"نعتِ نبیﷺ کا نعت گو عارف ۔ ڈاکٹر توفیق انصاری احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 9: سطر 9:


=== نعتِ نبی ﷺ کا نعت گو عارف ===
=== نعتِ نبی ﷺ کا نعت گو عارف ===
نعتِ نبیﷺ کا نعت گو عارف
ڈاکٹر توفیق انصاری احمد صاحب


بِسمِ اللهِ الرَحمٰنِ الرَحیِم۔ الحَمدُ لله۔ الحَمدُ لله رَبِّ العَالَمِین۔ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الَانبِيَاءِ وَ المُرسَلِین۔
بِسمِ اللهِ الرَحمٰنِ الرَحیِم۔ الحَمدُ لله۔ الحَمدُ لله رَبِّ العَالَمِین۔ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الَانبِيَاءِ وَ المُرسَلِین۔

حالیہ نسخہ بمطابق 08:02، 10 جولائی 2017ء


وحید القادری عارف کی شاعری پر ایک مضمون

از ڈاکٹر توفیق انصاری احمد

شکاگو (یو ایس اے)

نعتِ نبی ﷺ کا نعت گو عارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بِسمِ اللهِ الرَحمٰنِ الرَحیِم۔ الحَمدُ لله۔ الحَمدُ لله رَبِّ العَالَمِین۔ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الَانبِيَاءِ وَ المُرسَلِین۔

اللہ کے نام سے شروع کر کے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد حضورِ اکرم‘ سرکارِ دوجہاں ﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود و سلام بھیجنے کے بعد جنبشِ قلم کی جسارت اس توقع اور اس دعا کے ساتھ کی جارہی ہے کہ توفیقِ الٰہی و تائیدِ غیبی سے اور حضور سرورِ عالم ﷺ کی خوشنودی اور مرضی سے نعت کے مبارک و مسعود موضوع پر اپنی محدود بساط کے مطابق کچھ لکھ کر خود کو اس قافلہء رنگ و بو سے منسلک کرلینے کی سعادت نصیب ہوجائے (آمین ثم آمین)۔

نعت کا لفظ عربی زبان کا اسمِ مونث ہے جس کے لغوی معنی مدح و ثنا‘ تعریف و توصیف ہے۔ اور یہ لفظ خصوصی طور پر رسولِ مقبول‘ آقائے کائینات حضرت محمدِ مصطفیٰ ﷺ کی شان میں مدحیہ اشعار کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نعتِ نبی ﷺ کا مقصد آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ‘ آپ ﷺ کے حُسنِ اخلاق‘ آپ ﷺ کی صورت و سیرت‘ آپ ﷺ کی تعلیمات‘ آپ ﷺ کی حیات‘ اور آپ ﷺ کی شخصیت کا مختلف پہلؤوں جائزہ لینااور قدم قدم پر احترام و التزام کے ساتھ آپ ﷺ سے اپنے قلبی و ذہنی لگاؤاور سچے عشق و محبت کا اقرار و اظہار ہے۔

نعت گوئی اک عطیہء خداوندی ہے‘ اور پھر اس عطیہء خداوندی کے طفیل‘ نعت کا کوئی شعر‘ کوئی مصرعہ‘ یا کوئی لفظ بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں قبول ہوجائے تو پھر اس نعت کا کیا کہنا۔ خوش نصیب ہے وہ نعت گو جس نے ایسی مقبول نعت گوئی کی اور اس کو امتیاز نصیب ہوا۔ شاعر ہونا ایک الگ بات ہے‘ مگر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اک اچھا اور مقبول نعت گو شاعر ہونا بڑی بات ہے۔ یہ دولت جس کے حصہ میں آجائے وہ یقیناََدولت مند ہے ؎

سب کو مل سکتی نہیں نعتِ نبی کی دولت

نعمتِ خاص ہے مدحِ شہہِ ابرار کا شوق

(علامہ قدرؔ عریضیؒ)

نعتِ نبی ﷺ کے شوق کی ابتداء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق ابتداءََ سرزمینِ عرب سے شروع ہوا۔ حضورِ اکرم ﷺ سے متاثر ہوکر عربی شعراء نے آپ ﷺ کی محبت میں نعتیہ اشعار و قصائد لکھے جو عہدِ نبوی ﷺ میں مشہور و مقبول ہوئے۔ مدینہ میں آپ ﷺ کی آمد کے موقع پر عورتوں اور بچوں نے خوش ہو کر نعتیہ ترانے گائے اور پھر فتحِ مکہ کے موقع پر اسی طرح اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی رسالت کے اعتراف میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پڑھے گئے۔ عہدِ رسالت ﷺ میں کئی ایک عربی شعراء نے نعت کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اُن کو‘ اُن کے درجات کے مطابق‘ دربارِ رسالتﷺ میں باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ مگر ان سب سے بڑھ چڑھ کر حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی شرف حاصل ہےکہ حضورِ اکرم ﷺ نے آپ کو منبر پر بٹھا کر بنفسِ نفیس خصوصی طور پر آپ کی لکھی ہوئی نعت سماعت فرمائی۔ ایسی خوش نصیبی ‘ شائد ہی کسی نعت گو یا نعت خواں کو نصیب ہوئی ہو۔ حضرتِ حساّن رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم نعت کا راستہ متعین کرتے ہیں ؎

رہبر کی رہِ نعت میں گر حاجت ہو

نقشِ قدمِ حضرتِ حسّان بس ہے

(حضرتِ رضاؔ بریلویؒ)

نعت گوئی کا فن ایک مشکل فن ہے۔ اس فن میں حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اظہارِ حقیقت اور جذبہء عشق و محبت کی از حد ضرورت ہے۔ کمالِ احتیاط لازم ہے کہ کہیں غلو اور بے ادبی کا پہلو نہ نکل جائےاور کوئی ایسی ویسی بات زبان پر نہ آجائے جس میں کسی گستاخی کا ہلکا سا عنصر بھی شامل ہو۔

رسالت مآب ﷺ کا نامِ مبارک زبان پر لانے سے پہلے ہزار بار‘ زبان کی صفائی کے ساتھ‘ دل کی پاکیزگی اور خیالات کی ہم آہنگی بہت ضروری ہے تاکہ جو لفظ بھی آپ ﷺ کی شان میں زبان سے نکلے وہ آپ ﷺ کے شایانِ شان ہو۔ ورنہ خموشی بہتر ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎

ناواقفِ مقامِ ادب بس خموش رہ

تیری زبان اور رسولِ خدا کا نام

(شاہد الیافعیؒ)

نعت در حقیقت اک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں طبع آزمائی کر کے نعت گوئی کا حق ادا کرنا نا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب خود اپنے محبوب ﷺ کی مدحت کی ہے تو پھر کوئی بندہ بھلا کہاں اس کی برابری کر سکتا ہے۔ نعت کی حقیقی معراج بہر صورت اللہ اور اللہ کے محبوب ﷺ کے درمیان مخفی ہے۔ حضرتِ رضاؔ بریلویؒ کیا خوب فرماتے ہیں ؎

ائے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ رسول

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

ایک اور مقام پر شاعر حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اعتراف کرتا ہے ؎

میں نغمہ نعتِ نبی کا گاؤں‘ زبان ایسی کہاں سے لاؤں

سرودِ ذکرِ رسول چھیڑوں‘ میں تان ایسی کہاں سے لاؤں

یقیناََ حضور رحمت للعالمین ﷺ کی ذاتِ گرامی کا صدقہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ عرب سے ہوتی ہوئی ایران پنہچی‘ ایران سے ہندوستان آئی اور پھر ہندوستان سے سارے عالم میں پھیل گئی۔ اُردو ادب کی نعتیہ شاعری میں نعت گو شعراء نے نئی نئی ترکیبوں کے ساتھ ‘ نئے نئے مضامین باندھے اور سرورِ دوعالم ﷺ سے اپنے عشق و محبت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ نعتیہ اشعار کی صورت میں عقیدت کی سدا بہار خوشبو ہر طرف مہکنے لگی۔

کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا لیکن ہم کو اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ ہم نے امریکہ میں نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف کو دریافت کرلیا۔ بات یوں ہوئی کہ کئی برس پہلے جنابِ عارفؔ نے ہمارے خاندان میں رشتہ کیا لیکن ہم دور ہونے کے باعث‘ ہم اُن کی شخصی ملاقات سے محروم رہے۔ پھر ایک عرصہ بعد ‘ چند سال پہلے‘ وہ براہِ محبت ہم سے ملنے کیلئے امریکہ تشریف لائے تو پہلی مرتبہ ملاقات کے دوران‘ اُن کی عالمانہ شخصیت کے کچھ جوہر کھل کر سامنے آئے اور ہم نے محسوس کیا کہ اُن کی شخصیت کی تعمیر میں استادانہ تعلیم و تربیت نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

دراصل جناب وحید قادری عارفؔ‘ اپنے والدِ محترم حضرت العلامہ ابو الفضل سید محمود قادریؒ کے فرزندِ دلبند ہیں جن کی عربی‘ اُردو اور فارسی تعلیم و تربیت پر حضرت ؒ کی نگاہِ خاص رہی اور حضرتؒ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا علمی جانشین پیدا فرمادیا تھا۔ اب اگر کوئی جنابِ عارفؔ کو سطحی نظر سے دیکھ کر حیران ہوجائے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ اس عمر کے زمرہ میں اور اِس زمانے میں ایسی صلاحیت کے لوگ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔

جنابِ عارف ؔ سے ہماری دوسری ملاقات مئی ۲۰۱۳؁ ء میں عمرہ و زیارت کے بعد جدہ میں ہوئی۔ اِس مختصر و مفید ملاقات میں ہم نے محسوس کیا کہ وہ فطرتاََ اک خاموش طبع اور پُر خلوص انسان ہیں لیکن اُن کے کلام کی ایک جھلک دیکھ کر اور سن کر یہ احساس ہوا کہ اُن کی ساری پُر گوئی ان کے کلامِ بلاغت نظام میں پوشیدہ ہے۔

جناب سید وحید قادری عارفؔ کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل ہے۔ تقریباََ تمام مروّجہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ سنبھل کر شعر کہتے ہیں اور بہت عمدہ کہتے ہیں۔ خاندانی اقدارات و ارادات میں آنکھیں کھول کر ملکِ عرب میں عرصہء دراز سے تعیّناتی کے باعث خوش نصیبوں کے زمرہ میں شامل ہو کر ‘ نعتِ نبی ﷺ کو حرزِ جان بنا چکے ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام ’’سرمایہء حیات‘‘ ترتیب و طباعت کے مراحل سے گذر رہا ہے۔ ہر نعت اپنی جگہ جامع و عمدہ ہے۔ نعتیہ کلام سے چند اشعار بطور نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں ؎

تسکینِ دلِ مضطر کے لئے بس اُن کا تصور کافی ہے

یہ بھی تو ہے اک اندازِ کرم‘ اندازِ کرم کا کیا کہنا

ہو طلب جتنی یہاں اس سے سوا ملتا ہے

کون ہے ایسا سخی‘ اُن کی سخاوت کے سوا

دیدار کے پیاسوں کو دیدار کی حسرت ہے

بس اتنی نوازش اب ائے بحرِ کرم کرنا

کرمِ شاہِ مدینہ کے تصدق عارفؔ

میری قسمت میں یہاں بارہا آنا آیا

یہ وہ در ہے جہاں فرطِ ادب سے

فرشتے بھی کھڑے ہیں سر جھکا کر

اُن کا دامن کیا ملا‘ اسرارِ ہستی کھل گئے

آدمی کی یوں ہوئی خود سے شناسائی کہ بس

مرادیں اپنی پاتے ہیں جہاں پر اصفیاء سارے

وہیں شرمندہ شرمندہ پسِ دیوار میں بھی ہوں

دور ہوں آپ کے قدموں سے یہ سچ ہے آقا

میری حالت سے مگر آپ خبردار تو ہیں

کسی سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کیسے تھے

کہا کہ دیکھ لو قرآن پوچھتے کیا ہو

خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گذشتہ ساری

اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے

جنابِ عارف ؔ سلیس زبان میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں جس میں بے ساختگی کا عنصر شامل ہے۔ جگہ جگہ عربی و فارسی تراکیب کا استعمال کلام میں جامعیّت پیدا کرتا ہے۔ ایک ہی مضمون کو الگ الگ انداز سے باندھنے کا سلیقہ قدم قدم نمایاں ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بس پڑھیئے اور لطف لیتے جائیے ؎

ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ

بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے

جوشِ رحمت اس طرف عصیاں کی کثرت اِس طرف

جب کبھی سوچا ندامت سے پسینے سے چلے

مدینہ کھینچ لاتی ہے ہمیں نسبت غلامی کی

خدا کی شان ہم کمتر بھی کا والاحسب نکلے

بیاں کرنے لگا ہوں مدحتِ سرکار میں عارف ؔ

عجب اک کیف طاری قلب سے نوکِ زباں تک ہے

مری قسمت مری قسمت ہے عارفؔ

گذر جو اُن کے در پر ہو رہی ہے

آپ کے در کے غلاموں کی غلامی مل جائے

اپنی اوقات جو سمجھی تو یہی سمجھی ہے

کچھ لکھا یا نہ لکھا اس کے سوا کیا عارفؔ

ہے یہی اپنا ہُنر‘ نعتِ نبی لکھی ہے

اگر کسی کو نعتِ نبی ﷺ لکھنے کا ہُنر آجائے اور وہ ہُنر اُس کا مقدر ہوجائے تو یہ بڑی بات ہے۔ جناب وحید قادری عارفؔ ‘ نہ صرف نام کے عارف ہیں بلکہ وہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف بھی ہیں کہ اُن کو قُربتِ حرمین کے ساتھ دولتِ دارین بھی نصیب ہوئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف نے اپنے نعتیہ کلام کو بجا طور پر ’’سرمایہء حیات‘‘ کا جاوداں نام دے دیا ہے۔

Dr. Taufiq Ansari Ahmed

4 Clover Circle

(Streamwood, IL 60107-2361 (USA

Email: taufiqaahmed@yahoo.com