آپ «نصرؔتی کے معراج نامے ۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 9: سطر 9:
ABSTRACT: Nusrati was a poet of court of King Aadil Shah, who wrote various Mathnavies (poem consisting each couplet of two similar sound's word i.e. Qafiya). He narrated Maeraj-e-Nabavi (S.A.W) in his poems "Gulshan-e-Ishq" and "Ali Nama" in detail. The article placed below showers light over style and textual treasure of poems containing narrative of sacred journey of Prophet Muhammad (S.A.W). Nusrati used terms of astronomy to elaborate different mile stones of that sacred journey.     
ABSTRACT: Nusrati was a poet of court of King Aadil Shah, who wrote various Mathnavies (poem consisting each couplet of two similar sound's word i.e. Qafiya). He narrated Maeraj-e-Nabavi (S.A.W) in his poems "Gulshan-e-Ishq" and "Ali Nama" in detail. The article placed below showers light over style and textual treasure of poems containing narrative of sacred journey of Prophet Muhammad (S.A.W). Nusrati used terms of astronomy to elaborate different mile stones of that sacred journey.     


[[نصرتی]] عادل شاہی دربار کا ملک الشعراء تھا ۔اس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام الناس ہی کا نہیں خود بادشاہ کا دل جیت لیا تھا۔ اس نے بیجاپور کے تین بادشاہوں کا دور دیکھا اور ہرایک کے دربار سے اس کی وابستگی رہی تھی ۔ مصنف ’’تذکرۂ شعراء دکن ‘‘ نے ان کا نام محمد نصرت تحریر کیا ہے ۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے والد عادل شاہی فوج میں سلحدار تھے اور بادشاہ کی نظر میں ان کی قدر و منزلت تھی ۔انھوں نے نصرتی کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھا ۔نصرتیؔ نے اپنے احوال خود ’’گلشنِ عشق ‘‘میں بیان کر دیئے ہیں۔وہ کہتا ہے ؎
[[نصرتی]] عادل شاہی دربار کا ملک الشعراء تھا ۔اس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام الناس ہی کا نہیں خود بادشاہ کا دل جیت لیا تھا۔ اس نے بیجاپور کے تین بادشاہوں کا دور دیکھا اور ہرایک کے دربار سے اس کی وابستگی رہی تھی ۔ مصنف ’’تذکرۂ شعراء دکن ‘‘ نے ان کا نام محمد نصرت تحریر کیا ہے ۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے والد عادل شاہی فوج میں سلحدار تھے اور بادشاہ کی نظر میں ان کی قدر و منزلت تھی ۔انھوں نے نصرتی کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھا ۔نصرتیؔ نے اپنے احوال خود ’’گلشنِ عشق ‘‘میںبیان کر دیئے ہیں۔وہ کہتا ہے ؎


کہ تھا مج پدر سو شجاعت مآب
کہ تھا مج پدر سو شجاعت مآب
سطر 101: سطر 101:
کہ ہے اے حبیب خدا تج سوں آس  
کہ ہے اے حبیب خدا تج سوں آس  


جھٹک گرد تج پگ کی نعلین کی
جھٹک گرد تج پگ کی نعلین کی


کہ ہو روشنی دل کی مج نین کی
کہ ہو روشنی دل کی مج نین کی


(ایضاً ، ’’گلشنِ عشق‘‘ ، ص ۲۱ )  
(ایضاً ، ’’گلشنِ عشق‘‘ ، ص ۲۱ )  


یعنی عرش الٰہی آپؐسے یہ التماس کر رہا ہے کہ آپؐ اپنے پیروں اور نعلین کی دھول جھٹک دیں تاکہ اس سے میری آنکھ اوور دل روشن ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ استغنا میں یہ کلام گستاخی نہیں بلکہ آپ ؐ کی آمد سے عرش الٰہی کے مرتبے کے بلند ہوجانے کی طرف شاعر کا اشارہ ہے ۔ سمند ہوا آپ ؐ کا رہ رو بنا اور آپ ؐ کو اللہ رب العزت نے لا مکان کی سیر کرا ئی ۔نصرتی کہتا ہے کہ لامکاں کی صفت کو ئی کیا بیان کرے ۔اس کی شرح میں ہمارا سخن گویا گونگا ہے ،اس میں اتنی بھی سکت نہیں ہے ۔یہ لامکاں ذات اقدس کا مکان ہے ۔اس کی مثال دی نہیں جا سکتی ۔یہ ایسی جگہ ہے ،جس کی کوئی سمت نہیں ۔اس مقام پر آپ ؐ اور رب کریم کے درمیان قاب قوسین کا فاصلہ رہ گیا تھا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں واسطے کا پردہ بھی اٹھا لیا گی ۔اب محب و محبوب میں کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسی مقام پر آپؐ کو رویتِ عین حاصل ہوا اور حرف وصوت کے بغیر حبیب و محبوب کے درمیان گفتگو ہوئی ۔نبی ِپاک ؐ کی جانب سے رب قدیر پر تحیّت پڑھی گئی تو رب کی طرف سے سلام ہیش کیا گیا۔ آپ ؐ پر قسمہا قسم کی نوازشوں اور رحمتوں کی بارش ہوئی ۔ محبت کا دریا یہاں موجزن تھااور اس میں اخلاص کی موجیں اُٹھ رہی تھیں ۔اس بزم کا ساقی بڑا فیاض تھا ،اس نے نبی اور نبیؐ کی امت پر بڑا کرم کا معاملہ کیا ۔ یہاں جتنے بھی راز ہاے پنہاں کا نزول ہوا وہ سب آپؐ کے قلب اطہر کے خزانے میں محفوظ ہوگئے ۔اس رازہاے پنہاںکے گوہر معنی سنج آپؐ خود ہیں اور راز ہاے مخفی کے گنج گوہر بھی آپؐ ہی ہیں۔آپ ؐ نے یہاں جتنا فیض پایا وہ تمام امت کے لیے ہدیہ رہا ۔آپ ؐ کا یہ علوی سفر اتنا سریع و سہل تھا کہ جگ والے سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔آپ V کے محبان ابوبکرؓ،عمرؓ ،عثمانؓ اور حضرت علی ؓ آپؐ کی لائی ہوئی نعمتوں سے سرفراز ہوئے ۔تمغۂ صداقت ابوبکرکو عدالت حضرت عمرؓ کو ،حضرت عثمان ؓ کو حیا اور حضرت علیؓ کو شجاعت کے تمغہ ہاے نعمۃ ملے۔آخر میں ان صحابہ کی مدحت بیان کرکے اس معراج نامے کا خاتمہ کیا ہے  
یعنی عرش الٰہی آپؐسے یہ التماس کر رہا ہے کہ آپؐ اپنے پیروں اور نعلین کی دھول جھٹک دیں تاکہ اس سے میری آنکھ اوور دل روشن ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ استغنا میں یہ کلام گستاخی نہیں بلکہ آپ ؐ کی آمد سے عرش الٰہی کے مرتبے کے بلند ہوجانے کی طرف شاعر کا اشارہ ہے ۔ سمند ہوا آپ ؐ کا رہ رو بنا اور آپ ؐ کو اللہ رب العزت نے لا مکان کی سیر کرا ئی ۔نصرتی کہتا ہے کہ لامکاں کی صفت کو ئی کیا بیان کرے ۔اس کی شرح میں ہمارا سخن گویا گونگا ہے ،اس میں اتنی بھی سکت نہیں ہے ۔یہ لامکاں ذات اقدس کا مکان ہے ۔اس کی مثال دی نہیں جا سکتی ۔یہ ایسی جگہ ہے ،جس کی کوئی سمت نہیں ۔اس مقام پر آپ ؐ اور رب کریم کے درمیان قاب قوسین کا فاصلہ رہ گیا تھا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں واسطے کا پردہ بھی اٹھا لیا گی ۔اب محب و محبوب میں کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسی مقام پر آپؐ کو رویتِ عین حاصل ہوا اور حرف وصوت کے بغیر حبیب و محبوب کے درمیان گفتگو ہوئی ۔نبی ِپاک ؐ کی جانب سے رب قدیر پر تحیّت پڑھی گئی تو رب کی طرف سے سلام ہیش کیا گیا۔ آپ ؐ پر قسمہا قسم کی نوازشوں اور رحمتوں کی بارش ہوئی ۔ محبت کا دریا یہاں موجزن تھااور اس میں اخلاص کی موجیں اُٹھ رہی تھیں ۔اس بزم کا ساقی بڑا فیاض تھا ،اس نے نبی اور نبیؐ کی امت پر بڑا کرم کا معاملہ کیا ۔ یہاں جتنے بھی راز ہاے پنہاں کا نزول ہوا وہ سب آپؐ کے قلب اطہر کے خزانے میں محفوظ ہوگئے ۔اس رازہاے پنہاںکے گوہر معنی سنج آپؐ خود ہیں اور راز ہاے مخفی کے گنج گوہر بھی آپؐ ہی ہیں۔آپ ؐ نے یہاں جتنا فیض پایا وہ تمام امت کے لیے ہدیہ رہا ۔آپ ؐ کا یہ علوی سفر اتنا سریع و سہل تھا کہ جگ والے سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔آپ V کے محبان ابوبکرؓ،عمرؓ ،عثمانؓ اور حضرت علی ؓ آپؐ کی لائی ہوئی نعمتوں سے سرفراز ہوئے ۔تمغۂ صداقت ابوبکرکو عدالت حضرت عمرؓ کو ،حضرت عثمان ؓ کو حیا اور حضرت علیؓ کو شجاعت کے تمغہ ہاے نعمۃ ملے۔آخر میں ان صحابہ کی مدحت بیان کرکے اس معراج نامے کا خاتمہ کیا ہے  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)