نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25 ۔ نعت نامے

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 19:15، 19 اپريل 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: {{بسم اللہ }} === ڈاکٹر فتح محمد ملک۔اسلام آباد === 7/ ستمبر2014 عظیم مجلّہ ’’نعت رنگ‘‘ کا تازہ شمارہ پ...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


ڈاکٹر فتح محمد ملک۔اسلام آباد

7/ ستمبر2014

عظیم مجلّہ ’’نعت رنگ‘‘ کا تازہ شمارہ پاکر بہت خوش ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔ زیرِ ترتیب شمارے کے لیے ایک مختصر سا مضمون آٹھ دس دِن تک ڈاک کے سپرد کردوں گا۔ اُمید ہے کہ آپ مع الخیر ہوں گے اور جب اسلام آباد تشریف لائیں گے تو اطلاع بخشیں گے۔

ڈاکٹر ریاض مجید

خطوط

ڈاکٹر ریاض مجید۔فیصل آباد

9/ مئی2015

نعت رنگ کو پچیسویں پڑاؤ مبارک ۔۔۔۔۔ ہر کام میں بہتر سے بہتر کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے آپ نے اس مرحلے پر ’نعت رنگ‘کے بارے میں مشاورت طلبی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اللہ کرے یہ خیرو برکت کا سبب ہو اور ’نعت رنگ‘ کے قارئین اور اہلِ قلم اخلاصِ نیّت سے ’نعت رنگ‘کو اپنے مفید مطلب مشوروں سے نوازیں۔

جیسا کہ ’نعت رنگ‘ کے قارئین کو علم ہے اس جریدے کا واحد مقصد اردو کی اصنافِ سخن میں سے نعت کو فکری اوصاف اور فنّی محاسن کے حوالے سے ایک ایسی بلیغ صنف کے طور پر پیش کرنا ہے جس میں ادبیاتِ عالیہ کے سارے محاسن کا عمدگی سے اظہار ہُوا ہو۔ اسے محض ایک مذہبی موضوع کا بیان نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی تخلیق میں صرف کی جانے والی مساعی، مہارت، ریاضت اور تخلیقی اقدار کے شمول کو بھی زیر جائزہ لایا جائے۔

مقامِ اطمینان ہے کہ ’’نعت رنگ‘‘ سے وابستہ اہلِ قلم نے اس صنف کو ایک اعلیٰ ادبی معیار کی حامل صنف کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کی ہے یہاں میں متعارف کو لغوی مفہوم کی بجائے تلازماتی حوالوں میں لے رہا ہوں مقدار کے علاوہ معیار سازی کے لئے کوشاں ذہنوں نے اردو شعریات کے ساتھ اردو تنقیدات میں بھی اس صنف کو ایک عالمانہ جہت سے روشناس کیا یہ رُوشناسی اور تعارف گزشتہ دہائیوں میں اتنا جاندار اور شاندار نہیں تھا جتنا نعت رنگ کی سعئ جمیلہ سے ہُوا( جان دار اور شان دار کے الفاظ کثرت استعمال سے اپنی وہ تازگی کھو چکے ہیں جو اِن الفاظ کے آغاز میں آج سے کئی صدیاں پہلے شامل تھی۔) میں قارئین کی توجہ پھر ان الفاظ سے وابستہ مفاہیم کی قدیم تازگی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ’’نعت رنگ‘‘ کی تنقیدی جہت نے اس صنف کے نہ صرف آفاق وسیع کئے بلکہ اس صنف کو معیار آشنا بھی کیا۔

جرائد کا تسلسل کئی حوالوں سے ادبی میلانات کو ایک واضح رُخ دیتا ہے اردو رسائل میں نقوش ، اوراق، فنون ، سیپ ایک طرح کے ادب (افسانہ ، نظم ، غزل وغیرہ)کی اشاعت کے باوجود میلانات اور پیشکش میں ایک دوسرے سے ذرا مختلف رہے ہیں دراصل رسائل کا وقت کے ساتھ ایک اپنا مزاج بن جاتا ہے ’’نعت رنگ‘‘ کا تنقیدی حصہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح معیار آشنا اور توازن رُو ہوا ہے یہ نعت ۔۔۔۔۔ خصوصاً تنقیداتِ نعت کے لحاظ سے خاص انفرادیت کا حامل ہے اسے نہ صرف بحال رکھنے بلکہ علمی و تحقیقی انداز سے اور زیادہ متوازن رکھنے کی ضرورت ہے۔

’’نعت رنگ‘‘ کے آئندہ شماروں کے لئے چند تجاویز ہیں (ان سے آپ کا یا قارئین نعت کا متفق ہونا ضروری نہیں)

۱۔ سرورق سے شروع کرتے ہیں سہ ماہی ’’آج‘‘ نے سادگی کے ساتھ رسائل کے جرائد کو ایک تازہ جہت سے رُوشناس کیا ہے اس کے شمارے سٹال اور لائبریری میں بڑے ہوئے دُور سے پہچانے جاتے ہیں ہر نئے شمارے پر رنگ کے فرق اور شمارہ کے نمبر سے’’ آج ‘‘کے الگ الگ پرچوں کی شناخت ہوجاتی ہے۔ نعت رنگ کے سرورق کو بھی ایک مخصوص شکل دی جا سکتی ہے۔ ہر شمارہ پر نعتیہ خطاطی کے نمونے بھی دیئے جا سکتے ہیں اسلام آباد سے چھپنے والے رسالے پیغام آشنا کی طرح ۔۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ بھی دیئے جاسکتے ہیں۔صوفی برکت کی مرتب کردہ کتاب ’’اسمائے نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں اسماء مبارکہ کی خطاطی حافظ یوسف سدیدی مرحوم نے کی ہے میں نے اپنی نعتیہ کتابوں سیدنا احمد ’’سیّدنا محمّد‘‘، سیّدنا الرّحیم، سیّدنا الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرورق کی خطاطی اسی کتاب سے لی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ کتابوں کے عنوانات اور خطاطی بھی حافظ یوسف سدیدی مرحوم سے (بہ جذبہ تشکر و دعا)اخذ کرنے کا آرزومند ہوں ۔۔۔۔۔ نعت رنگ کے سرورق پر مستقلاً ایک خاص سائز کے بکس میں اس مبارک خطاطی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ حرمین شریف کی تاریخی تصاویر وغیرہ بدل بدل کر آتی رہیں اور باقی تمام سرورق ریورس میں ایک جیسے پس منظر (’آج‘ وغیرہ کی طرح)کے ساتھ ہر بار مختلف رنگ میں آتا رہے پُشتے پر شمارہ وار نمبر کے اندراج کے ساتھ ۔۔۔۔۔

۲۔ نو تصنیف ۔۔۔۔۔ کے عنوان سے غزل کے علاوہ نعتیہ قصائد اور مثنویات یا دوسری صنف سخن کی اشاعت کی طرح ڈالی جائے یہ حصہ تین چار صفحہ پر مشتمل کسی بھی صنف میں نو تصنیف نعت پارہ پر مشتمل ہو اَس طرح غیر محسوس طور پر ایک دو سالوں میں نعت کے باب میں پُر شکوہ اور محاسن شعری کی حامل اصناف (عام غزلیہ نعتوں کے علاوہ )تخلیق ہوں گی اور ان کی جمع آوری ہوسکے گی۔

۳۔اس نعت میں ۔۔۔۔۔ جیسے کسی عنوان سے بعض نعتوں کے فکری و فنی تجزیاتی مطالعے کی گنجائش پیدا کی جائے۔نئی اور آزاد نظم کے تعارف کے لئے بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں کئی رسائل نے نظموں کے تجزیاتی مطالعے شروع کئے تھے ایک ایک نظم پر تین تین چار چار اہل قلم کی آرا کو اس نظم کے ساتھ شائع کیا جاتا اس سے نظم کے کئی ہے پہلو سامنے آتے۔میرا جی کی کتاب اس نظم میں ایسے ہی جائزوں پر مشتمل ہے بعد میں مولانا صلاح الدین کے زیر اہتمام نکلنے والے جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور میں بھی ایسے جائزے شامل ہوتے رہے ۔۔۔۔۔ بعض بلیغ مفاہیم کی حامل نعتوں پر ایسے جائزوں سے تنقیداتِ نعت کی نئی جہتیں سامنے آئیں گی۔

۴۔ توضیحی مطالعات ۔۔۔۔۔ کسی خاص شاعر کی آٹھ آٹھ دس دس نعتیں مختصر تعارف اور تنقیدی کلمات کے ساتھ شائع کرنے کے لئے آنے والے شماروں میں ایک خاص گوشہ وقف کیا جا سکتا ہے۔(مختلف شاعروں کی ایک ایک نعت کے علاوہ )ایسے گوشوں کی اشاعت سے کسی شاعر کی تخلیقی مساعی کا ایک بھرپور تاثر سامنے آئے گا اور یوں زیر مطالعہ شاعر کے فکروفن کے کئی رخ بیک نظر سامنے آئیں گے۔میری نظر میں نعت رنگ کا اب تک سب سے توجہ طلب حصہ نعتیہ شاعری سے تعلق رکھتا ہے اس حصہ پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔فکروفن میں بلاغت نادرہ کاری، ہئیت، لفظیات اور طرِزاد کی تازگی کے پیش نظر اس حصہ کو مقدار ساماں کی بجائے معیار آشنا کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہے۔


۵۔ تدوینِ کا پہلو نظر انداز ہو رہا ہے ۱۸۴۰ سے ۱۹۴۰ تک سینکڑوں نعتیہ گلدستے نامے کی مناسبت سے نظمیں (میلاد نامے ،وفات نامے، معجزات نامے ، معراج نامے، پیغمبر نامے، جنگ نامے وغیرہ)شائع ہوئیں بیس چوبیس صفحات سے لے کر اسّی، سو صفحات تک یہ نعتیہ سرمایہ فراموش ہورہا ہے اگر نعت رنگ میں ہر بار ایک کاپی سولہ صفحات تدوینِ نعت کے ذیل میں محفوظ کئے جائیں تو ایسے مختصر نعتیہ کتابچوں کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ چند باتیں عجلت میں لکھ دی ہیں اگر ان میں ایک آدھ نکتہ کارآمد ہو تو اس پر غور کیجیے ورنہ نعت رنگ کے قلمکاروں اور قارئین پر چھوڑ دیجئے پچیس پرچوں کے بعد آئندوں پرچوں کی لے آؤٹ اور مندرجات کی ترتیب کیا ہوگی؟یہ وقت کے ساتھ خود بخود طے ہوجائے گا۔ نعت رنگ کے آغازِ سفر کے وقت اس بارے میں کون سوچ سکتا تھا اللہ تعالیٰ ایسے کاموں میں خود معاون و مدد گار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اکیسویں صدی نعت کی صدی ہے مجھے امید واثق ہے کہ تخلیق، تنقید، تحقیق، تدوین، ترتیب اور پیشکش ان شاء اللہ ہر شعبے میںیہ صنف معیار افزوں راستوں کی طرف گامزن ہوگی۔

’نعت رنگ‘ کے ذمّے ’نعت نما‘ کے عنوان سے اب تک کے شائع شدہ نعتیہ اثاثے کی سائنٹیفک بنیادوں پر مبسوط اشاریۂ کتب کی تدوین ہے اس کے لئے الگ مضمون درکار ہے ۔ جس میں اس کے لئے رہنما اصول اور ضروری تجاویز کی تفصیلات دی جائیں ۔۔۔۔۔ سو یہ کام پھر سہی۔


ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری۔کراچی

17/ ستمبر2014

نعت رنگ ۲۴ موصول ہوا ۔یاد فرمائی پر ممنون ہوں ۔نعت رنگ اورآپ کے سفر کودیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔میں آپ کی ابتدائی زندگی سے واقف نہیں کہ قلم اٹھاؤں تو آپ کی شخصیت کے ذکر کے چھیڑتے ہی بول اٹھوں کہ ’’ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات‘‘ لیکن اگر ایسا نہ کروں تب بھی آپ کی موجودہ زندگی کا رکھ رکھاؤ بول اٹھتا ہے کہ آپ کے ذوق و مزاج کا علم کیا ہے ؟ آپ کا شوق و مطالعہ ادب و فنونِ لطیفہ سے دل چسپی شعر کہنے اور پڑھنے کے اسلوب سے بروا کی ہونہاری کا انداز ہ کیا جاسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے اگر دس پندرہ سال پہلے کی اٹھان نہ دیکھی تھی تو اس کا غم نہ تھا میں اسی قریبی مدت سے آپ کی زندگی کے انداز کو دیکھ کر رہا ہوں اور اسی دیدہ و مطالعے نے میرے دل میں ایک ایسا آئینہ بنادیاہے جس میں آپ کے گزشتہ دورکے تمام حسن و زیبائش کے ساتھ آپ کی تمام باتیں اور نظارے دل کے آئینے میں دیکھ سکتا ہوں۔زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کی شاعری شہرت ہوچکی تھی خواہ کسی بڑے حلقے میں نہ سہی مگر آپ کے سامعین اورشایقین کا ایک حلقہ ضرور پیدا ہو گیا تھا لیکن نعت خوانی کی مجالس کے تعلق سے آپ کے حسنِ بیان کی خوشبو دوردور تک پہنچ چکی تھی۔

اسی زمانے میں آپ نے خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور تذکار مقدسہ کے مقصد سے ایک مجلہ علمی و دینی ’’نعت رنگ‘‘کے اجراکا فیصلہ کیا اگرچہ یہ کام نہ اس وقت آسان تھا اور نہ آج کے بہت ترقی یافتہ دور میں یہ کام آسان ہے میرا اشارہ مجلے کے کاغذی مجموعے کی اشاعت نہیں بلکہ علمی و دینی پہلو سے اس کی جامعیت ،تحقیق کے معیار زبان و بیان کی لطافت اور پیش کش حسن کی رنگینوں اور دل آویزوں کی طرف تھا اور سچ یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ آپ اس مقام کو کبھی حاصل نہ کر سکیں گے لیکن آج میں شرمندہ ہوں ،میں بھول گیا تھا کہ:

یس الانسان الاماسعی۔(النجم ۵۳۔۳۹)

انسان کو وہی ملتاہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

عزیز محترم آپ نے جس چیز کی آرزو کی تھی خدا سے جس چیز کو مانگا تھا اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کر دیا ۔آپ نے اپنی سعی و عمل سے خدا کو راضی کر لیا اورآپ کو کامیابی نصیب ہوئی اور میں اپنے تصورات میں کھویا اور خیالات میں ڈوبا رہا اور شرمندگی سے دوچار ہوا۔

اب ’’نعت رنگ‘‘ کی نیز یگیاں بیان سے باہر ہیں موضوعات کے شمار کی دشواری، وسعتوں کی پیمائش ناممکن ،جدت ترازیاں حیرت انگیز ،اسکالز کے لیے تحقیق کے بے شمار موضوعات ،تحقیق کے مآ خذ اپنے چاہنے والوں کے صبح و شام منتظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک کی حالت کچھ بھی ہو! وہ ترقی کرنے نہ کرے ’’نعت رنگ‘‘نے نعت بند ی میں اور اس کے حوالے سے دینی مسائل میں جو عظیم الشان تحریک پیدا کر دی ہے اس جیسا رنگ و روپ صدیوں پہلے تک نظر نہیں آتا میں اس کامیابی اور جدت طرازی کے لیے کہ صرف آپ ہی کو اس وجہ سے پہلے مبارک باد دینا نہیں چاہتا کہ آپ ’’نعت رنگ‘‘ کے مرتب ہیں بلکہ آپ کے معاونین ،مجلس مشاورت کے اراکین اور نعت رنگ کے اہل قلم جو کسی پہلو سے بھی نعت کے فن اس کے متعلقات یا کسی اور پہلو سے سو سو صفحے کا مضمون لکھیں یا کسی نے ایک صفحے کا خط لکھا ہو چوں کہ علم و تحقیق یا دین و ادب اور ہیکل نعت کی تعمیر میں سب کا حصہ ثابت ہے اس لیے میں عزیزی آپ کے ساتھ ان تمام حضرات کو بھی مبارک باد کا پہلے مستحق قرار دیتا ہوں میرے نزدیک ’’نعت رنگ‘‘ کے صفحات میں جس نے بھی کم و بیش جگہ پائی ہے وہ قابل فخر ہے۔

یہ بھی اللہ کافیضان ہے اس نے نعت رنگ کی برکات اور اس کے کاغذ ،کتابت اور کمپوزنگ اور اس کی سجاوٹ کی رنگینیاں صرف اسی حد تک محدود نہیں رہی ،بلکہ مطالعہ نعت کے عشق ،اس کی زبان کی لطافت ،اس کے اسلوب کے کمال حسن اور پیش کش کی دل ربائی کو قدرت نے چاند اور تاروں سے مزین زمین پر علم و فن کی ایک نئی دنیا آباد کر دی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں نعت کو جو اردو شاعری کی صنف سمجھی جاتی تھی ایک مستقل فلسفہ اور علم و فن تسلیم کر لیا گیا ۔

اس انقلاب میں بہت حد تک اس دینی وعلمی مجلّے ’’نعت رنگ‘‘ کی تاثیر ،مقالات اور ان کے مباحث کا حصہ بلکہ آپ کے اخلاص و مروت کا حصہ بھی شامل ہے۔میں نعت رنگ کے شمارہ ۲۵ کی اشاعت پرآپ کے دعا گو بھی ہوں اورنعت کوادبی صنف سخن کے اعتباراس کاجائز مقام دلانے کے لیے کی گئی کاوشوں کوبھی خراج تحسین پیش کرتاہوں۔

=