آپ «مدحت نامہ - آن لائن پڑھیے» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5,105: سطر 5,105:


====خالدؔ شمس الحسن====
====خالدؔ شمس الحسن====
(۱۹۲۶ء دہلی…۳۰؍جون ۱۹۹۵ء کراچی)
(۱۹۲۶ء دہلی…۳۰؍جون ۱۹۹۵ء کراچی)
نازشِ رحمتِ کبریا ہیں یہی
نازشِ رحمتِ کبریا ہیں یہی
صاحبِ فیض ولطف وعطا ہیں یہی
صاحبِ فیض ولطف وعطا ہیں یہی
مصطفی ہیں، حبیب خدا ہیں یہی
مصطفی ہیں، حبیب خدا ہیں یہی
عاصیوں کے لیے آسرا ہیں یہی
عاصیوں کے لیے آسرا ہیں یہی
ہیں یہی وجہ تخلیق کون ومکاں
ہیں یہی وجہ تخلیق کون ومکاں
کُن سے پہلے جو تھی وہ صدا ہیں یہی
کُن سے پہلے جو تھی وہ صدا ہیں یہی
سب سے اعلیٰ وافضل ہے ذاتِ خدا
سب سے اعلیٰ وافضل ہے ذاتِ خدا
ہر فضیلت میں بعداز خدا ہیں یہی
ہر فضیلت میں بعداز خدا ہیں یہی
نور سے جس کے روشن ہیں شمس وقمر
نور سے جس کے روشن ہیں شمس وقمر
وہ ہدایت کاروشن دیا ہیں یہی
وہ ہدایت کاروشن دیا ہیں یہی
میں نہ چھوڑوں گا خالدؔ درمصطفی
میں نہ چھوڑوں گا خالدؔ درمصطفی
میرے آقا ہیں مشکل کشا ہیں یہی
میرے آقا ہیں مشکل کشا ہیں یہی
 
t
 
خالد علیگ
 
 
====خالد علیگ====
 
(۱۹۲۳ء فرخ آباد … ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کراچی)
(۱۹۲۳ء فرخ آباد … ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کراچی)
السلام اے رونقِ افزائے گلزارِ جہاں
السلام اے رونقِ افزائے گلزارِ جہاں
السلام اے بے مثال و بے نظیر و بے کراں
السلام اے بے مثال و بے نظیر و بے کراں
السلام اے ماورائے گردشِ لیل و نہار
السلام اے ماورائے گردشِ لیل و نہار
السلام اے زینتِ زیبائشِ کون و مکاں  
السلام اے زینتِ زیبائشِ کون و مکاں  
السلام اے ابرِ رحمت بہرِ کشت و مرغزار
السلام اے ابرِ رحمت بہرِ کشت و مرغزار
السلام اے چہرۂ انوار فترت آشکار
السلام اے چہرۂ انوار فترت آشکار
السلام اے فطرتِ زندہ کی تخلیقِ حسیں  
السلام اے فطرتِ زندہ کی تخلیقِ حسیں  
السلام اے شاعرِ آزاد کی فکرِ حسیں
السلام اے شاعرِ آزاد کی فکرِ حسیں
السلام اے خالقِ عالم کے سادہ شاہکار
السلام اے خالقِ عالم کے سادہ شاہکار
  السلام اے بے نیازِ ہر دوعالم السلام  
  السلام اے بے نیازِ ہر دوعالم السلام  
السلام اے قاطعِ ہر جہل ِخاص وجہل ِ عام
السلام اے قاطعِ ہر جہل ِخاص وجہل ِ عام
روشنی تیرا تکلم ، روشنی تیرا کلام
روشنی تیرا تکلم ، روشنی تیرا کلام
السلام اے خاتمِ ہستی کے تابندہ نگیں
السلام اے خاتمِ ہستی کے تابندہ نگیں
السلامِ رحمتِ کل رحمت اللعالمیں
السلامِ رحمتِ کل رحمت اللعالمیں
تجھ سے جو بیگانہ ہے واللہ وہ انساں نہیں
تجھ سے جو بیگانہ ہے واللہ وہ انساں نہیں
-
-
کہیں پھول بن کر برستے ہیں پتھر
کہیں پھول بن کر برستے ہیں پتھر
کہیں خون آلود چادر ہے تن پر
کہیں خون آلود چادر ہے تن پر
چلے بھی تو راہوںمیں کانٹے بچھائے
چلے بھی تو راہوںمیں کانٹے بچھائے
ستم جھیل کر بھی سدا مسکرائے
ستم جھیل کر بھی سدا مسکرائے
وہ چاہیں تو کٹ جائے ماہِ منور
وہ چاہیں تو کٹ جائے ماہِ منور
وہ چاہیں تو تھم جائے نبضِ گلِ تر
وہ چاہیں تو تھم جائے نبضِ گلِ تر
نہ نفرت نہ کینہ نہ بغض و عداوت
نہ نفرت نہ کینہ نہ بغض و عداوت
لبوں پر دعائیں ہیں درسِ عنایت
لبوں پر دعائیں ہیں درسِ عنایت
لگائی گئی جب غلاموں� پہ تہمت
لگائی گئی جب غلاموں� پہ تہمت
ہوئی ساری دنیامیں رسوا شرافت  
ہوئی ساری دنیامیں رسوا شرافت  
مگر پھر رسالت کو آیا جلال
مگر پھر رسالت کو آیا جلال
بنے وہ غریبوں ، یتیموں کی ڈھال
بنے وہ غریبوں ، یتیموں کی ڈھال
مظالم کوروکاتھا اکثر نبی نے
مظالم کوروکاتھا اکثر نبی نے
سمیٹایتیموں کو بڑھ کر نبی نے
سمیٹایتیموں کو بڑھ کر نبی نے
بچھائے اُجالے ، مٹائی جہالت
بچھائے اُجالے ، مٹائی جہالت
رسولِ خدا کی ہے جدّت روایت
رسولِ خدا کی ہے جدّت روایت
 
t
 
خالد معین
====خالد معین ====
 
 
(۳؍ جون ۱۹۲۴ء کراچی)
(۳؍ جون ۱۹۲۴ء کراچی)
یہی ہے زیست کاحاصل نظر میں رہ جاؤں
یہی ہے زیست کاحاصل نظر میں رہ جاؤں
تمہارا در نہ ملے تو سفر میں رہ جاؤں
تمہارا در نہ ملے تو سفر میں رہ جاؤں
تمہارا دستِ کرم جس گھڑی نہ ہومجھ پر
تمہارا دستِ کرم جس گھڑی نہ ہومجھ پر
عجب نہیں صفِ نامعتبر میں رہ جاؤں
عجب نہیں صفِ نامعتبر میں رہ جاؤں
میں اُڑ رہا ہوں تو یہ بھی کرم تمہارا ہے
میں اُڑ رہا ہوں تو یہ بھی کرم تمہارا ہے
اُلجھ کے ورنہ غمِ بال وپر میں رہ جاؤں
اُلجھ کے ورنہ غمِ بال وپر میں رہ جاؤں
طلب کے پھول جہاںسب رتوں میں کھلتے ہیں
طلب کے پھول جہاںسب رتوں میں کھلتے ہیں
میں مثلِ خاک اُسی رہ گزر میں رہ جاؤں
میں مثلِ خاک اُسی رہ گزر میں رہ جاؤں
خوشا وہ اسمِ محمد ، خوشا وہ بابِ یقیں
خوشا وہ اسمِ محمد ، خوشا وہ بابِ یقیں
میں کیسے غفلتِ شام و سحر میں رہ جاؤں
میں کیسے غفلتِ شام و سحر میں رہ جاؤں
اے کارِ عشق محمد ، یہ کم نہیں ہے مجھے
اے کارِ عشق محمد ، یہ کم نہیں ہے مجھے
تمام عمر میں تیرے اثر میں رہ جاؤں  
تمام عمر میں تیرے اثر میں رہ جاؤں  
 
t
 
خان آصف
 
====خان آصف====
 
(۱۹۴۰ء، رامپور…۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
(۱۹۴۰ء، رامپور…۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
جہاں بھی سلسلۂ قال وقیل ٹھہرے گا
جہاں بھی سلسلۂ قال وقیل ٹھہرے گا
تواپنے آپ ہی اپنی دلیل ٹھہرے گا
تواپنے آپ ہی اپنی دلیل ٹھہرے گا
شعورِ منزلِ انسانیت توآجائے
شعورِ منزلِ انسانیت توآجائے
ہرایک دور میں توسنگِ میل ٹھہرے گا
ہرایک دور میں توسنگِ میل ٹھہرے گا
عذابِ جاں کے فرشتے بھی خود عذاب میں ہیں
عذابِ جاں کے فرشتے بھی خود عذاب میں ہیں
سناہے جب سے تو میرا وکیل ٹھہرے گا
سناہے جب سے تو میرا وکیل ٹھہرے گا
جو بہہ گیاہے تیرے درد کے حوالے سے
جو بہہ گیاہے تیرے درد کے حوالے سے
وہ ایک اشک بھی وسعت میں نیل ٹھہرے گا
وہ ایک اشک بھی وسعت میں نیل ٹھہرے گا
 
t
 
خان معراج
 
 
====خان معراج====
 
(۱۰؍جون ۱۹۶۴ء، شاہجہانپور)
(۱۰؍جون ۱۹۶۴ء، شاہجہانپور)
پھیلا ہواہے ایک اجالا قدم قدم
پھیلا ہواہے ایک اجالا قدم قدم
کیا دلکش وحسیں ہے مدینہ قدم قدم
کیا دلکش وحسیں ہے مدینہ قدم قدم
طیبہ نگر اک ایسا نگر ہے کہ جس جگہ
طیبہ نگر اک ایسا نگر ہے کہ جس جگہ
ہے راحت وسکون کی دنیا قدم قدم
ہے راحت وسکون کی دنیا قدم قدم
درسِ نبی کو عام کریں حسنِ خلق سے
درسِ نبی کو عام کریں حسنِ خلق سے
اے دوست ہے یہ فرض ہمارا قدم قدم
اے دوست ہے یہ فرض ہمارا قدم قدم
میں بامراد درسے چلاہوں حضور کے
میں بامراد درسے چلاہوں حضور کے
احسان مند ہے دلِ شیدا قدم قدم
احسان مند ہے دلِ شیدا قدم قدم
آقا کی چشم لطف و کرم کا یہ فیض ہے
آقا کی چشم لطف و کرم کا یہ فیض ہے
اتنی سنور گئی ہے جو دنیا قدم قدم
اتنی سنور گئی ہے جو دنیا قدم قدم
طیبہ کی سمت جب میں چلاہوں ا ے دوستو!
طیبہ کی سمت جب میں چلاہوں ا ے دوستو!
دل نے دکھایا ہے مجھے رستہ قدم قدم
دل نے دکھایا ہے مجھے رستہ قدم قدم
منزل پراپنی پہنچا ہوں معراجؔ بے خطر
منزل پراپنی پہنچا ہوں معراجؔ بے خطر
رہبر ہوئے ہیں میرے جو آقا قدم قدم
رہبر ہوئے ہیں میرے جو آقا قدم قدم
 
t
 
خسروؔ فیروز ناطق
====خسروؔ فیروز ناطق====
 
(۱۹؍نومبر۱۹۴۴ء بدایوں)   
(۱۹؍نومبر۱۹۴۴ء بدایوں)   
وہ روشنی جو خزینے کے بیچ سے نکلی
وہ روشنی جو خزینے کے بیچ سے نکلی
فقط وہ ایک نگینے کے بیچ سے نکلی
فقط وہ ایک نگینے کے بیچ سے نکلی
متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن
متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن
حضور آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی
حضور آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی
چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اُس کا سفر
چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اُس کا سفر
وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی
وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی
دُعا جو حجرئہ اسود کو چُوم کر مانگی
دُعا جو حجرئہ اسود کو چُوم کر مانگی
قبولیت کے مہینے کے بیچ سے نکلی
قبولیت کے مہینے کے بیچ سے نکلی
وہ بُوئے ُگل کہ معطر ہے جس سے دل خسروؔ!
وہ بُوئے ُگل کہ معطر ہے جس سے دل خسروؔ!
مرے نبی کے پسینے کے بیچ سے نکلی
مرے نبی کے پسینے کے بیچ سے نکلی
 
t
-
-
کسی  سفینے  سے  پہنچے ‘  کسی  بھی  زینے  سے
کسی  سفینے  سے  پہنچے ‘  کسی  بھی  زینے  سے
دعا  کا  گہرا  تعلق  ہے  دل  سے‘  سینے  سے
دعا  کا  گہرا  تعلق  ہے  دل  سے‘  سینے  سے
گداگری  کے  بھی  آداب  کچھ  رکھو ملحوظ
گداگری  کے  بھی  آداب  کچھ  رکھو ملحوظ
جو مانگنا  ہو  وہ  مانگو  مگر  قرینے  سے
جو مانگنا  ہو  وہ  مانگو  مگر  قرینے  سے
میں  ایک  رندِ  بلا نوش  بر  لبِ  کوثر
میں  ایک  رندِ  بلا نوش  بر  لبِ  کوثر
غرض  انہیں  ہے  پلانے  سے  مجھ  کو  پینے  سے
غرض  انہیں  ہے  پلانے  سے  مجھ  کو  پینے  سے
نفس  نفس  میں  رچی  ہے  عجیب  سی  خوشبو
نفس  نفس  میں  رچی  ہے  عجیب  سی  خوشبو
لیا  ہے  روح  نے  اک  پیرہن  مدینے  سے
لیا  ہے  روح  نے  اک  پیرہن  مدینے  سے
درود  پڑھ  کے  جو  پھونکا  ہے  جسم  پر  خسروؔ!
درود  پڑھ  کے  جو  پھونکا  ہے  جسم  پر  خسروؔ!
مہک  گلاب  کی  آنے  لگی  پسینے  سے  
مہک  گلاب  کی  آنے  لگی  پسینے  سے  
 
t
 
خواجہ حمید الدین شاہدؔ
 
====خواجہ حمید الدین شاہدؔ====
 
(۴؍اکتوبر ۱۹۱۷ء حیدرآباد دکن…۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کراچی)
(۴؍اکتوبر ۱۹۱۷ء حیدرآباد دکن…۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کراچی)
دونوں عالم جان ودل سے ہیں فدائے مصطفی  
دونوں عالم جان ودل سے ہیں فدائے مصطفی  
کتنی سادہ کتنی دلکش ہے ادائے مصطفی  
کتنی سادہ کتنی دلکش ہے ادائے مصطفی  
زلفِ مشکیں باعثِ رّدِ بلائے دوجہاں
زلفِ مشکیں باعثِ رّدِ بلائے دوجہاں
سرمۂ چشمِ بصیرت خاکِ پائے مصطفی  
سرمۂ چشمِ بصیرت خاکِ پائے مصطفی  
آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کاہوں یانبی
آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کاہوں یانبی
ہو نہیں سکتاکسی کا آشنائے مصطفی  
ہو نہیں سکتاکسی کا آشنائے مصطفی  
اس سے بڑھ کراورکیا ہوگی عطائے کردگار
اس سے بڑھ کراورکیا ہوگی عطائے کردگار
لب پہ ہے نامِ نبی دل میں ولائے مصطفی  
لب پہ ہے نامِ نبی دل میں ولائے مصطفی  
بے نیاز قصروایواں دشمنِ جاہ وحشم  
بے نیاز قصروایواں دشمنِ جاہ وحشم  
فخرِ شاہاں رشکِ سلطاں ہے گدائے مصطفی
فخرِ شاہاں رشکِ سلطاں ہے گدائے مصطفی
شاہدؔ اس کی زندگانی  باعثِ صد رشک ہے
شاہدؔ اس کی زندگانی  باعثِ صد رشک ہے
ہرنفس کرتاہے دل سے جو ثنائے مصطفی
ہرنفس کرتاہے دل سے جو ثنائے مصطفی
 
t
 
 
-
-
عیاں ہے زمانے میں شانِ محمد
عیاں ہے زمانے میں شانِ محمد
دوعالم میں ’’ہرجا‘‘ نشانِ محمد
دوعالم میں ’’ہرجا‘‘ نشانِ محمد
خداودند عالم سے ہوتی ہیں باتیں  
خداودند عالم سے ہوتی ہیں باتیں  
زبانِ خدا ہے زبانِ محمد
زبانِ خدا ہے زبانِ محمد
محمد کی ہے دو جہاں میں خدائی
محمد کی ہے دو جہاں میں خدائی
جہانِ خدا ہے جہانِ محمد
جہانِ خدا ہے جہانِ محمد
کوئی میہماں کی یہ رفعت تو دیکھے
کوئی میہماں کی یہ رفعت تو دیکھے
خدا خود ہوا میزبانِ محمد
خدا خود ہوا میزبانِ محمد
یہی ہے عبادت یہی بندگی ہے  
یہی ہے عبادت یہی بندگی ہے  
مرا سر ہے اور آستانِ محمد
مرا سر ہے اور آستانِ محمد
خدا کے محمد ہی بس رازداں ہیں
خدا کے محمد ہی بس رازداں ہیں
خدا ہے فقط رازدانِ محمد
خدا ہے فقط رازدانِ محمد
کرے ناز کیا کوئی حسنِ بیان پر
کرے ناز کیا کوئی حسنِ بیان پر
نہیں سہل شاہدؔ بیانِ محمد
نہیں سہل شاہدؔ بیانِ محمد
 
t
====خواجہ ریاض حسن انورؔ====
خواجہ ریاض حسن انورؔ
 
(۱۰؍نومبر۱۹۴۱ء بہار…۱۲؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)
(۱۰؍نومبر۱۹۴۱ء بہار…۱۲؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)
مدّت سے ہم سخن ہیں ثناخوانِ مصطفی
مدّت سے ہم سخن ہیں ثناخوانِ مصطفی
لیکن عمل ہے حسبِ حریفانِ مصطفی
لیکن عمل ہے حسبِ حریفانِ مصطفی
رحمت میں بے حساب ہے پیارے نبی کی ذات
رحمت میں بے حساب ہے پیارے نبی کی ذات
وسعت میں بے کنار ہے دامانِ مصطفی
وسعت میں بے کنار ہے دامانِ مصطفی
کیا کچھ نہ خوبیاں تھیں محمد کی ذات میں  
کیا کچھ نہ خوبیاں تھیں محمد کی ذات میں  
یوں ہی نہیں ہے دہر ثناخوانِ مصطفی
یوں ہی نہیں ہے دہر ثناخوانِ مصطفی
اُمّت جو دوسروں کی تھی اُن پر بھی آشکار
اُمّت جو دوسروں کی تھی اُن پر بھی آشکار
فضلِ خدا ہوا تو بہ فیضانِ مصطفی
فضلِ خدا ہوا تو بہ فیضانِ مصطفی
رحمت ہے سر بلند اُسی ذاتِ پاک سے  
رحمت ہے سر بلند اُسی ذاتِ پاک سے  
جس سے ہیں روشناس بہ عنوانِ مصطفی
جس سے ہیں روشناس بہ عنوانِ مصطفی
آئے جھلک نہ حسنِ عقیدت سے شرک کی
آئے جھلک نہ حسنِ عقیدت سے شرک کی
اُلفت  میں  ہو  غلو  ، نہ  محبّانِِ  مصطفی
اُلفت  میں  ہو  غلو  ، نہ  محبّانِِ  مصطفی
یہ افتخار کم تو نہیں ہے کسی طرح
یہ افتخار کم تو نہیں ہے کسی طرح
انورؔ ! بھی ہے غلامِ غلامانِ مصطفی
انورؔ ! بھی ہے غلامِ غلامانِ مصطفی
 
t
 
خورشیداحمر
 
====خورشیداحمر====
 
  (۱۹۴۰ء کانپور)
  (۱۹۴۰ء کانپور)
نہ فلسفے سے نہ حکمت رسی ملتاہے  
نہ فلسفے سے نہ حکمت رسی ملتاہے  
خدا کا قرب توقربِ نبی سے ملتاہے
خدا کا قرب توقربِ نبی سے ملتاہے
ہجوم غم میں سکوں گرکسی سے ملتاہے
ہجوم غم میں سکوں گرکسی سے ملتاہے
وہ انبساط ثنائے نبی سے ملتاہے
وہ انبساط ثنائے نبی سے ملتاہے
بجھی تھی جس کی دعاؤں سے آتشِ نمرود
بجھی تھی جس کی دعاؤں سے آتشِ نمرود
یہ سلسلہ بھی حضور آپ ہی سے ملتاہے
یہ سلسلہ بھی حضور آپ ہی سے ملتاہے
 
وہ کربلا کی فغاں ہوکہ سوزوساز بلال
 
وہ کربلا کی فغاں ہوکہ سوزوساز بلال
 
مقامِ شوق توعشق نبی سے ملتاہے
مقامِ شوق توعشق نبی سے ملتاہے
درنبی سے جوملتاہے جامِ عرفانی
درنبی سے جوملتاہے جامِ عرفانی
مجھے سُرور اسی چاندنی سے ملتاہے
مجھے سُرور اسی چاندنی سے ملتاہے
کہاں یہ محفل نعتِ نبی کہاں خورشیدؔ
کہاں یہ محفل نعتِ نبی کہاں خورشیدؔ
یہ درجہ روح کی شائستگی سے ملتاہے
یہ درجہ روح کی شائستگی سے ملتاہے
-
-
پھر عشرت گویائی اے طبع رواں دے دے
پھر عشرت گویائی اے طبع رواں دے دے
سرکار دوعالم کی الفت کو زباں دے دے
سرکار دوعالم کی الفت کو زباں دے دے
مدحت کے لیے یارب وہ حسن بیاں دے دے
مدحت کے لیے یارب وہ حسن بیاں دے دے
جو قطرہ شبنم کودریا کا نشاں دے دے
جو قطرہ شبنم کودریا کا نشاں دے دے
اے ابر کرم میرے گلزارِ معانی کو
اے ابر کرم میرے گلزارِ معانی کو
نرگس کی نظر دے دے سوسن کی زباں دے دے
نرگس کی نظر دے دے سوسن کی زباں دے دے
بارش کی قبا دے دے سوکھے ہوئے پیڑوں کو  
بارش کی قبا دے دے سوکھے ہوئے پیڑوں کو  
عریانی صحرا کو احرام اذاں دے دے
عریانی صحرا کو احرام اذاں دے دے
دینے پہ اگر آئے وہ ذاتِ کرم گستر
دینے پہ اگر آئے وہ ذاتِ کرم گستر
اک اسمِ محمد پریہ دونوں جہاں دے دے
اک اسمِ محمد پریہ دونوں جہاں دے دے
مدت سے حضوری کا ارمان لیے دل ہے
مدت سے حضوری کا ارمان لیے دل ہے
اس خاکِ پریشاں کو منزل کا نشاں دے دے
اس خاکِ پریشاں کو منزل کا نشاں دے دے
 
t
 
خوشنودؔامروہوی
 
====خوشنودؔامروہوی====
 
(۱۹۳۶ء امروہہ بھارت)
(۱۹۳۶ء امروہہ بھارت)
اک معجزہ عجیب سا میری نظر میں ہے
اک معجزہ عجیب سا میری نظر میں ہے
کل کائنات جلوۂ خیرالبشر میں ہے
کل کائنات جلوۂ خیرالبشر میں ہے
ہو جس دُعا کے ساتھ وسیلہ درود کا
ہو جس دُعا کے ساتھ وسیلہ درود کا
مقبولیت کا تاج بھی  اس کے اثر میں ہے
مقبولیت کا تاج بھی  اس کے اثر میں ہے
کشتی ہو زیرِ سایۂ دامانِ مصطفیٰ
کشتی ہو زیرِ سایۂ دامانِ مصطفیٰ
توہر خطر سے دور وہ اپنے سفر میں ہے
توہر خطر سے دور وہ اپنے سفر میں ہے
موجودگی توآپ کی روشن دلیل ہے
موجودگی توآپ کی روشن دلیل ہے
نورالہدی ہے نور جو شمس وقمر میں ہے
نورالہدی ہے نور جو شمس وقمر میں ہے
وجہ بنائے دین بھی دنیا بھی آپ ہیں
وجہ بنائے دین بھی دنیا بھی آپ ہیں
رحمت ہے عالمین میں جن وبشر میں ہے
رحمت ہے عالمین میں جن وبشر میں ہے
تخلیقِ کائنات میںا ٓدم ہے سب کے بعد
تخلیقِ کائنات میںا ٓدم ہے سب کے بعد
لیکن ازل سے نور محمد نظر میں ہے
لیکن ازل سے نور محمد نظر میں ہے
 
t
 
دلاورعلی آزرؔ
 
====دلاورعلی آزرؔ====
 
(۲۱؍نومبر ۱۹۸۴ء حسن ابدال)
(۲۱؍نومبر ۱۹۸۴ء حسن ابدال)
درود پڑھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوئے لوگ
درود پڑھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوئے لوگ
درِنبی کی تب و تاب دیکھتے ہوئے لوگ
درِنبی کی تب و تاب دیکھتے ہوئے لوگ
حضور آپ کو سب سے قریب پاتے ہیں
حضور آپ کو سب سے قریب پاتے ہیں
احد کا حلقۂ احباب دیکھتے ہوئے لوگ
احد کا حلقۂ احباب دیکھتے ہوئے لوگ
تمام دیکھنے والوں پہ رکھتے ہیں سبقت
تمام دیکھنے والوں پہ رکھتے ہیں سبقت
وہ سبز گنبد و محراب دیکھتے ہوئے لوگ
وہ سبز گنبد و محراب دیکھتے ہوئے لوگ
اُنہی کے اِسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے
اُنہی کے اِسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے
پ
پسِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ
سِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ
یہ کس کے نور سے روشن ہے کائنات اُس کی
 
 
یہ کس کے نور سے روشن ہے کائنات اُس کی
 
یہ کون لوگ ہیں مہتاب دیکھتے ہوئے لوگ  
یہ کون لوگ ہیں مہتاب دیکھتے ہوئے لوگ  
خدا کا شکر اداکرتے ہیں دعائوں میں
خدا کا شکر اداکرتے ہیں دعائوں میں
جبینِ وقت پہ محراب دیکھتے ہوئے لوگ
جبینِ وقت پہ محراب دیکھتے ہوئے لوگ
بس اِک بلاوے کے محتاج میں سبھی آزرؔ!
بس اِک بلاوے کے محتاج میں سبھی آزرؔ!
سفر کے باندھ کے اسباب دیکھتے ہوئے لوگ
سفر کے باندھ کے اسباب دیکھتے ہوئے لوگ
 
t
 
دلاورفگار
 
====دلاورفگار====
 
(۸؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں،یوپی…۲۰؍جنوری۱۹۹۸ء، کراچی)
(۸؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں،یوپی…۲۰؍جنوری۱۹۹۸ء، کراچی)
جمال ماہ وانجم عارضِ احمد کی تابانی
جمال ماہ وانجم عارضِ احمد کی تابانی
طلوع صبح خنداں مصطفی کی خندہ پیشانی
طلوع صبح خنداں مصطفی کی خندہ پیشانی
محمد کی غلامی کرکے توبھی سیکھ جائے گا
محمد کی غلامی کرکے توبھی سیکھ جائے گا
جہاں بینی،جہاں گیری،جہاں داری،جہاں بانی
جہاں بینی،جہاں گیری،جہاں داری،جہاں بانی
رسول پاک کو عام آدمی سمجھے توکیا سمجھے
رسول پاک کو عام آدمی سمجھے توکیا سمجھے
قرائن سارے انسانی ،شمائل سارے سبحانی
قرائن سارے انسانی ،شمائل سارے سبحانی
زبان شوق پرنام محمد آگیا آخر
زبان شوق پرنام محمد آگیا آخر
بس اے بیتابی دل بس،یہیں تک تھی پریشانی
بس اے بیتابی دل بس،یہیں تک تھی پریشانی
مرے آقا نے اس حد تک بھراہے میرے داماں کو
مرے آقا نے اس حد تک بھراہے میرے داماں کو
جہاں تک ساتھ دے سکتی تھی میری تنگ دامانی
جہاں تک ساتھ دے سکتی تھی میری تنگ دامانی
سفر میںا ٓخرت کے اور زادِ راہ کیا لیجیے
سفر میںا ٓخرت کے اور زادِ راہ کیا لیجیے
بہت ہے دیدۂ گریاں میں اک اشک پشیمانی
بہت ہے دیدۂ گریاں میں اک اشک پشیمانی
 
نظر جب مصحف رُخ پرپڑی،جبریل نے دیکھا
 
نظر جب مصحف رُخ پرپڑی،جبریل نے دیکھا
 
لکھی ہیں عارض پرنور پر آیات قرآنی
لکھی ہیں عارض پرنور پر آیات قرآنی
قیامت میں فگارِ بے نوا کی دستگیری کو
قیامت میں فگارِ بے نوا کی دستگیری کو
بہت ہے ایک نظم مختصر کی نعت عنوانی
بہت ہے ایک نظم مختصر کی نعت عنوانی
 
-
 
 
نعتے کہ رقم کردی درشانِ محمد
نعتے کہ رقم کردی درشانِ محمد
اعجازِ قلم اَست بہ فیضانِ محمد
اعجازِ قلم اَست بہ فیضانِ محمد
مایوس مباش اے گل پامال وفسردہ
مایوس مباش اے گل پامال وفسردہ
اُمید بہار است زبارانِ محمد
اُمید بہار است زبارانِ محمد
ماراچہ محابا زگراں باریِٔ عصیاں
ماراچہ محابا زگراں باریِٔ عصیاں
اعمال سپردیم بہ میزانِ محمد
اعمال سپردیم بہ میزانِ محمد
اے سالکِ حق ترک مُکن راہِ طریقت
اے سالکِ حق ترک مُکن راہِ طریقت
عرفانِ خدااست زعرفانِ محمد
عرفانِ خدااست زعرفانِ محمد
انسان ونباتات وجمادات چہ معنی
انسان ونباتات وجمادات چہ معنی
خود جنِ وملک تابع فرمانِ محمد
خود جنِ وملک تابع فرمانِ محمد
تشریح مقاماتِ محمد چہ کنم من
تشریح مقاماتِ محمد چہ کنم من
شاہانِ جہاں اند غلامانِ محمد
شاہانِ جہاں اند غلامانِ محمد
رضواں در جنت بکشا شکل چہ بینی
رضواں در جنت بکشا شکل چہ بینی
ما نعت نگاریم ، ثنا خوانِ محمد
ما نعت نگاریم ، ثنا خوانِ محمد
 
t
 
دورؔ ہاشمی کانپوری
 
(۱۹۰۶ء، کانپور…۱۹۷۲ء، کراچی)
====دورؔ ہاشمی کانپوری====
 
(۱۹۰۶ء، کانپور…۱۹۷۲ء، کراچی)
 
اے کہ تراوجودِ پاک دشمنِ فتنہ پروری
اے کہ تراوجودِ پاک دشمنِ فتنہ پروری
اے کہ شکست کردیا تونے طلسمِ آذری
اے کہ شکست کردیا تونے طلسمِ آذری
تیری جناب دم بخود بولہبی وخود سری
تیری جناب دم بخود بولہبی وخود سری
تیرے حضور سرنگوں دبدبۂ سکندری
تیرے حضور سرنگوں دبدبۂ سکندری
اے کہ تری ادا ادا فاتح قلب سومنات
اے کہ تری ادا ادا فاتح قلب سومنات
اے کہ تری نظر نظر حاصلِ حُسنِ دلبری
اے کہ تری نظر نظر حاصلِ حُسنِ دلبری
اے کہ دکھا دکھا دیا تونے جمالِ حق نما
اے کہ دکھا دکھا دیا تونے جمالِ حق نما
اے کہ مٹا مٹا دیا تونے غرور کافری
اے کہ مٹا مٹا دیا تونے غرور کافری
اے کہ ترے نیاز میں ناز کی عشوہ سازیاں
اے کہ ترے نیاز میں ناز کی عشوہ سازیاں
اے کہ تری عبودیت معبد راز خودگری
اے کہ تری عبودیت معبد راز خودگری
عرش سے فرش تک ترے حُسن کی جلوہ پاشیاں
عرش سے فرش تک ترے حُسن کی جلوہ پاشیاں
فرش سے عرش تک تری جلوۂ گۂ پیمبری
فرش سے عرش تک تری جلوۂ گۂ پیمبری
اے کہ تری تجلییاں حاصلِ ظلمت جہاں
اے کہ تری تجلییاں حاصلِ ظلمت جہاں
تیرے کرم نے سرد کی آتشِ سحر سامری
تیرے کرم نے سرد کی آتشِ سحر سامری
اے کہ تراقدم قدم منزلِ امن وعافیت
اے کہ تراقدم قدم منزلِ امن وعافیت
اے کہ ترا نفس نفس دعوت اوج وبرتری
اے کہ ترا نفس نفس دعوت اوج وبرتری
تجھ سے نکھر نکھر گیا چہرۂ صدقِ کائنات
تجھ سے نکھر نکھر گیا چہرۂ صدقِ کائنات
تجھ سے لرزلرز اٹھی روح فسونِ زرگری
تجھ سے لرزلرز اٹھی روح فسونِ زرگری
تجھ سے ملا جہان کو نظم و نظامِ حق شناس
تجھ سے ملا جہان کو نظم و نظامِ حق شناس
تیرے بغیر تھی بہت زلفِ جہاں میں ابتری
تیرے بغیر تھی بہت زلفِ جہاں میں ابتری
 
گنبدِ سبز کے مکیں خاتمِ دہر کے نگیں
 
گنبدِ سبز کے مکیں خاتمِ دہر کے نگیں
 
شاہد محفل یقیں گوہرِ تاج سروری
شاہد محفل یقیں گوہرِ تاج سروری
تیری قبائے کہنہ میں دولتِ دوجہاں کا راز
تیری قبائے کہنہ میں دولتِ دوجہاں کا راز
تیرے قدم میں سجدہ ریز سطوتِ حسن قیصری
تیرے قدم میں سجدہ ریز سطوتِ حسن قیصری
دیدۂ خودنگر پہ تھیں شاق تری تجلیاں
دیدۂ خودنگر پہ تھیں شاق تری تجلیاں
گیسوئے بولہب میں تھی تیرے ہی دم سے ابتری
گیسوئے بولہب میں تھی تیرے ہی دم سے ابتری
دشمنِ جاں پہ بھی اٹھی تیری نگاہِ التفات
دشمنِ جاں پہ بھی اٹھی تیری نگاہِ التفات
یہ تیری شانِ مرحمت یہ تیری بندہ پروری
یہ تیری شانِ مرحمت یہ تیری بندہ پروری
مستی وآگہی کا ناز نشۂ زندگی کاراز
مستی وآگہی کا ناز نشۂ زندگی کاراز
تیرا سبُوچۂ خودی تیری میٔ قلندری
تیرا سبُوچۂ خودی تیری میٔ قلندری
اُن پہ سلام مل گئی جن کوترے طفیل سے
اُن پہ سلام مل گئی جن کوترے طفیل سے
نانِ جویں کی معرفت نعمتِ فقر حیدری
نانِ جویں کی معرفت نعمتِ فقر حیدری
صل علیٰ محمد صل علیٰ محمد
صل علیٰ محمد صل علیٰ محمد
دورؔ اس اسمِ پاک سے دونوں جہاں کی برتری
دورؔ اس اسمِ پاک سے دونوں جہاں کی برتری
 
t
 
ذکی عثمانی
 
====ذکی عثمانی====
 
(۱۴؍جون ۱۹۴۱ء پیلی بھیت … ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء کراچی)
(۱۴؍جون ۱۹۴۱ء پیلی بھیت … ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء کراچی)
یہ واقعہ ہوتولگنے لگے حسیں سب کچھ
یہ واقعہ ہوتولگنے لگے حسیں سب کچھ
کہ بھول جائے جزان کے دلِ حزیں سب کچھ
کہ بھول جائے جزان کے دلِ حزیں سب کچھ
تمہیں ہوباعثِ کون و مکاں تمہیں سب کچھ
تمہیں ہوباعثِ کون و مکاں تمہیں سب کچھ
یہی ہے دینِ مسلماں یہی یقیں سب کچھ
یہی ہے دینِ مسلماں یہی یقیں سب کچھ
 
خدا کے بعد اگر ہے کوئی تو بس تم ہو
 
خدا کے بعد اگر ہے کوئی تو بس تم ہو
 
یہ نکتہ سمجھا توسمجھا ہے نکتہ بیں سب کچھ
یہ نکتہ سمجھا توسمجھا ہے نکتہ بیں سب کچھ
طلب نہیں ہے کسی اور خلد کی دل کو
طلب نہیں ہے کسی اور خلد کی دل کو
مرے لئے تو ہے طیبہ کی سرزمیں سب کچھ
مرے لئے تو ہے طیبہ کی سرزمیں سب کچھ
حضور اپنی محبت کی بھیک دے دیں مجھے
حضور اپنی محبت کی بھیک دے دیں مجھے
کہ اورجو بھی ہے رہ جائے گا یہیں سب کچھ
کہ اورجو بھی ہے رہ جائے گا یہیں سب کچھ
کہاہے میرے نبی نے کہ ہے جہاں اک اور
کہاہے میرے نبی نے کہ ہے جہاں اک اور
یہی حیات یہی زندگی نہیں سب کچھ
یہی حیات یہی زندگی نہیں سب کچھ
چمک دمک میں ہے ایسی طمانیت گویا
چمک دمک میں ہے ایسی طمانیت گویا
درِ نبی سے اٹھالائی ہے جبیں سب کچھ
درِ نبی سے اٹھالائی ہے جبیں سب کچھ
حضور کیاہیں کسے حوصلہ کہ لب کھولے
حضور کیاہیں کسے حوصلہ کہ لب کھولے
کہ ہیں کچھ ان غلاموں کے ہم نشیں سب کچھ
کہ ہیں کچھ ان غلاموں کے ہم نشیں سب کچھ
یہ رنگ پیرویٔ مصطفی میں ہواے کاش
یہ رنگ پیرویٔ مصطفی میں ہواے کاش
کہ ہوذکیؔکے لئے لقمۂ جویں سب کچھ
کہ ہوذکیؔکے لئے لقمۂ جویں سب کچھ
 
t
 
ذکیہ غزل
 
 
====ذکیہ غزل====
 
(۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، کراچی)
(۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، کراچی)
کیا اذنِ حضوری ہو سرکار مدینے میں
کیا اذنِ حضوری ہو سرکار مدینے میں
منگتوں کا بھی لگتا ہے دربار مدینے میں
منگتوں کا بھی لگتا ہے دربار مدینے میں
کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر
کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر
مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں
مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں
 
ہے ورد درودوں کا اور لب پہ ثناخوانی
 
ہے ورد درودوں کا اور لب پہ ثناخوانی
 
رہتا ہے کہاں کوئی بے کار مدینے میں
رہتا ہے کہاں کوئی بے کار مدینے میں
ہر زخم شفا پائے بس خاکِ مدینہ سے
ہر زخم شفا پائے بس خاکِ مدینہ سے
انگار بھی ہوتا ہے، گلزار مدینے میں
انگار بھی ہوتا ہے، گلزار مدینے میں
جب ڈوبنے لگتی ہے کشتی مرے جیون کی
جب ڈوبنے لگتی ہے کشتی مرے جیون کی
ہوتا ہے ہر اک بیڑا پھر پار مدینے میں
ہوتا ہے ہر اک بیڑا پھر پار مدینے میں
بس خواب میں آقا کا دیدار کرا دے جو
بس خواب میں آقا کا دیدار کرا دے جو
اک نعت لکھوں ایسی اس بار مدینے میں
اک نعت لکھوں ایسی اس بار مدینے میں
 
t
 
ذہینؔ شاہ تاجی
 
==== ذہینؔ شاہ تاجی====
 
(۱۹۰۲ء، ریاست جے پور … ۲۳؍جولائی ۱۹۷۸ء، کراچی)
(۱۹۰۲ء، ریاست جے پور … ۲۳؍جولائی ۱۹۷۸ء، کراچی)
تمھی کو دیکھتا ہے دیکھنے والا حقیقت کا  
تمھی کو دیکھتا ہے دیکھنے والا حقیقت کا  
تمھی کو پارہا ہے  پانے والا حُسنِ قدرت کا
تمھی کو پارہا ہے  پانے والا حُسنِ قدرت کا
کہاں فطرت کے دامن میں سماتا حسن فطرت کا
کہاں فطرت کے دامن میں سماتا حسن فطرت کا
بَھلے کو مل گیا آئینہ تیرے حُسنِ سیرت کا  
بَھلے کو مل گیا آئینہ تیرے حُسنِ سیرت کا  
ملا تجھ سے ہی حسنِ غیب کو منظر شہادت کا
ملا تجھ سے ہی حسنِ غیب کو منظر شہادت کا
تری قامت سے دنیا کو یقیں آیا قیامت کا
تری قامت سے دنیا کو یقیں آیا قیامت کا
حقیقت میں یہاں ہر شے،محمد ہی محمد ہے
حقیقت میں یہاں ہر شے،محمد ہی محمد ہے
محمد ہی حقیقی راز ہے کثرت میں وحدت کا
محمد ہی حقیقی راز ہے کثرت میں وحدت کا
محمد نقشِ اول ہے محمد نقشِ آخر ہے
محمد نقشِ اول ہے محمد نقشِ آخر ہے
محمد ہی محمد مشغلہ ہے کلکِ قدرت کا
محمد ہی محمد مشغلہ ہے کلکِ قدرت کا
 
محمد سے ہراک شے میں ہوا مفہوم ِ شے پیدا
 
محمد سے ہراک شے میں ہوا مفہوم ِ شے پیدا
 
ہدایت میں ہدایت کا ،نہایت میں نہایت کا
ہدایت میں ہدایت کا ،نہایت میں نہایت کا
بہارِ رنگ وبو سے جھولیاں بھرد یں زمانے کی
بہارِ رنگ وبو سے جھولیاں بھرد یں زمانے کی
تمھارا پھول سا چہرہ چمن آرا ہے فطرت کا
تمھارا پھول سا چہرہ چمن آرا ہے فطرت کا
تراغم خواریٔ خلقِ خدا سے مضطرب رہنا
تراغم خواریٔ خلقِ خدا سے مضطرب رہنا
زمانے کے لیے پیغام ہے تسکین و راحت کا
زمانے کے لیے پیغام ہے تسکین و راحت کا
کسی کو بھی محبت ہو،کسی سے بھی محبت ہو
کسی کو بھی محبت ہو،کسی سے بھی محبت ہو
ذہینِؔ یوسفی مرکز ہے وہ حسن و محبت کا
ذہینِؔ یوسفی مرکز ہے وہ حسن و محبت کا
t






 
راز زیدی
 
 
====راز زیدی====
 
(۱۳؍مئی ۱۹۲۵ء شاہ پورپٹودی …۲۰؍مئی ۹۱۹۱ء کراچی)  
(۱۳؍مئی ۱۹۲۵ء شاہ پورپٹودی …۲۰؍مئی ۹۱۹۱ء کراچی)  
 
نہیںمعلوم تھا انساں کو خودکیاہے ،خدا کیا ہے
نہیں معلوم تھا انساں کو خودکیاہے ،خدا کیا ہے
 
خدا سے اس کے بندوں کا مسلسل رابطہ تم ہو
خدا سے اس کے بندوں کا مسلسل رابطہ تم ہو
عمل جاری رہے گا تا ابد جس پر زمانے میں  
عمل جاری رہے گا تا ابد جس پر زمانے میں  
کتابِ زندگی کاوہ مکمل ضابطہ تم ہو
کتابِ زندگی کاوہ مکمل ضابطہ تم ہو
 
t
 
راز ؔمرادآبادی
====راز ؔمرادآبادی====
 
(۱۹۱۶ء مرادآباد…۲۳نومبر ۱۹۸۲ء کراچی)
(۱۹۱۶ء مرادآباد…۲۳نومبر ۱۹۸۲ء کراچی)
کیا بتاؤں یہ رازؔکیا ہوں میں  
کیا بتاؤں یہ رازؔکیا ہوں میں  
خاکِ دہلیزِ مصطفی ہوں میں
خاکِ دہلیزِ مصطفی ہوں میں
ہاں ! گنہگار ہوں بُرا ہوں میں
ہاں ! گنہگار ہوں بُرا ہوں میں
لاج رکھ لیجے ،آپ کا ہوں میں
لاج رکھ لیجے ،آپ کا ہوں میں
بابِ جبریل پر کھڑا ہوں میں
بابِ جبریل پر کھڑا ہوں میں
نور ہی نور دیکھتا ہوں میں
نور ہی نور دیکھتا ہوں میں
جھک گئی ہے نظر بہ پاسِ ادب
جھک گئی ہے نظر بہ پاسِ ادب
سر سے پا تک لرز رہاہوںمیں
سر سے پا تک لرز رہاہوںمیں
ہر طرف ہے تجلیوں کا ہجوم
ہر طرف ہے تجلیوں کا ہجوم
اورجلووں میں کھو گیاہوںمیں
اورجلووں میں کھو گیاہوںمیں
لوگ کہتے ہیں یہ مدینہ ہے
لوگ کہتے ہیں یہ مدینہ ہے
درِ اقدس پہ آگیا ہوں میں
درِ اقدس پہ آگیا ہوں میں
خاکِ طیبہ کو منہ پہ ملتا ہوں
خاکِ طیبہ کو منہ پہ ملتا ہوں
ذرّے ذرّے کو چومتاہوں میں
ذرّے ذرّے کو چومتاہوں میں
نعت پڑھ پڑھ کے جالیوں کے قریب
نعت پڑھ پڑھ کے جالیوں کے قریب
آپ ہی آپ جھومتا ہوں میں
آپ ہی آپ جھومتا ہوں میں
روضۂ مصطفی کا کیا کہنا
روضۂ مصطفی کا کیا کہنا
جیسے جنت میں آگیاہوں میں
جیسے جنت میں آگیاہوں میں
میں کہاں اور درِ حضور کہاں
میں کہاں اور درِ حضور کہاں
سورہاہوں کہ جاگتا ہوں میں
سورہاہوں کہ جاگتا ہوں میں
ہاتھ اُٹھنے لگے دعا کے لیے
ہاتھ اُٹھنے لگے دعا کے لیے
اُن سے مصروفِ التجا ہوں میں
اُن سے مصروفِ التجا ہوں میں
آپ مولائے کل ہیں داتا ہیں
آپ مولائے کل ہیں داتا ہیں
میرا کیاپوچھنا ،گدا ہوں میں
میرا کیاپوچھنا ،گدا ہوں میں
میری جھولی ضرور بھر دیجے
میری جھولی ضرور بھر دیجے
دولتِ درد مانگتا ہوں میں
دولتِ درد مانگتا ہوں میں
 
میرا حامی خدا اور اس کا رسول
 
میرا حامی خدا اور اس کا رسول
 
خادمِ فخرِ انبیا ہوں میں
خادمِ فخرِ انبیا ہوں میں
t


 
راشدؔ نور
 
 
====راشدؔ نور====
 
(۶؍ فروری ۱۹۵۶ء  میر پور خاص)
(۶؍ فروری ۱۹۵۶ء  میر پور خاص)
میں منتظر ہوں ابھی ماہ وسال کوئی نہیں
میں منتظر ہوں ابھی ماہ وسال کوئی نہیں
بس ان کے در کے سوااب سوال کوئی نہیں
بس ان کے در کے سوااب سوال کوئی نہیں
نبی کی شان رسالت کا معجزہ ہے یہی
نبی کی شان رسالت کا معجزہ ہے یہی
مثال ڈھونڈ گے لیکن مثال کوئی نہیں
مثال ڈھونڈ گے لیکن مثال کوئی نہیں
ہوائے شہر مدینہ کی نسبتوں کے طفیل
ہوائے شہر مدینہ کی نسبتوں کے طفیل
نصیب جاگے ہیں میراکمال کوئی نہیں
نصیب جاگے ہیں میراکمال کوئی نہیں
بس ان کے دامن نسبت کو تھام کے رکھنا
بس ان کے دامن نسبت کو تھام کے رکھنا
کہ بخششوں کے لیے ایسی ڈھال کوئی نہیں
کہ بخششوں کے لیے ایسی ڈھال کوئی نہیں
وہ سائبان ہے رحمت کا جس کی چھاؤں میں
وہ سائبان ہے رحمت کا جس کی چھاؤں میں
بہت سکون ہے دل کوملال کوئی نہیں
بہت سکون ہے دل کوملال کوئی نہیں
ہمیں یہ ناز کہ سرکار کی غلامی میں
ہمیں یہ ناز کہ سرکار کی غلامی میں
ہماری طرح کہیں مالامال کوئی نہیں
ہماری طرح کہیں مالامال کوئی نہیں
تخیلات کا حاصل یہی توہے راشدؔ!
تخیلات کا حاصل یہی توہے راشدؔ!
درنبی سے معطر خیال کوئی نہیں
درنبی سے معطر خیال کوئی نہیں
 
t
 
راقم رحمانی  
 
(۱۲؍ اپریل ۱۹۲۹ء…۲۰۱۲ء کراچی)
====راقم رحمانی ====
 
(۱۲؍ اپریل ۱۹۲۹ء…۲۰۱۲ء کراچی)
 
اب تو یہ عالم ہے دل میں کر گیا ہے گھر  چراغ
اب تو یہ عالم ہے دل میں کر گیا ہے گھر  چراغ
جل رہاہے یاد آقا کامرے اندر چراغ
جل رہاہے یاد آقا کامرے اندر چراغ
بستیوں میں کیا دھرا تھا ظلمتوں کے ماسوا
بستیوں میں کیا دھرا تھا ظلمتوں کے ماسوا
نورپیکر نے فروزاں کر دیے گھر گھر  چراغ
نورپیکر نے فروزاں کر دیے گھر گھر  چراغ
بارش انوار رحمت نے مجلیٰ کردیئے
بارش انوار رحمت نے مجلیٰ کردیئے
دھل گئے چہرے نظر آنے لگے پتھر کے چراغ
دھل گئے چہرے نظر آنے لگے پتھر کے چراغ
ثانی سلطان عالی تھا نہ ہوگا اور نہ ہے
ثانی سلطان عالی تھا نہ ہوگا اور نہ ہے
جستجو کرتی پھرے دنیا عبث لے کر چراغ
جستجو کرتی پھرے دنیا عبث لے کر چراغ
مقتدر میں، سب ولیٔ مصطفی، اپنی جگہ
مقتدر میں، سب ولیٔ مصطفی، اپنی جگہ
ایک ہی سورج کی پیداور ہیں دیگر چراغ
ایک ہی سورج کی پیداور ہیں دیگر چراغ
یوں شہادت پر تلا ہے جادٔہ آقا میں دل
یوں شہادت پر تلا ہے جادٔہ آقا میں دل
کٹ گئی گردن توبن جائے گا اپنا سرچراغ
کٹ گئی گردن توبن جائے گا اپنا سرچراغ
عاشقان مصطفی ہیں روشنی کی ایک لکیر
عاشقان مصطفی ہیں روشنی کی ایک لکیر
تامحمد جل رہے ہیں سب چراغ اندر چراغ
تامحمد جل رہے ہیں سب چراغ اندر چراغ
اب دیار دل  میں ظلمت کا گذر ممکن نہیں
اب دیار دل  میں ظلمت کا گذر ممکن نہیں
اب یہ ہے سرکار کی مدحت کا جلوہ گر چراغ
اب یہ ہے سرکار کی مدحت کا جلوہ گر چراغ
گو اُجالے ہیں سبھی راقم خدا کے نام کے
گو اُجالے ہیں سبھی راقم خدا کے نام کے
پر بدستِ مصطفی روشن ہو اپنے ہر چراغ
پر بدستِ مصطفی روشن ہو اپنے ہر چراغ
t


 
رخسانہ صبا
 
 
====رخسانہ صبا====
 
(۴؍ مارچ ۱۹۵۹ء کراچی)
(۴؍ مارچ ۱۹۵۹ء کراچی)
 
روح کے سناٹے میں برپا شورِ تمنا کس نے کیا
 
روح کے سناٹے میں برپا شورِ تمنا کس نے کیا
 
آرزوؤں کی بجھتی ہوئی اس راکھ کو شعلہ کس نے کیا
آرزوؤں کی بجھتی ہوئی اس راکھ کو شعلہ کس نے کیا
کس کے عکس نے خالقِ کل کے لاکھوں جلوے دکھلائے
کس کے عکس نے خالقِ کل کے لاکھوں جلوے دکھلائے
کس نے جلا دی شیشۂ دل کوآئینہ خانہ کس نے کیا
کس نے جلا دی شیشۂ دل کوآئینہ خانہ کس نے کیا
اُمّی لقب ہوکر بھی شہرِ علم بنا کس کا پیکر
اُمّی لقب ہوکر بھی شہرِ علم بنا کس کا پیکر
بے سایہ ہو کر بھی اس دنیا پر سایہ کس نے کیا
بے سایہ ہو کر بھی اس دنیا پر سایہ کس نے کیا
خانۂ ہستی کی تاریکی کس کے دم سے دور ہوئی
خانۂ ہستی کی تاریکی کس کے دم سے دور ہوئی
کفر کے ِتیرا ایوانوں میں آکے اُجالا کس نے کیا
کفر کے ِتیرا ایوانوں میں آکے اُجالا کس نے کیا
بادِ سموم کے جھونکے تھے اور ہر جانب تھارقصِ خزاں
بادِ سموم کے جھونکے تھے اور ہر جانب تھارقصِ خزاں
کس نے ریت میں پھول ِکھلائے کارِ مسیحاکس نے کیا
کس نے ریت میں پھول ِکھلائے کارِ مسیحاکس نے کیا
کس کی آمد مایوسی میں جینے کاپیغام بنی
کس کی آمد مایوسی میں جینے کاپیغام بنی
شب کو سحر ،اشکوں کو ستارہ، زیست کو نغمہ کس نے کیا
شب کو سحر ،اشکوں کو ستارہ، زیست کو نغمہ کس نے کیا
تشنہ لبی جب حد سے گزری ،کس نے پلایا آبِ حیات
تشنہ لبی جب حد سے گزری ،کس نے پلایا آبِ حیات
ہم اِک قطرۂ نا پُرساں تھے ،ہم کو دریا کس نے کیا
ہم اِک قطرۂ نا پُرساں تھے ،ہم کو دریا کس نے کیا
 
t
 
رسا چغتائی
 
====رسا چغتائی====
 
(۱۹۲۸ء، سوائی مادھوپور ریاست جے پور)
(۱۹۲۸ء، سوائی مادھوپور ریاست جے پور)
صفات و ذاتِ حمدِ کبریا ہے
صفات و ذاتِ حمدِ کبریا ہے
کلامِ پاک نعتِ مصطفیٰ ہے
کلامِ پاک نعتِ مصطفیٰ ہے
رسالت غیب ہے اور غیب کیا ہے
رسالت غیب ہے اور غیب کیا ہے
مگر یہ سلسلہ ایمان کا ہے
مگر یہ سلسلہ ایمان کا ہے
گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک
گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک
دوعالم آئنہ بردار سا ہے
دوعالم آئنہ بردار سا ہے
وہی ہیں داورِ محشر وہی ہیں
وہی ہیں داورِ محشر وہی ہیں
دلِ بے تاب کس کو ڈھونڈتا ہے
دلِ بے تاب کس کو ڈھونڈتا ہے
یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی
یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی
مگر اک نام ایسا آگیا ہے
مگر اک نام ایسا آگیا ہے
رساؔ مل جائے گا اذنِ سفر بھی
رساؔ مل جائے گا اذنِ سفر بھی
مرا قصدِ سفر اپنی جگہ ہے
مرا قصدِ سفر اپنی جگہ ہے
t


 
رسول احمد کلیمیؔ
 
 
====رسول احمد کلیمیؔ====
 
(۱۱؍دسمبر ۱۹۴۴ء …۱۸؍ فروری ۲۰۱۳ء ٹورانٹو، کینیڈا)
(۱۱؍دسمبر ۱۹۴۴ء …۱۸؍ فروری ۲۰۱۳ء ٹورانٹو، کینیڈا)
اُن کے حضور قلب پہ جو کچھ عیاں ہوا
اُن کے حضور قلب پہ جو کچھ عیاں ہوا
لفظوں میں کب وہ تجربہ ہم سے بیاں ہوا
لفظوں میں کب وہ تجربہ ہم سے بیاں ہوا
ہو ش وحواس ، عقل و خرد حیرتی ہوئے
ہو ش وحواس ، عقل و خرد حیرتی ہوئے
نطق و زباں کا حوصلہ اشکِ رواں ہوا
نطق و زباں کا حوصلہ اشکِ رواں ہوا
اُن جالیوں کے پیچھے فقط سیلِ نور تھا
اُن جالیوں کے پیچھے فقط سیلِ نور تھا
کب منکشف ہر اِک پہ یہ سرِ نہاں ہوا
کب منکشف ہر اِک پہ یہ سرِ نہاں ہوا
لاریب، لا شریک ہے واحد ہے اُس کی ذات
لاریب، لا شریک ہے واحد ہے اُس کی ذات
لیکن حضور جیسا بھی کوئی کہاں ہوا
لیکن حضور جیسا بھی کوئی کہاں ہوا
اُس در سے عافیت کی سند مجھ کو مل گئی
اُس در سے عافیت کی سند مجھ کو مل گئی
پھر کیا عدو اگر مرا سارا جہاں ہوا
پھر کیا عدو اگر مرا سارا جہاں ہوا
مانگے بنا ہی سب مجھے آقانے دے دیا
مانگے بنا ہی سب مجھے آقانے دے دیا
میرا سکوت برتراز آہ و فغاں ہوا
میرا سکوت برتراز آہ و فغاں ہوا
 
تم دوجہاں کے عیش وہاں مانگتے رہے
 
تم دوجہاں کے عیش وہاں مانگتے رہے
 
میں بے نیازِ عشرتِ ہر دوجہاں ہوا
میں بے نیازِ عشرتِ ہر دوجہاں ہوا
حدِ ادب کلیمی! کہ طیبہ ہے وہ زمیں
حدِ ادب کلیمی! کہ طیبہ ہے وہ زمیں
ہر گام سجدہ ریز جہاں آسماں ہوا
ہر گام سجدہ ریز جہاں آسماں ہوا
 
t
 
رشید انجم
 
====رشید انجم====
 
(۲۱؍اپریل ۱۹۳۷ء…۲۱؍دسمبر۲۰۰۰ء ،کوئٹہ)
(۲۱؍اپریل ۱۹۳۷ء…۲۱؍دسمبر۲۰۰۰ء ،کوئٹہ)
تفسیر کبریا کا عنوان بولتا ہے
تفسیر کبریا کا عنوان بولتا ہے
لہجے میں مصطفی کے قرآن بولتا ہے
لہجے میں مصطفی کے قرآن بولتا ہے
یہ عظمت بشر ہے سدرہ کے راستے میں
یہ عظمت بشر ہے سدرہ کے راستے میں
خاموش ہیں فرشتے انسان بولتا ہے
خاموش ہیں فرشتے انسان بولتا ہے
محسوس کر رہی ہے کونین کی سماعت
محسوس کر رہی ہے کونین کی سماعت
دونوں جہاں میںان کا احسان بولتا ہے
دونوں جہاں میںان کا احسان بولتا ہے
مومن کا دل مدینہ عشق نبی کا زینہ
مومن کا دل مدینہ عشق نبی کا زینہ
یہ وہ جگہ ہے جس میں ایمان بولتا ہے
یہ وہ جگہ ہے جس میں ایمان بولتا ہے
دل میں ہزار جلوے کروٹ بدل رہے ہیں
دل میں ہزار جلوے کروٹ بدل رہے ہیں
دیدارِ مصطفی کا ارمان بولتا ہے
دیدارِ مصطفی کا ارمان بولتا ہے
میں نعت پڑھ رہا ہوں وہ داد دے رہے ہیں
میں نعت پڑھ رہا ہوں وہ داد دے رہے ہیں
ہر شعر میں انہی کا فیضان بولتا ہے
ہر شعر میں انہی کا فیضان بولتا ہے
انوارِ لمیزل کا فیضان ہے یہ انجمؔ
انوارِ لمیزل کا فیضان ہے یہ انجمؔ
دربارِ مصطفی میں بے جان بولتا ہے
دربارِ مصطفی میں بے جان بولتا ہے
 
t
 
رضوان صدیقی
 
====رضوان صدیقی====
 
(یکم دسمبر ۱۹۴۱ء الور،راجپوتانہ)
(یکم دسمبر ۱۹۴۱ء الور،راجپوتانہ)
   ُبھلا کے سارے زمانے کو چُپ کھڑارہامیں
   ُبھلا کے سارے زمانے کو چُپ کھڑارہامیں
اور اُن کے گنبدِ خضرا کو دیکھتا رہا میں
اور اُن کے گنبدِ خضرا کو دیکھتا رہا میں
مواجہہ کی زیارت جو کی تو دیر تلک
مواجہہ کی زیارت جو کی تو دیر تلک
بس اپنے بخت کی رفعت کو سوچتا رہا میں
بس اپنے بخت کی رفعت کو سوچتا رہا میں
ریاضِ جنّہ میں پہنچایا جب خدا نے مجھے
ریاضِ جنّہ میں پہنچایا جب خدا نے مجھے
سرِ خیال اُنہی کو پکارتا رہا میں
سرِ خیال اُنہی کو پکارتا رہا میں
سنہری جالیاںجب تک مِری نظر میں رہیں
سنہری جالیاںجب تک مِری نظر میں رہیں
خدا کے قرب کی خوشبو میں ڈولتا رہا میں
خدا کے قرب کی خوشبو میں ڈولتا رہا میں
حضور کس لیے بھیجے گئے تھے دنیا میں
حضور کس لیے بھیجے گئے تھے دنیا میں
عظیم صفّہ پہ بیٹھا یہ سوچتا رہا میں
عظیم صفّہ پہ بیٹھا یہ سوچتا رہا میں
قریبِ روضۂ انور نہ کرسکا کچھ بھی
قریبِ روضۂ انور نہ کرسکا کچھ بھی
  بس اپنے اشکوں کو آنکھوں میں روکتا رہا میں
  بس اپنے اشکوں کو آنکھوں میں روکتا رہا میں
مجھے مدینے میںمسکن نصیب ہو یارب
مجھے مدینے میںمسکن نصیب ہو یارب
بقیع میں بھی یونہی محوِ التجا رہا میں
بقیع میں بھی یونہی محوِ التجا رہا میں
جس انقلاب کے بانی تھے مصطفی میرے
جس انقلاب کے بانی تھے مصطفی میرے
اُس انقلاب کو منبر پہ سوچتا رہا میں
اُس انقلاب کو منبر پہ سوچتا رہا میں
یہ میری ذات سے مخصوص تو نہیں رضواںؔ!
یہ میری ذات سے مخصوص تو نہیں رضواںؔ!
اگر مدینے میں تصویر سا بنا رہا میں
اگر مدینے میں تصویر سا بنا رہا میں
 
t
 
رضی اخترشوقؔ
 
====رضی اخترشوقؔ====
 
  (۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ء سہارنپور…۲۲؍جنوری  ۹ ۹ ۹ ۱ء کراچی)
  (۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ء سہارنپور…۲۲؍جنوری  ۹ ۹ ۹ ۱ء کراچی)
انہی کی بخشی ہوئی آگہی کو لکھا ہے
انہی کی بخشی ہوئی آگہی کو لکھا ہے
انہی سے لفظ ملے ہیں انہی کو لکھا ہے
انہی سے لفظ ملے ہیں انہی کو لکھا ہے
بس ایک لفظ سے گھر سارا جگمگا اٹھا
بس ایک لفظ سے گھر سارا جگمگا اٹھا
یہ روشنائی نے کس روشنی کو لکھاہے
یہ روشنائی نے کس روشنی کو لکھاہے
بہت بلند تھا اس پل میں اپنی قامت میں
بہت بلند تھا اس پل میں اپنی قامت میں
وہ پل جب آپ کی خوش قامتی کو لکھاہے
وہ پل جب آپ کی خوش قامتی کو لکھاہے
یقیں ہے وہ مرے لفظوں کو روشنی دیں گے
یقیں ہے وہ مرے لفظوں کو روشنی دیں گے
میں جانتا ہوں کہ کیسے سخی کو لکھاہے
میں جانتا ہوں کہ کیسے سخی کو لکھاہے
 
t
 
-
-
آنکھوں میں لیے ہیں تری زیبائی محمد
آنکھوں میں لیے ہیں تری زیبائی محمد
اک عمرسے میں اور مری تنہائی محمد
اک عمرسے میں اور مری تنہائی محمد
الفاظ کو آدابِ رسائی نہیں آتے  
الفاظ کو آدابِ رسائی نہیں آتے  
ہے مدح تری دے مجھے گویائی محمد
ہے مدح تری دے مجھے گویائی محمد
آنکھوں میں نہ ہو تم تو نظر کچھ نہیں آتا  
آنکھوں میں نہ ہو تم تو نظر کچھ نہیں آتا  
کیا میرا سفر کیا مری بینائی محمد
کیا میرا سفر کیا مری بینائی محمد
سو تیر ترازو مرے سینے میں ہیں مولا  
سو تیر ترازو مرے سینے میں ہیں مولا  
زندہ ہوں تو ہے تیری مسیحائی محمد
زندہ ہوں تو ہے تیری مسیحائی محمد
تقسیم ہوئے ہیں تری اُمت کے اُجالے  
تقسیم ہوئے ہیں تری اُمت کے اُجالے  
ایسے میں کوئی صورتِ یک جائی محمد
ایسے میں کوئی صورتِ یک جائی محمد
 
t
 
رضیہ انور،انوری بیگم
 
(۱۹۱۹ء امروہہ…۱۹ ؍دسمبر۱۹۹۷ء کراچی)
====رضیہ انور،انوری بیگم====
 
(۱۹۱۹ء امروہہ…۱۹ ؍دسمبر۱۹۹۷ء کراچی)
 
صبا جا کے محمد سے مری فریاد کہہ دینا
صبا جا کے محمد سے مری فریاد کہہ دینا
پڑی ہے امت عاصی پہ اب اُفتاد کہہ دینا
پڑی ہے امت عاصی پہ اب اُفتاد کہہ دینا
سلام شوق کرکے پیش جالی کے قریں جاکر
سلام شوق کرکے پیش جالی کے قریں جاکر
جو گذری ہے مسلمانوں پہ وہ رواداد کہہ دینا
جو گذری ہے مسلمانوں پہ وہ رواداد کہہ دینا
 
t
 
رفعت القاسمی
 
====رفعت القاسمی====
 
(۱۹۳۴ء، شیخ پور، ضلع مونگیر…۲۰۱۰ء، کراچی)
(۱۹۳۴ء، شیخ پور، ضلع مونگیر…۲۰۱۰ء، کراچی)
عظمتِ انساں تیری مشیت وسعتِ امکاں تیرے ابرو
عظمتِ انساں تیری مشیت وسعتِ امکاں تیرے ابرو
ذکر ترا کونین کی دولت سایۂ رحمت تیرے گیسو
ذکر ترا کونین کی دولت سایۂ رحمت تیرے گیسو
کون ہے یزداں کون ہے انساں کون ہے حامد کون ہے احمد
کون ہے یزداں کون ہے انساں کون ہے حامد کون ہے احمد
ہم کیا جانتے کون خدا ہے رکھتانہ وہ گرتیری ہی خو،بو
ہم کیا جانتے کون خدا ہے رکھتانہ وہ گرتیری ہی خو،بو
توہی آدم توہی مسیحا توہی خلیل اورتوہی موسی
توہی آدم توہی مسیحا توہی خلیل اورتوہی موسی
تیری تجلی برسرِ سینا،توہی توہے ہرپل ہرسو
تیری تجلی برسرِ سینا،توہی توہے ہرپل ہرسو
جلوے تیرے کوہ و دمن میں تیرے اُجالے گنگ وجمن میں
جلوے تیرے کوہ و دمن میں تیرے اُجالے گنگ وجمن میں
رنگ تراہے سروسمن میں،ارض وسما میں تیری ہی خوشبو
رنگ تراہے سروسمن میں،ارض وسما میں تیری ہی خوشبو
تیرے ثناخواں غالبؔ وبیدلؔ،سچلؔ،لطیفؔ،حسانؔ اورشوقیؔ
تیرے ثناخواں غالبؔ وبیدلؔ،سچلؔ،لطیفؔ،حسانؔ اورشوقیؔ
تیرے غزل خواں حافظؔ و رومیؔ خٹکؔ فریدؔ اقبالؔ اور باہوؔ
تیرے غزل خواں حافظؔ و رومیؔ خٹکؔ فریدؔ اقبالؔ اور باہوؔ
حرف ترا فیضی کی سواطع لفظ ترے سبعات ولآبی
حرف ترا فیضی کی سواطع لفظ ترے سبعات ولآبی
تیری ہی تخیٔل کا پرتو فکرِ فارابیؔ و ارسطوؔ
تیری ہی تخیٔل کا پرتو فکرِ فارابیؔ و ارسطوؔ
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک روشنیوں کا ایک سفرہے
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک روشنیوں کا ایک سفرہے
تورات و انجیل و قراں، سب تیرے افکار کا جادو
تورات و انجیل و قراں، سب تیرے افکار کا جادو
 
سورج چاند ستارے سارے ازل ابد یہ جگ اُجیارے
 
سورج چاند ستارے سارے ازل ابد یہ جگ اُجیارے
 
اُتر، دکھن، پُورب، پچھم، پھیلی ہے تیرے نور کی خوشبو
اُتر، دکھن، پُورب، پچھم، پھیلی ہے تیرے نور کی خوشبو
صورتِ کعبؓ مانند بوصیری مجھ کو بھی چادر اپنی عطاکر
صورتِ کعبؓ مانند بوصیری مجھ کو بھی چادر اپنی عطاکر
رکھ لے لاج مری بھی جاناں کیا میں اورکیا میرے آنسو
رکھ لے لاج مری بھی جاناں کیا میں اورکیا میرے آنسو
مجھ کو ہے تیری ذات سے نسبت مجھ پہ بھی اپنی چشم ِ کرم کر
مجھ کو ہے تیری ذات سے نسبت مجھ پہ بھی اپنی چشم ِ کرم کر
میں اورترے اوصاف وشمائل نعرۂ وحدت یاہو لاہو
میں اورترے اوصاف وشمائل نعرۂ وحدت یاہو لاہو
 
t
 
رفیق احمد نقشؔ
 
====رفیق احمد نقشؔ====
(۱۵؍مارچ ۱۹۵۹ء میرپور خاص… ۱۵؍ مئی ۲۰۱۳ء کراچی)
(۱۵؍مارچ ۱۹۵۹ء میرپور خاص… ۱۵؍ مئی ۲۰۱۳ء کراچی)
وہی سردارِ دنیا بھی وہی سردارِ دیں بھی ہے
وہی سردارِ دنیا بھی وہی سردارِ دیں بھی ہے
اُسی کی ذات بے شک رحمت اللعالمیں بھی ہے
اُسی کی ذات بے شک رحمت اللعالمیں بھی ہے
پہنچ اُس کی زمیں کیا تاسرِ عرشِ بریں بھی ہے
پہنچ اُس کی زمیں کیا تاسرِ عرشِ بریں بھی ہے
وہ ہے انسان لیکن وہ خدا کا ہم نشیں بھی ہے
وہ ہے انسان لیکن وہ خدا کا ہم نشیں بھی ہے
اُسی کی ذات ہے ہرطرح سے تقلید کے قابل
اُسی کی ذات ہے ہرطرح سے تقلید کے قابل
کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے
کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے
گواہی دیتے ہیں دشمن بھی اُس کی راست بازی کی
گواہی دیتے ہیں دشمن بھی اُس کی راست بازی کی
کہ وہ بچپن ہی سے مشہور صادق بھی امیں بھی ہے
کہ وہ بچپن ہی سے مشہور صادق بھی امیں بھی ہے
وہی ہے فخرِ موجودات ختم المرسلیں ہے وہ
وہی ہے فخرِ موجودات ختم المرسلیں ہے وہ
وہی تو محرمِ اسرارِ صبحِ اوّلیں بھی ہے
وہی تو محرمِ اسرارِ صبحِ اوّلیں بھی ہے
اگر چہ نقشؔ ! ہے اپنے گناہوں پرندامت بھی
اگر چہ نقشؔ ! ہے اپنے گناہوں پرندامت بھی
مگر روزِ جزا اس کی شفاعت کا یقیں بھی ہے
مگر روزِ جزا اس کی شفاعت کا یقیں بھی ہے
t


 
رفیق خاور
 
(۱۵؍فروری۱۹۰۸ء روالپنڈی…۱۴؍مئی ۱۹۹۰ء کراچی)
====رفیق خاور====
 
(۱۵؍فروری۱۹۰۸ء روالپنڈی…۱۴؍مئی ۱۹۹۰ء کراچی)
 
 
لیتے ہی چلے جائیں نہ کیوں نام، نہ کیوںنام پہ ہم نام محمد
لیتے ہی چلے جائیں نہ کیوں نام، نہ کیوںنام پہ ہم نام محمد
فردوس پہ فردوس ہی انعاموں پہ انعام ہے، انعام محمد
فردوس پہ فردوس ہی انعاموں پہ انعام ہے، انعام محمد
ایوانوں کے ایوان ہوئے جس کی بلندی سے نگوں ساربیک آن
ایوانوں کے ایوان ہوئے جس کی بلندی سے نگوں ساربیک آن
افلاک سے برتر ہے،فراتر ہے،وراترہے کہیں بامِ محمد
افلاک سے برتر ہے،فراتر ہے،وراترہے کہیں بامِ محمد
اعجاز مبیں، نطق مہیں، حرفِ بریں، نقشِ ُگزیں ہے
اعجاز مبیں، نطق مہیں، حرفِ بریں، نقشِ ُگزیں ہے
فیضانوں کا فیضان ہے الہاموں کا الہام ہے الہامِ محمد
فیضانوں کا فیضان ہے الہاموں کا الہام ہے الہامِ محمد
معراجِ نبی سدرہ وطوبیٰ سے بھی بالاوہ تگ وتاز
معراجِ نبی سدرہ وطوبیٰ سے بھی بالاوہ تگ وتاز
تاعرشِ بریں جنبشِ صدگام ہے یک گامِ محمد
تاعرشِ بریں جنبشِ صدگام ہے یک گامِ محمد
سامانِ حیاتِ ابدی دُودۂِ آدم کے لیے اُن کے شئونات
سامانِ حیاتِ ابدی دُودۂِ آدم کے لیے اُن کے شئونات
فخرِ سحر و شام ہیں، سرکردۂِ ایام ہیں ایامِ محمد
فخرِ سحر و شام ہیں، سرکردۂِ ایام ہیں ایامِ محمد
وہ غلغلہ برپاہے کہ ہرلمحہ بہ صد رنگ دگرگوں ہے زمانہ
وہ غلغلہ برپاہے کہ ہرلمحہ بہ صد رنگ دگرگوں ہے زمانہ
ہنگامہ درآغوش ہے آوازۂِ پُر شوکتِ پیغام محمد
ہنگامہ درآغوش ہے آوازۂِ پُر شوکتِ پیغام محمد
شمشیروں کی شمشیر ہے اسلام کی شمشیرِ جہاں گیر
شمشیروں کی شمشیر ہے اسلام کی شمشیرِ جہاں گیر
صمصاموں کی صمصاموں کی صمصام ہے صمصامِ محمد
صمصاموں کی صمصاموں کی صمصام ہے صمصامِ محمد
ہے وجہِ فروغ ہمہ آفاق بہ صد موجِ تجلی
ہے وجہِ فروغ ہمہ آفاق بہ صد موجِ تجلی
ہے تا بہ ابد ، تا بہ ابد ، تاب و تبِ نیرِ اسلام محمد
ہے تا بہ ابد ، تا بہ ابد ، تاب و تبِ نیرِ اسلام محمد
ہیں دَور پہ دَور اُن کے توہیں جام پہ جام اورجگر تاب
ہیں دَور پہ دَور اُن کے توہیں جام پہ جام اورجگر تاب
دیتا ہے صِلا دہر کویوں شام وسحر میکدۂِ عامِ محمد
دیتا ہے صِلا دہر کویوں شام وسحر میکدۂِ عامِ محمد
سرشار سے سرشار ہیں مشروب دلآویز سے مخمور
سرشار سے سرشار ہیں مشروب دلآویز سے مخمور
رندانِ قدح خوار بلانوش دو صد میکدہ آشامِ محمد
رندانِ قدح خوار بلانوش دو صد میکدہ آشامِ محمد
 
وہ جس کی اذاں گونجتی تا اوجِ سما صبح ومَسَا ہے
 
وہ جس کی اذاں گونجتی تا اوجِ سما صبح ومَسَا ہے
 
سرحلقۂِ خدام، بلال حبشیؓ، خادمِ جاں دادہ ، سیہِ فامِ محمد
سرحلقۂِ خدام، بلال حبشیؓ، خادمِ جاں دادہ ، سیہِ فامِ محمد
 
t
 
رفیق عزیزی
 
====رفیق عزیزی====
 
(۷؍ مئی ۱۹۱۴ء ہاپوڑ ضلع میرٹھ…۲۰؍ مئی ۲۰۰۸ء کراچی)
(۷؍ مئی ۱۹۱۴ء ہاپوڑ ضلع میرٹھ…۲۰؍ مئی ۲۰۰۸ء کراچی)
اس میں کیا شک ہے کہ ہیں سرکاررب کی آرزو
اس میں کیا شک ہے کہ ہیں سرکاررب کی آرزو
بندہ اپنے رب کا میں،سرکار میری آرزو
بندہ اپنے رب کا میں،سرکار میری آرزو
میری صبح وشام ہوجائیں مدینے میں تمام
میری صبح وشام ہوجائیں مدینے میں تمام
کچھ نہیں دنیا ودیں میں اس سے اچھی آرزو
کچھ نہیں دنیا ودیں میں اس سے اچھی آرزو
روضۂ سرکار کے سائے میں مرمر کے جیوں
روضۂ سرکار کے سائے میں مرمر کے جیوں
یا الٰہی بس یہی ہے ایک باقی آرزو  
یا الٰہی بس یہی ہے ایک باقی آرزو  
کاش ہوجاؤں شہ ابرار کی گلیوں کی دھول
کاش ہوجاؤں شہ ابرار کی گلیوں کی دھول
اس سے بہتر ہونہیں سکتی ہے کوئی آرزو
اس سے بہتر ہونہیں سکتی ہے کوئی آرزو
ہو لواء الحمد کا سایہ قیامت میں نصیب
ہو لواء الحمد کا سایہ قیامت میں نصیب
ہرنفس کی اوٹ سے ہرلحظہ جھانکی آرزو
ہرنفس کی اوٹ سے ہرلحظہ جھانکی آرزو
آرزو کہتی ہے تم جاؤ گے طیبہ کس طرح
آرزو کہتی ہے تم جاؤ گے طیبہ کس طرح
دل یہ کہتاہے کہ ہوگی پوری تیری آرزو
دل یہ کہتاہے کہ ہوگی پوری تیری آرزو
اسوۂ سرور پہ مرمر کرجیے جاؤں رفیقؔ
اسوۂ سرور پہ مرمر کرجیے جاؤں رفیقؔ
اس سے بہتر کچھ نہیں کوئی بھی ایسی آرزو
اس سے بہتر کچھ نہیں کوئی بھی ایسی آرزو
 
t
 
روشؔ بدایونی
 
(۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ء، بدایوں)
 
اصحابِ باصفا ہیں پیمبر کے ساتھ ساتھ
====روشؔ بدایونی====
 
(۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ء، بدایوں)
 
 
اصحابِ باصفا ہیں پیمبر کے ساتھ ساتھ
 
چھتنار چھاؤں جیسے صنوبر کے ساتھ ساتھ
چھتنار چھاؤں جیسے صنوبر کے ساتھ ساتھ
نیسانِ ابرِ رحمتِ بطحامجھے بھی دھو
نیسانِ ابرِ رحمتِ بطحامجھے بھی دھو
آلودۂ غبار ہوں چادر کے ساتھ ساتھ
آلودۂ غبار ہوں چادر کے ساتھ ساتھ
ہر لحظہ مصطفی مری دلجوئیاں کریں
ہر لحظہ مصطفی مری دلجوئیاں کریں
اے کاش ساتھ ساتھ جیوں،مر کے ساتھ ساتھ
اے کاش ساتھ ساتھ جیوں،مر کے ساتھ ساتھ
اے عابسِ شرور ادھر بھی نگاہِ لطف
اے عابسِ شرور ادھر بھی نگاہِ لطف
میں بھی رواں ہوں فتنۂ محشر کے ساتھ ساتھ
میں بھی رواں ہوں فتنۂ محشر کے ساتھ ساتھ
اے رحمتِ تمام اے ساقی سلسبیل
اے رحمتِ تمام اے ساقی سلسبیل
پایاب ہوچکا ہوں سمندر کے ساتھ ساتھ
پایاب ہوچکا ہوں سمندر کے ساتھ ساتھ
میری بھی آرزو ہے کہ اک روز دیکھ لوں
میری بھی آرزو ہے کہ اک روز دیکھ لوں
خلدِ بقیع گنبدِ اخضر کے ساتھ ساتھ
خلدِ بقیع گنبدِ اخضر کے ساتھ ساتھ
اُف بعثتِ رسول سے پہلے یہ حال تھا
اُف بعثتِ رسول سے پہلے یہ حال تھا
غارت گری تھی شعلہ ساغر کے ساتھ ساتھ
غارت گری تھی شعلہ ساغر کے ساتھ ساتھ
میرا ہر ایک شعر عیاں ہے بفیضِ نعت
میرا ہر ایک شعر عیاں ہے بفیضِ نعت
ل
لطفِ خطابِ واعظِ منبر کے ساتھ ساتھ
 
t
طفِ خطابِ واعظِ منبر کے ساتھ ساتھ
 
 
====رئیس احمد====


رئیس احمد
(۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کراچی)
(۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کراچی)
ہے کتنا حسیں رت جگا مہکا مہکا
ہے کتنا حسیں رت جگا مہکا مہکا
کہ ہے نعت کا سلسلہ مہکا مہکا
کہ ہے نعت کا سلسلہ مہکا مہکا
دوعالم معطر ہیں خوشبو سے جس کی
دوعالم معطر ہیں خوشبو سے جس کی
جمالِ محمد ہے کیا مہکا مہکا
جمالِ محمد ہے کیا مہکا مہکا
خوشا بخت نعتِ نبی  پر ہے مائل
خوشا بخت نعتِ نبی  پر ہے مائل
ہے ہر سوچ کا زاویہ مہکا مہکا
ہے ہر سوچ کا زاویہ مہکا مہکا
وہ کوہِ صفا پر خطابت نبی کی!
وہ کوہِ صفا پر خطابت نبی کی!
وہ خلوت،وہ غار ِ حرا مہکا مہکا
وہ خلوت،وہ غار ِ حرا مہکا مہکا
گناہوں کی حد تونہیں پھر بھی آقا
گناہوں کی حد تونہیں پھر بھی آقا
شفاعت کا ہے آسرا مہکا مہکا!
شفاعت کا ہے آسرا مہکا مہکا!
ہیں نکہت سے جس کی معطر دل وجاں
ہیں نکہت سے جس کی معطر دل وجاں
وہ ہے آپ کا نقشِ پا مہکا مہکا
وہ ہے آپ کا نقشِ پا مہکا مہکا
رئیسؔ ان کے در کی گدائی کے صدقے
رئیسؔ ان کے در کی گدائی کے صدقے
خزاں میں ہے باغِ انا مہکا مہکا
خزاں میں ہے باغِ انا مہکا مہکا
 
t
 
رئیسؔ امروہوی
 
====رئیسؔ امروہوی====
 
(۱۲؍ستمبر ۱۹۱۴ء، امروہہ … ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۸ء، کراچی)
(۱۲؍ستمبر ۱۹۱۴ء، امروہہ … ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۸ء، کراچی)


موجبِ تخلیق ِعالم کون ہے؟
موجبِ تخلیق ِعالم کون ہے؟
وہ کہ جس کا نور ہے نورِخدا
وہ کہ جس کا نور ہے نورِخدا
سیِّد عالم ، محمد مصطفی
سیِّد عالم ، محمد مصطفی
اوّلِ مخلوق، ختم الانبیا
اوّلِ مخلوق، ختم الانبیا
جس نے اِک عالم کو زندہ کردیا
جس نے اِک عالم کو زندہ کردیا
موجبِ تخلیقِ عالم ہے وہی
موجبِ تخلیقِ عالم ہے وہی
٭
٭
افتخارِ نسلِ آدم کون ہے؟
افتخارِ نسلِ آدم کون ہے؟
 
کفر کا گھر جس نے ویراں کردیا
 
کفر کا گھر جس نے ویراں کردیا
 
بُت کدے کو بیتِ یزداں کردیا
بُت کدے کو بیتِ یزداں کردیا
خلق کی مشکل کو آساں کردیا
خلق کی مشکل کو آساں کردیا
آدمی کوجس نے انساںکردیا
آدمی کوجس نے انساںکردیا
افتخارِ نسلِ آدم ہے وہی
افتخارِ نسلِ آدم ہے وہی
٭
٭
قائدِاقوامِ عالم کون ہے؟
قائدِاقوامِ عالم کون ہے؟
جس کو صرف انسانیت سے پیارتھا
جس کو صرف انسانیت سے پیارتھا
جو ہر اِک مخلوق کا غم خوار تھا
جو ہر اِک مخلوق کا غم خوار تھا
قیدِرنگ و نسل سے بیزار تھا
قیدِرنگ و نسل سے بیزار تھا
جو اُخوت کا علم بردار تھا
جو اُخوت کا علم بردار تھا
قائدِ اقوامِ عالم ہے وہی
قائدِ اقوامِ عالم ہے وہی
٭
٭
مقصدِ فطرت کا محرم کون تھا؟
مقصدِ فطرت کا محرم کون تھا؟
پیش کرکے ایزدی پیغام کو
پیش کرکے ایزدی پیغام کو
توڑ ڈالا کفر کے اصنام کو
توڑ ڈالا کفر کے اصنام کو
متحد کرکے تمام اقوام کو
متحد کرکے تمام اقوام کو
عام جس نے کردیا اسلام کو
عام جس نے کردیا اسلام کو
مقصدِ فطرت کا محرم ہے وہی
مقصدِ فطرت کا محرم ہے وہی
 
t
 
رئیس فروغ
==== رئیس فروغ ====
 
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
دربار نبی سبحان اللہ
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں اجلے بول برستے ہیں
جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں مٹی میں سچائی ہے
جہاں پانی میں اچھائی ہے
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں روشنی لفظ کے ساتھ چلے
جہاں سورج بن کربات چلے
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں دنیا دنیا چین ملے
جہاں کملی میں کونیں ملے
دربار نبی سبحان اللہ
t
-
سچائی  (نعتیہ نظم )
مرے اک ہاتھ پرخورشید
اوراک ہاتھ پر مہتاب
رکھ دو
پھر بھی میں وہی بات دہراؤں گا
جو سچ ہے
اناالنبی لاکذب
اناابن عبدالمطلب
چند سچے لفظ
ایک سچی بات
اناالنبی لاکذب
اناابن عبدالمطلب
یہ سچائی جونازک بیل
کے مانند
خیراورحسن کے موسم کی خوشبوئیں لیے
لمحے سے لمحے کی طرف چلتی رہی
اورمیرے باپ تک پہنچی
سوجب میں مامتا سے کانپتی بانہوں میں
خوابیدہ تھا
میرے باپ نے مجھ کوجگا دیا
اورکہا
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
t
رئیس،احمد چشتی
(۷؍اگست ۱۹۴۰ء اجمیر شریف)
درحضور کو جوآنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
دلوں میںچاند ستارے اترکے دیکھتے ہیں
ہے ان کا روضہ اقدس جو خلد سے بڑھ کر
توساکنانِ جناں بھی گذر کے دیکھتے ہیں
وہ اہتمام ہے جشن ولادت شہہ کا
کہ آسمان وزمین سب سنور کے دیکھتے ہیں
ہوتی ہے نور کی تقسیم شہر میں گھر گھر
توہم بھی گھر میںچراغاں ہی کرکے دیکھتے ہیں
مسافرانِ مدینہ ہیں ان کو کیا پروا
یہ کچھ بکھیڑے نہ زادسفر کے دیکھتے ہیں
لگی ہے بھیڑ گداؤں کی آستانے پر
چلوکہ جھولیاں اپنی بھی بھرکے دیکھتے ہیں
وہیں پہ ہوتی ہے جب دل کی ہردعا پوری
توہردعا کو وہیں پیش کرکے دیکھتے ہیں
رئیس !سب پہ ہی کرتے وہ کرم بے شک
ہم اپنی عرض بھی اب پیش کرکے دیکھتے ہیں
t


    دربار نبی سبحان اللہ
ریحانہ احسان
 
(۲۰؍جولائی ۹۶۲ء کراچی)۱
    دربار نبی سبحان اللہ
 
 
    جہاں اجلے بول برستے ہیں
 
    جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
 
    دربار نبی سبحان اللہ




    جہاں مٹی میں سچائی ہے
’’قلم ملا بھی تو آپ سے ہے‘‘
(خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہونے اور ان کے حکم سے قلم انتخاب کرنے کی
سعادت حاصل ہونے کے بعدیہ نعتِ نبی کہنے کی سعادت حاصل ہوئی)


    جہاں پانی میں اچھائی ہے


    دربار نبی سبحان اللہ


یہ سلسلہ بھی تو آپ سے ہے
یہ حوصلہ بھی تو آپ سے ہے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
درست کہ آندھیاں بجھائیں گی اس دیے کو
ہوائیں طوفاں میں آزمائیں گی اس دیے کو
ہزارتاریکیاں ستائیں گی اس دیے کو
قسم زمانے کی …قلبِ ویراں کا
یہ دِیابھی تو آپ سے ہے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
خود اپنی آتش میں کھولتے ،اَدھ جلے درختوں کے سلسلے کو
میں چھوڑآئی ہوں
زہرآگیں ،نگاہ انداز قافلے کو
کہ بس جگہ دی ہے زندگی میں فقط محبت کے مسئلے کو
خزاں گزیدہ رتوں میں آقا
یہ گُل کھلا بھی تو آپ سے ہے
مرے لہو میں ہر ایک لحظہ
یہ لااِلٰہ بھی توآپ سے ہے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
t
زخمیؔ کانپوری
(ولادت ۸؍اگست۱۹۳۸ء کانپور)
دل کا یہی ہے ہر دم اصرار یا محمد
بلوائیے مدینے اک بار یا محمد
امداد کو نہ کیسے میں آپ کو پکاروں
عصیاں کا دوش پر ہے اک بار یا محمد
عاصی تو ہوں یقینا ہوں اُمتی تمھارا
اس بات سے نہیں ہے انکار یا محمد
روضے سے دور رہ کرجینا ہُوا ہے دُو بھر
بیڑا لگائیں میرا اب پار یا محمد
ہیں آپ ہی کی یادیں ہیں آپ ہی کے جلوے
دل میں کھلا ہوا ہے گلزار یا محمد
ہوآپ کا اشارا پہنچوں میں اُڑ کے طیبہ
بیٹھا ہوا ہوں میں تو تیار یا محمد
زخمیؔ کے حال پر بھی چشم کرم خدارا
مانا نہیں کرم کا حقدار یا محمد
t
زیب غوری
(۱۹۲۸ء کانپور … یکم اگست ۱۹۸۵،کراچی)
پاک فضاؤں کو آلودا مت کرنا
اُن گلیوں میں میرا چرچامت کرنا
مجھ کو جو نسبت ہے اسمِ محمدسے
اُس نسبت کاکوئی اشارہ مت کرنا
جھوٹے تھے سارے عہد وپیماں میرے
میرے گناہوں کوبے پردامت کرنا
چُپ رہنا میرے بارے میں اُن کے حضور
کچھ کہہ کر مجھ کو شرمندہ مت کرنا
کبھی تووہ محرم آنکھیں دیکھیں گی مجھے
لیکن اُن سے کوئی تقاضا مت کرنا
میرا نام مدینے میں لے لینا بس
اس سے زیادہ عرض ِ تمنا مت کرنا
-
اس قدر ہوش اسے چاہنے والے رکھنا
دیکھنا اس کو توکچھ پردے بھی ڈالے رکھنا
اس نے مٹی سے تعلق نہیں توڑا اپنا
سونے چاندی کے کٹورے نہ پیالے رکھنا
وہ حرم تھا وہاں گنجائش ِ مستی تھی بہت
یہ مدینہ ہے یہاں خود کو سنبھالے رکھنا
ہاتھ رکھنا وہ تہی دستوں کے سر پر اس کا
کہیں صحراؤں میںچشمے کہیں لالے رکھنا
اے مدینے کی مہکتی ہوئی روشن گلیو!
یاداُس پیکرِخوبی کے حوالے رکھنا
کام آجائیں یہی اشکِ ندامت شاید
یہ گہر دل کے کسی کونے میں ڈالے رکھنا
وہ پشیمانوں پہ جولانیٔ رحمت اس کی
درگزر کے کسی پہلو کونکالے رکھنا
پھولوں نے فیض رسانی کی ادا پہچانی
اس سے سیکھا ہے چراغوں نے اجالے رکھنا
اس کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ
سہل تھا جن پہ پہاڑوں کوسنبھالے رکھنا
عرش سی پاک زمینوں پہ قدم رکھو گے
زیبؔ یہ سوئے ادب ہے اسے ٹالے رکھنا
t
ساجد علی ساجدؔ
(۲۷؍فروری ۱۹۵۰… ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء لراچی)
آپ علم و آگہی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ روحِ زندگی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ غیبی روشنی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ حسنِ دائمی کا زندۂ و پائندہ نقش


    جہاں روشنی لفظ کے ساتھ چلے
  آپ کے دم سے ہے قائم یہ حیات و کائنات
 
آپ کے لطف و کرم سے ہے بہاروں کو ثبات
    جہاں سورج بن کربات چلے
آپ کے درسِ مبارک سے ہے روشن یہ حیات
 
آپ کے نقشِ قدم ہیں منزلِ راہِ نجات
      دربار نبی سبحان اللہ
 
 
    جہاں دنیا دنیا چین ملے
 
    جہاں کملی میں کونیں ملے
 
      دربار نبی سبحان اللہ
 
====سچائی  (نعتیہ نظم )====
 
مرے اک ہاتھ پرخورشید
 
اوراک ہاتھ پر مہتاب رکھ دو
 
 
پھر بھی میں وہی بات دہراؤں گا
 
جو سچ ہے
 
اناالنبی لاکذب
 
اناابن عبدالمطلب
 
 
چند سچے لفظ
 
ایک سچی بات
 
اناالنبی لاکذب
 
اناابن عبدالمطلب
 
 
یہ سچائی جونازک بیل کے مانند
 
خیراورحسن کے موسم کی خوشبوئیں لیے
 
لمحے سے لمحے کی طرف چلتی رہی
 
اورمیرے باپ تک پہنچی
 
 
سوجب میں مامتا سے کانپتی بانہوں میں خوابیدہ تھا
 
میرے باپ نے مجھ کوجگا دیا
 
اورکہا
 
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
 
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
 
====رئیس،احمد چشتی====
 
(۷؍اگست ۱۹۴۰ء اجمیر شریف)
 
درحضور کو جوآنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
 
دلوں میں چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
 
 
ہے ان کا روضہ اقدس جو خلد سے بڑھ کر
 
توساکنانِ جناں بھی گذر کے دیکھتے ہیں
 
 
وہ اہتمام ہے جشن ولادت شہہ کا
 
کہ آسمان وزمین سب سنور کے دیکھتے ہیں


آپ دشتِ بے اماں میں سایۂ ابرِ بہار
آپ اس تیرہ شبی میں روشنی کا اِک مَنار
آپ کا علم و عمل انسانیت کا افتخار
آپ انساں کے لیے ہیں رحمتِ پروردگار


ہوتی ہے نور کی تقسیم شہر میں گھر گھر
آپ کی ذاتِ گرامی منبعِ علم و یقیں
آپ کی تقلید ہے آئینۂ حبل المتیں
آپ کے قول و عمل ہیں محورِ دنیا و دیں
آپ کا عرفان ہے ، عرفانِ رب العالمیں


توہم بھی گھر میں چراغاں ہی کرکے دیکھتے ہیں
زندگی کا ہر شمارہ آپ سے منسوب ہے
آپ کا محبوب ہی اللہ کا محبوب ہے
دشمنوں پر رحم کرنا آپ کو مرغوب ہے
عاصیوں پہ لطف و رحمت یہ عمل بھی خوب ہے


آپ کی اُمت میں ہوں میرے لیے اعزاز ہے
عاصیوں پر ابرِ رحمت ، آپ کا اعجاز ہے
اِس زمیں سے آسماں تک ، آپ کی پرواز ہے
آپ پر ، اللہ اکبر ، خود خدا کو ناز ہے


مسافرانِ مدینہ ہیں ان کو کیا پروا
  منّتِ رب، ہاتھ میں ہے میرے داماں آپ کا
مجھ کوجو کچھ ہے میسر ، سب ہے فیضاں آپ کا
زندگی پر میری ضو افگن ہے احسان آپ کا
ہے خدا آگاہی بے شک ، صرف عرفاں آپ کا


یہ کچھ بکھیڑے نہ زادسفر کے دیکھتے ہیں
میرے آقا نے ہدایت سے منّور کردیا
 
دین و دنیا کی حقیقت سے منّور کردیا
 
علم و تہذیب و فراست سے منّور کردیا
لگی ہے بھیڑ گداؤں کی آستانے پر
دل مِرا ساجدؔ ! صداقت سے منّور کردیا
 
t
چلوکہ جھولیاں اپنی بھی بھرکے دیکھتے ہیں
ساجد وارثی
 
(ولادت ۱۹۵۶ء ڈھاکہ)
 
کہاں تک بیاں ہو ثنائے محمد
وہیں پہ ہوتی ہے جب دل کی ہردعا پوری
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد
 
ہمارا مقدر نہ کیوں جگمگائے
توہردعا کو وہیں پیش کرکے دیکھتے ہیں
ہے دل میں ہمارے ثنائے محمد
 
اُسے کیا جلائے گی نارِ جہنم
 
ہے سینے میں جس کے وفائے محمد
رئیس !سب پہ ہی کرتے وہ کرم بے شک
خدا نے اُدھر شانِ رحمت عطا کی
 
جدھر انگلیوں کو اُٹھائے محمد
ہم اپنی عرض بھی اب پیش کرکے دیکھتے ہیں
ملاتا ہے ہم کو جو عرشِ خدا سے 
 
ہمیں راستہ وہ دکھائے محمد
====ریحانہ احسان====
نہ دنیا کی حسرت نہ عقبیٰ کی خواہش
 
مرا دل ہے ساجدؔ! فدائے محمد
(۲۰؍جولائی ۹۶۲ء کراچی)
t
 
ساقیؔ جاوید
 
(۵ ؍جنوری ۱۹۲۱ء ناگپور…۲۶؍جنوری۱۹۹۴ء کراچی)
’’قلم ملا بھی تو آپ سے ہے‘‘
اے نقیبِ قرآنی اے رسولِ یزدانی
 
تم ہوزیست کے رہبر تم حیات کے بانی
(خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہونے اور ان کے حکم سے قلم انتخاب کرنے کی
چہرۂ مبارک کا جس نے نوُر دیکھا ہے
سعادت حاصل ہونے کے بعدیہ نعتِ نبی کہنے کی سعادت حاصل ہوئی)
ا س نے خلد دیکھی ہے اس نے طور دیکھا ہے
 
تم زمیں پہ کیا آئے بادِ نوبہار آئی
 
جام لالہ فام آیا بُوئے مُشک بار آئی
یہ سلسلہ بھی تو آپ سے ہے
نام میں بھی نکہت ہے یاد میں بھی خوشبو ہے
 
کیا جمالِ عارض ہے کیا بہار گیسوہے
یہ حوصلہ بھی تو آپ سے ہے
تم حرا کے پہلو میں تم منیٰ کی وادی میں
 
تم ہوجذبۂ دل میں قوتِ ارادی میں
 
تم نے ریگ زاروں میں زندگی بکھیری ہے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
اک چراغ ہم کوبھی غم کی رات اندھیری ہے
 
تم جہاں سے اٹھے تھے وہ بنائے ہستی ہے
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
تم جہاں ہوخوابیدہ زندگی برستی ہے
 
تم کو یاد کرتی ہے دیدۂ بلال اب تک
 
راستہ دکھاتا ہے عشقِ بے مثال اب تک
درست کہ آندھیاں بجھائیں گی اس دیے کو
لب پہ نام آتا ہے روح مُسکراتی ہے
 
زندگی بہاروں میں ڈوب ڈوب جاتی ہے
ہوائیں طوفاں میں آزمائیں گی اس دیے کو
اے صبا مدینہ کوجارہی ہے جاں لے جا
 
کوچۂ محمد تک روحِ تشنگاں لے جا
 
زخم یادکرتے ہیں غم سلام کہتاہے
ہزارتاریکیاں ستائیں گی اس دیے کو
اے نبی میں آپہنچا تشنہ کام کہتاہے
 
t
قسم زمانے کی …قلبِ ویراں کا
سبطِ جعفر
 
(۳۰؍جون ۱۹۵۷ء کراچی…۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء کراچی)
یہ دِیابھی تو آپ سے ہے
بعدِ ذکرِ خدا وحمد وسپاس
 
نعتِ احمد ہے زندگی کی اساس
 
آپ کا اسمِ پاک ہے طٰہٰ
مرا مقدّر کہ میرے آقا
طاہراً ، طیباً عن الانجاس
 
عطر کی بو دماغ پر ہے گراں
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے  
َخلقِ احمد کی سونگھ لو بو باس
 
وصف اعلیٰ تر از رسائی فکر
 
ذات بالا تر از گمان وقیاس
خود اپنی آتش میں کھولتے ،اَدھ جلے درختوں کے سلسلے کو
نعت میں گر چلے زبانِ کلیم
 
دور ہوجائیں لکنت و آماس
میں چھوڑآئی ہوں  
اُن کو سمجھے بشر جو اپنا سا
 
ایسے انساں کے کھو چکے ہیں حواس
 
بھیجئے اپنے جد کے روضے پر
زہرآگیں ،نگاہ انداز قافلے کو
سبطِ جعفر کو جلد یا عباس!
 
t
کہ بس جگہ دی ہے زندگی میں فقط محبت کے مسئلے کو
سبکتگیںصباؔ، محمد
 
(۲۱؍اپریل ۱۹۵۲ء لاہور)
 
عجب اک تشنۂ خودآگہی ذہنوں پہ چھاتا ہے
خزاں گزیدہ رتوں میں آقا
محمد مصطفی کانام جب ہونٹوں پہ آتاہے
 
میں شب کی ساعتوں کو ان پہ جب قربان کرتاہوں
یہ گُل کھلا بھی تو آپ سے ہے
مجھے لگتا ہے جیسے مجھ میں کوئی جاگ جاتاہے
 
کہاں کی نیند بلکہ میں توپلکیں بھی نہ جھپکائوں
 
بھلا ایسے حسیں لمحوں کوئی یوں گنواتا ہے
مرے لہو میں ہر ایک لحظہ
انہی کی ذات سے ملتاہے منزل کا نشاں سب کو
 
انہی کا نور ہے جوراستہ سیدھا دکھاتا ہے
یہ لااِلٰہ بھی توآپ سے ہے
نہ خواہش محل کی مجھ کو نہ حسرت ہے میناروں کی
 
مجھے تو سبز گنبد کملی والے کا ہی بھاتاہے
 
تصور حاضری کا ہی عجب سی کیفیت بخشے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
کبھی مجھ کو ہنستا ہے کبھی مجھ کو رلاتاہے
 
میں جب دہلیز پران کی ہمہ تن گوش ہوتا ہوں
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
مرے کانوں میں کوئی سرمدی نغمہ سناتاہے
 
اسی سے جان لو رُتبہ محمد کا جہاں والو
====زخمیؔ کانپوری====
کہ وہ ایسی حقیقت ہے قسم رب جس کی کھاتاہے
 
مجھے ہو فکر کیوں اپنی صباؔ پھر روزِ محشر کو
(ولادت ۸؍اگست۱۹۳۸ء کانپور)
محمد سے جو رشتہ ہے محمد سے جو ناتاہے
 
t
دل کا یہی ہے ہر دم اصرار یا محمد
سحرؔؔ انصاریؔؔ ،پروفیسر
 
(ولادت ۲۷؍دسمبر۱۹۴۱ء اورنگ آباد،حیدرآباد دکن)
بلوائیے مدینے اک بار یا محمد
مری آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے
 
میں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے
 
کہاں میں اور کہاں طیبہ کی گلیوں کا طواف اے دل
امداد کو نہ کیسے میں آپ کو پکاروں
ہوں اپنے بخت پر نازاں کہ یہ لطفِ پیمبر ہے
 
مدینے کی فضائیں کس قدر ایمان پرور ہیں
عصیاں کا دوش پر ہے اک بار یا محمد
ہر اک لب پر یہاں صلِ علیٰ، اللہ اکبر ہے
 
سلیقہ حمد کا سکھلا دیا ہم بے زبانوں کو
 
محمد کا یہی سب سے بڑا احسان ہم پر ہے
عاصی تو ہوں یقینا ہوں اُمتی تمھارا
دعا مانگو درِ اقدس پہ آکر دردمندی سے
 
یہاں جو اشک آنکھوں سے گرے قیمت میں گوہر ہے
اس بات سے نہیں ہے انکار یا محمد
سہے ہیں جورِ اعدا، دینِ حق کو عام کرنے میں
 
جبھی تو رحمت للعالمیں کا تاج سر پر ہے
 
کسی کی سمت جانے کا گماں تک کر نہیں سکتے
روضے سے دور رہ کرجینا ہُوا ہے دُو بھر
انھی کے در سے وابستہ سحرؔ اپنا مقدر ہے
 
t
بیڑا لگائیں میرا اب پار یا محمد
سحرؔ تاب رومانی
 
(ولادت ۱۳؍مارچ ۱۹۶۴ء ،میرپور ،سندھ)
 
جب کرم کی وہ نظر ہونے لگی
ہیں آپ ہی کی یادیں ہیں آپ ہی کے جلوے
زندگی اپنی بسر ہونے لگی
 
آپ کی چشمِ عنایت کے طفیل
دل میں کھلا ہوا ہے گلزار یا محمد
دھول پیروں کی گُہر ہونے لگی
 
ذات کی جب آگہی بخشی گئی
 
پھر مجھے اپنی خبر ہونے لگی
ہوآپ کا اشارا پہنچوں میں اُڑ کے طیبہ
پھر چراغِ زندگی روشن ہوا
 
پھر شبِ غم کی سحر ہونے لگی
بیٹھا ہوا ہوں میں تو تیار یا محمد
نعت کہنے کا سلیقہ آگیا
 
شاعری میرا ہنر ہونے لگی
 
t
زخمیؔ کے حال پر بھی چشم کرم خدارا
-
 
ستاروں سے سلامی چاہتاہوں
مانا نہیں کرم کا حقدار یا محمد
میں اُس در کی غلامی چاہتا ہوں
رہے جاری مرے ہونٹوں پہ ہر دم
ترا اسمِ گرامی چاہتا ہوں
مرے اعمال کو بھی معتبر کر
میں اپنی نیک نامی چاہتا ہوں
کرم ہے نعت کہنے کایہ فن بھی
مگر میں طرزِ جامی چاہتا ہوں
مجھے سحر البیانی بھی عطا ہو
سحرؔ ! میں خوش کلامی چاہتا ہوں
t
سخاوت علی نادرؔ
(۷؍اگست ۱۹۶۲ء کراچی)
مرے نبی سا یہاں خوش خصال کوئی نہیں
کہیںبھی دوسری ایسی مثال کوئی نہیں
فقیر ہوں میں سوالی ہوں تیرا منگتا ہوں  
جہاں میں مجھ سا مگر مالامال کوئی نہیں
یہ دَین ہے مرے مولا کی میں کہوں نعتیں
مرا ذرا سا بھی اس میں کمال کوئی نہیں
تمنا دل میں مچلتی ہے اور یہ کہتی ہے
بس اُن کے در کے سوا اب سوال کوئی نہیں
کرم کی بھیک عطا ہو گنہگاروں کو
بجز تمہارے مری اور ڈھال کوئی نہیں
درِ نبی کی کی زیارت نصیب ہو نادرؔ !
نظر کا اس سے بڑا اور کمال کوئی نہیں
t
سراج الدین ظفر
(۲۵ ؍مارچ ۱۹۱۲ء جہلم…۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
سبوئے جاں میں جھلکتا ہے کیمیا کی طرح
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح
قدح گسار ہیں اُس کی اماں میں جس کا وجود
سفینۂ دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح
وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچۂ ادراک
وہ جس کانام نسیمِ گرہ کشا کی طرح
طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی
حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح
وہ جس کاجذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب
وہ جس کا عزم تھا دستور ِارتقا کی طرح
وہ جس کا سلسلۂ جود،ابرِ گوہر بار
وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح
سوادِ صبحِ ازل ، جس کے راستے کا غبار
طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقشِ پا کی طرح
خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار
فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد
وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک
محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
شرف ملابشریت کو اُس کے قدموں میں
یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہاکی طرح
اُسی کے حسنِ سماعت کی ہے کرامتِ خاص
وہ اِک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی طرح
وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود
یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی طرح
بغیرِ عشقِ محمد کسی سے ُکھل نہ سکے
رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا طرح
ریاضِ مدحِ رسالت میں رہوارِ غزل
چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح
نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین
مرے قلم میںہے جنبش پرِ ہما کی طرح
جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفرؔ!
دماغِ رند ہوا عرشِ کبریا کی طرح
-
اے خاتم الرسل شہ دوراں تمہیں توہو
نذرانہ جس کاہے گہرِ جاں تمہیں تو ہو
ہر آئینے کو جلوہ گہہِ شش جہات میں
جس نے دیاہے دیدۂ حیراں تمہیں تو ہو
نوعِ بشر کا محسن اعظم تمہارا نام!
عالم ہے جس کا بندۂ احساں تمہیں تو ہو
صبح ازل منور وتاباں تمہیں سے تھی
شامِ ابد کی شمعِ فروزاں تمہیں تو ہو
رشتہ ہماری ذات کا یزداں سے استوار
جس نے کیا وہ پرتوِ یزداں تمہیں تو ہو
ہر امرِ کائنات تمہاری نظر میں ہے
آگاہِ راز پیدا وپنہاں تمہیں تو ہو
ہرمسئلے میں رشد وہدایت تمہیں سے ہے
ہر فیصلے میں عدل کی میزاں تمہیں تو ہو
وہ جس نے جسم و جاں میں نئی روح پُھونک دی
وہ جس سے زندگی ہوئی جولاں تمہیں تو ہو
شاداب جس کے فیض سے میرے دل ودماغ
وہ موجۂ نسیم گلستاں تمہیں تو ہو
مجھ بے نوا و بے سروسامان شہر کو
جس نے عطا کیا سروساماں تمہیں توہو
مجھ رِند بے شعور کے دامانِ تنگ کو
بخشی ہے جس نے دولتِ عرفاں تمہیں تو ہو
مجھ بوریا نشیں کو قناعت کے رنگ میں
جس نے دیا ہے رُتبہ سلطاں تمہیں تو ہو
میں نے طوافِ کوئے غزالاں کے باوجود
باندھا ہے جس سے شوق کاپیماں تمہیں تو ہو
.
شرابِ عشق نبی سے جو فیضاب ہوئے
ہم ایسے رند بھی بیگانۂ شراب ہوئے
جلا جودل میںچراغِ جمالِ مصطفوی
سیاہ رو شجرِ طور کا جواب ہوئے
ہوئی طلوع جو سینے میں آرزوئے رسول
جو وسوسے تھے دلوں کے خیال و خواب ہوئے
ہراک شے کا مقدر بدل دیا اُس نے
نظر اٹھائی توذرّے بھی آفتاب ہوئے
ادا شناس تھی میزانِ انتخاب اس کی
گدا بھی منتخب چشم انتخاب ہوئے
مٹے ہوؤں کو اُبھارا ہے نقشِ نو کی طرح
ٍستم زدوں پہ کرم اُس کے بے حساب ہوئے
فریب قیصروکسریٰ کھلا زمانے پر
نظر میں افسر و اکلیل بھی سراب ہوئے
دیا وہ رتبۂ نو بوریا نشینوں کو  
کہ بورئیے بھی انہیں خلعت وخطاب ہوئے
اسی کے درسِ جلالی کا معجزہ ہے کہ ہم
حریفِ سیف ہوئے صاحب کتاب ہوئے
اُسی کا ُیمنِ قدم تھا کہ ریگ زاروں کو
سرشگفت ہوا تختہ گلاب ہوئے
اُسی کی ذات نے عالم کی رہنمائی کی
اُسی کے لطف سے تحلیل سب حجاب ہوئے
اُسی کے فیض سے آئی حریم جاں میں بہار
اُسی کے دم سے بپادل میں انقلاب ہوئے
وہ ابرِ لطف وکرم جس کی راہ کے ذرات
صبا کے ساتھ اڑے خیمۂ سحاب ہوئے
وہ بحرِ جُودوسخا جس سے بہرِ کسبِ گُہر
نجوم و شمس و قمر کاسۂ حباب ہوئے
قلم اٹھا جو مرا مدحتِ رسالت میں
دل ودماغ میں واآگہی کے باب ہوئے
دبے ہوئے تھے جو ارض وسما کے سینے میں
وہ راز اُس کی سعادت سے بے نقاب ہوئے
دل اُس کے عشق میںکھویا توپائی دل کی مراد
سراس کے درپہ جھکایا توکامیاب ہوئے
غزل سرا جو ہوا میں بذوقِ نعت ظفرؔ
زباں پہ حرفِ غزل حرفِ مستجاب ہوئے
t
سردار عبدالرّب نشترؔ
(۱۳؍جون۱۸۹۹ ء پشاور…۱۴؍فروری۱۹۵۹ء کراچی)
شب و روز مشغول صلِ علیٰ ہوں
میں وہ چاکر خاتمِ انبیا ہوں
نگاہِ کرم سے نہ محروم رکھیو
تمھارا ہوں میں گر َبھلا یا بُرا ہوں
مجھے بھی یوں معراج ، معراج والے
میں دیوانہ لیلائے معراج کا ہوں
مرے لحن پر رشک داؤد کو ہے
مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں
نہ کیوں فخر ہو عشق پر اپنے مجھ کو
رقیبِ خدا ، عاشقِ مصطفیٰ ہوں
میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ
گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں
t
سرفراز ابدؔ
(۲۵؍فروری ۱۹۵۲ء کراچی)
یہ اور بات کبھی سامنا ہوا بھی نہیں
دل اُن کی یاد سے غافل مگررہا بھی نہیں
کرم اور ایساکرم جس کی انتہا بھی نہیں
وہ مل گیا مری تقدیر میں جو تھا بھی نہیں
خدا کی بات خدا جانے وہ خدا بھی نہیں
مگریہ سچ ہے کوئی اُن سا دوسرا بھی نہیں
مطالبہ کبھی اُن سے کوئی کیا بھی نہیں
ملا وہ حسبِ ضرورت جو سوچتا بھی نہیں
چڑھا ہوں نظروں پہ چشمِ کرم کے زینے سے
نہ لکھتا نعت جہاں مجھ کو پوچھتا بھی نہیں
خدا ہے مہرباں دیوانۂ محمد پر
دوا کاہوش توکیا فرصت دعا بھی نہیں
مثال اُن کی نہ ڈھونڈوبشر کے پردے میں
نہ اب ہے اُن سانہ ہوگا کبھی ہوابھی نہیں
بسا ہُوا ہے مدینہ خیال میں جس کے
نظراٹھا کے وہ جنت کو دیکھتا بھی نہیں
کرم یہ اُن کا کہ میری طرف ہے دستِ عطا
مرا یہ حال مرا کوئی مدّعا بھی نہیں
جہاں کی راہ کا رہبر بناؤ عشقِ رسول
ابدؔ ! کچھ اس کے سوا اورراستہ بھی نہیں
t
t
====زیب غوری====
(۱۹۲۸ء کانپور … یکم اگست ۱۹۸۵،کراچی)
پاک فضاؤں کو آلودا مت کرنا
اُن گلیوں میں میرا چرچامت کرنا
مجھ کو جو نسبت ہے اسمِ محمدسے
اُس نسبت کاکوئی اشارہ مت کرنا
جھوٹے تھے سارے عہد وپیماں میرے
میرے گناہوں کوبے پردامت کرنا
چُپ رہنا میرے بارے میں اُن کے حضور
کچھ کہہ کر مجھ کو شرمندہ مت کرنا
کبھی تووہ محرم آنکھیں دیکھیں گی مجھے
لیکن اُن سے کوئی تقاضا مت کرنا
میرا نام مدینے میں لے لینا بس
اس سے زیادہ عرض ِ تمنا مت کرنا
اس قدر ہوش اسے چاہنے والے رکھنا
دیکھنا اس کو توکچھ پردے بھی ڈالے رکھنا
اس نے مٹی سے تعلق نہیں توڑا اپنا
سونے چاندی کے کٹورے نہ پیالے رکھنا
وہ حرم تھا وہاں گنجائش ِ مستی تھی بہت
یہ مدینہ ہے یہاں خود کو سنبھالے رکھنا
ہاتھ رکھنا وہ تہی دستوں کے سر پر اس کا
کہیں صحراؤں میں چشمے کہیں لالے رکھنا
اے مدینے کی مہکتی ہوئی روشن گلیو!
یاداُس پیکرِخوبی کے حوالے رکھنا
کام آجائیں یہی اشکِ ندامت شاید
یہ گہر دل کے کسی کونے میں ڈالے رکھنا
وہ پشیمانوں پہ جولانیٔ رحمت اس کی
درگزر کے کسی پہلو کونکالے رکھنا
پھولوں نے فیض رسانی کی ادا پہچانی
اس سے سیکھا ہے چراغوں نے اجالے رکھنا
اس کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ
سہل تھا جن پہ پہاڑوں کوسنبھالے رکھنا
عرش سی پاک زمینوں پہ قدم رکھو گے
زیبؔ یہ سوئے ادب ہے اسے ٹالے رکھنا
====ساجد علی ساجدؔ====
(۲۷؍فروری ۱۹۵۰… ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کراچی)
آپ علم و آگہی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ روحِ زندگی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ غیبی روشنی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ حسنِ دائمی کا زندۂ و پائندہ نقش
  آپ کے دم سے ہے قائم یہ حیات و کائنات
آپ کے لطف و کرم سے ہے بہاروں کو ثبات
آپ کے درسِ مبارک سے ہے روشن یہ حیات
آپ کے نقشِ قدم ہیں منزلِ راہِ نجات
آپ دشتِ بے اماں میں سایۂ ابرِ بہار
آپ اس تیرہ شبی میں روشنی کا اِک مَنار
آپ کا علم و عمل انسانیت کا افتخار
آپ انساں کے لیے ہیں رحمتِ پروردگار
آپ کی ذاتِ گرامی منبعِ علم و یقیں
آپ کی تقلید ہے آئینۂ حبل المتیں
آپ کے قول و عمل ہیں محورِ دنیا و دیں
آپ کا عرفان ہے ، عرفانِ رب العالمیں
زندگی کا ہر شمارہ آپ سے منسوب ہے
آپ کا محبوب ہی اللہ کا محبوب ہے
دشمنوں پر رحم کرنا آپ کو مرغوب ہے
عاصیوں پہ لطف و رحمت یہ عمل بھی خوب ہے
آپ کی اُمت میں ہوں میرے لیے اعزاز ہے
عاصیوں پر ابرِ رحمت ، آپ کا اعجاز ہے
اِس زمیں سے آسماں تک ، آپ کی پرواز ہے


آپ پر ، اللہ اکبر ، خود خدا کو ناز ہے  
سرور بارہ بنکوی
 
(۳۰ ؍جنوری ۱۹۱۹ء بارہ بنکی یوپی…۳؍اپریل۱۹۸۰ء ڈھاکہ)
 
سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا
 
زباں کو حوصلہ مدحِ آنجناب ہوا
  منّتِ رب، ہاتھ میں ہے میرے داماں آپ کا
نہ ہوسکا ہے نہ ہوگاازل سے تابہ ابد
 
جواب اس کا جو آپ اپنا خود جواب ہوا
مجھ کوجو کچھ ہے میسر ، سب ہے فیضاں آپ کا
اسی کے فیض سے ارض وسما عبارت ہیں
 
اسی کے نور سے ظلمت کا سدِّباب ہوا
زندگی پر میری ضو افگن ہے احسان آپ کا
زفرش تابہ فلک کون ایسا ذرہ ہے
 
جو آفتاب کرم سے نہ فیض یاب ہوا
ہے خدا آگاہی بے شک ، صرف عرفاں آپ کا
وہی ہے نکتۂ آغاز علم وحکمت کا
 
وہ اسم پاک جہاں داخلِ نصاب ہوا
 
اب ایسی ذات گرامی کی مدح کیا ہوگی
 
کہ جس کے نام سے قرآں کا انتساب ہوا
میرے آقا نے ہدایت سے منّور کردیا
-
 
اللہ اللہ میری قسمت ایسا رتبہ اورمیں
دین و دنیا کی حقیقت سے منّور کردیا
جاگتی آنکھوں سے دیکھوں خوابِ طیبہ میں
 
دم بخود ہیں آج دونوں میری دنیا اورمیں
علم و تہذیب و فراست سے منّور کردیا
بارگاہ صاحبِ یسٰین وطہٰ اورمیں
 
آج ان آنکھوں کو بینائی کا حاصل مل گیا
دل مِرا ساجدؔ ! صداقت سے منّور کردیا
روبرو ہے گنبد خضرا کا جلوہ اورمیں
 
آپ کی چشم کرم کا میں نے دیکھا معجزہ
====ساجد وارثی====
آپ کے روضے کی جالی میرے آقا اورمیں
 
آپ ہی چاہیں تورکھ لیں آبروورنہ حضور
(ولادت ۱۹۵۶ء ڈھاکہ)
اپنے منہ سے آپ کی نسبت کا دعویٰ اورمیں
 
مجھ کو اذنِ باریابی اوراس انداز سے  
کہاں تک بیاں ہو ثنائے محمد  
آپ پرقرباں مرے اجداد وآبا اور میں
 
میں جہاں پرہوںوہاں محسوس ہوتاہے سرورؔ
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد
جیسے پیچھے رہ گئے ہوں میری دنیا اور میں
 
t
 
سرورؔ جاوید
ہمارا مقدر نہ کیوں جگمگائے
(۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء بلند شہر، بھارت)
 
عقیدتوں کا سفر یوں تو عمر بھر کا ہے
ہے دل میں ہمارے ثنائے محمد
مگر نجات کا رستہ تمھارے گھر کا ہے
 
ولائے نعتِ محمد شعورِ ذات نبی
 
تمام عمر یہی راستہ سفر کا ہے
اُسے کیا جلائے گی نارِ جہنم
اندھیری شب میں برائے سفرہے یہ خورشید
 
کڑی ہو دھوپ تو سایہ اسی شجر کا ہے
ہے سینے میں جس کے وفائے محمد
جو اس کی ذات کی وسعت سمیٹنے بیٹھوں
 
وہی ہو حال خرد کا کہ جو نظر کا ہے
 
وفا کا حسن ، محبت کا فن ، کمالِ حیات
خدا نے اُدھر شانِ رحمت عطا کی
اسی کی ذات سے رشتہ ہر اک ہنر کا ہے
 
عقیدتوں میں محبت کے رنگ ہیں سرورؔ
جدھر انگلیوں کو اُٹھائے محمد
یہ سلسلہ بھی اسی ذات کے اثر کا ہے
 
t
 
سعدیہ حریم
ملاتا ہے ہم کو جو عرشِ خدا سے 
(۹؍جنوری ۱۹۴۶ء لکھنؤ)
 
رقم کیسے کروں شانِ محمد
ہمیں راستہ وہ دکھائے محمد
خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد
 
ازل سے تا ابد جاری و ساری
 
بحمدِ اللہ ہے فیضانِ محمد
نہ دنیا کی حسرت نہ عقبیٰ کی خواہش
تمنائیِ رضائے حق اگر ہے
 
عمل کر حسبِ فرمانِ محمد
مرا دل ہے ساجدؔ! فدائے محمد
وہ سقراط و ارسطو سے ہے برتر
 
جو ہے طفلِ دبستانِ محمد
 
ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر
====ساقیؔ جاوید====
ہیں چاروں جاں نثارانِ محمد
 
فرشتوں کو بھی اس پر رشک آئے
(۵ ؍جنوری ۱۹۲۱ء ناگپور…۲۶؍جنوری۱۹۹۴ء کراچی)
جسے ہو جائے عرفانِ محمد
 
وہ ہیں منشائیِ تخلیق دو عالم
اے نقیبِ قرآنی اے رسولِ یزدانی
دو عالم پر ہے احسانِ محمد
 
تمنائے حریمؔ اللہ یہی ہے
تم ہوزیست کے رہبر تم حیات کے بانی
کہے اک نعت شایانِ محمد
 
t
 
سعید الظفر صدیقی
چہرۂ مبارک کا جس نے نوُر دیکھا ہے
(۲۱؍ مارچ ۱۹۴۴ء بھوپال، بھارت)
 
تھا جو مٹی کا بدن کندن بنا کر آئے ہیں
ا س نے خلد دیکھی ہے اس نے طور دیکھا ہے
بارشوں میں ہم مدینے کی نہا کر آئے ہیں
 
ہم نے خود آنکھوں سے دیکھے ہیں نظارے خلد کے
 
ہم سے پوچھو ہم درِ اقدس پہ جا کر آئے ہیں
تم زمیں پہ کیا آئے بادِ نوبہار آئی
ہیچ ہیں نظروں میں اب سارے جہاں کی رونقیں
 
خاکِ طیبہ کو ان آنکھوں سے لگا کر آئے ہیں
جام لالہ فام آیا بُوئے مُشک بار آئی
اپنے والی ، اپنے حامی ، اپنے آقاؐ کے حضور
 
اپنی بپتا ، اپنا حالِ دل سنا کر آئے ہیں
 
بے سر و ساماں گئے تھے لے کے لوٹے کائنات
نام میں بھی نکہت ہے یاد میں بھی خوشبو ہے
نام آقاؐ کے غلاموں میں لکھا کر آئے ہیں
 
بوجھ سر پر تھا گناہوں کا ظفرؔ کرتے بھی کیا
کیا جمالِ عارض ہے کیا بہار گیسوہے
ایک کونے میں کھڑے آنسو بہا کر آئے ہیں
 
-
 
جب سے سرکارؐ کی روشنی مل گئی
تم حرا کے پہلو میں تم منیٰ کی وادی میں
زندگی کو نئی زندگی مل گئی
 
آخری آرزو دل کی پوری ہوئی
تم ہوجذبۂ دل میں قوتِ ارادی میں
دوریاں مٹ گئیں ، حاضری مل گئی
 
ہیں اجالے قدم در قدم ہم رکاب
 
رہ گزر ، رہ گزر روشنی مل گئی
تم نے ریگ زاروں میں زندگی بکھیری ہے
لوگ جو پستیوں میں تھے ڈوبے انہیں
 
آکے طیبہ میں خوش قامتی مل گئی
اک چراغ ہم کوبھی غم کی رات اندھیری ہے
مل گئیں عاجزوں کو سرافرازیاں
 
بے قراروں کو آسودگی مل گئی
 
دو جہانوں میں وہ سرخرو ہو گیا
تم جہاں سے اٹھے تھے وہ بنائے ہستی ہے  
جس کو محبوبِؐ رب کی گلی مل گئی
 
نعت کہنے کا جس دم ارادہ کیا
تم جہاں ہوخوابیدہ زندگی برستی ہے
اک مہکتی ہوئی شاعری مل گئی
 
دل جو طیبہ کی فرقت میں رویا سعیدؔؔ
 
اس کو سارے جہاں کی خوشی مل گئی
تم کو یاد کرتی ہے دیدۂ بلال اب تک
t
 
سعیدؔ عباسی
راستہ دکھاتا ہے عشقِ بے مثال اب تک
(یکم اگست ۱۹۲۳ء بدایوں)
 
ہزار بار اُٹھیں گے قدم خدا کی طرف
 
بس ایک بار چلے آؤمصطفی کی طرف
لب پہ نام آتا ہے روح مُسکراتی ہے
تمام عالمِ انسانیت تھازیرِ قدم
 
بڑھے تھے سرورِ کونین جب حرا کی طرف
زندگی بہاروں میں ڈوب ڈوب جاتی ہے
جہاں سے حضرت جبریل ہو گئے واپس
 
وہ اِک قدم تھا محمد کا انتہاکی طرف
 
یہ اور بات کہ واعظ نے قبلہ رو جانا
اے صبا مدینہ کوجارہی ہے جاں لے جا
ہمارا رُخ تھا اُنہیں کے نقوشِ پا کی طرف
 
امیرِ شہر کی نظریں کسی طرف ہی سہی
کوچۂ محمد تک روحِ تشنگاں لے جا
غریبِ شہر کی آنکھیں ہیں مصطفی کی طرف
 
اُنہیں کا نقشِ کفِ پا نشانِ منزل ہے  
 
یہی تو ہیں کہ جو لے جائیں گے خدا کی طرف
زخم یادکرتے ہیں غم سلام کہتاہے
خدا سے عشقِ محمد کی روشنی مانگیں
 
یہ انتہا ہے کہ لوٹ آئیں ابتدا کی طرف
اے نبی میں آپہنچا تشنہ کام کہتاہے
t
 
سلیم احمد
 
(۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء بارہ بنکی،یوپی…یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کراچی)
====سبطِ جعفر====
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
 
ثنا کرے کوئی اس کی کیونکر بشر ہے لیکن خدا نما ہے
(۳۰؍جون ۱۹۵۷ء کراچی…۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء کراچی)
وہی ہے اول وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر
 
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیاہے جو رہ گیا ہے
بعدِ ذکرِ خدا وحمد وسپاس
وہ سر تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
 
وجود کی ساری وسعتوں پرمحیط ہے جو وہ دائرہ ہے
نعتِ احمد ہے زندگی کی اساس
انہی کا مسکن انہی کا گھر ہے انہی کی نسبت سے معتبر ہیں
 
حرم ہو طیبہ ہو میرا دل ہویہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
 
کوئی نہیں ہے مثیل اس کا کوئی نہیں ہے نظیر اس کا
آپ کا اسمِ پاک ہے طٰہٰ
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اورآپ اپنا ہی آئنہ ہے
 
ہے خطِ واصل کہ حد فاضل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
طاہراً ، طیباً عن الانجاس
سلیم عاجز ہے فہم کامل وہی بشر ہے وہی خدا ہے
 
-
 
طبیعت تھی میری بہت مضمحل
عطر کی بو دماغ پر ہے گراں
کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل
 
بہت مضطرب تھا بہت بے حواس
َخلقِ احمد کی سونگھ لو بو باس
کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھاراس
 
مرے دل میں احساس غم رم گیا
 
غبار آئینے پر بہت جم گیا
وصف اعلیٰ تر از رسائی فکر
مجھے ہوگیا تھا اک آزار سا
 
میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا
ذات بالا تر از گمان وقیاس
یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی
 
کہ اک دن تھا نویدِ شفا مل گئی
 
مجھے زندگی کا سلام آگیا
نعت میں گر چلے زبانِ کلیم
زباں پہ محمد کا نام آگیا
 
محمد قرار دل بیکساں
دور ہوجائیں لکنت و آماس
کہ نام محمد ہے آرامِ جاں
 
ریاضِ خدا کا ُگلِ سرسبد
 
محمد ازَل ہے محمد ابد
اُن کو سمجھے بشر جو اپنا سا
محمد کہ حامد بھی محمود بھی
 
محمد کہ شاہد بھی مشہود بھی
ایسے انساں کے کھو چکے ہیں حواس
محمد سراج و محمد منیر
 
محمد بشیر ومحمد نذیر
 
محمد کلیم و محمد کلام
بھیجئے اپنے جد کے روضے پر
محمد پہ لاکھوں درود و سلام
 
.
سبطِ جعفر کو جلد یا عباس!
شوقِ بے حد، غمِ دل، دیدۂ تر مل جائے
 
مجھ کو طیبہ کے لیے اذن سفر مل جائے
 
نام احمد کا اثر دیکھ جب آئے لب پر
====سبکتگیں صباؔ، محمد====
چشم بے مایہ کوآنسو کا گہر مل جائے
 
چشم خیرہ،نگراں ہے رخ آقا کی طرف
(۲۱؍اپریل ۱۹۵۲ء لاہور)
جیسے خورشید سے ذرّے کی نظر مل جائے
 
یاد طیبہ کی گھنی چھاؤں ہے سرپہ میرے
عجب اک تشنۂ خودآگہی ذہنوں پہ چھاتا ہے
جیسے تپتی ہوئی راہوں میں شجر مل جائے
 
نخل صحراکی طرح خشک ہوں وہ ابر کرم
محمد مصطفی کانام جب ہونٹوں پہ آتاہے
مجھ پہ برسے تومجھے برگ و ثمر مل جائے
 
/
 
میرا سکھ سنسار محمد
میں شب کی ساعتوں کو ان پہ جب قربان کرتاہوں
جی کا چین قرار محمد
 
میرا سب کچھ تم پر صدقے
مجھے لگتا ہے جیسے مجھ میں کوئی جاگ جاتاہے
میں اور سب گھر بار محمد
 
دُکھ برہا کے کب تک جھیلوں
 
درشن دو، سرکار محمد
کہاں کی نیند بلکہ میں توپلکیں بھی نہ جھپکائوں
گھورِ اندھیرا، طوفاں بھاری
 
کر دو نیاّ پار محمد
بھلا ایسے حسیں لمحوں کوئی یوں گنواتا ہے
چھٹ گئے دکھ، بپتا کے بادل
 
جب بھی کہا اک بار محمد
 
بپھری موجوں سے کیا ڈرنا
انہی کی ذات سے ملتاہے منزل کا نشاں سب کو
جب ہوں کھیون ہار محمد
 
بھیک دیا کی سلیمؔ کو دے دو
انہی کا نور ہے جوراستہ سیدھا دکھاتا ہے
لطف و کرم آثار محمد
 
t
 
سلیم فوز
نہ خواہش محل کی مجھ کو نہ حسرت ہے میناروں کی
(۲۸؍فروری۵ ۱۹۶ء خانیوال)
 
تری یاد وہ دلِ مضطرب میں سکون کو جو اُتار دے
مجھے تو سبز گنبد کملی والے کا ہی بھاتاہے
تو وہ آئینہ کہ جو عکس پر نئے خدّوخال اُبھار دے
 
ترا دھیان وہ کڑی دھوپ میںجوگھنیری چھاؤں کا آسرا
 
ترا اسم وہ جو خزاں رسیدہ شجر کو اذنِ بہار دے
تصور حاضری کا ہی عجب سی کیفیت بخشے
تو وہ رہنما کہ جو دیکھتا ہے غبارِ راہ کے پار بھی
 
جو بھٹک گئے ، ترا نقشِ پا انہیں منزلوں کو سدھار دے
کبھی مجھ کو ہنستا ہے کبھی مجھ کو رلاتاہے
میں وہ بے ہنر جو نہ پا سکاتری خاکِ شہر کا مرتبہ
 
مری عاجزی کوقبول کر مری عافیت کو سنوار دے
 
میں وہ کم نظر کہ جو خواہشوں کے  بھنور میں گھرتا چلاگیا
میں جب دہلیز پران کی ہمہ تن گوش ہوتا ہوں
ترا ذکر وہ کسی ڈوبتے کو جو ساحلوں پہ ابھار دے
 
تجھے سوچ کر مرے جسم و روح میں پھیلتی ہے جو روشنی
مرے کانوں میں کوئی سرمدی نغمہ سناتاہے
اُسی روشنی سے مرے سخن کی صداقتوں کو نکھار دے
-
بتا دیا مری منزل کا راستہ مجھ کو
مرے نبی کے بکھرنے نہیں دیا مجھ کو
میں صرف خاک تھا اُن کے ظہور سے پہلے
کیا ہے ربطِ محبت نے کیمیا مجھ کو
میں وہ فقیرجو آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے
کرم کی بھیک ملے شاہِ انبیا مجھ کو
تمہاری یاد گُہر بن گئی ہے سینے میں
کہ آگیا ہے ستارہ تراشنا مجھ کو
میں ٹوٹ جاتا ہوں جب گردشِ زمانہ سے
تمہارے ذکر سے ملتا ہے حوصلہ مجھ کو
ملا ہے مجھ کو سبھی کچھ تمہاری نسبت سے
بس اب دکھا دو مدینے کا راستہ مجھ کو
میں بند آنکھوں سے دیکھوں تمہارے روضے کو
سکھا دو ایسا کوئی اسم یا دُعا مجھ کو
سلیم فوزؔ نے دیکھے ہوئے ہیں خواب بہت
عطا ہو مسجدِ نبوی کا رتجگا مجھ کو
t
سوزؔ شاہجہاں پوری
(۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء شاہ جہاں پور… ۲۳؍ جنوری ۶ ۹ ۹ ء کر اچی)
نہ گمان ہے نہ یقین ہے ،جو نظر میں ہے وہی راز ہے  
یہی عشق کی ہیں حقیقتیں ، یہی اصلِ ناز و نیاز ہے
مِرے لب پہ نام حبیب کا ،مِرے دل میں یاد رسول کی
یہی بندگی کانظام ہے ، یہی عاشقوں کی نماز ہے
وہی حسنِ ذات کاراز داں، وہی نورِ عرش کا مدح خواں
وہی لااِلٰہ کا راز ہے ،وہی سوز ہے وہی ساز ہے
ہو زباں پہ ذکرِ نبی اگر ، تو جہاں ہے منزلِ بے خطر
یہ عجیب جادۂ عشق ہے ،کہ نشیب ہے نہ فراز ہے
وہ فلک پہ شانِ جمال ہے ، یہ زمیں پہ عکس جمال کا  
یہی ایک فرق ہے درمیاں ، یہی ایک پردۂ راز ہے
جو عرب کاحسنِ تمام تھا ، وہ عجم کے دل کا سکوں ہوا
وہ حبیبِ ذاتِ اِلٰہ ہے ، وہی جانِ راز و نیاز ہے
جو غلامِ شاہِ انام ہیں ،اُنہیں سوزؔ! اِ س سے ہے واسطہ
کہ جہاں کہیں ہو وہ نقشِ پا ، وہی سجدہ گاہِ ایاز ہے
t
سہیل احمد صدیقی
(۱۵؍دسمبر ۱۹۶۴ء کراچی)
نعتیہ ہائیکو
مجھ سے ہیں بہتر کرتے ہیں بہتر کیا ماضی کیا حال؟ مانندِ شبنم
پنکھ پکھیرو کرتے ہیں روضے پہ حاضر طائر صلِ علیٰ کا ورد کرے روضے پہ جب حاضر ہوں
ذکر پیغمبر نعتِ پیغمبر خوش بخت و خوش حال ہو دیدہ پُرنم


دائم ہے سکھ چین جن و ملک حیراں اصل کائنات
پہلوئے آقا میں دیکھ ایک ہی جست میں اسرا کی حور و غلماں قرباں ہوں
خوابیدہ شیخین ہر منزل آساں فخرِ موجودات
t


اسی سے جان لو رُتبہ محمد کا جہاں والو
سید اشتیاق اظہرؔ
 
(۳؍مئی ۱۹۲۴ء کانپور … ۴؍نومبر ۱۹۹۹ء ، کراچی)
کہ وہ ایسی حقیقت ہے قسم رب جس کی کھاتاہے
رسول ہاشمی نے جو سبق ہم کو پڑھایا تھا
 
اگر ہم اس سبق کویاد کرلیں دلنشیں کرلیں
 
اگر ہم آج پھر پڑھ لیں سبق مہرومحبت کا  
مجھے ہو فکر کیوں اپنی صباؔ پھر روزِ محشر کو
اگر ہم خود کو پھر وارفتۂ دینِ متیں کرلیں
 
اگر ہم آج پھر ہوجائیں گرویدہ صداقت کے
محمد سے جو رشتہ ہے محمد سے جو ناتاہے
اگرہم اس سبق کو اوربھی دل کے قریں کرلیں
 
مساوات ومودت پراگرایمان لے آئیں
 
اگر ہم خود کووقفِ حکمِ رب العالمیں کرلیں
====سحرؔؔ انصاریؔؔ ،پروفیسر====
یقیں ہم کو اگر ہوزندگی کی بے ثباتی کا  
 
حیاتِ چند روزہ نذرِ ختم المرسلیں کرلیں
(ولادت ۲۷؍دسمبر۱۹۴۱ء اورنگ آباد،حیدرآباد دکن)
اگر  ہم آشنا ہوجائیں ملت کے تقاضوں سے  
 
پیام حق کو سمجھیں امیتازِ کفرودِیں کرلیں
مری آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے
نبی کے آخری پیغام کو پھر حفظ کر ڈالیں
 
خداکے دین کی سچائیوں پر پھر یقیں کرلیں
میں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے
زمیں پر آخری امت کے اس اعزاز کی خاطر
 
ہم اپنے آپ میں پیدا خلوصِ مومنیں کرلیں
 
ٍخلوص مومنیں خوشنودیٔ آقا کا باعث ہے
کہاں میں اور کہاں طیبہ کی گلیوں کا طواف اے دل
چلو اورچل کے یہ پیش شفیع المذنبیں کرلیں
 
کہاں تک معصیت کی داستاں دہرائے جائیں گے
ہوں اپنے بخت پر نازاں کہ یہ لطفِ پیمبر ہے
مناسب ہے کہ اب ہموارراہِ واپسیں کرلیں
 
زمیں پر عظمت آدم کے جلوے عام کرڈالیں
 
کبھی توخود کو بھی ہم رُتبہ مہرٔ مبیں کرلیں
مدینے کی فضائیں کس قدر ایمان پرور ہیں
طوافِ کعبہ اپنا کعبۂ مقصود بن جائے
 
مدینے کے سفر کو اپنا عزمِ اولیں کرلیں
ہر اک لب پر یہاں صلِ علیٰ، اللہ اکبر ہے
سزاوارِ کرم بن جائیں ماضی کی طرف لوٹیں
 
حرم کی خاک سے آراستہ اپنی جبیں کرلیں
 
تواپنے حال پر اللہ کا انعام ہوجائے
سلیقہ حمد کا سکھلا دیا ہم بے زبانوں کو
یہ ارضِ پاک پھر گہوارۂ اسلام ہوجائے
 
t
محمد کا یہی سب سے بڑا احسان ہم پر ہے
سید فضل احمد کریم فضلیؔ
 
(۴؍نومبر۱۹۰۶ء الہٰ احمد کریم…۱۷؍دسمبر۱۹۸۱ء کراچی)
 
ہے اگر کائنات ایک رباب
دعا مانگو درِ اقدس پہ آکر دردمندی سے
ذات پاکِ حضور ہے مضراب
 
سب میںکچھ کچھ کمی سے لگتی ہے
یہاں جو اشک آنکھوں سے گرے قیمت میں گوہر ہے
جوبھی آتے ہیں ذہن میں القاب
 
وہ کہ ان کا نہیں کوئی بھی مثیل
 
وہ کہ ان کانہیں کوئی بھی جواب
سہے ہیں جورِ اعدا، دینِ حق کو عام کرنے میں
ان کی ذات وصفات اک دریا
 
اور الفاظ میرے مثل حباب
جبھی تو رحمت للعالمیں کا تاج سر پر ہے
بے نواؤں کوعظمتیں بخشیں
 
ان کی عظمت کی کوئی حدنہ حساب
 
نور ان کا ہے کردیا جس نے
کسی کی سمت جانے کا گماں تک کر نہیں سکتے
ذرے ذرے کومہرِ عالم تاب
 
قوم جوعلم سے تھی بے بہرہ
انھی کے در سے وابستہ سحرؔ اپنا مقدر ہے
کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب
 
بے ادب بادیہ نشینوں کو
 
آئے موت وحیات کے آداب
====سحرؔ تاب رومانی====
موت کویوں بنادیا محبوب
 
لوگ مرنے کوہوگئے بے تاب
(ولادت ۱۳؍مارچ ۱۹۶۴ء ،میرپور ،سندھ)
دولت وملک ونسل کی تفریق
 
تھی جو انسانیت کے حق میںعذاب
جب کرم کی وہ نظر ہونے لگی
یوں مٹا دی کہ بوذر و سلماں
 
ہو گئے ہمسرِ عمر خطابؔ
زندگی اپنی بسر ہونے لگی
آپ ہی کی بتائی وہ نکلی
 
جب بھی سوجھی کسی کوراہِ صواب
 
ان کا پیغام جس نے اپنایا
 
آگیا اس کی زندگی پہ شباب
آپ کی چشمِ عنایت کے طفیل
روح کو ان کے عشق سے آرام
 
دل ہے گو اُن کے عشق میں بیتاب
دھول پیروں کی گُہر ہونے لگی
ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے
 
سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب
 
ذکرِ پاک اُن کا اور تو فضلیؔ
ذات کی جب آگہی بخشی گئی
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
 
t
پھر مجھے اپنی خبر ہونے لگی
سیف حسن پوری
 
(۱۹۲۵ء حسن پور گیابہار…یکم فروری ۲۰۰۶ء کراچی)
 
خوبی نہ پوچھ اہلِ محبت سے پھول کی
پھر چراغِ زندگی روشن ہوا
ہر پنکھڑی سے آتی خوشبو رسول کی
 
ہم نے جو داد مطلع کی اپنے وصول کی
پھر شبِ غم کی سحر ہونے لگی
تعریف کی خدا کی خدا کے رسول کی
 
ہاتھ آگیا حضور کی سیرت کا آئینہ
 
تالیف ہو گئی مرے قلبِ ملول کی
نعت کہنے کا سلیقہ آگیا
نوعِ بشر کو واقفِ سود و زیاں کیا
 
دکھلائی راہ زیست کے اصل الاصول کی
شاعری میرا ہنر ہونے لگی
جب چھڑگیا کبھی رُخِ زیبا کاتذکرہ
 
آنکھوں کے آگے کھنچ گئی تصویر پھول کی
 
انسانیت کونورِ ہدایت ہوا نصیب
-
کس دل فریب لمحے میں آدم نے بھول کی
ستاروں سے سلامی چاہتاہوں
گوعمر کاٹ دی ہے گناہوں میں تو نے سیفؔ!
 
اب فکر کر بہشتِ بریں کے حصول کی
میں اُس در کی غلامی چاہتا ہوں
t
 
 
رہے جاری مرے ہونٹوں پہ ہر دم
 
ترا اسمِ گرامی چاہتا ہوں
 
 
مرے اعمال کو بھی معتبر کر
 
میں اپنی نیک نامی چاہتا ہوں
 
 
کرم ہے نعت کہنے کایہ فن بھی
 
مگر میں طرزِ جامی چاہتا ہوں
 
 
مجھے سحر البیانی بھی عطا ہو
 
سحرؔ ! میں خوش کلامی چاہتا ہوں
 
 
====سخاوت علی نادرؔ====
 
(۷؍اگست ۱۹۶۲ء کراچی)  
 
مرے نبی سا یہاں خوش خصال کوئی نہیں
 
کہیں بھی دوسری ایسی مثال کوئی نہیں
 
 
فقیر ہوں میں سوالی ہوں تیرا منگتا ہوں
 
جہاں میں مجھ سا مگر مالامال کوئی نہیں
 
 
یہ دَین ہے مرے مولا کی میں کہوں نعتیں
 
مرا ذرا سا بھی اس میں کمال کوئی نہیں
 
 
تمنا دل میں مچلتی ہے اور یہ کہتی ہے
 
بس اُن کے در کے سوا اب سوال کوئی نہیں
 
 
کرم کی بھیک عطا ہو گنہگاروں کو
 
بجز تمہارے مری اور ڈھال کوئی نہیں
 
 
درِ نبی کی کی زیارت نصیب ہو نادرؔ !
 
نظر کا اس سے بڑا اور کمال کوئی نہیں
 
 
====سراج الدین ظفر====
 
(۲۵ ؍مارچ ۱۹۱۲ء جہلم…۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
 
سبوئے جاں میں جھلکتا ہے کیمیا کی طرح
 
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح
 
 
 
قدح گسار ہیں اُس کی اماں میں جس کا وجود
 
سفینۂ دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح
 
 
وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچۂ ادراک
 
وہ جس کانام نسیمِ گرہ کشا کی طرح
 
 
طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی
 
حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح
 
 
وہ جس کاجذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب
 
وہ جس کا عزم تھا دستور ِارتقا کی طرح
 
 
وہ جس کا سلسلۂ جود،ابرِ گوہر بار
 
وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح
 
 
سوادِ صبحِ ازل ، جس کے راستے کا غبار
 
طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقشِ پا کی طرح
 
 
خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار
 
فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح
 
 
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد
 
وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح
 
 
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک
 
محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
 
 
شرف ملابشریت کو اُس کے قدموں میں
 
یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہاکی طرح
 
 
اُسی کے حسنِ سماعت کی ہے کرامتِ خاص
 
وہ اِک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی طرح
 
 
وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود
 
یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی طرح
 
 
بغیرِ عشقِ محمد کسی سے ُکھل نہ سکے
 
رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا طرح
 
 
ریاضِ مدحِ رسالت میں رہوارِ غزل
 
چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح
 
 
نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین
 
مرے قلم میں ہے جنبش پرِ ہما کی طرح
 
 
جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفرؔ!
 
دماغِ رند ہوا عرشِ کبریا کی طرح


سیما شکیب
( ۱۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کراچی)
نہ تھا کچھ بھی یہاں ہوتے ہوئے بھی
جہاں کب تھا ، جہاں ہوتے ہوئے بھی
خدانے ایک اُمی پرکیا تھا
عیاں سب کچھ،نہاں ہوتے ہوئے بھی
شبِ معراج تھم کررہ گئی تھی
ہراک ساعت رواں ہوتے ہوئے بھی
جُھکے تھے آپ کی تعظیم کرنے
وہ سب کروبیاں ہوتے ہوئے بھی
حرا کی پاک خاموشی سے پُوچھو
میں کیوں چُپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی
وہ فرشِ خاک پرآرام فرما
شہہِ کون ومکاں ہوتے ہوئے بھی
حرارت عشق کی،نغمہ بلالی
اذاں کب تھی،اذاں ہوتے ہوئے بھی
سفر ہجرت کا تھا رحمت خداکی
ہجومِ دُشمناں ہوتے ہوئے بھی
ثنا کا حق ادا کب ہوسکا ہے
زباں ، زورِ بیاں ہوتے ہوئے بھی
t
سیّد آل رضا
(۱۰؍جون ۱۸۹۶ء ضلع اناوا ودھ…یکم مارچ۱۹۷۸ء کراچی)
تہذیبِ عبادت ہے سراپائے محمد
تسلیم کی خوشبو چمن آرائے محمد
تنظیمِ خدا ساز تمنائے محمد
منشا جو خدا کا وہی منشائے محمد
جس دل میں ہے اللہ وہیں رہتے تھے یہ بھی
اللہ جو کہتاہے وہی کہتے ہیں یہ بھی
اللہ کی طاعت ہے محمد کی اطاعت
قرآن کی دعوت ہے محمد کی اطاعت
مرکز کی حفاظت ہے محمد کی اطاعت
حد بند شریعت ہے محمد کی اطاعت
ہوجتنا شعور،اتنا ہی اس حد کو سمجھ کر
اسلام کو سمجھو ، تو محمد کو سمجھ کر
اللہ ہے کیا ؟ جس نے بتایا وہ محمد
پیغام سا پیغام جو لایا ، وہ  محمد
آیات میں پیوست جو آیا ، وہ  محمد
جس نے بشریت کو سجایا وہ محمد
معیار بنا بارگۂ عزوجل میں
آہنگِ محمد ، صفت قول و عمل  میں
t
سیّد سلیمان ندوی ،علامہ
(۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ضلع ؟؟؟بہار…۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء کراچی)
نقش جس قلب پہ نام شہہ ابرار نہیں
سکۂ قلب ہے وہ درخور بازار نہیں
توہے مجموعہ خوبیٔ وسراپائے جمال
کونسی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں
مجلسِ شاہ میں ہے نغمۂ تسلیم و درود
شورِ تسبیح نہیں،شورش افکار نہیں
ذرّہ ذرّہ ہے مدینہ کا تجلی گہہ نور
دشتِ ایمن یہ نہیں،جلوہ گاہِ نار نہیں
جان دے دے کے خریدار بنے ہیں انصار
عشقِ زارِ نبوی مصر کا بازار نہیں
شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں
کونسا ذرّہ وہاں مطلع انوار نہیں
ہرقدم بادصبا،حسن ادب سے رکھنا
بوئے گیسوئے نبی نافۂ تاتار نہیں
صیدِ مژگانِ محمد ہیں، غزالانِ حرم
اس لیے ناوک وپیکاں کے سزاوار نہیں
t
سیّد محمد جعفری
(۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء …۷؍جنوری ۱۹۹۹ء، کراچی)
سلام بھیجوں، درود اُس نبی کو نذر کروں
کہ جس کو رحمتِ ُکل عالمین کہہ توسکوں
بلند مرتبت ایسا رسول بھیجا گیا
کہ گرخدا نہ کہوں اُس کو ناخداتوکہوں
یہ شعرِ حضرتِ اقبال مجھ کو یاد آیا
کہ آبروئے بشرجس سے ہوگئی افزوں
’’خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے‘‘
’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘
محمدِ عربی ہیں کہ جن کے صدقہ میں
دلِ بشر کو خدا نے دیاہے سوزِ دروں
اُنھیں کے نور سے ہر خلعتِ وجود ملا
انھیں کے نور سے روشن جہانِ بوقلموں
محمد عربی وجہِ خلقت افلاک
ودیعت اُن کو ہوا رب سے رازُِ کن فیکوں
’’محمد عربی آبروئے ہر دوسرا‘‘
انھیں کو قرب ملاہے ملائکہ سے فزوں
بلندیاں شبِ معراج وہ ملیں کہ جہاں
اگرہے عقلِ بشر کچھ توایک صیدِ زبوں
نہ نفسِ ناطقہ پہنچے،نہ لفظ ساتھ چلیں
بیاں کروں شبِ معراج کاتوکیسے کروں
اک عبد خاص ہے مہمانِ حضرت معبود
چمک رہاہے سرعرش ہر درمکنوں
وہ فاصلہ جو تھا قوسین بلکہ اس سے بھی کم
مقرّب اتنا کوئی ہے ملک سے کیا پوچھوں
یہ جبریل نے سدرہ پہ جاکے عرض کیا
تجلیوں سے جلیں پرگراس سے آگے چلوں
وہ ذات پاک ہے لے کرنبی کو جوآیا
حریم کعبہ سے اقصی تک اس کی حمد کروں
ہیں انبیاء سلف راستے میں صف بستہ
دلوں میں اپنے لیے اشتیاق حد سے فزوں
وہ آدم اور وہ ادریس و نوح و ابراہیم
وہ یوسف اور سلیمان و یونسِ ذوالنوں
کھڑے ہیں موسی عمراں وخضر بھی ان میں
لیے ہوئے یدِبیضا عصا و ُمہر سکوں
وجیہِ عقبیٰ و دنیا وہ عیسی مریم
ہیں منتظر کہ یہ آئیں تو میں قدم لے لوں
بلایا کیوں شب معراج اور کہا کیا کچھ
خدا ہی جانتا ہے اس میں کیا ہے رازِ دروں
خدا کرے کہ ملے جعفری کو یہ توفیق
درود بھیجے جو حدوشمار سے ہو بروں
t
سیّد مظفر احمد ضیا
(۱۵؍جولائی ۱۹۳۱ء میرٹھ…۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کراچی)
آگیا دہر میں جینے کا قرینہ مجھ کو
میرے مولانے دکھایا ہے کہ مدینہ مجھ کو
اب بھلا بھائیں گے کیا بادہ و مینا مجھ کو
آب کوثر سے بھرا جام ہے پینا مجھ کو
کسی طوفان کا ڈر تھا نہ بھنور کاہی خیال
لے چلا جانب  طیبۂ جو سفینہ مجھ کو
میں نے اک خواب سادیکھا تھا کہ بس نور ہی نور
ہونہ ہو شہر یہ لگتا ہے مدینہ مجھ کو
چشم حیراں کہ تھی محروم تماشہ کب سے
آپ کے در سے ملا دیدۂ بینا مجھ کو
جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی
زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو
آپ کے در پہ تہی دست ہی آیا تھا یہاں
مل گیا رحمتِ باری کا خزینہ مجھ کو
اس لیے تر ہے مرا خامہ مژگاں کہ ضیا
آسکے نعت نگاری کا قرینہ مجھ کو
t
شاداب احسانی
(۱۴؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی)
سرزمینِ مدینے کے صدقے شاخِ دل لہلہانے لگی ہے
سیرتِ پاک پڑھنے سے مجھ کو زندگی راس آنے لگی ہے
علم کا استعارہ محمد ، مصطفیٰ مصطفیٰ مصطفیٰ بس
میں نے تکیہ کِیامصطفی پہ تب جہالت ٹھکانے لگی ہے
کیا بتاؤں میں شانِ رسالت معجزے آپ کے ہیںبہت خوب
ماہِ دو نیم یاد آرہا ہے چاندنی جھلملانے لگی ہے
اب تو مجھ میں دیارِ مدینہ پڑھ رہا ہے محمد محمد
دل مرا دف بجانے لگا ہے آرزو گنگنانے لگی ہے
ناز کر خود پہ شادابؔ ہرپل رحمت اُن کی تری ذات پر ہے
ایسے آقا سے نسبت ہوئی کہ تیرگی منہ چھپانے لگی ہے
t
شان الحق حقی
(۱۵؍ ستمبر ۱۹۱۷ء دہلی … ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء ٹورانٹو، کینیڈا)
مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے
مرا تو بس یہی ایماں و دیں ہے
اگر تم مقصد عالم نہیں ہو
تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے
نہیں میں واقف سر الٰہی
مگر دل میں یہ نکتہ جا گزیں ہے
جو دل انوار سے ان کے ہے روشن
وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے
نہ کہیے ان کا سایہ ہی نہیں تھا
کہ ثانی تو کوئی بے شک نہیں ہے
مگر جس پر بھی سایہ پڑ گیا ہے
وہ انساں نازش روئے زمیں ہے
وہ شہر بے حصار ان کا مدینہ
کہ جس کی خاک ارمان جبیں ہے
نہ پوچھو ہے حصار اس کا کہاں تک
یہ المغرب سے تا اقصائے چیں ہے
جھکی جاتی ہے خود سجدے میں گردن
نہ جانے کفر ہے یا کار دیں ہے
کہ دل میں ماسوائے اسمِ احمد
نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے
-
سخن کو ان کے حسیں نام سے سجاتے ہیں
ہم اپنا مان اسی صورت سے کچھ بڑھاتے ہیں
بساطِ فکر چمن زار ہو گئی گویا
جو لفظ ہوتے ہیں موزوں ،مہکتے جاتے ہیں
ملی ہے اِن کو جو کچھ اُن کے رنگ و بو کی رمق
توپھول جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں
بہ پیشِ نورِ ازل جائے استعارہ کہاں
جو نقش سامنے آتے ہیں بجھ سے جاتے ہیں
ہے ذاتِ حق اَحَد وحیّ و مالک وداور
ہم ان حروف میں ان کابھی نام پاتے ہیں
خداکی دین یہ گلہائے نعت ہیں،جن کو
ہم اپنی ہیکلِ تخییل پر سجاتے ہیں
ہمیں شکایتِ محرومیِ نظارہ نہیں
انہیں توہم کھلی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں
کرشمے ہیں اسی نورِ ازل کے ماہ و نجوم
یہ سب انہی کے ہیں جلوے جو جگمگاتے ہیں
اداہو کس سے بھلا حق ثنائے خواجہ کا
نہ پوچھئے کہ یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں
t
شاہ حسن عطاؔ
(۲۵؍مارچ رائے بریلی … ۷؍ جولائی ۱۹۸۱ء کراچی)
نہیں کہ تجھ کو بشر ہی سلام کرتے ہیں
شجر حجرَ بھی ترا احترام کرتے ہیں
اسی  سے گرمیٔ محفل ہے آج بھی قائم
کہ تیرا ذکر جہاں میں مدام کرتے ہیں
وہ ضبطِ نفس وہ سرمستیِ پیام ِ الست
ترے حضور فرشتے قیام کرتے ہیں
تری طلب میں جو رہتے ہیں رہ نورد یہاں
وہی توسارے زمانے میں نام کرتے ہیں
مصافِ زیست میں جاں دادگانِ عشق ترے
ہر ایک آفتِ دوراں کو رام کرتے ہیں
ترا یقیں ہے فزوں تر،مہ و ثریا سے
کہ اس کے نور سے برپَا نظام کرتے ہیں
رہِـ جنوں کی طلب میں بھی جَاں نثار چلیں
رہِ خرد کا جو یہ اہتمام کرتے ہیں
ملی ہے جن کو محبت تری زمانے میں
خموش کارِ اُمم وہ غلام کرتے ہیں
تری قیادتِ عُظمیٰ ہوئی ابد پیما
کہ تجھ کو سارے پیمبرَ امام کرتے ہیں
تری زباں کے توسط جو مانتے ہیں کتاب
وہ کیوں حدیث میں تیری کلام کرتے ہیں
جو مستحق تھے عقوبت کے ہیں وہ خُلد نشیں
نگہ کرم کی شہِ ذی مقامَ کرتے ہیں
سکھائے تو نے جوپیکار وصلح کے آئیں
جہاں کی رہبری تیرے غلام کرتے ہیں
ترا مقام ہے اب تک نظرسے پوشیدہ
اگرچہ ذکر تیرا خاص و عام کرتے ہیں
-
-
اے خاتم الرسل شہ دوراں تمہیں توہو
تیری خیر البشری زد میں نہیں شک کے ذرا
 
تو نے انساں کو دلائی ہے غلامی سے نجات
نذرانہ جس کاہے گہرِ جاں تمہیں تو ہو
یہی افلاک جو رفعت میں تحیرّزا ہیں
 
تیرے قدموں تلے روندے گئے معراج کی رات
 
دید جس کی نہ میسر کبھی موسیٰ کو ہوئی
ہر آئینے کو جلوہ گہہِ شش جہات میں
تجھ سے اس خالق کونین نے کی کھل کے بات
 
یہ تفاخر بجز از روح قدس کس کو ملا
جس نے دیاہے دیدۂ حیراں تمہیں تو ہو
کس نے کھینچی ہے بھلا تیری سواری پہ قنات
 
تیرے افکار سے دنیائے توہمّ ویراں
 
تری آمد سے گرے خاک پہ سب لات ومنات
نوعِ بشر کا محسن اعظم تمہارا نام!
منفعل تری تجلّی سے روِاحہؓ کا سخن
 
پوری اتری تری قامت پہ نہ حساّن کی بات
عالم ہے جس کا بندۂ احساں تمہیں تو ہو
محو حیرت تری مداحی میں خاقانی ہے
 
سعدی وقدسی وجامی سبھی محوصلات
 
بدراولیٰ میں تری ژرف نگاہی کی قسم
صبح ازل منور وتاباں تمہیں سے تھی
تو نے مومن کو دیاِ ذوق شعور آفات
 
حشر میںترے جلو میں ہے ملائک کا ہجوم
شامِ ابد کی شمعِ فروزاں تمہیں تو ہو
ذاتِ باری کے سوا سب پہ فزوں تیری ذات
 
اک اشارے پہ تری سب نکل آئے گھر سے
 
صفِ جنگاہ میں زہاُد بنے کوہ ثبات
رشتہ ہماری ذات کا یزداں سے استوار
داستاں خونچکاں تھی سفرِ طائف کی
 
پنڈلیوںسے دم احمر کی تراوش ہئییات
جس نے کیا وہ پرتوِ یزداں تمہیں تو ہو
چمن دہر میں رحمت کی چلی باد نسیم
 
زمزمہ خواں تری آمد پہ مدینہ کی بنات
 
یہ تو اک رہ گزرِ عشق پیمبر ہے حسنؔ
ہر امرِ کائنات تمہاری نظر میں ہے
ہے ابھی دور بہت منزلِ اعمالِ نجات
 
t
آگاہِ راز پیدا وپنہاں تمہیں تو ہو
شاہدؔ اکبر آبادی
 
(وفات:۸؍جون ۱۹۹۳ء کراچی)
 
اے امین ِ کن فکاں،اے خاتم حق کے نگیں
ہرمسئلے میں رشد وہدایت تمہیں سے ہے
اے دلِ یزداں کی دھڑکن اے شفیع المذنبیں
 
اے شبِ اسری کی زینت اے امام المرسلیں
ہر فیصلے میں عدل کی میزاں تمہیں تو ہو
اے کتاب عالمِ امکاں کے بابِ اولیں
 
السلام اے بے عدیل و بے مثال و بے نظیر
 
اے رئیس ِقدسیاں اے عرشِ اعظم کے سفیر
وہ جس نے جسم و جاں میں نئی روح پُھونک دی
آپ وہ ہیں مصدر جود و سخا کہئیے جنہیں
 
آپ وہ ہیں منبع لطف و عطا کہیئے جنہیں
وہ جس سے زندگی ہوئی جولاں تمہیں تو ہو
آپ وہ ہیں مرکزِ صدق وصفا کہیئے جنہیں
 
آپ وہ ہیں مظہرِ ذات خدا کہیئے جنہیں
 
آپ مینارِ تقدس آپ کہسارِ یقیں
شاداب جس کے فیض سے میرے دل ودماغ
السلام اے شہرِ علم اے صاحبِ وحیٔ مبیں
 
یہ جہان آب وگل یہ کوہ دشت وگلستاں
وہ موجۂ نسیم گلستاں تمہیں تو ہو
یہ فلک یہ مہرومہ یہ محفلِ سیارگاں
 
یہ عطارد ، یہ زحل ، یہ مشتری ، یہ کہکشاں
 
جس سے روشن ہیں یہ صبح وشام یہ کون ومکاں
مجھ بے نوا و بے سروسامان شہر کو
دن کا وہ مہر منور شب کا وہ ماہِ مبیں
 
آپ ہیں صرف آپ ہیں یارحمت للعالمیں
جس نے عطا کیا سروساماں تمہیں توہو
کاروانِ شش جہت کے مقتدا سرکار ہیں
 
نورِحق ،شمس الضحیٰ،بدر الدجیٰ سرکار ہیں
 
جوہرِ آئینۂ لوحِ قضا سرکار ہیں
مجھ رِند بے شعور کے دامانِ تنگ کو
نازشِ کونین، فخرِ انبیا سرکار ہیں
 
سجدگاہِ قدسیاں ہے آپ کا در یا رسول
بخشی ہے جس نے دولتِ عرفاں تمہیں تو ہو
سرمۂ چشم دوعالم آپ کے قدموں کی دھول
 
آپ صدرِ بزم امکاں آپ جان ِشش جہات
 
آپ کا ہر نقشِ پا ہے مشعلِ راہ حیات
مجھ بوریا نشیں کو قناعت کے رنگ میں
ہے جلا بخشش دوعالم جلوۂ ذات وصفات  
 
السلام اے مسند آرائے سریرِ کائنات
جس نے دیا ہے رُتبہ سلطاں تمہیں تو ہو
آیۂ لولاک و اسریٰ آپ کی شانِ ورود
 
وجہ تکونینِ دوعالم ذات اقدس کا وجود
 
نقشِ پاسے آپ کے پھوٹی تمدن کی سحر
میں نے طوافِ کوئے غزالاں کے باوجود
خاک کے ذرّوں کو بخشی عظمتِ شمس وقمر
 
ختم ہے ہر ارتقائے نوعِ انساں آپ پر
باندھا ہے جس سے شوق کاپیماں تمہیں تو ہو
آپ ہیں نورالہدی، کف الوری خیرالبشر
 
محسن ِانسانیت بھی مقصد ِکونین بھی
 
آپ آنکھوں کی بصارت بھی دلوں کاچین بھی
.
  ُخلق، خُلق بے نہایت ُحسن ُحسنِ بے مثال
شرابِ عشق نبی سے جو فیضاب ہوئے
دل وہ جس پرآئینہ مستقبل وماضی وحال
 
زلف پر واللیل رُخ پر آئیہ والفجر دال
ہم ایسے رند بھی بیگانۂ شراب ہوئے
آپ شہکارِ مصور آپ تصورِ جمال
 
موبمو، سر تا بپا ، تنویر یزداں ہیں حضور
 
عرش نے جس کے قدم چومے وہ انساں ہیں حضور
جلا جودل میں چراغِ جمالِ مصطفوی
جانے کب سے منتظر تھیں عرش کی پہنائیاں
 
آپ نے رکھا قدم بجنے لگیں شہنائیاں
سیاہ رو شجرِ طور کا جواب ہوئے
تا بہ سدرہِ اس قدر صدقے ہوئیں رعنائیاں
 
نور کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئیں پرچھائیاں
 
ہو گیا ثابت، مجسم نورِ عرفاں آپ ہیں
ہوئی طلوع جو سینے میں آرزوئے رسول
جسم بے سایہ نہ کیوں ہوعکسِ یزداں آ پ ہیں
 
مصحفِ ناطق بھی آپ ،آئینہ ِقرآں بھی آپ
جو وسوسے تھے دلوں کے خیال و خواب ہوئے
آپ شہرِ علم بھی سرچشمۂ عرفاں بھی آپ
 
عبد بھی اور سر سے پا تک مظہرِ یزداں بھی آپ
 
جلوۂ صبحِ ازل بھی، جلوۂ فاراں بھی آپ
ہراک شے کا مقدر بدل دیا اُس نے
ابتدا بھی آپ ہی سے، انتہا بھی آپ ہیں
 
شرح لفظِ کن بھی، ختم الانبیاء بھی آپ ہیں
نظر اٹھائی توذرّے بھی آفتاب ہوئے
مقطعِٔ نظم نبوت، مطلعِٔ صبحِ ازل
 
خالقِ کونین کے دیوان کی پہلی غزل
 
کھل اٹھا ہرحرف پر تقدیرِ انساں کا کنول
ادا شناس تھی میزانِ انتخاب اس کی
آپ ہر غم کا مداوا، آپ ہر مشکل کا حل
 
نبضِ فطرت میں تڑپ جس دل  سے ہے وہ دل ہیں آپ
گدا بھی منتخب چشم انتخاب ہوئے
فکر کے ہرکا رواں کی آخری منزل ہیں آپ
 
 
مٹے ہوؤں کو اُبھارا ہے نقشِ نو کی طرح
 
ٍستم زدوں پہ کرم اُس کے بے حساب ہوئے
 
 
فریب قیصروکسریٰ کھلا زمانے پر
 
نظر میں افسر و اکلیل بھی سراب ہوئے
 
 
دیا وہ رتبۂ نو بوریا نشینوں کو
 
کہ بورئیے بھی انہیں خلعت وخطاب ہوئے
 
 
اسی کے درسِ جلالی کا معجزہ ہے کہ ہم
 
حریفِ سیف ہوئے صاحب کتاب ہوئے
 
 
اُسی کا ُیمنِ قدم تھا کہ ریگ زاروں کو
 
سرشگفت ہوا تختہ گلاب ہوئے
 
 
اُسی کی ذات نے عالم کی رہنمائی کی
 
اُسی کے لطف سے تحلیل سب حجاب ہوئے
 
 
اُسی کے فیض سے آئی حریم جاں میں بہار
 
اُسی کے دم سے بپادل میں انقلاب ہوئے
 
 
وہ ابرِ لطف وکرم جس کی راہ کے ذرات
 
صبا کے ساتھ اڑے خیمۂ سحاب ہوئے
 
 
وہ بحرِ جُودوسخا جس سے بہرِ کسبِ گُہر
 
نجوم و شمس و قمر کاسۂ حباب ہوئے
 
 
قلم اٹھا جو مرا مدحتِ رسالت میں
 
دل ودماغ میں واآگہی کے باب ہوئے
 
 
دبے ہوئے تھے جو ارض وسما کے سینے میں
 
وہ راز اُس کی سعادت سے بے نقاب ہوئے
 
 
دل اُس کے عشق میںکھویا توپائی دل کی مراد
 
سراس کے درپہ جھکایا توکامیاب ہوئے
 
 
غزل سرا جو ہوا میں بذوقِ نعت ظفرؔ
 
زباں پہ حرفِ غزل حرفِ مستجاب ہوئے
 
 
====سردار عبدالرّب نشترؔ====
 
(۱۳؍جون۱۸۹۹ ء پشاور…۱۴؍فروری۱۹۵۹ء کراچی)
 
شب و روز مشغول صلِ علیٰ ہوں
 
میں وہ چاکر خاتمِ انبیا ہوں
 
 
نگاہِ کرم سے نہ محروم رکھیو
 
تمھارا ہوں میں گر َبھلا یا بُرا ہوں
 
 
مجھے بھی یوں معراج ، معراج والے
 
میں دیوانہ لیلائے معراج کا ہوں
 
 
مرے لحن پر رشک داؤد کو ہے
 
مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں
 
 
نہ کیوں فخر ہو عشق پر اپنے مجھ کو
 
رقیبِ خدا ، عاشقِ مصطفیٰ ہوں
 
 
میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ
 
گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں
 
 
====سرفراز ابدؔ====
 
(۲۵؍فروری ۱۹۵۲ء کراچی)
 
یہ اور بات کبھی سامنا ہوا بھی نہیں
 
دل اُن کی یاد سے غافل مگررہا بھی نہیں
 
 
کرم اور ایساکرم جس کی انتہا بھی نہیں
 
وہ مل گیا مری تقدیر میں جو تھا بھی نہیں
 
 
خدا کی بات خدا جانے وہ خدا بھی نہیں
 
مگریہ سچ ہے کوئی اُن سا دوسرا بھی نہیں
 
 
مطالبہ کبھی اُن سے کوئی کیا بھی نہیں
 
ملا وہ حسبِ ضرورت جو سوچتا بھی نہیں
 
 
چڑھا ہوں نظروں پہ چشمِ کرم کے زینے سے
 
نہ لکھتا نعت جہاں مجھ کو پوچھتا بھی نہیں
 
 
خدا ہے مہرباں دیوانۂ محمد پر
 
دوا کاہوش توکیا فرصت دعا بھی نہیں
 
 
مثال اُن کی نہ ڈھونڈوبشر کے پردے میں
 
نہ اب ہے اُن سانہ ہوگا کبھی ہوابھی نہیں
 
 
بسا ہُوا ہے مدینہ خیال میں جس کے
 
نظراٹھا کے وہ جنت کو دیکھتا بھی نہیں
 
 
کرم یہ اُن کا کہ میری طرف ہے دستِ عطا
 
مرا یہ حال مرا کوئی مدّعا بھی نہیں
 
 
جہاں کی راہ کا رہبر بناؤ عشقِ رسول
 
ابدؔ ! کچھ اس کے سوا اورراستہ بھی نہیں
 
 
 
====سرور بارہ بنکوی====
 
(۳۰ ؍جنوری ۱۹۱۹ء بارہ بنکی یوپی…۳؍اپریل۱۹۸۰ء ڈھاکہ)
 
سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا
 
زباں کو حوصلہ مدحِ آنجناب ہوا
 
 
نہ ہوسکا ہے نہ ہوگاازل سے تابہ ابد
 
جواب اس کا جو آپ اپنا خود جواب ہوا
 
 
  اسی کے فیض سے ارض وسما عبارت ہیں
 
اسی کے نور سے ظلمت کا سدِّباب ہوا
 
 
زفرش تابہ فلک کون ایسا ذرہ ہے
 
جو آفتاب کرم سے نہ فیض یاب ہوا
 
 
وہی ہے نکتۂ آغاز علم وحکمت کا
 
وہ اسم پاک جہاں داخلِ نصاب ہوا
 
 
اب ایسی ذات گرامی کی مدح کیا ہوگی
 
کہ جس کے نام سے قرآں کا انتساب ہوا
 
-
اللہ اللہ میری قسمت ایسا رتبہ اورمیں
جاگتی آنکھوں سے دیکھوں خوابِ طیبہ میں
 
 
دم بخود ہیں آج دونوں میری دنیا اورمیں
 
بارگاہ صاحبِ یسٰین وطہٰ اورمیں
 
 
آج ان آنکھوں کو بینائی کا حاصل مل گیا
 
روبرو ہے گنبد خضرا کا جلوہ اورمیں
 
 
آپ کی چشم کرم کا میں نے دیکھا معجزہ
 
آپ کے روضے کی جالی میرے آقا اورمیں
 
 
آپ ہی چاہیں تورکھ لیں آبروورنہ حضور
 
اپنے منہ سے آپ کی نسبت کا دعویٰ اورمیں
 
 
مجھ کو اذنِ باریابی اوراس انداز سے
 
آپ پرقرباں مرے اجداد وآبا اور میں
 
 
میں جہاں پرہوںوہاں محسوس ہوتاہے سرورؔ
جیسے پیچھے رہ گئے ہوں میری دنیا اور میں
 
 
====سرورؔ جاوید====
 
(۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء بلند شہر، بھارت)
 
عقیدتوں کا سفر یوں تو عمر بھر کا ہے
 
مگر نجات کا رستہ تمھارے گھر کا ہے
 
 
ولائے نعتِ محمد شعورِ ذات نبی
 
تمام عمر یہی راستہ سفر کا ہے
 
 
اندھیری شب میں برائے سفرہے یہ خورشید
کڑی ہو دھوپ تو سایہ اسی شجر کا ہے
 
 
جو اس کی ذات کی وسعت سمیٹنے بیٹھوں
 
وہی ہو حال خرد کا کہ جو نظر کا ہے
 
 
وفا کا حسن ، محبت کا فن ، کمالِ حیات
 
اسی کی ذات سے رشتہ ہر اک ہنر کا ہے
 
 
عقیدتوں میں محبت کے رنگ ہیں سرورؔ
 
یہ سلسلہ بھی اسی ذات کے اثر کا ہے
 
 
====سعدیہ حریم====
 
(۹؍جنوری ۱۹۴۶ء لکھنؤ)
 
رقم کیسے کروں شانِ محمد
 
خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد
 
 
ازل سے تا ابد جاری و ساری
 
بحمدِ اللہ ہے فیضانِ محمد
 
 
تمنائیِ رضائے حق اگر ہے
 
عمل کر حسبِ فرمانِ محمد
 
 
وہ سقراط و ارسطو سے ہے برتر
 
جو ہے طفلِ دبستانِ محمد
 
 
ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر
 
ہیں چاروں جاں نثارانِ محمد
 
 
فرشتوں کو بھی اس پر رشک آئے
 
جسے ہو جائے عرفانِ محمد
 
 
وہ ہیں منشائیِ تخلیق دو عالم
 
دو عالم پر ہے احسانِ محمد
 
 
تمنائے حریمؔ اللہ یہی ہے
 
کہے اک نعت شایانِ محمد
 
 
====سعید الظفر صدیقی====
 
(۲۱؍ مارچ ۱۹۴۴ء بھوپال، بھارت)
 
تھا جو مٹی کا بدن کندن بنا کر آئے ہیں
 
بارشوں میں ہم مدینے کی نہا کر آئے ہیں
 
 
ہم نے خود آنکھوں سے دیکھے ہیں نظارے خلد کے
 
ہم سے پوچھو ہم درِ اقدس پہ جا کر آئے ہیں
 
 
ہیچ ہیں نظروں میں اب سارے جہاں کی رونقیں
 
خاکِ طیبہ کو ان آنکھوں سے لگا کر آئے ہیں
 
 
اپنے والی ، اپنے حامی ، اپنے آقاؐ کے حضور
 
اپنی بپتا ، اپنا حالِ دل سنا کر آئے ہیں
 
 
بے سر و ساماں گئے تھے لے کے لوٹے کائنات
 
نام آقاؐ کے غلاموں میں لکھا کر آئے ہیں
 
 
بوجھ سر پر تھا گناہوں کا ظفرؔ کرتے بھی کیا
 
ایک کونے میں کھڑے آنسو بہا کر آئے ہیں
 
-
جب سے سرکارؐ کی روشنی مل گئی
 
زندگی کو نئی زندگی مل گئی
 
 
آخری آرزو دل کی پوری ہوئی
 
دوریاں مٹ گئیں ، حاضری مل گئی
 
 
ہیں اجالے قدم در قدم ہم رکاب
 
رہ گزر ، رہ گزر روشنی مل گئی
 
 
لوگ جو پستیوں میں تھے ڈوبے انہیں
 
آکے طیبہ میں خوش قامتی مل گئی
 
 
مل گئیں عاجزوں کو سرافرازیاں
 
بے قراروں کو آسودگی مل گئی
 
 
دو جہانوں میں وہ سرخرو ہو گیا
 
جس کو محبوبِؐ رب کی گلی مل گئی
 
 
نعت کہنے کا جس دم ارادہ کیا
 
اک مہکتی ہوئی شاعری مل گئی
 
 
دل جو طیبہ کی فرقت میں رویا سعیدؔؔ
 
اس کو سارے جہاں کی خوشی مل گئی
 
 
====سعیدؔ عباسی====
 
(یکم اگست ۱۹۲۳ء بدایوں)
 
ہزار بار اُٹھیں گے قدم خدا کی طرف
 
بس ایک بار چلے آؤمصطفی کی طرف
 
 
تمام عالمِ انسانیت تھازیرِ قدم
 
بڑھے تھے سرورِ کونین جب حرا کی طرف
 
 
جہاں سے حضرت جبریل ہو گئے واپس
 
وہ اِک قدم تھا محمد کا انتہاکی طرف
 
 
یہ اور بات کہ واعظ نے قبلہ رو جانا
 
ہمارا رُخ تھا اُنہیں کے نقوشِ پا کی طرف
 
 
امیرِ شہر کی نظریں کسی طرف ہی سہی
 
غریبِ شہر کی آنکھیں ہیں مصطفی کی طرف
 
 
اُنہیں کا نقشِ کفِ پا نشانِ منزل ہے  
 
یہی تو ہیں کہ جو لے جائیں گے خدا کی طرف
 
 
خدا سے عشقِ محمد کی روشنی مانگیں
 
یہ انتہا ہے کہ لوٹ آئیں ابتدا کی طرف
 
 
====سلیم احمد====
 
(۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء بارہ بنکی،یوپی…یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کراچی)
 
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
 
ثنا کرے کوئی اس کی کیونکر بشر ہے لیکن خدا نما ہے
 
 
وہی ہے اول وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر
 
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیاہے جو رہ گیا ہے
 
 
وہ سر تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
 
وجود کی ساری وسعتوں پرمحیط ہے جو وہ دائرہ ہے
 
 
انہی کا مسکن انہی کا گھر ہے انہی کی نسبت سے معتبر ہیں
 
حرم ہو طیبہ ہو میرا دل ہویہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
 
 
کوئی نہیں ہے مثیل اس کا کوئی نہیں ہے نظیر اس کا
 
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اورآپ اپنا ہی آئنہ ہے
 
 
ہے خطِ واصل کہ حد فاضل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
 
سلیم عاجز ہے فہم کامل وہی بشر ہے وہی خدا ہے
 
-
طبیعت تھی میری بہت مضمحل
 
کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل
 
 
بہت مضطرب تھا بہت بے حواس
 
کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھاراس
 
 
مرے دل میں احساس غم رم گیا
 
غبار آئینے پر بہت جم گیا
 
 
مجھے ہوگیا تھا اک آزار سا
 
میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا
 
 
یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی
 
کہ اک دن تھا نویدِ شفا مل گئی
 
 
مجھے زندگی کا سلام آگیا
 
زباں پہ محمد کا نام آگیا
 
 
محمد قرار دل بیکساں
 
کہ نام محمد ہے آرامِ جاں
 
 
ریاضِ خدا کا ُگلِ سرسبد
 
محمد ازَل ہے محمد ابد
 
 
محمد کہ حامد بھی محمود بھی
 
محمد کہ شاہد بھی مشہود بھی
 
 
محمد سراج و محمد منیر
 
محمد بشیر ومحمد نذیر
 
 
محمد کلیم و محمد کلام
 
محمد پہ لاکھوں درود و سلام
 
 
.
شوقِ بے حد، غمِ دل، دیدۂ تر مل جائے
 
مجھ کو طیبہ کے لیے اذن سفر مل جائے
 
 
نام احمد کا اثر دیکھ جب آئے لب پر
 
چشم بے مایہ کوآنسو کا گہر مل جائے
 
 
چشم خیرہ،نگراں ہے رخ آقا کی طرف
 
جیسے خورشید سے ذرّے کی نظر مل جائے
 
 
یاد طیبہ کی گھنی چھاؤں ہے سرپہ میرے
 
جیسے تپتی ہوئی راہوں میں شجر مل جائے
 
 
نخل صحراکی طرح خشک ہوں وہ ابر کرم
 
مجھ پہ برسے تومجھے برگ و ثمر مل جائے
 
/
میرا سکھ سنسار محمد
 
جی کا چین قرار محمد
 
 
میرا سب کچھ تم پر صدقے
 
میں اور سب گھر بار محمد
 
 
دُکھ برہا کے کب تک جھیلوں
 
درشن دو، سرکار محمد
 
 
گھورِ اندھیرا، طوفاں بھاری
 
کر دو نیاّ پار محمد
 
 
چھٹ گئے دکھ، بپتا کے بادل
 
جب بھی کہا اک بار محمد
 
 
بپھری موجوں سے کیا ڈرنا
 
جب ہوں کھیون ہار محمد
 
 
بھیک دیا کی سلیمؔ کو دے دو
 
لطف و کرم آثار محمد
 
 
====سلیم فوز====
 
(۲۸؍فروری۵ ۱۹۶ء خانیوال)
 
تری یاد وہ دلِ مضطرب میں سکون کو جو اُتار دے
 
تو وہ آئینہ کہ جو عکس پر نئے خدّوخال اُبھار دے
 
 
ترا دھیان وہ کڑی دھوپ میں جوگھنیری چھاؤں کا آسرا
 
ترا اسم وہ جو خزاں رسیدہ شجر کو اذنِ بہار دے
 
 
تو وہ رہنما کہ جو دیکھتا ہے غبارِ راہ کے پار بھی
 
جو بھٹک گئے ، ترا نقشِ پا انہیں منزلوں کو سدھار دے
 
 
میں وہ بے ہنر جو نہ پا سکاتری خاکِ شہر کا مرتبہ
 
مری عاجزی کوقبول کر مری عافیت کو سنوار دے
 
 
میں وہ کم نظر کہ جو خواہشوں کے  بھنور میں گھرتا چلاگیا
 
ترا ذکر وہ کسی ڈوبتے کو جو ساحلوں پہ ابھار دے
 
 
تجھے سوچ کر مرے جسم و روح میں پھیلتی ہے جو روشنی
 
اُسی روشنی سے مرے سخن کی صداقتوں کو نکھار دے
 
-
بتا دیا مری منزل کا راستہ مجھ کو
 
مرے نبی کے بکھرنے نہیں دیا مجھ کو
 
 
میں صرف خاک تھا اُن کے ظہور سے پہلے
 
کیا ہے ربطِ محبت نے کیمیا مجھ کو
 
 
میں وہ فقیرجو آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے
 
کرم کی بھیک ملے شاہِ انبیا مجھ کو
 
 
تمہاری یاد گُہر بن گئی ہے سینے میں
 
کہ آگیا ہے ستارہ تراشنا مجھ کو
 
 
میں ٹوٹ جاتا ہوں جب گردشِ زمانہ سے
 
تمہارے ذکر سے ملتا ہے حوصلہ مجھ کو
 
 
ملا ہے مجھ کو سبھی کچھ تمہاری نسبت سے
 
بس اب دکھا دو مدینے کا راستہ مجھ کو
 
 
میں بند آنکھوں سے دیکھوں تمہارے روضے کو
 
سکھا دو ایسا کوئی اسم یا دُعا مجھ کو
 
 
سلیم فوزؔ نے دیکھے ہوئے ہیں خواب بہت
 
عطا ہو مسجدِ نبوی کا رتجگا مجھ کو
 
 
====سوزؔ شاہجہاں پوری====
 
(۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء شاہ جہاں پور… ۲۳؍ جنوری ۶ ۹ ۹ ء کر اچی)
 
نہ گمان ہے نہ یقین ہے ،جو نظر میں ہے وہی راز ہے
 
یہی عشق کی ہیں حقیقتیں ، یہی اصلِ ناز و نیاز ہے
 
 
مِرے لب پہ نام حبیب کا ،مِرے دل میں یاد رسول کی
 
یہی بندگی کانظام ہے ، یہی عاشقوں کی نماز ہے
 
 
وہی حسنِ ذات کاراز داں، وہی نورِ عرش کا مدح خواں
 
وہی لااِلٰہ کا راز ہے ،وہی سوز ہے وہی ساز ہے
 
 
ہو زباں پہ ذکرِ نبی اگر ، تو جہاں ہے منزلِ بے خطر
 
یہ عجیب جادۂ عشق ہے ،کہ نشیب ہے نہ فراز ہے
 
 
وہ فلک پہ شانِ جمال ہے ، یہ زمیں پہ عکس جمال کا
 
یہی ایک فرق ہے درمیاں ، یہی ایک پردۂ راز ہے
 
 
جو عرب کاحسنِ تمام تھا ، وہ عجم کے دل کا سکوں ہوا
 
وہ حبیبِ ذاتِ اِلٰہ ہے ، وہی جانِ راز و نیاز ہے
 
 
جو غلامِ شاہِ انام ہیں ،اُنہیں سوزؔ! اِ س سے ہے واسطہ
 
کہ جہاں کہیں ہو وہ نقشِ پا ، وہی سجدہ گاہِ ایاز ہے
 
 
====سہیل احمد صدیقی ====
 
(۱۵؍دسمبر ۱۹۶۴ء کراچی)
 
نعتیہ ہائیکو
مجھ سے ہیں بہتر کرتے ہیں بہتر کیا ماضی کیا حال؟ مانندِ شبنم
پنکھ پکھیرو کرتے ہیں روضے پہ حاضر طائر صلِ علیٰ کا ورد کرے روضے پہ جب حاضر ہوں
ذکر پیغمبر نعتِ پیغمبر خوش بخت و خوش حال ہو دیدہ پُرنم
 
دائم ہے سکھ چین جن و ملک حیراں اصل کائنات
پہلوئے آقا میں دیکھ ایک ہی جست میں اسرا کی حور و غلماں قرباں ہوں
خوابیدہ شیخین ہر منزل آساں فخرِ موجودات
t
 
====سید اشتیاق اظہرؔ====
(۳؍مئی ۱۹۲۴ء کانپور … ۴؍نومبر ۱۹۹۹ء ، کراچی)
رسول ہاشمی نے جو سبق ہم کو پڑھایا تھا
اگر ہم اس سبق کویاد کرلیں دلنشیں کرلیں
اگر ہم آج پھر پڑھ لیں سبق مہرومحبت کا
اگر ہم خود کو پھر وارفتۂ دینِ متیں کرلیں
اگر ہم آج پھر ہوجائیں گرویدہ صداقت کے
اگرہم اس سبق کو اوربھی دل کے قریں کرلیں
مساوات ومودت پراگرایمان لے آئیں
اگر ہم خود کووقفِ حکمِ رب العالمیں کرلیں
یقیں ہم کو اگر ہوزندگی کی بے ثباتی کا
حیاتِ چند روزہ نذرِ ختم المرسلیں کرلیں
اگر  ہم آشنا ہوجائیں ملت کے تقاضوں سے
پیام حق کو سمجھیں امیتازِ کفرودِیں کرلیں
نبی کے آخری پیغام کو پھر حفظ کر ڈالیں
خداکے دین کی سچائیوں پر پھر یقیں کرلیں
زمیں پر آخری امت کے اس اعزاز کی خاطر
ہم اپنے آپ میں پیدا خلوصِ مومنیں کرلیں
ٍخلوص مومنیں خوشنودیٔ آقا کا باعث ہے
چلو اورچل کے یہ پیش شفیع المذنبیں کرلیں
کہاں تک معصیت کی داستاں دہرائے جائیں گے
مناسب ہے کہ اب ہموارراہِ واپسیں کرلیں
زمیں پر عظمت آدم کے جلوے عام کرڈالیں
کبھی توخود کو بھی ہم رُتبہ مہرٔ مبیں کرلیں
طوافِ کعبہ اپنا کعبۂ مقصود بن جائے
مدینے کے سفر کو اپنا عزمِ اولیں کرلیں
سزاوارِ کرم بن جائیں ماضی کی طرف لوٹیں
حرم کی خاک سے آراستہ اپنی جبیں کرلیں
تواپنے حال پر اللہ کا انعام ہوجائے
یہ ارضِ پاک پھر گہوارۂ اسلام ہوجائے
t
====سید فضل احمد کریم فضلیؔ====
(۴؍نومبر۱۹۰۶ء الہٰ احمد کریم…۱۷؍دسمبر۱۹۸۱ء کراچی)
ہے اگر کائنات ایک رباب
ذات پاکِ حضور ہے مضراب
سب میںکچھ کچھ کمی سے لگتی ہے
جوبھی آتے ہیں ذہن میں القاب
وہ کہ ان کا نہیں کوئی بھی مثیل
وہ کہ ان کانہیں کوئی بھی جواب
ان کی ذات وصفات اک دریا
اور الفاظ میرے مثل حباب
بے نواؤں کوعظمتیں بخشیں
ان کی عظمت کی کوئی حدنہ حساب
نور ان کا ہے کردیا جس نے
ذرے ذرے کومہرِ عالم تاب
قوم جوعلم سے تھی بے بہرہ
کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب
بے ادب بادیہ نشینوں کو
آئے موت وحیات کے آداب
موت کویوں بنادیا محبوب
لوگ مرنے کوہوگئے بے تاب
دولت وملک ونسل کی تفریق
تھی جو انسانیت کے حق میںعذاب
یوں مٹا دی کہ بوذر و سلماں
ہو گئے ہمسرِ عمر خطابؔ
آپ ہی کی بتائی وہ نکلی
جب بھی سوجھی کسی کوراہِ صواب
ان کا پیغام جس نے اپنایا
آگیا اس کی زندگی پہ شباب
روح کو ان کے عشق سے آرام
دل ہے گو اُن کے عشق میں بیتاب
ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے
سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب
ذکرِ پاک اُن کا اور تو فضلیؔ
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
t
====سیف حسن پوری====
(۱۹۲۵ء حسن پور گیابہار…یکم فروری ۲۰۰۶ء کراچی)
خوبی نہ پوچھ اہلِ محبت سے پھول کی
ہر پنکھڑی سے آتی خوشبو رسول کی
ہم نے جو داد مطلع کی اپنے وصول کی
تعریف کی خدا کی خدا کے رسول کی
ہاتھ آگیا حضور کی سیرت کا آئینہ
تالیف ہو گئی مرے قلبِ ملول کی
نوعِ بشر کو واقفِ سود و زیاں کیا
دکھلائی راہ زیست کے اصل الاصول کی
جب چھڑگیا کبھی رُخِ زیبا کاتذکرہ
آنکھوں کے آگے کھنچ گئی تصویر پھول کی
انسانیت کونورِ ہدایت ہوا نصیب
کس دل فریب لمحے میں آدم نے بھول کی
گوعمر کاٹ دی ہے گناہوں میں تو نے سیفؔ!
اب فکر کر بہشتِ بریں کے حصول کی
t
 
====سیما شکیب====
( ۱۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کراچی)
نہ تھا کچھ بھی یہاں ہوتے ہوئے بھی
جہاں کب تھا ، جہاں ہوتے ہوئے بھی
خدانے ایک اُمی پرکیا تھا
عیاں سب کچھ،نہاں ہوتے ہوئے بھی
شبِ معراج تھم کررہ گئی تھی
ہراک ساعت رواں ہوتے ہوئے بھی
جُھکے تھے آپ کی تعظیم کرنے
وہ سب کروبیاں ہوتے ہوئے بھی
حرا کی پاک خاموشی سے پُوچھو
میں کیوں چُپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی
وہ فرشِ خاک پرآرام فرما
شہہِ کون ومکاں ہوتے ہوئے بھی
حرارت عشق کی،نغمہ بلالی
اذاں کب تھی،اذاں ہوتے ہوئے بھی
سفر ہجرت کا تھا رحمت خداکی
ہجومِ دُشمناں ہوتے ہوئے بھی
ثنا کا حق ادا کب ہوسکا ہے
زباں ، زورِ بیاں ہوتے ہوئے بھی
t
  ====سیّد آل رضا====
(۱۰؍جون ۱۸۹۶ء ضلع اناوا ودھ…یکم مارچ۱۹۷۸ء کراچی)
تہذیبِ عبادت ہے سراپائے محمد
تسلیم کی خوشبو چمن آرائے محمد
تنظیمِ خدا ساز تمنائے محمد
منشا جو خدا کا وہی منشائے محمد
جس دل میں ہے اللہ وہیں رہتے تھے یہ بھی
اللہ جو کہتاہے وہی کہتے ہیں یہ بھی
اللہ کی طاعت ہے محمد کی اطاعت
قرآن کی دعوت ہے محمد کی اطاعت
مرکز کی حفاظت ہے محمد کی اطاعت
حد بند شریعت ہے محمد کی اطاعت
ہوجتنا شعور،اتنا ہی اس حد کو سمجھ کر
اسلام کو سمجھو ، تو محمد کو سمجھ کر
اللہ ہے کیا ؟ جس نے بتایا وہ محمد
پیغام سا پیغام جو لایا ، وہ  محمد
آیات میں پیوست جو آیا ، وہ محمد
جس نے بشریت کو سجایا وہ محمد
معیار بنا بارگۂ عزوجل میں
آہنگِ محمد ، صفت قول و عمل  میں
t
====سیّد سلیمان ندوی ،علامہ====
(۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ضلع ؟؟؟بہار…۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء کراچی)
نقش جس قلب پہ نام شہہ ابرار نہیں
سکۂ قلب ہے وہ درخور بازار نہیں
توہے مجموعہ خوبیٔ وسراپائے جمال  
کونسی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں
مجلسِ شاہ میں ہے نغمۂ تسلیم و درود
شورِ تسبیح نہیں،شورش افکار نہیں
ذرّہ ذرّہ ہے مدینہ کا تجلی گہہ نور
دشتِ ایمن یہ نہیں،جلوہ گاہِ نار نہیں
جان دے دے کے خریدار بنے ہیں انصار
عشقِ زارِ نبوی مصر کا بازار نہیں
شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں
کونسا ذرّہ وہاں مطلع انوار نہیں
ہرقدم بادصبا،حسن ادب سے رکھنا
بوئے گیسوئے نبی نافۂ تاتار نہیں
صیدِ مژگانِ محمد ہیں، غزالانِ حرم
اس لیے ناوک وپیکاں کے سزاوار نہیں
t
====سیّد محمد جعفری====
(۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء …۷؍جنوری ۱۹۹۹ء، کراچی)
سلام بھیجوں، درود اُس نبی کو نذر کروں
کہ جس کو رحمتِ ُکل عالمین کہہ توسکوں
بلند مرتبت ایسا رسول بھیجا گیا
کہ گرخدا نہ کہوں اُس کو ناخداتوکہوں
یہ شعرِ حضرتِ اقبال مجھ کو یاد آیا
کہ آبروئے بشرجس سے ہوگئی افزوں
’’خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے‘‘
’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘
محمدِ عربی ہیں کہ جن کے صدقہ میں
دلِ بشر کو خدا نے دیاہے سوزِ دروں
اُنھیں کے نور سے ہر خلعتِ وجود ملا
انھیں کے نور سے روشن جہانِ بوقلموں
محمد عربی وجہِ خلقت افلاک
ودیعت اُن کو ہوا رب سے رازُِ کن فیکوں
’’محمد عربی آبروئے ہر دوسرا‘‘
انھیں کو قرب ملاہے ملائکہ سے فزوں
بلندیاں شبِ معراج وہ ملیں کہ جہاں
اگرہے عقلِ بشر کچھ توایک صیدِ زبوں
نہ نفسِ ناطقہ پہنچے،نہ لفظ ساتھ چلیں
بیاں کروں شبِ معراج کاتوکیسے کروں
اک عبد خاص ہے مہمانِ حضرت معبود
چمک رہاہے سرعرش ہر درمکنوں
وہ فاصلہ جو تھا قوسین بلکہ اس سے بھی کم
مقرّب اتنا کوئی ہے ملک سے کیا پوچھوں
یہ جبریل نے سدرہ پہ جاکے عرض کیا
تجلیوں سے جلیں پرگراس سے آگے چلوں
وہ ذات پاک ہے لے کرنبی کو جوآیا
حریم کعبہ سے اقصی تک اس کی حمد کروں
ہیں انبیاء سلف راستے میں صف بستہ
دلوں میں اپنے لیے اشتیاق حد سے فزوں
وہ آدم اور وہ ادریس و نوح و ابراہیم
وہ یوسف اور سلیمان و یونسِ ذوالنوں
کھڑے ہیں موسی عمراں وخضر بھی ان میں
لیے ہوئے یدِبیضا عصا و ُمہر سکوں
وجیہِ عقبیٰ و دنیا وہ عیسی مریم
ہیں منتظر کہ یہ آئیں تو میں قدم لے لوں
بلایا کیوں شب معراج اور کہا کیا کچھ
خدا ہی جانتا ہے اس میں کیا ہے رازِ دروں
خدا کرے کہ ملے جعفری کو یہ توفیق
درود بھیجے جو حدوشمار سے ہو بروں
 
====سیّد مظفر احمد ضیا====
(۱۵؍جولائی ۱۹۳۱ء میرٹھ…۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کراچی)
آگیا دہر میں جینے کا قرینہ مجھ کو
میرے مولانے دکھایا ہے کہ مدینہ مجھ کو
اب بھلا بھائیں گے کیا بادہ و مینا مجھ کو
آب کوثر سے بھرا جام ہے پینا مجھ کو
کسی طوفان کا ڈر تھا نہ بھنور کاہی خیال
لے چلا جانب  طیبۂ جو سفینہ مجھ کو
میں نے اک خواب سادیکھا تھا کہ بس نور ہی نور
ہونہ ہو شہر یہ لگتا ہے مدینہ مجھ کو
چشم حیراں کہ تھی محروم تماشہ کب سے
آپ کے در سے ملا دیدۂ بینا مجھ کو
جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی
زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو
آپ کے در پہ تہی دست ہی آیا تھا یہاں
مل گیا رحمتِ باری کا خزینہ مجھ کو
اس لیے تر ہے مرا خامہ مژگاں کہ ضیا
آسکے نعت نگاری کا قرینہ مجھ کو
t
====شاداب احسانی====
(۱۴؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی)
سرزمینِ مدینے کے صدقے شاخِ دل لہلہانے لگی ہے
سیرتِ پاک پڑھنے سے مجھ کو زندگی راس آنے لگی ہے
علم کا استعارہ محمد ، مصطفیٰ مصطفیٰ مصطفیٰ بس
میں نے تکیہ کِیامصطفی پہ تب جہالت ٹھکانے لگی ہے
کیا بتاؤں میں شانِ رسالت معجزے آپ کے ہیںبہت خوب
ماہِ دو نیم یاد آرہا ہے چاندنی جھلملانے لگی ہے
اب تو مجھ میں دیارِ مدینہ پڑھ رہا ہے محمد محمد
دل مرا دف بجانے لگا ہے آرزو گنگنانے لگی ہے
ناز کر خود پہ شادابؔ ہرپل رحمت اُن کی تری ذات پر ہے
ایسے آقا سے نسبت ہوئی کہ تیرگی منہ چھپانے لگی ہے
t
====شان الحق حقی====
(۱۵؍ ستمبر ۱۹۱۷ء دہلی … ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء ٹورانٹو، کینیڈا)
مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے
مرا تو بس یہی ایماں و دیں ہے
اگر تم مقصد عالم نہیں ہو
تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے
نہیں میں واقف سر الٰہی
مگر دل میں یہ نکتہ جا گزیں ہے
جو دل انوار سے ان کے ہے روشن
وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے
نہ کہیے ان کا سایہ ہی نہیں تھا
کہ ثانی تو کوئی بے شک نہیں ہے
مگر جس پر بھی سایہ پڑ گیا ہے
وہ انساں نازش روئے زمیں ہے
وہ شہر بے حصار ان کا مدینہ
کہ جس کی خاک ارمان جبیں ہے
نہ پوچھو ہے حصار اس کا کہاں تک
یہ المغرب سے تا اقصائے چیں ہے
جھکی جاتی ہے خود سجدے میں گردن
نہ جانے کفر ہے یا کار دیں ہے
کہ دل میں ماسوائے اسمِ احمد
نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے
-
سخن کو ان کے حسیں نام سے سجاتے ہیں
ہم اپنا مان اسی صورت سے کچھ بڑھاتے ہیں
بساطِ فکر چمن زار ہو گئی گویا
جو لفظ ہوتے ہیں موزوں ،مہکتے جاتے ہیں
ملی ہے اِن کو جو کچھ اُن کے رنگ و بو کی رمق
توپھول جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں
بہ پیشِ نورِ ازل جائے استعارہ کہاں
جو نقش سامنے آتے ہیں بجھ سے جاتے ہیں
ہے ذاتِ حق اَحَد وحیّ و مالک وداور
ہم ان حروف میں ان کابھی نام پاتے ہیں
خداکی دین یہ گلہائے نعت ہیں،جن کو
ہم اپنی ہیکلِ تخییل پر سجاتے ہیں
ہمیں شکایتِ محرومیِ نظارہ نہیں
انہیں توہم کھلی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں
کرشمے ہیں اسی نورِ ازل کے ماہ و نجوم
یہ سب انہی کے ہیں جلوے جو جگمگاتے ہیں
اداہو کس سے بھلا حق ثنائے خواجہ کا
نہ پوچھئے کہ یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں
t
====شاہ حسن عطاؔ====
(۲۵؍مارچ رائے بریلی … ۷؍ جولائی ۱۹۸۱ء کراچی)
نہیں کہ تجھ کو بشر ہی سلام کرتے ہیں
شجر حجرَ بھی ترا احترام کرتے ہیں  
اسی  سے گرمیٔ محفل ہے آج بھی قائم
کہ تیرا ذکر جہاں میں مدام کرتے ہیں  
وہ ضبطِ نفس وہ سرمستیِ پیام ِ الست
ترے حضور فرشتے قیام کرتے ہیں
تری طلب میں جو رہتے ہیں رہ نورد یہاں
وہی توسارے زمانے میں نام کرتے ہیں
مصافِ زیست میں جاں دادگانِ عشق ترے
ہر ایک آفتِ دوراں کو رام کرتے ہیں
ترا یقیں ہے فزوں تر،مہ و ثریا سے
کہ اس کے نور سے برپَا نظام کرتے ہیں
رہِـ جنوں کی طلب میں بھی جَاں نثار چلیں
رہِ خرد کا جو یہ اہتمام کرتے ہیں
ملی ہے جن کو محبت تری زمانے میں
خموش کارِ اُمم وہ غلام کرتے ہیں
تری قیادتِ عُظمیٰ ہوئی ابد پیما
کہ تجھ کو سارے پیمبرَ امام کرتے ہیں
تری زباں کے توسط جو مانتے ہیں کتاب
وہ کیوں حدیث میں تیری کلام کرتے ہیں
جو مستحق تھے عقوبت کے ہیں وہ خُلد نشیں
نگہ کرم کی شہِ ذی مقامَ کرتے ہیں
سکھائے تو نے جوپیکار وصلح کے آئیں
جہاں کی رہبری تیرے غلام کرتے ہیں
ترا مقام ہے اب تک نظرسے پوشیدہ
اگرچہ ذکر تیرا خاص و عام کرتے ہیں
-
تیری خیر البشری زد میں نہیں شک کے ذرا
تو نے انساں کو دلائی ہے غلامی سے نجات
یہی افلاک جو رفعت میں تحیرّزا ہیں
تیرے قدموں تلے روندے گئے معراج کی رات
دید جس کی نہ میسر کبھی موسیٰ کو ہوئی
تجھ سے اس خالق کونین نے کی کھل کے بات
یہ تفاخر بجز از روح قدس کس کو ملا
کس نے کھینچی ہے بھلا تیری سواری پہ قنات
تیرے افکار سے دنیائے توہمّ ویراں
تری آمد سے گرے خاک پہ سب لات ومنات
منفعل تری تجلّی سے روِاحہؓ  کا سخن
پوری اتری تری قامت پہ نہ حساّن کی بات
محو حیرت تری مداحی میں خاقانی ہے
سعدی وقدسی وجامی سبھی محوصلات
بدراولیٰ میں تری ژرف نگاہی کی قسم
تو نے مومن کو دیاِ ذوق شعور آفات
حشر میںترے جلو میں ہے ملائک کا ہجوم
ذاتِ باری کے سوا سب پہ فزوں تیری ذات
اک اشارے پہ تری سب نکل آئے گھر سے
صفِ جنگاہ میں زہاُد بنے کوہ ثبات
داستاں خونچکاں تھی سفرِ طائف کی
پنڈلیوںسے دم احمر کی تراوش ہئییات
چمن دہر میں رحمت کی چلی باد نسیم
زمزمہ خواں تری آمد پہ مدینہ کی بنات
یہ تو اک رہ گزرِ عشق پیمبر ہے حسنؔ
ہے ابھی دور بہت منزلِ اعمالِ نجات
t
t
====شاہدؔ اکبر آبادی====
شاہد الوری
(وفات:۸؍جون ۱۹۹۳ء کراچی)
اے امین ِ کن فکاں،اے خاتم حق کے نگیں
اے دلِ یزداں کی دھڑکن اے شفیع المذنبیں
اے شبِ اسری کی زینت اے امام المرسلیں
اے کتاب عالمِ امکاں کے بابِ اولیں
السلام اے بے عدیل و بے مثال و بے نظیر
اے رئیس ِقدسیاں اے عرشِ اعظم کے سفیر
آپ وہ ہیں مصدر جود و سخا کہئیے جنہیں
آپ وہ ہیں منبع لطف و عطا کہیئے جنہیں
آپ وہ ہیں مرکزِ صدق وصفا کہیئے جنہیں
آپ وہ ہیں مظہرِ ذات خدا کہیئے جنہیں
آپ مینارِ تقدس آپ کہسارِ یقیں
السلام اے شہرِ علم اے صاحبِ وحیٔ مبیں
یہ جہان آب وگل یہ کوہ دشت وگلستاں
یہ فلک یہ مہرومہ یہ محفلِ سیارگاں
یہ عطارد ، یہ زحل ، یہ مشتری ، یہ کہکشاں
جس سے روشن ہیں یہ صبح وشام یہ کون ومکاں
دن کا وہ مہر منور شب کا وہ ماہِ مبیں
آپ ہیں صرف آپ ہیں یارحمت للعالمیں
کاروانِ شش جہت کے مقتدا سرکار ہیں
نورِحق ،شمس الضحیٰ،بدر الدجیٰ سرکار ہیں
جوہرِ آئینۂ لوحِ قضا سرکار ہیں
نازشِ کونین، فخرِ انبیا سرکار ہیں
سجدگاہِ قدسیاں ہے آپ کا در یا رسول
سرمۂ چشم دوعالم آپ کے قدموں کی دھول
آپ صدرِ بزم امکاں آپ جان ِشش جہات
آپ کا ہر نقشِ پا ہے مشعلِ راہ حیات
ہے جلا بخشش دوعالم جلوۂ ذات وصفات
السلام اے مسند آرائے سریرِ کائنات
آیۂ لولاک و اسریٰ آپ کی شانِ ورود
وجہ تکونینِ دوعالم ذات اقدس کا وجود
نقشِ پاسے آپ کے پھوٹی تمدن کی سحر
خاک کے ذرّوں کو بخشی عظمتِ شمس وقمر
ختم ہے ہر ارتقائے نوعِ انساں آپ پر
آپ ہیں نورالہدی، کف الوری خیرالبشر
محسن ِانسانیت بھی مقصد ِکونین بھی
آپ آنکھوں کی بصارت بھی دلوں کاچین بھی
ُخلق، خُلق بے نہایت ُحسن ُحسنِ بے مثال
دل وہ جس پرآئینہ مستقبل وماضی وحال
زلف پر واللیل رُخ پر آئیہ والفجر دال
آپ شہکارِ مصور آپ تصورِ جمال
موبمو، سر تا بپا ، تنویر یزداں ہیں حضور
عرش نے جس کے قدم چومے وہ انساں ہیں حضور
جانے کب سے منتظر تھیں عرش کی پہنائیاں
آپ نے رکھا قدم بجنے لگیں شہنائیاں
تا بہ سدرہِ اس قدر صدقے ہوئیں رعنائیاں
نور کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئیں پرچھائیاں
ہو گیا ثابت، مجسم نورِ عرفاں آپ ہیں
جسم بے سایہ نہ کیوں ہوعکسِ یزداں آ پ ہیں
مصحفِ ناطق بھی آپ ،آئینہ ِقرآں بھی آپ
آپ شہرِ علم بھی سرچشمۂ عرفاں بھی آپ
عبد بھی اور سر سے پا تک مظہرِ یزداں بھی آپ
جلوۂ صبحِ ازل بھی، جلوۂ فاراں بھی آپ
ابتدا بھی آپ ہی سے، انتہا بھی آپ ہیں
شرح لفظِ کن بھی، ختم الانبیاء بھی آپ ہیں
مقطعِٔ نظم نبوت، مطلعِٔ صبحِ ازل
خالقِ کونین کے دیوان کی پہلی غزل
کھل اٹھا ہرحرف پر تقدیرِ انساں کا کنول
آپ ہر غم کا مداوا، آپ ہر مشکل کا حل
نبضِ فطرت میں تڑپ جس دل  سے ہے وہ دل ہیں آپ
فکر کے ہرکا رواں کی آخری منزل ہیں آپ
====شاہد الوری====
 
(۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ء الور…۱۵؍دسمبر ۲۰۰۴ء کراچی)
(۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ء الور…۱۵؍دسمبر ۲۰۰۴ء کراچی)
دونوں عالم میں جمال مصطفی کا آئینہ
دونوں عالم میں جمال مصطفی کا آئینہ
اور جمال مصطفی نور خدا کا آئینہ
اور جمال مصطفی نور خدا کا آئینہ
سطر 8,704: سطر 6,904:
دل مرا بن جائے تسلیم و رضا کا آئینہ
دل مرا بن جائے تسلیم و رضا کا آئینہ
t
t
====شاہدؔ نقوی====
شاہدؔ نقوی
(۱۵؍جون۱۹۳۵ء۔لکھنؤ…۹؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
(۱۵؍جون۱۹۳۵ء۔لکھنؤ…۹؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
نکلا افق پہ حکم خدا سے وہ آفتاب  
نکلا افق پہ حکم خدا سے وہ آفتاب  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: