نعت اور نعت گوئی پر آراء

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مشاہیر کی آراء

اما م احمد رضا بریلوی

’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے،جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہو نچ جاتاہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتناچاہے بڑھ سکتا ہے، غرض ایک جانب اصلا حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے۔‘‘<ref>مصطفیٰ رضا نوری بریلوی،علامہ:الملفوظ ،مطبوعہ کانپور، ص144/145</ref>

عبد الکریم ثمرؔ

’’نعت نہایت مشکل صنف ِ سخن ہے نعت کی نازک حدود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی آفاقیت قائم رکھنا آسان کام نہیں۔سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ذرا سی بے احتیاطی اور ادنا سی لغزشِ خیال و الفاظ ایمان و عمل کو غارت کردیتی ہے۔‘‘<ref> نقوش: رسول نمبر ،لاہور ،ج10،ص24</ref>

مجید امجد

" حقیقت یہ ہے کہ جناب رسالتمات کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے ۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے ۔ ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آ سکتا ہے ۔ ذرا سی عجز بیانی اہانت کا باعث بن سکتی ہے ۔ " <ref> نقوش: رسول نمبر ،لاہور ،ج10،ص24 </ref>

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی

’’نعت کے موضوع سے عہدہ برآہوناآسان نہیں موضوع کا احترام کلام کی بے کیفی اور بے رونقی کی پردہ پوشی کرتا ہے ،نقاد کو نعت گو سے باز پُرس کرنے میں تامّل ہوتا ہے اور دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چھپانے کے لیے نعت کاپردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتاہے ،شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاںکا تہاں رہ جاتاہے لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے۔‘‘ <ref> نقوش: رسول نمبر ،لاہور ،ج10،ص25 </ref>

سلیم شہزاد

’’نعت : پیغمبرِ اسلام حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی تعریف و توصیف کا حامل کلام ۔ نعت شاعری کی مختلف ہیئتوں میں کہی گئی ہے اور مثنوی اور طویل بیانیہ نظموں کی یہ روایت رہی ہے کہ ابتدا نعت سے کی جائے۔ عربی اور فارسی کے اثر سے جس طرح اردو مرثیے میں محض واقعاتِ کربلا کو نظم کردیا جاتا ہے اسی طرح نعت ایک موضوعی صنفِ سخن ہے جس میں قصائد ، منظوم واقعات ِ سیرت، غزلیں ، رباعیاں اور مثنویاں سبھی ہیئتیں شامل ہیں ۔ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں اس شاعری کے زندہ موضوع بن گئے تھے اور آپ نے کعب بن زہیر ، لبید بن ربیعہ، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت وغیرہ اصحاب سے اپنی نعتیں سماعت فرمائی ہیں ۔ عربی سے نعت فارسی میں آئی تو اسے حافظؔ، سعدیؔ، صائبؔ اور عرفیؔ جیسے شعرا میسر آئے۔ ہندوستان میں خسروؔ ، نظامیؔاور بیدلؔنے فارسی میں نعتیں کہیں، خسروؔ نے اسے ہندوستانی بولیوں میں بھی رواج دیا۔ اردو کے تشکیلی دور میں متعدد صوفی شعرانے اس صنف میں طبع آزمائی اور بہ طور ایک زبان کے اپنی حیثیت منوا لینے کے بعد اردو کے سبھی چھوٹے بڑے شعرا کے یہاں اس کی مثالیں تخلیق ہوئیں اگرچہ انیسؔ و دبیرؔ نے جس طرح صرف مرثیے میں اپنے فنّی کمال دکھائے اس طرح صرف نعت سے منسلک کوئی کلاسیکی شاعر اردو کو نہیں ملا۔ البتہ یہ سعادت دورِ جدید کے بہت سے شعرا کوحاصل ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں امام احمد رضاخاں رضاؔ اور محسنؔ کاکوروی نے اپنے شعری اظہار میں صرف نعت کو جگہ دی جن کاکلام آج بھی زبان زد خاص و عام ہے ان کے بعد نعت پھر اپنی روایتی حدود میں سمٹ گئی یعنی مثنوی کی ابتدا یا غزل کے چند اشعار میں ۔ اس ضمن میں ’’مسدسِ حالی‘‘ کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے اختتام پر شاعر نے حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )سے خطاب کیا ہے۔ حالیؔ کے بعد حفیظؔ جالندھری کا ’’شاہ نامۂ اسلام‘‘ جس میں سیرت کے مضامین باندھے گئے ہیں، جدید نعت نگاری کے لیے تازیانہ بن گیا۔ اقبالؔ کی شاعری عشقِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم)کے تجربہ پسند شعری اظہار کی مثال ہے۔ اس میں نعت کے عنوان سے کوئی نظم نہیں ملتی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے افکار کی شاعرانہ تفسیر و توضیح نے اقبالؔ کی کئی نظموں کو نعتیہ رنگ دے دیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے اس صنف کو ایک بار تو شاعری سے خارج ہی کردیا کیوں کہ ان فن کاروں کے نظریات مادّی ، جسمانی اور غیر مذہبی( بل کہ مذہب بے زار) نظریات تھے مگر آزادی کے کچھ عرصے بعد جدید شاعروں نے پھر اسمِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے اجالا کرنے کی تخلیقی کوشش شروع کردی ہیں۔ ان میں اسلامی ادب کے بعض پیرو کار حفیظؔ میرٹھی، نعیمؔ صدیقی، یونس ؔ قنوجی اور حفیظؔ تائب کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ عمیقؔ حنفی اور عبدالعزیز خالدؔ نے اپنی طویل نعتیہ نظموں ’’صلصلۃ الجرس‘‘ اور ’’فارقلیط‘‘ کے لیے، جن میں زبان و بیان کے گراں قدر تجربات ملتے ہیں ، خاصی شہرت پائی ہے، ہندو پاک میں آج کئی شعرا صرف نعت کہنے میں مصروف ہیں۔‘‘<ref> سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز ، مالیگاؤں ، ص 709/710 </ref>

ڈاکٹر اے ۔ڈی۔ نسیم قریشی

’’نعت گوئی کا راستہ پُل صراط سے زیادہ کٹھن ہے اس پر بڑی احتیاط اور ہوش سے چلنے کی ضرورت ہے اس لیے اکثر شاعروں نے نعت کہنے میں بے بسی کا اظہار کیا ہے جس ہستی پر خدا خود درود بھیجتا ہے انسان کی کیا مجال کہ اس کی تعریف کا احاطہ کرسکیں ۔‘‘<ref> نقوش: رسول نمبر ،لاہور ،ج10،ص25</ref>

ڈاکٹر فرمان فتح پوری

’’نعت کا موضوع ہماری زندگی کا ایک نہایت عظیم اور وسیع موضوع ہے اس کی عظمت و وسعت ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتی ہے۔شاعر کے پا ے فکر میں ذرا سی لغزش ہوئی اور وہ نعت کے بجاے گیا حمد و منقبت کی سرحدوں میں۔ اس لیے اس موضوع کو ہاتھ لگانا اتناآسان نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتاہے۔حقیقتاً نعت کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھا ر سے زیادہ تیز ہے ۔‘‘<ref> نقوش: رسول نمبر ،لاہور ،ج10،ص25</ref>

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

        ’’ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کی جائے یا جس کے سننے اورپڑھنے سے قاری یا سامع بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو وہ نعت ہے ،خواہ وہ نظم ہو یا نثر۔

اگر دیکھا جائے تونعت گوئی کا آغاز میثاق النبین ہی سے ہوگیا تھا اور اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاے کرام کی امتوں کے نیک طینت اور پاک باز افراد کو اس بات کا علم تھا کہ لوحِ محفوظ پر جن کا نام لکھا گیا ہے وہ ہی سب سے محترم و بزرگ ہستی ہیں ۔ اس لحاظ سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اطہر و اقدس میں مدحت و تہنیت کا نذرانہ پیش کرنے کو وہ باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔آسمانی کتب و صحائف میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و بعثتِ طیبہ کے اذکار بڑی شان کے ساتھ موجود ہیں ۔یہی نہیں بل کہ انبیاے سابقہ نے اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔

حضرت آدم و حضرت شیث و حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے علاوہ حضرت عیسیٰ ، حضرت اشعیاہ، حضرت دانیال ، حضرت ابراہیم و اسماعیل ، حضرت ارمیاہ،اور حضرت ہبقوق علیہم السلام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی عظیم خوش خبریاں سنائیں ۔ یہ بشارتیں ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ، ایک سے ڈھائی ہزار برس کے درمیان سنائی گئیں۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظارتمام انبیاے کرام کی امتوں اور نیک بندوں کو تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد شاہِ حبش نجاشی،عبداللہ بن سلام، کعب احبار، سلمان فارسی (رضی اللہ عنہم)کہ علماے یہود و نصاریٰ میں تھے ۔ان حضرات نے توریت ، انجیل اور انبیاے کرام کی بشارتوں اور پیش گوئیوں کی تصدیق کی اور مشرف بہ اسلام ہوئے او ر ان میں شاہِ حبش نجاشی کے علاوہ جملہ حضرات کوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ بابرکت نصیب ہوئی جس پر جملہ موجوداتِ عالم کو رشک ہے ۔

آسمانی کتب توریت ، زبور ، انجیل اور دیگر آسمانی صحائف میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا تذکرۂ خیر موجود ہے ان تذکروں کو ہم نثری تہنیت نامے قرار دے سکتے ہیں۔ ولادتِ باسعادت سے قبل اور بعد حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اسی طرح جاری رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلانِ نبوت کا حکم دیا اور وحی کے ذ ریعہ آپ پر قرآنِ کریم نازل کیا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ہی اللہ ر ب العزت کی عظمت اور وحدانیت کا آئینہ دار ہے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستایش کا مظہر بھی ۔خالق کائنا ت نے اس مقدس کتاب میں جگہ جگہ اپنی حمد وثنا بھی فرمائی ہے اور اپنے حبیب ِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفات بھی بیان کی ہیں ۔‘‘<ref> مفتی اعظم ہند کی نعتیہ شاعری ، از: ڈاکٹر مشاہد رضوی، والضحیٰ پبلی کیشنز ، لاہور، 2013ء، ص 31/32</ref>

مزید دیکھیے

نعت | نعت گوئی | نعت خوانی

حواشی و حوالہ جات