نعت اورتنقیدی شعور(مذاکرہ) ۔ محمد جنید عزیز خان

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 09:07، 8 نومبر 2017ء از 182.185.195.237 (تبادلۂ خیال)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : محمد جنید عزیز خان۔کراچی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعت اورتنقیدی شعور(مذاکرہ)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Dr. Professor Abu Sufyaan Islahi, Professor Arabic, visited Pakistan for a short while from Ali Garh (Bharat). Director Naat Research Centre, Dr. Aziz Ahsan, arranged a symposium on the topic of Critical Consciousness of poets of Arabic, Persian and Urdu languages for creating devotional poetry i.e. genre of Naat. Professor Sahar Ansari and Professor Anwar Ahmad Zai also participated in discussion. Dr. Aziz Ahsan, remained present as host moderator during discussion. The symposium has now been transcribed for publishing in 26th issue of NAAT RANG.

ڈاکٹر عزیز احسن: آج میرے لیے یہ بہت ہی مسرت کا لمحہ ہے کہ ڈاکٹر پروفیسر ابو سفیان اصلاحی صاحب، علی گڈھ سے تشریف لائے ہیں۔پروفیسر سحر انصاری صاحب ہمارے بزرگوں میں ہیں اور یہیں کراچی میں تشریف رکھتے ہیں انھوں نے بھی ہماری دعوت پر اس محفل میں شرکت فرمائی ہے اور ۔۔۔میں کیا کہوں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔۔۔جناب پروفیسر انوار احمد زئی ، چیئرمین بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں۔

میں یہ چاہ رہا تھا کہ چوں کہ نعت ریسرچ سینٹر کے چیئر مین پروفیسر انوار احمد زئی بھی یہاں موجود ہیں اور میں ‘خاکسار (عزیزاحسن) نعت ریسرچ سینٹر کا ڈائرکٹر ہوں ۔ صبیح رحمانی ، نعت ریسرچ سینٹر کے سیکریٹری جنرل ہیں جو آج کل کینیڈا میں ہیں۔ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی صاحب کے مضامین ، نعت رنگ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصار صاحب کے بھی مضامین شائع ہوئے ہیں اور انھوں نے ایک بہت بڑا کام یہ کیا کہ ہماری درخواست پر میرزا مظہر جان جاناں کی ایک فارسی نعت کا چند منٹوں میں منظوم ترجمہ کردیا جو نعت رنگ میں شائع ہوچکا ہے۔ ان مقتدر حضرات کی موجود گی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نعت پر اور نعتیہ ادب میں تنقیدی شعور کے حوالے سے کچھ باتیں ریکارڈ کرلوں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نعت رنگ کے ذریعے ہم نے تنقیدی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور نعت کے حوالے سے تنقید کے ضمن میں، عمومی طور پر لوگوں کا شرحِ صدر نہیں ہوا ہے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ حضرات فرمائیں کہ عربی ‘خاص طور پر پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی صاحب آپ تو عربی کے حوالے سے ہمیں بتائیے کہ عربی نعت میں تنقیدی شعور کس طرح کارفرما رہا ہے وہ کیسا رہا ہے اورنعت کے عربی کے مآخذ کیا کیا ہیں۔پروفیسر سحر انصاری صاحب اردو کے چوں کہ تنقیدنگار بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں یہ بھی بتائیں گے اور کچھ میں بھی عرض کروں گا۔ تو بتایئے کہ کہاں سے بات شروع کی جائے۔

پروفیسر سحر انصاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عربی سے نعت شروع ہوئی ہے اور عربی کو تقدم حاصل ، اس لیے ڈاکٹر پروفیسر ابو سفیان اصلاحی گفتگو کا آغاز فرمائیں۔

عزیز احسن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عربی سے چوں کہ نعت کا آغاز ہوا ہے اس لیے اصلاحی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ عربی نعتیہ ادب کے حوالے سے ہمیں کچھ بتائیں۔

اصلاحی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاں تک کہ عربی میں نعت گوئی کا تعلق ہے تو ایک طریقے سے قبل نبوت ہی سے اس کا آغازہو گیا تھا۔ بہت سے ایسے قصیدے اوربہت سی ایسی چیزیں مل جائیں گی جو نعت گوئی کے حوالے سے پیش کی جاسکتی ہیں اور اس کے بعد جب نبوت کا آغاز ہوا تو شعراء الرسول کے حوالے سے ایک پوری ٹیم تھی او ر یہ اصحابِ رسول a تھے۔ اللہ کے رسول a ان کے سامنے تھے۔ اللہ کے رسول a کے اوصاف و کمالات اوران کے اخلاقِ عالیہ یہ سب چیزیں ان کے سامنے تھیں اور اسی کو پیشِ نظر رکھ کر وہ اللہ کے رسول a کی تعریف و توصیف کیا کرتے تھے۔ تو یوں بالخصوص قبلِ نبوت اور نبوت کے بعد کی شاعری کو ایک طریقے سے اساسی حیثیت حاصل ہے۔یہ سیرت نگاری کا ایک بہت بڑا ماخذ ہے۔ یہ اس لیے کہ اس شاعری کا بہت بڑا حصہ اللہ کے رسولaکی نظروں سے گزرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی ایسا شعرہے جس سے آپؐ کا نظریاتی تصادم یا نظریاتی ٹکراؤ ہے تو وہا ں آپؐ بریک لگاتے اور اس پر تنقید کرتے ، اسے روکتے بلکہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ کچھ اشعار ایسے پڑھے جارہے تھے جن کا مفہوم تھا کہ اللہ کے رسول a کو غیب کا بھی علم ہے تو فوراً آپ نے منع کیا۔گویا اس سے متبادر ہے کہ شعراء الرسولa کی شاعری یاشعراء الرسول سے پہلے کی شاعری جو ہے اس کو بہت ہی اہمیت و عظمت حاصل ہے اور سیرت نگاری کے سلسلے میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (عزیز احسن سے مخاطب ہوتے ہوئے ) شبلی کی سیرت النبی a میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔کس قدر جہاں دیدہ آدمی تھا سرسید جس نے یہ تحریر کیا کہ سیرت نگاری کا تصور ہم بغیر عربی شاعری کے کر ہی نہیں سکتے۔ جیسے قرآنِ کریم اورحدیث، سیرت نگاری کے بنیادیsource ہیں۔ اسی طرح جو سیرت نگاری کے چار پانچ بنیادی sources ہیں جن کے بغیر سیرت نگاری کے عوامل و محرکات سامنے آہی نہیں سکتے ہیں ا ن میں عربی شاعری کی یہی قابلِ ذکر حیثیت ہے۔ سرسید نے جب خطباتِ احمدیہ کا آغاز کیا ہے تو آپ دیکھیے کہ انھوں نے بیس پچیس تیس شعر کوٹ کیے ہیں۔ ابھی میں نے اپنے ایک مضمون میں یہ وضاحت کی کہ سیرت النبی a کی ترتیب میں کلامِ عرب سے استشہاد کو اور آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ علامہ شبلی نے سیرت النبی a میں کچھ اشعار نقل تو کیے ہیں ، لیکن یہ نہ ہونے کے برابرہیں۔ اس پہلو کو جس کا سرسید نے آغاز کیا تھا اس کو سیرت کے مآخذ میں بڑھا یا جانا چاہیے تھا لیکن سیرت النبی a میں یہ اسلوبِ تحقیق موجود نہیں ہے۔ابھی شبلی کی سیرت النبی میں جو عربی اشعار ہیں اس پر میرا ایک مضمون ، مجلہ علوم اسلامیہ (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) میں شائع ہوا ہے۔ان کے نقل کرنے میں کہاں کہاں سہو ہوا ہے۔ وہ سب میں نے point out کیا ہے۔

عزیز احسن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ کی گفتگو سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ پہلے یہ طے ہوجائے ۔۔۔اور یہ آپ ہی سے ہمیں معلوم ہوگا کہ عربی شعراء نے زیادہ تر حسنِ صوری کی بات کی ہے یا جمالِ سیرت و اسوہء رسولِ کریم a کا ذکر زیادہ کیا ہے؟

اصلاحی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اچھا سوال آپ نے کیا ۔۔۔میرا یہ مضمون’’المدیح النبوی! ایک مطالعہ‘‘ جو نعت رنگ میں ابھی آیا ہے یہاں بھی دیکھیے خاص طور سے وہ شاعری جو صحابہ کرام یا دیگر شعراء نیز تبع تابعین کی شاعری رہی ہے۔ اس ضمن زیادہ تر شمائل النبی موضوعِ بحث رہے۔تو ان لوگوں نے نعلینِ مبارک اور دیگر چیزوں پر توجہ نہ دے کر اوصاف نگاری پر توجہ مرکوز کی ہے۔ گویا شمائل النبی a ان کے نزدیک زیادہ قابلِ اعتنا ہے۔ شمائل النبی a کا مطلب یہ ہے کہ آپ ؐکا اخلاق اور آپ کا کردار کیسا تھا۔آپ ؐمعاشر ے کے ساتھ پیش کیسے آتے تھے۔۔۔۔۔۔یا دین کی تبلیغ کا طریقہء کار کیا تھا ۔یا جومخالفین تھے ان کے ساتھ آپ کا کس طریقے سے discussion ہوتا تھا۔۔ ان تمام چیزوں کو اس [شاعری]میں highlight کیا گیا ہے۔لیکن دو سو سال کے بعد یہ شاعری شروع ہوئی ہے۔ تو ابونواس کی شاعری کے بارے میں آپ دیکھیے ۔ اندلس کے جو شعراء ہیں اس کے بعد عہد عباسی کے شعراء ہیں یا نیچے آیئے تو یہاں میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں نے ان مو ضوعات یعنی نعلین اور آپ a کے حلیے پرزیادہ توجہ دی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی چیز ہے ۔۔۔آپ دیکھیے کہ جو نعت کے مباحث ہونے چاہئیں ۔جس میں دانشورانہ، عالمانہ انداز ہو وہ دو سو سال سے پہلے والی شاعری میں ہے۔دوسوسال کے بعد اس میں عالمانہ انداز آپ نہیں دیکھیں گے۔ اس میں رونے اور ا پنے گناہوں کی معافی کا انداز ملتا ہے۔شفاعت کا بار بار ذکر آتا ہے ۔no doubt کہ آپ a شفیع المذنبین ہیں۔۔۔اس طرز پر یہ ساری چیزیں یہاں ملتی ہیں۔ لیکن دوسو ڈھائی سو سال پہلے آپ جائیے تو آپ کا کردار کیا تھا نیز آپ کا دین کی تبلیغ اور اشاعتِ قرآن کے سلسلے میں کیا طریقہء کار تھا، ان پر خصوصی گفتگو کی گئی ہے ۔ لیکن ڈھائی سو سال کے بعد زیادہ تر ہم نے صرف توصیفی یا تعریفی گفتگو کی ہے ۔ لیکن اس توصیف میں آپؐ کا اخلاقی معیار کیا تھا، معاشرتی و سیاسی کیا کردارکیا رہا ۔۔۔ان پہلوؤں پر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے گفتگو کی ہے ۔۔۔ آپ دیکھیے ، یہ بات تو اردو کے سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ جب حضرت حسان بن ثابتؓ سے کئی بار آپ a نے کہا کہ یہ جو میرے مخالفین ہیں ان کا تم جواب دو۔تو اس جواب میں یہ چیزیں تھوڑی شامل ہیں کہ آپ کا بال کیسا تھا، آپ کی آنکھ کیسی تھی ۔آپ کی آ واز کیسی تھی۔ آپ کا لباس کیسا تھا۔ان نکات پر اپنی توجہ مبذول نہ کی ۔۔۔۔۔۔میں حضرت حسان بن ثابت اور عربی نعتیہ شاعری کے حوالے سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس میں آپؐ کے اوصافِ عالیہ کو موضوعِ شاعری بنایا گیا ہے۔ اور یہ بات میں نے کہیں تھوڑی سی لکھی بھی ہے۔۔۔یہ تو معلوم ہی ہے کہ پورے پاکستان میں نعت گوئی کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔اسی طرح نعت خوانی کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔جبکہ سب سے پہلے جسے اولیت ہم دیں گے وہ توحید اور قرآنِ کریم کو دیں گے۔ تو اس حوالے سے پوری عربی شاعری کا جب میں تجزیہ کرتا ہوں تو اس میں حمد ہے ہی نہیں ۔۔۔یہ ایک زبردست قسم کا فقدان ہے۔ایک طویل مدت کے بعد اسماعیل صبری انیسویں صدی کا جدیدشاعر ہے اس نے کئی حمدیہ نظمیں کہی ہیں۔کچھ شعراء کے یہاں حمد ملتی ہیں۔لیکن یہ کہ باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہو۔پورے پورے حمدیہ مجموعے ہوں اس کا فقدان ہے ۔اردو میں بھی حمدیہ شاعری سے بے اعتنائی برتی گئی ہے ۔ اسماعیل میرٹھی اور حالی کا تتبع کیا جاتا تو یہ سلسل�ۂ توحید چل پڑتا۔

عزیز احسن: لیکن اب ہمارے ہاں حمدیہ مجموعے آرہے ہیں۔

اصلاحی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اللہ کرے کہ ایسا ہو! اللہ کرے کہ ایسا ہو!۔۔۔۔۔۔ اچھا تھوڑی سی گفتگو میں کرنے جارہا ہوں لیکن اسے مسلکیت سے نہ جوڑیں۔۔۔میرے لیے سحر انصاری صاحب نے بہت پہلے ایک لفظ استعمال کیا تھا ۔۔۔ان کو یاد نہیں ہوگا ۔میں آج یاد دلا دیتا ہوں ۔پندرہ بیس سال پہلے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔اس وقت شعبہء اردو میں تھے آپ [سحر انصاری]۔ میری تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی آپ کے کمرے میں۔وہاں سے ہم جب نکلے توپروفیسر ظفر اقبال صاحب نے بتایا تھا کہ آپ نے میرے بارے میں کہا تھا کہ بہت ہی rationalist ہیں ۔۔۔ پر حقیقت تو ہے کہ میں کسی مسلک کو نہیں مانتا ہوں۔ میرا مسلک اسلام ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اردو شعرا دو سو ڈھائی سو سالہ عربی شاعری کو بنیاد بنائیں۔ کیوں کہ اللہ کے رسول a کا معتبر اور مستند قسم کا چہرہ متاثر ہورہا ہے ۔۔۔بہت سی اردونعتیہ شاعری پڑھتا ہوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ بخدا تکلیف ہوتی ہے۔لیکن وہ شاعری اگر ہمارے پیشِ نظر ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس کی طرف نہیں پہنچیں گے بلکہ اللہ کے رسول a کی اساسی حیثیت کو جس طرح قرآن نے پیش کیا ہے وہ پیشِ نظر ہوگی اور جہاں تک کہ آپ نے تنقید کے حوالے سے کہا ہے۔عربوں میں تنقید اردو سے پہلے آئی ہے ۔۔۔۔۔۔رسالت سے قبل عرب کے ادبی میلوں (اسواق العرب) میں تنقید کی بنیاد پڑچکی تھی۔ سوق عکاظ کی ادبی اور تنقیدی روایات کی داستان’’ مصادرالشعر الجاھلی‘‘ میں بخوبی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔خود اسواق پر کافی لکھا جاچکا ہے۔ عہدِ جدید میں بھی عربوں کو ہم پر اولیت حاصل ہے۔کیوں کہ وہ فرنچ سے واقف ہیں۔ جیسے ہندوستان میں ہم ہندی جانتے ہیں اسی طریقے سے ہر عرب جو پڑھا لکھا اور ناقد ہے وہ فرنچ ضرور جانتا ہے۔ انگریزی بھی وہ سب جانتے ہیں۔تو مغرب سے وہ بہت پہلے متاثر ہوئے اور ہم سے پہلے واقف ہوئے۔ لیکن جہاں تک نعت کا حوالہ ہے ۔ نعت کے حوالے سے مجھے اب تک کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ اردو میں جس طریقے سے نعتیہ تنقید آئی ہے کہ نعت کو کیسا ہونا چاہیے، اس کے مضامین کیسے ہوں اس کی ھیئت کیا ہو ، اس کی زبان کیا ہو۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ عربی نعت گوئی کے حوالے سے جو عربی تنقید ہے وہ اردو کے مقابلے میں بہت طفلانہ ہے ۔لیکن جہاں تک صرف عمومی تنقید کا ذکر ہے۔ تو وہ ہم سے بہت آگے ہیں لیکن نعتیہ تنقید کے تناظر میں ان کے یہاں کوئی کام نہیں ہوا ہے۔

عزیز احسن: سحر انصاری صاحب ! آپ بتایئے یہ جو فرمارہے ہیں کہ عرب فرنچ سے زیادہ واقف ہیں۔

سحر انصاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میرے ذہن میں ایک اور بات جو آئی۔ جو آپ نے ابھی فرمایا کہ شمائل کی طرف جو توجہ ہوئی تو اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس زمانے کے جو نام حضور a کے ہیں انھیں مخالفین نے محمت ،موحد، مے مد۔ تو یہ مے مد جو ہے یہ تو ایک ہاتھی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تو گویا بڑی ڈراؤنی اور ایسی غیر انسانی شبیہ حضورaکی اس زمانے میں پیش کی جاتی تھی۔ یہ الفاظ جو تھے اور بلکہ بعد میں یہ جو ملعون رشدی کا ہے اس نے بھی موہد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تو یہ سب وہ تھا اور بازنطینی جو کلچر تھا وہاں عیسائیت کے سلسلے میں موزائک کی انھوں نے گویاوہ تجسیم جو کی حضرت عیسیٰ کی وہاں ان کے لیے بال اور ان ک زلفین اور ان کا چہرہ ، نورانی ہالہ اور یہ چیزیں۔اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں تصویر کشی تو ممنوع تھی۔ اس لیے عرب شعراء نے اس پر زیادہ توجہ دی۔ کہ آپ کے شمائل کو زیادہ واضح کیا جائے اور اس میں آپ a کے تمام سراپا کو انھوں نے بیان کیا۔ اور وہ روایت پھر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی ۔کیوں کہ ظاہر ہے کہ جو صحابہ اور تابعین نے ہی دیکھا باقیوں نے تو سنا اور پڑھا اور ا س پر قیاس کیاکہ زلف واللیل ہے اور چہرہ والضحیٰ ہے ۔ تو ایک تو یہ صورتِ حال ہے۔

عزیز احسن: ایران میں تو زیادہ تر ایسی ہی شاعری ہوئی ۔

سحر انصاری : جی ہاں، جی ہاں! اب جہاں تک اردو ہے ۔ اس میں تو دکنی دور سے ہی نعت کے اشعار ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہے قلی قطب شاہ ہے۔ اس کے یہاں ہے۔ پھر اس کے علاوہ جو مثنویات لکھی جاتی تھیں ان میں جو مثنویات ہندو قصوں سے ماخوذ ہیں ان میں تو نعت یا حمد نہیں ہے۔ لیکن جو مسلم معاشرے کو ذہن میں رکھ کے لکھی گئی ہیں ان میں سب سے پہلے حمد اور نعت کے ہی اشعار ملتے ہیں۔ کیوں کہ سب سے پہلی جو مثنوی ہے نظامی کی کدم راؤ پدم راؤ تو اس میں تو یہ نہیں ہے۔

عزیز احسن: معاف فرمائیے !۔۔۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں حمد بھی ہے اور نعت بھی ہے۔

سحر انصاری: ہاں تو الگ سے تو نہیں لیکن یہ روایت چلی کہ خود ہندو بھی مثنویاں کہتے تھے یا دیوان اپنا شروع کرتے تھے تو وہ بھی حمد و نعت اور منقبت کا اہتمام کرتے تھے۔۔۔۔۔۔اب جو آگے یہ سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بہت کچھ نعت گو ہمارے ہاں شاعری میں موجود ہیں لیکن سب سے اہم جو ہیں وہ مولانا محسن کاکوروی اور امیر مینائی ۔امیر مینائی کے قصائد جو ہیں وہ تو عربی سے واقف تھے اور ان کے اشعار بھی بعض جگہ عربی کے ملتے ہیں تو اس میں اس کا اہتمام ہے۔پھر اس کے بعد محسن کاکوروی ہیں انھوں نے بھی بہت اس میں کام کیا۔ پھر مولانا احمد رضا خان ہیں ان کے یہاں بھی ۔ وہ تو آپ سمجھ لیجے کہ عربی میں بھی وہ ایک مقام رکھتے تھے۔ اور پھر اس کے بعد مولانا حالی ۔۔۔یعنی وہ توcontemporary ہیں تقریباً۔مولانا حالی اور مولانا امام رضا۔۔۔۔۔۔لیکن مولانا حالی نے کیوں کہ اس وقت سرسید کی اصلاحی تحریک سے متاثر تھے وہ اس لیے انھوں نے ان واقعات کو اور اسوہء حسنہ کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا کہ جس سے عام آدمی متاثر ہو۔

عزیز احسن: آپ نے حالی کے حوالے سے جو گفتگو فرمائی ہے اس میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارے حسن عسکری صاحب نے حالی پر اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے تو نب�ئ کریمa کی ایسی صفات گنائی ہیں کہ ایسے کام تو وہ خود بھی کرسکتے ہوں گے۔

سحر انصاری: جی ہاں انھوں نے کہا کہ وہ غریبوں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے کہا یہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔۔۔ یہ لکھا انھوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بات یہ ہے کہ جو اثر ان اشعار کا ہے وہ اس کے بعد کتنوں ہی نے لکھا لیکن وہ اثر نہیں پیدا ہوسکا۔ تو بات یہ ہے کہ لسانیات میں دو رخ ہیں۔ کہ زبان کے دو رخ ہوتے ہیں sinchronic and diachronic تو diachronic جو ہے تو وہ ماضی کا ادب ہے یا ماضی کی زبان ہے اور sinchronic وہ ہے جو محاورہء امروز ہے۔ جو چیز محاورہء امروز میں کہی جاتی ہے اس کا زیا اثر ہوتا ہے۔ یعنی میر تقی میر کیوں اتنے تمام شعراء پر فضیلت رکھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔کہ ان سے جب کسی نے کہا کہ آپ ہمیں اپنے اشعار سنائیے تو انھوں نے کہا کہ میرے شعر آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ تو انھوں نے کہا کہ ہم تو انوری اور خاقانی کے شعر سمجھ لیتے ہیں تو آپ تو ہماری زبان میں کہتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ انوری اور خاقانی کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں، میری کوئی شرح نہیں لکھی گئی ہے۔ میری شاعری کو سمجھنے کے لیے جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا پڑتا ہے۔ توگویا Sochiology of Language اس کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے چوں کہ سر سید نے کہا تھا کہ ہم استعاراتِ خیالی سے گریز کرکے وہ زبان لکھیں کہ جو دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔حالاں کہ وہ از دل خیزد بردل ریزد بھی کہہ سکتے تھے مگر اس کو انھوں نے اس آاسان زبان میں ترجمہ کرکے وہ بات کہی ۔ اس کو حالی نے اپنایا اور اس طرح وہ مسدس آسان زبان میں لکھی کہ جو ہر شخص آسانی سے پڑھ سکے۔ ہمارے خود لڑکپن میں قرآنِ کریم کی تلاوت کے بعد حالی کی مسدس ضرور پڑھی جاتی تھی۔ اس لیے کہ اس میں جس طرح انھوں نے بنایا کہ ۔۔۔۔۔۔

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخہء کیمیا ساتھ لایا

تو یہ چیزیں جو ہیں یہ تو اور پھر حالی کے بارے میں اس طرح تنقید کے حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ کئی ہمارے انگریزی داں‘فرانسیسی داں اور بڑے مغربی علوم کے ماہرین نے یہ کہا کہ سرسید انگریزی سے نا بلد تھے ۔سنی سنائی باتوں پر تکیہ کیا انھوں نے ۔ میں نے ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ اس کے بعد کئی لوگ مغرب میں بھی گئے ۔ بیشتر زبانیں بھی مغرب کی جانتے ہیں۔پی ایچ ڈی بھی ہیں اور بڑی بڑی انھوں نے اسناد بھی حاصل کی ہیں۔ لیکن آج تک حالی نے جو مقدمہء شعرو شاعری لکھ دیا ہے اس سے باہر نہیں نکلے۔ کیوں کہ اس میں کہا ہے انھوں نے کہ شاعری کا اثر سوسائٹی پہ کیا ہوتا ہے؟۔۔۔سوسائٹی کا اثر شاعری پہ کیا ہوتا ہے۔۔۔اور پھر آورد کیا ہے اور آمد کیا ہے۔ شاعری کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔اس سے باہر کوئی نہیں نکلا آج تک۔ مثالیں بدل سکتے ہیں آپ۔ لیکن فریم ورک جو ہے وہ وہی ہے۔ تو اس لحاظ سے حالی کی مسدس کے بعد پھر اقبال کا بڑااہم نام ہے۔ انھوں نے فارسی میں تو بہت کچھ لکھا ۔ لیکن اردو میں بھی ان کے جو ہیں وہ ا شعار :

بمصطفٰے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است

اور پھر اردو میں بھی کہ اگر بہت سے لوگ اس کو مانتے نہیں لیکن نعت ہی ہے یہ:

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

تو یہ سب ہے اور پھر اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔وہ دانائے سبل ،ختم الرسل، مولائے کل جس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو میں اکثر مثال میں پیش کرتا ہوں کہ بہت سے لوگ ’’سبل‘‘ کے معنی بھی نہیں جانتے ہوں گے۔لیکن انھوں نے پیش اور لام کی تکرار سے جو غنائیت پیدا کی ہے وہ کمال کا مصرع ہے یہ ۔

وہ دانائے سبل ،ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا

تو یہ جب معیار ہو اس کے بعد پھر اس قسم کی نعت کہ ۔۔۔۔۔۔میں سو جاؤں یا مصطفےٰ کہتے کہتے۔۔۔۔۔۔ارے بھئی مصطفےٰ a تو جگانے کے لیے آئے تھے۔تو اس قسم کی جو نعت ہے ۔۔۔۔۔۔

عزیز احسن: معذرت کے ساتھ میں عرض کروں گا کہ اس کا تناظر ذرا مختلف ہے۔ سونے سے موت اور جاگنے سے حشر میں اٹھنا مراد ہے۔

سحر انصاری: وہ تو ہے مگر وہی بات تنقید والی!۔۔۔۔۔۔تو اس کی گرفت ضروری ہے جناب ۔ وہ جو ہے۔۔۔۔۔۔وہ بجلی کا تڑکا تھا یا صوتِ ہادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سونے کا سوال نہیں ہے۔

اصلاحی: میں ایک شعر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سوگئے تھے جتنے سود و زیاں کے فتنے

نیند بہتر ہے کہیں عالمِ بیداری سے

عزیز احسن: یہ تناظر بدل گیا۔ یہ سب ہے لیکن نعت کے حوالے سے جو تنقید شروع ہوئی ہے ، جس میں تھوڑا سا کام میرا بھی ہے۔

سحرانصاری: بہت ہے آپ کا کام۔

عزیز احسن: تو ہمیں نعت کے حوالے سے جو مروجہ تنقیدی نظام آیا ہے ، پورا کا پورا۔ اس میں سے کس خاص نظام سے نعتیہ ادب کی تنقید کو منسلک ہونا چاہیے۔ یہ بات آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

سحرانصاری: دیکھیے ایک تو یہ تھا کہ ہمارے ادیب رائے پوری صاحب نے کچھ اس طرح کی کوشش کی تھی ۔۔۔لیکن جدید انداز میں حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ، ابوالخیر کشفی صاحب نے اس پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اس کے بعد ہمارے ابوسفیان اصلاحی صاحب نے ۔ بعد نہیں کہہ رہا ہوں یقیناًانھیں بھی فضیلت حاصل ہے۔یہ تین اہم نام ہیں۔ سب سے پہلے تو حضورِ اکرم a کی ذاتِ مبارک کو اس طرح کہ ’’رفعنالک ذکرک‘‘ تو اس کے بعد کس کی مجال ہے کہ جو ان کے ذکر کو مزید بڑھائے۔ کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

لیکن یہ کہ سوئے ادب کے بعض اتنے پہلو نکلتے ہیں اور لوگ جو ہیں وہ اپنے حال اور وجد کی کیفیت میں اور بہت زیادہ سرشاری کی کیفیت میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں ۔پھر کچھ تصوف کے لوگوں نے ۔۔۔۔۔۔کہ احمد اور احد میں میم کا پردہ ہے اور یہ کہ اس قسم کی باتیں بھی آئیں کہ جن کو بعض لوگ نہیں سمجھ سکے۔ جن تک یہ چیزیں نہیں پہنچی تھیں انھوں نے اس کو استعمال کیا۔ پھر بھکتی تحریک نے بھی نعتیہ شاعری کو خاصا مجروح کیا۔۔۔میں تو یہ کہوں گا۔ کہ رام اور رحیم ایک ہے۔ یہ بھکتی تحریک کی تعلیمات میں شامل ہے۔ تو اس لحاظ سے اب جو ہمیں نعت کی تنقید کی طرف توجہ دینی چاہیے اس میں زبان، بیان، اسلوب اور پھر جو ضعیف روایات ہیں ‘ان کو جو لوگ نظم کرتے ہیں‘ ان سے گریز کرنا چاہیے اور اس کی ضرور نشاندہی کرنی چاہیے۔ پھر یہ کہ یہ جو چیز چلتی ہے کہ فلمی گانوں کی طرز پہ نعتیں لکھی جاتی ہیں اسکی مذمت ہونی چاہیے۔ پھر یہ بات کہ ہم نے ہندو کلچر سے یہ چیز لی ہے۔ وہاں نند لال کے لیے کہا جاتا ہے جو جھولا جھول رہا ہے۔ اور ما تا میں نہیں مکھن کھایو۔۔۔قسم توری ماتا میں نہیں مکھن کھایو۔۔۔۔۔۔تو وہ تو مکھن چور ہے۔ اب آپ نے اس کے لیے کہ جھولا جھلائے محمد کو ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی چیزیں جو ہیں یہ میرا خیال ہے کہ سوئے ادب کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو اس حساب سے تنقیدکو ایک سطح کے ساتھ رکھنا چاہیے اور اس کے کچھ اصول متعین ہوئے بھی ہیں۔ لیکن مزید اصول متعین ہوں کیوں کہ جب تک Principles of Criticism سامنے نہیں آئیں گے Theory of Criticism اس وقت تک عام آدمی اس کی پیروی نہیں کرسکے گا۔ تو اس کی بھی ضرورت ہے۔

اصلاحی: مسدس کا باربار ذکر آیا۔ مسدس کے حوالے سے سرسید کی ایک بات ضرور نقل کی جائے گی۔ سرسید نے یہ کہا تھا کہ جب قیامت میں مجھے اٹھایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ کیا لائے ہو تو میں اللہ سے یہ کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کے لایا ہوں۔

مشترک آوازیں: یہ تاریخی جملہ ہے۔

اصلاحی: شاعری کے حوالے سے ہمارے جذبی صاحب کی جو کتاب آئی ہے ’’حالی کا سیاسی شعور‘‘

سحر انصاری: جی ہاں ، جذبی صاحب کی کتاب۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ۔ بہت عمدہ!

عزیز احسن: پروفیسر انوار احمد زئی تشریف فرما ہیں۔ نعت کے حوالے سے آپ Tv پر بھی بہت گفتگوفرماتے رہتے ہیں اور ان سے ہم استفادہ کرتے ہیں۔ ان کی موجود گی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ہم ان سے جاننا چاہیں گے نعت رنگ میں جو ہم نے تنقیدی سلسلہ شروع کیا ہے اس ضمن میں ان کی کیا رائے ہے اور تنقیدِ نعت کے حوالے سے ان کے نظریات کیا ہیں؟

پروفیسرانوار احمد زئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔یہ تو یقیناًتمام لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ دو انتقادی اور دو مستند پروفیسرز کے بعد مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ لیکن میں ربط قائم کرنے کی کاوش کروں گا۔ اس میں اضافے کا میری طرف سے کچھ دعویٰ نہیں ہوسکے گا۔۔۔۔۔۔اور ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔اور یوں بھی میں اکتساب کے لیے یہاں حاضر ہوں۔ استحسان کے لیے اور تحدیث کے لیے۔ کوئی تنقید کے لیے یا اضافے کے لیے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب! کہ جس طرح سحر بھائی نے فرمایا اور ڈاکٹر اصلاحی نے بھی اعتراف کیا۔۔۔۔۔۔کہ آپ نے جو نعت کے تعلق سے تحقیقی اور تنقیدی کام کیا ہے یہاں سامنے بیٹھ کر تعریف کرنے کی بات نہیں ہے ۔۔۔یہ ایک حوالہ بن گیا ہے۔۔۔۔۔۔اور آپ نے کمال یہ کیا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر (اصلاحی) صاحب نے ابھی عربی نعت اور حضورa کی تشریف آوری سے پہلے نعت کی صورت گری فرمائی ہے۔ آپ نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس کا بہت مربوط‘ مضبوط اور متاثر کن حوالہ دیا ہے۔۔۔۔۔۔اور اگر میں غلطی پر نہیں ہوں اور صحیح طور پر یاد کرپارہا ہوں آپ کے ان حوالوں کو اور دیگر لوگوں کے ۔ تو ڈاکٹر(اصلاحی) صاحب! جس طرح آپ نے فرمایا کہ حضور a کی آمد سے پہلے بھی نعت کا سلسلہ تھا۔ تو نعت کا تو مفہوم پہلے قابلِ ذکر شخصیت کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر بات کو یا نظم کرنا یا بیان کرناتھا۔ لیکن بات یہ ہوئی کہ جب حضور تشریف لائے تو کوئی اور قابلِ ذکر رہا نہیں۔اور اس اعتبار سے جب لوگوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے نعت کو آپ a کی توصیف اور ثنا اور تعریف اور شمائل اور بیان و کردارو عمل کا حوالہ بنایا ، بنیاد جب انھوں نے مرتب کی تو پھر یہ منسوب ہوکر نسبت پاکےِ حضور a سے‘ نعت جو ہے وہ پھر آپ a ہی کے لیے مخصوص ہوگئی۔ جس طرح حمد ، اللہ رب العزت کے لیے ایسے نعت حضور a کے لیے ہوگئی۔ تو ایک کمال بات یہ کہ نعت کو یہ انتہائی عروج ۔۔۔۔۔۔اوجِ ثریا پہ پہنچی تو آپa سے نسبت اس کو مل گئی۔ اب نعت جو کہیں گے تو وہ پرانا والا Diction نہیں آئے گاکہ جو قابل ذکر ہے اس کی کوئی قابلِ ذکر بات۔ نہیں اب تو نعت صرف آپ a کا حوالہ بن گئی۔ ایک تو یہ بہت اہم بات ہے۔ دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔سرسید کے تعلق سے میں عرض کروں۔میں نے ایک جگہ کہا تھا ۔ سحر بھائی شاید موجود تھے۔ کہ وہ جو اکابر سرسید سے واقف ہیں انھوں نے سرسید کی آدھی تصویر پیش کی ہے۔ انگریزی تعلیم اور اخلاقیات اور یہ سب جو ہم کہہ دیتے ہیں۔ اصل میں تو انھوں نے یہ کہا تھا کہ اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلواؤ مگر اپنی روایت سے اور دین سے اور جو مذہبی رویہ اس سے بے خبر نہ رکھنا۔ ان کے مخطوطات میں ہے یہ۔ بے خبر نہ رکھنا ۔۔۔اور اگر ایسا کیا تو تم دیوانے کے ہاتھ میں تلوار دو گے۔تو ایسی صورت میں آپ پھر آجایئے ان کی طرف کہ جو انھوں نے کام کیا اور پھر جو حالی کے بارے میں انھوں نے ناز سے یہ بات کہی ہے کہ حالی سے لکھوالایا ہوں مسدس۔یہ ان کی اس مرتب ذہنی کا بھی ثبوت ہے کہ وہ کس طرف آرہے تھے۔ جس کو ہم نہیں سمجھ پاتے اور بڑی آسانی سے ان کو ایک خانے میں ڈال دیتے ہیں۔پھر ایک چیز یہ بھی ہے کہ اگر میں بغرضِ اصلاح یہ بات کروں اپنے لیے۔۔۔۔۔۔ کہ سعدی کا جو کام ہے اس کام میں جو اخلاقیات ہے اور ان کی نسبت بھی ہے، وہ اگر سامنے نہیں آتی تو میرا خیال یہ ہے کہ حالی مسدس نہیں لکھتے۔یہ ایک تسلسل کا نام ہے۔ یعنی جہاں انھوں نے گلستان و بوستان والی بات کی تو بوستان سے تو ڈپٹی نذیر احمدکی اصلاحی تحریک آتی ہے ۔۔۔۔۔۔توبۃ النصوح ہو، یا بنات النعش ہو، یا مراۃ العروس ہو۔۔۔اور دوسری طرف جو گلستان کا تسلسل ہے وہ میرے خیال میں حالی کی اس کیفیت کا آرہا ہے جس کا حوالہ دیا ابھی سحر بھائی نے۔ تو اس میں ایک تاریخ بھی ہے، ترتیب بھی ہے۔ تہذیب بھی ہے، تعلیم بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عقیدے کے تعلق سے حضور a کی ذاتِ گرامی کی تصویر بھی ہے۔ تو یہ ایک تسبیح کی صورت یہ دانے جو ہیں وہ ایک ڈوری میں پروئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ان کا اگلا تسلسل میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال ہیں۔ اور اقبال کی جو نظمیں جس طرح سحر انصاری صاحب قبلہ نے اپنی گفتگو میں حوالہ دیا وہ اپنی جگہ۔مگر ایک لفظ یا اصطلا ح ابھی گفتگو میں آئی تھی ’’آمد‘‘ اور ’’آورد‘‘ تو میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ٹھیک ہے ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔۔۔۔۔۔غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے۔۔۔۔۔۔لیکن بعض چیزوں کے لیے اپنے ذہن کو مرتب بھی کرنا پڑتا ہے اور غالباً نعت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ نعت کے لیے جب آپ ایک مرکزیت کو سامنے رکھ کے اور تصور کو آمیز کرکے اور پھر مرتب کرتے ہیں اپنے خیال کو اور منظوم کرتے ہیں تو یہ آورد ہی کا انداز ہوتا ہے۔توصیف اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عنایت ہے وہ اپنی جگہ لیکن آپ کی جو کاوش ہے وہ ادھر ڈالتی ہے۔ پیراڈائز لاسٹ کی بات کرتے ہیں جون ملٹن کی تووہ آمد ہے۔ لیکن جب پیراذائز ریگین اس نے لکھی تو وہ آورد ہے۔ بچنے کے لیے لکھی ناں!سوچ کے لکھی ناں!جواب میں لکھی ناں!لیکن اقبال کے تعلق سے میں یہ سوچتا ہوں۔۔۔۔۔۔پھر قابلِ اصلاح میری سوچ ہے۔۔۔۔۔۔کہ شکوہ جو ہے وہ آمد نہیں ہے وہ آورد ہے۔جوابِ شکوہ شاید آمد ہے۔اس لیے کہ جوابِ شکوہ انھوں نے پہلے سوچا لیکن وہ کہنے کے لیے وہ فضا نہیں تھی۔فضا میں پہلے وہ ہم زبان ہوئے لوگوں کے جو بہت ساری تشکیک کی باتیں ذہن میں رکھتے تھے۔ ان کے ہم آواز ہونے کے بعد جب لوگوں نے کہا ہاں واقعی یہ بات تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرا ء ت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو ۔۔۔۔شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کوتولوگ جب ان کی طرف متوجہ ہوئے تو پھر انھوں نے وہ بات کہی جو وہ کہنا چاہتے تھے۔۔۔

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔

احسن: نعت کے حوالے سے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے ع سوئے قطار می کشم ناقہء بے زمام را۔۔۔یہ تصور ہر نعت گو کا رہا ہے یا رہنا چاہیے جو نعت کو عملی زندگی میں رائج کرنا چاہتا ہے۔اور مسلمانانِ عالم کو حضورِ اکرم a کی سیرت کے قریب رکھنا چاہتا ہے۔ یعنی نعت میں جو پیغام کی بات ہے وہ ضرور پیشِ نظر رہے۔

انوار احمد زئی؛ ڈاکٹر صاحب! میں عرض کروں کہ نعت ایک کل کا نام ہے۔ اور میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس لیے آپ کو نقد و نظر کے پیمانے بھی بدلنے پڑیں گے جب آپ تنقیدِ نعت کی طرف آئیں گے۔اس میں بھی آپ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ کون کون سے پہلو عمومی تنقید کے ہوسکتے ہیں اور نعت کے لیے کون سے خصوصی پہلو تراشے جائیں جو کہ نقدو نظر کے منصب پر پورے اتریں۔۔۔۔۔۔اور جس طرح کہ ڈاکٹراصلاحی نے ابھی فرمایا تھا کہ اس وقت کے جو شعراء تھے انھوں نے جو باتیں کیں جو نظم کے موضوعات بنائے۔نعت کے موضوعات بنائے۔ بعد کے آنے والوں نے نہیں بنائے۔تو ایک تو یہ ہے ناں کہ وہ بنا سکتے تھے۔اس لیے کہ بقول آپ(اصلاحی) کے وہ دیکھ رہے تھے۔ وہ شاہد تھے ، وہ گواہ تھے۔بعد کی جتنی بھی نعتیں ہوئی ہیں وہ ہم پہلے سے کہے گئے خیال کو پھر سے مرتب کرکے بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تو ذاتی مشاہدہ تھا وہ بیان کررہے تھے، نظم کررہے تھے۔یہاں پھر ہم سوچتے ہیں کہ وہ کیا ہوں گے اور اس انداز میں کہتے ہیں کہ ع کیا ہوں گے حضور!!!

تو میں یہاں بات ختم کرنا چاہ رہا ہوں کہ اس عہد میں نعت کے تقاضے بھی بدلے ہیں ۔نعت کہنے والوں کے انداز بھی بدلے ہیں۔۔۔اور نعت کے مخاطبین جو ہیں وہ بھی بدلے ہیں۔یہ وجہ ہے کہ ہمیں عصری اور عہد کے اعتبار سے فرق نظر آتا ہے۔اور یہ جو نعت کے تقاضے بدلے اس میں شاید ایک بات یہ بھی کہ لوگ تسلیم کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔جس طرح آپ (عزیز احسن)نے غیر رسمی گفتگو میں فرمایا تھا کہ اللہ کے کلام کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ غالباً وہ لوگ کہ جو اس دائرے میں نہیں ہیں وہ بھی اب تسلیم کرچکے کہ اللہ کے کلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے اس لیے وہ غیر مبدل ہے وہ بدلا نہیں جاسکتا۔لیکن اگر اس عقیدے پر کامل ایمان رکھنے والوں کو تشکیک کے مرحلے تک لانا ہے متزلزل کرنا ہے تو وہ جو حبِ رسول a کی نعمت انھیں نصیب ہوئی ہے اس کو کم تر کرو یا الگ کرلو۔تو یہ خیال جن لوگوں کو ہوا ہے وہ اس کو مضبوط کرنے کے لیے ‘ مربوط کرنے کے لیے نعت کو مضبوط کررہے ہیں۔

عزیز احسن: اصل میں حبِ رسول a کی بہت ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ بغیر حبِ رسول a کے معاشرے میں وہ اقدار پروان نہیں چڑھ سکتیں جو حضور a نے پیدا فرمائی ہیں یا جو رائج فرمائی ہیں۔

احسن: آپ کچھ فرمارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر اصلاحی صاحب!

اصلاحی: دیکھیے سب سے پہلے میںیہ کہنا چاہتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ میرا یہ خیال بہت قابلِ لحاظ اور قابل اعتنا نہ ہو ۔۔۔ابھی آپ (احمد زئی) نے شیخ سعدی کی اخلاقیات کا ذکر تے ہوئے آپ نے یہ کہا کہ حالی کے یہاں اس کا تاثر پایا جاتا ہے۔ اس سے متاثر ہوئے حالی۔ میر ا نقطہء نظر یہ ہے کہ مسدسِ حالی کے نیچے ’’ مد وجزرِ اسلام‘‘ لکھا ہوا ہے ۔شیخ سعدی کے ہاں یہ چیز نہیں ہے ۔ اخلاقیات ضرور ہے لیکن یہ احساسِ ارتقا ہے۔آپ پوری تاریخِ اسلام مسدسِ حالی میں پڑھ سکتے ہیں۔دیکھیے ! لمبا مضمون لکھناآسان کام ہے۔لیکن اس میں سلاست ہو ، شاعری میں کمال ہو‘ وہ بالکل ایسی زبان میں گفتگو کرے کہ معاشرہ سمجھ لے بڑا دشوار کام ہے۔ حالی کے بارے میں یہ بات بڑے تیقن اور اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے پوری تاریخِ اسلام کو بڑے سلیقے سے پڑھا تھا۔ کم از کم یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے تاریخِ اسلام کو بگاڑا ہے۔اس کےStyle پر گفتگو ہوتی ہے لیکن اگر حالی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ انھوں نے کسی سے متاثر ہوکر مسدس لکھی ۔تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔

انوار احمد زئی: وہ تسلسل ہے۔

اصلاحی: تسلسل بھی نہیں ۔سعدیات کا بالکل تسلسل یہاں نہیں ہے ۔میں یہ کسی تامل کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسدس حالی کا اپنا کام ہے۔ سرسید کا بھی اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سرسید کا دخل صرف اتنا تھا کہ جس زبان کو وہ آسان ، سلیس اور باقاعدہ معاشرے کی ترجمان بنانا چاہتے تھے۔یعنی سوشل اسٹائل ہو۔ وہ حالی نے ان سے ضرور لیا تھا۔ اسٹائل انھوں نے سرسید سے لیا اور مسدس کے مفہوم ،مباحث ان کے ذاتی مطالعے کا حصہ تھے۔ایک بات تو میں یہ کہنا چاہوں گا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ سحر انصاری صاحب نے جو یہ بات کہی ہے کہ جب ہم نعت کے حوالے سے تنقید کی گفتگو کرتے ہیں تو اس بات کو یعنی مسلک کو ہم چھوڑیں۔یقین جانیے جب تک مسلک کو آپ نہیں چھوڑیں گے۔ صحیح تنقید نہیں لکھ سکتے۔نعت کے بارے میں تنقیدی اصول کیا ہوں۔ اس کے قواعد کیا ہوں۔اس مرحلے پر مسلک کو بھول جایئے۔ اس کے بعد ہی صحیح طریقے سے ہم کچھ کہہ سکتے ہیں ۔معجزوں کے غیر محتاط بیان کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ حضورِ اکرم a کی شخصیت کا استخفاف ہوا ہے۔ میرا جہاں تک خیال ہے۔ تو ان تمام چیزوں کو بھی point out کیا جائے۔ دیکھیے پیغامات ہر زمانے کے الگ الگ ہوتے ہیں۔ قرآن ہر زمانے کے لیے ہے ۔ تو ہم عصرِ حاضر سے قرآنِ کریم اور اللہ کے رسول a کو بھی relate کرسکتے ہیں۔علمِ باطن کا تصور تفاسیر،صوفیۂ کرام اور نعت گو شعرا کے یہاں بہت ہے۔ اس طرح کی باتیں کی جائیں گی تو اللہ کے رسول a کی ذات پر بھی چھینٹے آ ئیں گے اور قرآن پر بھی۔کیوں کہ قرآنِ کریم اور اللہ کے رسول a کا کوئی پہلو مخفی نہیں ہے۔ قرآن میں خود آیا ہے ۔۔۔۔۔۔کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰ یٰتُہٗ ۔۔۔یعنی قرآنِ کریم کے تمام مباحث واضح ہیں کیوں کہ یہ کتابِ مبین ہے۔ اللہ کے رسول a اسی توضیح و تفسیر کے لیے آئے تھے۔قرآن، عربیئ مبین میں آیا تھا اور اس کو اللہ کے رسول a نے پوری طرح سے واضح کردیا۔اسی لیے قرآنِ کریم میں جو ’’فَا صْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ‘‘(تو تم کھول کھول کر بیان کردو) آیا ہوا ہے اور اسی مفہوم کی صراحت یوں بھی کی گئی کہ اَلْیُوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وََ رضَیْتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِیَنًا ط۔ یعنی اب تکمیلِ دین کے سلسلے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا گویااللہ کے رسول a کی ذات اور قرآنِ کریم کے تمام پہلو پوری طرح مبرہن ہیں۔ تو نعتیہ ادب میں ہم یہ اصول بنائیں کہ اللہ کے رسول a کواس طرح پیش کیا جائے کہ جیسے وہ ہیں۔تقاضے اور لفظیات و اسلوبیات بدلتے رہیں گے۔لیکن ان تقاضوں میں کوئی ایسی چیز نہ آئے کہ جس سے اللہ کے رسولa کی ذات پر حرف آئے۔یہ خاص طور سے نعت گو شعراء کے پیشِ نظر رہے۔

عزیز احسن: ڈاکٹر صاحب! اس میں ایک پہلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوار احمد زئی: میں یہ عرض کررہا ہوں کہ آپ(اصلاحی صاحب)کا فرمایا مستند ہے۔لیکن اس کے باوجود سعدی کے ہاں ہے۔۔۔۔۔۔بلغ العلیٰ بکمالہٖ))تو اشارہ تو ہوگیا ناں۔ یہ 580 ہجری میں پیدا ہوئے تھے اور ایک سوگیارہ سال جیئے۔تو ان کا عہد اور اِن (حالی) کا عہد بہت مختلف ہے۔ لیکن میں نے اس لیے یہ بات کہی کہ جو پہلو سارے کے سارے ان کی اخلاقیات میں آئے ہیں ۔وہ اخلاقیات آئینہ پیش کررہے ہیں۔ اس لیے اس پوری تحریک سے دو ہی متاثر ہوئے ہیں نثر میں ایک ، نظم میں ایک۔ میں نے تسلسل کہا یہ نہیں کہا کہ وہ متاثر تھے۔

عزیز احسن: جناب! نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے حوالے سے جس مسلمان نے بھی کچھ کہا ہے اس کا تسلسل چل رہا ہے۔

انوار احمد زئی: جی فکری تسلسل!

اصلاحی: ابنِ خلدون نے فلسفہء عمرانیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مقدمہ میں کہا ہے کہ تہذیبی تسلسل میں ہر آدمی کا کچھ نہ کچھ contribution ہوتا ہے۔ تمد ن نام ہی اسی کا ہے۔ ثقافت ایک طویل تواتر کے بعد آتی ہے، مختلف اقوام کے اپنے اپنے کارنامے ہوتے ہیں۔

عزیز احسن: شاہ ولی اللہ ؒ نے ارتفاقات کے حوالے سے بات کی ہے۔وہ بھی تسلسل ہی کی بات ہے۔

اصلاحی: حجۃ اللہ البالغہ میں انھوں نے یہ بات کی ہے۔ اگر اس کے مضامین پیشِ نظر ہوں توہم اپنے نعتیہ اصول کی تخلیق میں صحیح خطوط پر ہوں گے۔

عزیز احسن: جی ہاں۔

اصلاحی: ابھی گفتگو جو آئی تھی ، سرسید کی انگریزی تعلیم کے حوالے سے ۔۔۔۔۔۔عام طور سے سرسید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قوم کو انگریز بنانا چا ہتے تھے۔

عزیز احسن: جی کرسٹان!

اصلاحی: یہ صداقت اور دیانت کے بر عکس ہے۔۔۔۔۔۔خاص طور سے میں یہاں جمال الدین افغانی کا حوالہ دوں گا کہ جمال الدین افغانی جیسا جہاں دیدہ انسان بھی بغیر پڑھے سرسید پر تبصرہ کرتا ہے کہ سرسید فرقہء نیچریہ کے بانی ہیں۔ میں یہ بات کہتا ہوں کہ اگر جمال الدین افغانی ، سرسید کو پڑھتے تو ہر گز یہ بات نہیں کہتے۔ ان کا جو رسالہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ ہے۔اس میں انھوں نے سرسید کے بارے میں اتنی غلط بات کہی ہے کہ سرسید نے ایک ادارہ ہندوستان میں قائم کیا ہے جو طلبہ کو عیسائی بنانے کے لیے سر گرم ہے۔ اس کے بعد ایک پوری chain ہے کہ عربوں کے یہاں بھی سرسید کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ سرسید نے مدرسہ کی بنیاد ڈالتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہم بچوں کو انگریزی پڑھائیں گے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنی تہذیب اور اپنی روایت کو کسی قیمت پہ نہیں چھوڑیں گے۔ جس طریقے سے دیگر سائنسز اوردیگر علوم کے شعبے تھے اسی طرح پہلے دن سے باقاعدہ عربی، فارسی اور اسلامی علوم کے شعبے تھے ۔انھوں نے یہ لکھا ہے کہ پہلے ہم یہ چاہیں گے کہ ہمارے بچوں کو مذکورہ زبانوں پر عبور ہو اگر ایسا نہ ہوا تو اپنی روایات سے کٹ جائیں گے۔ اپنی ثقافت سے بہک جائیں گے۔ میں نے ابھی دس صفحے کا مضمون ’’سرسید کا ثقافتی تصور‘‘ اور دس صفحے کا مضمون ’’سرسید کا دینی تصور ‘‘ تحریر کیے ہیں۔ان مضامین میں، میں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ سرسید کیا تھے۔یعنی ان کے ثقافتی اور دینی تصورات دینِ اسلام سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔وہ تمسک بالکتاب اور اعتصام بحبل اللہ سے پوری طرح واقف تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں بین الاقوامی تقاضوں کا مطالعہ پیش کیا ہے۔

انوار احمد زئی: ڈاکٹر صاحب انھوں نے یہ تک لکھا ہے کہ اگر یہ کچھ نہیں کیا تو تمھاری قبروں میں تمھاری ہڈیاں چٹخیں گی اور تم کچھ نہ کرسکو گے! عزیز احسن: اصلاحی صاحب کو جانا بھی ہے ۔لیکن میں ایک اور چھوٹی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔سحرانصاری صاحب ! میرا تصور یہ ہے کہ دو قسم کے لٹریچر ہیں۔ ایک معلوماتی اور دوسرا تاثراتی۔ Literature of knowledge اور Literature of Power ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعت دونوں کا امتزاج ہے۔ تو ہمیں Literature of knowledge کے حوالے سے کس قسم کی تنقید کی ضرورت ہے اور Literature of Power کے حوالے سے کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے؟

سحرانصاری: ظاہر ہے کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زبان کا مسئلہ کتنا اہم ہے اور اب جو اردو زبان بھی دوسری زبانوں کی طرح بحران کا شکار ہورہی ہے کہ جب سے یہ موبائل آیا ہے ۔ای میل آیا ہے۔ کمپیوٹر آیا ہے۔ انٹر نیٹ آیا ہے۔ تو الفاظ کی تحریر سے ہماری نسلیں دور ہوتی چلی جارہی ہیں۔۔۔اور بہت عرصہ نہیں گزرے گا کہ آنے والی نسلیں اردو کے رسم الخط کو بھی پوری طرح سے ادا نہیں کرسکیں گی۔لکھ سکیں گی۔ایک طرف تو اشتہارات ہیں۔کہ جو کچھ میٹھا ہوجائے جیسے چھوٹے چھوٹے لفظ بھی رومن میں لکھے جارہے ہیں۔ پھر جتنے بھی پیغامات موبائل سے جارہے ہیں وہ سب رومن میں جارہے ہیں۔ تو ایک تو یہ بہت ہی alarming بات ہے کہ جب زبان ہی آپ کی اس llevel پر اس سطح پر نہیں رہے گی جس سطح پر آپ ان مضامین کو ادا کرسکیں کہ دوسروں تک اس کا ابلاغ ہوسکے تو ہر بات جو ہے وہ ایسی ہو جائے گی کہ صدا بصحرا۔ایک تو سب سے پہلے زبان کا مسئلہ ہے جس پر ہم کو سوچنا چاہیے کہ ہم اس کے لیے کس سطح پر کیا کام کرسکتے ہیں۔ کیوں کی نعت کی زبان بھی کوئی مقررہ زبان نہیں ہے۔ لیکن چوں کہ قرآنی تلمیحات آتی ہیں ۔اس لیے جب تک ہمارے نوجوان ان سے واقف نہ ہوں ۔اور جس جس طرح سے حضور a کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔تو وہ پوری طرح اس کو سمجھ نہیں سکیں گے۔۔۔۔۔۔اور ان کے لیے آپ جو تنقید لکھیں گے وہ ایسی ہوگی کہ اس کو وہ پوری طرح نہیں سمجھ سکیں گے۔ اب جو فیشن ایبل رجحان ہے وہ تو یہ ہے کہ صاحب، لاکاں اور دریدا اور اسٹرکچرلزم اور پوسٹ ماڈرن ازم۔ اب پوسٹ ماڈرن ازم کا تو معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی روایت کو تاریخ کو کسی سند کو مانتے ہیں نہیں ہیں۔ تو اب اس صورت میں جب ذہنوں کی اس طرح تیاری ہورہی ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کلٌ جدیدٌ لذیذٌ تو بچے تو اسی کی طرف دوڑ رہے ہیں پھر۔ تو اس کو پہلے تو رد کرنا چاہیے۔ ان دلائل کے ساتھ کہ جس سے معلوم ہو کہ ۔۔۔۔۔۔جس طرح روایت کی بات تھی ، تسلسل کی بات تھی ۔ تو ٹی ایس ایلیٹ نے بہت اچھی بات کہی ہے Tradition اور Orthodoxy میں فرق ہونا چاہیے۔روایت اور قدامت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ روایت جو ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔وہ کبھی ایسے اوجھل ہوجاتی ہے جیسے دریا پہاڑ کے پیچھے آگیا ہے لیکن ختم نہیں ہواہے۔ تو ہر نسل اس روایت کو اپنے شعور کے مطابق دریافت کرتی ہے۔ تو اس روایت کو ہمیں اس عہد میں دریافت کرنا ہے جو پندرہ سو سال سے چلی آرہی ہے اور اس سے پہلے سے بھی۔اس لیے کہ جب قصائد میں وہ پوری روایتیں آرہی ہیں( ظاہر آپ اس کو زیادہ جانتے ہیں)کہ ٹھہر جاؤ اس خرابے کے پاس ۔۔۔تو یہ بانت سعاد جو ہے اور یہ ساری باتیں تو جاہلیہ ہی سے چلی آرہی ہیں۔تو تسلسل روایت کا ہے۔قدامت کا نہیں ہے۔ تواس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

عزیز احسن: میں نے یہ عرض کیا تھا کہ D QUENCY نے literature of knowledge اور literature of power دو قسم کے ادب کہے تھے۔ یہ دونوں علاحدہ علاحدہ ہیں۔ جو معلوماتی ادب ہے وہ تو یہ ہے کہ آپ کو ایک خبر دیدی۔لیکن ہمارے ہاں نعت میں تو حضورِ اکرم a کے حوالے سے خبر بھی دی جاتی ہے اور تاثر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے نعت کو مؤثر ادب اور معلوماتی دونوں قسم کے ادب کا میں امتزاج سمجھتا ہوں ۔آپ کی کیا رائے ہے؟

اصلاحی: امتزاج تو ہے لیکن اس دور میں خاص طور سے knowledge کے بغیر کوئی بات نہیں کی جانی چاہیے ۔۔۔۔۔۔ابھی یہاں حبِ رسول a کا ذکر آیا۔اسی نالج کے حوالے سے عرض داشت ہے کہ ایک حب رسولa کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور ایک عشقِ رسول a کا۔حب رسول a کا سارا تعلق نالج سے ہے ۔عشقِ رسول a کا تعلق نالج سے نہیں ہے۔ میں یہاں ایک مضمون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔مجھے توقع ہے کہ سحر انصاری صاحب کی نظر سے hundred percent گزرا ہوگا۔ عشق کے عنوان سے تقریباً تیس پیج کا مضمون خلیل الرحمان اعظمی کا ہے۔ میری ناقص نگاہ میں ایسا مضمون آج تک نہیں لکھا گیا۔۔۔ اسے ضرور پڑھا جائے۔ بے پناہ عالمانہ قسم کا مضمون ہے۔کیوں کہ خلیل الرحمان اعظمی عالم آدمی تھے ۔ دوسری بات ۔خاص طورپر میں عزیزاحسن صاحب سے کہنا چاہوں گا کہ جب آپ نعت کے اصول ، قواعدو ضوابط پر گفتگو کریں تو معروف کتاب ’’دین کا قرآنی تصور‘‘ ضرور پڑھیں یہ مولاناصدرالدین اصلاحی صاحب کی کتاب ہے جس میں hundred صفحات انھوں نے عشق پر لکھے ہیں۔ عشق کیا ہے اور حب کیا ہے۔ اس کتاب کی مدد سے اس میں فرق کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہ بات ضرو ر پیشِ نظر رہے کہ پورے قرآنِ کریم میں کہیں بھی عشق کا لفظ نہیں آیا ہے۔بس قرآن یا سرورِ کونین a کی ذات سے جو ہمارا تعلق ہو اس میں علم ضرور شامل ہو ورنہ ہم بھٹک جائیں گے۔ اللہ کے نزدیک علمی تقویٰ ہی معتبر ہے اگر متقی بے علم ہے تو اس کا بھٹکنا ناگزیر ہے۔ اس لیے قرآن میں باربار تفکر اور تدبر کی بات کہی گئی ہے۔ تو گویا کہیں بھی قرآن یہ نہیں کہتا کہ بغیر کسی خبر، کسی علم اور تفقہ کے کوئی بات کی جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی نعت کہی جائے ‘یہ بات ضرور ہمارے پیشِ نظر ہو کہ اس میں علم کو راہ نما بنایا جائے۔یعنی براہِ راست ہمارا تعلق knowledge سے ہو۔تب ہی وہ نعت قرآن و حدیث کی رو سے قابلِ قدر ہوگی اور اس میں بے راہروی کے امکانات معدوم ہوں گے۔

عزیز احسن: پروفیسر سحر انصاری صاحب کچھ کہنا چاہ رہے ہیں؟

سحر انصاری: ایک تو جوش ملیح آبادی کا قول یاد آگیا ۔اقبال کی عشق پرستی کو اسی حوالے سے کہتے تھے کہ قرآنِ کریم میں تو عشق کا لفط آیا ہی نہیں۔ تفکر وا آیا ہے یا تعقلون آیا ہے۔ دوسرے مجھ ناچیز نے بھی ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ جب اقبال یہ کہتے ہیں کہ

عشق تمام مصطفےٰ عقل تمام بولہب

تو اس سے میں بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا۔اس لیے کہ رسول اللہ a کی جو ذاتِ مبارکہ تھی اس میں عشق کا جتنا درجہ تھا اُتنا ہی عقل کا بھی درجہ تھا۔ عقل کبھی بو لہب نہیں ہوتی۔

عزیز احسن:یہ ایک اور پہلو نکل آیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی صاحب کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

انوار احمد زئی: خود اقبال نے یہ بات کہی ہے ناں:

لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

تو وہ تو انھوں نے اعتراف کیا کہ پاسبانِ عقل [ساتھ ضرور] رہے۔

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی ۔۔۔۔۔۔ یا

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

لیکن بات یہی ہے ۔۔۔اقبال نے خود یہ بات کہی ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ عقل کی انتہا کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا ’’حیرت‘‘۔اور کیا اچھی بات ہے ’’سدرۃ المنتہا‘‘ عقل کی بھی انتہا ہے۔ لیکن جب ان سے پوچھا عشق کی انتہا ۔۔۔تو انھوں نے کہا عشق کی کوئی انتہا نہیں۔ تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے تو خود کہا ہے کہ عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔۔۔تو انھوں نے کہا دوسرے مصرعے میں اعتراف بھی تو ہے ۔۔۔۔۔۔مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔اقبال عشق کی تائید کرتے ہوئے عقل کی تردید میں بھی مشروط انداز اختیا ر کرتے ہیں۔

عزیز احسن: میں یہ سمجھتا ہوں کہ عشق کا لفظ چوں کہ فارسی میں زیادہ استعمال ہوا ہے اور وہ محبت کی انتہائی کیفیت کو جس میں بہت زیادہ intensity ہے ۔بہت زیادہ شدت بھی ہے۔ اس کو وہ عشق کا نام دیتے ہیں۔ تو ہمارے ہاں جو عجمی شعراء ہیں ان کے ہاں یہ لفظ زیادہ آیا ہے۔

اصلاحی: عجمی شعراء کہہ کر آپ نے کچھ وکالت کرلی۔

عزیز احسن: بہت بہت شکریہ آپ حضرات کا کہ آپ تشریف لائے اور یہ خرد افروز گفتگو ہوئی۔ یہ گفتگو ان شاء اللہ کاغذ پر بھی آئے گی اور شائع بھی ہوگی۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے(آمین)!