریقے سے دیا ہے۔
ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تشبیب میں ( جو اس قصیدے کی روح ہے) غیر مشروع موضوعات کو جگہ دی گیٔ ہے ، لیکن یہ اعتراض زیادہ قوی نہیں ہے، کیوں کہ تشبیب کی روایت اردو میں عربی سے آئی ہے اور عربی روایت کے مطابق تشبیب میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے ہر طرح کے مضامین کو نظم کیا جا سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عربی کے بہترین نعتیہ قصائد میں مختلف موضوعات پر مشتمل تشبیب ملتی ہے ، قصدہ بردہ (بانت سعاد ) کو آپ V نے پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ اس میں اصلاح بھی کی ، جب کہ اس کی تشبیب میں محبوبہ سعاد کا ذکر کیا گیا ہے ،اللہ کے رسول کے مقابل سعاد کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ، ایسا ہی اس قصیدے کی تشبیب میں کیا گیا ہے کہ کفر و اسلام دو متضاد چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ در اصل یہاں کفر کی نفی کرکے اسلام و ایمان کی ترغیب دی گیٔ ہے۔ امیر ؔ مینایٔ نے اس اعتراض کا جواب بہت مناسب طریقے سے دیا ہے۔




سطر 397: سطر 397:
آخر میں میں اپنے دانشور حضرات سے بڑی معذرت کے ساتھ التماس کرنا چاہوں گا کہ نعت مقدس کے موضوع پر بڑی سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کے بعد ہی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں اس لیے کہ ادب کی یہ واحد صنف سخن ہے جس کا تعلق ہمارے اقوال و اعمال سے ہے۔ یہی وہ صنف سخن ہے جس میں ناموس رسالت کی پاسداری ہر ہر قدم پرہم سے متقاضی ہوتی ہے ۔ ہم سبھی لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو صنف ادب کا درجہ دلانے میں ہر ممکن کوشش کریں ،بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہوکر ایک لایحۂ عمل تیار کرکے اپنی آواز کو ادب و احترام کے دائرے میں بلند کریں ۔ اگر ہم نے اس طرح کے اقدامات کیے تو یقیناً ہمیں کامیابی ملے گی ۔ ورنہ اگر ہم انفرادی طور پر صرف اپنا نقظۂ نظر مسلط کرتے رہے پھر تو یہ سلسلہ دراز چلتا رہے گا۔
آخر میں میں اپنے دانشور حضرات سے بڑی معذرت کے ساتھ التماس کرنا چاہوں گا کہ نعت مقدس کے موضوع پر بڑی سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کے بعد ہی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں اس لیے کہ ادب کی یہ واحد صنف سخن ہے جس کا تعلق ہمارے اقوال و اعمال سے ہے۔ یہی وہ صنف سخن ہے جس میں ناموس رسالت کی پاسداری ہر ہر قدم پرہم سے متقاضی ہوتی ہے ۔ ہم سبھی لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو صنف ادب کا درجہ دلانے میں ہر ممکن کوشش کریں ،بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہوکر ایک لایحۂ عمل تیار کرکے اپنی آواز کو ادب و احترام کے دائرے میں بلند کریں ۔ اگر ہم نے اس طرح کے اقدامات کیے تو یقیناً ہمیں کامیابی ملے گی ۔ ورنہ اگر ہم انفرادی طور پر صرف اپنا نقظۂ نظر مسلط کرتے رہے پھر تو یہ سلسلہ دراز چلتا رہے گا۔


=== حوالے ===
حوالے


۱۔ نعت نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ۔ اریب پبلیکیشنز، دریا گنج،نیٔ دہلی ۹ ۱؎
۱۔ نعت نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ۔ اریب پبلیکیشنز، دریا گنج،نیٔ دہلی ۹ ۱؎
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)