آپ «مدحت نامہ - آن لائن پڑھیے» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 925: سطر 925:
خوشا کہ حشر کے دن بھی ہو یہ رعایتِ خاص
خوشا کہ حشر کے دن بھی ہو یہ رعایتِ خاص


 
t
====احسن سلیم====
احسن سلیم
 
(۲۵؍مئی ۱۹۴۸ء، جے پور…۲۶؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)
(۲۵؍مئی ۱۹۴۸ء، جے پور…۲۶؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)
اس دور کم حیات میں امکان چاہیے
اس دور کم حیات میں امکان چاہیے
آقا ہمارے عہد کو انسان چاہیے
آقا ہمارے عہد کو انسان چاہیے
ظلمت کدے میں آپ کا احسان چاہیے
ظلمت کدے میں آپ کا احسان چاہیے
یعنی حساب حشر کا سامان چاہیے
یعنی حساب حشر کا سامان چاہیے
اس دشت روزگار میں انصاف کے لیے
اس دشت روزگار میں انصاف کے لیے
ہم کو خمیر خاک سے میزان چاہیے
ہم کو خمیر خاک سے میزان چاہیے
اس شام بے چراغ پہ آسان ہویہ وقت
اس شام بے چراغ پہ آسان ہویہ وقت
سر پر حضور آپ کا دامان چاہیے
سر پر حضور آپ کا دامان چاہیے
اس خیروشر کے معرکے میں آپ کے طفیل
اس خیروشر کے معرکے میں آپ کے طفیل
ہم کو حریفِ عشق سے تاوان چاہیے
ہم کو حریفِ عشق سے تاوان چاہیے
 
t
 
احمد جاوید
 
==== احمد جاوید====
 
(۱۸؍نومبر ۱۹۵۵ء سراواں الٰہ آباد)
(۱۸؍نومبر ۱۹۵۵ء سراواں الٰہ آباد)
چشمِ نظارہ طلب طیبہ میں کام آئی نہیں
چشمِ نظارہ طلب طیبہ میں کام آئی نہیں
منزل دید پہ درکار یہ بینائی نہیں
منزل دید پہ درکار یہ بینائی نہیں
ایک آواز عمرِؔ لہجہ و صدیقؔ آہنگ
ایک آواز عمرِؔ لہجہ و صدیقؔ آہنگ
دل سے کہتی ہے تجھے اذنِ شکیبائی نہیں
دل سے کہتی ہے تجھے اذنِ شکیبائی نہیں
میں نے بھی نذرگزاری تھی متاعِ دل و جاں
میں نے بھی نذرگزاری تھی متاعِ دل و جاں
شکرصد شکر کہ سرکار نے ٹھکرائی نہیں
شکرصد شکر کہ سرکار نے ٹھکرائی نہیں
گہرِ وصفِ نبی کی ہو سمائی جس میں
گہرِ وصفِ نبی کی ہو سمائی جس میں
بحر تو بحر ہے ، دل میں بھی وہ گہرائی نہیں
بحر تو بحر ہے ، دل میں بھی وہ گہرائی نہیں
کون سی راہِ ہدایت ہے جو اس ہادی نے
کون سی راہِ ہدایت ہے جو اس ہادی نے
دل کو دکھلائی نہیں ، عقل کو سمجھائی نہیں
دل کو دکھلائی نہیں ، عقل کو سمجھائی نہیں
کاش اُس بات سے محفوظ رہیں یہ لب و گوش
کاش اُس بات سے محفوظ رہیں یہ لب و گوش
جو مرے سید و سردار نے فرمائی نہیں
جو مرے سید و سردار نے فرمائی نہیں
چاکِ پیراہنِ ہستی کو رفو کرتے ہیں
چاکِ پیراہنِ ہستی کو رفو کرتے ہیں
ان کے دیوانے بڑے لوگ ہیں ، سودائی نہیں
ان کے دیوانے بڑے لوگ ہیں ، سودائی نہیں
دل میں اک حرف کیا حبِ نبی نے ایجاد
دل میں اک حرف کیا حبِ نبی نے ایجاد
کہ جو شرمندۂ خاموشی و گویائی نہیں
کہ جو شرمندۂ خاموشی و گویائی نہیں
سیدی آپ کی الفت کے مقابل کوئی شے
سیدی آپ کی الفت کے مقابل کوئی شے
ماں نہیں ، باپ نہیں ، بیٹے نہیں ، بھائی نہیں
ماں نہیں ، باپ نہیں ، بیٹے نہیں ، بھائی نہیں
آپ کی شان گرامی ہے خدا کی وہ بات
آپ کی شان گرامی ہے خدا کی وہ بات
جو کبھی اُس نے کسی اور میں دہرائی نہیں
جو کبھی اُس نے کسی اور میں دہرائی نہیں
رفعتیں آپ کے نقشِ کف پاسے ابھریں
رفعتیں آپ کے نقشِ کف پاسے ابھریں
وہ بلندی نہیں جوزیر قدم آئی نہیں
وہ بلندی نہیں جوزیر قدم آئی نہیں
آپ کے درسے نہ مردود کیاجاؤں میں
آپ کے درسے نہ مردود کیاجاؤں میں
دل کسی اور کرامت کا تمنائی نہیں
دل کسی اور کرامت کا تمنائی نہیں
سرورا ، آپ کی امت پہ مسلط ہیں وہ لوگ
سرورا ، آپ کی امت پہ مسلط ہیں وہ لوگ
جن کو اللہ کے آگے بھی حیا آئی نہیں
جن کو اللہ کے آگے بھی حیا آئی نہیں
بسکہ باور نہیں آتی یہ حکایت ہم کو
بسکہ باور نہیں آتی یہ حکایت ہم کو
حاکمِ شہر مسلماں ہے ، کلیسائی نہیں
حاکمِ شہر مسلماں ہے ، کلیسائی نہیں
جب بھی دنیا کی طرف شوق سے دیکھا جاویدؔ
جب بھی دنیا کی طرف شوق سے دیکھا جاویدؔ
دلِ بیدار پکارا کہ نہیں ، بھائی نہیں!
دلِ بیدار پکارا کہ نہیں ، بھائی نہیں!
 
t
 
احمد صغیر صدیقی  
 
====احمد صغیر صدیقی ====
 
(۱۹۳۸ء بہرائچ ، یوپی)
(۱۹۳۸ء بہرائچ ، یوپی)
آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم
آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم
دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم
دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم
زخم پر زخم لگیں اور یونہی گل رنگ ہو جسم
زخم پر زخم لگیں اور یونہی گل رنگ ہو جسم
سنگ پر سنگ چلیں اور کبھی وحشت نہ ہو کم
سنگ پر سنگ چلیں اور کبھی وحشت نہ ہو کم
میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز
میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز
ساری دنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم
ساری دنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم
تیری بیعت میں رہیں تیری ہدایت پہ چلیں
تیری بیعت میں رہیں تیری ہدایت پہ چلیں
کج کلاہانہ جئیں شوقِ شہادت نہ ہو کم
کج کلاہانہ جئیں شوقِ شہادت نہ ہو کم
یوں ہی کھلتے رہیں ہر شاخِ تمنا پہ گلاب
یوں ہی کھلتے رہیں ہر شاخِ تمنا پہ گلاب
سرِ شوریدہ رہے، نشۂ اُلفت نہ ہو کم
سرِ شوریدہ رہے، نشۂ اُلفت نہ ہو کم
-
-
کیا اُن کی طرف آئی یہ بہکی ہوئی دنیا
کیا اُن کی طرف آئی یہ بہکی ہوئی دنیا
قربِ نفسِ پاک سے اُجلی ہوئی دنیا
قربِ نفسِ پاک سے اُجلی ہوئی دنیا
الفاظ تھے اُن کے کہ اُجالوں کے گجر تھے
الفاظ تھے اُن کے کہ اُجالوں کے گجر تھے
پُرنور ہوئی دُھند میں ڈوبی ہوئی دنیا
پُرنور ہوئی دُھند میں ڈوبی ہوئی دنیا
یہ بال و پری اِس کی عنایت ہے اُنہی کی
یہ بال و پری اِس کی عنایت ہے اُنہی کی
اُن کی ہی نوازش ہے یہ اُڑتی ہوئی دنیا
اُن کی ہی نوازش ہے یہ اُڑتی ہوئی دنیا
یہ فکر اُنہی کی ہے کہ ہر فکر ہے گل رنگ
یہ فکر اُنہی کی ہے کہ ہر فکر ہے گل رنگ
ہے اُن کے ہی اعجاز سے مہکی ہوئی دنیا
ہے اُن کے ہی اعجاز سے مہکی ہوئی دنیا
یہ اُن کے قدم تھے کہ بنے باعثِ رحمت
یہ اُن کے قدم تھے کہ بنے باعثِ رحمت
سمٹی ہوئی دنیا ہوئی پھیلی ہوئی دنیا
سمٹی ہوئی دنیا ہوئی پھیلی ہوئی دنیا
 
کیسی تھی نہیں آئے تھے جب تک شہِ والا
 
کیسی تھی نہیں آئے تھے جب تک شہِ والا
 
وہ آئے تو پھر دیکھیے کیسی ہوئی دنیا
وہ آئے تو پھر دیکھیے کیسی ہوئی دنیا
 
t
 
احمد نوید
 
====احمد نوید====
 
(۴؍اکتوبر ۱۹۵۸ء)
(۴؍اکتوبر ۱۹۵۸ء)
اے کہ نہایتِ عیاں ، تیرا حجاب اور ہے
اے کہ نہایتِ عیاں ، تیرا حجاب اور ہے
تیرا حضور اور ہے ، تیرا غیاب اور ہے
تیرا حضور اور ہے ، تیرا غیاب اور ہے
رکھ نہ سکا یہ آفتاب ، تیری کتاب پر کتاب
رکھ نہ سکا یہ آفتاب ، تیری کتاب پر کتاب
خامۂ دستِ جبرئیل ، تیری کتاب اور ہے
خامۂ دستِ جبرئیل ، تیری کتاب اور ہے
بڑھ کر ورائے کوہِ طور ، کب ہے گیا کوئی شعور
بڑھ کر ورائے کوہِ طور ، کب ہے گیا کوئی شعور
پر تیری چشم اور ہے ، پر تیری تاب اور ہے
پر تیری چشم اور ہے ، پر تیری تاب اور ہے
رہ گئے کھا کے پیچ و تاب ، منہ نہ دکھا سکے سراب  
رہ گئے کھا کے پیچ و تاب ، منہ نہ دکھا سکے سراب  
تیرے وجود سے رواں ، چشمۂ آب اور ہے
تیرے وجود سے رواں ، چشمۂ آب اور ہے
تیری دکاں سے ہی فزوں ، رونقِ کوچۂ جنوں  
تیری دکاں سے ہی فزوں ، رونقِ کوچۂ جنوں  
تیری شراب اور ہے ، تیرا حساب اور ہے  
تیری شراب اور ہے ، تیرا حساب اور ہے  
جن کو نہ جذب ہے نہ حال ، تجھ سے کریں گے کیا سوال
جن کو نہ جذب ہے نہ حال ، تجھ سے کریں گے کیا سوال
پائیں گے تجھ سے کیا جواب ، تیرا جواب اور ہے
پائیں گے تجھ سے کیا جواب ، تیرا جواب اور ہے
 
t
 
احمد ہمدانی،سید محمد احمد
 
====احمد ہمدانی،سید محمد احمد====
 
(۱۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ء میرٹھ… ۲۶؍ فروری۲۰۱۵ء کراچی)
(۱۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ء میرٹھ… ۲۶؍ فروری۲۰۱۵ء کراچی)
ہیں اپنے تو آقا و مولا محمد
ہیں اپنے تو آقا و مولا محمد
ہر آفت میں اپنا سہارا محمد
ہر آفت میں اپنا سہارا محمد
یہی دین اپنا یہی اپنا ایماں
یہی دین اپنا یہی اپنا ایماں
ہو لب پر دمِ واپسیں یا محمد
ہو لب پر دمِ واپسیں یا محمد
ہم ایسے گنہگار بھی آپ کے ہیں
ہم ایسے گنہگار بھی آپ کے ہیں
کرم آپ کا ہے نہ کیا کیا محمد
کرم آپ کا ہے نہ کیا کیا محمد
عطا ہو محبت کا اتنا تو صدقہ
عطا ہو محبت کا اتنا تو صدقہ
مرے دل کو آجائے دُکھنا محمد
مرے دل کو آجائے دُکھنا محمد
نہ دُنیا کی خواہش نہ کچھ فکرِ عقبیٰ
نہ دُنیا کی خواہش نہ کچھ فکرِ عقبیٰ
ہمیں تو ہیں مطلوب تنہا محمد
ہمیں تو ہیں مطلوب تنہا محمد
 
t
 
اخترؔ حیدرآبادی
 
====اخترؔ حیدرآبادی====
 
(۱۶؍اپریل۱۸۹۴،رامپور…۱۱؍جنوری۱۹۵۸،کراچی)
(۱۶؍اپریل۱۸۹۴،رامپور…۱۱؍جنوری۱۹۵۸،کراچی)
تھا یہ ترے کمال کا ایک نشانِ برتری
تھا یہ ترے کمال کا ایک نشانِ برتری
ورنہ عرب کے گلہ باں اور دماغِ قیصری
ورنہ عرب کے گلہ باں اور دماغِ قیصری
نغمۂ حق ادھر ہواتیرے رباب سے بلند  
نغمۂ حق ادھر ہواتیرے رباب سے بلند  
رک گئے دفعتاً ادھر ساز و نوائے کافری
رک گئے دفعتاً ادھر ساز و نوائے کافری
تو نے بتا دیا کہ تھی ’’عجز‘‘ میں عظمتِ عروج
تو نے بتا دیا کہ تھی ’’عجز‘‘ میں عظمتِ عروج
تو نے دکھا دیا کہ ہے ’’فقر‘‘ میں شانِ قیصری
تو نے دکھا دیا کہ ہے ’’فقر‘‘ میں شانِ قیصری
تیرے ثباتِ عزم سے ضبطِ شہیدِ کربلا
تیرے ثباتِ عزم سے ضبطِ شہیدِ کربلا
تیرے شکوۂ رزم پر،سطوتِ زورِ حیدری
تیرے شکوۂ رزم پر،سطوتِ زورِ حیدری
کیسے کہوں شہہ رُسل،میں بھی تراغلام ہوں  
کیسے کہوں شہہ رُسل،میں بھی تراغلام ہوں  
قبلۂ بندگی مرا،تیرا حریمِ سروری
قبلۂ بندگی مرا،تیرا حریمِ سروری
نفس ذلیل وخود پرست،عقل ضعیف وہرزہ کار
نفس ذلیل وخود پرست،عقل ضعیف وہرزہ کار
سلسلۂ عمل نہیں،لوثِ گناہ سے بری
سلسلۂ عمل نہیں،لوثِ گناہ سے بری
قابلِ عفوگو نہیں،میری سیاہ کاریاں
قابلِ عفوگو نہیں،میری سیاہ کاریاں
بندہ نواز ہے تری شانِ عطائے سروری
بندہ نواز ہے تری شانِ عطائے سروری
ٹوٹ رہے ہیں دم بدم،جانِ حزیں پہ سنگِ غم
ٹوٹ رہے ہیں دم بدم،جانِ حزیں پہ سنگِ غم
پیس رہی ہے پے بہ پے گردشِ چرخِ چنبری
پیس رہی ہے پے بہ پے گردشِ چرخِ چنبری
تیرا مطیع اوریوں صیدِ زُبونِ روزگار
تیرا مطیع اوریوں صیدِ زُبونِ روزگار
تیرا غلام اوریہ بارشِ تیرہ اختری
تیرا غلام اوریہ بارشِ تیرہ اختری
خاکِ رہِ نیازہوں ،رتبۂ امتیاز دے
خاکِ رہِ نیازہوں ،رتبۂ امتیاز دے
حوصلۂ بلندی و ہستیٔ سرفراز دے
حوصلۂ بلندی و ہستیٔ سرفراز دے
 
t
 
اختر سعیدی،سید اخترعلی
 
====اختر سعیدی،سید اخترعلی====
 
(۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء ٹونک)
(۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء ٹونک)
ساتھ چلتی ہے مدینے کے سفر میں خوشبو
ساتھ چلتی ہے مدینے کے سفر میں خوشبو
پھیل جاتی ہے ہر اک راہ گذر میں خوشبو
پھیل جاتی ہے ہر اک راہ گذر میں خوشبو
خاص نسبت ہے گلستانِ محمد سے مجھے
خاص نسبت ہے گلستانِ محمد سے مجھے
معتبر کیسے نہ ہو میری نظر میں خوشبو
معتبر کیسے نہ ہو میری نظر میں خوشبو
کچھ نہیں لکھتا قلم اسم محمد کے سوا
کچھ نہیں لکھتا قلم اسم محمد کے سوا
کس نے رکھ دی ہے مرے دستِ ہنر میں خوشبو
کس نے رکھ دی ہے مرے دستِ ہنر میں خوشبو
ذکر سرکار دو عالم مرا سرمایہ ہے
ذکر سرکار دو عالم مرا سرمایہ ہے
کیسے آباد نہ ہوگی مرے گھر میں خوشبو
کیسے آباد نہ ہوگی مرے گھر میں خوشبو
ان کی یادوں کی دھنک ان کے تصور کی مہک
ان کی یادوں کی دھنک ان کے تصور کی مہک
بھر گئی وسعت دامانِ سحر میں خوشبو
بھر گئی وسعت دامانِ سحر میں خوشبو
بوئے گلزار نبی ہمسفر جاں ہوتی
بوئے گلزار نبی ہمسفر جاں ہوتی
اپنے خوابوں میں بسا لیتا اگر میں خوشبو
اپنے خوابوں میں بسا لیتا اگر میں خوشبو
منزلیں ا س کے قدم چوم رہی ہیں اخترؔ
منزلیں ا س کے قدم چوم رہی ہیں اخترؔ
جس کی تقدیر بنی طیبہ نگر میں خوشبو
جس کی تقدیر بنی طیبہ نگر میں خوشبو
 
t
 
اداجعفری
 
====اداجعفری====
 
(۲۲؍اگست ۱۹۲۴،بدایوں…۱۲؍مارچ۲۰۰۵ء کراچی)
(۲۲؍اگست ۱۹۲۴،بدایوں…۱۲؍مارچ۲۰۰۵ء کراچی)
ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے
ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لُوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
لُوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبی ہدیۂ جاں سے
تحریر کروں اسمِ نبی ہدیۂ جاں سے
کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں
کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں
تم ان کو پکارو تو حضورِ دل و جاں سے
تم ان کو پکارو تو حضورِ دل و جاں سے
ہر دور کی امید ہیں، ہر عہد کا پیماں
ہر دور کی امید ہیں، ہر عہد کا پیماں
پہچان ہے ان کی نہ زمیں سے،نہ زماں سے
پہچان ہے ان کی نہ زمیں سے،نہ زماں سے
وہ جس کی طلب گارہے خود رحمتِ یزداں
وہ جس کی طلب گارہے خود رحمتِ یزداں
زینت ہے دوعالم کی اسی سروِ رواں سے
زینت ہے دوعالم کی اسی سروِ رواں سے
کیوں قافلے والوں کو ابھی ہوش نہ آیا
کیوں قافلے والوں کو ابھی ہوش نہ آیا
منزل تو ملے گی انہی قدموں کے نشاں سے
منزل تو ملے گی انہی قدموں کے نشاں سے
یہ خوف،یہ صحرا،یہ کڑی دھوپ کے تیور
یہ خوف،یہ صحرا،یہ کڑی دھوپ کے تیور
ہے آس بہت آپ کے دامانِ اماں سے
ہے آس بہت آپ کے دامانِ اماں سے
اس نام کی خوشبو ہے وسیلہ بھی، صلہ بھی
اس نام کی خوشبو ہے وسیلہ بھی، صلہ بھی
گزرے ہے صبا جیسے جہانِ گزراں سے
گزرے ہے صبا جیسے جہانِ گزراں سے
 
t
 
ادیبؔ سہارنپوری
 
====ادیبؔ سہارنپوری====
 
(وفات:۱۶جولائی ۱۹۶۳ء کراچی)
(وفات:۱۶جولائی ۱۹۶۳ء کراچی)
مطلع عالم پہ ہرسُو موت ہے چھائی ہوئی
مطلع عالم پہ ہرسُو موت ہے چھائی ہوئی
سربرہنہ پھر رہی ہے زیست گھبرائی ہوئی
سربرہنہ پھر رہی ہے زیست گھبرائی ہوئی
ہے زمیں لرزاں کہ اب محشر بپا ہونے کوہے
ہے زمیں لرزاں کہ اب محشر بپا ہونے کوہے
آسماں بھی ہے سراسیمہ کہ کیا ہونے کوہے
آسماں بھی ہے سراسیمہ کہ کیا ہونے کوہے
امنِ عالم خوں فشاں ہے زانوؤں میں سردئیے
امنِ عالم خوں فشاں ہے زانوؤں میں سردئیے
گونجتے ہیں ہرطرف شیطاں کے خونی قہقہے
گونجتے ہیں ہرطرف شیطاں کے خونی قہقہے
مادیت کے کرشمے الامان والخدر
مادیت کے کرشمے الامان والخدر
قہقہہ زن ہے جہالت علم وفن کی لاش پر
قہقہہ زن ہے جہالت علم وفن کی لاش پر
بڑھ رہی ہے بربریت سیل بربادی لئے
بڑھ رہی ہے بربریت سیل بربادی لئے
آندھیوں کی رو پہ ہیں تہذیبِ حاضر کے دیئے  
آندھیوں کی رو پہ ہیں تہذیبِ حاضر کے دیئے  
بڑھ گیاہے بے نہایت زندگی میں انتشار  
بڑھ گیاہے بے نہایت زندگی میں انتشار  
ہرگھڑی دنیا کوہے بربادیوں کا انتظار
ہرگھڑی دنیا کوہے بربادیوں کا انتظار
بے طرح دنیا کاامن وعافیت تاراج ہے  
بے طرح دنیا کاامن وعافیت تاراج ہے  
اب جہاں تک دیکھئے بے چینیوں کاراج ہے
اب جہاں تک دیکھئے بے چینیوں کاراج ہے
پانی پانی ہورہاہے دورِ وحشت شرم سے  
پانی پانی ہورہاہے دورِ وحشت شرم سے  
کارناموں پرترقی یافتہ انسان کے  
کارناموں پرترقی یافتہ انسان کے  
ملتوں کو جو چلائے جادۂ تخریب پر
ملتوں کو جو چلائے جادۂ تخریب پر
لعنت ایسے علم پر، پھٹکار اس تہذیب پر
لعنت ایسے علم پر، پھٹکار اس تہذیب پر
آہ اے گمراہ مغرب اے گرفتارِاجل  
آہ اے گمراہ مغرب اے گرفتارِاجل  
مجھ سے سن ناداں یہ ہے مذہب سے بیزاری کاپھل  
مجھ سے سن ناداں یہ ہے مذہب سے بیزاری کاپھل  
الاماں مذہب سے بیزاری کا جذبہ الاماں  
الاماں مذہب سے بیزاری کا جذبہ الاماں  
جس سے چھا جاتی ہیں قلب وذہن پرتاریکیاں  
جس سے چھا جاتی ہیں قلب وذہن پرتاریکیاں  
پھینک دیتاہے اٹھا کرمرکزِ ہستی سے دور
پھینک دیتاہے اٹھا کرمرکزِ ہستی سے دور
سلب کرلیتاہے کشتِ دل سے نم آنکھوں سے نور
سلب کرلیتاہے کشتِ دل سے نم آنکھوں سے نور
میٹتاہے بے تحاشا چھینتاہے بے درنگ  
میٹتاہے بے تحاشا چھینتاہے بے درنگ  
روح کی  پاکیزگی صادق بیانی کی اُمنگ
روح کی  پاکیزگی صادق بیانی کی اُمنگ
ذہنیت کو کرکے بیجا خودشناسی کا اسیر  
ذہنیت کو کرکے بیجا خودشناسی کا اسیر  
چپکے چپکے گھونٹتا رہتاہے آوازِ ضمیر  
چپکے چپکے گھونٹتا رہتاہے آوازِ ضمیر  
کیوں نہ میںکہہ دوں ادیبؔ آخر جو میرے دل میں ہے
کیوں نہ میںکہہ دوں ادیبؔ آخر جو میرے دل میں ہے
امتِ تہذیب حاضر بھی اسی منزل میں ہے
امتِ تہذیب حاضر بھی اسی منزل میں ہے
چیخ اٹھنا چاہتی ہے غم سے گھبرا کر زمین
چیخ اٹھنا چاہتی ہے غم سے گھبرا کر زمین
رحمتہ للعالمین یارحمتہ للعالمین
رحمتہ للعالمین یارحمتہ للعالمین
 
t
 
ارم لکھنوی
 
====ارم لکھنوی====
 
(۱۹۱۰،لکھنؤ…۵؍فروری۱۹۲۷،کراچی)  
(۱۹۱۰،لکھنؤ…۵؍فروری۱۹۲۷،کراچی)  
کتنی پُرنور مری غایتِ گویائی ہے
کتنی پُرنور مری غایتِ گویائی ہے
التجا اشکِ ندامت میں سمٹ آئی ہے
التجا اشکِ ندامت میں سمٹ آئی ہے
حسرتِ وادیٔ طیبہ کی گھٹن کیا کہنا
حسرتِ وادیٔ طیبہ کی گھٹن کیا کہنا
خلد سے میرے لیے چھین کے ہوا آئی ہے
خلد سے میرے لیے چھین کے ہوا آئی ہے
جب کبھی صلِ علیٰ پڑھ کے چمن سے گزرا
جب کبھی صلِ علیٰ پڑھ کے چمن سے گزرا
مجھ کو کلیوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
مجھ کو کلیوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
آنکھ ہے بند درودوں کی صداہے دل میں
آنکھ ہے بند درودوں کی صداہے دل میں
دوستو کتنی مقدس مری تنہائی ہے
دوستو کتنی مقدس مری تنہائی ہے
اس پہ سرکار دوعالم نے قدم رکھا تھا
اس پہ سرکار دوعالم نے قدم رکھا تھا
خاک طیبہ کو بجا دعوی یکتائی ہے
خاک طیبہ کو بجا دعوی یکتائی ہے
بارہا عالم تقدیس کے پردوں سے ارمؔ
بارہا عالم تقدیس کے پردوں سے ارمؔ
گوشۂ دل میں درودوں کی صدا آئی ہے
گوشۂ دل میں درودوں کی صدا آئی ہے
-
-
نعلین شکستہ ہے تو بوسیدہ قبا ہے
نعلین شکستہ ہے تو بوسیدہ قبا ہے
یہ بادشہِ سلطنتِ ارض و سما ہے
یہ بادشہِ سلطنتِ ارض و سما ہے
قاسم ہے مگر کرتا ہے فاقوں پہ گذارا
قاسم ہے مگر کرتا ہے فاقوں پہ گذارا
سلطاں ہے مگر مجمع فقرا میں کھڑاہے
سلطاں ہے مگر مجمع فقرا میں کھڑاہے
خاکی ہے مگر کسبِ ضیاء کرتے ہیں قدسی!
خاکی ہے مگر کسبِ ضیاء کرتے ہیں قدسی!
انساں ہے مگرنور کے سانچے میں ڈھلا ہے
انساں ہے مگرنور کے سانچے میں ڈھلا ہے
اللہ! اِدھر فرش پہ ہے آپ کا بستر
اللہ! اِدھر فرش پہ ہے آپ کا بستر
قدموں میں اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے
قدموں میں اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے
دو نیم اِدھر جنبشِ انگشت سے مہتاب
دو نیم اِدھر جنبشِ انگشت سے مہتاب
خورشید اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے
خورشید اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے
تسکینِ دل و جانِ دو عالم کا ہے باعث
تسکینِ دل و جانِ دو عالم کا ہے باعث
اک اسم گرامی کہ سرِ عرش لکھاہے
اک اسم گرامی کہ سرِ عرش لکھاہے
اسرا کو وہ تنہائی میں تقریبِ ملاقات
اسرا کو وہ تنہائی میں تقریبِ ملاقات
کیا میم کے اسرار کا مفہوم کھلا ہے
کیا میم کے اسرار کا مفہوم کھلا ہے
ہر ادنی واعلیٰ ہے نمک خوارِ محمد
ہر ادنی واعلیٰ ہے نمک خوارِ محمد
ہر شاہ و گدا آپ کے ٹکڑوں پہ پلا ہے
ہر شاہ و گدا آپ کے ٹکڑوں پہ پلا ہے
جھکتے ہیں جہاں آ کے سلاطین زمانہ
جھکتے ہیں جہاں آ کے سلاطین زمانہ
وہ بارگہ صاحبِ لولاک لما ہے
وہ بارگہ صاحبِ لولاک لما ہے
اے گلشنِ تطہیر کی نوخیز بہارو !
اے گلشنِ تطہیر کی نوخیز بہارو !
جو پھول ہے جو غنچہ ہے گلزار نما ہے
جو پھول ہے جو غنچہ ہے گلزار نما ہے
کیوں شان کرم کیسی رعایت ہے  ارم ؔسے
کیوں شان کرم کیسی رعایت ہے  ارم ؔسے
مجرم ہے مگردامنِ حضرت میں چھپا ہے
مجرم ہے مگردامنِ حضرت میں چھپا ہے
 
.
 
 
 
درنبی پہ جیسے باریاب دیکھاہے
درنبی پہ جیسے باریاب دیکھاہے
اس ایک ذرہ کو پھر آفتاب دیکھاہے
اس ایک ذرہ کو پھر آفتاب دیکھاہے
تمھارے ایک ہی مجز نما اشارے سے
تمھارے ایک ہی مجز نما اشارے سے
دونیم ہوتے ہوئے آفتاب دیکھاہے
دونیم ہوتے ہوئے آفتاب دیکھاہے
فراز عرش پہ معراج ہے محبت کی
فراز عرش پہ معراج ہے محبت کی
یہ دل نے فیضِ رسالت مآب دیکھاہے
یہ دل نے فیضِ رسالت مآب دیکھاہے
دیاہمارے پیمبر نے ہم کو وہ قرآں
دیاہمارے پیمبر نے ہم کو وہ قرآں
جہاں کو ہوتے ہوئے لاجواب دیکھاہے
جہاں کو ہوتے ہوئے لاجواب دیکھاہے
خداسے نام محمد پہ جب دعامانگی
خداسے نام محمد پہ جب دعامانگی
دعا کوہوتے ہوئے مستجاب دیکھاہے
دعا کوہوتے ہوئے مستجاب دیکھاہے
خدا نے ایک محمد میں دے دیا سب کچھ
خدا نے ایک محمد میں دے دیا سب کچھ
کریم کاکرمِ بے حساب دیکھاہے
کریم کاکرمِ بے حساب دیکھاہے
ہماراکعبہ دل اور رسول کا جلوہ
ہماراکعبہ دل اور رسول کا جلوہ
یہ واقعہ ہے الٰہی ! کہ خواب دیکھاہے
یہ واقعہ ہے الٰہی ! کہ خواب دیکھاہے
خداسے کی وہ محبت کہ بن گئے محبوب
خداسے کی وہ محبت کہ بن گئے محبوب
جہانِ حسن میںیہ انقلاب دیکھاہے
جہانِ حسن میںیہ انقلاب دیکھاہے
ارمؔ !لگائی ہے جب دل نے لُو محمدسے
ارمؔ !لگائی ہے جب دل نے لُو محمدسے
ہر ایک جذبۂ دل کا میاب دیکھاہے
ہر ایک جذبۂ دل کا میاب دیکھاہے
 
t
 
اسحاق اطہر صدیقی
 
====اسحاق اطہر صدیقی====
 
(۲؍جنوری ۱۹۳۳۔میرٹھ)
(۲؍جنوری ۱۹۳۳۔میرٹھ)
نعت بھی حمد باری ہے  
نعت بھی حمد باری ہے  
یہ کیسی ذمہ داری ہے
یہ کیسی ذمہ داری ہے
یہ اپنی اپنی توفیق
یہ اپنی اپنی توفیق
چشمۂ فیض تو جاری ہے
چشمۂ فیض تو جاری ہے
خواب میں ہے طیبہ کا سفر
خواب میں ہے طیبہ کا سفر
یہ بھی اِک بیداری ہے
یہ بھی اِک بیداری ہے
ہر دم لب پہ صلیٰ علیٰ  
ہر دم لب پہ صلیٰ علیٰ  
اپنی یہی تیاری ہے
اپنی یہی تیاری ہے
کیا بتلاؤں وردِ درود
کیا بتلاؤں وردِ درود
ہر دکھ میں غم خواری ہے
ہر دکھ میں غم خواری ہے
آپ کی رحمت کے صدقے
آپ کی رحمت کے صدقے
ہر دم رحمتِ باری ہے
ہر دم رحمتِ باری ہے
نعت کہاں کہہ پایا ہوں
نعت کہاں کہہ پایا ہوں
میں نے عرض گزاری ہے
میں نے عرض گزاری ہے
 
t
 
اسدؔ محمد خاں
 
 
====اسدؔ محمد خاں====
 
(۲۶؍ستمبر۱۹۳۲،ریاست بھوپال)
(۲۶؍ستمبر۱۹۳۲،ریاست بھوپال)
سُندر نام ِتہار نبی جی
سُندر نام ِتہار نبی جی
نبی کریم آپ کانام خوبصورت ہے
نبی کریم آپ کانام خوبصورت ہے
سُندر  نام  ِتہارو
سُندر  نام  ِتہارو


آپ کانام خوبصورت ہے
آپ کانام خوبصورت ہے
آپ مُرَلیا، آپ َبجَئیّا
آپ مُرَلیا، آپ َبجَئیّا
آپ ہی نغمۂ سرمدی ہیں،آپ ہی نغمۂ سرمدی کو پھیلانے والے
آپ ہی نغمۂ سرمدی ہیں،آپ ہی نغمۂ سرمدی کو پھیلانے والے
آپ چندرِیکا، آپ بَدرَیا
آپ چندرِیکا، آپ بَدرَیا
آپ ہی چاند کی کرن ہیں،آپ ہی سایہ داربادل ہیں
آپ ہی چاند کی کرن ہیں،آپ ہی سایہ داربادل ہیں
ساگر نام  ِتہار نبی جی
ساگر نام  ِتہار نبی جی
آپ کا مبارک نام سمندرہے
آپ کا مبارک نام سمندرہے
سُندر  نام  ِتہارو
سُندر  نام  ِتہارو


آپ کانام خوبصورت ہے
آپ کانام خوبصورت ہے
سدا رنگ توری سرسوں پھولے
سدا رنگ توری سرسوں پھولے
آپ کی کھیتی سرسبز ہے کہ ابدی رنگ میں رچی ہوئی لازوال سرسوں ہے
آپ کی کھیتی سرسبز ہے کہ ابدی رنگ میں رچی ہوئی لازوال سرسوں ہے
دُوار بسنت ہنڈولا جھولے
دُوار بسنت ہنڈولا جھولے
آپ کی چوکھٹ پر ابدی بہار جھولا جھولتی ہے
آپ کی چوکھٹ پر ابدی بہار جھولا جھولتی ہے
جنم جنم توری باجے رے بنسی
جنم جنم توری باجے رے بنسی
آپ کا سرمدی نغمہ، حیات در حیات جاری و ساری ہے
آپ کا سرمدی نغمہ، حیات در حیات جاری و ساری ہے
ساگر نام ِتہار نبی جی
ساگر نام ِتہار نبی جی
آپ کا مبارک نام سمندر ہے
آپ کا مبارک نام سمندر ہے
سُندر  نام  ِتہارو
سُندر  نام  ِتہارو


آپ کا نام خوبصورت ہے
آپ کا نام خوبصورت ہے
نام کریم، دو جگ کے دِیالو
نام کریم، دو جگ کے دِیالو
آپ کانام کریم بھی ہے کہ دوجہاں میں آپ کی شفاعت اورکرم جاری ہے
آپ کانام کریم بھی ہے کہ دوجہاں میں آپ کی شفاعت اورکرم جاری ہے
نام چندن سا پایوَ
نام چندن سا پایوَ
آپ کوصندل سامہکتا نام ملاہے
آپ کوصندل سامہکتا نام ملاہے
نام جپیں رے تورا سب نرناری
نام جپیں رے تورا سب نرناری
سب مرد عورت آپ کے مبارک نام کا ورد کرتے ہیں
سب مرد عورت آپ کے مبارک نام کا ورد کرتے ہیں
داس اسدؔ ُگن گایوَ
داس اسدؔ ُگن گایوَ
یہ غلام اسدؔ آپ کے گن گاتاہے
یہ غلام اسدؔ آپ کے گن گاتاہے
اسدؔ بھی خوب نصیبا لایوَ
اسدؔ بھی خوب نصیبا لایوَ
یہ اسدؔ بھی کیسا مقدرلایا ہے(کہ اس قابل ہواہے)
یہ اسدؔ بھی کیسا مقدرلایا ہے(کہ اس قابل ہواہے)
نام جپیں رے توراانتریامی جلَّ جلالہٗ
نام جپیں رے توراانتریامی جلَّ جلالہٗ
عالم الغیب نے بھی آپ کی مدح فرمائی ہے
عالم الغیب نے بھی آپ کی مدح فرمائی ہے
نام محمد پایوَ نبی جی
نام محمد پایوَ نبی جی
کہ نبی محترم آپ کومحمد نام عطاہواہے
کہ نبی محترم آپ کومحمد نام عطاہواہے
نام محمد پایو         
نام محمد پایو         
آپ کو محمد نام عطا ہوا
آپ کو محمد نام عطا ہوا
سُندر نام ِتہار نبی جی
سُندر نام ِتہار نبی جی
کریم آپ کانام خوبصورت ہے
کریم آپ کانام خوبصورت ہے
ساگر نام  ِتہارو
ساگر نام  ِتہارو
آپ کانام سمندر ہے
آپ کانام سمندر ہے
 
t
 
اسعد شاہ جہاں پوری
 
====اسعد شاہ جہاں پوری====
 
(۱۸۸۷ء۔شاہ جہاں پور…۲۲؍ جولائی۱۹۶۶ء۔کراچی)
(۱۸۸۷ء۔شاہ جہاں پور…۲۲؍ جولائی۱۹۶۶ء۔کراچی)
عرب کا مہر عجم کا مہ تمام آیا
عرب کا مہر عجم کا مہ تمام آیا
اٹھو کہ لمحۂ تجدیدِ ُصبح و شام آیا
اٹھو کہ لمحۂ تجدیدِ ُصبح و شام آیا
تجمل شب اسرای کو یاد کرتا ہوں
تجمل شب اسرای کو یاد کرتا ہوں
بشر کی عزِّ گرامی کا کیا مقام آیا
بشر کی عزِّ گرامی کا کیا مقام آیا
رسول آئے تھے اب خاتم رسل آئے
رسول آئے تھے اب خاتم رسل آئے
کلام آئے تھے اب حاصلِ کلام آیا
کلام آئے تھے اب حاصلِ کلام آیا
وہ جس پہ کج کلاہان زمانہ نازاں تھے
وہ جس پہ کج کلاہان زمانہ نازاں تھے
وہ سب غرور تری بندگی میں کام آیا
وہ سب غرور تری بندگی میں کام آیا
خدا کی ذات ہے خلوت ہے اور یاد حبیب
خدا کی ذات ہے خلوت ہے اور یاد حبیب
کبھی درود کے تحفے ،کبھی سلام آیا
کبھی درود کے تحفے ،کبھی سلام آیا
کہاں زمین، کہاں شمعِ خلوتِ لاہوت
کہاں زمین، کہاں شمعِ خلوتِ لاہوت
خدا کا گھر کا اجالا ہمارے کام آیا
خدا کا گھر کا اجالا ہمارے کام آیا
تصور رخ عالم پناہ کے صدقے
تصور رخ عالم پناہ کے صدقے
فلک سے آج مہہ و مہر کا سلام آیا
فلک سے آج مہہ و مہر کا سلام آیا
 
مرے جنوں کی حدیں ختم ہو گئی اسعد
 
مرے جنوں کی حدیں ختم ہو گئی اسعد
 
مدینہ آیا مرا مرجع المرام آیا
مدینہ آیا مرا مرجع المرام آیا
 
t
 
اسلم فرخی،ڈاکٹر
 
 
==== اسلم فرخی،ڈاکٹر====
 
(۲۳؍اکتوبر۱۹۳۳ء لکھنؤ…۱۵؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)
(۲۳؍اکتوبر۱۹۳۳ء لکھنؤ…۱۵؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)
مدحتِ سرورِ کونین تو کیا لکھی ہے
مدحتِ سرورِ کونین تو کیا لکھی ہے
آپ کے حسن سخاوت سے حوالہ پاکر
آپ کے حسن سخاوت سے حوالہ پاکر
شبِ معراج کے دامن پہ بہ قابَ قوسین
شبِ معراج کے دامن پہ بہ قابَ قوسین
قامت ناز سے ’’والنجم‘‘ کے آثار عیاں
قامت ناز سے ’’والنجم‘‘ کے آثار عیاں
ورق جاں ہے ترے نورِ صفا سے روشن
ورق جاں ہے ترے نورِ صفا سے روشن
مجھ کو شکوہ نہیں ماحول کی سفاکی کا
مجھ کو شکوہ نہیں ماحول کی سفاکی کا
میرے آقا نے شیکبائی ’’لاتخزن‘‘ سے
میرے آقا نے شیکبائی ’’لاتخزن‘‘ سے
بدر شاہد ہے اک بے سروساماں نے یہاں
بدر شاہد ہے اک بے سروساماں نے یہاں
ہوگئی مجھ پر حرام آتش دوزخِ اسلمؔ!
ہوگئی مجھ پر حرام آتش دوزخِ اسلمؔ!
میں نے ا پنے لیے بخشش کی دعا لکھی ہے
میں نے ا پنے لیے بخشش کی دعا لکھی ہے
سرنوشتِ کرم و جود و سخا لکھی ہے
سرنوشتِ کرم و جود و سخا لکھی ہے
عظمتِ سلسلہ مہر و وفا لکھی ہے
عظمتِ سلسلہ مہر و وفا لکھی ہے
رُخِ پُرنور پہ تحریرِ حیا لکھی ہے
رُخِ پُرنور پہ تحریرِ حیا لکھی ہے
صفحہ دل پہ ہراک تیری ادا لکھی ہے
صفحہ دل پہ ہراک تیری ادا لکھی ہے
میرے حق میں تو مدینے کی فضا لکھی ہے
میرے حق میں تو مدینے کی فضا لکھی ہے
اضطراب دل محزوں کی دوا لکھی ہے
اضطراب دل محزوں کی دوا لکھی ہے
سروسامانِ دوعالم کی دعا لکھی ہے
سروسامانِ دوعالم کی دعا لکھی ہے
میں نے سرکار دوعالم کی ثنا لکھی ہے
میں نے سرکار دوعالم کی ثنا لکھی ہے
-
-
اٹھا آقا کے درسے فرخی آہستہ آہستہ
اٹھا آقا کے درسے فرخی آہستہ آہستہ
بالآخر آئی رخصت کی گھڑی آہستہ آہستہ
بالآخر آئی رخصت کی گھڑی آہستہ آہستہ
حضوری کا ہراک عرصہ ہواکاایک جھونکا تھا
حضوری کا ہراک عرصہ ہواکاایک جھونکا تھا
کٹی ہے اورسازی زندگی آہستہ آہستہ
کٹی ہے اورسازی زندگی آہستہ آہستہ
یہاں جو کچھ بھی ملتاہے بقدر طرف ملتاہے
یہاں جو کچھ بھی ملتاہے بقدر طرف ملتاہے
نظر روشن ہے دل روشن ہے فکر وآگہی روشن
نظر روشن ہے دل روشن ہے فکر وآگہی روشن
مدینے کی ہراک رہ میں یہی محسوس ہوتاہے
مدینے کی ہراک رہ میں یہی محسوس ہوتاہے
یہاں محتاط رہنا ہی محبت کا تقاضا ہے
یہاں محتاط رہنا ہی محبت کا تقاضا ہے
بڑی نرمی سے تہذیب دل وجاں ہوتی رہتی ہے
بڑی نرمی سے تہذیب دل وجاں ہوتی رہتی ہے
بلند آہنگی دوراں سے بچنے کے لیے میں بھی
بلند آہنگی دوراں سے بچنے کے لیے میں بھی
یہی جی میں تھا کہ اور ٹھہروں اورکچھ ٹھہروں
یہی جی میں تھا کہ اور ٹھہروں اورکچھ ٹھہروں
کھلا مجھ پہ بھی راز زندگی آہستہ آہستہ
کھلا مجھ پہ بھی راز زندگی آہستہ آہستہ
خداوندا بڑھے یہ روشنی آہستہ آہستہ
خداوندا بڑھے یہ روشنی آہستہ آہستہ
کہ آئے گا یہاں کوئی ابھی آہستہ آہستہ
کہ آئے گا یہاں کوئی ابھی آہستہ آہستہ
یہاں اٹھتا ہے پائے شوق بھی آہستہ آہستہ
یہاں اٹھتا ہے پائے شوق بھی آہستہ آہستہ
یہاں ہوتی ہے طاری بیخودی آہستہ آہستہ
یہاں ہوتی ہے طاری بیخودی آہستہ آہستہ
پڑھا کرتاہوں اکثر یانبی آہستہ آہستہ
پڑھا کرتاہوں اکثر یانبی آہستہ آہستہ
پڑھا میں نے سلامِ آخری آہستہ آہستہ
پڑھا میں نے سلامِ آخری آہستہ آہستہ
 
t
 
اسلم فریدیؔ
 
(۲۸؍نومبر۱۹۴۶ء بہار… ۲۳؍اگست ۲۰۱۴ء کراچی)
====اسلم فریدیؔ====
 
(۲۸؍نومبر۱۹۴۶ء بہار… ۲۳؍اگست ۲۰۱۴ء کراچی)
 
آپ ہی لائے ہیںدنیا میں شریعت پاک صاف
آپ ہی لائے ہیںدنیا میں شریعت پاک صاف
اس لیے امت بھی کرتی ہے محبت پاک صاف
اس لیے امت بھی کرتی ہے محبت پاک صاف
اس حقیقت کے تھے کفارِ مدینہ بھی گواہ
اس حقیقت کے تھے کفارِ مدینہ بھی گواہ
آپ کے ہمراہ تھی جملہ صداقت پاک صاف
آپ کے ہمراہ تھی جملہ صداقت پاک صاف
رحمت عالم نے بخشی ہے نئی اک زندگی
رحمت عالم نے بخشی ہے نئی اک زندگی
جسم وجاں کو کرگئی ان کی ہدایت پاک صاف
جسم وجاں کو کرگئی ان کی ہدایت پاک صاف
سیرت سرکار سے گہرا تعلق چاہیے
سیرت سرکار سے گہرا تعلق چاہیے
خاک کواکسیر کرتی ہے محبت پاک صاف
خاک کواکسیر کرتی ہے محبت پاک صاف
آپ کی امت میں ہوناہے شفاعت کی دلیل
آپ کی امت میں ہوناہے شفاعت کی دلیل
حشر کے دن کام آئے گی یہ نسبت پاک صاف
حشر کے دن کام آئے گی یہ نسبت پاک صاف
دین ودنیا کے تعلق میں توازن کے لیے
دین ودنیا کے تعلق میں توازن کے لیے
آپ انسانوں کو کرتے تھے نصیحت پاک صاف
آپ انسانوں کو کرتے تھے نصیحت پاک صاف
پہلے ذوق وشوق کی اک انتہا کردیکھیے
پہلے ذوق وشوق کی اک انتہا کردیکھیے
پھر فریدیؔ خود ہی ہوگی ان کی مدحت پاک صاف
پھر فریدیؔ خود ہی ہوگی ان کی مدحت پاک صاف
 
t
 
اصطفاؔ لکھنوی
 
====اصطفاؔ لکھنوی====
 
(۴؍اگست۱۸۹۲ء ،قنوج ضلع فرخ آباد  -  ۲۸؍مارچ،۱۹۶۳ء کراچی)
(۴؍اگست۱۸۹۲ء ،قنوج ضلع فرخ آباد  -  ۲۸؍مارچ،۱۹۶۳ء کراچی)
جڑے ہوئے ہیں جو دل میں مرے نگینے سے
جڑے ہوئے ہیں جو دل میں مرے نگینے سے
یہ داغِ ہجر ہیں لایا ہوں جو مدینے میں
یہ داغِ ہجر ہیں لایا ہوں جو مدینے میں
نہ کیوں ہونورِ مجسم وہ جسمِ بے سایہ
نہ کیوں ہونورِ مجسم وہ جسمِ بے سایہ
نکال دی گئی ظلمت ہو جس کے سینے میں
نکال دی گئی ظلمت ہو جس کے سینے میں
مہکتی رہتی ہیںجس سے مدینہ کی گلیاں
مہکتی رہتی ہیںجس سے مدینہ کی گلیاں
علاقہ کیا کسی خوشبو کو اس پسینے سے
علاقہ کیا کسی خوشبو کو اس پسینے سے
نہ رہ سکے گا مدینہ میں بے ادب گستاخ
نہ رہ سکے گا مدینہ میں بے ادب گستاخ
وہی رہے گا یہاں جو رہے قرینے سے
وہی رہے گا یہاں جو رہے قرینے سے
سفر حجاز کا جب اصطفاؔ ہو آخری بار
سفر حجاز کا جب اصطفاؔ ہو آخری بار
توجان ساتھ ہی نکلے مری مدینے سے
توجان ساتھ ہی نکلے مری مدینے سے
 
t
 
اطہر نادر
 
====اطہر نادر====
 
(۲۸؍ دسمبر۱۹۲۸ء، غازی پور…یکم مارچ ۲۰۰۵ء کراچی)
(۲۸؍ دسمبر۱۹۲۸ء، غازی پور…یکم مارچ ۲۰۰۵ء کراچی)
لکھی گئی جو مدحت سرکار حرف حرف
لکھی گئی جو مدحت سرکار حرف حرف
خوشبومیں سارے بس گئے اشعار حرف حرف
خوشبومیں سارے بس گئے اشعار حرف حرف
جب بھی سجائی نعت کی محفل خیال میں
جب بھی سجائی نعت کی محفل خیال میں
آیا ہے والہانہ ہی ہر بار حرف حرف
آیا ہے والہانہ ہی ہر بار حرف حرف
یہ معجزہ بھی مدحت سرکار ہی کا ہے  
یہ معجزہ بھی مدحت سرکار ہی کا ہے  
بخشے گئے ہیں پڑھ کے گنہگار حرف حرف
بخشے گئے ہیں پڑھ کے گنہگار حرف حرف
دل سے کسی نے اسم محمد لکھاہے جب
دل سے کسی نے اسم محمد لکھاہے جب
کرنے لگاہے عشق کا اظہار حرف حرف
کرنے لگاہے عشق کا اظہار حرف حرف
دل میں خیال نعت جو آیا تویوں لگا
دل میں خیال نعت جو آیا تویوں لگا
جیسے ہو نعت کے لیے تیار حرف حرف
جیسے ہو نعت کے لیے تیار حرف حرف
مجھ پر بھی اک نگاہ کرم ہو توکہہ سکوں
مجھ پر بھی اک نگاہ کرم ہو توکہہ سکوں
حشمت کا میری ہوگیا بیدار حرف حرف
حشمت کا میری ہوگیا بیدار حرف حرف
محسوس ہورہا ہے یہ نادر کی نعت سے
محسوس ہورہا ہے یہ نادر کی نعت سے
تھا جیسے نعت ہی کا طلب گار حرف حرف
تھا جیسے نعت ہی کا طلب گار حرف حرف
 
t
 
اطہر نفیسؔ
 
====اطہر نفیسؔ====
 
(۱۹۳۳ء آگرہ …۲۱؍نومبر۱۹۸۱ء کراچی)
(۱۹۳۳ء آگرہ …۲۱؍نومبر۱۹۸۱ء کراچی)
وہ میرا آقا۔عظیم وبرتر
وہ میرا آقا۔عظیم وبرتر
نہ اس کاثانی۔نہ اُس کا ہمسر
نہ اس کاثانی۔نہ اُس کا ہمسر
میں اس کی مدحت کروں توکیسے
میں اس کی مدحت کروں توکیسے
کہ اس کی عظمت کو چھونے والا
کہ اس کی عظمت کو چھونے والا
نہ لفظ کوئی
نہ لفظ کوئی
کہاں سے لاؤں وہ حرف ایسے کہ جن کو جوڑوں
کہاں سے لاؤں وہ حرف ایسے کہ جن کو جوڑوں
تولفظ ایسا وجود پائے
تولفظ ایسا وجود پائے
جو میرے آقا کی رفعتوں کی طرف سے ذراسااشارہ کردے
جو میرے آقا کی رفعتوں کی طرف سے ذراسااشارہ کردے
جو میرے دامانِ شاعری کو کرن کرن روشنی سے بھر دے
جو میرے دامانِ شاعری کو کرن کرن روشنی سے بھر دے
کہاں سے لاؤں میں لفظ ایسے
کہاں سے لاؤں میں لفظ ایسے
جو اُس کی مدح وثنا میں لکھوں
جو اُس کی مدح وثنا میں لکھوں
میرے خدایا!
میرے خدایا!
میں تجھ سے الفاظ مانگتاہوں
میں تجھ سے الفاظ مانگتاہوں
مرے خدایا!
مرے خدایا!
مری عقیدت کے واسطے سے
مری عقیدت کے واسطے سے
مجھے وہ الفاظ بخش دے تو
مجھے وہ الفاظ بخش دے تو
جو میرے آقا کی نعت بھی ہوں
جو میرے آقا کی نعت بھی ہوں
جو میری وجہہ نجات بھی ہوں
جو میری وجہہ نجات بھی ہوں
 
t
 
اطہرؔ نفیس عباسی
 
====اطہرؔ نفیس عباسی====
 
  (۹؍ نومبر ۱۹۵۳ء، کوئٹہ)
  (۹؍ نومبر ۱۹۵۳ء، کوئٹہ)
یارب خیال اُن کا ہو، تحریر رفعتیں
یارب خیال اُن کا ہو، تحریر رفعتیں
وہ پیکرِ جمال کہ تنویر رفعتیں
وہ پیکرِ جمال کہ تنویر رفعتیں
لکھو تو نعت نعت میں تنویر رفعتیں
لکھو تو نعت نعت میں تنویر رفعتیں
سمجھو تو حرف حرف میں تاثیر رفعتیں
سمجھو تو حرف حرف میں تاثیر رفعتیں
ہرسو ہی دیکھتا ہوں مدینے کی رونقیں
ہرسو ہی دیکھتا ہوں مدینے کی رونقیں
آنکھوں میں ہوگئیں ہیں وہ تحریر رفعتیں
آنکھوں میں ہوگئیں ہیں وہ تحریر رفعتیں
ہر ایک لفظ رشکِ قمر نعت کا بنا
ہر ایک لفظ رشکِ قمر نعت کا بنا
والشمس آئینہ ہوئیں تفسیر رفعتیں
والشمس آئینہ ہوئیں تفسیر رفعتیں
ذکرِ نبی سے روح کو بالیدگی ملی
ذکرِ نبی سے روح کو بالیدگی ملی
قلب و نظر کی ہوگئیں تقدیر رفعتیں
قلب و نظر کی ہوگئیں تقدیر رفعتیں
افزائشِ خیال ہو، خوش بو مہک اٹھے
افزائشِ خیال ہو، خوش بو مہک اٹھے
کرلو درودِ پاک سے تعمیر رفعتیں
کرلو درودِ پاک سے تعمیر رفعتیں
اِک خواب ایسا جس میں زیارت ہو آپ کی  
اِک خواب ایسا جس میں زیارت ہو آپ کی  
اُس خواب اور خواب کی تعبیر رفعتیں
اُس خواب اور خواب کی تعبیر رفعتیں
میرا وجود خاک ہو طیبہ کی خاک میں  
میرا وجود خاک ہو طیبہ کی خاک میں  
اطہرؔ ! کچھ ایسے کر سکوں تسخیر رفعتیں
اطہرؔ ! کچھ ایسے کر سکوں تسخیر رفعتیں
 
t
 
اطہرؔ،منصور شفیقی
 
 
==== اطہرؔ،منصور شفیقی====
 
 
(۲۶؍مارچ ۱۹۴۴ء، جبل پور)
(۲۶؍مارچ ۱۹۴۴ء، جبل پور)
ذکرِ نبی سے ایسا مہکا ہے گوشہ گوشہ
ذکرِ نبی سے ایسا مہکا ہے گوشہ گوشہ
باغِ بہشت اب تو لگتا ہے گوشہ گوشہ
باغِ بہشت اب تو لگتا ہے گوشہ گوشہ
قاسم ہیں میرے آقا سب لوگ جانتے ہیں
قاسم ہیں میرے آقا سب لوگ جانتے ہیں
صدقہ درِ نبی کا بٹتا ہے گوشہ گوشہ
صدقہ درِ نبی کا بٹتا ہے گوشہ گوشہ
کیا بحر و بر نظارے،کیاچاند اورستارے
کیا بحر و بر نظارے،کیاچاند اورستارے
ذکرِ حضور یارو ہوتاہے گوشہ گوشہ
ذکرِ حضور یارو ہوتاہے گوشہ گوشہ
اللہ کے نبی کی جو رہ پہ گامزن ہیں
اللہ کے نبی کی جو رہ پہ گامزن ہیں
یہ سچ ہے چین ان کوملتاہے گوشہ گوشہ
یہ سچ ہے چین ان کوملتاہے گوشہ گوشہ
تعظیم مصطفی کا کیا خوب ہے یہ منظر
تعظیم مصطفی کا کیا خوب ہے یہ منظر
جھکتے ہوئے فلک کو دیکھاہے گوشہ گوشہ
جھکتے ہوئے فلک کو دیکھاہے گوشہ گوشہ
اصحاب مصطفی کی شانِ عروج دیکھو
اصحاب مصطفی کی شانِ عروج دیکھو
قدموں سے ان کے روشن ٹھہرا ہے گوشہ گوشہ
قدموں سے ان کے روشن ٹھہرا ہے گوشہ گوشہ
اطہرؔ ! مرے نبی توسب کو نوازتے ہیں
اطہرؔ ! مرے نبی توسب کو نوازتے ہیں
ان کے کرم کا جاری دریاہے گوشہ گوشہ
ان کے کرم کا جاری دریاہے گوشہ گوشہ
t




 
اظہارؔ جونپوری
 
(۱۹۴۰ء ، جون پور)
====اظہارؔ جونپوری====
 
(۱۹۴۰ء ، جون پور)
 
 
حسنِ سرکار نے کیا کیا نہ دکھائے جلوے
حسنِ سرکار نے کیا کیا نہ دکھائے جلوے
کالی راتوں میںبکھرتے نظرآئے جلوے
کالی راتوں میںبکھرتے نظرآئے جلوے
آئینہ دل کا دمکنے لگا مثلِ خورشید
آئینہ دل کا دمکنے لگا مثلِ خورشید
جب سے آنکھوں میں محمد کے سمائے جلوے
جب سے آنکھوں میں محمد کے سمائے جلوے
نبضِ باطل سے لہو تیرہ شبی کا ٹپکا  
نبضِ باطل سے لہو تیرہ شبی کا ٹپکا  
عدل کی صبح نے کچھ ایسے دکھائے جلوے
عدل کی صبح نے کچھ ایسے دکھائے جلوے
ہرطرف پھیل گئی زلفِ محمد کی شمیم
ہرطرف پھیل گئی زلفِ محمد کی شمیم
عرش سے تابہ فلک آپ کے چھائے جلوے
عرش سے تابہ فلک آپ کے چھائے جلوے
آیا جب گنبدِخضری کا تصور دل میں
آیا جب گنبدِخضری کا تصور دل میں
میری آنکھوں کو جھلکتے نظرآئے جلوے
میری آنکھوں کو جھلکتے نظرآئے جلوے
چارسو پھیل گئی طلعتِ ماہ بطحا
چارسو پھیل گئی طلعتِ ماہ بطحا
اپنی پلکوں پہ گلِ ترنے سجائے جلوے
اپنی پلکوں پہ گلِ ترنے سجائے جلوے
 
t
 
اظہرؔ عباس ہاشمی
 
====اظہرؔ عباس ہاشمی====
 
(۲۸؍ مارچ ۱۹۴۱ء، گوالیار…۲۷؍ فروری ۲۰۱۶ء کراچی)
(۲۸؍ مارچ ۱۹۴۱ء، گوالیار…۲۷؍ فروری ۲۰۱۶ء کراچی)
سروردنیا ودیں بھی ساقی کوثر بھی آپ
سروردنیا ودیں بھی ساقی کوثر بھی آپ
ہے محیط عصرو عالم اک بشر کی روشنی
ہے محیط عصرو عالم اک بشر کی روشنی
تھا سفر معراج کاوہ یا تھی معراج سفر
تھا سفر معراج کاوہ یا تھی معراج سفر
آج تک پھیلی ہوئی ہے اس سفر کی روشنی
آج تک پھیلی ہوئی ہے اس سفر کی روشنی
اس کی آنکھوں کی چمک پھر ماند پڑتی ہی نہیں
اس کی آنکھوں کی چمک پھر ماند پڑتی ہی نہیں
دیکھ لے جو روضہ خیر البشر کی روشنی
دیکھ لے جو روضہ خیر البشر کی روشنی
وقت کے ہر موڑ پر وہ نقشِ پا رہبر بنے
وقت کے ہر موڑ پر وہ نقشِ پا رہبر بنے
تاحدِ ادراک پھیلی ان کے در کی روشنی
تاحدِ ادراک پھیلی ان کے در کی روشنی
چاندنی الفاظ کے پیکر میںخود ڈھلنے لگی
چاندنی الفاظ کے پیکر میںخود ڈھلنے لگی
تھی نظر میں صاحب شق القمر کی روشنی
تھی نظر میں صاحب شق القمر کی روشنی
آنسوؤں کی ایک چلمن درمیاں حائل رہی
آنسوؤں کی ایک چلمن درمیاں حائل رہی
ہم نے کب دیکھی نبی کے بام ودر کی روشنی
ہم نے کب دیکھی نبی کے بام ودر کی روشنی
ثور کی رفعت پہ پہنچے جب بصیرت پرکھلا
ثور کی رفعت پہ پہنچے جب بصیرت پرکھلا
لامکاں تک ہے رفیق معتبر کی روشنی
لامکاں تک ہے رفیق معتبر کی روشنی
 
t
 
افتخار احمد عدنی
 
(۲۸؍اپریل ۱۹۲۱،میرٹھ… ۹؍اکتوبر ۰۰۴ء کراچی)
====افتخار احمد عدنی====
جلوہ ہے حق کا طرزِ بیانِ محمدی
 
 
(۲۸؍اپریل ۱۹۲۱،میرٹھ… ۹؍اکتوبر ۰۰۴ء کراچی)
 
جلوہ ہے حق کا طرزِ بیانِ محمدی
 
ہاں ہے کلامِ حق بزبانِ محمدی
ہاں ہے کلامِ حق بزبانِ محمدی
سورج کی روشنی کا ہے آئینہ دارچاند  
سورج کی روشنی کا ہے آئینہ دارچاند  
شان خدا کا عکس ہے شانِ محمدی
شان خدا کا عکس ہے شانِ محمدی
ترکش میں حق کے تیر قضا ہے نہاں مگر  
ترکش میں حق کے تیر قضا ہے نہاں مگر  
پرواز اس کی ہے بکمانِ محمدی
پرواز اس کی ہے بکمانِ محمدی
اس کے سوا ہے معنی لولاک اورکیا
اس کے سوا ہے معنی لولاک اورکیا
آیاتِ حق ہیں جملہ نشانِ محمدی
آیاتِ حق ہیں جملہ نشانِ محمدی
کھاتے ہیں سب اسی کی قسم جو عزیز ہو
کھاتے ہیں سب اسی کی قسم جو عزیز ہو
سوگند ہے خدا کی بجانِ محمدی
سوگند ہے خدا کی بجانِ محمدی
واعظ بیانِ سایۂ طوبیٰ نہ کر جہاں
واعظ بیانِ سایۂ طوبیٰ نہ کر جہاں
ہو گفتگوئے سروِ روانِ محمدی
ہو گفتگوئے سروِ روانِ محمدی
دوٹکڑے ہوناچاند کا کیا چیزہے مگر
دوٹکڑے ہوناچاند کا کیا چیزہے مگر
اک جنبشِ خفیف بنانِ محمدی
اک جنبشِ خفیف بنانِ محمدی
ہے افتخارؔ مہر نبوت یہی کہ وہ  
ہے افتخارؔ مہر نبوت یہی کہ وہ  
معروف ہے بطورِ نشانِ محمدی
معروف ہے بطورِ نشانِ محمدی
غالب ثنائے خواجہ کویزداں پہ چھوڑ دے
غالب ثنائے خواجہ کویزداں پہ چھوڑ دے
ہے بس وہی تومرتبہ دانِ محمدی
ہے بس وہی تومرتبہ دانِ محمدی
 
t
 
افسرؔ صدیقی امروہوی
 
====افسرؔ صدیقی امروہوی====
 
(۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء، امروہہ ضلع مرادآباد … ۹؍فروری۱۹۸۴ء، کراچی)
(۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء، امروہہ ضلع مرادآباد … ۹؍فروری۱۹۸۴ء، کراچی)
رہنے والے آسماں کے ہوں کہ فرش ِ خاک کے
رہنے والے آسماں کے ہوں کہ فرش ِ خاک کے
سب کے سب مُمنونِ احساں ہیں شہہِ لولاک کے
سب کے سب مُمنونِ احساں ہیں شہہِ لولاک کے
نورِ مُحبوب خدا تھا  یا خدا کی ذات تھی
نورِ مُحبوب خدا تھا  یا خدا کی ذات تھی
جب نہ تارے آسماں کے تھے نہ ذرّے خاک کے
جب نہ تارے آسماں کے تھے نہ ذرّے خاک کے
طوف کرتے ہیں مزارِ صاحبِ لولاک کا
طوف کرتے ہیں مزارِ صاحبِ لولاک کا
اورکچھ معنی نہیں ہیں گردش ِ افلاک کے
اورکچھ معنی نہیں ہیں گردش ِ افلاک کے
گوہرِ دُرجِ نبوت ہے ہم آغوشِ زمیں
گوہرِ دُرجِ نبوت ہے ہم آغوشِ زمیں
آسمانوں پر شرف رکھتے ہیں طبقے خاک کے
آسمانوں پر شرف رکھتے ہیں طبقے خاک کے
آپ نے جب رُخ کیا عرشِ معلی کی طرف
آپ نے جب رُخ کیا عرشِ معلی کی طرف
اُٹھ گئے مثلِ نظرَ سارے حجاب افلاک کے
اُٹھ گئے مثلِ نظرَ سارے حجاب افلاک کے
منزلِ نعت نبی افسرؔنہ ہم سے طے ہوئی
منزلِ نعت نبی افسرؔنہ ہم سے طے ہوئی
پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اُڑ گئے ادراک کے
پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اُڑ گئے ادراک کے
 
t
 
افضال ؔمعینی
 
====افضال ؔمعینی====
 
(۳؍مئی ۱۹۵۵ء ، آگرہ ، یوپی)
(۳؍مئی ۱۹۵۵ء ، آگرہ ، یوپی)
نبی مکرم منّور منّور
نبی مکرم منّور منّور
انھیں سے دو عالم  منّور منّور
انھیں سے دو عالم  منّور منّور
ازل سے ضیا بار ہے نورِ ربی
ازل سے ضیا بار ہے نورِ ربی
ہے فردوسِ آدم  منّور منّور
ہے فردوسِ آدم  منّور منّور
وہی نورہے بزمِ کون ومکاں میں
وہی نورہے بزمِ کون ومکاں میں
ہے دم ساز وہمدم  منّور منّور
ہے دم ساز وہمدم  منّور منّور
جو پیہم لبوں پردرود نبی ہو
جو پیہم لبوں پردرود نبی ہو
رہے قلب ہردم منّور منّور
رہے قلب ہردم منّور منّور
فضائے دوعالم میں ہے سب سے اونچا
فضائے دوعالم میں ہے سب سے اونچا
محمد کا پرچم منّور منّور
محمد کا پرچم منّور منّور
کرم ہے مدینے پہ ربِ علیٰ کا
کرم ہے مدینے پہ ربِ علیٰ کا
ہے شہر معظم منّور منّور
ہے شہر معظم منّور منّور
اسی در پہ موت آئے افضالؔ مجھ کو
اسی در پہ موت آئے افضالؔ مجھ کو
رہے عزمِ محکم  منّور منّور
رہے عزمِ محکم  منّور منّور
 
t
 
اقبال خاور
 
====اقبال خاور====
 
 
(۹؍اگست۱۹۶۴ء کراچی)
(۹؍اگست۱۹۶۴ء کراچی)
خوشاوہ عہد کہ جاری نظام آپ کا ہے
خوشاوہ عہد کہ جاری نظام آپ کا ہے
خوشا وہ شہر کہ جس میں قیام آپ کا ہے
خوشا وہ شہر کہ جس میں قیام آپ کا ہے
خوشا وہ خاک جو قدموں کو چھو رہی ہوگی
خوشا وہ خاک جو قدموں کو چھو رہی ہوگی
خوشا وہ راستے جن پر خرام آپ کا ہے
خوشا وہ راستے جن پر خرام آپ کا ہے
خوشا وہ لوگ جنہیں آپ نے سنا ہوگا
خوشا وہ لوگ جنہیں آپ نے سنا ہوگا
خوشا وہ لوگ کہ جن سے کلام آپ کاہے
خوشا وہ لوگ کہ جن سے کلام آپ کاہے
خوشا وہ ہاتھ جو کرتے تھے آپ کی خدمت
خوشا وہ ہاتھ جو کرتے تھے آپ کی خدمت
خوشا وہ زید کی قسمت غلام آپ کا ہے
خوشا وہ زید کی قسمت غلام آپ کا ہے
خوشا وہ زخم لگے تھے جو آپ کی خاطر
خوشا وہ زخم لگے تھے جو آپ کی خاطر
خوشا وہ جسم کہ جن پرسلام آپ کاہے
خوشا وہ جسم کہ جن پرسلام آپ کاہے
خوشا وہ آنکھ کہ دیکھا تھا آپ کو جس نے
خوشا وہ آنکھ کہ دیکھا تھا آپ کو جس نے
خوشا وہ دور کہ دیدار عام آپ کا ہے
خوشا وہ دور کہ دیدار عام آپ کا ہے
 
t
 
اقبالؔ قادری،شیخ محمد
 
====اقبالؔ قادری،شیخ محمد====
 
(وفات:۱۲؍دسمبر۱۹۹۲ء کراچی)
(وفات:۱۲؍دسمبر۱۹۹۲ء کراچی)
اس نے جب چاہا کہ اب کھل جائے رویت کا گلاب  
اس نے جب چاہا کہ اب کھل جائے رویت کا گلاب  
آگیا جلوت کدے میں باغ خلوت کا گلاب
آگیا جلوت کدے میں باغ خلوت کا گلاب
تھی ضرورت کہ کھلے اکرام ورحمت کا گلاب
تھی ضرورت کہ کھلے اکرام ورحمت کا گلاب
بھر گیا دامن کھلا جب ان کی بعثت کا گلاب
بھر گیا دامن کھلا جب ان کی بعثت کا گلاب
سروقامت،اوج نکہت،خاص رنگت کا گلاب
سروقامت،اوج نکہت،خاص رنگت کا گلاب
ہے بہاربے خزاں صناع قدرت کا گلاب
ہے بہاربے خزاں صناع قدرت کا گلاب
حضرت آدم سے عیسیٰ تک بہت غنچے کھلے
حضرت آدم سے عیسیٰ تک بہت غنچے کھلے
تھے وہ سب حرمت کے غنچے آپ حکمت کا گلاب
تھے وہ سب حرمت کے غنچے آپ حکمت کا گلاب
جاودانی صورت وسیرت کا ثانی ہے نہ ہو
جاودانی صورت وسیرت کا ثانی ہے نہ ہو
شاہکار جاوداں کثرت میں وحدت کا گلاب  
شاہکار جاوداں کثرت میں وحدت کا گلاب  
تھا جو ساکت وہ لبِ ارشاد سے ناطق ہوا
تھا جو ساکت وہ لبِ ارشاد سے ناطق ہوا
پھر زمانے بھر میں مہکا آیت آیت کا گلاب
پھر زمانے بھر میں مہکا آیت آیت کا گلاب
لحد سے اقبال کی آتی ہے آواز ثنا
لحد سے اقبال کی آتی ہے آواز ثنا
ہے صبا کے ساتھ رقصاں لوح تربت کاگلاب
ہے صبا کے ساتھ رقصاں لوح تربت کاگلاب
 
t
 
اقبالؔ محزوں
 
====اقبالؔ محزوں====
(۱۴؍اگست ۱۹۳۵ء، جے پور … یکم مئی ۲۰۰۱ء ، کراچی)
(۱۴؍اگست ۱۹۳۵ء، جے پور … یکم مئی ۲۰۰۱ء ، کراچی)
فضا یادِ شہہ کونین کی جب بھی ہوئی روشن
فضا یادِ شہہ کونین کی جب بھی ہوئی روشن
خودی کے طاق میں دیکھا چراغ بے خودی روشن
خودی کے طاق میں دیکھا چراغ بے خودی روشن
نظر میں جن کی ہیں نقشِ کفِ پائے نبی روشن
نظر میں جن کی ہیں نقشِ کفِ پائے نبی روشن
ہے ان کی زندگی میں منزل آئندگی روشن
ہے ان کی زندگی میں منزل آئندگی روشن
جمال گنبد خضرا ابھی توہے تصور میں
جمال گنبد خضرا ابھی توہے تصور میں
ابھی سے ہیں بہ اندازِ دگر آنکھیں مری روشن
ابھی سے ہیں بہ اندازِ دگر آنکھیں مری روشن
بہار نورونکہت کارفرما ہے مرے دل میں
بہار نورونکہت کارفرما ہے مرے دل میں
مرے سرکار ہے جب سے محبت آپ کی روشن
مرے سرکار ہے جب سے محبت آپ کی روشن
نہیں اس کے سوا حسرت کوئی اقبالؔ محزوں بس
نہیں اس کے سوا حسرت کوئی اقبالؔ محزوں بس
مرے حق میں بھی ہوجائے حضوری کی گھڑی روشن
مرے حق میں بھی ہوجائے حضوری کی گھڑی روشن
 
t
 
اقتدار قدرؔ
 
====اقتدار قدرؔ====
 
( ۸؍جولائی ۱۹۳۴ء بدایوں…۱۳؍ستمبر۱۹۹۴ء کراچی)
( ۸؍جولائی ۱۹۳۴ء بدایوں…۱۳؍ستمبر۱۹۹۴ء کراچی)
 
دوعالم ہے دریوزہ گر روشنی کا
 
دوعالم ہے دریوزہ گر روشنی کا
 
محمد کا گھرہے کہ گھر روشنی کا
محمد کا گھرہے کہ گھر روشنی کا
زمیں کیا کہ سایہ فگن ہے فلک پر
زمیں کیا کہ سایہ فگن ہے فلک پر
مدینے میں ہے وہ  شجر روشنی  کا
مدینے میں ہے وہ  شجر روشنی  کا
وہ مہرِ نبوت ہے مہرِ نبوت
وہ مہرِ نبوت ہے مہرِ نبوت
ہوا ختم اُس پر سفر روشنی کا
ہوا ختم اُس پر سفر روشنی کا
کیاروئے سرکار نے مسئلہ حل
کیاروئے سرکار نے مسئلہ حل
تمنائی تھا شیشہ گر روشنی کا
تمنائی تھا شیشہ گر روشنی کا
خوشا وہ غلامانِ احمد جنہوں نے
خوشا وہ غلامانِ احمد جنہوں نے
نظارہ کیا عمر بھر روشنی کا
نظارہ کیا عمر بھر روشنی کا
بجر مصطفی کوئی ہو تو بتا دے
بجر مصطفی کوئی ہو تو بتا دے
نمائندۂ معتبر روشنی کا
نمائندۂ معتبر روشنی کا
خدا روشنی ہے ، زمین و زماں کی
خدا روشنی ہے ، زمین و زماں کی
منارہ ہیں خیر البشر روشنی کا
منارہ ہیں خیر البشر روشنی کا
زِہے نامِ احمد کہ جس کی بدولت
زِہے نامِ احمد کہ جس کی بدولت
دُعا لے کے اُتری اثر روشنی کا
دُعا لے کے اُتری اثر روشنی کا
دُعا اب یہی قدرؔ! شام و سحر ہے
دُعا اب یہی قدرؔ! شام و سحر ہے
جبیں ہو مری اور در روشنی کا
جبیں ہو مری اور در روشنی کا
 
t
 
امتیاز  ساغرؔ
 
====امتیاز  ساغرؔ====
 
(ولادت ۱۱؍جون۱۹۴۹ء، ڈھاکہ)
(ولادت ۱۱؍جون۱۹۴۹ء، ڈھاکہ)
  اسمِ معظم لکھتے لکھتے ، ختم ایسی پہ کتاب کریں  
  اسمِ معظم لکھتے لکھتے ، ختم ایسی پہ کتاب کریں  
پھر ہم شہرِ علم کو جائیں ،پیش اُنہیں یہ باب کریں
پھر ہم شہرِ علم کو جائیں ،پیش اُنہیں یہ باب کریں
میری آنکھوں کے صحرا میں ، کتنے دریا جذب ہوئے  
میری آنکھوں کے صحرا میں ، کتنے دریا جذب ہوئے  
پھر بھی پیاس نہیں بجھتی ہے ، آقا ہی سیراب کریں
پھر بھی پیاس نہیں بجھتی ہے ، آقا ہی سیراب کریں
سرورِ دیں کی بات ہی کیا ہے ، اُن کے چاہنے والے جب  
سرورِ دیں کی بات ہی کیا ہے ، اُن کے چاہنے والے جب  
صحراؤں میں سورج بوئیں ،ذرّوں کو مہتاب کریں
صحراؤں میں سورج بوئیں ،ذرّوں کو مہتاب کریں
اِس اُمید پہ میری آنکھیں، ہر دم جاگتی رہتی ہیں
اِس اُمید پہ میری آنکھیں، ہر دم جاگتی رہتی ہیں
جانے کب سرکار بلائیں ، پورے میرے خواب کریں
جانے کب سرکار بلائیں ، پورے میرے خواب کریں
شہرِ جسم و جاں میں ساغرؔ!عشقِ نبی یوں رچ بس جائے  
شہرِ جسم و جاں میں ساغرؔ!عشقِ نبی یوں رچ بس جائے  
میں پلکوں سے کانٹے چُن لوں آقا اُنہیں گلاب کریں
میں پلکوں سے کانٹے چُن لوں آقا اُنہیں گلاب کریں
 
t
 
امیر الاسلام ہاشمی
 
(۹؍جولائی ۱۹۳۰ء ، بدایوں … ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء، کراچی)
====امیر الاسلام ہاشمی====
 
(۹؍جولائی ۱۹۳۰ء ، بدایوں … ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء، کراچی)
 
کوئی حد ہوتوبتلائیں کہاں سے اورکہاںتک ہے
کوئی حد ہوتوبتلائیں کہاں سے اورکہاںتک ہے
جہاں تک بھی جہاں ہیں ان کی سلطانی وہاں تک ہے
جہاں تک بھی جہاں ہیں ان کی سلطانی وہاں تک ہے
قمر دونیم ہوجاتاہے ان کے اک اشارے پر
قمر دونیم ہوجاتاہے ان کے اک اشارے پر
وہ شاہِ دوجہاں ہیں حکمرانی لامکاں تک ہے
وہ شاہِ دوجہاں ہیں حکمرانی لامکاں تک ہے
بتا سکتے نہیں یہ حضرت جبریل بھی ہم کو
بتا سکتے نہیں یہ حضرت جبریل بھی ہم کو
نیاز وناز کی آئینہ سامانی کہاں تک ہے
نیاز وناز کی آئینہ سامانی کہاں تک ہے
دعائے خیرکرکے آپ نے سمجھا دیا سب کو
دعائے خیرکرکے آپ نے سمجھا دیا سب کو
سلوکِ ناروا پر خندہ پیشانی کہاں تک ہے
سلوکِ ناروا پر خندہ پیشانی کہاں تک ہے
گماں کو آپ نے آکر یقینِ بے گماں بخشا
گماں کو آپ نے آکر یقینِ بے گماں بخشا
یقیں کی آخری حد بھی یقینِ بے گماں تک ہے
یقیں کی آخری حد بھی یقینِ بے گماں تک ہے
جو قرآں کو سمجھنا ہے سمجھ لو وہ ہی قرآں ہیں
جو قرآں کو سمجھنا ہے سمجھ لو وہ ہی قرآں ہیں
ہماری سوچ کا مرکز حدیثِ دیگراں تک ہے
ہماری سوچ کا مرکز حدیثِ دیگراں تک ہے
کبھی تھا ذکر اپنا قیصر و کسریٰ کے ایواں میں
کبھی تھا ذکر اپنا قیصر و کسریٰ کے ایواں میں
اب  اپنی داستان توصرف زیبِ داستاں تک ہے
اب  اپنی داستان توصرف زیبِ داستاں تک ہے
 
t
 
امینؔبنارسی
 
====امینؔبنارسی====
 
(یکم جولائی ۱۹۴۹ء، بنارس)
(یکم جولائی ۱۹۴۹ء، بنارس)
رہے یاد سرکار کی لمحہ لمحہ
رہے یاد سرکار کی لمحہ لمحہ
کٹے زندگی یوں میری لمحہ لمحہ
کٹے زندگی یوں میری لمحہ لمحہ
ہے فہم وذکا آگہی لمحہ لمحہ
ہے فہم وذکا آگہی لمحہ لمحہ
بہ فیضِ خیالِ نبی لمحہ لمحہ
بہ فیضِ خیالِ نبی لمحہ لمحہ
نبی کا وہ روضہ وہ جالی سنہری
نبی کا وہ روضہ وہ جالی سنہری
ہوپیشِ نظر ہر گھڑی لمحہ لمحہ
ہوپیشِ نظر ہر گھڑی لمحہ لمحہ
تمنا ہے دل کی کہ کرتارہوں میں
تمنا ہے دل کی کہ کرتارہوں میں
یونہی نعت کی شاعری لمحہ لمحہ
یونہی نعت کی شاعری لمحہ لمحہ
ملی تھی جو سلمانؓ وبوذرؓ  کو آقا
ملی تھی جو سلمانؓ وبوذرؓ  کو آقا
ملے دل کو وہ روشنی لمحہ لمحہ
ملے دل کو وہ روشنی لمحہ لمحہ
بجز اس کے کوئی تمنا نہیں ہے
بجز اس کے کوئی تمنا نہیں ہے
میں مدحت کروں آپ کی لمحہ لمحہ
میں مدحت کروں آپ کی لمحہ لمحہ
تصور میں ہوں ارضِ طیبہ کے جلوے
تصور میں ہوں ارضِ طیبہ کے جلوے
ہوروضے کی یوں حاضری لمحہ لمحہ
ہوروضے کی یوں حاضری لمحہ لمحہ
کوئی بھی ہو موسم کہیں بھی رہوں میں
کوئی بھی ہو موسم کہیں بھی رہوں میں
لبوں پر رہے نعت ہی لمحہ لمحہ
لبوں پر رہے نعت ہی لمحہ لمحہ
امینؔ ان کی یادوں کی ٹھنڈی ہواسے
امینؔ ان کی یادوں کی ٹھنڈی ہواسے
کھلے میرے دل کی کلی لمحہ لمحہ
کھلے میرے دل کی کلی لمحہ لمحہ
 
t
 
انجم اعظمی
 
 
==== انجم اعظمی====
 
(۲؍جنوری ۱۹۳۱ء  فتح پوراعظم گڑھ… ۳۱؍جنوری۱۹۹۰ء کراچی)
(۲؍جنوری ۱۹۳۱ء  فتح پوراعظم گڑھ… ۳۱؍جنوری۱۹۹۰ء کراچی)
علاج دل ہے اقرارِ محمد
علاج دل ہے اقرارِ محمد
کہ خالق خود ہے بیمارِ محمد
کہ خالق خود ہے بیمارِ محمد
کسی سے اُٹھ نہ پائے تا قیامت
کسی سے اُٹھ نہ پائے تا قیامت
کمالِ بندگی بارِ محمد
کمالِ بندگی بارِ محمد
شریعت کیا ہے ، راہ بندگی ہے
شریعت کیا ہے ، راہ بندگی ہے
طریقت کیا ہے انوارِ محمد
طریقت کیا ہے انوارِ محمد
مکان و لامکاں سب رقص میں ہیں
مکان و لامکاں سب رقص میں ہیں
ہوا ہے جب سے دیدارِ محمد
ہوا ہے جب سے دیدارِ محمد
مدینہ تو ازل ہی سے رہا ہے
مدینہ تو ازل ہی سے رہا ہے
تجلی گاہ رخسارِ محمد
تجلی گاہ رخسارِ محمد
ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر
ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر
ہے رنگا رنگ گلزارِ محمد
ہے رنگا رنگ گلزارِ محمد
خدا نے خود کہا ہے دو جہاں میں
خدا نے خود کہا ہے دو جہاں میں
بڑی ہے سب سے سرکارِ محمد
بڑی ہے سب سے سرکارِ محمد
اسے قصر جہنم نے پکارا
اسے قصر جہنم نے پکارا
کیا جس نے بھی انکارِ محمد
کیا جس نے بھی انکارِ محمد
یہ مانا میں ہوں عاصی اور گنہ گار
یہ مانا میں ہوں عاصی اور گنہ گار
مگر دل ہے وفادارِ محمد
مگر دل ہے وفادارِ محمد
 
t
 
انجم شادانی
 
====انجم شادانی====
 
(۱۲؍ فروری،۱۹۲۰ء  رام پور… ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۲ء کراچی)
(۱۲؍ فروری،۱۹۲۰ء  رام پور… ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۲ء کراچی)
منعکس سینہ بہ سینہ دل بہ دل
منعکس سینہ بہ سینہ دل بہ دل
جلوۂ شہر مدینہ دل بہ دل
جلوۂ شہر مدینہ دل بہ دل
آ کے اک اُمی لقب نے بھر دیا
آ کے اک اُمی لقب نے بھر دیا
علم و عرفاں کا خزینہ دل بہ دل
علم و عرفاں کا خزینہ دل بہ دل
یوں کیا ہم کو خدا سے آشنا
یوں کیا ہم کو خدا سے آشنا
جڑ دیا جیسے نگینہ دل بہ دل
جڑ دیا جیسے نگینہ دل بہ دل
میرے آقا آپ نے تیرا دیا
میرے آقا آپ نے تیرا دیا
عدل و احسان کا سفینہ دل بہ دل
عدل و احسان کا سفینہ دل بہ دل
دشمنی ، بعض و حسد باطل کیے
دشمنی ، بعض و حسد باطل کیے
دے کے الفت کا قرینہ دل بہ دل
دے کے الفت کا قرینہ دل بہ دل
ہے کلام اللہ آقا کے طفیل
ہے کلام اللہ آقا کے طفیل
آج تک سینہ بہ سینہ دل بہ دل
آج تک سینہ بہ سینہ دل بہ دل
حشر تک پہنچے گا رب کے سامنے
حشر تک پہنچے گا رب کے سامنے
عشق احمد کا دفینہ دل بہ دل
عشق احمد کا دفینہ دل بہ دل
انجم ان کے چاہنے والوں سے مل
انجم ان کے چاہنے والوں سے مل
پائے گا جنت کا زینہ دل بہ دل
پائے گا جنت کا زینہ دل بہ دل
 
t
 
انجم شیرازی
 
====انجم شیرازی====
 
(۱۹۳۷ء۔رامپور…۷؍مئی۱۹۹۶ء۔دنیاپور)
(۱۹۳۷ء۔رامپور…۷؍مئی۱۹۹۶ء۔دنیاپور)
اخلاص کا یہ درس ملا گھر سے آپ کے
اخلاص کا یہ درس ملا گھر سے آپ کے
اچھے تھے راہ ورسم ستم گرسے آپ کے
اچھے تھے راہ ورسم ستم گرسے آپ کے
انسانیت نے آپ کے گھرسے جنم لیا
انسانیت نے آپ کے گھرسے جنم لیا
قربانیوں کی رسم چلی گھرسے آپ کے
قربانیوں کی رسم چلی گھرسے آپ کے
نورِ حیات، درسِ محبت، نشانِ زیست
نورِ حیات، درسِ محبت، نشانِ زیست
کیا کیا نہیں ملا ہے مجھے در سے آپ کے
کیا کیا نہیں ملا ہے مجھے در سے آپ کے
لات ومنات جیسے صنم پاش پاش تھے
لات ومنات جیسے صنم پاش پاش تھے
شیطان کانپ کانپ گیا در سے آپ کے
شیطان کانپ کانپ گیا در سے آپ کے
انجمؔ کو ایک بار بلا لیجیے حضور
انجمؔ کو ایک بار بلا لیجیے حضور
پھر سر نہ اٹھ سکے گا کبھی در سے آپ کے  
پھر سر نہ اٹھ سکے گا کبھی در سے آپ کے  
 
t
 
انجم فوقی بدایونی
 
====انجم فوقی بدایونی====
 
(۱۱؍جنوری ۱۹۱۱ء بدایوں … ۱۱؍اگست ۱۹۹۵ ء کراچی)
(۱۱؍جنوری ۱۹۱۱ء بدایوں … ۱۱؍اگست ۱۹۹۵ ء کراچی)
اِسی دھرتی پر ایک ایسا بے مثال شخص تھا  ___  جو  
اِسی دھرتی پر ایک ایسا بے مثال شخص تھا  ___  جو  
کائنات بھی تھا  ___  ماورائے کائنات بھی
کائنات بھی تھا  ___  ماورائے کائنات بھی
م
مصحفِ قرآن بھی تھا  ___  معنیٔ قرآن بھی !
صحفِ قرآن بھی تھا  ___  معنیٔ قرآن بھی !
 
اُسی کے پَرتوِ انوار سے  ___  مجھے
اُسی کے پَرتوِ انوار سے  ___  مجھے
ایک درویشِ کامل  ___  عبداللہ شاہ بصرویؒ
ایک درویشِ کامل  ___  عبداللہ شاہ بصرویؒ
نصیب ہوا  ___  جسے پڑھ کر  ___  کچھ
نصیب ہوا  ___  جسے پڑھ کر  ___  کچھ
رموزِ قرآن وانسانیت مجھ پر  ُکھلے !
رموزِ قرآن وانسانیت مجھ پر  ُکھلے !
اور  ___  میں
اور  ___  میں
قرآن کے بعض  ___  مشکل الفاظ  ___  دشوار تلفظ
قرآن کے بعض  ___  مشکل الفاظ  ___  دشوار تلفظ
بلکہ  ___  نامانوس ’’ہجوں‘‘ کی تکرار سے بچ گیا
بلکہ  ___  نامانوس ’’ہجوں‘‘ کی تکرار سے بچ گیا
یہ سب کچھ رحمت ہے  ___  اوّل و آخر شخصیت
یہ سب کچھ رحمت ہے  ___  اوّل و آخر شخصیت
محمدرسول اللہ ، صلی اللہ علیہ وسلم کی
محمدرسول اللہ ، صلی اللہ علیہ وسلم کی
       اِس میں کوئی شبہ نہیں !
       اِس میں کوئی شبہ نہیں !
 
t
 
انعام نادر
 
====انعام نادر====
 
(۲۷؍ مارچ۱۹۲۲ء اورنگ آباد،دکن…۲۱؍نومبر ۲۰۰۹ء کراچی)
(۲۷؍ مارچ۱۹۲۲ء اورنگ آباد،دکن…۲۱؍نومبر ۲۰۰۹ء کراچی)
وہ نور باعث تخلیق ہے جہاں کے لیے
وہ نور باعث تخلیق ہے جہاں کے لیے
جوکن سے قبل تھا تزئین لامکاں کے لیے
جوکن سے قبل تھا تزئین لامکاں کے لیے
ہے سرخروئی مقدر کہ رحمتِ ایزد
ہے سرخروئی مقدر کہ رحمتِ ایزد
جو اس جہاں کے لیے ہے وہ اس جہاں کے لیے
جو اس جہاں کے لیے ہے وہ اس جہاں کے لیے
انہی پہ ختم نبوت نہ کیوں خداکرتا
انہی پہ ختم نبوت نہ کیوں خداکرتا
کہ وہ ہدایت دائم ہیں دوجہاں کے لیے
کہ وہ ہدایت دائم ہیں دوجہاں کے لیے
زباں کو ذکر سے فرصت نہ قلب کو مہلت
زباں کو ذکر سے فرصت نہ قلب کو مہلت
نبی کا ذکر عبادت ہے جسم وجاں کے لیے
نبی کا ذکر عبادت ہے جسم وجاں کے لیے
فلک پہ چاند ستارے زمین پہ غنچہ وگل
فلک پہ چاند ستارے زمین پہ غنچہ وگل
تڑپ رہے ہیں ترے ذکر کو زباں کے لیے
تڑپ رہے ہیں ترے ذکر کو زباں کے لیے
وہ خاک پائے محمد کا نور ہے نادرؔ!
وہ خاک پائے محمد کا نور ہے نادرؔ!
جو اک نویدِ تجلی ہے کہکشاں کے لیے
جو اک نویدِ تجلی ہے کہکشاں کے لیے
 
t
 
انوار عزمی
 
==== انوار عزمی====
 
(۱۹۴۱ء کاکو ضلع گیا،بہار)
(۱۹۴۱ء کاکو ضلع گیا،بہار)
اس نورِ مجسم کا جو دیدار نہ ہوگا
اس نورِ مجسم کا جو دیدار نہ ہوگا
مطلع وہ کبھی مطلع انوار نہ ہوگا
مطلع وہ کبھی مطلع انوار نہ ہوگا
دل عشقِ محمدسے جو سرشار نہ ہوگا
دل عشقِ محمدسے جو سرشار نہ ہوگا
واللہ کہ جنت کابھی حق دار نہ ہوگا
واللہ کہ جنت کابھی حق دار نہ ہوگا
جب دامنِ رحمت میں گنہگار چھپیں گے
جب دامنِ رحمت میں گنہگار چھپیں گے
پھر کوئی گنہ گار گنہ گار نہ ہوگا
پھر کوئی گنہ گار گنہ گار نہ ہوگا
جب میری شفاعت مرے سرکار کریں گے
جب میری شفاعت مرے سرکار کریں گے
واللہ کہ اللہ کو انکار نہ ہوگا
واللہ کہ اللہ کو انکار نہ ہوگا
مر جائے گا حسرت میں غلام آپ کا آقا
مر جائے گا حسرت میں غلام آپ کا آقا
اُس گنبدِ خضرا کو جو دیدارنہ ہوگا
اُس گنبدِ خضرا کو جو دیدارنہ ہوگا
محشر میں ہے انورؔ کوبھروسا بھی انہیں کا
محشر میں ہے انورؔ کوبھروسا بھی انہیں کا
جز رحمتِ عالم کوئی غم خوار نہ ہوگا
جز رحمتِ عالم کوئی غم خوار نہ ہوگا
 
t
 
انور فرہادؔ
 
====انور فرہادؔ====
 
(یکم نومبر۱۹۳۹ء )
(یکم نومبر۱۹۳۹ء )
جاگتے سوتے ہوئے ایک ہی سپنا دیکھوں
جاگتے سوتے ہوئے ایک ہی سپنا دیکھوں
جس طرف جائے نظر گنبدِ خضرا دیکھوں  
جس طرف جائے نظر گنبدِ خضرا دیکھوں  
 
اور کب تک میں اِس ارماں کو تڑپتا دیکھوں
 
اور کب تک میں اِس ارماں کو تڑپتا دیکھوں
 
کب وہ دن آئے گا ، کب جا کے مدینہ دیکھوں
کب وہ دن آئے گا ، کب جا کے مدینہ دیکھوں
وہ گلی ، کوچے ، وہ بازار ، وہ رستا دیکھوں
وہ گلی ، کوچے ، وہ بازار ، وہ رستا دیکھوں
آتے جاتے تھے جہاں سے مِرے آقا دیکھوں
آتے جاتے تھے جہاں سے مِرے آقا دیکھوں
جن کی مٹی کو قدم بوسی کاحاصل تھا شرف
جن کی مٹی کو قدم بوسی کاحاصل تھا شرف
اُن گزر گاہوں میں وہ نقشِ کفِ پا دیکھوں
اُن گزر گاہوں میں وہ نقشِ کفِ پا دیکھوں
مدحتِ سرورِ کونین ہواؤں سے سنوں
مدحتِ سرورِ کونین ہواؤں سے سنوں
نور و نکہت کو فضاؤں سے برستا دیکھوں
نور و نکہت کو فضاؤں سے برستا دیکھوں
میری آنکھوں کے لیے ہوگا وہ معراج کا دن
میری آنکھوں کے لیے ہوگا وہ معراج کا دن
جب میں اِن آنکھوں سے سرکار کا روضہ دیکھوں
جب میں اِن آنکھوں سے سرکار کا روضہ دیکھوں
 
t
 
انوردہلوی
 
====انوردہلوی====
 
(۱۰؍اپریل ۱۹۱۴ء، دہلی …۴؍نومبر ۱۹۹۴ء، کراچی)
(۱۰؍اپریل ۱۹۱۴ء، دہلی …۴؍نومبر ۱۹۹۴ء، کراچی)
شاہوں میں بھی ہیں حلقہ بگوشان محمد
شاہوں میں بھی ہیں حلقہ بگوشان محمد
ہر سطح پہ ہیں رتبہ شناسانِ محمد
ہر سطح پہ ہیں رتبہ شناسانِ محمد
فردوس میں صدسالہ اقامت سے ہے بہتر
فردوس میں صدسالہ اقامت سے ہے بہتر
اک لمحہ تہہ سایہ دامانِ محمد
اک لمحہ تہہ سایہ دامانِ محمد
لے جائے گی اک روز سرچشمہ کوثر
لے جائے گی اک روز سرچشمہ کوثر
یہ تشنگی چشمۂ فیضانِ محمد
یہ تشنگی چشمۂ فیضانِ محمد
کونین کی دولت کو بھی خاطر میںنہ لائیں
کونین کی دولت کو بھی خاطر میںنہ لائیں
شاہوں سے فزوں ترہیں گدایانِ محمد
شاہوں سے فزوں ترہیں گدایانِ محمد
امید کرم پرگزر اوقات ہے میری
امید کرم پرگزر اوقات ہے میری
غم بستہ ہوں وابستہ دامانِ محمد
غم بستہ ہوں وابستہ دامانِ محمد
شاید مری بخشش کابہانہ یہی بن جائے
شاید مری بخشش کابہانہ یہی بن جائے
میںمدح سراہوں،میں ثناء خوانِ محمد
میںمدح سراہوں،میں ثناء خوانِ محمد
میں مطمئن و خوش ہوں کہ شامل ہے مر انام
میں مطمئن و خوش ہوں کہ شامل ہے مر انام
انور سرفہرستِ غلامانِ محمد
انور سرفہرستِ غلامانِ محمد
رباعیات
رباعیات
اتمامِ کمالاتِ مشیت ہے تو
اتمامِ کمالاتِ مشیت ہے تو
سب کچھ بحدودِ  بشریت ہے تو
سب کچھ بحدودِ  بشریت ہے تو
جو بھی تجھے سمجھا وہ خدا کوسمجھا
جو بھی تجھے سمجھا وہ خدا کوسمجھا
حقا کہ خدا کی معنویّت ہے تو
حقا کہ خدا کی معنویّت ہے تو
٭
٭


دانائے رموزِ شاہی ہے تو
دانائے رموزِ شاہی ہے تو
ت
تفسیرِ اوامر و نواہی ہے تو
فسیرِ اوامر و نواہی ہے تو
 
پردہ ہے لباسِ بشریّت ورنہ
پردہ ہے لباسِ بشریّت ورنہ
اک پرتوِانوارِ الہٰی ہے تو
اک پرتوِانوارِ الہٰی ہے تو
 
t
 
انورؔعمرکوٹی،سید عمر شاہ
 
====انورؔعمرکوٹی،سید عمر شاہ====
 
(۱۹۴۱ء…۲۷؍نومبر۱۹۶۹ء)
(۱۹۴۱ء…۲۷؍نومبر۱۹۶۹ء)
ذرّہ ذرّہ ہے جلوہ گر اُن سے  
ذرّہ ذرّہ ہے جلوہ گر اُن سے  
نور ایسا نظر نہیں آتا
نور ایسا نظر نہیں آتا
افضل الابنیاء ہیں فخرِ بشر
افضل الابنیاء ہیں فخرِ بشر
ایسا رتبہ نظر نہیں آتا
ایسا رتبہ نظر نہیں آتا
دیں کو دنیا پہ کردیا غالب
دیں کو دنیا پہ کردیا غالب
کوئی اُن سا نظر نہیں آتا
کوئی اُن سا نظر نہیں آتا
اہلِ دیں دور ہو گئے دیں سے  
اہلِ دیں دور ہو گئے دیں سے  
کوئی عیسیٰ نظر نہیں آتا
کوئی عیسیٰ نظر نہیں آتا
عمر اپنی گزرتی جاتی ہے  
عمر اپنی گزرتی جاتی ہے  
کوئی آتا نظر نہیں آتا
کوئی آتا نظر نہیں آتا
حق تو ملتا ہے باری باری سے
حق تو ملتا ہے باری باری سے
کوئی دیتا نظر نہیں آتا
کوئی دیتا نظر نہیں آتا
میں تو انور ؔ! ہوں اُن کا شیدائی
میں تو انور ؔ! ہوں اُن کا شیدائی
جن کا سایہ نظر نہیں آتا
جن کا سایہ نظر نہیں آتا
 
t
 
انیس الحق انیس،ڈاکٹر
 
====انیس الحق انیس،ڈاکٹر====
 
(۲۶؍جون ۱۹۴۷ء۔عظیم آباد پٹنہ)  
(۲۶؍جون ۱۹۴۷ء۔عظیم آباد پٹنہ)  
بجا مجھ کو نازِ محبت بجا ہے
بجا مجھ کو نازِ محبت بجا ہے
کہ محبوب میرا حبیبِ خدا ہے
کہ محبوب میرا حبیبِ خدا ہے
ہولفظوں میں تعریف اس کی بھلا کیا
ہولفظوں میں تعریف اس کی بھلا کیا
کہ مدحت میں جس کی کلامِ خداہے
کہ مدحت میں جس کی کلامِ خداہے
زباں سے کہا جب محمد محمد
زباں سے کہا جب محمد محمد
لبوں نے بھی آپس میں بوسہ لیاہے
لبوں نے بھی آپس میں بوسہ لیاہے
اطاعت ہو جس کی خدا کی اطاعت
اطاعت ہو جس کی خدا کی اطاعت
نہ خلقِ خدامیں کوئی دوسراہے
نہ خلقِ خدامیں کوئی دوسراہے
جسے کوئی نسبت نہیں مصطفی سے
جسے کوئی نسبت نہیں مصطفی سے
خداسے بھلا اس کا کیا واسطہ ہے
خداسے بھلا اس کا کیا واسطہ ہے
خداکی رضااس نے پائی ہے ہردم
خداکی رضااس نے پائی ہے ہردم
محمد کی سُنّت پہ جو بھی چلاہے
محمد کی سُنّت پہ جو بھی چلاہے
ہے حبِ محمد خدا کی محبت
ہے حبِ محمد خدا کی محبت
وہی توہے مومن جواُن پرفداہے
وہی توہے مومن جواُن پرفداہے
انیسؔ اُن کا میں بھی اک ادنیٰ گدا ہوں
انیسؔ اُن کا میں بھی اک ادنیٰ گدا ہوں
شفاعت کا مجھ کو بہت آسراہے
شفاعت کا مجھ کو بہت آسراہے
 
t
 
ایوبؔ گونڈوی
 
====ایوبؔ گونڈوی====
 
(وفات ۲۰؍مارچ ۱۹۸۲ء، کراچی)
(وفات ۲۰؍مارچ ۱۹۸۲ء، کراچی)
کہیں ہوا ؤ ہوس سے حیات بنتی ہے
کہیں ہوا ؤ ہوس سے حیات بنتی ہے
خدا کا فضل و کرم ہو تو بات بنتی ہے
خدا کا فضل و کرم ہو تو بات بنتی ہے
نیا زمانہ نئی کائنات بنتی ہے
نیا زمانہ نئی کائنات بنتی ہے
شعورِ عشقِ محمد سے ذات بنتی ہے
شعورِ عشقِ محمد سے ذات بنتی ہے
کرم کی شان ہی وجہِ نجات بنتی ہے
کرم کی شان ہی وجہِ نجات بنتی ہے
شفیع ہوں جو محمد توبات بنتی ہے
شفیع ہوں جو محمد توبات بنتی ہے
اگر کسی کو مدینے میں موت آجائے
اگر کسی کو مدینے میں موت آجائے
وہ موت چشمۂ آبِ حیات بنتی ہے
وہ موت چشمۂ آبِ حیات بنتی ہے
طلوعِ ماہِ رسالت کا کیف کیا کہیے
طلوعِ ماہِ رسالت کا کیف کیا کہیے
یہ کیفیت سببِ کیفیات بنتی ہے
یہ کیفیت سببِ کیفیات بنتی ہے
رسولِ پاک کے نقشِ قدم کی برکت سے
رسولِ پاک کے نقشِ قدم کی برکت سے
اُبھر اُبھر کے محبت ثبات بنتی ہے
اُبھر اُبھر کے محبت ثبات بنتی ہے
زہے نگاہِ محمد کی کیف سَامانی
زہے نگاہِ محمد کی کیف سَامانی
خدائی میکدۂ کیفیات بنتی ہے
خدائی میکدۂ کیفیات بنتی ہے
دیارِ رحمتِ عالم کے چاہَ کی اکِ بوند
دیارِ رحمتِ عالم کے چاہَ کی اکِ بوند
ہم ایسے تشنہ لبوں کوفرات بنتی ہے
ہم ایسے تشنہ لبوں کوفرات بنتی ہے
حضور رحمتِ کونین ہیں، نظر ان کی
حضور رحمتِ کونین ہیں، نظر ان کی
کلیدِ قفلِ درِمشکلات بنتی ہے
کلیدِ قفلِ درِمشکلات بنتی ہے
جمال چہرہِ پُر نور سے ہے دل کا نکھار
جمال چہرہِ پُر نور سے ہے دل کا نکھار
بڑھے جو زلف کا سَایہ تو رات بنتی ہے
بڑھے جو زلف کا سَایہ تو رات بنتی ہے
خدا کے بعد ہیں بس آپ ہی رحیم و کریم
خدا کے بعد ہیں بس آپ ہی رحیم و کریم
خود آپ بگڑی بنائیں تو بات بنتی ہے
خود آپ بگڑی بنائیں تو بات بنتی ہے
کہیں کوئی جو بھٹکتاہے سوچ میں بھی کبھی
کہیں کوئی جو بھٹکتاہے سوچ میں بھی کبھی
تو رہنما نگہہِ التفات بنتی ہے
تو رہنما نگہہِ التفات بنتی ہے
مرے خلوص و محبت کا ہے صلہ ایوبؔ
مرے خلوص و محبت کا ہے صلہ ایوبؔ
کہ نعت اپنی سلام و صلوٰۃ بنتی ہے
کہ نعت اپنی سلام و صلوٰۃ بنتی ہے
 
t
 
برق اجمیری
====برق اجمیری====
 
(۲۰؍جنوری ۱۹۱۲ء، اجمیر شریف …۲۳؍جولائی ۱۹۹۸ء کراچی)
(۲۰؍جنوری ۱۹۱۲ء، اجمیر شریف …۲۳؍جولائی ۱۹۹۸ء کراچی)
فکر امروز ہے کچھ اورنہ فروا ہی کا غم
فکر امروز ہے کچھ اورنہ فروا ہی کا غم
ہم پہ ہر حال میں ہے ساقیٔ کوثر کا کرم
ہم پہ ہر حال میں ہے ساقیٔ کوثر کا کرم
عقل محدود ہے الفاظ و معافی محدود
عقل محدود ہے الفاظ و معافی محدود
کس طرح کیجیے وصف شہہ لولاک رقم
کس طرح کیجیے وصف شہہ لولاک رقم
ہرنفس سامنے ہے روضۂ اظہر پھر بھی
ہرنفس سامنے ہے روضۂ اظہر پھر بھی
خ
خلشِ حسرت دیدار نہیں ہوتی ہے کم
لشِ حسرت دیدار نہیں ہوتی ہے کم
 
 
سرور دیں کے سوا کون ہٹاسکتاتھا
سرور دیں کے سوا کون ہٹاسکتاتھا
خانہ کعبہ میں رکھے تھے جوپتھر کے صنم
خانہ کعبہ میں رکھے تھے جوپتھر کے صنم
مقصد زیست کااحساس دلا جاتاہے
مقصد زیست کااحساس دلا جاتاہے
یاد آتاہے جہاں سایۂ دیوارِ حرم
یاد آتاہے جہاں سایۂ دیوارِ حرم
میں گنہگار وسیاہ کارہوں لیکن اے برقؔ
میں گنہگار وسیاہ کارہوں لیکن اے برقؔ
نقش ہے دل یہ مرے اسمِ نبیٔ اکرم
نقش ہے دل یہ مرے اسمِ نبیٔ اکرم
 
t
 
برقؔ دہلوی
 
====برقؔ دہلوی====
 
(وفات ۱۹؍دسمبر۱۹۸۴ء کراچی)
(وفات ۱۹؍دسمبر۱۹۸۴ء کراچی)


خسرو خسرواں سلام شاہ شہنشاہاں سلام
خسرو خسرواں سلام شاہ شہنشاہاں سلام
مالکِ ُکل جہاں سلام باعث کن فکاں سلام
مالکِ ُکل جہاں سلام باعث کن فکاں سلام
آج بھی ہیں درود خواں تجھ پر زمین وآسماں
آج بھی ہیں درود خواں تجھ پر زمین وآسماں
بھیج رہا ہے بے گماں صاحب لامکاں سلام
بھیج رہا ہے بے گماں صاحب لامکاں سلام
علم و عمل کے منتہی، صبر و غنا کے پیشوا
علم و عمل کے منتہی، صبر و غنا کے پیشوا
مرجع ذاتِ انبیا،دولت بیکراں سلام
مرجع ذاتِ انبیا،دولت بیکراں سلام
فہم و ذکا سے دور تھے عقل و خرد نہ پا سکے
فہم و ذکا سے دور تھے عقل و خرد نہ پا سکے
راز وہ سب عیاں کیے صاحب نکتہ داں سلام
راز وہ سب عیاں کیے صاحب نکتہ داں سلام
رنگ بہار جاوداں بلبل خوش نوا کی جاں
رنگ بہار جاوداں بلبل خوش نوا کی جاں
روح روانِ بوستان رونق گلستاں سلام
روح روانِ بوستان رونق گلستاں سلام
تیرے کرم سے فیض یاب سب ہی ہوئے ہیں بے حساب
تیرے کرم سے فیض یاب سب ہی ہوئے ہیں بے حساب
جودسخا کے آفتاب محسن دشمناں سلام
جودسخا کے آفتاب محسن دشمناں سلام
برقؔ ہو روح کو سکوں جان مدینہ جاکے دوں
برقؔ ہو روح کو سکوں جان مدینہ جاکے دوں
جب کہ حضور پرپڑھوں دیکھ کے آستاں سلام
جب کہ حضور پرپڑھوں دیکھ کے آستاں سلام
 
t
 
برگؔ یوسفی
 
====برگؔ یوسفی====
 
(۵؍مئی۱۹۲۴ء فتح پور سیکری، آگرہ…یکم جون ۱۹۹۵ء کراچی)
(۵؍مئی۱۹۲۴ء فتح پور سیکری، آگرہ…یکم جون ۱۹۹۵ء کراچی)
پھر آج جلوے برس رہے ہیں کسی طرف تیرگی نہیں ہے
پھر آج جلوے برس رہے ہیں کسی طرف تیرگی نہیں ہے
حضور تشریف لارہے ہیں کہاں کہاں روشنی نہیں ہے
حضور تشریف لارہے ہیں کہاں کہاں روشنی نہیں ہے
خدا توہے لاشریک لیکن حضور سا بھی کوئی نہیں ہے
خدا توہے لاشریک لیکن حضور سا بھی کوئی نہیں ہے
وہ بات بھی گفتنی نہیں تھی یہ بات بھی گفتنی نہیں ہے
وہ بات بھی گفتنی نہیں تھی یہ بات بھی گفتنی نہیں ہے
اُجالا اوروں سے لینے والو تمہیں خبر واقعی نہیں ہے
اُجالا اوروں سے لینے والو تمہیں خبر واقعی نہیں ہے
چراغِ حبِ نبی جلاؤ یہ روشنی روشنی نہیں ہے
چراغِ حبِ نبی جلاؤ یہ روشنی روشنی نہیں ہے
حکیم اورفلسفی کی نظریں ہوں عارفِ کائنات  لیکن
حکیم اورفلسفی کی نظریں ہوں عارفِ کائنات  لیکن
جسے نہ عرفان ہو نبی کا وہ آدمی آدمی نہیں ہے
جسے نہ عرفان ہو نبی کا وہ آدمی آدمی نہیں ہے
سخن طرازی کی بات الگ ہے مگرہے اے برگؔ یہ حقیقت
سخن طرازی کی بات الگ ہے مگرہے اے برگؔ یہ حقیقت
نبی کی مدحت اگر نہیں ہے توشاعری شاعری نہیں ہے
نبی کی مدحت اگر نہیں ہے توشاعری شاعری نہیں ہے
-  
-  
روزِ الست کا بیاں صلِ علیٰ محمد
روزِ الست کا بیاں صلِ علیٰ محمد
لوح و قلم کی سُرخیاں صلِ علیٰ محمد
لوح و قلم کی سُرخیاں صلِ علیٰ محمد
اُمی لقب کی داستاں صلِ علیٰ محمد
اُمی لقب کی داستاں صلِ علیٰ محمد
آپ خدا کے ترجماں صلِ علیٰ محمد
آپ خدا کے ترجماں صلِ علیٰ محمد
ن
نقشِ قدم ہیں کہکشاں صلِ علیٰ محمد
 
قشِ قدم ہیں کہکشاں صلِ علیٰ محمد
 
آپ کی یہ بلندیاں صلِ علیٰ محمد
آپ کی یہ بلندیاں صلِ علیٰ محمد
مہر و مہ و نجوم میں ُگل کے حسین ہجوم میں
مہر و مہ و نجوم میں ُگل کے حسین ہجوم میں
آپ کی ہیں تجلیاں صلِ علیٰ محمد
آپ کی ہیں تجلیاں صلِ علیٰ محمد
دیکھ کے آمدِحضور ذروں میں ہے جمال طور
دیکھ کے آمدِحضور ذروں میں ہے جمال طور
آج زمیں ہے آسماں صلِ علیٰ محمد
آج زمیں ہے آسماں صلِ علیٰ محمد
عقدہ کشائے زندگی نقطۂ مرکز خوشی
عقدہ کشائے زندگی نقطۂ مرکز خوشی
میری زباں پہ ہے رواں صلِ علیٰ محمد
میری زباں پہ ہے رواں صلِ علیٰ محمد
ڈوبتا جارہا تھا میں موجِ سراب میں مگر
ڈوبتا جارہا تھا میں موجِ سراب میں مگر
آگیا لب پہ ناگہاں صلِ علیٰ محمد
آگیا لب پہ ناگہاں صلِ علیٰ محمد
اُس کی ہے ساری کائنات اُس کی ہے موت بھی حیات
اُس کی ہے ساری کائنات اُس کی ہے موت بھی حیات
جس پہ ہیںآپ مہرباں صلِ علیٰ محمد
جس پہ ہیںآپ مہرباں صلِ علیٰ محمد
اب مرے کام آئی ہیں مجھ کو مدینے لائی ہیں
اب مرے کام آئی ہیں مجھ کو مدینے لائی ہیں
میری شکستہ پائیاں صلِ علیٰ محمد
میری شکستہ پائیاں صلِ علیٰ محمد
اُسوہ حسنۂ رسول برگؔ ! عجیب چیز ہے
اُسوہ حسنۂ رسول برگؔ ! عجیب چیز ہے
ذاتِ نبی خدا نشاں صلِ علیٰ محمد
ذاتِ نبی خدا نشاں صلِ علیٰ محمد
 
t
 
 
بزمؔ انصاری
بزمؔ انصاری
(۲؍ جنوری۱۹۲۲ء اودھ،یوپی)
(۲؍ جنوری۱۹۲۲ء اودھ،یوپی)
ہزار غم ہوں زمانے کے بات ہی کیاہے
ہزار غم ہوں زمانے کے بات ہی کیاہے
فقیر شاہ امم ہوں مجھے کمی کیا ہے
فقیر شاہ امم ہوں مجھے کمی کیا ہے
میں سوچتا ہوں کہ مانگوں تو اور کیا مانگوں
میں سوچتا ہوں کہ مانگوں تو اور کیا مانگوں
درِ حبیب سے بڑھ کر کوئی خوشی کیا ہے
درِ حبیب سے بڑھ کر کوئی خوشی کیا ہے
میں اور دعوی عشقِ نبی معاذاللہ
میں اور دعوی عشقِ نبی معاذاللہ
نہ ہو جوعشقِ بلالی توعاشقی کیا ہے
نہ ہو جوعشقِ بلالی توعاشقی کیا ہے
جوتیری یاد سے غافل ہوکم نصیب ہے وہ
جوتیری یاد سے غافل ہوکم نصیب ہے وہ
جو تیرے ذکر سے خالی ہوزندگی کیا ہے
جو تیرے ذکر سے خالی ہوزندگی کیا ہے
بھٹک رہے تھے اندھیروں میںروشنی کے لیے
بھٹک رہے تھے اندھیروں میںروشنی کے لیے
حرم میں آئے توسمجھے کہ روشنی کیا ہے
حرم میں آئے توسمجھے کہ روشنی کیا ہے
گئے تھے جو درپرنور پرتہی دامن
گئے تھے جو درپرنور پرتہی دامن
کسے خبر ہے کہ دولت انھیں ملی کیا ہے
کسے خبر ہے کہ دولت انھیں ملی کیا ہے
نزول رحمت باری ہے بزمؔ نعت پڑھو
نزول رحمت باری ہے بزمؔ نعت پڑھو
نظر اٹھا کے تودیکھو وہ روشنی کیا ہے
نظر اٹھا کے تودیکھو وہ روشنی کیا ہے
 
t
 
بسملؔ انصاری
 
====بسملؔ انصاری====
 
(۱۴؍مارچ ۱۹۵۰ء،آگرہ)
(۱۴؍مارچ ۱۹۵۰ء،آگرہ)
چاند کے جس طرح ہوتے ہیں ستارے آس  پاس
چاند کے جس طرح ہوتے ہیں ستارے آس  پاس
اس طرح آقا کے ہیںاصحاب سارے آس پاس
اس طرح آقا کے ہیںاصحاب سارے آس پاس
لامکاں پررب ہے جلوہ گرزمیں پرآپ ہیں
لامکاں پررب ہے جلوہ گرزمیں پرآپ ہیں
جس طرح اک بحر کے ہوں دوکنارے آس پاس
جس طرح اک بحر کے ہوں دوکنارے آس پاس
رحمت للعالمیں ہیں آپ یا شاہِ امم  
رحمت للعالمیں ہیں آپ یا شاہِ امم  
آپ کی رحمت کے ہیں ہردم سہارے آس پاس
آپ کی رحمت کے ہیں ہردم سہارے آس پاس
حالِ دل اپنا سنانے کے  لئے اے شاہ دیں
حالِ دل اپنا سنانے کے  لئے اے شاہ دیں
کس قدر آکرکھڑے ہیں غم کے مارے آس پاس
کس قدر آکرکھڑے ہیں غم کے مارے آس پاس
جن کی آنکھوں میںجمالِ سید ابرار ہے
جن کی آنکھوں میںجمالِ سید ابرار ہے
ہرگھڑی کرتے ہیں وہ حق کے نظارے آس پاس
ہرگھڑی کرتے ہیں وہ حق کے نظارے آس پاس
مرتبہ اس کاہے اعلیٰ، وہ ہے قسمت کا دھنی
مرتبہ اس کاہے اعلیٰ، وہ ہے قسمت کا دھنی
روزوشب جس نے ہیں آقا کے گزارے آس پاس
روزوشب جس نے ہیں آقا کے گزارے آس پاس
یارسول اللہ آجاؤ مدد کے واسطے
یارسول اللہ آجاؤ مدد کے واسطے
ہوگئے  ہیں اب بہت دشمن ہمارے آس پاس
ہوگئے  ہیں اب بہت دشمن ہمارے آس پاس
اب تو مجھ کو بھی مدینے میں ُبلا لو مصطفی  
اب تو مجھ کو بھی مدینے میں ُبلا لو مصطفی  
زندگی میں بھی گزاروں گا تمہارے آس پاس
زندگی میں بھی گزاروں گا تمہارے آس پاس
آپ ہی دیں گے سہارا اپنے بسملؔ کو حضور
آپ ہی دیں گے سہارا اپنے بسملؔ کو حضور
ماسوا یہ آپ کے کس کو پکارے آس پاس
ماسوا یہ آپ کے کس کو پکارے آس پاس
 
t
 
بقا ؔصدیقی
 
====بقا ؔصدیقی====
 
(۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۶ء، گوالیار)
(۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۶ء، گوالیار)
ہیں محمد کے ثنا خواں تن من
ہیں محمد کے ثنا خواں تن من
کیوںنہ ہوں میرے فروزاں تن من
کیوںنہ ہوں میرے فروزاں تن من
سبز گنبد کی ضیا باری سے
سبز گنبد کی ضیا باری سے
ہو گئے نورِ بداماں تن من
ہو گئے نورِ بداماں تن من
چاہیے صبح رہیں شام رہیں
چاہیے صبح رہیں شام رہیں
یادِ سرکار میں غلطاں تن من
یادِ سرکار میں غلطاں تن من
اللہ اللہ یہ مدینے کی پھوار
اللہ اللہ یہ مدینے کی پھوار
ہوگئے سنبل وریحاں تن من
ہوگئے سنبل وریحاں تن من
رحمتوں کے ہیں سوالی آقا
رحمتوں کے ہیں سوالی آقا
میرے کشکول بداماں تن من
میرے کشکول بداماں تن من
ہیں غلام شہِ ابرار تو پھر
ہیں غلام شہِ ابرار تو پھر
کس طرح ہوں گے پریشاں تن من
کس طرح ہوں گے پریشاں تن من
لمس اس خاک کا ملتے ہی بقاؔ
لمس اس خاک کا ملتے ہی بقاؔ
ہوگئے رشکِ بہاراں تن من
ہوگئے رشکِ بہاراں تن من
 
t
 
بہارؔ کوٹی
 
====بہارؔ کوٹی====
 
(جولائی ۱۹۰۸ء فتح پور ہنسوہ …۲۱؍فروری ۱۹۷۱ء کراچی)
(جولائی ۱۹۰۸ء فتح پور ہنسوہ …۲۱؍فروری ۱۹۷۱ء کراچی)
جینا ہے تمنائے محمد کے سوا کیا
جینا ہے تمنائے محمد کے سوا کیا
مانگوں تو ، تولاّئے محمد کے سوا کیا
مانگوں تو ، تولاّئے محمد کے سوا کیا
یہ عقدہ کشایانِ سر پردہ ہستی
یہ عقدہ کشایانِ سر پردہ ہستی
ہیں خاک کفِ پائے محمد کے سوا کیا
ہیں خاک کفِ پائے محمد کے سوا کیا
بتلائیں کہ آتا ہے نظر اہلِ نظر کو
بتلائیں کہ آتا ہے نظر اہلِ نظر کو
عکسِ رخِ زیبائے محمد کے سوا کیا
عکسِ رخِ زیبائے محمد کے سوا کیا
کہیے بھی تواس عالمِ فردوسِ نظر کو
کہیے بھی تواس عالمِ فردوسِ نظر کو
ذوقِ چمن آرائے محمد کے سوا کیا
ذوقِ چمن آرائے محمد کے سوا کیا
یہ دانش و عقل و خرد و ہوش و تدبر
یہ دانش و عقل و خرد و ہوش و تدبر
اک دیدۂ بینائے محمد کے سوا کیا
اک دیدۂ بینائے محمد کے سوا کیا
اے منزلت و شہرت و توقیر کے طالب
اے منزلت و شہرت و توقیر کے طالب
توقیر ہے سودائے محمد کے سوا کیا
توقیر ہے سودائے محمد کے سوا کیا
مجھ جیسے گنہگار کو پروانۂ بخشش
مجھ جیسے گنہگار کو پروانۂ بخشش
کہیے اسے ایمائے محمد کے سوا کیا
کہیے اسے ایمائے محمد کے سوا کیا
 
t
 
پروین حیدر
====پروین حیدر====
 
(۲۲؍مئی ۱۹۶۸ء)
(۲۲؍مئی ۱۹۶۸ء)
 
اے زِہے تقدیر ، وجہِ کُن فکاں کا راستہ
 
اے زِہے تقدیر ، وجہِ کُن فکاں کا راستہ
 
یہ ہے انسان و خدا کے درمیاں کا راستہ
یہ ہے انسان و خدا کے درمیاں کا راستہ
وہ امینِ کُن فکاں وجہِ بنائے شش جہات
وہ امینِ کُن فکاں وجہِ بنائے شش جہات
جانتا ہے ہر زمیں ہر آسماں کا راستہ
جانتا ہے ہر زمیں ہر آسماں کا راستہ
تھا تحیّر میں برنگِ آئینہ عالم تمام
تھا تحیّر میں برنگِ آئینہ عالم تمام
یوں کیا طے مصطفی نے لامکاں کا راستہ
یوں کیا طے مصطفی نے لامکاں کا راستہ
نیّرِ برجِ ہدایت ، آفتابِ مُرسلاں
نیّرِ برجِ ہدایت ، آفتابِ مُرسلاں
آپ کا نقشِ قدم ہے کہکشاں کا راستہ
آپ کا نقشِ قدم ہے کہکشاں کا راستہ
لائے ہیں روح الامیں یہ پردۂ شب میں پیام
لائے ہیں روح الامیں یہ پردۂ شب میں پیام
چشمِ خالق تَک رہی ہے رازداں کا راستہ
چشمِ خالق تَک رہی ہے رازداں کا راستہ
آکے یہ مژدہ سنایا صاحبِ معراج نے
آکے یہ مژدہ سنایا صاحبِ معراج نے
کھل گیانوعِ بشر پر آسماں کا راستہ
کھل گیانوعِ بشر پر آسماں کا راستہ
اُن کو اذنِ باریابی پا برہنہ طُور پر
اُن کو اذنِ باریابی پا برہنہ طُور پر
اِ ن کے کفشِ پا نے دیکھا لامکاں کا راستہ
اِ ن کے کفشِ پا نے دیکھا لامکاں کا راستہ
گرد وہموں کی جمی تھی شیشۂ اذہان پر
گرد وہموں کی جمی تھی شیشۂ اذہان پر
دیکھتی تھی آنکھ اُس ابرِ رواں کا راستہ
دیکھتی تھی آنکھ اُس ابرِ رواں کا راستہ
آپ آئے تو ہوئی انسانیت منزل شناس
آپ آئے تو ہوئی انسانیت منزل شناس
کارواں تکتاتھا میرِ کارواں کا راستہ
کارواں تکتاتھا میرِ کارواں کا راستہ
روز آتے ہیں ملائک صف بہ صف افلاک سے  
روز آتے ہیں ملائک صف بہ صف افلاک سے  
ہے مدینہ سجدۂ گاہِ قدسیاں کا راستہ
ہے مدینہ سجدۂ گاہِ قدسیاں کا راستہ
رہنمائے گمرہاں ہے ، مہربانِ عاصیاں
رہنمائے گمرہاں ہے ، مہربانِ عاصیاں
چارہ ساز و دستگیرِ بے کساں کاراستہ
چارہ ساز و دستگیرِ بے کساں کاراستہ
ضوفشاں ہے خیمۂ ایماں میں قندلیلِ یقیں
ضوفشاں ہے خیمۂ ایماں میں قندلیلِ یقیں
مجھ سے تو پرویںؔ! گریزاں ہے گُماں کا راستہ
مجھ سے تو پرویںؔ! گریزاں ہے گُماں کا راستہ
 
t
 
پروینؔ شاکر
 
====پروینؔ شاکر====
 
(۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء، پشاور …۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء، اسلام آباد)
(۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء، پشاور …۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء، اسلام آباد)
نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
چمک رہے ہیں گل روح پر نگینے سے
چمک رہے ہیں گل روح پر نگینے سے
کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کرآیا
کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کرآیا
بحکمِ خاص تھا اور خاص بھی قرینے سے
بحکمِ خاص تھا اور خاص بھی قرینے سے
مرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہوا
مرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہوا
سوبادباں سے غرض ہے نہ اب سیفنے سے
سوبادباں سے غرض ہے نہ اب سیفنے سے
سُنا ہے جب سے شفاعت کو آپ آئیں گے
سُنا ہے جب سے شفاعت کو آپ آئیں گے
کہ جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے
کہ جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے
مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے
مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے
تمام لعل وگہر ہیں اسی خزینے سے
تمام لعل وگہر ہیں اسی خزینے سے
-
-
سوداِ شہر مدینہ کے رُوبُرو ہونا
سوداِ شہر مدینہ کے رُوبُرو ہونا
ضروری ہوگیا آنکھوں کا باوضو ہونا
ضروری ہوگیا آنکھوں کا باوضو ہونا
سماعتوں کے لیے ساعتِ شگفتِ گلاب
سماعتوں کے لیے ساعتِ شگفتِ گلاب
ہوائے شہرِ نبوت سے گفتگو ہونا
ہوائے شہرِ نبوت سے گفتگو ہونا
عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد آئی
عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد آئی
کہ چشمِ خشک مری چاہے آب جُو ہونا
کہ چشمِ خشک مری چاہے آب جُو ہونا
کھلا ہے نام پہ کیسے طبیب کے لیکن
کھلا ہے نام پہ کیسے طبیب کے لیکن
یہ زخم وہ ہے کہ مانگے نہیں لہو ہونا
یہ زخم وہ ہے کہ مانگے نہیں لہو ہونا
میری جڑیں اسی مٹی میں ہوں مگر چاہوں
میری جڑیں اسی مٹی میں ہوں مگر چاہوں
خیالِ طیبہ سے ہی روح کی نمو ہونا
خیالِ طیبہ سے ہی روح کی نمو ہونا
 
t
 
پروین فنا،سیّد
 
====پروین فنا،سیّد====
 
(۳؍دسمبر۱۹۳۶ء لاہور…۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کراچی)
(۳؍دسمبر۱۹۳۶ء لاہور…۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کراچی)
منزلِ حق کی جستجو تم ہو
منزلِ حق کی جستجو تم ہو
ایک عالم کی آبرو تم ہو
ایک عالم کی آبرو تم ہو
گلشنِ صدق و آگہی کے امیں
گلشنِ صدق و آگہی کے امیں
مردِ مؤمن کی زندگی کا یقیں
مردِ مؤمن کی زندگی کا یقیں
عزم و ایماں کی بولتی تصویر
عزم و ایماں کی بولتی تصویر
دینِ کامل کی آخری تحریر
دینِ کامل کی آخری تحریر
ظلم کی آندھیوں میں ابرِ کرم
ظلم کی آندھیوں میں ابرِ کرم
جہل کی ظلمتوں میں نورِحرم
جہل کی ظلمتوں میں نورِحرم
تجھ کو اے شاہِ دیں ملا یہ مقام
تجھ کو اے شاہِ دیں ملا یہ مقام
تجھ سے روحِ ازل ہے محوِ کلام
تجھ سے روحِ ازل ہے محوِ کلام
عشق میرا، تری وفا کا غلام
عشق میرا، تری وفا کا غلام
اے بقائے حرم ،فناؔ کا سلام
اے بقائے حرم ،فناؔ کا سلام
 
t
 
پیرزادہ عاشق کیرانوی
 
 
====پیرزادہ عاشق کیرانوی====
 
 
  (۱۹۳۳ ء کیرانہ،ضلع مظفر گڑھ)
  (۱۹۳۳ ء کیرانہ،ضلع مظفر گڑھ)
زباں پر ہے مدح و ثنائے محمد
زباں پر ہے مدح و ثنائے محمد
مرا دل ہے نغمۂ سرائے محمد
مرا دل ہے نغمۂ سرائے محمد
 
جو کرتے ہیں دل سے ثنائے محمد
 
جو کرتے ہیں دل سے ثنائے محمد
 
انہیں چاہتا ہے خدائے محمد
انہیں چاہتا ہے خدائے محمد
ہمیں تاجِ زریں کی حاجت نہیں ہے
ہمیں تاجِ زریں کی حاجت نہیں ہے
ہمیں چاہیے خاکِ پائے محمد
ہمیں چاہیے خاکِ پائے محمد
مدینے کے لیل و نہار اللہ اللہ
مدینے کے لیل و نہار اللہ اللہ
وہاں گونجتی ہے صدائے محمد
وہاں گونجتی ہے صدائے محمد
کوئی شان دیکھے تو خلدِ بریں کی
کوئی شان دیکھے تو خلدِ بریں کی
بنائے خدا اور بسائے محمد
بنائے خدا اور بسائے محمد
انہیں کون ہے راہ دکھلانے والا
انہیں کون ہے راہ دکھلانے والا
خدا ہے فقط رہنمائے محمد
خدا ہے فقط رہنمائے محمد
جہاں بے کسوں نے پکارا ہے ان کو
جہاں بے کسوں نے پکارا ہے ان کو
وہیں بہرِ امداد آئے محمد
وہیں بہرِ امداد آئے محمد
میں عاشقؔ ہوں بعدِ خدا صرف انہی کا
میں عاشقؔ ہوں بعدِ خدا صرف انہی کا
مرا کون ہے ماسوائے محمد
مرا کون ہے ماسوائے محمد
 
t
 
پیرزادہ قاسم  
 
 
====پیرزادہ قاسم ====
 
(۸؍ فروری ۱۹۴۳ء، دہلی)
(۸؍ فروری ۱۹۴۳ء، دہلی)
سکوں ملا ہے بھلا کب کسی کے دامن میں  
سکوں ملا ہے بھلا کب کسی کے دامن میں  
سو آبساہوں میں نعتِ نبی کے دامن میں
سو آبساہوں میں نعتِ نبی کے دامن میں
اُجالا آپ ہی کی ذات سے ہوا ورنہ
اُجالا آپ ہی کی ذات سے ہوا ورنہ
شعاعِ نورنہ تھی روشنی کے دامن میں
شعاعِ نورنہ تھی روشنی کے دامن میں
کشادہ قلبیٔ رحمت مآب کیا کہنا
کشادہ قلبیٔ رحمت مآب کیا کہنا
پناہ سب کو ملی آپ ہی کے دامن میں
پناہ سب کو ملی آپ ہی کے دامن میں
صحیح کہ فیض رسانی میں کوئی ان سا نہیں
صحیح کہ فیض رسانی میں کوئی ان سا نہیں
بجا کہ رحمتِ حق ہے انہی کے دامن میں
بجا کہ رحمتِ حق ہے انہی کے دامن میں
شعور حق کی عجب روشنی ملی ان سے
شعور حق کی عجب روشنی ملی ان سے
وہ آگہی کہ نہ تھی آگہی کے دامن میں
وہ آگہی کہ نہ تھی آگہی کے دامن میں
وہ صلح کُل ہیں ہراک صلح انکا نقشِ قدم
وہ صلح کُل ہیں ہراک صلح انکا نقشِ قدم
انہی کے پھول ہیں سب آشتی کے دامن میں
انہی کے پھول ہیں سب آشتی کے دامن میں
عروج آدم خاکی انہی کے فیض سے ہے
عروج آدم خاکی انہی کے فیض سے ہے
انہی کاحرف دعازندگی کے دامن میں
انہی کاحرف دعازندگی کے دامن میں
جز ایک اشکِ ندامت جز ایک حرف دعا
جز ایک اشکِ ندامت جز ایک حرف دعا
نہیں ہے کچھ مری تردامنی کے دامن میں
نہیں ہے کچھ مری تردامنی کے دامن میں
مجھے تو نعتِ نبی شاد کام رکھتی ہے
مجھے تو نعتِ نبی شاد کام رکھتی ہے
یہ اک گہر ہے بہت شاعری کے دامن میں
یہ اک گہر ہے بہت شاعری کے دامن میں
 
t
 
تاجدار عادلؔ
 
====تاجدار عادلؔ====
 
(۱۷؍ جولائی ۱۹۵۵ء کراچی)
(۱۷؍ جولائی ۱۹۵۵ء کراچی)
خدا کے نور کی مانند ہے جمال بھی وہ
خدا کے نور کی مانند ہے جمال بھی وہ
خد اکے بعد ہمارے لئے مثال بھی وہ
خد اکے بعد ہمارے لئے مثال بھی وہ
جوکائنات میں روشن ہے مثلِ نورِ ازل
جوکائنات میں روشن ہے مثلِ نورِ ازل
مری نگاہ کا مقصد بھی وہ خیال بھی وہ
مری نگاہ کا مقصد بھی وہ خیال بھی وہ
وہ ایک بندہ مگر عظمت ِ زمانہ فدا
وہ ایک بندہ مگر عظمت ِ زمانہ فدا
کہ آئینہ بھی خدا کا ہے اورجمال بھی وہ
کہ آئینہ بھی خدا کا ہے اورجمال بھی وہ
ہے اس کانام بھی قائم خدا کے نام کے ساتھ
ہے اس کانام بھی قائم خدا کے نام کے ساتھ
زمانہ فانی ہے لیکن ہے لازوال بھی وہ
زمانہ فانی ہے لیکن ہے لازوال بھی وہ
ہے اس کی ذات پہ خود ناز آدمیت کو
ہے اس کی ذات پہ خود ناز آدمیت کو
خدائے فن کا ہے شہکار جو کمال بھی وہ
خدائے فن کا ہے شہکار جو کمال بھی وہ
وہ اک طبیب محبت کے دردِ مندوں کا
وہ اک طبیب محبت کے دردِ مندوں کا
ہے کائنات کے زخموں کا اندمال بھی وہ
ہے کائنات کے زخموں کا اندمال بھی وہ
لکھی ہے نعت جو عادلؔ تواب نہیں کوئی غم
لکھی ہے نعت جو عادلؔ تواب نہیں کوئی غم
اسی وسیلے سے جانیں گے میراحال بھی وہ
اسی وسیلے سے جانیں گے میراحال بھی وہ
 
t
 


  تشنہ ؔبلگرامی
  تشنہ ؔبلگرامی
(۳۰؍نومبر۱۹۳۴ء سہسرام… ۲؍اپریل ۲۰۰۴ء کراچی)
(۳۰؍نومبر۱۹۳۴ء سہسرام… ۲؍اپریل ۲۰۰۴ء کراچی)
آپ کی آمد سے سارے بام ودر روشن ہوئے
آپ کی آمد سے سارے بام ودر روشن ہوئے
بام ودر توبام ودر ہے گھر کے گھرروشن ہوئے
بام ودر توبام ودر ہے گھر کے گھرروشن ہوئے
نورِ وحدت سے جو نکلا، نور کا منبع ہیں آپ
نورِ وحدت سے جو نکلا، نور کا منبع ہیں آپ
جس کے روشن ہوتے ہی شمس وقمر روشن ہوئے
جس کے روشن ہوتے ہی شمس وقمر روشن ہوئے
کس قدر تاریک تھی پہلے یہ بزم کائنات
کس قدر تاریک تھی پہلے یہ بزم کائنات
ان کی آمد سے ستاروں کے سفر روشن ہوئے
ان کی آمد سے ستاروں کے سفر روشن ہوئے
جب کیا روشن دلوں کوہم نے ان کے نور سے
جب کیا روشن دلوں کوہم نے ان کے نور سے
کیسے کیسے دیدہ وراہلِ نظر روشن ہوئے
کیسے کیسے دیدہ وراہلِ نظر روشن ہوئے
ذات اقدس پر جو میں نے فکر کی تو دوستو
ذات اقدس پر جو میں نے فکر کی تو دوستو
پھر مرے پندار دیکھو کس قدر روشن ہوئے
پھر مرے پندار دیکھو کس قدر روشن ہوئے
ان کے پرتوسے منور ہوگیا سارا جہاں
ان کے پرتوسے منور ہوگیا سارا جہاں
میرے باطن میں میرے قلب وجگر روشن ہوئے
میرے باطن میں میرے قلب وجگر روشن ہوئے
 
t
 
تمناؔ عمادی
 
====تمناؔ عمادی====
 
(۱۴؍جون ۱۸۸۸،پھلواری شریف…۲۷؍ نومبر۱۹۷۲ء کراچی)
(۱۴؍جون ۱۸۸۸،پھلواری شریف…۲۷؍ نومبر۱۹۷۲ء کراچی)
اے خوش نصیب لوگو یثرب کے جانے والو
اے خوش نصیب لوگو یثرب کے جانے والو
عیشِ ابد کمالو رنجِ سفر اٹھا کر
عیشِ ابد کمالو رنجِ سفر اٹھا کر
جاتے ہوتم توجاؤ لیکن یہ یاد رکھنا
جاتے ہوتم توجاؤ لیکن یہ یاد رکھنا
جاتے ہو میرے دل میں اکِ آگ سی لگا کر
جاتے ہو میرے دل میں اکِ آگ سی لگا کر
لکھی توتھی یہ دولت تقدیر میں تمہاری
لکھی توتھی یہ دولت تقدیر میں تمہاری
کیا پھل ملے گا مجھ کو اب خار تم سے کھاکر
کیا پھل ملے گا مجھ کو اب خار تم سے کھاکر
آؤ ذراکہ دے لوں تسکین اپنے دل کو
آؤ ذراکہ دے لوں تسکین اپنے دل کو
خاک قدم تمہاری آنکھوں سے میں لگاکر
خاک قدم تمہاری آنکھوں سے میں لگاکر
اس بدنصیب کی ہے اکِ عرض سنتے جاؤ
اس بدنصیب کی ہے اکِ عرض سنتے جاؤ
کہتا ہے چشمِ ترسے سیروں لہو بہا کر  
کہتا ہے چشمِ ترسے سیروں لہو بہا کر  
دیکھو یہ یاد رکھنا طیبہ میںجب پہنچنا
دیکھو یہ یاد رکھنا طیبہ میںجب پہنچنا
مجھ کو نہ بھول جانا مقصود اپنا پاکر
مجھ کو نہ بھول جانا مقصود اپنا پاکر
ہوروضۂ نبی پر جب حاضری تمہاری
ہوروضۂ نبی پر جب حاضری تمہاری
کہنا بہت ادب سے جالی کے پاس جاکر  
کہنا بہت ادب سے جالی کے پاس جاکر  
سرکار نیندکب تک للہ جلد اٹھئے
سرکار نیندکب تک للہ جلد اٹھئے
اُمت کا دم رکا ہے گویا لبوں پرآکر
اُمت کا دم رکا ہے گویا لبوں پرآکر
محشر بپا ہے اُٹھئے اے شمعِ بزمِ محشر
محشر بپا ہے اُٹھئے اے شمعِ بزمِ محشر
اُمت کے سرپہ رکھئے دستِ کرم اب آکر
اُمت کے سرپہ رکھئے دستِ کرم اب آکر
بگڑی ہے بات ایسی بنتی نہیں بنائے  
بگڑی ہے بات ایسی بنتی نہیں بنائے  
بیٹھے ہیں آپ ہی سے سب آسرا لگاکر
بیٹھے ہیں آپ ہی سے سب آسرا لگاکر
اور اک غریب جس کو کہتے ہیں سب تمناؔ
اور اک غریب جس کو کہتے ہیں سب تمناؔ
آنے کے وقت ہم نے دیکھا جواس کو جاکر
آنے کے وقت ہم نے دیکھا جواس کو جاکر
طیبہ کی سمت رُخ تھا اشک آنکھ سے رواں تھے
طیبہ کی سمت رُخ تھا اشک آنکھ سے رواں تھے
بیچارہ کہہ رہا تھا یوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر
بیچارہ کہہ رہا تھا یوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر
تا در جہان خوبی امروزِ کامگاری
تا در جہان خوبی امروزِ کامگاری
باشد کہ بیدلاں راکامے زلب برآری
باشد کہ بیدلاں راکامے زلب برآری
 
t
 
تنظیم الفردوس،ڈاکٹر
====تنظیم الفردوس،ڈاکٹر====
 
(۲۸؍ مئی ۱۹۶۶ء چٹاگانگ)
(۲۸؍ مئی ۱۹۶۶ء چٹاگانگ)
حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے
حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے
یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے
یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے
 
ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پکارا ہے
 
ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پکارا ہے
 
مجھے تو دوجہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے
مجھے تو دوجہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے
بوقت مرگ ان کا نورروشن قبر کو کر دے  
بوقت مرگ ان کا نورروشن قبر کو کر دے  
فقط اس آس پر یہ تیرگی جاں کو گوارا ہے
فقط اس آس پر یہ تیرگی جاں کو گوارا ہے
یہ دل کا تنگ دروازہ اسی دستک پہ کھل جائے  
یہ دل کا تنگ دروازہ اسی دستک پہ کھل جائے  
کوئی کہہ دے چلو تم کو مدینے کا اشارہ ہے
کوئی کہہ دے چلو تم کو مدینے کا اشارہ ہے
یہی کافی ہے مل جائے محبت اُس گھرانے کی
یہی کافی ہے مل جائے محبت اُس گھرانے کی
سوا اس کے جہاں میں بس خسارہ ہی خسارہ ہے
سوا اس کے جہاں میں بس خسارہ ہی خسارہ ہے
میں امکانات کی دنیا میں حیرت کی مسافروں ہوں
میں امکانات کی دنیا میں حیرت کی مسافروں ہوں
مکاں یا لامکاں ہو ، ان کی رفعت کا اشارہ ہے
مکاں یا لامکاں ہو ، ان کی رفعت کا اشارہ ہے
نگا ہے کور ان کے نامِ نامی سے چمکتی ہے
نگا ہے کور ان کے نامِ نامی سے چمکتی ہے
سماعت کو تو اک اسمِ مبارک ہی سہارا ہے
سماعت کو تو اک اسمِ مبارک ہی سہارا ہے
 
t
 
توقیر تقی
 
====توقیر تقی====
 
(۶؍ جون ۱۹۸۱ء بورے والا)
(۶؍ جون ۱۹۸۱ء بورے والا)
جادۂ لطف مسافرسے جو ہم فاصلہ تھا
جادۂ لطف مسافرسے جو ہم فاصلہ تھا
حسن اورعشق میں دوہاتھ سے کم فاصلہ تھا
حسن اورعشق میں دوہاتھ سے کم فاصلہ تھا
خواہش دید میں دل کھنچتے چلے آتے تھے
خواہش دید میں دل کھنچتے چلے آتے تھے
شوق کی راہ میں مائل بہ کرم فاصلہ تھا
شوق کی راہ میں مائل بہ کرم فاصلہ تھا
اُس نے براق مودت پہ بلا بھیجا ہمیں
اُس نے براق مودت پہ بلا بھیجا ہمیں
ہم غلاموں کو جہاں تیغِ دو دم فاصلہ تھا
ہم غلاموں کو جہاں تیغِ دو دم فاصلہ تھا
گنبدِ سبز میں تقریب مناجات سے قبل
گنبدِ سبز میں تقریب مناجات سے قبل
طائرِ شوق کو صد رشکِ ارم فاصلہ تھا
طائرِ شوق کو صد رشکِ ارم فاصلہ تھا
جتنے قربت کے مفاہیم تھے وا ہوتے گئے
جتنے قربت کے مفاہیم تھے وا ہوتے گئے
وہ تجلی تھی کہ موجود و عدم فاصلہ تھا
وہ تجلی تھی کہ موجود و عدم فاصلہ تھا
دل حضوری کی سند لے کے تو آیا لیکن
دل حضوری کی سند لے کے تو آیا لیکن
حیف اُس وقت بھی یہ دیدۂ نم فاصلہ تھا
حیف اُس وقت بھی یہ دیدۂ نم فاصلہ تھا
ہمیں مانع تھی حیا، چومتے چوکھٹ ورنہ
ہمیں مانع تھی حیا، چومتے چوکھٹ ورنہ
جس قدر قرب تھا اتنا ہی بہم فاصلہ تھا
جس قدر قرب تھا اتنا ہی بہم فاصلہ تھا
راہ دنیا سے ہمیں عمر لگی آنے میں
راہ دنیا سے ہمیں عمر لگی آنے میں
دل کی جانب سے فقط ایک قدم فاصلہ تھا  
دل کی جانب سے فقط ایک قدم فاصلہ تھا  
معرفت عشق کو زرخیز بنا دیتی ہے
نعت لکھنے کو مرا زادِ قلم فاصلہ تھا
t




معرفت عشق کو زرخیز بنا دیتی ہے
ثاقبؔ مظفر پوری
 
نعت لکھنے کو مرا زادِ قلم فاصلہ تھا
 
 
====ثاقبؔ مظفر پوری====
 
(۳۰؍اپریل ۱۹۱۹ء …یکم ستمبر ۲۰۰۱ء کراچی)
(۳۰؍اپریل ۱۹۱۹ء …یکم ستمبر ۲۰۰۱ء کراچی)
ہجوم کہکشاں ہے اور میخانہ محمد کا
ہجوم کہکشاں ہے اور میخانہ محمد کا
بقدر ظرف ہی ملتاہے پیمانہ محمد کا
بقدر ظرف ہی ملتاہے پیمانہ محمد کا
فراتِ عقل پر پہرے بیٹھائے ہیں لعینوں نے
فراتِ عقل پر پہرے بیٹھائے ہیں لعینوں نے
نہ پہنچے ذہن تک آبِ حکیمانہ محمد کا
نہ پہنچے ذہن تک آبِ حکیمانہ محمد کا
یہی اپنی عبادت ہے یہی معراج ہے اپنی
یہی اپنی عبادت ہے یہی معراج ہے اپنی
ہے دل میں یاد اورلب پرہے افسانہ محمد کا
ہے دل میں یاد اورلب پرہے افسانہ محمد کا
لٹاتی ہی رہی اپنے گہر بیٹی محمد کی
لٹاتی ہی رہی اپنے گہر بیٹی محمد کی
یہ ذکر کربلا بھی تو ہے افسانہ محمد کا
یہ ذکر کربلا بھی تو ہے افسانہ محمد کا
نہیں ہے فکر ثاقب کو لحد ہویا قیامت ہو
نہیں ہے فکر ثاقب کو لحد ہویا قیامت ہو
وہ شیدائی علی کاہے وہ دیوانہ محمدکا
وہ شیدائی علی کاہے وہ دیوانہ محمدکا
 
t
 
ثروت حسین
====ثروت حسین====
 
 
(۹؍نومبر ۱۹۴۹ء، کراچی … ۹؍ستمبر۱۹۹۶ء،کراچی)
(۹؍نومبر ۱۹۴۹ء، کراچی … ۹؍ستمبر۱۹۹۶ء،کراچی)
نعتیہ نظم
نعتیہ نظم
رُتوں کی بجتی گھنٹیاں  
رُتوں کی بجتی گھنٹیاں  
صدیوںکی گردان
آتے جاتے قافلے
صدیوںکی گردان
آتے جاتے قافلے
 
      تپتا ریگستان
      تپتا ریگستان
اوجھل سارے راستے
اوجھل سارے راستے
بوجھل پیر،جوان
لیکن اس اندھیر میں
بوجھل پیر،جوان
ایک وہ نخلستان  
جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں
لیکن اس اندھیر میں
سب کو ملے امان
ایک وہ نخلستان  
جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں
سب کو ملے امان
,
,
آنکھ  روشن تھی دل مُعطّر تھا  
آنکھ  روشن تھی دل مُعطّر تھا  
لمحۂ مدحتِ پیمبر تھا
لمحۂ مدحتِ پیمبر تھا
آدمی اس بہار سے پہلے  
آدمی اس بہار سے پہلے  
خشت اورخاک کے برابر تھا
خشت اورخاک کے برابر تھا
ذہن ودل تھے، مگر غبار آلود
ذہن ودل تھے، مگر غبار آلود
آئینہ تھا، مگر مُکدّر تھا
آئینہ تھا، مگر مُکدّر تھا
اور پھر آمد محمد سے
اور پھر آمد محمد سے
حلقۂ آب وگلِ معطّر تھا
حلقۂ آب وگلِ معطّر تھا
صبح تھی اور خوشبوئے فاران
صبح تھی اور خوشبوئے فاران
شام تھی اورچراغِ منبر تھا
شام تھی اورچراغِ منبر تھا
خاک انداز سطوت کسریٰ  
خاک انداز سطوت کسریٰ  
سرنگوں ایسے شانِ قیصر تھا  
سرنگوں ایسے شانِ قیصر تھا  
اک اُسی درسے ہم کو نسبت تھی
اک اُسی درسے ہم کو نسبت تھی
اک وہی نام ہم کو ازبر تھا
اک وہی نام ہم کو ازبر تھا
-
-
کون اس بھید کوپاسکتاہے  
کون اس بھید کوپاسکتاہے  
کوئی کہاں تک جاسکتاہے
کوئی کہاں تک جاسکتاہے
کب وہ یاد سمٹ سکتی ہے  
کب وہ یاد سمٹ سکتی ہے  
کب وہ نشاں دھندلا سکتاہے  
کب وہ نشاں دھندلا سکتاہے  
صدیاں حیرانی میں گم ہیں
صدیاں حیرانی میں گم ہیں
کون وہ نام بھلا سکتاہے  
کون وہ نام بھلا سکتاہے  
شام ابد کا ایک ستارہ  
شام ابد کا ایک ستارہ  
کتنے چراغ جلا سکتاہے
کتنے چراغ جلا سکتاہے
اک انسان اسی دنیا کا
اک انسان اسی دنیا کا
کتنی فصیلیں ڈھا سکتاہے  
کتنی فصیلیں ڈھا سکتاہے  
بپھرے ساگر کی لہروں کو
بپھرے ساگر کی لہروں کو
زنجیریں پہنا سکتاہے
زنجیریں پہنا سکتاہے
خار و خس وخاشاک دلوں کا
خار و خس وخاشاک دلوں کا
شعلہ بن کے جلا سکتاہے
شعلہ بن کے جلا سکتاہے
 
t
 
ثروت زہرا
 
====ثروت زہرا====
 
(۵؍مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
(۵؍مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
عبدومعبود کے فاصلے توڑ کر
عبدومعبود کے فاصلے توڑ کر
حسن اور نور کی  
حسن اور نور کی  
مشعلیں جل اُٹھیں
مشعلیں جل اُٹھیں
روشنی  
روشنی  
اپنی جلوہ گری کی اداؤں پہ  
اپنی جلوہ گری کی اداؤں پہ  
حیران تھی
حیران تھی
وصل کی خوشبوئیں
وصل کی خوشبوئیں
فرش سے عرش تک
فرش سے عرش تک
آنکھ مِل کراُٹھیں
آنکھ مِل کراُٹھیں
قاب قوسین کی
قاب قوسین کی
منزلوں سے پرے
منزلوں سے پرے
سات افلاک کے راستے کاٹ کر  
سات افلاک کے راستے کاٹ کر  
آگہی اس جگہ آگئی
آگہی اس جگہ آگئی
جب خودی و خدا کی اِسی گفتگو سے  
جب خودی و خدا کی اِسی گفتگو سے  
نئی آیتیں ڈھل گئیں
نئی آیتیں ڈھل گئیں
شور افلاک پر
شور افلاک پر
سب ملائک میں ہونے لگاہے
سب ملائک میں ہونے لگاہے
آج آدم کو پھر اُس کی دستار واپس ہوئی ہے
آج آدم کو پھر اُس کی دستار واپس ہوئی ہے
خاتم الانبیا ، آدمیت کے اعلیٰ نشاں  
خاتم الانبیا ، آدمیت کے اعلیٰ نشاں  
اپنے خالق سے کچھ اس طرح مل رہے ہیںکہ  
اپنے خالق سے کچھ اس طرح مل رہے ہیںکہ  
ٹھہری ہوئی ساعتیں
ٹھہری ہوئی ساعتیں
اپنی تکمیل کی خوش کن احسا س میں   
اپنی تکمیل کی خوش کن احسا س میں   
پھول سی کھل اُٹھیں
پھول سی کھل اُٹھیں
 
t
 
ثمرؔ نظامی
====ثمرؔ نظامی====
 
 
(۴؍جولائی۱۹۲۸ء امروہہ…۱۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کراچی)
(۴؍جولائی۱۹۲۸ء امروہہ…۱۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کراچی)
حرم میں تو گستاخ تیری نظر ہے
حرم میں تو گستاخ تیری نظر ہے
ادب اے ثمرؔ !یہ محمد کا در ہے
ادب اے ثمرؔ !یہ محمد کا در ہے
مدینے کی گلیوں کے یہ سنگ ریزے
مدینے کی گلیوں کے یہ سنگ ریزے
کوئی شمسِ ان میں تو کوئی قمر ہے
کوئی شمسِ ان میں تو کوئی قمر ہے
بہرگام آنسو بہر گام سجدہ
بہرگام آنسو بہر گام سجدہ
سفر اورمدینے کی جانب سفرہے
سفر اورمدینے کی جانب سفرہے
ان آنکھوں میں اُن کے سجائے ہیں جلوے
ان آنکھوں میں اُن کے سجائے ہیں جلوے
زمانے میں میری نظر معتبر ہے
زمانے میں میری نظر معتبر ہے
وہ مسجد وہ گُنبد وہ روضہ وہ جالی
وہ مسجد وہ گُنبد وہ روضہ وہ جالی
نظر جُھک رہی ہے کہ حدِ نظر ہے
نظر جُھک رہی ہے کہ حدِ نظر ہے
 
t
 
ثنااللہ شاہ حسینی
 
====ثنااللہ شاہ حسینی====
 
(ولادت:۱۹۱۳ء)
(ولادت:۱۹۱۳ء)
عشق شاہ حجاز کیا کہنا
عشق شاہ حجاز کیا کہنا
کردیا بے نیاز کیا کہنا
کردیا بے نیاز کیا کہنا
تم کو مالک کیا خدائی کا
تم کو مالک کیا خدائی کا
حق نے بخشا حجاز کیا کہنا
حق نے بخشا حجاز کیا کہنا
جس کو چاہا بہ آب و تاب کیا
جس کو چاہا بہ آب و تاب کیا
مہرِ ذرہ نواز کیا کہنا
مہرِ ذرہ نواز کیا کہنا
اس ثناؔ کو تری غلامی نے
اس ثناؔ کو تری غلامی نے
کر دیا سرفراز کیا کہنا
کر دیا سرفراز کیا کہنا
 
t
 
جاوید صبا
 
====جاوید صبا====
 
(مئی ۱۹۵۸ء کراچی)
(مئی ۱۹۵۸ء کراچی)
پیوستہ ہوکے خاک سے ابھری کرن تمام
پیوستہ ہوکے خاک سے ابھری کرن تمام
آتش کدے میںراکھ ہوئے اہرمن تمام
آتش کدے میںراکھ ہوئے اہرمن تمام
بس ایک نگاہِ ناز کے اُٹھنے کی دیر تھی
بس ایک نگاہِ ناز کے اُٹھنے کی دیر تھی
قدموں میںآکے بیٹھ گئی انجمن تمام
قدموں میںآکے بیٹھ گئی انجمن تمام
خلوت گہہ خیال سے نکلی بصد نیاز
خلوت گہہ خیال سے نکلی بصد نیاز
وہ گفتگو کہ جس پہ ہوئے ہیں سخن تمام
وہ گفتگو کہ جس پہ ہوئے ہیں سخن تمام
قدرت سے کیا بعید مگرایک نقشِ حسن
قدرت سے کیا بعید مگرایک نقشِ حسن
ایسا بنا دیا کہ ہوا سارا فن تمام
ایسا بنا دیا کہ ہوا سارا فن تمام
کیا خار و گل، نسیم و صبا کیا خزاں بہار
کیا خار و گل، نسیم و صبا کیا خزاں بہار
ان سے ہے فیض یاب چمن کا چمن تمام
ان سے ہے فیض یاب چمن کا چمن تمام
اللہ کی طرف سے ہے حرف و کلام و صوت
اللہ کی طرف سے ہے حرف و کلام و صوت
من جانب خداہے سخن کا سخن تمام
من جانب خداہے سخن کا سخن تمام
 
t
 
جلیلؔ قدوائی
 
====جلیلؔ قدوائی====
 
(۲۲؍دسمبر ۱۹۰۴ء اودھ…یکم؍ فروری۱۹۹۶ء روالپنڈی)
(۲۲؍دسمبر ۱۹۰۴ء اودھ…یکم؍ فروری۱۹۹۶ء روالپنڈی)
مجھ کو بس آپ سے ہے کام رسولِ عربی
مجھ کو بس آپ سے ہے کام رسولِ عربی
لب پہ ہے آپ کاہی نام رسولِ عربی
لب پہ ہے آپ کاہی نام رسولِ عربی
آپ نے کی جو توجہ،بنیں دنیا میں ابھی
آپ نے کی جو توجہ،بنیں دنیا میں ابھی
میرے بگڑے ہوئے سب کام رسولِ عربی
میرے بگڑے ہوئے سب کام رسولِ عربی
حشر میں آپ کی گر مجھ کوشفاعت نہ ملی
حشر میں آپ کی گر مجھ کوشفاعت نہ ملی
جانے کیا ہومراانجام رسولِ عربی
جانے کیا ہومراانجام رسولِ عربی
مجھ کو اپنی روشِ خاص پہ لا کر مجھ سے
مجھ کو اپنی روشِ خاص پہ لا کر مجھ سے
چھین لیجئے روشِ عام رسولِ عربی  
چھین لیجئے روشِ عام رسولِ عربی  
عہد حاضر نے تراشے ہیں نئے بت،شاہا
عہد حاضر نے تراشے ہیں نئے بت،شاہا
پھر شکستہ ہوں یہ اصنام رسول ِعربی
پھر شکستہ ہوں یہ اصنام رسول ِعربی
کاش ایسا ہو کہ اک باردکھادیں مجھ کو
کاش ایسا ہو کہ اک باردکھادیں مجھ کو
خواب میںروئے دل آرام رسولِ عربی
خواب میںروئے دل آرام رسولِ عربی
کچھ نہیں اورخبر اس کے سوامجھ کو جلیلؔ
کچھ نہیں اورخبر اس کے سوامجھ کو جلیلؔ
میرامذہب میرااسلام رسولِ عربی
میرامذہب میرااسلام رسولِ عربی
 
t
 
جلیل ہاشمی  
 
====جلیل ہاشمی ====
 
(۷؍ جون ۱۹۵۱ء بہاولپور)
(۷؍ جون ۱۹۵۱ء بہاولپور)
رحمتِ حق کا سائباں صلِ علیٰ محمد
رحمتِ حق کا سائباں صلِ علیٰ محمد
راحتِ قلبِ عاصیاں صلِ علیٰ محمد
راحتِ قلبِ عاصیاں صلِ علیٰ محمد
خیر کی ساری روشنی روحِ ازل کی چاندنی
خیر کی ساری روشنی روحِ ازل کی چاندنی
اس کے ہی نور سے عیاں صلِ علیٰ محمد
اس کے ہی نور سے عیاں صلِ علیٰ محمد
کیف کی جاں پہ بارشیں روح و زباں پہ خوشبوئیں
کیف کی جاں پہ بارشیں روح و زباں پہ خوشبوئیں
لطف و کرم کا ہے بیاں صلِ علیٰ محمد
لطف و کرم کا ہے بیاں صلِ علیٰ محمد
گھر ہو یا راستہ کوئی غم ہو یا وسوسہ کوئی
گھر ہو یا راستہ کوئی غم ہو یا وسوسہ کوئی
شام و سحر کے درمیاں صلِ علیٰ محمد
شام و سحر کے درمیاں صلِ علیٰ محمد
ذکرِ خدا کا بھی صلہ اس کو کبھی نہیں ملا
ذکرِ خدا کا بھی صلہ اس کو کبھی نہیں ملا
جس کو نہ یاد ہو میاں صلِ علیٰ محمد
جس کو نہ یاد ہو میاں صلِ علیٰ محمد
دشت و جبل میں یاد رکھ جنگ و جدل میں یاد رکھ
دشت و جبل میں یاد رکھ جنگ و جدل میں یاد رکھ
سایۂ رشک گلستاں صلِ علیٰ محمد
سایۂ رشک گلستاں صلِ علیٰ محمد
کیا مری شاعری لکھے کیا مری عاجزی لکھے
کیا مری شاعری لکھے کیا مری عاجزی لکھے
تیرے کرم کی داستاں صلِ علیٰ محمد
تیرے کرم کی داستاں صلِ علیٰ محمد
 
t
 
جمال پانی پتی
 
====جمال پانی پتی====
 
(۱۵؍جون ۱۹۲۷ء پانی پت…۱۰؍جولائی ۲۰۰۵ء کراچی)
(۱۵؍جون ۱۹۲۷ء پانی پت…۱۰؍جولائی ۲۰۰۵ء کراچی)
متاعِ دو جہاں پائی تری مدحت سرائی سے  
متاعِ دو جہاں پائی تری مدحت سرائی سے  
کمائی اور کیا دنیا میں اچھی اس کمائی سے
کمائی اور کیا دنیا میں اچھی اس کمائی سے
تمہارا نام آقا دل کی تختی پر لکھا ہم نے
تمہارا نام آقا دل کی تختی پر لکھا ہم نے
محبت کے قلم سے آرزو کی روشنائی سے
محبت کے قلم سے آرزو کی روشنائی سے
نبی کا نور کیا ظلمت سرائے دہر میںچمکا
نبی کا نور کیا ظلمت سرائے دہر میںچمکا
ہوا روشن جہاںسارا جمالِ مصطفائی سے
ہوا روشن جہاںسارا جمالِ مصطفائی سے
ترے نورِ ہدایت سے زمانے کو ملی منزل
ترے نورِ ہدایت سے زمانے کو ملی منزل
نشاں حق ملا دنیا کو تیری رہنمائی سے
نشاں حق ملا دنیا کو تیری رہنمائی سے
تری عقدہ کشائی سے کھلے عقدے سبھی دل کے
تری عقدہ کشائی سے کھلے عقدے سبھی دل کے
ہوئیں سب مشکلیں آساں تری مشکل کشائی سے
ہوئیں سب مشکلیں آساں تری مشکل کشائی سے
وہ دولت بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتی
وہ دولت بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتی
جو ملتی ہے گداؤں کو ترے در کی گدائی سے  
جو ملتی ہے گداؤں کو ترے در کی گدائی سے  
پئے گلدستۂ نعتِ نبی چن چن کے لایاہوں
پئے گلدستۂ نعتِ نبی چن چن کے لایاہوں
ذرا دیکھو تو،کیاکیا پھول باغِ مصطفائی سے   
ذرا دیکھو تو،کیاکیا پھول باغِ مصطفائی سے   
جمالؔ اُس سے علوئے مرتبت کا ہو بیاں کیسے
جمالؔ اُس سے علوئے مرتبت کا ہو بیاں کیسے
پرے ہے مرتبہ جس کا تخیّل کی رسائی سے  
پرے ہے مرتبہ جس کا تخیّل کی رسائی سے  
 
t
 
جمال نقوی
 
====جمال نقوی====
 
 
(۸؍اکتوبر ۱۹۴۶ء، لکھنؤ)
(۸؍اکتوبر ۱۹۴۶ء، لکھنؤ)
لیا جو نام تو خوشبو سی جسم و جان میں ہے
لیا جو نام تو خوشبو سی جسم و جان میں ہے
بفیض شاہِ اُمم زندگی امان میں ہے
بفیض شاہِ اُمم زندگی امان میں ہے
خدا ہے ان کا ثناخواں یہ عظمتیں ان کی
خدا ہے ان کا ثناخواں یہ عظمتیں ان کی
کلامِ پاک قصیدہ انھیں کی شان میں ہے
کلامِ پاک قصیدہ انھیں کی شان میں ہے
الٰہی نورِ بصیرت عطا ہو ہم سب کو
الٰہی نورِ بصیرت عطا ہو ہم سب کو
اندھیرا کفر کا پھیلا ہوا جہان میں ہے
اندھیرا کفر کا پھیلا ہوا جہان میں ہے
انھیں سے پوچھو سب ان کو ہی ہے خبر اس کی
انھیں سے پوچھو سب ان کو ہی ہے خبر اس کی
کہ جو نجوم و قمر میں ہے آسمان میں ہے
کہ جو نجوم و قمر میں ہے آسمان میں ہے
عمل سے آپ نے آقا دِکھا دیا ہم کو
عمل سے آپ نے آقا دِکھا دیا ہم کو
دلوں کو جیت لے تاثیر وہ زبان میں ہے
دلوں کو جیت لے تاثیر وہ زبان میں ہے
دکھا دیا اسے کردارِ مصطفیٰ نے ہمیں
دکھا دیا اسے کردارِ مصطفیٰ نے ہمیں
خدا کا حکم جو لکھا ہوا قرآن میں ہے
خدا کا حکم جو لکھا ہوا قرآن میں ہے
ضیائے سیّدِ کونین راہبر ہے جمالؔ
ضیائے سیّدِ کونین راہبر ہے جمالؔ
یہ وہ ضیا ہے کہ پھیلی جو دوجہان میں ہے
یہ وہ ضیا ہے کہ پھیلی جو دوجہان میں ہے
t
t
 
جمیل الدین عالیؔ
====جمیل الدین عالیؔ====
 
(۲۰؍جنوری ۱۹۲۵ء دہلی… ۲۳؍نومبر ۲۰۱۵ء کراچی)
(۲۰؍جنوری ۱۹۲۵ء دہلی… ۲۳؍نومبر ۲۰۱۵ء کراچی)
وہ شفیعنا  وہ  حبیبنا کہ  جو  ہیں  نہایت ِ جستجو  
وہ شفیعنا  وہ  حبیبنا کہ  جو  ہیں  نہایت ِ جستجو  
مجھے  اپنے  پاس  بلا لیا  مجھے  دی  اجازتِ گفتگو
مجھے  اپنے  پاس  بلا لیا  مجھے  دی  اجازتِ گفتگو
بلغ العلیٰ بکمالہ یہ پڑھا انہی کے حضور میں
بلغ العلیٰ بکمالہ یہ پڑھا انہی کے حضور میں
کشف الدجے بجمالہ یہ کہا ہے اُن کے ہی روبرو
کشف الدجے بجمالہ یہ کہا ہے اُن کے ہی روبرو
حسنت جمیع خصالہ یہی اک پیام قدم قدم
حسنت جمیع خصالہ یہی اک پیام قدم قدم
صلوا علیہ وآلہ یہی اک کلام ہے کُو بہ کُو
صلوا علیہ وآلہ یہی اک کلام ہے کُو بہ کُو
مرے ان گنت جو گناہ تھے وہ اسی یقیں کے گواہ تھے
مرے ان گنت جو گناہ تھے وہ اسی یقیں کے گواہ تھے
کہ جونہی یہاں میں پہنچ گیا وہ عطائے عفو ہے مُوبہ مُو
کہ جونہی یہاں میں پہنچ گیا وہ عطائے عفو ہے مُوبہ مُو
نہ یہاں زماں،نہ یہاں مکاں،نہ کوئی تصور این ِوآں
نہ یہاں زماں،نہ یہاں مکاں،نہ کوئی تصور این ِوآں
کہ ہوائے عشق ہے ہرطرف کہ فضائے نور ہے چار سو
کہ ہوائے عشق ہے ہرطرف کہ فضائے نور ہے چار سو
وہ ہزار خواہشیں کل جو تھیں فقط اک دعا میں بدل گئیں
وہ ہزار خواہشیں کل جو تھیں فقط اک دعا میں بدل گئیں
مراکام ہو تری جستجو ، مر انام ہو تری آرزو
مراکام ہو تری جستجو ، مر انام ہو تری آرزو
 
t
 
جنون بنارسی
 
====جنون بنارسی====
 
(۱۹۲۰ء بنارس یوپی…۱۹۹۵ء کراچی)
(۱۹۲۰ء بنارس یوپی…۱۹۹۵ء کراچی)
خدا کی مکمل خدائی نہ ہوتی
خدا کی مکمل خدائی نہ ہوتی
زمانے میں گر مصطفائی نہ  ہوتی
زمانے میں گر مصطفائی نہ  ہوتی
خبر بھی نہ ہوتی کہ منزل کہاں ہے
خبر بھی نہ ہوتی کہ منزل کہاں ہے
محمد کی گر رہنمائی نہ ہوتی
محمد کی گر رہنمائی نہ ہوتی
مصائب سے ہوتے نہ آزاد انساں
مصائب سے ہوتے نہ آزاد انساں
دو عالم کی رحمت جو آتی نہ ہوتی
دو عالم کی رحمت جو آتی نہ ہوتی
یتیموں غلاموں پر ہر ظلم ہوتا
یتیموں غلاموں پر ہر ظلم ہوتا
اسیروں کی ہرگز رہائی نہ ہوتی
اسیروں کی ہرگز رہائی نہ ہوتی
حقیقت کا فانوس روشن نہ ہوتا
حقیقت کا فانوس روشن نہ ہوتا
اگر روشنی دل نے پائی نہ ہوتی
اگر روشنی دل نے پائی نہ ہوتی
جنوں زندگی بھر بھٹکتا ہی رہتا
جنوں زندگی بھر بھٹکتا ہی رہتا
رہ عشق احمد جو پائی نہ ہوتی
رہ عشق احمد جو پائی نہ ہوتی
 
t
 
جون ایلیا
 
====جون ایلیا====
 
(۱۴؍دسمبر۱۹۳۱ء امروہہ …۸؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
(۱۴؍دسمبر۱۹۳۱ء امروہہ …۸؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
بتارہی ہیں ضیائیںیہاں سے گزرے ہیں
بتارہی ہیں ضیائیںیہاں سے گزرے ہیں
حضور کیا روشِ کہکشاں سے گزرے ہیں
حضور کیا روشِ کہکشاں سے گزرے ہیں
 
ہوئے ہیں آج وہ عنوانِ داستانِ جمال
 
ہوئے ہیں آج وہ عنوانِ داستانِ جمال
 
وگرنہ یوں تو ہر اِک داستاں سے گزرے ہیں
وگرنہ یوں تو ہر اِک داستاں سے گزرے ہیں
ہر ایک بزم میںکہتے ہیںفخر سے جبریل
ہر ایک بزم میںکہتے ہیںفخر سے جبریل
حضور خاص مِرے آشیاں سے گزرے ہیں
حضور خاص مِرے آشیاں سے گزرے ہیں
ہے مختصر یہی افسانۂ شبِ معراج
ہے مختصر یہی افسانۂ شبِ معراج
جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے گزرے ہیں
جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے گزرے ہیں
 
t
 
جوہرؔ سعیدی
 
====جوہرؔ سعیدی====
 
(۱۹۲۱ء، ٹونک … ۲۰؍فروری ۱۹۹۷ء، کراچی)
(۱۹۲۱ء، ٹونک … ۲۰؍فروری ۱۹۹۷ء، کراچی)
گمشدہ سلسلۂ عبد و ابد مل جائے
گمشدہ سلسلۂ عبد و ابد مل جائے
کاش پھران کی غلامی کی سند مل جائے
کاش پھران کی غلامی کی سند مل جائے
جس کو چُھوتے ہی نظر آئیں حراکے جلوے
جس کو چُھوتے ہی نظر آئیں حراکے جلوے
جانِ مضطر کی تگ و دو کو وہ حد مل جائے
جانِ مضطر کی تگ و دو کو وہ حد مل جائے
سیرت پاک محمد جو رہے پیشِ نظر
سیرت پاک محمد جو رہے پیشِ نظر
رُوحِ تہذیب و تمنائے ابد مل جائے
رُوحِ تہذیب و تمنائے ابد مل جائے
عام ہوجائے اگر فکرِ رسولِ عربی
عام ہوجائے اگر فکرِ رسولِ عربی
قافلوں کو رہِ ہستی کے رسد مل جائے
قافلوں کو رہِ ہستی کے رسد مل جائے
میں ہوں قطرہ مجھے دریا سے ملادے یا رب
میں ہوں قطرہ مجھے دریا سے ملادے یا رب
میں ہوں ذرّہ مجھے سورج کی مدد مل جائے
میں ہوں ذرّہ مجھے سورج کی مدد مل جائے
ہے یہی عشق کا مفہوم، نظر میں میری
ہے یہی عشق کا مفہوم، نظر میں میری
ہوجنوں شیفتہ جس پر وہ خرد مل جائے
ہوجنوں شیفتہ جس پر وہ خرد مل جائے
کشتیٔ عمرِ رواں کو بسہولت جوہرؔ  
کشتیٔ عمرِ رواں کو بسہولت جوہرؔ  
موجِ طوفان سے گذرنے کی سند مل جائے
موجِ طوفان سے گذرنے کی سند مل جائے
 
t
 
حاصل مرادآبادی  
 
====حاصل مرادآبادی ====
 
(۱۹۳۳ء مراد آباد)
(۱۹۳۳ء مراد آباد)
دیار مصطفی آنکھوں میں ہے اوردل بھی روشن ہے
دیار مصطفی آنکھوں میں ہے اوردل بھی روشن ہے
ہمارا حال بھی روشن ہے مستقبل بھی روشن ہے
ہمارا حال بھی روشن ہے مستقبل بھی روشن ہے
جدھر سے آپ گذرے ہیںجہاں آرام فرما ہیں
جدھر سے آپ گذرے ہیںجہاں آرام فرما ہیں
وہ راہیں ضوفشاں ہیں اوروہ منزل بھی روشن ہے
وہ راہیں ضوفشاں ہیں اوروہ منزل بھی روشن ہے
بچھی تھی کہکشاں معراج کی شب جن کی راہوں میں
بچھی تھی کہکشاں معراج کی شب جن کی راہوں میں
انھیں کے فیض سے دنیا کی یہ محفل بھی روشن ہے
انھیں کے فیض سے دنیا کی یہ محفل بھی روشن ہے
جلا بخشی ہے ذہن و دل کو انوار رسالت نے
جلا بخشی ہے ذہن و دل کو انوار رسالت نے
وگرنہ مہر بھی روشن مہ کامل بھی روشن ہے
وگرنہ مہر بھی روشن مہ کامل بھی روشن ہے
فقط لفظ وبیان سے مدحت سرکار کیا معنیٰ
فقط لفظ وبیان سے مدحت سرکار کیا معنیٰ
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے چراغِ دل بھی روشن ہے
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے چراغِ دل بھی روشن ہے
رسولِ ہاشمی ہیں جب سے میرے ناخدا حاصلؔ
رسولِ ہاشمی ہیں جب سے میرے ناخدا حاصلؔ
سفینہ بھی سلامت ہے مرا ساحل بھی روشن ہے
سفینہ بھی سلامت ہے مرا ساحل بھی روشن ہے
 
t
 
حامد علی سید
 
====حامد علی سید====
 
(۳؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کراچی)
(۳؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کراچی)
زندگی دھوپ کی پوشاک اتار آئی ہے
زندگی دھوپ کی پوشاک اتار آئی ہے
نعت لکھی تومرے گھر میں بہار آئی ہے
نعت لکھی تومرے گھر میں بہار آئی ہے
جب بھی گذرے ہیں اندھیروں سے غلامانِ رسول
جب بھی گذرے ہیں اندھیروں سے غلامانِ رسول
رہ دکھانے کو ستاروں کی قطار آئی ہے
رہ دکھانے کو ستاروں کی قطار آئی ہے
روشنی دینے لگے گھر کے در و بام مرے
روشنی دینے لگے گھر کے در و بام مرے
اک تجلی مری گلیوں کو نکھار آئی ہے
اک تجلی مری گلیوں کو نکھار آئی ہے
ریگزاروں میں کھلے دیکھے رسالت کے گلاب
ریگزاروں میں کھلے دیکھے رسالت کے گلاب
آپ کی چشم کرم دشت سنوارآئی ہے
آپ کی چشم کرم دشت سنوارآئی ہے
اک سفر ہے مری قسمت میں یقینا حامدؔ!  
اک سفر ہے مری قسمت میں یقینا حامدؔ!  
خوش نصیبی مجھے طیبہ میں پکار آئی ہے
خوش نصیبی مجھے طیبہ میں پکار آئی ہے
 
t
 
حبیب احمد صدیقی بدایونی
 
====حبیب احمد صدیقی بدایونی====
 
(۹؍دسمبر۱۹۲۱ء بدایوں…۱۱؍جون۱۹۸۸ء کراچی)
(۹؍دسمبر۱۹۲۱ء بدایوں…۱۱؍جون۱۹۸۸ء کراچی)
اللہ اللہ کششِ جذب واثر آج کی رات
اللہ اللہ کششِ جذب واثر آج کی رات
عرش پیما ہیں شہِ جن وبشر آج کی رات
عرش پیما ہیں شہِ جن وبشر آج کی رات
لن ترانیِ توکجا ، شوقِ تکلم ہے سوا
لن ترانیِ توکجا ، شوقِ تکلم ہے سوا
اٹھ گئے سارے حجاباتِ نظرآج کی رات
اٹھ گئے سارے حجاباتِ نظرآج کی رات
از زمیں تابفلک نورکے جلوے ہیں عیاں
از زمیں تابفلک نورکے جلوے ہیں عیاں
رُوکشِ خُلد ہے ہرراہ گزر آج کی رات
رُوکشِ خُلد ہے ہرراہ گزر آج کی رات
گرم بستر رہا،زنجیر کو جنبش بھی رہی
گرم بستر رہا،زنجیر کو جنبش بھی رہی
طے ہوئی لمحوں میں یہ راہِ سفر آج کی رات
طے ہوئی لمحوں میں یہ راہِ سفر آج کی رات
زینتِ مسجدِ اقصی کا ہو کیا وصف بیاں
زینتِ مسجدِ اقصی کا ہو کیا وصف بیاں
انبیا شانہ بشانہ ہیں ادھر آج کی رات
انبیا شانہ بشانہ ہیں ادھر آج کی رات
پہلے صدیقؓ سے معراج کی تصدیق ہوئی
پہلے صدیقؓ سے معراج کی تصدیق ہوئی
مرحباصدقِ زباں،صدقِ نظر آج کی رات
مرحباصدقِ زباں،صدقِ نظر آج کی رات
 
t
 
حسن اللہ ہماؔ
 
 
====حسن اللہ ہماؔ====
 
(۴؍مئی ۱۹۴۳ء حیدرآباد دکن)
(۴؍مئی ۱۹۴۳ء حیدرآباد دکن)
ضو بار اس قدر ہے جمال آفتاب کی
ضو بار اس قدر ہے جمال آفتاب کی
یہ بھیک دی ہوئی ہے رسالت مآب کی
یہ بھیک دی ہوئی ہے رسالت مآب کی
مصروف ہوں میں مدحِ رسولِ انام میں
مصروف ہوں میں مدحِ رسولِ انام میں
سانسوں میں ہے بسی ہوئی خوشبو گلاب کی
سانسوں میں ہے بسی ہوئی خوشبو گلاب کی
وہ چہرۂ مبیں تھا تصور میں اور میں
وہ چہرۂ مبیں تھا تصور میں اور میں
آیات پڑھ رہا تھا مقدس کتاب کی
آیات پڑھ رہا تھا مقدس کتاب کی
واعظ مری جبیں کی طلب ہے درِ نبی
واعظ مری جبیں کی طلب ہے درِ نبی
تجھ کو ہے فکر صرف عذاب و ثواب کی
تجھ کو ہے فکر صرف عذاب و ثواب کی
تھاما ہے میں دامنِ سالارِ انبیا
تھاما ہے میں دامنِ سالارِ انبیا
دیتی ہے داد خلق مرے انتخاب کی
دیتی ہے داد خلق مرے انتخاب کی
انکار کر کے شانِ رسالت مآب سے
انکار کر کے شانِ رسالت مآب سے
  بوجہل نے خود اپنی ہی مٹی خراب کی
  بوجہل نے خود اپنی ہی مٹی خراب کی
حاضر تھا در پہ آپ کے کل رات خواب میں
حاضر تھا در پہ آپ کے کل رات خواب میں
اے کاش ! حسبِ شوق ہو تعبیر خواب کی
اے کاش ! حسبِ شوق ہو تعبیر خواب کی
 
t
 
حسن وقار ُگل، ڈاکٹر
 
====حسن وقار ُگل، ڈاکٹر====
 
(۳؍جون ۱۹۵۶ء قصور)
(۳؍جون ۱۹۵۶ء قصور)
جب میں نے ذکرِ احمدِ مختار کردیا  
جب میں نے ذکرِ احمدِ مختار کردیا  
مطلع کو اپنے مطلعِ انوار کردیا
مطلع کو اپنے مطلعِ انوار کردیا
احسان سب پہ سرورِ عالم نے کردیا
احسان سب پہ سرورِ عالم نے کردیا
ہردامنِ مراد کو رحمت سے بھر دیا
ہردامنِ مراد کو رحمت سے بھر دیا
دنیا کی بے قراری و شب ہائے تیرہ کو
دنیا کی بے قراری و شب ہائے تیرہ کو
دولت سکوں کی بخشی ، پیامِ سحر دیا
دولت سکوں کی بخشی ، پیامِ سحر دیا
ایماں کی ہم کو دولتِ بیدار مل گئی  
ایماں کی ہم کو دولتِ بیدار مل گئی  
سود وزیاں سے آپ نے بیگانہ کر دیا
سود وزیاں سے آپ نے بیگانہ کر دیا
مژدہ شفاعتوں کا وسیلہ نجات کا
مژدہ شفاعتوں کا وسیلہ نجات کا
حق سے اُدھر ملا تو نبی نے اِدھر دیا
حق سے اُدھر ملا تو نبی نے اِدھر دیا
ذکرِ جبین و عارضِ روشن سے میں نے آج
ذکرِ جبین و عارضِ روشن سے میں نے آج
نعتِ نبی کوبقعۂ انوار کردیا
نعتِ نبی کوبقعۂ انوار کردیا
تشریف لائے رحمت للعالمین جب
تشریف لائے رحمت للعالمین جب
دامن جہاں کا لطف و عنایت سے بھر دیا
دامن جہاں کا لطف و عنایت سے بھر دیا
 
انسانیت کی تشنہ لبی بجھ گئی وقارؔ!
 
انسانیت کی تشنہ لبی بجھ گئی وقارؔ!
 
  ہر نخلِ آرزو کو خدا نے ثمر دیا
  ہر نخلِ آرزو کو خدا نے ثمر دیا
 
t
 
حسین انجم
 
====حسین انجم====
 
(۱۹۳۹ء لکھنؤ…۱۹؍اپریل۲۰۰۶ء کراچی)
(۱۹۳۹ء لکھنؤ…۱۹؍اپریل۲۰۰۶ء کراچی)
کہاں ہے کاغذ و کلک و سیاہی
کہاں ہے کاغذ و کلک و سیاہی
ہے لکھنا نعتِ محبوبِ الٰہی
ہے لکھنا نعتِ محبوبِ الٰہی
وہ سلطانِ سلاطین جس کے در کے  
وہ سلطانِ سلاطین جس کے در کے  
گداؤں میں ہے شانِ بادشاہی
گداؤں میں ہے شانِ بادشاہی
جہالت کے قدم لرزاں ہیں اب تک
جہالت کے قدم لرزاں ہیں اب تک
وہ اُس کے علم کی حکمت نگاہی
وہ اُس کے علم کی حکمت نگاہی
وہ جس کی فکر میں شیر و شکر ہے
وہ جس کی فکر میں شیر و شکر ہے
مزاجِ دہر فرمانِ الٰہی
مزاجِ دہر فرمانِ الٰہی
مرے آقا ،ہے تیری ذاتِ اقدس
مرے آقا ،ہے تیری ذاتِ اقدس
محبِ دوست، محبوبِ الٰہی
محبِ دوست، محبوبِ الٰہی
تری نظروں میں ہے مردودِ یزداں
تری نظروں میں ہے مردودِ یزداں
شعارِ زر، شعورِ بادشاہی
شعارِ زر، شعورِ بادشاہی
حسین انجمؔ ! یہ تیرا نعت گستر
حسین انجمؔ ! یہ تیرا نعت گستر
تری ڈیوڑھی کا اک ادنیٰ سپاہی
تری ڈیوڑھی کا اک ادنیٰ سپاہی
 
t
 
 
حفیظؔ ہوشیارپوری
حفیظؔ ہوشیارپوری
(۵؍جنوری ۱۹۱۲ء دیوان پورضلع جھنگ… ۱۰؍جنوری۱۹۷۳ء کراچی)
(۵؍جنوری ۱۹۱۲ء دیوان پورضلع جھنگ… ۱۰؍جنوری۱۹۷۳ء کراچی)
ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا
ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا
حرم کی تیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا
حرم کی تیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا
تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو
تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو
دلوں کو سوزِ تب و تاب جاودانہ ملا
دلوں کو سوزِ تب و تاب جاودانہ ملا
خدا کے بعد جلال وجمال کا  مظہر
خدا کے بعد جلال وجمال کا  مظہر
اگرملا بھی تو کوئی ترے سوانہ ملا
اگرملا بھی تو کوئی ترے سوانہ ملا
وہ اوجِ ہمتِ عالی،وہ شانِ فقرِ غیور
وہ اوجِ ہمتِ عالی،وہ شانِ فقرِ غیور
کہ سرکشوں سے باندازِ  ُخسروانہ ملا
کہ سرکشوں سے باندازِ  ُخسروانہ ملا
وہ دشمنوں سے مدارا،وہ دوستوں پہ کرم
وہ دشمنوں سے مدارا،وہ دوستوں پہ کرم
بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا
بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا
زمین سے تابفلک جس کوجرأتِ پرواز
زمین سے تابفلک جس کوجرأتِ پرواز
وہ میرِ قافلہ وہ رہبرِیگانہ ملا
وہ میرِ قافلہ وہ رہبرِیگانہ ملا
بشر پہ جس کی نظر ہو،بشر کوتیرے سوا
بشر پہ جس کی نظر ہو،بشر کوتیرے سوا
کوئی بھی محرمِ اسرار کبریانہ ملا
کوئی بھی محرمِ اسرار کبریانہ ملا
خیالِ اہل جہاں تھا کہ انتہائے خودی
خیالِ اہل جہاں تھا کہ انتہائے خودی
حریمِ قُدس کو تجھ سا گریز پانہ ملا
حریمِ قُدس کو تجھ سا گریز پانہ ملا
نیازاُس کا،جبین اُس کی،اعتبار اُس کا
نیازاُس کا،جبین اُس کی،اعتبار اُس کا
وہ خوش نصیب جسے تیراآستانہ ملا
وہ خوش نصیب جسے تیراآستانہ ملا
درِحضور سے کیاکچھ ملانہ مجھ کو حفیظؔ
درِحضور سے کیاکچھ ملانہ مجھ کو حفیظؔ
نوائے شوق ملی،جذب عاشقانہ ملا
نوائے شوق ملی،جذب عاشقانہ ملا
 
t
 
حکیم حبیب الحسن حافظ سہسوانی
 
====حکیم حبیب الحسن حافظ سہسوانی====
 
(۷؍ جولائی۱۹۰۸ء سہسوان ضلع بدایوں…۷؍ جنوری ۱۹۷۷ء کراچی)
(۷؍ جولائی۱۹۰۸ء سہسوان ضلع بدایوں…۷؍ جنوری ۱۹۷۷ء کراچی)
خدا مجھے جو خود اپنی زباں عطاکردے
خدا مجھے جو خود اپنی زباں عطاکردے
تونطق مدحِ محمد کا حق اداکردے
تونطق مدحِ محمد کا حق اداکردے
مرے جنوں کو تلاش اس نگاہِ دوست کی ہے
مرے جنوں کو تلاش اس نگاہِ دوست کی ہے
جوایک آن میں مٹی کوکیمیا کردے
جوایک آن میں مٹی کوکیمیا کردے
رسا اگر جومری فکرنارسا ہوکبھی
رسا اگر جومری فکرنارسا ہوکبھی
توفرطِ شکرٔ حدودِ بیاں فناکردے
توفرطِ شکرٔ حدودِ بیاں فناکردے
درود اُس دُر یکتائے دورِ تکویں پر
درود اُس دُر یکتائے دورِ تکویں پر
جوعلم وامن سے عالم کو پُر ضیا کردے
جوعلم وامن سے عالم کو پُر ضیا کردے
وہ اتفاق سے آجائیں سامنے حافظ
وہ اتفاق سے آجائیں سامنے حافظ
تڑپ تڑپ کے تڑپنے کی انتہا کردے
تڑپ تڑپ کے تڑپنے کی انتہا کردے
-
-
فریب خوردۂ عصیاں اب اور کیا کرتا
فریب خوردۂ عصیاں اب اور کیا کرتا
بس ان کے در پہ شفاعت کی التجا کرتا
بس ان کے در پہ شفاعت کی التجا کرتا
مری زبان وقلم میں کہاں بساط اتنی  
مری زبان وقلم میں کہاں بساط اتنی  
جوشانِ حضرت اقدس میں کچھ کہا کرتا
جوشانِ حضرت اقدس میں کچھ کہا کرتا
وہ اپنی یاد کے ہمراہ خود جو آجاتے
وہ اپنی یاد کے ہمراہ خود جو آجاتے
تومیں بھی اپنے تڑپنے کی انتہا کرتا
تومیں بھی اپنے تڑپنے کی انتہا کرتا
سرِ نیاز کو قدموں پہ رکھ کے رودیتا
سرِ نیاز کو قدموں پہ رکھ کے رودیتا
غریب ومعصیت آلود اورکیا کرتا
غریب ومعصیت آلود اورکیا کرتا
درود اتنے کہ جن کا شمار ہو نہ سکے
درود اتنے کہ جن کا شمار ہو نہ سکے
سلام اتنے کہ ہر سانس پر ادا کرتا
سلام اتنے کہ ہر سانس پر ادا کرتا
فلک سے لا کے ستاروں کو فرشِ رہ کرتا
فلک سے لا کے ستاروں کو فرشِ رہ کرتا
 
جومیرا وقت مرے ساتھ کچھ وفا کرتا
 
جومیرا وقت مرے ساتھ کچھ وفا کرتا
 
فوارے خون کے بہتے ہراک بُنِ موسے
فوارے خون کے بہتے ہراک بُنِ موسے
نمازِ عشق انوکھی طرح اداکرتا
نمازِ عشق انوکھی طرح اداکرتا
فراغ ملتی جوفکرِ معاش سے حافظ
فراغ ملتی جوفکرِ معاش سے حافظ
تو میرا شوق خدا جانے کیا سے کیا کرتا
تو میرا شوق خدا جانے کیا سے کیا کرتا
 
t
 
حکیم محمود احمد برکاتی
====حکیم محمود احمد برکاتی====
 
(۱۹۲۴ء ، ریاست ٹونک … ۹؍جنوری ۲۰۱۳ء، کراچی)
(۱۹۲۴ء ، ریاست ٹونک … ۹؍جنوری ۲۰۱۳ء، کراچی)
یہ آلودہ دامن یہ آنکھوں کا ساون یہ قلبِ تپاں کی لگاتار دھڑکن
یہ آلودہ دامن یہ آنکھوں کا ساون یہ قلبِ تپاں کی لگاتار دھڑکن
مرے ہم وطن بھی یہی تھے،یہی ہیں مرے ہم سفر اے خدائے محمد
مرے ہم وطن بھی یہی تھے،یہی ہیں مرے ہم سفر اے خدائے محمد
میں احرام برددش وسودا بسر ایک نازک دورا ہے پہ حیراں کھڑا ہوں
میں احرام برددش وسودا بسر ایک نازک دورا ہے پہ حیراں کھڑا ہوں
یہ مکے کا رستہ یہ طیبہ کا رستہ میں جاؤں کدھر اے خدائے محمد
یہ مکے کا رستہ یہ طیبہ کا رستہ میں جاؤں کدھر اے خدائے محمد
یہ کعبہ،یہ روضہ رہیں اب مرے سامنے عمر بھراے خدائے محمد
یہ کعبہ،یہ روضہ رہیں اب مرے سامنے عمر بھراے خدائے محمد
جدائی کی بے درد صدیاں نہ آئیں کبھی لوٹ کراے خدائے محمد
جدائی کی بے درد صدیاں نہ آئیں کبھی لوٹ کراے خدائے محمد
دکھایا ہے بندہ نوازی سے تونے جو یہ اپنا دراے خدائے محمد
دکھایا ہے بندہ نوازی سے تونے جو یہ اپنا دراے خدائے محمد
توہی اب دعاؤں کو بھی مرحمت کرقبول واثر اے خدائے محمد
توہی اب دعاؤں کو بھی مرحمت کرقبول واثر اے خدائے محمد
یہ کعبہ یہ زمزم یہ صحن حرم یہ مطاف ومقام ودروبام ومسعی
یہ کعبہ یہ زمزم یہ صحن حرم یہ مطاف ومقام ودروبام ومسعی
مجھے توہرایک چیز دیکھی ہوئی آرہی ہے نظراے خدائے محمد
مجھے توہرایک چیز دیکھی ہوئی آرہی ہے نظراے خدائے محمد
مجھے تو مدینے کی گلیوں میں آکر وہ راحت وہ فرحت وہ ٹھنڈک ملی ہے
مجھے تو مدینے کی گلیوں میں آکر وہ راحت وہ فرحت وہ ٹھنڈک ملی ہے
کوئی آگیا جیسے پردیس سے لوٹ کر اپنے گھر اے خدائے محمد
کوئی آگیا جیسے پردیس سے لوٹ کر اپنے گھر اے خدائے محمد
بشر آج تک تونے ایسانہ پیدا کیاہے نہ آئندہ پیداکرے گا
بشر آج تک تونے ایسانہ پیدا کیاہے نہ آئندہ پیداکرے گا
عقیدہ مرابھی یہی ہے بشرہے وہ خیر البشر اے خدائے محمد
عقیدہ مرابھی یہی ہے بشرہے وہ خیر البشر اے خدائے محمد
 
t
 
حکیم ناصر
 
====حکیم ناصر====
 
(۱۹۴۶ء اجمیر …۲۸؍جولائی ۲۰۰۷ء کراچی)
(۱۹۴۶ء اجمیر …۲۸؍جولائی ۲۰۰۷ء کراچی)
محشر میں دکھا دے کوئی ایوانِ محمد
محشر میں دکھا دے کوئی ایوانِ محمد
ہیں تشنۂِ دیدار غلامانِ محمد
ہیں تشنۂِ دیدار غلامانِ محمد
میں اُن کی بتائی ہوئی راہوں پہ چلوں گا
میں اُن کی بتائی ہوئی راہوں پہ چلوں گا
قرآن ہے میرے لیے فرمانِ محمد
قرآن ہے میرے لیے فرمانِ محمد
وہ آگ میں واللہ نہ دوزخ کی جلے گا
وہ آگ میں واللہ نہ دوزخ کی جلے گا
جس دل میںہو تھوڑا سا بھی ایمانِ محمد
جس دل میںہو تھوڑا سا بھی ایمانِ محمد
واقف نہیں جنت کے مکیں دورِخزاں سے
واقف نہیں جنت کے مکیں دورِخزاں سے
پھولوں سے مہکتا ہے گلستانِ محمد
پھولوں سے مہکتا ہے گلستانِ محمد
بخشش کا وسیلہ بھی یہی سب سے بڑا ہے
بخشش کا وسیلہ بھی یہی سب سے بڑا ہے
چھوڑوں گا سرحشرِ نہ دامانِ محمد
چھوڑوں گا سرحشرِ نہ دامانِ محمد
وہ چھاؤں میں رحمت ہی کی تاعمر رہے گا
وہ چھاؤں میں رحمت ہی کی تاعمر رہے گا
ہوجائے عطاجس کوبھی عرفانِ محمد
ہوجائے عطاجس کوبھی عرفانِ محمد
دنیا میں جو شہرت ملی اس نعت کو ناصرؔ
دنیا میں جو شہرت ملی اس نعت کو ناصرؔ
یہ بھی ہے بلاشبہ اک احسانِ محمد
یہ بھی ہے بلاشبہ اک احسانِ محمد
 
t
 
 
حمایت علی شاعرؔ
حمایت علی شاعرؔ
(۱۴؍جولائی ۱۹۳۰ء،اورنگ آباد، حیدرآباد دکن)
(۱۴؍جولائی ۱۹۳۰ء،اورنگ آباد، حیدرآباد دکن)
وہ ذات شہر علم تو ہم طالبانِ علم  
وہ ذات شہر علم تو ہم طالبانِ علم  
ہم ذرہ ہائے خاک ہیں وہ آسمانِ علم
ہم ذرہ ہائے خاک ہیں وہ آسمانِ علم
ہم کیا ہیں ایک لفظ ، معانی سے بے خبر
ہم کیا ہیں ایک لفظ ، معانی سے بے خبر
ہم کیا سمجھ سکیں گے رموز  جہانِ علم
ہم کیا سمجھ سکیں گے رموز  جہانِ علم
سوچا تو ہم ہیں کب سے اساطیر کے اسیر
سوچا تو ہم ہیں کب سے اساطیر کے اسیر
کب سے ہے اپنے جہل پہ ہم کو گمانِ علم
کب سے ہے اپنے جہل پہ ہم کو گمانِ علم
قرآں ہے اس کے نطق کا اک زندہ معجزہ
قرآں ہے اس کے نطق کا اک زندہ معجزہ
اقراء سے تابہ آیت آخر، زبانِ علم
اقراء سے تابہ آیت آخر، زبانِ علم
اسرارِ کائنات کا عقدہ کشا وہی
اسرارِ کائنات کا عقدہ کشا وہی
وہ راز دانِ وسعت کون و مکانِ علم
وہ راز دانِ وسعت کون و مکانِ علم
ہم جستجو حق میں رواں اس کے سائے سائے  
ہم جستجو حق میں رواں اس کے سائے سائے  
ہم کو اسی کے نقشِ کف پا، نشانِ علم
ہم کو اسی کے نقشِ کف پا، نشانِ علم
 
t
 
 
-
-
نظم’’محاسبہ‘‘
نظم’’محاسبہ‘‘
(بحضورسرورِ کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم)
(بحضورسرورِ کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم)
حضور ! آپ کی اُمّت کا ایک فردہوں میں  
حضور ! آپ کی اُمّت کا ایک فردہوں میں  
مگر خود اپنی نگاہوں میں آج گرد ہوں میں  
مگر خود اپنی نگاہوں میں آج گرد ہوں میں  
میں کس زباں سے کروں ذکرِ اُسوۂ حسنہ  
میں کس زباں سے کروں ذکرِ اُسوۂ حسنہ  
کہ اہلِ درک وبصیرت ،نہ اہلِ درد ہوں میں
کہ اہلِ درک وبصیرت ،نہ اہلِ درد ہوں میں
میں کس قلم سے لکھوں سرخیِ حکایتِ عشق  
میں کس قلم سے لکھوں سرخیِ حکایتِ عشق  
کہ رنگ دیکھ کے اپنے لہو کازرد ہوں میں
کہ رنگ دیکھ کے اپنے لہو کازرد ہوں میں
سمجھ سکوں گا میں کیا سرِ نکتۂ معراج  
سمجھ سکوں گا میں کیا سرِ نکتۂ معراج  
شکست خوردۂ دنیائے گرم و سرد ہوں میں  
شکست خوردۂ دنیائے گرم و سرد ہوں میں  
بہ زعمِ خود تو بہت منزل آشنا ہوں مگر  
بہ زعمِ خود تو بہت منزل آشنا ہوں مگر  
جو راستے ہی میں اُڑتی پھرے وہ گرد ہوں میں  
جو راستے ہی میں اُڑتی پھرے وہ گرد ہوں میں  
عجیب ذوقِ سفر ہے کہ صورتِ پرکار
عجیب ذوقِ سفر ہے کہ صورتِ پرکار
جو اپنے گرد ہی گھومے وہ رہ نورد ہوں میں
جو اپنے گرد ہی گھومے وہ رہ نورد ہوں میں
دہائیوں سے نچوڑا تھا جس اکائی کو
دہائیوں سے نچوڑا تھا جس اکائی کو
اب اُس اکائی سے آمادۂ نبرد ہوں میں
اب اُس اکائی سے آمادۂ نبرد ہوں میں
بچھا رکھی ہے جو اِک دستِ مکر نے ہرسو
بچھا رکھی ہے جو اِک دستِ مکر نے ہرسو
اُسی بساطِ سیاست پہ ایک نرد ہوں میں
اُسی بساطِ سیاست پہ ایک نرد ہوں میں
میں اپنی ذات میں ہوں اپنی قوم کی تصویر  
میں اپنی ذات میں ہوں اپنی قوم کی تصویر  
کہ بے عمل ہی نہیں جہل میں بھی فرد ہوں میں
کہ بے عمل ہی نہیں جہل میں بھی فرد ہوں میں
حضور ! آپ نے چاہا تھا کیا ، ہوا کیا ہے
حضور ! آپ نے چاہا تھا کیا ، ہوا کیا ہے
مگر میں سوچ رہا ہوں مری خطا کیا ہے
مگر میں سوچ رہا ہوں مری خطا کیا ہے
فقط تلاوتِ الفاظ میرا سرمایہ
فقط تلاوتِ الفاظ میرا سرمایہ
پسِ حروف ہے کیا ؟کب مجھے نظر آیا
پسِ حروف ہے کیا ؟کب مجھے نظر آیا
کہی تھی آپ نے جو بات استعاروں میں  
کہی تھی آپ نے جو بات استعاروں میں  
مِرا شعور کب اُس کا سفیر بن پایا
مِرا شعور کب اُس کا سفیر بن پایا
نہ میں سوچا کہ شق القمر میں رمز ہے کیا
نہ میں سوچا کہ شق القمر میں رمز ہے کیا
مِری گرفت میں کس طرح آفتاب آیا
مِری گرفت میں کس طرح آفتاب آیا
سوادِ غیب سے جبریل کی صدا نے مجھے
سوادِ غیب سے جبریل کی صدا نے مجھے
سماعتوں کے کس ادراک پر ہے اُکسایا
سماعتوں کے کس ادراک پر ہے اُکسایا
نہ میں نے جانا کہ اِک عکسِ لاشعور بھی ہے  
نہ میں نے جانا کہ اِک عکسِ لاشعور بھی ہے  
جو حرف و صوت کی صورت ہے میرا ہم سایہ
جو حرف و صوت کی صورت ہے میرا ہم سایہ
میں اپنی ذات میں کس طرح ایک عالم ہوں؟  
میں اپنی ذات میں کس طرح ایک عالم ہوں؟  
سمجھ سکی نہ کبھی میری فکرِ کم مایہ
سمجھ سکی نہ کبھی میری فکرِ کم مایہ
نہ میرا عشق ہے میرے یقین کا حاصل  
نہ میرا عشق ہے میرے یقین کا حاصل  
نہ میری عقل ہے میرے جنوں کی ہم پایہ
نہ میری عقل ہے میرے جنوں کی ہم پایہ
وہی عقائدِ افسوں زدہ ، وہی اسطور  
وہی عقائدِ افسوں زدہ ، وہی اسطور  
بدل کے شکل مری عقل کے ہیں ہم سایہ
بدل کے شکل مری عقل کے ہیں ہم سایہ
کُھلے تو کیسے کُھلے مجھ پہ معنیٔ اقرا  
کُھلے تو کیسے کُھلے مجھ پہ معنیٔ اقرا  
کہ میرے علم پہ ہے میرے جہل کاسایہ
کہ میرے علم پہ ہے میرے جہل کاسایہ
نہ میںنے سوچا کہ قرآں کا مدعا کیا ہے
نہ میںنے سوچا کہ قرآں کا مدعا کیا ہے
عروجِ آدمِ خاکی کی انتہا کیا ہے
عروجِ آدمِ خاکی کی انتہا کیا ہے
میں بُت پرست نہیں ہوں پہ بُت شکن بھی نہیں
میں بُت پرست نہیں ہوں پہ بُت شکن بھی نہیں
وہ مردِ تیشہ بکف ہوں جو کوہ کن بھی نہیں
وہ مردِ تیشہ بکف ہوں جو کوہ کن بھی نہیں
میں کس کے نام لکھوں یہ ستم کہ اہلِ کرم  
میں کس کے نام لکھوں یہ ستم کہ اہلِ کرم  
فقیہ و صوفی و ملا ہیں ، برہمن بھی نہیں
فقیہ و صوفی و ملا ہیں ، برہمن بھی نہیں
میں ایک چہرہ تھا اور اب ہزار چہرہ ہوں  
میں ایک چہرہ تھا اور اب ہزار چہرہ ہوں  
اب اعتبار کے قابل مرا سخن بھی نہیں
اب اعتبار کے قابل مرا سخن بھی نہیں
میں روشنی کے بہت خواب دیکھتا ہوں مگر
میں روشنی کے بہت خواب دیکھتا ہوں مگر
اُس انجمن میںجہاں شمعِ انجمن بھی نہیں
اُس انجمن میںجہاں شمعِ انجمن بھی نہیں
میں فکرِ بوذرؓ و صبرِ حسینؓ کا ورثہ
میں فکرِ بوذرؓ و صبرِ حسینؓ کا ورثہ
گنوا چکاہوں تو ماتھے پہ اِک شکن بھی نہیں
گنوا چکاہوں تو ماتھے پہ اِک شکن بھی نہیں
میں چل رہاہوں کسی پیرِ تسمہ پا کی طرح
میں چل رہاہوں کسی پیرِ تسمہ پا کی طرح
اگر چہ پاؤں میں میرے کوئی رسن بھی نہیں
اگر چہ پاؤں میں میرے کوئی رسن بھی نہیں
مرا وجود ہے سنگِ مزار کی مانند  
مرا وجود ہے سنگِ مزار کی مانند  
کہ میرے ساتھ مری روح کیا ،بدن بھی نہیں
کہ میرے ساتھ مری روح کیا ،بدن بھی نہیں
میں شہرِ علم سے منسوب کیا کروں خود کو
میں شہرِ علم سے منسوب کیا کروں خود کو
کسی کتاب کاسایہ مرا کفن بھی نہیں
کسی کتاب کاسایہ مرا کفن بھی نہیں
کہا گیا جسے قرآں میں بندۂ مؤمن  
کہا گیا جسے قرآں میں بندۂ مؤمن  
وہ میں تو کیا ،کہ مراکوئی ہم وطن بھی نہیں  
وہ میں تو کیا ،کہ مراکوئی ہم وطن بھی نہیں  
ہر اُمّتی کی یہ فردِ عمل ہے کیا کیجے
ہر اُمّتی کی یہ فردِ عمل ہے کیا کیجے
حضور ! آپ ہی ہم سب کا فیصلہ کیجے
حضور ! آپ ہی ہم سب کا فیصلہ کیجے
 
t
 
حمیدہ کششؔ
====حمیدہ کششؔ====
(یکم جنوری ۱۹۸۲ء کراچی)
 
 
(یکم جنوری ۱۹۸۲ء کراچی)
 
 
مجھے جب بھی مدینے کی فضائیں یاد آتی ہیں
مجھے جب بھی مدینے کی فضائیں یاد آتی ہیں
دلِ مجبور کی ساری دعائیں یاد آتی ہیں
دلِ مجبور کی ساری دعائیں یاد آتی ہیں
نجانے کیوں مجھے یہ نفسا نفسی دیکھ کر اکثر
نجانے کیوں مجھے یہ نفسا نفسی دیکھ کر اکثر
سبھی اصحابِ آقاؐ کی وفائیں یاد آتی ہیں
سبھی اصحابِ آقاؐ کی وفائیں یاد آتی ہیں
زیارت کی تمنا ہے مرے دل میں ہمیشہ سے
زیارت کی تمنا ہے مرے دل میں ہمیشہ سے
قدم اُٹھتے نہیں جب بھی خطائیں یاد آتی ہیں
قدم اُٹھتے نہیں جب بھی خطائیں یاد آتی ہیں
شفائیں ہی شفائیں ہیں سنا ہے پاک زم زم میں
شفائیں ہی شفائیں ہیں سنا ہے پاک زم زم میں
مریضِ عشق کی خاطر شفائیں یاد آتی ہیں
مریضِ عشق کی خاطر شفائیں یاد آتی ہیں
نبیؐؐ کی خاکِ پا ، خاکِ شفا کا درجہ رکھتی ہے
نبیؐؐ کی خاکِ پا ، خاکِ شفا کا درجہ رکھتی ہے
مجھے روحانیت کی وہ دوائیں یاد آتی ہیں
مجھے روحانیت کی وہ دوائیں یاد آتی ہیں
مرے آقاؐ تو سن لیتے ہیں خاموشی کی آوازیں
مرے آقاؐ تو سن لیتے ہیں خاموشی کی آوازیں
کبھی جو دل نے کی تھیں التجائیں یاد آتی ہیں
کبھی جو دل نے کی تھیں التجائیں یاد آتی ہیں
سنا ہے نور کی بارش برستی ہے مدینے میں
سنا ہے نور کی بارش برستی ہے مدینے میں
حمیدہؔ کو وہ رحمت کی گھٹائیں یاد آتی ہیں
حمیدہؔ کو وہ رحمت کی گھٹائیں یاد آتی ہیں
 
t
 
حنیف حسین رضوی
 
====حنیف حسین رضوی====
 
(۱۹۱۵ء امروہہ انڈیا…۱۴؍مارچ ۱۹۹۶ء کراچی)
(۱۹۱۵ء امروہہ انڈیا…۱۴؍مارچ ۱۹۹۶ء کراچی)
کس طرف جاؤں کہیں میرا گزار اہی نہیں  
کس طرف جاؤں کہیں میرا گزار اہی نہیں  
آپ کے در کے سوا کوئی سہارا ہی نہیں
آپ کے در کے سوا کوئی سہارا ہی نہیں
شیخ کے ساتھ میں جنت کو چلوں تو لیکن
شیخ کے ساتھ میں جنت کو چلوں تو لیکن
درِ سرکار کو چھوڑوں یہ گوارا ہی نہیں
درِ سرکار کو چھوڑوں یہ گوارا ہی نہیں
قافلے جاتے ہیں ہر سال مدینے،ہائے
قافلے جاتے ہیں ہر سال مدینے،ہائے
نہیں چمکا مری قسمت کا ستارا ہی نہیں
نہیں چمکا مری قسمت کا ستارا ہی نہیں
وقفِ آلام رہے آپ کا شیدا ہوکر
وقفِ آلام رہے آپ کا شیدا ہوکر
یہ تو سرکارِ دوعالم کو گوارا ہی نہیں
یہ تو سرکارِ دوعالم کو گوارا ہی نہیں
آسرا سب کوہے محشر میں محمد کا حنیفؔ!
آسرا سب کوہے محشر میں محمد کا حنیفؔ!
اور نبیوں میں کوئی ایسادُلارا ہی نہیں
اور نبیوں میں کوئی ایسادُلارا ہی نہیں
 
t
 
حیات النبی رضوی، سیّد
 
==== حیات النبی رضوی، سیّد====
 
(۱۲؍جولائی ۱۹۴۱۔امروہہ،یوپی)
(۱۲؍جولائی ۱۹۴۱۔امروہہ،یوپی)
 
ایک رستہ بے ضرر پہچانیے
 
ایک رستہ بے ضرر پہچانیے
 
مصطفی کی رہ گزر پہچانیے
مصطفی کی رہ گزر پہچانیے
ایک اُمی ایک دنیا زیرپا
ایک اُمی ایک دنیا زیرپا
انقلابِ راہبر پہچانیے
انقلابِ راہبر پہچانیے
فہم انساں کا محرک تھا سفر
فہم انساں کا محرک تھا سفر
حرمتِ زنجیر در پہچانیے
حرمتِ زنجیر در پہچانیے
رہتی دنیا تک رہے گا رہنما
رہتی دنیا تک رہے گا رہنما
آمنہ ! نور نظر پہچانیے
آمنہ ! نور نظر پہچانیے
خدمت اقدس میں دونوں ایک ہیں  
خدمت اقدس میں دونوں ایک ہیں  
وہ علی ہے یہ عمر پہچانیے
وہ علی ہے یہ عمر پہچانیے
درد کا درماں نبی کی ذات ہے
درد کا درماں نبی کی ذات ہے
دوستو!وہ سنگ در پہچانیے
دوستو!وہ سنگ در پہچانیے
ہم کو اپنی جاں سے بڑھ کر ہیں نبی
ہم کو اپنی جاں سے بڑھ کر ہیں نبی
دل کی دنیا کا سفر پہچانیے
دل کی دنیا کا سفر پہچانیے
ذکر وفکر مصطفی شب تاسحر
ذکر وفکر مصطفی شب تاسحر
نورشب نور سحر پہچانیے
نورشب نور سحر پہچانیے
نام لیوا ہے حیاتِؔ بے اماں
نام لیوا ہے حیاتِؔ بے اماں
چارہ ساز و چارہ گر پہچانیے
چارہ ساز و چارہ گر پہچانیے
 
t
 
خالدؔ شمس الحسن
 
====خالدؔ شمس الحسن====
 
(۱۹۲۶ء دہلی…۳۰؍جون ۱۹۹۵ء کراچی)
(۱۹۲۶ء دہلی…۳۰؍جون ۱۹۹۵ء کراچی)
نازشِ رحمتِ کبریا ہیں یہی
نازشِ رحمتِ کبریا ہیں یہی
صاحبِ فیض ولطف وعطا ہیں یہی
صاحبِ فیض ولطف وعطا ہیں یہی
مصطفی ہیں، حبیب خدا ہیں یہی
مصطفی ہیں، حبیب خدا ہیں یہی
عاصیوں کے لیے آسرا ہیں یہی
عاصیوں کے لیے آسرا ہیں یہی
ہیں یہی وجہ تخلیق کون ومکاں
ہیں یہی وجہ تخلیق کون ومکاں
کُن سے پہلے جو تھی وہ صدا ہیں یہی
کُن سے پہلے جو تھی وہ صدا ہیں یہی
سب سے اعلیٰ وافضل ہے ذاتِ خدا
سب سے اعلیٰ وافضل ہے ذاتِ خدا
ہر فضیلت میں بعداز خدا ہیں یہی
ہر فضیلت میں بعداز خدا ہیں یہی
نور سے جس کے روشن ہیں شمس وقمر
نور سے جس کے روشن ہیں شمس وقمر
وہ ہدایت کاروشن دیا ہیں یہی
وہ ہدایت کاروشن دیا ہیں یہی
میں نہ چھوڑوں گا خالدؔ درمصطفی
میں نہ چھوڑوں گا خالدؔ درمصطفی
میرے آقا ہیں مشکل کشا ہیں یہی
میرے آقا ہیں مشکل کشا ہیں یہی
 
t
 
خالد علیگ
 
 
====خالد علیگ====
 
(۱۹۲۳ء فرخ آباد … ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کراچی)
(۱۹۲۳ء فرخ آباد … ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کراچی)
السلام اے رونقِ افزائے گلزارِ جہاں
السلام اے رونقِ افزائے گلزارِ جہاں
السلام اے بے مثال و بے نظیر و بے کراں
السلام اے بے مثال و بے نظیر و بے کراں
السلام اے ماورائے گردشِ لیل و نہار
السلام اے ماورائے گردشِ لیل و نہار
السلام اے زینتِ زیبائشِ کون و مکاں  
السلام اے زینتِ زیبائشِ کون و مکاں  
السلام اے ابرِ رحمت بہرِ کشت و مرغزار
السلام اے ابرِ رحمت بہرِ کشت و مرغزار
السلام اے چہرۂ انوار فترت آشکار
السلام اے چہرۂ انوار فترت آشکار
السلام اے فطرتِ زندہ کی تخلیقِ حسیں  
السلام اے فطرتِ زندہ کی تخلیقِ حسیں  
السلام اے شاعرِ آزاد کی فکرِ حسیں
السلام اے شاعرِ آزاد کی فکرِ حسیں
السلام اے خالقِ عالم کے سادہ شاہکار
السلام اے خالقِ عالم کے سادہ شاہکار
  السلام اے بے نیازِ ہر دوعالم السلام  
  السلام اے بے نیازِ ہر دوعالم السلام  
السلام اے قاطعِ ہر جہل ِخاص وجہل ِ عام
السلام اے قاطعِ ہر جہل ِخاص وجہل ِ عام
روشنی تیرا تکلم ، روشنی تیرا کلام
روشنی تیرا تکلم ، روشنی تیرا کلام
السلام اے خاتمِ ہستی کے تابندہ نگیں
السلام اے خاتمِ ہستی کے تابندہ نگیں
السلامِ رحمتِ کل رحمت اللعالمیں
السلامِ رحمتِ کل رحمت اللعالمیں
تجھ سے جو بیگانہ ہے واللہ وہ انساں نہیں
تجھ سے جو بیگانہ ہے واللہ وہ انساں نہیں
-
-
کہیں پھول بن کر برستے ہیں پتھر
کہیں پھول بن کر برستے ہیں پتھر
کہیں خون آلود چادر ہے تن پر
کہیں خون آلود چادر ہے تن پر
چلے بھی تو راہوںمیں کانٹے بچھائے
چلے بھی تو راہوںمیں کانٹے بچھائے
ستم جھیل کر بھی سدا مسکرائے
ستم جھیل کر بھی سدا مسکرائے
وہ چاہیں تو کٹ جائے ماہِ منور
وہ چاہیں تو کٹ جائے ماہِ منور
وہ چاہیں تو تھم جائے نبضِ گلِ تر
وہ چاہیں تو تھم جائے نبضِ گلِ تر
نہ نفرت نہ کینہ نہ بغض و عداوت
نہ نفرت نہ کینہ نہ بغض و عداوت
لبوں پر دعائیں ہیں درسِ عنایت
لبوں پر دعائیں ہیں درسِ عنایت
لگائی گئی جب غلاموں� پہ تہمت
لگائی گئی جب غلاموں� پہ تہمت
ہوئی ساری دنیامیں رسوا شرافت  
ہوئی ساری دنیامیں رسوا شرافت  
مگر پھر رسالت کو آیا جلال
مگر پھر رسالت کو آیا جلال
بنے وہ غریبوں ، یتیموں کی ڈھال
بنے وہ غریبوں ، یتیموں کی ڈھال
مظالم کوروکاتھا اکثر نبی نے
مظالم کوروکاتھا اکثر نبی نے
سمیٹایتیموں کو بڑھ کر نبی نے
سمیٹایتیموں کو بڑھ کر نبی نے
بچھائے اُجالے ، مٹائی جہالت
بچھائے اُجالے ، مٹائی جہالت
رسولِ خدا کی ہے جدّت روایت
رسولِ خدا کی ہے جدّت روایت
 
t
 
خالد معین
====خالد معین ====
 
 
(۳؍ جون ۱۹۲۴ء کراچی)
(۳؍ جون ۱۹۲۴ء کراچی)
یہی ہے زیست کاحاصل نظر میں رہ جاؤں
یہی ہے زیست کاحاصل نظر میں رہ جاؤں
تمہارا در نہ ملے تو سفر میں رہ جاؤں
تمہارا در نہ ملے تو سفر میں رہ جاؤں
تمہارا دستِ کرم جس گھڑی نہ ہومجھ پر
تمہارا دستِ کرم جس گھڑی نہ ہومجھ پر
عجب نہیں صفِ نامعتبر میں رہ جاؤں
عجب نہیں صفِ نامعتبر میں رہ جاؤں
میں اُڑ رہا ہوں تو یہ بھی کرم تمہارا ہے
میں اُڑ رہا ہوں تو یہ بھی کرم تمہارا ہے
اُلجھ کے ورنہ غمِ بال وپر میں رہ جاؤں
اُلجھ کے ورنہ غمِ بال وپر میں رہ جاؤں
 
طلب کے پھول جہاںسب رتوں میں کھلتے ہیں
 
طلب کے پھول جہاںسب رتوں میں کھلتے ہیں
 
میں مثلِ خاک اُسی رہ گزر میں رہ جاؤں
میں مثلِ خاک اُسی رہ گزر میں رہ جاؤں
خوشا وہ اسمِ محمد ، خوشا وہ بابِ یقیں
خوشا وہ اسمِ محمد ، خوشا وہ بابِ یقیں
میں کیسے غفلتِ شام و سحر میں رہ جاؤں
میں کیسے غفلتِ شام و سحر میں رہ جاؤں
اے کارِ عشق محمد ، یہ کم نہیں ہے مجھے
اے کارِ عشق محمد ، یہ کم نہیں ہے مجھے
تمام عمر میں تیرے اثر میں رہ جاؤں  
تمام عمر میں تیرے اثر میں رہ جاؤں  
 
t
 
خان آصف
 
====خان آصف====
 
(۱۹۴۰ء، رامپور…۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
(۱۹۴۰ء، رامپور…۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
جہاں بھی سلسلۂ قال وقیل ٹھہرے گا
جہاں بھی سلسلۂ قال وقیل ٹھہرے گا
تواپنے آپ ہی اپنی دلیل ٹھہرے گا
تواپنے آپ ہی اپنی دلیل ٹھہرے گا
شعورِ منزلِ انسانیت توآجائے
شعورِ منزلِ انسانیت توآجائے
ہرایک دور میں توسنگِ میل ٹھہرے گا
ہرایک دور میں توسنگِ میل ٹھہرے گا
عذابِ جاں کے فرشتے بھی خود عذاب میں ہیں
عذابِ جاں کے فرشتے بھی خود عذاب میں ہیں
سناہے جب سے تو میرا وکیل ٹھہرے گا
سناہے جب سے تو میرا وکیل ٹھہرے گا
جو بہہ گیاہے تیرے درد کے حوالے سے
جو بہہ گیاہے تیرے درد کے حوالے سے
وہ ایک اشک بھی وسعت میں نیل ٹھہرے گا
وہ ایک اشک بھی وسعت میں نیل ٹھہرے گا
 
t
 
خان معراج
 
 
====خان معراج====
 
(۱۰؍جون ۱۹۶۴ء، شاہجہانپور)
(۱۰؍جون ۱۹۶۴ء، شاہجہانپور)
پھیلا ہواہے ایک اجالا قدم قدم
پھیلا ہواہے ایک اجالا قدم قدم
کیا دلکش وحسیں ہے مدینہ قدم قدم
کیا دلکش وحسیں ہے مدینہ قدم قدم
طیبہ نگر اک ایسا نگر ہے کہ جس جگہ
طیبہ نگر اک ایسا نگر ہے کہ جس جگہ
ہے راحت وسکون کی دنیا قدم قدم
ہے راحت وسکون کی دنیا قدم قدم
درسِ نبی کو عام کریں حسنِ خلق سے
درسِ نبی کو عام کریں حسنِ خلق سے
اے دوست ہے یہ فرض ہمارا قدم قدم
اے دوست ہے یہ فرض ہمارا قدم قدم
میں بامراد درسے چلاہوں حضور کے
میں بامراد درسے چلاہوں حضور کے
احسان مند ہے دلِ شیدا قدم قدم
احسان مند ہے دلِ شیدا قدم قدم
آقا کی چشم لطف و کرم کا یہ فیض ہے
آقا کی چشم لطف و کرم کا یہ فیض ہے
اتنی سنور گئی ہے جو دنیا قدم قدم
اتنی سنور گئی ہے جو دنیا قدم قدم
طیبہ کی سمت جب میں چلاہوں ا ے دوستو!
طیبہ کی سمت جب میں چلاہوں ا ے دوستو!
دل نے دکھایا ہے مجھے رستہ قدم قدم
دل نے دکھایا ہے مجھے رستہ قدم قدم
 
منزل پراپنی پہنچا ہوں معراجؔ بے خطر
 
منزل پراپنی پہنچا ہوں معراجؔ بے خطر
 
رہبر ہوئے ہیں میرے جو آقا قدم قدم
رہبر ہوئے ہیں میرے جو آقا قدم قدم
 
t
 
خسروؔ فیروز ناطق
====خسروؔ فیروز ناطق====
 
(۱۹؍نومبر۱۹۴۴ء بدایوں)   
(۱۹؍نومبر۱۹۴۴ء بدایوں)   
وہ روشنی جو خزینے کے بیچ سے نکلی
وہ روشنی جو خزینے کے بیچ سے نکلی
فقط وہ ایک نگینے کے بیچ سے نکلی
فقط وہ ایک نگینے کے بیچ سے نکلی
متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن
متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن
حضور آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی
حضور آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی
چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اُس کا سفر
چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اُس کا سفر
وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی
وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی
دُعا جو حجرئہ اسود کو چُوم کر مانگی
دُعا جو حجرئہ اسود کو چُوم کر مانگی
قبولیت کے مہینے کے بیچ سے نکلی
قبولیت کے مہینے کے بیچ سے نکلی
وہ بُوئے ُگل کہ معطر ہے جس سے دل خسروؔ!
وہ بُوئے ُگل کہ معطر ہے جس سے دل خسروؔ!
مرے نبی کے پسینے کے بیچ سے نکلی
مرے نبی کے پسینے کے بیچ سے نکلی
 
t
-
-
کسی  سفینے  سے  پہنچے ‘  کسی  بھی  زینے  سے
کسی  سفینے  سے  پہنچے ‘  کسی  بھی  زینے  سے
دعا  کا  گہرا  تعلق  ہے  دل  سے‘  سینے  سے
دعا  کا  گہرا  تعلق  ہے  دل  سے‘  سینے  سے
گداگری  کے  بھی  آداب  کچھ  رکھو ملحوظ
گداگری  کے  بھی  آداب  کچھ  رکھو ملحوظ
جو مانگنا  ہو  وہ  مانگو  مگر  قرینے  سے
جو مانگنا  ہو  وہ  مانگو  مگر  قرینے  سے
میں  ایک  رندِ  بلا نوش  بر  لبِ  کوثر
میں  ایک  رندِ  بلا نوش  بر  لبِ  کوثر
غرض  انہیں  ہے  پلانے  سے  مجھ  کو  پینے  سے
غرض  انہیں  ہے  پلانے  سے  مجھ  کو  پینے  سے
نفس  نفس  میں  رچی  ہے  عجیب  سی  خوشبو
نفس  نفس  میں  رچی  ہے  عجیب  سی  خوشبو
لیا  ہے  روح  نے  اک  پیرہن  مدینے  سے
لیا  ہے  روح  نے  اک  پیرہن  مدینے  سے
درود  پڑھ  کے  جو  پھونکا  ہے  جسم  پر  خسروؔ!
درود  پڑھ  کے  جو  پھونکا  ہے  جسم  پر  خسروؔ!
مہک  گلاب  کی  آنے  لگی  پسینے  سے  
مہک  گلاب  کی  آنے  لگی  پسینے  سے  
 
t
 
خواجہ حمید الدین شاہدؔ
 
====خواجہ حمید الدین شاہدؔ====
 
(۴؍اکتوبر ۱۹۱۷ء حیدرآباد دکن…۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کراچی)
(۴؍اکتوبر ۱۹۱۷ء حیدرآباد دکن…۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کراچی)
دونوں عالم جان ودل سے ہیں فدائے مصطفی  
دونوں عالم جان ودل سے ہیں فدائے مصطفی  
کتنی سادہ کتنی دلکش ہے ادائے مصطفی  
کتنی سادہ کتنی دلکش ہے ادائے مصطفی  
زلفِ مشکیں باعثِ رّدِ بلائے دوجہاں
زلفِ مشکیں باعثِ رّدِ بلائے دوجہاں
سرمۂ چشمِ بصیرت خاکِ پائے مصطفی  
سرمۂ چشمِ بصیرت خاکِ پائے مصطفی  
آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کاہوں یانبی
آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کاہوں یانبی
ہو نہیں سکتاکسی کا آشنائے مصطفی  
ہو نہیں سکتاکسی کا آشنائے مصطفی  
اس سے بڑھ کراورکیا ہوگی عطائے کردگار
اس سے بڑھ کراورکیا ہوگی عطائے کردگار
لب پہ ہے نامِ نبی دل میں ولائے مصطفی  
لب پہ ہے نامِ نبی دل میں ولائے مصطفی  
بے نیاز قصروایواں دشمنِ جاہ وحشم  
بے نیاز قصروایواں دشمنِ جاہ وحشم  
فخرِ شاہاں رشکِ سلطاں ہے گدائے مصطفی
فخرِ شاہاں رشکِ سلطاں ہے گدائے مصطفی
شاہدؔ اس کی زندگانی  باعثِ صد رشک ہے
شاہدؔ اس کی زندگانی  باعثِ صد رشک ہے
ہرنفس کرتاہے دل سے جو ثنائے مصطفی
ہرنفس کرتاہے دل سے جو ثنائے مصطفی
 
t
 
 
-
-
عیاں ہے زمانے میں شانِ محمد
عیاں ہے زمانے میں شانِ محمد
دوعالم میں ’’ہرجا‘‘ نشانِ محمد
دوعالم میں ’’ہرجا‘‘ نشانِ محمد
خداودند عالم سے ہوتی ہیں باتیں  
خداودند عالم سے ہوتی ہیں باتیں  
زبانِ خدا ہے زبانِ محمد
زبانِ خدا ہے زبانِ محمد
محمد کی ہے دو جہاں میں خدائی
محمد کی ہے دو جہاں میں خدائی
جہانِ خدا ہے جہانِ محمد
جہانِ خدا ہے جہانِ محمد
کوئی میہماں کی یہ رفعت تو دیکھے
کوئی میہماں کی یہ رفعت تو دیکھے
خدا خود ہوا میزبانِ محمد
خدا خود ہوا میزبانِ محمد
یہی ہے عبادت یہی بندگی ہے  
یہی ہے عبادت یہی بندگی ہے  
مرا سر ہے اور آستانِ محمد
مرا سر ہے اور آستانِ محمد
خدا کے محمد ہی بس رازداں ہیں
خدا کے محمد ہی بس رازداں ہیں
خدا ہے فقط رازدانِ محمد
خدا ہے فقط رازدانِ محمد
کرے ناز کیا کوئی حسنِ بیان پر
کرے ناز کیا کوئی حسنِ بیان پر
نہیں سہل شاہدؔ بیانِ محمد
نہیں سہل شاہدؔ بیانِ محمد
 
t
====خواجہ ریاض حسن انورؔ====
خواجہ ریاض حسن انورؔ
 
(۱۰؍نومبر۱۹۴۱ء بہار…۱۲؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)
(۱۰؍نومبر۱۹۴۱ء بہار…۱۲؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)
مدّت سے ہم سخن ہیں ثناخوانِ مصطفی
مدّت سے ہم سخن ہیں ثناخوانِ مصطفی
لیکن عمل ہے حسبِ حریفانِ مصطفی
لیکن عمل ہے حسبِ حریفانِ مصطفی
رحمت میں بے حساب ہے پیارے نبی کی ذات
رحمت میں بے حساب ہے پیارے نبی کی ذات
وسعت میں بے کنار ہے دامانِ مصطفی
وسعت میں بے کنار ہے دامانِ مصطفی
کیا کچھ نہ خوبیاں تھیں محمد کی ذات میں  
کیا کچھ نہ خوبیاں تھیں محمد کی ذات میں  
یوں ہی نہیں ہے دہر ثناخوانِ مصطفی
یوں ہی نہیں ہے دہر ثناخوانِ مصطفی
اُمّت جو دوسروں کی تھی اُن پر بھی آشکار
اُمّت جو دوسروں کی تھی اُن پر بھی آشکار
فضلِ خدا ہوا تو بہ فیضانِ مصطفی
فضلِ خدا ہوا تو بہ فیضانِ مصطفی
رحمت ہے سر بلند اُسی ذاتِ پاک سے  
رحمت ہے سر بلند اُسی ذاتِ پاک سے  
جس سے ہیں روشناس بہ عنوانِ مصطفی
جس سے ہیں روشناس بہ عنوانِ مصطفی
 
آئے جھلک نہ حسنِ عقیدت سے شرک کی
 
آئے جھلک نہ حسنِ عقیدت سے شرک کی
 
اُلفت  میں  ہو  غلو  ، نہ  محبّانِِ  مصطفی
اُلفت  میں  ہو  غلو  ، نہ  محبّانِِ  مصطفی
یہ افتخار کم تو نہیں ہے کسی طرح
یہ افتخار کم تو نہیں ہے کسی طرح
انورؔ ! بھی ہے غلامِ غلامانِ مصطفی
انورؔ ! بھی ہے غلامِ غلامانِ مصطفی
 
t
 
خورشیداحمر
 
====خورشیداحمر====
 
  (۱۹۴۰ء کانپور)
  (۱۹۴۰ء کانپور)
نہ فلسفے سے نہ حکمت رسی ملتاہے  
نہ فلسفے سے نہ حکمت رسی ملتاہے  
خدا کا قرب توقربِ نبی سے ملتاہے
خدا کا قرب توقربِ نبی سے ملتاہے
ہجوم غم میں سکوں گرکسی سے ملتاہے
ہجوم غم میں سکوں گرکسی سے ملتاہے
وہ انبساط ثنائے نبی سے ملتاہے
وہ انبساط ثنائے نبی سے ملتاہے
بجھی تھی جس کی دعاؤں سے آتشِ نمرود
بجھی تھی جس کی دعاؤں سے آتشِ نمرود
یہ سلسلہ بھی حضور آپ ہی سے ملتاہے
یہ سلسلہ بھی حضور آپ ہی سے ملتاہے
وہ کربلا کی فغاں ہوکہ سوزوساز بلال
وہ کربلا کی فغاں ہوکہ سوزوساز بلال
مقامِ شوق توعشق نبی سے ملتاہے
مقامِ شوق توعشق نبی سے ملتاہے
درنبی سے جوملتاہے جامِ عرفانی
درنبی سے جوملتاہے جامِ عرفانی
مجھے سُرور اسی چاندنی سے ملتاہے
مجھے سُرور اسی چاندنی سے ملتاہے
کہاں یہ محفل نعتِ نبی کہاں خورشیدؔ
کہاں یہ محفل نعتِ نبی کہاں خورشیدؔ
یہ درجہ روح کی شائستگی سے ملتاہے
یہ درجہ روح کی شائستگی سے ملتاہے
-
-
پھر عشرت گویائی اے طبع رواں دے دے
پھر عشرت گویائی اے طبع رواں دے دے
سرکار دوعالم کی الفت کو زباں دے دے
سرکار دوعالم کی الفت کو زباں دے دے
مدحت کے لیے یارب وہ حسن بیاں دے دے
مدحت کے لیے یارب وہ حسن بیاں دے دے
جو قطرہ شبنم کودریا کا نشاں دے دے
جو قطرہ شبنم کودریا کا نشاں دے دے
اے ابر کرم میرے گلزارِ معانی کو
اے ابر کرم میرے گلزارِ معانی کو
نرگس کی نظر دے دے سوسن کی زباں دے دے
نرگس کی نظر دے دے سوسن کی زباں دے دے
بارش کی قبا دے دے سوکھے ہوئے پیڑوں کو  
بارش کی قبا دے دے سوکھے ہوئے پیڑوں کو  
عریانی صحرا کو احرام اذاں دے دے
عریانی صحرا کو احرام اذاں دے دے
دینے پہ اگر آئے وہ ذاتِ کرم گستر
دینے پہ اگر آئے وہ ذاتِ کرم گستر
اک اسمِ محمد پریہ دونوں جہاں دے دے
اک اسمِ محمد پریہ دونوں جہاں دے دے
مدت سے حضوری کا ارمان لیے دل ہے
مدت سے حضوری کا ارمان لیے دل ہے
اس خاکِ پریشاں کو منزل کا نشاں دے دے
اس خاکِ پریشاں کو منزل کا نشاں دے دے
 
t
 
خوشنودؔامروہوی
 
(۱۹۳۶ء امروہہ بھارت)
====خوشنودؔامروہوی====
 
(۱۹۳۶ء امروہہ بھارت)
 
اک معجزہ عجیب سا میری نظر میں ہے
اک معجزہ عجیب سا میری نظر میں ہے
کل کائنات جلوۂ خیرالبشر میں ہے
کل کائنات جلوۂ خیرالبشر میں ہے
ہو جس دُعا کے ساتھ وسیلہ درود کا
ہو جس دُعا کے ساتھ وسیلہ درود کا
مقبولیت کا تاج بھی  اس کے اثر میں ہے
مقبولیت کا تاج بھی  اس کے اثر میں ہے
کشتی ہو زیرِ سایۂ دامانِ مصطفیٰ
کشتی ہو زیرِ سایۂ دامانِ مصطفیٰ
توہر خطر سے دور وہ اپنے سفر میں ہے
توہر خطر سے دور وہ اپنے سفر میں ہے
موجودگی توآپ کی روشن دلیل ہے
موجودگی توآپ کی روشن دلیل ہے
نورالہدی ہے نور جو شمس وقمر میں ہے
نورالہدی ہے نور جو شمس وقمر میں ہے
وجہ بنائے دین بھی دنیا بھی آپ ہیں
وجہ بنائے دین بھی دنیا بھی آپ ہیں
رحمت ہے عالمین میں جن وبشر میں ہے
رحمت ہے عالمین میں جن وبشر میں ہے
تخلیقِ کائنات میںا ٓدم ہے سب کے بعد
تخلیقِ کائنات میںا ٓدم ہے سب کے بعد
لیکن ازل سے نور محمد نظر میں ہے
لیکن ازل سے نور محمد نظر میں ہے
 
t
 
دلاورعلی آزرؔ
 
====دلاورعلی آزرؔ====
 
(۲۱؍نومبر ۱۹۸۴ء حسن ابدال)
(۲۱؍نومبر ۱۹۸۴ء حسن ابدال)
درود پڑھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوئے لوگ
درود پڑھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوئے لوگ
درِنبی کی تب و تاب دیکھتے ہوئے لوگ
درِنبی کی تب و تاب دیکھتے ہوئے لوگ
حضور آپ کو سب سے قریب پاتے ہیں
حضور آپ کو سب سے قریب پاتے ہیں
احد کا حلقۂ احباب دیکھتے ہوئے لوگ
احد کا حلقۂ احباب دیکھتے ہوئے لوگ
تمام دیکھنے والوں پہ رکھتے ہیں سبقت
تمام دیکھنے والوں پہ رکھتے ہیں سبقت
وہ سبز گنبد و محراب دیکھتے ہوئے لوگ
وہ سبز گنبد و محراب دیکھتے ہوئے لوگ
اُنہی کے اِسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے
اُنہی کے اِسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے
پ
پسِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ
سِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ
 
 
یہ کس کے نور سے روشن ہے کائنات اُس کی
یہ کس کے نور سے روشن ہے کائنات اُس کی
یہ کون لوگ ہیں مہتاب دیکھتے ہوئے لوگ  
یہ کون لوگ ہیں مہتاب دیکھتے ہوئے لوگ  
خدا کا شکر اداکرتے ہیں دعائوں میں
خدا کا شکر اداکرتے ہیں دعائوں میں
جبینِ وقت پہ محراب دیکھتے ہوئے لوگ
جبینِ وقت پہ محراب دیکھتے ہوئے لوگ
بس اِک بلاوے کے محتاج میں سبھی آزرؔ!
بس اِک بلاوے کے محتاج میں سبھی آزرؔ!
سفر کے باندھ کے اسباب دیکھتے ہوئے لوگ
سفر کے باندھ کے اسباب دیکھتے ہوئے لوگ
 
t
 
دلاورفگار
 
====دلاورفگار====
 
(۸؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں،یوپی…۲۰؍جنوری۱۹۹۸ء، کراچی)
(۸؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں،یوپی…۲۰؍جنوری۱۹۹۸ء، کراچی)
جمال ماہ وانجم عارضِ احمد کی تابانی
جمال ماہ وانجم عارضِ احمد کی تابانی
طلوع صبح خنداں مصطفی کی خندہ پیشانی
طلوع صبح خنداں مصطفی کی خندہ پیشانی
محمد کی غلامی کرکے توبھی سیکھ جائے گا
محمد کی غلامی کرکے توبھی سیکھ جائے گا
جہاں بینی،جہاں گیری،جہاں داری،جہاں بانی
جہاں بینی،جہاں گیری،جہاں داری،جہاں بانی
رسول پاک کو عام آدمی سمجھے توکیا سمجھے
رسول پاک کو عام آدمی سمجھے توکیا سمجھے
قرائن سارے انسانی ،شمائل سارے سبحانی
قرائن سارے انسانی ،شمائل سارے سبحانی
زبان شوق پرنام محمد آگیا آخر
زبان شوق پرنام محمد آگیا آخر
بس اے بیتابی دل بس،یہیں تک تھی پریشانی
بس اے بیتابی دل بس،یہیں تک تھی پریشانی
مرے آقا نے اس حد تک بھراہے میرے داماں کو
مرے آقا نے اس حد تک بھراہے میرے داماں کو
جہاں تک ساتھ دے سکتی تھی میری تنگ دامانی
جہاں تک ساتھ دے سکتی تھی میری تنگ دامانی
سفر میںا ٓخرت کے اور زادِ راہ کیا لیجیے
سفر میںا ٓخرت کے اور زادِ راہ کیا لیجیے
بہت ہے دیدۂ گریاں میں اک اشک پشیمانی
بہت ہے دیدۂ گریاں میں اک اشک پشیمانی
نظر جب مصحف رُخ پرپڑی،جبریل نے دیکھا
نظر جب مصحف رُخ پرپڑی،جبریل نے دیکھا
لکھی ہیں عارض پرنور پر آیات قرآنی
لکھی ہیں عارض پرنور پر آیات قرآنی
قیامت میں فگارِ بے نوا کی دستگیری کو
قیامت میں فگارِ بے نوا کی دستگیری کو
بہت ہے ایک نظم مختصر کی نعت عنوانی
بہت ہے ایک نظم مختصر کی نعت عنوانی
 
-
 
 
نعتے کہ رقم کردی درشانِ محمد
نعتے کہ رقم کردی درشانِ محمد
اعجازِ قلم اَست بہ فیضانِ محمد
اعجازِ قلم اَست بہ فیضانِ محمد
مایوس مباش اے گل پامال وفسردہ
مایوس مباش اے گل پامال وفسردہ
اُمید بہار است زبارانِ محمد
اُمید بہار است زبارانِ محمد
ماراچہ محابا زگراں باریِٔ عصیاں
ماراچہ محابا زگراں باریِٔ عصیاں
اعمال سپردیم بہ میزانِ محمد
اعمال سپردیم بہ میزانِ محمد
اے سالکِ حق ترک مُکن راہِ طریقت
اے سالکِ حق ترک مُکن راہِ طریقت
عرفانِ خدااست زعرفانِ محمد
عرفانِ خدااست زعرفانِ محمد
انسان ونباتات وجمادات چہ معنی
انسان ونباتات وجمادات چہ معنی
خود جنِ وملک تابع فرمانِ محمد
خود جنِ وملک تابع فرمانِ محمد
تشریح مقاماتِ محمد چہ کنم من
تشریح مقاماتِ محمد چہ کنم من
شاہانِ جہاں اند غلامانِ محمد
شاہانِ جہاں اند غلامانِ محمد
رضواں در جنت بکشا شکل چہ بینی
رضواں در جنت بکشا شکل چہ بینی
ما نعت نگاریم ، ثنا خوانِ محمد
ما نعت نگاریم ، ثنا خوانِ محمد
 
t
 
دورؔ ہاشمی کانپوری
 
(۱۹۰۶ء، کانپور…۱۹۷۲ء، کراچی)
====دورؔ ہاشمی کانپوری====
 
(۱۹۰۶ء، کانپور…۱۹۷۲ء، کراچی)
 
اے کہ تراوجودِ پاک دشمنِ فتنہ پروری
اے کہ تراوجودِ پاک دشمنِ فتنہ پروری
اے کہ شکست کردیا تونے طلسمِ آذری
اے کہ شکست کردیا تونے طلسمِ آذری
تیری جناب دم بخود بولہبی وخود سری
تیری جناب دم بخود بولہبی وخود سری
تیرے حضور سرنگوں دبدبۂ سکندری
تیرے حضور سرنگوں دبدبۂ سکندری
اے کہ تری ادا ادا فاتح قلب سومنات
اے کہ تری ادا ادا فاتح قلب سومنات
اے کہ تری نظر نظر حاصلِ حُسنِ دلبری
اے کہ تری نظر نظر حاصلِ حُسنِ دلبری
اے کہ دکھا دکھا دیا تونے جمالِ حق نما
اے کہ دکھا دکھا دیا تونے جمالِ حق نما
اے کہ مٹا مٹا دیا تونے غرور کافری
اے کہ مٹا مٹا دیا تونے غرور کافری
اے کہ ترے نیاز میں ناز کی عشوہ سازیاں
اے کہ ترے نیاز میں ناز کی عشوہ سازیاں
اے کہ تری عبودیت معبد راز خودگری
اے کہ تری عبودیت معبد راز خودگری
عرش سے فرش تک ترے حُسن کی جلوہ پاشیاں
عرش سے فرش تک ترے حُسن کی جلوہ پاشیاں
فرش سے عرش تک تری جلوۂ گۂ پیمبری
فرش سے عرش تک تری جلوۂ گۂ پیمبری
اے کہ تری تجلییاں حاصلِ ظلمت جہاں
اے کہ تری تجلییاں حاصلِ ظلمت جہاں
تیرے کرم نے سرد کی آتشِ سحر سامری
تیرے کرم نے سرد کی آتشِ سحر سامری
اے کہ تراقدم قدم منزلِ امن وعافیت
اے کہ تراقدم قدم منزلِ امن وعافیت
اے کہ ترا نفس نفس دعوت اوج وبرتری
اے کہ ترا نفس نفس دعوت اوج وبرتری
تجھ سے نکھر نکھر گیا چہرۂ صدقِ کائنات
تجھ سے نکھر نکھر گیا چہرۂ صدقِ کائنات
تجھ سے لرزلرز اٹھی روح فسونِ زرگری
تجھ سے لرزلرز اٹھی روح فسونِ زرگری
تجھ سے ملا جہان کو نظم و نظامِ حق شناس
تجھ سے ملا جہان کو نظم و نظامِ حق شناس
تیرے بغیر تھی بہت زلفِ جہاں میں ابتری
تیرے بغیر تھی بہت زلفِ جہاں میں ابتری
گنبدِ سبز کے مکیں خاتمِ دہر کے نگیں
گنبدِ سبز کے مکیں خاتمِ دہر کے نگیں
شاہد محفل یقیں گوہرِ تاج سروری
شاہد محفل یقیں گوہرِ تاج سروری
تیری قبائے کہنہ میں دولتِ دوجہاں کا راز
تیری قبائے کہنہ میں دولتِ دوجہاں کا راز
تیرے قدم میں سجدہ ریز سطوتِ حسن قیصری
تیرے قدم میں سجدہ ریز سطوتِ حسن قیصری
دیدۂ خودنگر پہ تھیں شاق تری تجلیاں
دیدۂ خودنگر پہ تھیں شاق تری تجلیاں
گیسوئے بولہب میں تھی تیرے ہی دم سے ابتری
گیسوئے بولہب میں تھی تیرے ہی دم سے ابتری
دشمنِ جاں پہ بھی اٹھی تیری نگاہِ التفات
دشمنِ جاں پہ بھی اٹھی تیری نگاہِ التفات
یہ تیری شانِ مرحمت یہ تیری بندہ پروری
یہ تیری شانِ مرحمت یہ تیری بندہ پروری
مستی وآگہی کا ناز نشۂ زندگی کاراز
مستی وآگہی کا ناز نشۂ زندگی کاراز
تیرا سبُوچۂ خودی تیری میٔ قلندری
تیرا سبُوچۂ خودی تیری میٔ قلندری
اُن پہ سلام مل گئی جن کوترے طفیل سے
اُن پہ سلام مل گئی جن کوترے طفیل سے
نانِ جویں کی معرفت نعمتِ فقر حیدری
نانِ جویں کی معرفت نعمتِ فقر حیدری
صل علیٰ محمد صل علیٰ محمد
صل علیٰ محمد صل علیٰ محمد
دورؔ اس اسمِ پاک سے دونوں جہاں کی برتری
دورؔ اس اسمِ پاک سے دونوں جہاں کی برتری
 
t
 
ذکی عثمانی
 
====ذکی عثمانی====
 
(۱۴؍جون ۱۹۴۱ء پیلی بھیت … ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء کراچی)
(۱۴؍جون ۱۹۴۱ء پیلی بھیت … ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء کراچی)
یہ واقعہ ہوتولگنے لگے حسیں سب کچھ
یہ واقعہ ہوتولگنے لگے حسیں سب کچھ
کہ بھول جائے جزان کے دلِ حزیں سب کچھ
کہ بھول جائے جزان کے دلِ حزیں سب کچھ
تمہیں ہوباعثِ کون و مکاں تمہیں سب کچھ
تمہیں ہوباعثِ کون و مکاں تمہیں سب کچھ
یہی ہے دینِ مسلماں یہی یقیں سب کچھ
یہی ہے دینِ مسلماں یہی یقیں سب کچھ
خدا کے بعد اگر ہے کوئی تو بس تم ہو
خدا کے بعد اگر ہے کوئی تو بس تم ہو
یہ نکتہ سمجھا توسمجھا ہے نکتہ بیں سب کچھ
یہ نکتہ سمجھا توسمجھا ہے نکتہ بیں سب کچھ
طلب نہیں ہے کسی اور خلد کی دل کو
طلب نہیں ہے کسی اور خلد کی دل کو
مرے لئے تو ہے طیبہ کی سرزمیں سب کچھ
مرے لئے تو ہے طیبہ کی سرزمیں سب کچھ
حضور اپنی محبت کی بھیک دے دیں مجھے
حضور اپنی محبت کی بھیک دے دیں مجھے
کہ اورجو بھی ہے رہ جائے گا یہیں سب کچھ
کہ اورجو بھی ہے رہ جائے گا یہیں سب کچھ
کہاہے میرے نبی نے کہ ہے جہاں اک اور
کہاہے میرے نبی نے کہ ہے جہاں اک اور
یہی حیات یہی زندگی نہیں سب کچھ
یہی حیات یہی زندگی نہیں سب کچھ
چمک دمک میں ہے ایسی طمانیت گویا
چمک دمک میں ہے ایسی طمانیت گویا
درِ نبی سے اٹھالائی ہے جبیں سب کچھ
درِ نبی سے اٹھالائی ہے جبیں سب کچھ
حضور کیاہیں کسے حوصلہ کہ لب کھولے
حضور کیاہیں کسے حوصلہ کہ لب کھولے
کہ ہیں کچھ ان غلاموں کے ہم نشیں سب کچھ
کہ ہیں کچھ ان غلاموں کے ہم نشیں سب کچھ
یہ رنگ پیرویٔ مصطفی میں ہواے کاش
یہ رنگ پیرویٔ مصطفی میں ہواے کاش
کہ ہوذکیؔکے لئے لقمۂ جویں سب کچھ
کہ ہوذکیؔکے لئے لقمۂ جویں سب کچھ
 
t
 
ذکیہ غزل
 
 
====ذکیہ غزل====
 
(۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، کراچی)
(۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، کراچی)
کیا اذنِ حضوری ہو سرکار مدینے میں
کیا اذنِ حضوری ہو سرکار مدینے میں
منگتوں کا بھی لگتا ہے دربار مدینے میں
منگتوں کا بھی لگتا ہے دربار مدینے میں
کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر
کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر
مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں
مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں
ہے ورد درودوں کا اور لب پہ ثناخوانی
ہے ورد درودوں کا اور لب پہ ثناخوانی
رہتا ہے کہاں کوئی بے کار مدینے میں
رہتا ہے کہاں کوئی بے کار مدینے میں
ہر زخم شفا پائے بس خاکِ مدینہ سے
ہر زخم شفا پائے بس خاکِ مدینہ سے
انگار بھی ہوتا ہے، گلزار مدینے میں
انگار بھی ہوتا ہے، گلزار مدینے میں
جب ڈوبنے لگتی ہے کشتی مرے جیون کی
جب ڈوبنے لگتی ہے کشتی مرے جیون کی
ہوتا ہے ہر اک بیڑا پھر پار مدینے میں
ہوتا ہے ہر اک بیڑا پھر پار مدینے میں
بس خواب میں آقا کا دیدار کرا دے جو
بس خواب میں آقا کا دیدار کرا دے جو
اک نعت لکھوں ایسی اس بار مدینے میں
اک نعت لکھوں ایسی اس بار مدینے میں
 
t
 
ذہینؔ شاہ تاجی
 
==== ذہینؔ شاہ تاجی====
 
(۱۹۰۲ء، ریاست جے پور … ۲۳؍جولائی ۱۹۷۸ء، کراچی)
(۱۹۰۲ء، ریاست جے پور … ۲۳؍جولائی ۱۹۷۸ء، کراچی)
تمھی کو دیکھتا ہے دیکھنے والا حقیقت کا  
تمھی کو دیکھتا ہے دیکھنے والا حقیقت کا  
تمھی کو پارہا ہے  پانے والا حُسنِ قدرت کا
تمھی کو پارہا ہے  پانے والا حُسنِ قدرت کا
کہاں فطرت کے دامن میں سماتا حسن فطرت کا
کہاں فطرت کے دامن میں سماتا حسن فطرت کا
بَھلے کو مل گیا آئینہ تیرے حُسنِ سیرت کا  
بَھلے کو مل گیا آئینہ تیرے حُسنِ سیرت کا  
ملا تجھ سے ہی حسنِ غیب کو منظر شہادت کا
ملا تجھ سے ہی حسنِ غیب کو منظر شہادت کا
تری قامت سے دنیا کو یقیں آیا قیامت کا
تری قامت سے دنیا کو یقیں آیا قیامت کا
حقیقت میں یہاں ہر شے،محمد ہی محمد ہے
حقیقت میں یہاں ہر شے،محمد ہی محمد ہے
محمد ہی حقیقی راز ہے کثرت میں وحدت کا
محمد ہی حقیقی راز ہے کثرت میں وحدت کا
محمد نقشِ اول ہے محمد نقشِ آخر ہے
محمد نقشِ اول ہے محمد نقشِ آخر ہے
محمد ہی محمد مشغلہ ہے کلکِ قدرت کا
محمد ہی محمد مشغلہ ہے کلکِ قدرت کا
محمد سے ہراک شے میں ہوا مفہوم ِ شے پیدا
محمد سے ہراک شے میں ہوا مفہوم ِ شے پیدا
ہدایت میں ہدایت کا ،نہایت میں نہایت کا
ہدایت میں ہدایت کا ،نہایت میں نہایت کا
بہارِ رنگ وبو سے جھولیاں بھرد یں زمانے کی
بہارِ رنگ وبو سے جھولیاں بھرد یں زمانے کی
تمھارا پھول سا چہرہ چمن آرا ہے فطرت کا
تمھارا پھول سا چہرہ چمن آرا ہے فطرت کا
تراغم خواریٔ خلقِ خدا سے مضطرب رہنا
تراغم خواریٔ خلقِ خدا سے مضطرب رہنا
زمانے کے لیے پیغام ہے تسکین و راحت کا
زمانے کے لیے پیغام ہے تسکین و راحت کا
کسی کو بھی محبت ہو،کسی سے بھی محبت ہو
کسی کو بھی محبت ہو،کسی سے بھی محبت ہو
ذہینِؔ یوسفی مرکز ہے وہ حسن و محبت کا
ذہینِؔ یوسفی مرکز ہے وہ حسن و محبت کا
t






 
راز زیدی
 
 
====راز زیدی====
 
(۱۳؍مئی ۱۹۲۵ء شاہ پورپٹودی …۲۰؍مئی ۹۱۹۱ء کراچی)  
(۱۳؍مئی ۱۹۲۵ء شاہ پورپٹودی …۲۰؍مئی ۹۱۹۱ء کراچی)  
 
نہیںمعلوم تھا انساں کو خودکیاہے ،خدا کیا ہے
نہیں معلوم تھا انساں کو خودکیاہے ،خدا کیا ہے
 
خدا سے اس کے بندوں کا مسلسل رابطہ تم ہو
خدا سے اس کے بندوں کا مسلسل رابطہ تم ہو
عمل جاری رہے گا تا ابد جس پر زمانے میں  
عمل جاری رہے گا تا ابد جس پر زمانے میں  
کتابِ زندگی کاوہ مکمل ضابطہ تم ہو
کتابِ زندگی کاوہ مکمل ضابطہ تم ہو
 
t
 
راز ؔمرادآبادی
====راز ؔمرادآبادی====
 
(۱۹۱۶ء مرادآباد…۲۳نومبر ۱۹۸۲ء کراچی)
(۱۹۱۶ء مرادآباد…۲۳نومبر ۱۹۸۲ء کراچی)
کیا بتاؤں یہ رازؔکیا ہوں میں  
کیا بتاؤں یہ رازؔکیا ہوں میں  
خاکِ دہلیزِ مصطفی ہوں میں
خاکِ دہلیزِ مصطفی ہوں میں
ہاں ! گنہگار ہوں بُرا ہوں میں
ہاں ! گنہگار ہوں بُرا ہوں میں
لاج رکھ لیجے ،آپ کا ہوں میں
لاج رکھ لیجے ،آپ کا ہوں میں
بابِ جبریل پر کھڑا ہوں میں
بابِ جبریل پر کھڑا ہوں میں
نور ہی نور دیکھتا ہوں میں
نور ہی نور دیکھتا ہوں میں
جھک گئی ہے نظر بہ پاسِ ادب
جھک گئی ہے نظر بہ پاسِ ادب
سر سے پا تک لرز رہاہوںمیں
سر سے پا تک لرز رہاہوںمیں
ہر طرف ہے تجلیوں کا ہجوم
ہر طرف ہے تجلیوں کا ہجوم
اورجلووں میں کھو گیاہوںمیں
اورجلووں میں کھو گیاہوںمیں
لوگ کہتے ہیں یہ مدینہ ہے
لوگ کہتے ہیں یہ مدینہ ہے
درِ اقدس پہ آگیا ہوں میں
درِ اقدس پہ آگیا ہوں میں
خاکِ طیبہ کو منہ پہ ملتا ہوں
خاکِ طیبہ کو منہ پہ ملتا ہوں
ذرّے ذرّے کو چومتاہوں میں
ذرّے ذرّے کو چومتاہوں میں
نعت پڑھ پڑھ کے جالیوں کے قریب
نعت پڑھ پڑھ کے جالیوں کے قریب
آپ ہی آپ جھومتا ہوں میں
آپ ہی آپ جھومتا ہوں میں
روضۂ مصطفی کا کیا کہنا
روضۂ مصطفی کا کیا کہنا
جیسے جنت میں آگیاہوں میں
جیسے جنت میں آگیاہوں میں
میں کہاں اور درِ حضور کہاں
میں کہاں اور درِ حضور کہاں
سورہاہوں کہ جاگتا ہوں میں
سورہاہوں کہ جاگتا ہوں میں
ہاتھ اُٹھنے لگے دعا کے لیے
ہاتھ اُٹھنے لگے دعا کے لیے
اُن سے مصروفِ التجا ہوں میں
اُن سے مصروفِ التجا ہوں میں
آپ مولائے کل ہیں داتا ہیں
آپ مولائے کل ہیں داتا ہیں
میرا کیاپوچھنا ،گدا ہوں میں
میرا کیاپوچھنا ،گدا ہوں میں
میری جھولی ضرور بھر دیجے
میری جھولی ضرور بھر دیجے
دولتِ درد مانگتا ہوں میں
دولتِ درد مانگتا ہوں میں
میرا حامی خدا اور اس کا رسول
میرا حامی خدا اور اس کا رسول
خادمِ فخرِ انبیا ہوں میں
خادمِ فخرِ انبیا ہوں میں
t


 
راشدؔ نور
 
 
====راشدؔ نور====
 
(۶؍ فروری ۱۹۵۶ء  میر پور خاص)
(۶؍ فروری ۱۹۵۶ء  میر پور خاص)
 
میں منتظر ہوں ابھی ماہ وسال کوئی نہیں
 
میں منتظر ہوں ابھی ماہ وسال کوئی نہیں
 
بس ان کے در کے سوااب سوال کوئی نہیں
بس ان کے در کے سوااب سوال کوئی نہیں
نبی کی شان رسالت کا معجزہ ہے یہی
نبی کی شان رسالت کا معجزہ ہے یہی
مثال ڈھونڈ گے لیکن مثال کوئی نہیں
مثال ڈھونڈ گے لیکن مثال کوئی نہیں
ہوائے شہر مدینہ کی نسبتوں کے طفیل
ہوائے شہر مدینہ کی نسبتوں کے طفیل
نصیب جاگے ہیں میراکمال کوئی نہیں
نصیب جاگے ہیں میراکمال کوئی نہیں
بس ان کے دامن نسبت کو تھام کے رکھنا
بس ان کے دامن نسبت کو تھام کے رکھنا
کہ بخششوں کے لیے ایسی ڈھال کوئی نہیں
کہ بخششوں کے لیے ایسی ڈھال کوئی نہیں
وہ سائبان ہے رحمت کا جس کی چھاؤں میں
وہ سائبان ہے رحمت کا جس کی چھاؤں میں
بہت سکون ہے دل کوملال کوئی نہیں
بہت سکون ہے دل کوملال کوئی نہیں
ہمیں یہ ناز کہ سرکار کی غلامی میں
ہمیں یہ ناز کہ سرکار کی غلامی میں
ہماری طرح کہیں مالامال کوئی نہیں
ہماری طرح کہیں مالامال کوئی نہیں
تخیلات کا حاصل یہی توہے راشدؔ!
تخیلات کا حاصل یہی توہے راشدؔ!
درنبی سے معطر خیال کوئی نہیں
درنبی سے معطر خیال کوئی نہیں
 
t
 
راقم رحمانی  
 
====راقم رحمانی ====
 
(۱۲؍ اپریل ۱۹۲۹ء…۲۰۱۲ء کراچی)
(۱۲؍ اپریل ۱۹۲۹ء…۲۰۱۲ء کراچی)
اب تو یہ عالم ہے دل میں کر گیا ہے گھر  چراغ
اب تو یہ عالم ہے دل میں کر گیا ہے گھر  چراغ
جل رہاہے یاد آقا کامرے اندر چراغ
جل رہاہے یاد آقا کامرے اندر چراغ
بستیوں میں کیا دھرا تھا ظلمتوں کے ماسوا
بستیوں میں کیا دھرا تھا ظلمتوں کے ماسوا
نورپیکر نے فروزاں کر دیے گھر گھر  چراغ
نورپیکر نے فروزاں کر دیے گھر گھر  چراغ
بارش انوار رحمت نے مجلیٰ کردیئے
بارش انوار رحمت نے مجلیٰ کردیئے
دھل گئے چہرے نظر آنے لگے پتھر کے چراغ
دھل گئے چہرے نظر آنے لگے پتھر کے چراغ
ثانی سلطان عالی تھا نہ ہوگا اور نہ ہے
ثانی سلطان عالی تھا نہ ہوگا اور نہ ہے
جستجو کرتی پھرے دنیا عبث لے کر چراغ
جستجو کرتی پھرے دنیا عبث لے کر چراغ
مقتدر میں، سب ولیٔ مصطفی، اپنی جگہ
مقتدر میں، سب ولیٔ مصطفی، اپنی جگہ
ایک ہی سورج کی پیداور ہیں دیگر چراغ
ایک ہی سورج کی پیداور ہیں دیگر چراغ
یوں شہادت پر تلا ہے جادٔہ آقا میں دل
یوں شہادت پر تلا ہے جادٔہ آقا میں دل
کٹ گئی گردن توبن جائے گا اپنا سرچراغ
کٹ گئی گردن توبن جائے گا اپنا سرچراغ
عاشقان مصطفی ہیں روشنی کی ایک لکیر
عاشقان مصطفی ہیں روشنی کی ایک لکیر
تامحمد جل رہے ہیں سب چراغ اندر چراغ
تامحمد جل رہے ہیں سب چراغ اندر چراغ
اب دیار دل  میں ظلمت کا گذر ممکن نہیں
اب دیار دل  میں ظلمت کا گذر ممکن نہیں
اب یہ ہے سرکار کی مدحت کا جلوہ گر چراغ
اب یہ ہے سرکار کی مدحت کا جلوہ گر چراغ
گو اُجالے ہیں سبھی راقم خدا کے نام کے
گو اُجالے ہیں سبھی راقم خدا کے نام کے
پر بدستِ مصطفی روشن ہو اپنے ہر چراغ
پر بدستِ مصطفی روشن ہو اپنے ہر چراغ
t


 
رخسانہ صبا
 
 
====رخسانہ صبا====
 
(۴؍ مارچ ۱۹۵۹ء کراچی)
(۴؍ مارچ ۱۹۵۹ء کراچی)
روح کے سناٹے میں برپا شورِ تمنا کس نے کیا
روح کے سناٹے میں برپا شورِ تمنا کس نے کیا
آرزوؤں کی بجھتی ہوئی اس راکھ کو شعلہ کس نے کیا
آرزوؤں کی بجھتی ہوئی اس راکھ کو شعلہ کس نے کیا
کس کے عکس نے خالقِ کل کے لاکھوں جلوے دکھلائے
کس کے عکس نے خالقِ کل کے لاکھوں جلوے دکھلائے
کس نے جلا دی شیشۂ دل کوآئینہ خانہ کس نے کیا
کس نے جلا دی شیشۂ دل کوآئینہ خانہ کس نے کیا
اُمّی لقب ہوکر بھی شہرِ علم بنا کس کا پیکر
اُمّی لقب ہوکر بھی شہرِ علم بنا کس کا پیکر
بے سایہ ہو کر بھی اس دنیا پر سایہ کس نے کیا
بے سایہ ہو کر بھی اس دنیا پر سایہ کس نے کیا
خانۂ ہستی کی تاریکی کس کے دم سے دور ہوئی
خانۂ ہستی کی تاریکی کس کے دم سے دور ہوئی
کفر کے ِتیرا ایوانوں میں آکے اُجالا کس نے کیا
کفر کے ِتیرا ایوانوں میں آکے اُجالا کس نے کیا
بادِ سموم کے جھونکے تھے اور ہر جانب تھارقصِ خزاں
بادِ سموم کے جھونکے تھے اور ہر جانب تھارقصِ خزاں
کس نے ریت میں پھول ِکھلائے کارِ مسیحاکس نے کیا
کس نے ریت میں پھول ِکھلائے کارِ مسیحاکس نے کیا
کس کی آمد مایوسی میں جینے کاپیغام بنی
کس کی آمد مایوسی میں جینے کاپیغام بنی
شب کو سحر ،اشکوں کو ستارہ، زیست کو نغمہ کس نے کیا
شب کو سحر ،اشکوں کو ستارہ، زیست کو نغمہ کس نے کیا
تشنہ لبی جب حد سے گزری ،کس نے پلایا آبِ حیات
تشنہ لبی جب حد سے گزری ،کس نے پلایا آبِ حیات
ہم اِک قطرۂ نا پُرساں تھے ،ہم کو دریا کس نے کیا
ہم اِک قطرۂ نا پُرساں تھے ،ہم کو دریا کس نے کیا
 
t
 
رسا چغتائی
 
====رسا چغتائی====
 
(۱۹۲۸ء، سوائی مادھوپور ریاست جے پور)
(۱۹۲۸ء، سوائی مادھوپور ریاست جے پور)
صفات و ذاتِ حمدِ کبریا ہے
صفات و ذاتِ حمدِ کبریا ہے
کلامِ پاک نعتِ مصطفیٰ ہے
کلامِ پاک نعتِ مصطفیٰ ہے
رسالت غیب ہے اور غیب کیا ہے
رسالت غیب ہے اور غیب کیا ہے
مگر یہ سلسلہ ایمان کا ہے
مگر یہ سلسلہ ایمان کا ہے
گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک
گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک
دوعالم آئنہ بردار سا ہے
دوعالم آئنہ بردار سا ہے
وہی ہیں داورِ محشر وہی ہیں
وہی ہیں داورِ محشر وہی ہیں
دلِ بے تاب کس کو ڈھونڈتا ہے
دلِ بے تاب کس کو ڈھونڈتا ہے
یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی
یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی
مگر اک نام ایسا آگیا ہے
مگر اک نام ایسا آگیا ہے
رساؔ مل جائے گا اذنِ سفر بھی
رساؔ مل جائے گا اذنِ سفر بھی
مرا قصدِ سفر اپنی جگہ ہے
مرا قصدِ سفر اپنی جگہ ہے
t


 
رسول احمد کلیمیؔ
 
(۱۱؍دسمبر ۱۹۴۴ء …۱۸؍ فروری ۲۰۱۳ء ٹورانٹو، کینیڈا)
 
====رسول احمد کلیمیؔ====
 
(۱۱؍دسمبر ۱۹۴۴ء …۱۸؍ فروری ۲۰۱۳ء ٹورانٹو، کینیڈا)
 
 
اُن کے حضور قلب پہ جو کچھ عیاں ہوا
اُن کے حضور قلب پہ جو کچھ عیاں ہوا
لفظوں میں کب وہ تجربہ ہم سے بیاں ہوا
لفظوں میں کب وہ تجربہ ہم سے بیاں ہوا
ہو ش وحواس ، عقل و خرد حیرتی ہوئے
ہو ش وحواس ، عقل و خرد حیرتی ہوئے
نطق و زباں کا حوصلہ اشکِ رواں ہوا
نطق و زباں کا حوصلہ اشکِ رواں ہوا
اُن جالیوں کے پیچھے فقط سیلِ نور تھا
اُن جالیوں کے پیچھے فقط سیلِ نور تھا
کب منکشف ہر اِک پہ یہ سرِ نہاں ہوا
کب منکشف ہر اِک پہ یہ سرِ نہاں ہوا
لاریب، لا شریک ہے واحد ہے اُس کی ذات
لاریب، لا شریک ہے واحد ہے اُس کی ذات
لیکن حضور جیسا بھی کوئی کہاں ہوا
لیکن حضور جیسا بھی کوئی کہاں ہوا
اُس در سے عافیت کی سند مجھ کو مل گئی
اُس در سے عافیت کی سند مجھ کو مل گئی
پھر کیا عدو اگر مرا سارا جہاں ہوا
پھر کیا عدو اگر مرا سارا جہاں ہوا
مانگے بنا ہی سب مجھے آقانے دے دیا
مانگے بنا ہی سب مجھے آقانے دے دیا
میرا سکوت برتراز آہ و فغاں ہوا
میرا سکوت برتراز آہ و فغاں ہوا
تم دوجہاں کے عیش وہاں مانگتے رہے
تم دوجہاں کے عیش وہاں مانگتے رہے
میں بے نیازِ عشرتِ ہر دوجہاں ہوا
میں بے نیازِ عشرتِ ہر دوجہاں ہوا
حدِ ادب کلیمی! کہ طیبہ ہے وہ زمیں
حدِ ادب کلیمی! کہ طیبہ ہے وہ زمیں
ہر گام سجدہ ریز جہاں آسماں ہوا
ہر گام سجدہ ریز جہاں آسماں ہوا
 
t
 
رشید انجم
 
====رشید انجم====
 
(۲۱؍اپریل ۱۹۳۷ء…۲۱؍دسمبر۲۰۰۰ء ،کوئٹہ)
(۲۱؍اپریل ۱۹۳۷ء…۲۱؍دسمبر۲۰۰۰ء ،کوئٹہ)
تفسیر کبریا کا عنوان بولتا ہے
تفسیر کبریا کا عنوان بولتا ہے
لہجے میں مصطفی کے قرآن بولتا ہے
لہجے میں مصطفی کے قرآن بولتا ہے
یہ عظمت بشر ہے سدرہ کے راستے میں
یہ عظمت بشر ہے سدرہ کے راستے میں
خاموش ہیں فرشتے انسان بولتا ہے
خاموش ہیں فرشتے انسان بولتا ہے
محسوس کر رہی ہے کونین کی سماعت
محسوس کر رہی ہے کونین کی سماعت
دونوں جہاں میںان کا احسان بولتا ہے
دونوں جہاں میںان کا احسان بولتا ہے
مومن کا دل مدینہ عشق نبی کا زینہ
مومن کا دل مدینہ عشق نبی کا زینہ
یہ وہ جگہ ہے جس میں ایمان بولتا ہے
یہ وہ جگہ ہے جس میں ایمان بولتا ہے
دل میں ہزار جلوے کروٹ بدل رہے ہیں
دل میں ہزار جلوے کروٹ بدل رہے ہیں
دیدارِ مصطفی کا ارمان بولتا ہے
دیدارِ مصطفی کا ارمان بولتا ہے
میں نعت پڑھ رہا ہوں وہ داد دے رہے ہیں
میں نعت پڑھ رہا ہوں وہ داد دے رہے ہیں
ہر شعر میں انہی کا فیضان بولتا ہے
ہر شعر میں انہی کا فیضان بولتا ہے
انوارِ لمیزل کا فیضان ہے یہ انجمؔ
انوارِ لمیزل کا فیضان ہے یہ انجمؔ
دربارِ مصطفی میں بے جان بولتا ہے
دربارِ مصطفی میں بے جان بولتا ہے
 
t
 
رضوان صدیقی
 
====رضوان صدیقی====
 
(یکم دسمبر ۱۹۴۱ء الور،راجپوتانہ)
(یکم دسمبر ۱۹۴۱ء الور،راجپوتانہ)
   ُبھلا کے سارے زمانے کو چُپ کھڑارہامیں
   ُبھلا کے سارے زمانے کو چُپ کھڑارہامیں
اور اُن کے گنبدِ خضرا کو دیکھتا رہا میں
اور اُن کے گنبدِ خضرا کو دیکھتا رہا میں
مواجہہ کی زیارت جو کی تو دیر تلک
مواجہہ کی زیارت جو کی تو دیر تلک
بس اپنے بخت کی رفعت کو سوچتا رہا میں
بس اپنے بخت کی رفعت کو سوچتا رہا میں
ریاضِ جنّہ میں پہنچایا جب خدا نے مجھے
ریاضِ جنّہ میں پہنچایا جب خدا نے مجھے
سرِ خیال اُنہی کو پکارتا رہا میں
سرِ خیال اُنہی کو پکارتا رہا میں
سنہری جالیاںجب تک مِری نظر میں رہیں
سنہری جالیاںجب تک مِری نظر میں رہیں
خدا کے قرب کی خوشبو میں ڈولتا رہا میں
خدا کے قرب کی خوشبو میں ڈولتا رہا میں
حضور کس لیے بھیجے گئے تھے دنیا میں
حضور کس لیے بھیجے گئے تھے دنیا میں
عظیم صفّہ پہ بیٹھا یہ سوچتا رہا میں
عظیم صفّہ پہ بیٹھا یہ سوچتا رہا میں
قریبِ روضۂ انور نہ کرسکا کچھ بھی
قریبِ روضۂ انور نہ کرسکا کچھ بھی
  بس اپنے اشکوں کو آنکھوں میں روکتا رہا میں
  بس اپنے اشکوں کو آنکھوں میں روکتا رہا میں
مجھے مدینے میںمسکن نصیب ہو یارب
مجھے مدینے میںمسکن نصیب ہو یارب
بقیع میں بھی یونہی محوِ التجا رہا میں
بقیع میں بھی یونہی محوِ التجا رہا میں
جس انقلاب کے بانی تھے مصطفی میرے
جس انقلاب کے بانی تھے مصطفی میرے
اُس انقلاب کو منبر پہ سوچتا رہا میں
اُس انقلاب کو منبر پہ سوچتا رہا میں
یہ میری ذات سے مخصوص تو نہیں رضواںؔ!
یہ میری ذات سے مخصوص تو نہیں رضواںؔ!
اگر مدینے میں تصویر سا بنا رہا میں
اگر مدینے میں تصویر سا بنا رہا میں
 
t
 
رضی اخترشوقؔ
 
====رضی اخترشوقؔ====
 
  (۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ء سہارنپور…۲۲؍جنوری  ۹ ۹ ۹ ۱ء کراچی)
  (۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ء سہارنپور…۲۲؍جنوری  ۹ ۹ ۹ ۱ء کراچی)
انہی کی بخشی ہوئی آگہی کو لکھا ہے
انہی کی بخشی ہوئی آگہی کو لکھا ہے
انہی سے لفظ ملے ہیں انہی کو لکھا ہے
انہی سے لفظ ملے ہیں انہی کو لکھا ہے
بس ایک لفظ سے گھر سارا جگمگا اٹھا
بس ایک لفظ سے گھر سارا جگمگا اٹھا
یہ روشنائی نے کس روشنی کو لکھاہے
یہ روشنائی نے کس روشنی کو لکھاہے
بہت بلند تھا اس پل میں اپنی قامت میں
بہت بلند تھا اس پل میں اپنی قامت میں
وہ پل جب آپ کی خوش قامتی کو لکھاہے
وہ پل جب آپ کی خوش قامتی کو لکھاہے
یقیں ہے وہ مرے لفظوں کو روشنی دیں گے
یقیں ہے وہ مرے لفظوں کو روشنی دیں گے
میں جانتا ہوں کہ کیسے سخی کو لکھاہے
میں جانتا ہوں کہ کیسے سخی کو لکھاہے
 
t
 
-
-
آنکھوں میں لیے ہیں تری زیبائی محمد
آنکھوں میں لیے ہیں تری زیبائی محمد
اک عمرسے میں اور مری تنہائی محمد
اک عمرسے میں اور مری تنہائی محمد
الفاظ کو آدابِ رسائی نہیں آتے  
الفاظ کو آدابِ رسائی نہیں آتے  
ہے مدح تری دے مجھے گویائی محمد
ہے مدح تری دے مجھے گویائی محمد
آنکھوں میں نہ ہو تم تو نظر کچھ نہیں آتا  
آنکھوں میں نہ ہو تم تو نظر کچھ نہیں آتا  
کیا میرا سفر کیا مری بینائی محمد
کیا میرا سفر کیا مری بینائی محمد
سو تیر ترازو مرے سینے میں ہیں مولا  
سو تیر ترازو مرے سینے میں ہیں مولا  
زندہ ہوں تو ہے تیری مسیحائی محمد
زندہ ہوں تو ہے تیری مسیحائی محمد
تقسیم ہوئے ہیں تری اُمت کے اُجالے  
تقسیم ہوئے ہیں تری اُمت کے اُجالے  
ایسے میں کوئی صورتِ یک جائی محمد
ایسے میں کوئی صورتِ یک جائی محمد
 
t
 
رضیہ انور،انوری بیگم
 
====رضیہ انور،انوری بیگم====
 
(۱۹۱۹ء امروہہ…۱۹ ؍دسمبر۱۹۹۷ء کراچی)
(۱۹۱۹ء امروہہ…۱۹ ؍دسمبر۱۹۹۷ء کراچی)
صبا جا کے محمد سے مری فریاد کہہ دینا
صبا جا کے محمد سے مری فریاد کہہ دینا
پڑی ہے امت عاصی پہ اب اُفتاد کہہ دینا
پڑی ہے امت عاصی پہ اب اُفتاد کہہ دینا
سلام شوق کرکے پیش جالی کے قریں جاکر
سلام شوق کرکے پیش جالی کے قریں جاکر
جو گذری ہے مسلمانوں پہ وہ رواداد کہہ دینا
جو گذری ہے مسلمانوں پہ وہ رواداد کہہ دینا
 
t
 
رفعت القاسمی
 
====رفعت القاسمی====
 
(۱۹۳۴ء، شیخ پور، ضلع مونگیر…۲۰۱۰ء، کراچی)
(۱۹۳۴ء، شیخ پور، ضلع مونگیر…۲۰۱۰ء، کراچی)
عظمتِ انساں تیری مشیت وسعتِ امکاں تیرے ابرو
عظمتِ انساں تیری مشیت وسعتِ امکاں تیرے ابرو
ذکر ترا کونین کی دولت سایۂ رحمت تیرے گیسو
ذکر ترا کونین کی دولت سایۂ رحمت تیرے گیسو
کون ہے یزداں کون ہے انساں کون ہے حامد کون ہے احمد
کون ہے یزداں کون ہے انساں کون ہے حامد کون ہے احمد
ہم کیا جانتے کون خدا ہے رکھتانہ وہ گرتیری ہی خو،بو
ہم کیا جانتے کون خدا ہے رکھتانہ وہ گرتیری ہی خو،بو
توہی آدم توہی مسیحا توہی خلیل اورتوہی موسی
توہی آدم توہی مسیحا توہی خلیل اورتوہی موسی
تیری تجلی برسرِ سینا،توہی توہے ہرپل ہرسو
تیری تجلی برسرِ سینا،توہی توہے ہرپل ہرسو
جلوے تیرے کوہ و دمن میں تیرے اُجالے گنگ وجمن میں
جلوے تیرے کوہ و دمن میں تیرے اُجالے گنگ وجمن میں
رنگ تراہے سروسمن میں،ارض وسما میں تیری ہی خوشبو
رنگ تراہے سروسمن میں،ارض وسما میں تیری ہی خوشبو
تیرے ثناخواں غالبؔ وبیدلؔ،سچلؔ،لطیفؔ،حسانؔ اورشوقیؔ
تیرے ثناخواں غالبؔ وبیدلؔ،سچلؔ،لطیفؔ،حسانؔ اورشوقیؔ
تیرے غزل خواں حافظؔ و رومیؔ خٹکؔ فریدؔ اقبالؔ اور باہوؔ
تیرے غزل خواں حافظؔ و رومیؔ خٹکؔ فریدؔ اقبالؔ اور باہوؔ
حرف ترا فیضی کی سواطع لفظ ترے سبعات ولآبی
حرف ترا فیضی کی سواطع لفظ ترے سبعات ولآبی
تیری ہی تخیٔل کا پرتو فکرِ فارابیؔ و ارسطوؔ
تیری ہی تخیٔل کا پرتو فکرِ فارابیؔ و ارسطوؔ
 
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک روشنیوں کا ایک سفرہے
 
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک روشنیوں کا ایک سفرہے
 
تورات و انجیل و قراں، سب تیرے افکار کا جادو
تورات و انجیل و قراں، سب تیرے افکار کا جادو
سورج چاند ستارے سارے ازل ابد یہ جگ اُجیارے
سورج چاند ستارے سارے ازل ابد یہ جگ اُجیارے
اُتر، دکھن، پُورب، پچھم، پھیلی ہے تیرے نور کی خوشبو
اُتر، دکھن، پُورب، پچھم، پھیلی ہے تیرے نور کی خوشبو
صورتِ کعبؓ مانند بوصیری مجھ کو بھی چادر اپنی عطاکر
صورتِ کعبؓ مانند بوصیری مجھ کو بھی چادر اپنی عطاکر
رکھ لے لاج مری بھی جاناں کیا میں اورکیا میرے آنسو
رکھ لے لاج مری بھی جاناں کیا میں اورکیا میرے آنسو
مجھ کو ہے تیری ذات سے نسبت مجھ پہ بھی اپنی چشم ِ کرم کر
مجھ کو ہے تیری ذات سے نسبت مجھ پہ بھی اپنی چشم ِ کرم کر
میں اورترے اوصاف وشمائل نعرۂ وحدت یاہو لاہو
میں اورترے اوصاف وشمائل نعرۂ وحدت یاہو لاہو
 
t
 
رفیق احمد نقشؔ
 
====رفیق احمد نقشؔ====
(۱۵؍مارچ ۱۹۵۹ء میرپور خاص… ۱۵؍ مئی ۲۰۱۳ء کراچی)
(۱۵؍مارچ ۱۹۵۹ء میرپور خاص… ۱۵؍ مئی ۲۰۱۳ء کراچی)
وہی سردارِ دنیا بھی وہی سردارِ دیں بھی ہے
وہی سردارِ دنیا بھی وہی سردارِ دیں بھی ہے
اُسی کی ذات بے شک رحمت اللعالمیں بھی ہے
اُسی کی ذات بے شک رحمت اللعالمیں بھی ہے
پہنچ اُس کی زمیں کیا تاسرِ عرشِ بریں بھی ہے
پہنچ اُس کی زمیں کیا تاسرِ عرشِ بریں بھی ہے
وہ ہے انسان لیکن وہ خدا کا ہم نشیں بھی ہے
وہ ہے انسان لیکن وہ خدا کا ہم نشیں بھی ہے
اُسی کی ذات ہے ہرطرح سے تقلید کے قابل
اُسی کی ذات ہے ہرطرح سے تقلید کے قابل
کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے
کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے
گواہی دیتے ہیں دشمن بھی اُس کی راست بازی کی
گواہی دیتے ہیں دشمن بھی اُس کی راست بازی کی
کہ وہ بچپن ہی سے مشہور صادق بھی امیں بھی ہے
کہ وہ بچپن ہی سے مشہور صادق بھی امیں بھی ہے
وہی ہے فخرِ موجودات ختم المرسلیں ہے وہ
وہی ہے فخرِ موجودات ختم المرسلیں ہے وہ
وہی تو محرمِ اسرارِ صبحِ اوّلیں بھی ہے
وہی تو محرمِ اسرارِ صبحِ اوّلیں بھی ہے
اگر چہ نقشؔ ! ہے اپنے گناہوں پرندامت بھی
اگر چہ نقشؔ ! ہے اپنے گناہوں پرندامت بھی
مگر روزِ جزا اس کی شفاعت کا یقیں بھی ہے
مگر روزِ جزا اس کی شفاعت کا یقیں بھی ہے
t


 
رفیق خاور
 
====رفیق خاور====
 
(۱۵؍فروری۱۹۰۸ء روالپنڈی…۱۴؍مئی ۱۹۹۰ء کراچی)
(۱۵؍فروری۱۹۰۸ء روالپنڈی…۱۴؍مئی ۱۹۹۰ء کراچی)
لیتے ہی چلے جائیں نہ کیوں نام، نہ کیوںنام پہ ہم نام محمد
لیتے ہی چلے جائیں نہ کیوں نام، نہ کیوںنام پہ ہم نام محمد
فردوس پہ فردوس ہی انعاموں پہ انعام ہے، انعام محمد
فردوس پہ فردوس ہی انعاموں پہ انعام ہے، انعام محمد
ایوانوں کے ایوان ہوئے جس کی بلندی سے نگوں ساربیک آن
ایوانوں کے ایوان ہوئے جس کی بلندی سے نگوں ساربیک آن
افلاک سے برتر ہے،فراتر ہے،وراترہے کہیں بامِ محمد
افلاک سے برتر ہے،فراتر ہے،وراترہے کہیں بامِ محمد
اعجاز مبیں، نطق مہیں، حرفِ بریں، نقشِ ُگزیں ہے
اعجاز مبیں، نطق مہیں، حرفِ بریں، نقشِ ُگزیں ہے
فیضانوں کا فیضان ہے الہاموں کا الہام ہے الہامِ محمد
فیضانوں کا فیضان ہے الہاموں کا الہام ہے الہامِ محمد
معراجِ نبی سدرہ وطوبیٰ سے بھی بالاوہ تگ وتاز
معراجِ نبی سدرہ وطوبیٰ سے بھی بالاوہ تگ وتاز
تاعرشِ بریں جنبشِ صدگام ہے یک گامِ محمد
تاعرشِ بریں جنبشِ صدگام ہے یک گامِ محمد
 
سامانِ حیاتِ ابدی دُودۂِ آدم کے لیے اُن کے شئونات
 
سامانِ حیاتِ ابدی دُودۂِ آدم کے لیے اُن کے شئونات
 
فخرِ سحر و شام ہیں، سرکردۂِ ایام ہیں ایامِ محمد
فخرِ سحر و شام ہیں، سرکردۂِ ایام ہیں ایامِ محمد
وہ غلغلہ برپاہے کہ ہرلمحہ بہ صد رنگ دگرگوں ہے زمانہ
وہ غلغلہ برپاہے کہ ہرلمحہ بہ صد رنگ دگرگوں ہے زمانہ
ہنگامہ درآغوش ہے آوازۂِ پُر شوکتِ پیغام محمد
ہنگامہ درآغوش ہے آوازۂِ پُر شوکتِ پیغام محمد
شمشیروں کی شمشیر ہے اسلام کی شمشیرِ جہاں گیر
شمشیروں کی شمشیر ہے اسلام کی شمشیرِ جہاں گیر
صمصاموں کی صمصاموں کی صمصام ہے صمصامِ محمد
صمصاموں کی صمصاموں کی صمصام ہے صمصامِ محمد
ہے وجہِ فروغ ہمہ آفاق بہ صد موجِ تجلی
ہے وجہِ فروغ ہمہ آفاق بہ صد موجِ تجلی
ہے تا بہ ابد ، تا بہ ابد ، تاب و تبِ نیرِ اسلام محمد
ہے تا بہ ابد ، تا بہ ابد ، تاب و تبِ نیرِ اسلام محمد
ہیں دَور پہ دَور اُن کے توہیں جام پہ جام اورجگر تاب
ہیں دَور پہ دَور اُن کے توہیں جام پہ جام اورجگر تاب
دیتا ہے صِلا دہر کویوں شام وسحر میکدۂِ عامِ محمد
دیتا ہے صِلا دہر کویوں شام وسحر میکدۂِ عامِ محمد
سرشار سے سرشار ہیں مشروب دلآویز سے مخمور
سرشار سے سرشار ہیں مشروب دلآویز سے مخمور
رندانِ قدح خوار بلانوش دو صد میکدہ آشامِ محمد
رندانِ قدح خوار بلانوش دو صد میکدہ آشامِ محمد
وہ جس کی اذاں گونجتی تا اوجِ سما صبح ومَسَا ہے
وہ جس کی اذاں گونجتی تا اوجِ سما صبح ومَسَا ہے
سرحلقۂِ خدام، بلال حبشیؓ، خادمِ جاں دادہ ، سیہِ فامِ محمد
سرحلقۂِ خدام، بلال حبشیؓ، خادمِ جاں دادہ ، سیہِ فامِ محمد
 
t
 
رفیق عزیزی
 
====رفیق عزیزی====
 
(۷؍ مئی ۱۹۱۴ء ہاپوڑ ضلع میرٹھ…۲۰؍ مئی ۲۰۰۸ء کراچی)
(۷؍ مئی ۱۹۱۴ء ہاپوڑ ضلع میرٹھ…۲۰؍ مئی ۲۰۰۸ء کراچی)
اس میں کیا شک ہے کہ ہیں سرکاررب کی آرزو
اس میں کیا شک ہے کہ ہیں سرکاررب کی آرزو
بندہ اپنے رب کا میں،سرکار میری آرزو
بندہ اپنے رب کا میں،سرکار میری آرزو
میری صبح وشام ہوجائیں مدینے میں تمام
میری صبح وشام ہوجائیں مدینے میں تمام
کچھ نہیں دنیا ودیں میں اس سے اچھی آرزو
کچھ نہیں دنیا ودیں میں اس سے اچھی آرزو
روضۂ سرکار کے سائے میں مرمر کے جیوں
روضۂ سرکار کے سائے میں مرمر کے جیوں
یا الٰہی بس یہی ہے ایک باقی آرزو  
یا الٰہی بس یہی ہے ایک باقی آرزو  
کاش ہوجاؤں شہ ابرار کی گلیوں کی دھول
کاش ہوجاؤں شہ ابرار کی گلیوں کی دھول
اس سے بہتر ہونہیں سکتی ہے کوئی آرزو
اس سے بہتر ہونہیں سکتی ہے کوئی آرزو
ہو لواء الحمد کا سایہ قیامت میں نصیب
ہو لواء الحمد کا سایہ قیامت میں نصیب
ہرنفس کی اوٹ سے ہرلحظہ جھانکی آرزو
ہرنفس کی اوٹ سے ہرلحظہ جھانکی آرزو
آرزو کہتی ہے تم جاؤ گے طیبہ کس طرح
آرزو کہتی ہے تم جاؤ گے طیبہ کس طرح
دل یہ کہتاہے کہ ہوگی پوری تیری آرزو
دل یہ کہتاہے کہ ہوگی پوری تیری آرزو
اسوۂ سرور پہ مرمر کرجیے جاؤں رفیقؔ
اسوۂ سرور پہ مرمر کرجیے جاؤں رفیقؔ
اس سے بہتر کچھ نہیں کوئی بھی ایسی آرزو
اس سے بہتر کچھ نہیں کوئی بھی ایسی آرزو
 
t
 
روشؔ بدایونی
 
(۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ء، بدایوں)
 
====روشؔ بدایونی====
 
(۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ء، بدایوں)
 
 
اصحابِ باصفا ہیں پیمبر کے ساتھ ساتھ
اصحابِ باصفا ہیں پیمبر کے ساتھ ساتھ
چھتنار چھاؤں جیسے صنوبر کے ساتھ ساتھ
چھتنار چھاؤں جیسے صنوبر کے ساتھ ساتھ
نیسانِ ابرِ رحمتِ بطحامجھے بھی دھو
نیسانِ ابرِ رحمتِ بطحامجھے بھی دھو
آلودۂ غبار ہوں چادر کے ساتھ ساتھ
آلودۂ غبار ہوں چادر کے ساتھ ساتھ
ہر لحظہ مصطفی مری دلجوئیاں کریں
ہر لحظہ مصطفی مری دلجوئیاں کریں
اے کاش ساتھ ساتھ جیوں،مر کے ساتھ ساتھ
اے کاش ساتھ ساتھ جیوں،مر کے ساتھ ساتھ
اے عابسِ شرور ادھر بھی نگاہِ لطف
اے عابسِ شرور ادھر بھی نگاہِ لطف
میں بھی رواں ہوں فتنۂ محشر کے ساتھ ساتھ
میں بھی رواں ہوں فتنۂ محشر کے ساتھ ساتھ
اے رحمتِ تمام اے ساقی سلسبیل
اے رحمتِ تمام اے ساقی سلسبیل
پایاب ہوچکا ہوں سمندر کے ساتھ ساتھ
پایاب ہوچکا ہوں سمندر کے ساتھ ساتھ
میری بھی آرزو ہے کہ اک روز دیکھ لوں
میری بھی آرزو ہے کہ اک روز دیکھ لوں
خلدِ بقیع گنبدِ اخضر کے ساتھ ساتھ
خلدِ بقیع گنبدِ اخضر کے ساتھ ساتھ
اُف بعثتِ رسول سے پہلے یہ حال تھا
اُف بعثتِ رسول سے پہلے یہ حال تھا
غارت گری تھی شعلہ ساغر کے ساتھ ساتھ
غارت گری تھی شعلہ ساغر کے ساتھ ساتھ
میرا ہر ایک شعر عیاں ہے بفیضِ نعت
میرا ہر ایک شعر عیاں ہے بفیضِ نعت
ل
لطفِ خطابِ واعظِ منبر کے ساتھ ساتھ
 
t
طفِ خطابِ واعظِ منبر کے ساتھ ساتھ
 
 
====رئیس احمد====


رئیس احمد
(۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کراچی)
(۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کراچی)
ہے کتنا حسیں رت جگا مہکا مہکا
ہے کتنا حسیں رت جگا مہکا مہکا
کہ ہے نعت کا سلسلہ مہکا مہکا
کہ ہے نعت کا سلسلہ مہکا مہکا
دوعالم معطر ہیں خوشبو سے جس کی
دوعالم معطر ہیں خوشبو سے جس کی
جمالِ محمد ہے کیا مہکا مہکا
جمالِ محمد ہے کیا مہکا مہکا
خوشا بخت نعتِ نبی  پر ہے مائل
خوشا بخت نعتِ نبی  پر ہے مائل
ہے ہر سوچ کا زاویہ مہکا مہکا
ہے ہر سوچ کا زاویہ مہکا مہکا
وہ کوہِ صفا پر خطابت نبی کی!
وہ کوہِ صفا پر خطابت نبی کی!
وہ خلوت،وہ غار ِ حرا مہکا مہکا
وہ خلوت،وہ غار ِ حرا مہکا مہکا
گناہوں کی حد تونہیں پھر بھی آقا
گناہوں کی حد تونہیں پھر بھی آقا
شفاعت کا ہے آسرا مہکا مہکا!
شفاعت کا ہے آسرا مہکا مہکا!
ہیں نکہت سے جس کی معطر دل وجاں
ہیں نکہت سے جس کی معطر دل وجاں
وہ ہے آپ کا نقشِ پا مہکا مہکا
وہ ہے آپ کا نقشِ پا مہکا مہکا
رئیسؔ ان کے در کی گدائی کے صدقے
رئیسؔ ان کے در کی گدائی کے صدقے
خزاں میں ہے باغِ انا مہکا مہکا
خزاں میں ہے باغِ انا مہکا مہکا
 
t
 
رئیسؔ امروہوی
 
====رئیسؔ امروہوی====
 
(۱۲؍ستمبر ۱۹۱۴ء، امروہہ … ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۸ء، کراچی)
(۱۲؍ستمبر ۱۹۱۴ء، امروہہ … ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۸ء، کراچی)


موجبِ تخلیق ِعالم کون ہے؟
موجبِ تخلیق ِعالم کون ہے؟
وہ کہ جس کا نور ہے نورِخدا
وہ کہ جس کا نور ہے نورِخدا
سیِّد عالم ، محمد مصطفی
سیِّد عالم ، محمد مصطفی
اوّلِ مخلوق، ختم الانبیا
اوّلِ مخلوق، ختم الانبیا
جس نے اِک عالم کو زندہ کردیا
جس نے اِک عالم کو زندہ کردیا
موجبِ تخلیقِ عالم ہے وہی
موجبِ تخلیقِ عالم ہے وہی
٭
٭
افتخارِ نسلِ آدم کون ہے؟
افتخارِ نسلِ آدم کون ہے؟
کفر کا گھر جس نے ویراں کردیا
کفر کا گھر جس نے ویراں کردیا
بُت کدے کو بیتِ یزداں کردیا
بُت کدے کو بیتِ یزداں کردیا
خلق کی مشکل کو آساں کردیا
خلق کی مشکل کو آساں کردیا
آدمی کوجس نے انساںکردیا
آدمی کوجس نے انساںکردیا
افتخارِ نسلِ آدم ہے وہی
افتخارِ نسلِ آدم ہے وہی
٭
٭
قائدِاقوامِ عالم کون ہے؟
قائدِاقوامِ عالم کون ہے؟
جس کو صرف انسانیت سے پیارتھا
جس کو صرف انسانیت سے پیارتھا
جو ہر اِک مخلوق کا غم خوار تھا
جو ہر اِک مخلوق کا غم خوار تھا
قیدِرنگ و نسل سے بیزار تھا
قیدِرنگ و نسل سے بیزار تھا
جو اُخوت کا علم بردار تھا
جو اُخوت کا علم بردار تھا
قائدِ اقوامِ عالم ہے وہی
قائدِ اقوامِ عالم ہے وہی
٭
٭
مقصدِ فطرت کا محرم کون تھا؟
مقصدِ فطرت کا محرم کون تھا؟
پیش کرکے ایزدی پیغام کو
پیش کرکے ایزدی پیغام کو
توڑ ڈالا کفر کے اصنام کو
توڑ ڈالا کفر کے اصنام کو
متحد کرکے تمام اقوام کو
متحد کرکے تمام اقوام کو
عام جس نے کردیا اسلام کو
عام جس نے کردیا اسلام کو
مقصدِ فطرت کا محرم ہے وہی
مقصدِ فطرت کا محرم ہے وہی
 
t
 
رئیس فروغ
==== رئیس فروغ ====
 
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
دربار نبی سبحان اللہ
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں اجلے بول برستے ہیں
جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں مٹی میں سچائی ہے
جہاں پانی میں اچھائی ہے
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں روشنی لفظ کے ساتھ چلے
جہاں سورج بن کربات چلے
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں دنیا دنیا چین ملے
جہاں کملی میں کونیں ملے
دربار نبی سبحان اللہ
t
-
سچائی  (نعتیہ نظم )
مرے اک ہاتھ پرخورشید
اوراک ہاتھ پر مہتاب
رکھ دو
پھر بھی میں وہی بات دہراؤں گا
جو سچ ہے
اناالنبی لاکذب
اناابن عبدالمطلب
چند سچے لفظ
ایک سچی بات
اناالنبی لاکذب
اناابن عبدالمطلب
یہ سچائی جونازک بیل
کے مانند
خیراورحسن کے موسم کی خوشبوئیں لیے
لمحے سے لمحے کی طرف چلتی رہی
اورمیرے باپ تک پہنچی
سوجب میں مامتا سے کانپتی بانہوں میں
خوابیدہ تھا
میرے باپ نے مجھ کوجگا دیا
اورکہا
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
t
رئیس،احمد چشتی
(۷؍اگست ۱۹۴۰ء اجمیر شریف)
درحضور کو جوآنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
دلوں میںچاند ستارے اترکے دیکھتے ہیں
ہے ان کا روضہ اقدس جو خلد سے بڑھ کر
توساکنانِ جناں بھی گذر کے دیکھتے ہیں
وہ اہتمام ہے جشن ولادت شہہ کا
کہ آسمان وزمین سب سنور کے دیکھتے ہیں
ہوتی ہے نور کی تقسیم شہر میں گھر گھر
توہم بھی گھر میںچراغاں ہی کرکے دیکھتے ہیں
مسافرانِ مدینہ ہیں ان کو کیا پروا
یہ کچھ بکھیڑے نہ زادسفر کے دیکھتے ہیں
لگی ہے بھیڑ گداؤں کی آستانے پر
چلوکہ جھولیاں اپنی بھی بھرکے دیکھتے ہیں
وہیں پہ ہوتی ہے جب دل کی ہردعا پوری
توہردعا کو وہیں پیش کرکے دیکھتے ہیں
رئیس !سب پہ ہی کرتے وہ کرم بے شک
ہم اپنی عرض بھی اب پیش کرکے دیکھتے ہیں
t


    دربار نبی سبحان اللہ
ریحانہ احسان
 
(۲۰؍جولائی ۹۶۲ء کراچی)۱
    دربار نبی سبحان اللہ
 
 
    جہاں اجلے بول برستے ہیں
 
    جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
 
    دربار نبی سبحان اللہ
 


    جہاں مٹی میں سچائی ہے


    جہاں پانی میں اچھائی ہے
’’قلم ملا بھی تو آپ سے ہے‘‘
(خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہونے اور ان کے حکم سے قلم انتخاب کرنے کی
سعادت حاصل ہونے کے بعدیہ نعتِ نبی کہنے کی سعادت حاصل ہوئی)


    دربار نبی سبحان اللہ




    جہاں روشنی لفظ کے ساتھ چلے
یہ سلسلہ بھی تو آپ سے ہے
 
یہ حوصلہ بھی تو آپ سے ہے
    جہاں سورج بن کربات چلے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
 
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
      دربار نبی سبحان اللہ
درست کہ آندھیاں بجھائیں گی اس دیے کو
 
ہوائیں طوفاں میں آزمائیں گی اس دیے کو
 
ہزارتاریکیاں ستائیں گی اس دیے کو
    جہاں دنیا دنیا چین ملے
قسم زمانے کی …قلبِ ویراں کا
 
یہ دِیابھی تو آپ سے ہے
    جہاں کملی میں کونیں ملے
مرا مقدّر کہ میرے آقا
 
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
      دربار نبی سبحان اللہ
خود اپنی آتش میں کھولتے ،اَدھ جلے درختوں کے سلسلے کو
 
میں چھوڑآئی ہوں
====سچائی  (نعتیہ نظم )====
زہرآگیں ،نگاہ انداز قافلے کو
 
کہ بس جگہ دی ہے زندگی میں فقط محبت کے مسئلے کو
مرے اک ہاتھ پرخورشید
خزاں گزیدہ رتوں میں آقا
 
یہ گُل کھلا بھی تو آپ سے ہے
اوراک ہاتھ پر مہتاب رکھ دو
مرے لہو میں ہر ایک لحظہ
 
یہ لااِلٰہ بھی توآپ سے ہے
 
مرا مقدّر کہ میرے آقا
پھر بھی میں وہی بات دہراؤں گا
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
 
t
جو سچ ہے
زخمیؔ کانپوری
 
(ولادت ۸؍اگست۱۹۳۸ء کانپور)
اناالنبی لاکذب
دل کا یہی ہے ہر دم اصرار یا محمد
 
بلوائیے مدینے اک بار یا محمد
اناابن عبدالمطلب
امداد کو نہ کیسے میں آپ کو پکاروں
 
عصیاں کا دوش پر ہے اک بار یا محمد
 
عاصی تو ہوں یقینا ہوں اُمتی تمھارا
چند سچے لفظ
اس بات سے نہیں ہے انکار یا محمد
 
روضے سے دور رہ کرجینا ہُوا ہے دُو بھر
ایک سچی بات
بیڑا لگائیں میرا اب پار یا محمد
 
ہیں آپ ہی کی یادیں ہیں آپ ہی کے جلوے
اناالنبی لاکذب
دل میں کھلا ہوا ہے گلزار یا محمد
 
ہوآپ کا اشارا پہنچوں میں اُڑ کے طیبہ
اناابن عبدالمطلب
بیٹھا ہوا ہوں میں تو تیار یا محمد
 
زخمیؔ کے حال پر بھی چشم کرم خدارا
 
مانا نہیں کرم کا حقدار یا محمد
یہ سچائی جونازک بیل کے مانند
t
 
زیب غوری
خیراورحسن کے موسم کی خوشبوئیں لیے
(۱۹۲۸ء کانپور … یکم اگست ۱۹۸۵،کراچی)
 
پاک فضاؤں کو آلودا مت کرنا
لمحے سے لمحے کی طرف چلتی رہی
اُن گلیوں میں میرا چرچامت کرنا
 
مجھ کو جو نسبت ہے اسمِ محمدسے
اورمیرے باپ تک پہنچی
اُس نسبت کاکوئی اشارہ مت کرنا
 
جھوٹے تھے سارے عہد وپیماں میرے
 
میرے گناہوں کوبے پردامت کرنا
سوجب میں مامتا سے کانپتی بانہوں میں خوابیدہ تھا
چُپ رہنا میرے بارے میں اُن کے حضور
 
کچھ کہہ کر مجھ کو شرمندہ مت کرنا
میرے باپ نے مجھ کوجگا دیا
کبھی تووہ محرم آنکھیں دیکھیں گی مجھے
 
لیکن اُن سے کوئی تقاضا مت کرنا
اورکہا
میرا نام مدینے میں لے لینا بس
 
اس سے زیادہ عرض ِ تمنا مت کرنا
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
-
 
اس قدر ہوش اسے چاہنے والے رکھنا
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ
دیکھنا اس کو توکچھ پردے بھی ڈالے رکھنا
 
اس نے مٹی سے تعلق نہیں توڑا اپنا
====رئیس،احمد چشتی====
سونے چاندی کے کٹورے نہ پیالے رکھنا
 
وہ حرم تھا وہاں گنجائش ِ مستی تھی بہت
(۷؍اگست ۱۹۴۰ء اجمیر شریف)
یہ مدینہ ہے یہاں خود کو سنبھالے رکھنا
 
ہاتھ رکھنا وہ تہی دستوں کے سر پر اس کا
درحضور کو جوآنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
کہیں صحراؤں میںچشمے کہیں لالے رکھنا
 
اے مدینے کی مہکتی ہوئی روشن گلیو!
دلوں میں چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
یاداُس پیکرِخوبی کے حوالے رکھنا
 
کام آجائیں یہی اشکِ ندامت شاید
 
یہ گہر دل کے کسی کونے میں ڈالے رکھنا
ہے ان کا روضہ اقدس جو خلد سے بڑھ کر
وہ پشیمانوں پہ جولانیٔ رحمت اس کی
 
درگزر کے کسی پہلو کونکالے رکھنا
توساکنانِ جناں بھی گذر کے دیکھتے ہیں
پھولوں نے فیض رسانی کی ادا پہچانی
 
اس سے سیکھا ہے چراغوں نے اجالے رکھنا
 
اس کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ
وہ اہتمام ہے جشن ولادت شہہ کا
سہل تھا جن پہ پہاڑوں کوسنبھالے رکھنا
عرش سی پاک زمینوں پہ قدم رکھو گے
زیبؔ یہ سوئے ادب ہے اسے ٹالے رکھنا
t
ساجد علی ساجدؔ
(۲۷؍فروری ۱۹۵۰… ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء لراچی)
آپ علم و آگہی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ روحِ زندگی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ غیبی روشنی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ حسنِ دائمی کا زندۂ و پائندہ نقش


کہ آسمان وزمین سب سنور کے دیکھتے ہیں
  آپ کے دم سے ہے قائم یہ حیات و کائنات
آپ کے لطف و کرم سے ہے بہاروں کو ثبات
آپ کے درسِ مبارک سے ہے روشن یہ حیات
آپ کے نقشِ قدم ہیں منزلِ راہِ نجات


آپ دشتِ بے اماں میں سایۂ ابرِ بہار
آپ اس تیرہ شبی میں روشنی کا اِک مَنار
آپ کا علم و عمل انسانیت کا افتخار
آپ انساں کے لیے ہیں رحمتِ پروردگار


ہوتی ہے نور کی تقسیم شہر میں گھر گھر
آپ کی ذاتِ گرامی منبعِ علم و یقیں
آپ کی تقلید ہے آئینۂ حبل المتیں
آپ کے قول و عمل ہیں محورِ دنیا و دیں
آپ کا عرفان ہے ، عرفانِ رب العالمیں


توہم بھی گھر میں چراغاں ہی کرکے دیکھتے ہیں
زندگی کا ہر شمارہ آپ سے منسوب ہے
آپ کا محبوب ہی اللہ کا محبوب ہے
دشمنوں پر رحم کرنا آپ کو مرغوب ہے
عاصیوں پہ لطف و رحمت یہ عمل بھی خوب ہے


آپ کی اُمت میں ہوں میرے لیے اعزاز ہے
عاصیوں پر ابرِ رحمت ، آپ کا اعجاز ہے
اِس زمیں سے آسماں تک ، آپ کی پرواز ہے
آپ پر ، اللہ اکبر ، خود خدا کو ناز ہے


مسافرانِ مدینہ ہیں ان کو کیا پروا
  منّتِ رب، ہاتھ میں ہے میرے داماں آپ کا
 
مجھ کوجو کچھ ہے میسر ، سب ہے فیضاں آپ کا
یہ کچھ بکھیڑے نہ زادسفر کے دیکھتے ہیں
زندگی پر میری ضو افگن ہے احسان آپ کا
ہے خدا آگاہی بے شک ، صرف عرفاں آپ کا


 
میرے آقا نے ہدایت سے منّور کردیا
لگی ہے بھیڑ گداؤں کی آستانے پر
دین و دنیا کی حقیقت سے منّور کردیا
 
علم و تہذیب و فراست سے منّور کردیا
چلوکہ جھولیاں اپنی بھی بھرکے دیکھتے ہیں
دل مِرا ساجدؔ ! صداقت سے منّور کردیا
 
t
 
ساجد وارثی
وہیں پہ ہوتی ہے جب دل کی ہردعا پوری
(ولادت ۱۹۵۶ء ڈھاکہ)
 
کہاں تک بیاں ہو ثنائے محمد
توہردعا کو وہیں پیش کرکے دیکھتے ہیں
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد
 
ہمارا مقدر نہ کیوں جگمگائے
 
ہے دل میں ہمارے ثنائے محمد
رئیس !سب پہ ہی کرتے وہ کرم بے شک
اُسے کیا جلائے گی نارِ جہنم
 
ہے سینے میں جس کے وفائے محمد
ہم اپنی عرض بھی اب پیش کرکے دیکھتے ہیں
خدا نے اُدھر شانِ رحمت عطا کی  
 
جدھر انگلیوں کو اُٹھائے محمد
====ریحانہ احسان====
ملاتا ہے ہم کو جو عرشِ خدا سے 
 
ہمیں راستہ وہ دکھائے محمد
(۲۰؍جولائی ۹۶۲ء کراچی)
نہ دنیا کی حسرت نہ عقبیٰ کی خواہش
 
مرا دل ہے ساجدؔ! فدائے محمد
 
t
’’قلم ملا بھی تو آپ سے ہے‘‘
ساقیؔ جاوید
 
(۵ ؍جنوری ۱۹۲۱ء ناگپور…۲۶؍جنوری۱۹۹۴ء کراچی)
(خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہونے اور ان کے حکم سے قلم انتخاب کرنے کی
اے نقیبِ قرآنی اے رسولِ یزدانی
سعادت حاصل ہونے کے بعدیہ نعتِ نبی کہنے کی سعادت حاصل ہوئی)
تم ہوزیست کے رہبر تم حیات کے بانی
 
چہرۂ مبارک کا جس نے نوُر دیکھا ہے
 
ا س نے خلد دیکھی ہے اس نے طور دیکھا ہے
یہ سلسلہ بھی تو آپ سے ہے
تم زمیں پہ کیا آئے بادِ نوبہار آئی
 
جام لالہ فام آیا بُوئے مُشک بار آئی
یہ حوصلہ بھی تو آپ سے ہے
نام میں بھی نکہت ہے یاد میں بھی خوشبو ہے
 
کیا جمالِ عارض ہے کیا بہار گیسوہے
 
تم حرا کے پہلو میں تم منیٰ کی وادی میں
مرا مقدّر کہ میرے آقا
تم ہوجذبۂ دل میں قوتِ ارادی میں
 
تم نے ریگ زاروں میں زندگی بکھیری ہے
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
اک چراغ ہم کوبھی غم کی رات اندھیری ہے
 
تم جہاں سے اٹھے تھے وہ بنائے ہستی ہے
 
تم جہاں ہوخوابیدہ زندگی برستی ہے
درست کہ آندھیاں بجھائیں گی اس دیے کو
تم کو یاد کرتی ہے دیدۂ بلال اب تک
 
راستہ دکھاتا ہے عشقِ بے مثال اب تک
ہوائیں طوفاں میں آزمائیں گی اس دیے کو
لب پہ نام آتا ہے روح مُسکراتی ہے
 
زندگی بہاروں میں ڈوب ڈوب جاتی ہے
 
اے صبا مدینہ کوجارہی ہے جاں لے جا
ہزارتاریکیاں ستائیں گی اس دیے کو
کوچۂ محمد تک روحِ تشنگاں لے جا
 
زخم یادکرتے ہیں غم سلام کہتاہے
قسم زمانے کی …قلبِ ویراں کا
اے نبی میں آپہنچا تشنہ کام کہتاہے
 
t
یہ دِیابھی تو آپ سے ہے
سبطِ جعفر
 
(۳۰؍جون ۱۹۵۷ء کراچی…۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء کراچی)
 
بعدِ ذکرِ خدا وحمد وسپاس
مرا مقدّر کہ میرے آقا
نعتِ احمد ہے زندگی کی اساس
 
آپ کا اسمِ پاک ہے طٰہٰ
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے  
طاہراً ، طیباً عن الانجاس
 
عطر کی بو دماغ پر ہے گراں
 
َخلقِ احمد کی سونگھ لو بو باس
خود اپنی آتش میں کھولتے ،اَدھ جلے درختوں کے سلسلے کو
وصف اعلیٰ تر از رسائی فکر
 
ذات بالا تر از گمان وقیاس
میں چھوڑآئی ہوں  
نعت میں گر چلے زبانِ کلیم
 
دور ہوجائیں لکنت و آماس
 
اُن کو سمجھے بشر جو اپنا سا
زہرآگیں ،نگاہ انداز قافلے کو
ایسے انساں کے کھو چکے ہیں حواس
 
بھیجئے اپنے جد کے روضے پر
کہ بس جگہ دی ہے زندگی میں فقط محبت کے مسئلے کو
سبطِ جعفر کو جلد یا عباس!
 
t
 
سبکتگیںصباؔ، محمد
خزاں گزیدہ رتوں میں آقا
(۲۱؍اپریل ۱۹۵۲ء لاہور)
 
عجب اک تشنۂ خودآگہی ذہنوں پہ چھاتا ہے
یہ گُل کھلا بھی تو آپ سے ہے
محمد مصطفی کانام جب ہونٹوں پہ آتاہے
 
میں شب کی ساعتوں کو ان پہ جب قربان کرتاہوں
 
مجھے لگتا ہے جیسے مجھ میں کوئی جاگ جاتاہے
مرے لہو میں ہر ایک لحظہ
کہاں کی نیند بلکہ میں توپلکیں بھی نہ جھپکائوں
 
بھلا ایسے حسیں لمحوں کوئی یوں گنواتا ہے
یہ لااِلٰہ بھی توآپ سے ہے
انہی کی ذات سے ملتاہے منزل کا نشاں سب کو
 
انہی کا نور ہے جوراستہ سیدھا دکھاتا ہے
 
نہ خواہش محل کی مجھ کو نہ حسرت ہے میناروں کی
مرا مقدّر کہ میرے آقا
مجھے تو سبز گنبد کملی والے کا ہی بھاتاہے
 
تصور حاضری کا ہی عجب سی کیفیت بخشے
قلم ملا بھی تو آپ سے ہے
کبھی مجھ کو ہنستا ہے کبھی مجھ کو رلاتاہے
 
میں جب دہلیز پران کی ہمہ تن گوش ہوتا ہوں
====زخمیؔ کانپوری====
مرے کانوں میں کوئی سرمدی نغمہ سناتاہے
 
اسی سے جان لو رُتبہ محمد کا جہاں والو
(ولادت ۸؍اگست۱۹۳۸ء کانپور)
کہ وہ ایسی حقیقت ہے قسم رب جس کی کھاتاہے
 
مجھے ہو فکر کیوں اپنی صباؔ پھر روزِ محشر کو
دل کا یہی ہے ہر دم اصرار یا محمد
محمد سے جو رشتہ ہے محمد سے جو ناتاہے
 
t
بلوائیے مدینے اک بار یا محمد
سحرؔؔ انصاریؔؔ ،پروفیسر
 
(ولادت ۲۷؍دسمبر۱۹۴۱ء اورنگ آباد،حیدرآباد دکن)
 
مری آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے
امداد کو نہ کیسے میں آپ کو پکاروں
میں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے
 
کہاں میں اور کہاں طیبہ کی گلیوں کا طواف اے دل
عصیاں کا دوش پر ہے اک بار یا محمد
ہوں اپنے بخت پر نازاں کہ یہ لطفِ پیمبر ہے
 
مدینے کی فضائیں کس قدر ایمان پرور ہیں
 
ہر اک لب پر یہاں صلِ علیٰ، اللہ اکبر ہے
عاصی تو ہوں یقینا ہوں اُمتی تمھارا
سلیقہ حمد کا سکھلا دیا ہم بے زبانوں کو
 
محمد کا یہی سب سے بڑا احسان ہم پر ہے
اس بات سے نہیں ہے انکار یا محمد
دعا مانگو درِ اقدس پہ آکر دردمندی سے
 
یہاں جو اشک آنکھوں سے گرے قیمت میں گوہر ہے
 
سہے ہیں جورِ اعدا، دینِ حق کو عام کرنے میں
روضے سے دور رہ کرجینا ہُوا ہے دُو بھر
جبھی تو رحمت للعالمیں کا تاج سر پر ہے
 
کسی کی سمت جانے کا گماں تک کر نہیں سکتے
بیڑا لگائیں میرا اب پار یا محمد
انھی کے در سے وابستہ سحرؔ اپنا مقدر ہے
 
t
 
سحرؔ تاب رومانی
ہیں آپ ہی کی یادیں ہیں آپ ہی کے جلوے
(ولادت ۱۳؍مارچ ۱۹۶۴ء ،میرپور ،سندھ)
 
جب کرم کی وہ نظر ہونے لگی
دل میں کھلا ہوا ہے گلزار یا محمد
زندگی اپنی بسر ہونے لگی
 
آپ کی چشمِ عنایت کے طفیل
 
دھول پیروں کی گُہر ہونے لگی
ہوآپ کا اشارا پہنچوں میں اُڑ کے طیبہ
ذات کی جب آگہی بخشی گئی
 
پھر مجھے اپنی خبر ہونے لگی
بیٹھا ہوا ہوں میں تو تیار یا محمد
پھر چراغِ زندگی روشن ہوا
 
پھر شبِ غم کی سحر ہونے لگی
 
نعت کہنے کا سلیقہ آگیا
زخمیؔ کے حال پر بھی چشم کرم خدارا
شاعری میرا ہنر ہونے لگی
 
t
مانا نہیں کرم کا حقدار یا محمد
-
ستاروں سے سلامی چاہتاہوں
میں اُس در کی غلامی چاہتا ہوں
رہے جاری مرے ہونٹوں پہ ہر دم
ترا اسمِ گرامی چاہتا ہوں
مرے اعمال کو بھی معتبر کر
میں اپنی نیک نامی چاہتا ہوں
کرم ہے نعت کہنے کایہ فن بھی
مگر میں طرزِ جامی چاہتا ہوں
مجھے سحر البیانی بھی عطا ہو
سحرؔ ! میں خوش کلامی چاہتا ہوں
t
سخاوت علی نادرؔ
(۷؍اگست ۱۹۶۲ء کراچی)
مرے نبی سا یہاں خوش خصال کوئی نہیں
کہیںبھی دوسری ایسی مثال کوئی نہیں
فقیر ہوں میں سوالی ہوں تیرا منگتا ہوں  
جہاں میں مجھ سا مگر مالامال کوئی نہیں
یہ دَین ہے مرے مولا کی میں کہوں نعتیں
مرا ذرا سا بھی اس میں کمال کوئی نہیں
تمنا دل میں مچلتی ہے اور یہ کہتی ہے
بس اُن کے در کے سوا اب سوال کوئی نہیں
کرم کی بھیک عطا ہو گنہگاروں کو
بجز تمہارے مری اور ڈھال کوئی نہیں
درِ نبی کی کی زیارت نصیب ہو نادرؔ !
نظر کا اس سے بڑا اور کمال کوئی نہیں
t
سراج الدین ظفر
(۲۵ ؍مارچ ۱۹۱۲ء جہلم…۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
سبوئے جاں میں جھلکتا ہے کیمیا کی طرح
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح
قدح گسار ہیں اُس کی اماں میں جس کا وجود
سفینۂ دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح
وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچۂ ادراک
وہ جس کانام نسیمِ گرہ کشا کی طرح
طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی
حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح
وہ جس کاجذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب
وہ جس کا عزم تھا دستور ِارتقا کی طرح
وہ جس کا سلسلۂ جود،ابرِ گوہر بار
وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح
سوادِ صبحِ ازل ، جس کے راستے کا غبار
طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقشِ پا کی طرح
خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار
فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد
وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک
محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
شرف ملابشریت کو اُس کے قدموں میں
یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہاکی طرح
اُسی کے حسنِ سماعت کی ہے کرامتِ خاص
وہ اِک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی طرح
وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود
یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی طرح
بغیرِ عشقِ محمد کسی سے ُکھل نہ سکے
رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا طرح
ریاضِ مدحِ رسالت میں رہوارِ غزل
چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح
نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین
مرے قلم میںہے جنبش پرِ ہما کی طرح
جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفرؔ!
دماغِ رند ہوا عرشِ کبریا کی طرح
-
اے خاتم الرسل شہ دوراں تمہیں توہو
نذرانہ جس کاہے گہرِ جاں تمہیں تو ہو
ہر آئینے کو جلوہ گہہِ شش جہات میں
جس نے دیاہے دیدۂ حیراں تمہیں تو ہو
نوعِ بشر کا محسن اعظم تمہارا نام!
عالم ہے جس کا بندۂ احساں تمہیں تو ہو
صبح ازل منور وتاباں تمہیں سے تھی
شامِ ابد کی شمعِ فروزاں تمہیں تو ہو
رشتہ ہماری ذات کا یزداں سے استوار
جس نے کیا وہ پرتوِ یزداں تمہیں تو ہو
ہر امرِ کائنات تمہاری نظر میں ہے
آگاہِ راز پیدا وپنہاں تمہیں تو ہو
ہرمسئلے میں رشد وہدایت تمہیں سے ہے
ہر فیصلے میں عدل کی میزاں تمہیں تو ہو
وہ جس نے جسم و جاں میں نئی روح پُھونک دی
وہ جس سے زندگی ہوئی جولاں تمہیں تو ہو
شاداب جس کے فیض سے میرے دل ودماغ
وہ موجۂ نسیم گلستاں تمہیں تو ہو
مجھ بے نوا و بے سروسامان شہر کو
جس نے عطا کیا سروساماں تمہیں توہو
مجھ رِند بے شعور کے دامانِ تنگ کو
بخشی ہے جس نے دولتِ عرفاں تمہیں تو ہو
مجھ بوریا نشیں کو قناعت کے رنگ میں
جس نے دیا ہے رُتبہ سلطاں تمہیں تو ہو
میں نے طوافِ کوئے غزالاں کے باوجود
باندھا ہے جس سے شوق کاپیماں تمہیں تو ہو
.
شرابِ عشق نبی سے جو فیضاب ہوئے
ہم ایسے رند بھی بیگانۂ شراب ہوئے
جلا جودل میںچراغِ جمالِ مصطفوی
سیاہ رو شجرِ طور کا جواب ہوئے
ہوئی طلوع جو سینے میں آرزوئے رسول
جو وسوسے تھے دلوں کے خیال و خواب ہوئے
ہراک شے کا مقدر بدل دیا اُس نے
نظر اٹھائی توذرّے بھی آفتاب ہوئے
ادا شناس تھی میزانِ انتخاب اس کی
گدا بھی منتخب چشم انتخاب ہوئے
مٹے ہوؤں کو اُبھارا ہے نقشِ نو کی طرح
ٍستم زدوں پہ کرم اُس کے بے حساب ہوئے
فریب قیصروکسریٰ کھلا زمانے پر
نظر میں افسر و اکلیل بھی سراب ہوئے
دیا وہ رتبۂ نو بوریا نشینوں کو  
کہ بورئیے بھی انہیں خلعت وخطاب ہوئے
اسی کے درسِ جلالی کا معجزہ ہے کہ ہم
حریفِ سیف ہوئے صاحب کتاب ہوئے
اُسی کا ُیمنِ قدم تھا کہ ریگ زاروں کو
سرشگفت ہوا تختہ گلاب ہوئے
اُسی کی ذات نے عالم کی رہنمائی کی
اُسی کے لطف سے تحلیل سب حجاب ہوئے
اُسی کے فیض سے آئی حریم جاں میں بہار
اُسی کے دم سے بپادل میں انقلاب ہوئے
وہ ابرِ لطف وکرم جس کی راہ کے ذرات
صبا کے ساتھ اڑے خیمۂ سحاب ہوئے
وہ بحرِ جُودوسخا جس سے بہرِ کسبِ گُہر
نجوم و شمس و قمر کاسۂ حباب ہوئے
قلم اٹھا جو مرا مدحتِ رسالت میں
دل ودماغ میں واآگہی کے باب ہوئے
دبے ہوئے تھے جو ارض وسما کے سینے میں
وہ راز اُس کی سعادت سے بے نقاب ہوئے
دل اُس کے عشق میںکھویا توپائی دل کی مراد
سراس کے درپہ جھکایا توکامیاب ہوئے
غزل سرا جو ہوا میں بذوقِ نعت ظفرؔ
زباں پہ حرفِ غزل حرفِ مستجاب ہوئے
t
سردار عبدالرّب نشترؔ
(۱۳؍جون۱۸۹۹ ء پشاور…۱۴؍فروری۱۹۵۹ء کراچی)
شب و روز مشغول صلِ علیٰ ہوں
میں وہ چاکر خاتمِ انبیا ہوں
نگاہِ کرم سے نہ محروم رکھیو
تمھارا ہوں میں گر َبھلا یا بُرا ہوں
مجھے بھی یوں معراج ، معراج والے
میں دیوانہ لیلائے معراج کا ہوں
مرے لحن پر رشک داؤد کو ہے
مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں
نہ کیوں فخر ہو عشق پر اپنے مجھ کو
رقیبِ خدا ، عاشقِ مصطفیٰ ہوں
میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ
گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں
t
سرفراز ابدؔ
(۲۵؍فروری ۱۹۵۲ء کراچی)
یہ اور بات کبھی سامنا ہوا بھی نہیں
دل اُن کی یاد سے غافل مگررہا بھی نہیں
کرم اور ایساکرم جس کی انتہا بھی نہیں
وہ مل گیا مری تقدیر میں جو تھا بھی نہیں
خدا کی بات خدا جانے وہ خدا بھی نہیں
مگریہ سچ ہے کوئی اُن سا دوسرا بھی نہیں
مطالبہ کبھی اُن سے کوئی کیا بھی نہیں
ملا وہ حسبِ ضرورت جو سوچتا بھی نہیں
چڑھا ہوں نظروں پہ چشمِ کرم کے زینے سے
نہ لکھتا نعت جہاں مجھ کو پوچھتا بھی نہیں
خدا ہے مہرباں دیوانۂ محمد پر
دوا کاہوش توکیا فرصت دعا بھی نہیں
مثال اُن کی نہ ڈھونڈوبشر کے پردے میں
نہ اب ہے اُن سانہ ہوگا کبھی ہوابھی نہیں
بسا ہُوا ہے مدینہ خیال میں جس کے
نظراٹھا کے وہ جنت کو دیکھتا بھی نہیں
کرم یہ اُن کا کہ میری طرف ہے دستِ عطا
مرا یہ حال مرا کوئی مدّعا بھی نہیں
جہاں کی راہ کا رہبر بناؤ عشقِ رسول
ابدؔ ! کچھ اس کے سوا اورراستہ بھی نہیں
t
t
====زیب غوری====
(۱۹۲۸ء کانپور … یکم اگست ۱۹۸۵،کراچی)
پاک فضاؤں کو آلودا مت کرنا
اُن گلیوں میں میرا چرچامت کرنا
مجھ کو جو نسبت ہے اسمِ محمدسے
اُس نسبت کاکوئی اشارہ مت کرنا
جھوٹے تھے سارے عہد وپیماں میرے
میرے گناہوں کوبے پردامت کرنا
چُپ رہنا میرے بارے میں اُن کے حضور
کچھ کہہ کر مجھ کو شرمندہ مت کرنا
کبھی تووہ محرم آنکھیں دیکھیں گی مجھے
لیکن اُن سے کوئی تقاضا مت کرنا
میرا نام مدینے میں لے لینا بس
اس سے زیادہ عرض ِ تمنا مت کرنا
اس قدر ہوش اسے چاہنے والے رکھنا
دیکھنا اس کو توکچھ پردے بھی ڈالے رکھنا
اس نے مٹی سے تعلق نہیں توڑا اپنا
سونے چاندی کے کٹورے نہ پیالے رکھنا
وہ حرم تھا وہاں گنجائش ِ مستی تھی بہت
یہ مدینہ ہے یہاں خود کو سنبھالے رکھنا
ہاتھ رکھنا وہ تہی دستوں کے سر پر اس کا
کہیں صحراؤں میں چشمے کہیں لالے رکھنا
اے مدینے کی مہکتی ہوئی روشن گلیو!
یاداُس پیکرِخوبی کے حوالے رکھنا
کام آجائیں یہی اشکِ ندامت شاید
یہ گہر دل کے کسی کونے میں ڈالے رکھنا
وہ پشیمانوں پہ جولانیٔ رحمت اس کی
درگزر کے کسی پہلو کونکالے رکھنا
پھولوں نے فیض رسانی کی ادا پہچانی
اس سے سیکھا ہے چراغوں نے اجالے رکھنا
اس کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ
سہل تھا جن پہ پہاڑوں کوسنبھالے رکھنا
عرش سی پاک زمینوں پہ قدم رکھو گے
زیبؔ یہ سوئے ادب ہے اسے ٹالے رکھنا
====ساجد علی ساجدؔ====
(۲۷؍فروری ۱۹۵۰… ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کراچی)
آپ علم و آگہی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ روحِ زندگی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ غیبی روشنی کا زندۂ و پائندہ نقش
آپ حسنِ دائمی کا زندۂ و پائندہ نقش
  آپ کے دم سے ہے قائم یہ حیات و کائنات
آپ کے لطف و کرم سے ہے بہاروں کو ثبات
آپ کے درسِ مبارک سے ہے روشن یہ حیات
آپ کے نقشِ قدم ہیں منزلِ راہِ نجات
آپ دشتِ بے اماں میں سایۂ ابرِ بہار
آپ اس تیرہ شبی میں روشنی کا اِک مَنار
آپ کا علم و عمل انسانیت کا افتخار
آپ انساں کے لیے ہیں رحمتِ پروردگار
آپ کی ذاتِ گرامی منبعِ علم و یقیں
آپ کی تقلید ہے آئینۂ حبل المتیں
آپ کے قول و عمل ہیں محورِ دنیا و دیں
آپ کا عرفان ہے ، عرفانِ رب العالمیں
زندگی کا ہر شمارہ آپ سے منسوب ہے
آپ کا محبوب ہی اللہ کا محبوب ہے
دشمنوں پر رحم کرنا آپ کو مرغوب ہے
عاصیوں پہ لطف و رحمت یہ عمل بھی خوب ہے
آپ کی اُمت میں ہوں میرے لیے اعزاز ہے
عاصیوں پر ابرِ رحمت ، آپ کا اعجاز ہے
اِس زمیں سے آسماں تک ، آپ کی پرواز ہے
آپ پر ، اللہ اکبر ، خود خدا کو ناز ہے
  منّتِ رب، ہاتھ میں ہے میرے داماں آپ کا
مجھ کوجو کچھ ہے میسر ، سب ہے فیضاں آپ کا
زندگی پر میری ضو افگن ہے احسان آپ کا
ہے خدا آگاہی بے شک ، صرف عرفاں آپ کا


میرے آقا نے ہدایت سے منّور کردیا
سرور بارہ بنکوی
 
(۳۰ ؍جنوری ۱۹۱۹ء بارہ بنکی یوپی…۳؍اپریل۱۹۸۰ء ڈھاکہ)
دین و دنیا کی حقیقت سے منّور کردیا
سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا
 
زباں کو حوصلہ مدحِ آنجناب ہوا
علم و تہذیب و فراست سے منّور کردیا
نہ ہوسکا ہے نہ ہوگاازل سے تابہ ابد
 
جواب اس کا جو آپ اپنا خود جواب ہوا
دل مِرا ساجدؔ ! صداقت سے منّور کردیا
اسی کے فیض سے ارض وسما عبارت ہیں
 
اسی کے نور سے ظلمت کا سدِّباب ہوا
====ساجد وارثی====
زفرش تابہ فلک کون ایسا ذرہ ہے
 
جو آفتاب کرم سے نہ فیض یاب ہوا
(ولادت ۱۹۵۶ء ڈھاکہ)
وہی ہے نکتۂ آغاز علم وحکمت کا
 
وہ اسم پاک جہاں داخلِ نصاب ہوا
کہاں تک بیاں ہو ثنائے محمد
اب ایسی ذات گرامی کی مدح کیا ہوگی
 
کہ جس کے نام سے قرآں کا انتساب ہوا
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد
-
 
اللہ اللہ میری قسمت ایسا رتبہ اورمیں
 
جاگتی آنکھوں سے دیکھوں خوابِ طیبہ میں
ہمارا مقدر نہ کیوں جگمگائے
دم بخود ہیں آج دونوں میری دنیا اورمیں
 
بارگاہ صاحبِ یسٰین وطہٰ اورمیں
ہے دل میں ہمارے ثنائے محمد
آج ان آنکھوں کو بینائی کا حاصل مل گیا
 
روبرو ہے گنبد خضرا کا جلوہ اورمیں
 
آپ کی چشم کرم کا میں نے دیکھا معجزہ
اُسے کیا جلائے گی نارِ جہنم
آپ کے روضے کی جالی میرے آقا اورمیں
 
آپ ہی چاہیں تورکھ لیں آبروورنہ حضور
ہے سینے میں جس کے وفائے محمد
اپنے منہ سے آپ کی نسبت کا دعویٰ اورمیں
 
مجھ کو اذنِ باریابی اوراس انداز سے
 
آپ پرقرباں مرے اجداد وآبا اور میں
خدا نے اُدھر شانِ رحمت عطا کی
میں جہاں پرہوںوہاں محسوس ہوتاہے سرورؔ
 
جیسے پیچھے رہ گئے ہوں میری دنیا اور میں
جدھر انگلیوں کو اُٹھائے محمد
t
 
سرورؔ جاوید
 
(۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء بلند شہر، بھارت)
ملاتا ہے ہم کو جو عرشِ خدا سے 
عقیدتوں کا سفر یوں تو عمر بھر کا ہے
 
مگر نجات کا رستہ تمھارے گھر کا ہے
ہمیں راستہ وہ دکھائے محمد
ولائے نعتِ محمد شعورِ ذات نبی
 
تمام عمر یہی راستہ سفر کا ہے
 
اندھیری شب میں برائے سفرہے یہ خورشید
نہ دنیا کی حسرت نہ عقبیٰ کی خواہش
کڑی ہو دھوپ تو سایہ اسی شجر کا ہے
 
جو اس کی ذات کی وسعت سمیٹنے بیٹھوں
مرا دل ہے ساجدؔ! فدائے محمد
وہی ہو حال خرد کا کہ جو نظر کا ہے
 
وفا کا حسن ، محبت کا فن ، کمالِ حیات
 
اسی کی ذات سے رشتہ ہر اک ہنر کا ہے
====ساقیؔ جاوید====
عقیدتوں میں محبت کے رنگ ہیں سرورؔ
 
یہ سلسلہ بھی اسی ذات کے اثر کا ہے
(۵ ؍جنوری ۱۹۲۱ء ناگپور…۲۶؍جنوری۱۹۹۴ء کراچی)
t
 
سعدیہ حریم
اے نقیبِ قرآنی اے رسولِ یزدانی
(۹؍جنوری ۱۹۴۶ء لکھنؤ)
 
رقم کیسے کروں شانِ محمد
تم ہوزیست کے رہبر تم حیات کے بانی
خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد
 
ازل سے تا ابد جاری و ساری
 
بحمدِ اللہ ہے فیضانِ محمد
چہرۂ مبارک کا جس نے نوُر دیکھا ہے
تمنائیِ رضائے حق اگر ہے
 
عمل کر حسبِ فرمانِ محمد
ا س نے خلد دیکھی ہے اس نے طور دیکھا ہے
وہ سقراط و ارسطو سے ہے برتر
 
جو ہے طفلِ دبستانِ محمد
 
ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر
تم زمیں پہ کیا آئے بادِ نوبہار آئی
ہیں چاروں جاں نثارانِ محمد
 
فرشتوں کو بھی اس پر رشک آئے
جام لالہ فام آیا بُوئے مُشک بار آئی
جسے ہو جائے عرفانِ محمد
 
وہ ہیں منشائیِ تخلیق دو عالم
 
دو عالم پر ہے احسانِ محمد
نام میں بھی نکہت ہے یاد میں بھی خوشبو ہے
تمنائے حریمؔ اللہ یہی ہے
 
کہے اک نعت شایانِ محمد
کیا جمالِ عارض ہے کیا بہار گیسوہے
t
 
سعید الظفر صدیقی
 
(۲۱؍ مارچ ۱۹۴۴ء بھوپال، بھارت)
تم حرا کے پہلو میں تم منیٰ کی وادی میں
تھا جو مٹی کا بدن کندن بنا کر آئے ہیں
 
بارشوں میں ہم مدینے کی نہا کر آئے ہیں
تم ہوجذبۂ دل میں قوتِ ارادی میں
ہم نے خود آنکھوں سے دیکھے ہیں نظارے خلد کے
 
ہم سے پوچھو ہم درِ اقدس پہ جا کر آئے ہیں
 
ہیچ ہیں نظروں میں اب سارے جہاں کی رونقیں
تم نے ریگ زاروں میں زندگی بکھیری ہے
خاکِ طیبہ کو ان آنکھوں سے لگا کر آئے ہیں
 
اپنے والی ، اپنے حامی ، اپنے آقاؐ کے حضور
اک چراغ ہم کوبھی غم کی رات اندھیری ہے
اپنی بپتا ، اپنا حالِ دل سنا کر آئے ہیں
 
بے سر و ساماں گئے تھے لے کے لوٹے کائنات
 
نام آقاؐ کے غلاموں میں لکھا کر آئے ہیں
تم جہاں سے اٹھے تھے وہ بنائے ہستی ہے  
بوجھ سر پر تھا گناہوں کا ظفرؔ کرتے بھی کیا
 
ایک کونے میں کھڑے آنسو بہا کر آئے ہیں
تم جہاں ہوخوابیدہ زندگی برستی ہے
-
 
جب سے سرکارؐ کی روشنی مل گئی
 
زندگی کو نئی زندگی مل گئی
تم کو یاد کرتی ہے دیدۂ بلال اب تک
آخری آرزو دل کی پوری ہوئی
 
دوریاں مٹ گئیں ، حاضری مل گئی
راستہ دکھاتا ہے عشقِ بے مثال اب تک
ہیں اجالے قدم در قدم ہم رکاب
 
رہ گزر ، رہ گزر روشنی مل گئی
 
لوگ جو پستیوں میں تھے ڈوبے انہیں
لب پہ نام آتا ہے روح مُسکراتی ہے
آکے طیبہ میں خوش قامتی مل گئی
 
مل گئیں عاجزوں کو سرافرازیاں
زندگی بہاروں میں ڈوب ڈوب جاتی ہے
بے قراروں کو آسودگی مل گئی
 
دو جہانوں میں وہ سرخرو ہو گیا
 
جس کو محبوبِؐ رب کی گلی مل گئی
اے صبا مدینہ کوجارہی ہے جاں لے جا
نعت کہنے کا جس دم ارادہ کیا
 
اک مہکتی ہوئی شاعری مل گئی
کوچۂ محمد تک روحِ تشنگاں لے جا
دل جو طیبہ کی فرقت میں رویا سعیدؔؔ
 
اس کو سارے جہاں کی خوشی مل گئی
 
t
زخم یادکرتے ہیں غم سلام کہتاہے
سعیدؔ عباسی
 
(یکم اگست ۱۹۲۳ء بدایوں)
اے نبی میں آپہنچا تشنہ کام کہتاہے
ہزار بار اُٹھیں گے قدم خدا کی طرف
 
بس ایک بار چلے آؤمصطفی کی طرف
 
تمام عالمِ انسانیت تھازیرِ قدم
====سبطِ جعفر====
بڑھے تھے سرورِ کونین جب حرا کی طرف
 
جہاں سے حضرت جبریل ہو گئے واپس
(۳۰؍جون ۱۹۵۷ء کراچی…۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء کراچی)
وہ اِک قدم تھا محمد کا انتہاکی طرف
 
یہ اور بات کہ واعظ نے قبلہ رو جانا
بعدِ ذکرِ خدا وحمد وسپاس
ہمارا رُخ تھا اُنہیں کے نقوشِ پا کی طرف
 
امیرِ شہر کی نظریں کسی طرف ہی سہی
نعتِ احمد ہے زندگی کی اساس
غریبِ شہر کی آنکھیں ہیں مصطفی کی طرف
 
اُنہیں کا نقشِ کفِ پا نشانِ منزل ہے  
 
یہی تو ہیں کہ جو لے جائیں گے خدا کی طرف
آپ کا اسمِ پاک ہے طٰہٰ
خدا سے عشقِ محمد کی روشنی مانگیں
 
یہ انتہا ہے کہ لوٹ آئیں ابتدا کی طرف
طاہراً ، طیباً عن الانجاس
t
 
سلیم احمد
 
(۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء بارہ بنکی،یوپی…یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کراچی)
عطر کی بو دماغ پر ہے گراں
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
 
ثنا کرے کوئی اس کی کیونکر بشر ہے لیکن خدا نما ہے
َخلقِ احمد کی سونگھ لو بو باس
وہی ہے اول وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر
 
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیاہے جو رہ گیا ہے
 
وہ سر تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
وصف اعلیٰ تر از رسائی فکر
وجود کی ساری وسعتوں پرمحیط ہے جو وہ دائرہ ہے
 
انہی کا مسکن انہی کا گھر ہے انہی کی نسبت سے معتبر ہیں
ذات بالا تر از گمان وقیاس
حرم ہو طیبہ ہو میرا دل ہویہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
 
کوئی نہیں ہے مثیل اس کا کوئی نہیں ہے نظیر اس کا
 
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اورآپ اپنا ہی آئنہ ہے
نعت میں گر چلے زبانِ کلیم
ہے خطِ واصل کہ حد فاضل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
 
سلیم عاجز ہے فہم کامل وہی بشر ہے وہی خدا ہے
دور ہوجائیں لکنت و آماس
-
 
طبیعت تھی میری بہت مضمحل
 
کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل
اُن کو سمجھے بشر جو اپنا سا
بہت مضطرب تھا بہت بے حواس
 
کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھاراس
ایسے انساں کے کھو چکے ہیں حواس
مرے دل میں احساس غم رم گیا
 
غبار آئینے پر بہت جم گیا
 
مجھے ہوگیا تھا اک آزار سا
بھیجئے اپنے جد کے روضے پر
میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا
 
یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی
سبطِ جعفر کو جلد یا عباس!
کہ اک دن تھا نویدِ شفا مل گئی
 
مجھے زندگی کا سلام آگیا
 
زباں پہ محمد کا نام آگیا
====سبکتگیں صباؔ، محمد====
محمد قرار دل بیکساں
 
کہ نام محمد ہے آرامِ جاں
(۲۱؍اپریل ۱۹۵۲ء لاہور)
ریاضِ خدا کا ُگلِ سرسبد
 
محمد ازَل ہے محمد ابد
عجب اک تشنۂ خودآگہی ذہنوں پہ چھاتا ہے
محمد کہ حامد بھی محمود بھی
 
محمد کہ شاہد بھی مشہود بھی
محمد مصطفی کانام جب ہونٹوں پہ آتاہے
محمد سراج و محمد منیر
 
محمد بشیر ومحمد نذیر
 
محمد کلیم و محمد کلام
میں شب کی ساعتوں کو ان پہ جب قربان کرتاہوں
محمد پہ لاکھوں درود و سلام
 
.
مجھے لگتا ہے جیسے مجھ میں کوئی جاگ جاتاہے
شوقِ بے حد، غمِ دل، دیدۂ تر مل جائے
 
مجھ کو طیبہ کے لیے اذن سفر مل جائے
 
نام احمد کا اثر دیکھ جب آئے لب پر
کہاں کی نیند بلکہ میں توپلکیں بھی نہ جھپکائوں
چشم بے مایہ کوآنسو کا گہر مل جائے
 
چشم خیرہ،نگراں ہے رخ آقا کی طرف
بھلا ایسے حسیں لمحوں کوئی یوں گنواتا ہے
جیسے خورشید سے ذرّے کی نظر مل جائے
 
یاد طیبہ کی گھنی چھاؤں ہے سرپہ میرے
 
جیسے تپتی ہوئی راہوں میں شجر مل جائے
انہی کی ذات سے ملتاہے منزل کا نشاں سب کو
نخل صحراکی طرح خشک ہوں وہ ابر کرم
 
مجھ پہ برسے تومجھے برگ و ثمر مل جائے
انہی کا نور ہے جوراستہ سیدھا دکھاتا ہے
/
 
میرا سکھ سنسار محمد
 
جی کا چین قرار محمد
نہ خواہش محل کی مجھ کو نہ حسرت ہے میناروں کی
میرا سب کچھ تم پر صدقے
 
میں اور سب گھر بار محمد
مجھے تو سبز گنبد کملی والے کا ہی بھاتاہے
دُکھ برہا کے کب تک جھیلوں
 
درشن دو، سرکار محمد
 
گھورِ اندھیرا، طوفاں بھاری
تصور حاضری کا ہی عجب سی کیفیت بخشے
کر دو نیاّ پار محمد
 
چھٹ گئے دکھ، بپتا کے بادل
کبھی مجھ کو ہنستا ہے کبھی مجھ کو رلاتاہے
جب بھی کہا اک بار محمد
 
بپھری موجوں سے کیا ڈرنا
 
جب ہوں کھیون ہار محمد
میں جب دہلیز پران کی ہمہ تن گوش ہوتا ہوں
بھیک دیا کی سلیمؔ کو دے دو
 
لطف و کرم آثار محمد
مرے کانوں میں کوئی سرمدی نغمہ سناتاہے
t
 
سلیم فوز
 
(۲۸؍فروری۵ ۱۹۶ء خانیوال)
اسی سے جان لو رُتبہ محمد کا جہاں والو
تری یاد وہ دلِ مضطرب میں سکون کو جو اُتار دے
 
تو وہ آئینہ کہ جو عکس پر نئے خدّوخال اُبھار دے
کہ وہ ایسی حقیقت ہے قسم رب جس کی کھاتاہے
ترا دھیان وہ کڑی دھوپ میںجوگھنیری چھاؤں کا آسرا
 
ترا اسم وہ جو خزاں رسیدہ شجر کو اذنِ بہار دے
 
تو وہ رہنما کہ جو دیکھتا ہے غبارِ راہ کے پار بھی
مجھے ہو فکر کیوں اپنی صباؔ پھر روزِ محشر کو
جو بھٹک گئے ، ترا نقشِ پا انہیں منزلوں کو سدھار دے
 
میں وہ بے ہنر جو نہ پا سکاتری خاکِ شہر کا مرتبہ
محمد سے جو رشتہ ہے محمد سے جو ناتاہے
مری عاجزی کوقبول کر مری عافیت کو سنوار دے
 
میں وہ کم نظر کہ جو خواہشوں کے  بھنور میں گھرتا چلاگیا
 
ترا ذکر وہ کسی ڈوبتے کو جو ساحلوں پہ ابھار دے
====سحرؔؔ انصاریؔؔ ،پروفیسر====
تجھے سوچ کر مرے جسم و روح میں پھیلتی ہے جو روشنی
 
اُسی روشنی سے مرے سخن کی صداقتوں کو نکھار دے
(ولادت ۲۷؍دسمبر۱۹۴۱ء اورنگ آباد،حیدرآباد دکن)
-
بتا دیا مری منزل کا راستہ مجھ کو
مرے نبی کے بکھرنے نہیں دیا مجھ کو
میں صرف خاک تھا اُن کے ظہور سے پہلے
کیا ہے ربطِ محبت نے کیمیا مجھ کو
میں وہ فقیرجو آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے
کرم کی بھیک ملے شاہِ انبیا مجھ کو
تمہاری یاد گُہر بن گئی ہے سینے میں
کہ آگیا ہے ستارہ تراشنا مجھ کو
میں ٹوٹ جاتا ہوں جب گردشِ زمانہ سے
تمہارے ذکر سے ملتا ہے حوصلہ مجھ کو
ملا ہے مجھ کو سبھی کچھ تمہاری نسبت سے
بس اب دکھا دو مدینے کا راستہ مجھ کو
میں بند آنکھوں سے دیکھوں تمہارے روضے کو
سکھا دو ایسا کوئی اسم یا دُعا مجھ کو
سلیم فوزؔ نے دیکھے ہوئے ہیں خواب بہت
عطا ہو مسجدِ نبوی کا رتجگا مجھ کو
t
سوزؔ شاہجہاں پوری
(۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء شاہ جہاں پور… ۲۳؍ جنوری ۶ ۹ ۹ ء کر اچی)
نہ گمان ہے نہ یقین ہے ،جو نظر میں ہے وہی راز ہے
یہی عشق کی ہیں حقیقتیں ، یہی اصلِ ناز و نیاز ہے
مِرے لب پہ نام حبیب کا ،مِرے دل میں یاد رسول کی
یہی بندگی کانظام ہے ، یہی عاشقوں کی نماز ہے
وہی حسنِ ذات کاراز داں، وہی نورِ عرش کا مدح خواں
وہی لااِلٰہ کا راز ہے ،وہی سوز ہے وہی ساز ہے
ہو زباں پہ ذکرِ نبی اگر ، تو جہاں ہے منزلِ بے خطر
یہ عجیب جادۂ عشق ہے ،کہ نشیب ہے نہ فراز ہے
وہ فلک پہ شانِ جمال ہے ، یہ زمیں پہ عکس جمال کا
یہی ایک فرق ہے درمیاں ، یہی ایک پردۂ راز ہے
جو عرب کاحسنِ تمام تھا ، وہ عجم کے دل کا سکوں ہوا
وہ حبیبِ ذاتِ اِلٰہ ہے ، وہی جانِ راز و نیاز ہے
جو غلامِ شاہِ انام ہیں ،اُنہیں سوزؔ! اِ س سے ہے واسطہ
کہ جہاں کہیں ہو وہ نقشِ پا ، وہی سجدہ گاہِ ایاز ہے
t
سہیل احمد صدیقی
(۱۵؍دسمبر ۱۹۶۴ء کراچی)
نعتیہ ہائیکو
مجھ سے ہیں بہتر کرتے ہیں بہتر کیا ماضی کیا حال؟ مانندِ شبنم
پنکھ پکھیرو کرتے ہیں روضے پہ حاضر طائر صلِ علیٰ کا ورد کرے روضے پہ جب حاضر ہوں
ذکر پیغمبر نعتِ پیغمبر خوش بخت و خوش حال ہو دیدہ پُرنم


مری آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے
دائم ہے سکھ چین جن و ملک حیراں اصل کائنات
پہلوئے آقا میں دیکھ ایک ہی جست میں اسرا کی حور و غلماں قرباں ہوں
خوابیدہ شیخین ہر منزل آساں فخرِ موجودات
t


میں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے
سید اشتیاق اظہرؔ
 
(۳؍مئی ۱۹۲۴ء کانپور … ۴؍نومبر ۱۹۹۹ء ، کراچی)
 
رسول ہاشمی نے جو سبق ہم کو پڑھایا تھا
کہاں میں اور کہاں طیبہ کی گلیوں کا طواف اے دل
اگر ہم اس سبق کویاد کرلیں دلنشیں کرلیں
 
اگر ہم آج پھر پڑھ لیں سبق مہرومحبت کا
ہوں اپنے بخت پر نازاں کہ یہ لطفِ پیمبر ہے
اگر ہم خود کو پھر وارفتۂ دینِ متیں کرلیں
 
اگر ہم آج پھر ہوجائیں گرویدہ صداقت کے
 
اگرہم اس سبق کو اوربھی دل کے قریں کرلیں
مدینے کی فضائیں کس قدر ایمان پرور ہیں
مساوات ومودت پراگرایمان لے آئیں
 
اگر ہم خود کووقفِ حکمِ رب العالمیں کرلیں
ہر اک لب پر یہاں صلِ علیٰ، اللہ اکبر ہے
یقیں ہم کو اگر ہوزندگی کی بے ثباتی کا  
 
حیاتِ چند روزہ نذرِ ختم المرسلیں کرلیں
 
اگر  ہم آشنا ہوجائیں ملت کے تقاضوں سے
سلیقہ حمد کا سکھلا دیا ہم بے زبانوں کو
پیام حق کو سمجھیں امیتازِ کفرودِیں کرلیں
 
نبی کے آخری پیغام کو پھر حفظ کر ڈالیں
محمد کا یہی سب سے بڑا احسان ہم پر ہے
خداکے دین کی سچائیوں پر پھر یقیں کرلیں
 
زمیں پر آخری امت کے اس اعزاز کی خاطر
 
ہم اپنے آپ میں پیدا خلوصِ مومنیں کرلیں
دعا مانگو درِ اقدس پہ آکر دردمندی سے
ٍخلوص مومنیں خوشنودیٔ آقا کا باعث ہے
 
چلو اورچل کے یہ پیش شفیع المذنبیں کرلیں
یہاں جو اشک آنکھوں سے گرے قیمت میں گوہر ہے
کہاں تک معصیت کی داستاں دہرائے جائیں گے
 
مناسب ہے کہ اب ہموارراہِ واپسیں کرلیں
 
زمیں پر عظمت آدم کے جلوے عام کرڈالیں
سہے ہیں جورِ اعدا، دینِ حق کو عام کرنے میں
کبھی توخود کو بھی ہم رُتبہ مہرٔ مبیں کرلیں
 
طوافِ کعبہ اپنا کعبۂ مقصود بن جائے
جبھی تو رحمت للعالمیں کا تاج سر پر ہے
مدینے کے سفر کو اپنا عزمِ اولیں کرلیں
 
سزاوارِ کرم بن جائیں ماضی کی طرف لوٹیں
 
حرم کی خاک سے آراستہ اپنی جبیں کرلیں
کسی کی سمت جانے کا گماں تک کر نہیں سکتے
تواپنے حال پر اللہ کا انعام ہوجائے
 
یہ ارضِ پاک پھر گہوارۂ اسلام ہوجائے
انھی کے در سے وابستہ سحرؔ اپنا مقدر ہے
t
 
سید فضل احمد کریم فضلیؔ
 
(۴؍نومبر۱۹۰۶ء الہٰ احمد کریم…۱۷؍دسمبر۱۹۸۱ء کراچی)
====سحرؔ تاب رومانی====
ہے اگر کائنات ایک رباب
 
ذات پاکِ حضور ہے مضراب
(ولادت ۱۳؍مارچ ۱۹۶۴ء ،میرپور ،سندھ)
سب میںکچھ کچھ کمی سے لگتی ہے
جوبھی آتے ہیں ذہن میں القاب
وہ کہ ان کا نہیں کوئی بھی مثیل
وہ کہ ان کانہیں کوئی بھی جواب
ان کی ذات وصفات اک دریا
اور الفاظ میرے مثل حباب
بے نواؤں کوعظمتیں بخشیں
ان کی عظمت کی کوئی حدنہ حساب
نور ان کا ہے کردیا جس نے
ذرے ذرے کومہرِ عالم تاب
قوم جوعلم سے تھی بے بہرہ
کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب
بے ادب بادیہ نشینوں کو
آئے موت وحیات کے آداب
موت کویوں بنادیا محبوب
لوگ مرنے کوہوگئے بے تاب
دولت وملک ونسل کی تفریق
تھی جو انسانیت کے حق میںعذاب
یوں مٹا دی کہ بوذر و سلماں
ہو گئے ہمسرِ عمر خطابؔ
آپ ہی کی بتائی وہ نکلی
جب بھی سوجھی کسی کوراہِ صواب
ان کا پیغام جس نے اپنایا
آگیا اس کی زندگی پہ شباب
روح کو ان کے عشق سے آرام
دل ہے گو اُن کے عشق میں بیتاب
ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے
سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب
ذکرِ پاک اُن کا اور تو فضلیؔ
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
t
سیف حسن پوری
(۱۹۲۵ء حسن پور گیابہار…یکم فروری ۲۰۰۶ء کراچی)
خوبی نہ پوچھ اہلِ محبت سے پھول کی
ہر پنکھڑی سے آتی خوشبو رسول کی
ہم نے جو داد مطلع کی اپنے وصول کی
تعریف کی خدا کی خدا کے رسول کی
ہاتھ آگیا حضور کی سیرت کا آئینہ
تالیف ہو گئی مرے قلبِ ملول کی
نوعِ بشر کو واقفِ سود و زیاں کیا
دکھلائی راہ زیست کے اصل الاصول کی
جب چھڑگیا کبھی رُخِ زیبا کاتذکرہ
آنکھوں کے آگے کھنچ گئی تصویر پھول کی
انسانیت کونورِ ہدایت ہوا نصیب
کس دل فریب لمحے میں آدم نے بھول کی
گوعمر کاٹ دی ہے گناہوں میں تو نے سیفؔ!
اب فکر کر بہشتِ بریں کے حصول کی
t


جب کرم کی وہ نظر ہونے لگی
سیما شکیب
 
( ۱۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کراچی)
زندگی اپنی بسر ہونے لگی
نہ تھا کچھ بھی یہاں ہوتے ہوئے بھی
 
جہاں کب تھا ، جہاں ہوتے ہوئے بھی
 
خدانے ایک اُمی پرکیا تھا
 
عیاں سب کچھ،نہاں ہوتے ہوئے بھی
آپ کی چشمِ عنایت کے طفیل
شبِ معراج تھم کررہ گئی تھی
 
ہراک ساعت رواں ہوتے ہوئے بھی
دھول پیروں کی گُہر ہونے لگی
جُھکے تھے آپ کی تعظیم کرنے
 
وہ سب کروبیاں ہوتے ہوئے بھی
 
حرا کی پاک خاموشی سے پُوچھو
ذات کی جب آگہی بخشی گئی
میں کیوں چُپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی
 
وہ فرشِ خاک پرآرام فرما
پھر مجھے اپنی خبر ہونے لگی
شہہِ کون ومکاں ہوتے ہوئے بھی
 
حرارت عشق کی،نغمہ بلالی
 
اذاں کب تھی،اذاں ہوتے ہوئے بھی
پھر چراغِ زندگی روشن ہوا
سفر ہجرت کا تھا رحمت خداکی
 
ہجومِ دُشمناں ہوتے ہوئے بھی
پھر شبِ غم کی سحر ہونے لگی
ثنا کا حق ادا کب ہوسکا ہے
 
زباں ، زورِ بیاں ہوتے ہوئے بھی
 
t
نعت کہنے کا سلیقہ آگیا
سیّد آل رضا
 
(۱۰؍جون ۱۸۹۶ء ضلع اناوا ودھ…یکم مارچ۱۹۷۸ء کراچی)
شاعری میرا ہنر ہونے لگی
تہذیبِ عبادت ہے سراپائے محمد
 
تسلیم کی خوشبو چمن آرائے محمد
 
تنظیمِ خدا ساز تمنائے محمد
-
منشا جو خدا کا وہی منشائے محمد
ستاروں سے سلامی چاہتاہوں
جس دل میں ہے اللہ وہیں رہتے تھے یہ بھی
 
اللہ جو کہتاہے وہی کہتے ہیں یہ بھی
میں اُس در کی غلامی چاہتا ہوں
اللہ کی طاعت ہے محمد کی اطاعت
 
قرآن کی دعوت ہے محمد کی اطاعت
 
مرکز کی حفاظت ہے محمد کی اطاعت
رہے جاری مرے ہونٹوں پہ ہر دم
حد بند شریعت ہے محمد کی اطاعت
 
ہوجتنا شعور،اتنا ہی اس حد کو سمجھ کر
ترا اسمِ گرامی چاہتا ہوں
اسلام کو سمجھو ، تو محمد کو سمجھ کر
 
اللہ ہے کیا ؟ جس نے بتایا وہ محمد
 
پیغام سا پیغام جو لایا ، وہ  محمد
مرے اعمال کو بھی معتبر کر
آیات میں پیوست جو آیا ، وہ  محمد
 
جس نے بشریت کو سجایا وہ محمد
میں اپنی نیک نامی چاہتا ہوں
معیار بنا بارگۂ عزوجل میں
 
آہنگِ محمد ، صفت قول و عمل  میں  
 
t
کرم ہے نعت کہنے کایہ فن بھی
سیّد سلیمان ندوی ،علامہ
 
(۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ضلع ؟؟؟بہار…۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء کراچی)
مگر میں طرزِ جامی چاہتا ہوں
نقش جس قلب پہ نام شہہ ابرار نہیں
 
سکۂ قلب ہے وہ درخور بازار نہیں
 
توہے مجموعہ خوبیٔ وسراپائے جمال
مجھے سحر البیانی بھی عطا ہو
کونسی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں
 
مجلسِ شاہ میں ہے نغمۂ تسلیم و درود
سحرؔ ! میں خوش کلامی چاہتا ہوں
شورِ تسبیح نہیں،شورش افکار نہیں
 
ذرّہ ذرّہ ہے مدینہ کا تجلی گہہ نور
 
دشتِ ایمن یہ نہیں،جلوہ گاہِ نار نہیں
====سخاوت علی نادرؔ====
جان دے دے کے خریدار بنے ہیں انصار
 
عشقِ زارِ نبوی مصر کا بازار نہیں
(۷؍اگست ۱۹۶۲ء کراچی)
شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں
 
کونسا ذرّہ وہاں مطلع انوار نہیں
مرے نبی سا یہاں خوش خصال کوئی نہیں
ہرقدم بادصبا،حسن ادب سے رکھنا
 
بوئے گیسوئے نبی نافۂ تاتار نہیں
کہیں بھی دوسری ایسی مثال کوئی نہیں
صیدِ مژگانِ محمد ہیں، غزالانِ حرم
 
اس لیے ناوک وپیکاں کے سزاوار نہیں
 
t
فقیر ہوں میں سوالی ہوں تیرا منگتا ہوں
سیّد محمد جعفری
 
(۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء …۷؍جنوری ۱۹۹۹ء، کراچی)
جہاں میں مجھ سا مگر مالامال کوئی نہیں
سلام بھیجوں، درود اُس نبی کو نذر کروں
 
کہ جس کو رحمتِ ُکل عالمین کہہ توسکوں
 
بلند مرتبت ایسا رسول بھیجا گیا
یہ دَین ہے مرے مولا کی میں کہوں نعتیں
کہ گرخدا نہ کہوں اُس کو ناخداتوکہوں
 
یہ شعرِ حضرتِ اقبال مجھ کو یاد آیا
مرا ذرا سا بھی اس میں کمال کوئی نہیں
کہ آبروئے بشرجس سے ہوگئی افزوں
 
’’خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے‘‘
 
’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘
تمنا دل میں مچلتی ہے اور یہ کہتی ہے
محمدِ عربی ہیں کہ جن کے صدقہ میں
 
دلِ بشر کو خدا نے دیاہے سوزِ دروں
بس اُن کے در کے سوا اب سوال کوئی نہیں
اُنھیں کے نور سے ہر خلعتِ وجود ملا
 
انھیں کے نور سے روشن جہانِ بوقلموں
 
محمد عربی وجہِ خلقت افلاک
کرم کی بھیک عطا ہو گنہگاروں کو
ودیعت اُن کو ہوا رب سے رازُِ کن فیکوں
 
’’محمد عربی آبروئے ہر دوسرا‘‘
بجز تمہارے مری اور ڈھال کوئی نہیں
انھیں کو قرب ملاہے ملائکہ سے فزوں
 
بلندیاں شبِ معراج وہ ملیں کہ جہاں
 
اگرہے عقلِ بشر کچھ توایک صیدِ زبوں
درِ نبی کی کی زیارت نصیب ہو نادرؔ !
نہ نفسِ ناطقہ پہنچے،نہ لفظ ساتھ چلیں
 
بیاں کروں شبِ معراج کاتوکیسے کروں
نظر کا اس سے بڑا اور کمال کوئی نہیں
اک عبد خاص ہے مہمانِ حضرت معبود
 
چمک رہاہے سرعرش ہر درمکنوں
 
وہ فاصلہ جو تھا قوسین بلکہ اس سے بھی کم
====سراج الدین ظفر====
مقرّب اتنا کوئی ہے ملک سے کیا پوچھوں
 
یہ جبریل نے سدرہ پہ جاکے عرض کیا
(۲۵ ؍مارچ ۱۹۱۲ء جہلم…۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کراچی)
تجلیوں سے جلیں پرگراس سے آگے چلوں
 
وہ ذات پاک ہے لے کرنبی کو جوآیا
سبوئے جاں میں جھلکتا ہے کیمیا کی طرح
حریم کعبہ سے اقصی تک اس کی حمد کروں
 
ہیں انبیاء سلف راستے میں صف بستہ
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح
دلوں میں اپنے لیے اشتیاق حد سے فزوں
 
وہ آدم اور وہ ادریس و نوح و ابراہیم
 
وہ یوسف اور سلیمان و یونسِ ذوالنوں
 
کھڑے ہیں موسی عمراں وخضر بھی ان میں
قدح گسار ہیں اُس کی اماں میں جس کا وجود
لیے ہوئے یدِبیضا عصا و ُمہر سکوں
 
وجیہِ عقبیٰ و دنیا وہ عیسی مریم
سفینۂ دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح
ہیں منتظر کہ یہ آئیں تو میں قدم لے لوں
 
بلایا کیوں شب معراج اور کہا کیا کچھ
 
خدا ہی جانتا ہے اس میں کیا ہے رازِ دروں
وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچۂ ادراک
خدا کرے کہ ملے جعفری کو یہ توفیق
 
درود بھیجے جو حدوشمار سے ہو بروں
وہ جس کانام نسیمِ گرہ کشا کی طرح
t
 
سیّد مظفر احمد ضیا
 
(۱۵؍جولائی ۱۹۳۱ء میرٹھ…۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کراچی)
طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی
آگیا دہر میں جینے کا قرینہ مجھ کو
 
میرے مولانے دکھایا ہے کہ مدینہ مجھ کو
حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح
اب بھلا بھائیں گے کیا بادہ و مینا مجھ کو
 
آب کوثر سے بھرا جام ہے پینا مجھ کو
 
کسی طوفان کا ڈر تھا نہ بھنور کاہی خیال
وہ جس کاجذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب
لے چلا جانب  طیبۂ جو سفینہ مجھ کو
 
میں نے اک خواب سادیکھا تھا کہ بس نور ہی نور
وہ جس کا عزم تھا دستور ِارتقا کی طرح
ہونہ ہو شہر یہ لگتا ہے مدینہ مجھ کو
 
چشم حیراں کہ تھی محروم تماشہ کب سے
 
آپ کے در سے ملا دیدۂ بینا مجھ کو
وہ جس کا سلسلۂ جود،ابرِ گوہر بار
جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی
 
زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو
وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح
آپ کے در پہ تہی دست ہی آیا تھا یہاں
 
مل گیا رحمتِ باری کا خزینہ مجھ کو
 
اس لیے تر ہے مرا خامہ مژگاں کہ ضیا
سوادِ صبحِ ازل ، جس کے راستے کا غبار
آسکے نعت نگاری کا قرینہ مجھ کو
 
t
طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقشِ پا کی طرح
شاداب احسانی
 
(۱۴؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی)
 
سرزمینِ مدینے کے صدقے شاخِ دل لہلہانے لگی ہے
خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار
سیرتِ پاک پڑھنے سے مجھ کو زندگی راس آنے لگی ہے
 
علم کا استعارہ محمد ، مصطفیٰ مصطفیٰ مصطفیٰ بس
فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح
میں نے تکیہ کِیامصطفی پہ تب جہالت ٹھکانے لگی ہے
 
کیا بتاؤں میں شانِ رسالت معجزے آپ کے ہیںبہت خوب
 
ماہِ دو نیم یاد آرہا ہے چاندنی جھلملانے لگی ہے
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد
اب تو مجھ میں دیارِ مدینہ پڑھ رہا ہے محمد محمد
 
دل مرا دف بجانے لگا ہے آرزو گنگنانے لگی ہے
وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح
ناز کر خود پہ شادابؔ ہرپل رحمت اُن کی تری ذات پر ہے
 
ایسے آقا سے نسبت ہوئی کہ تیرگی منہ چھپانے لگی ہے
 
t
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک
شان الحق حقی
 
(۱۵؍ ستمبر ۱۹۱۷ء دہلی … ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء ٹورانٹو، کینیڈا)
محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے
 
مرا تو بس یہی ایماں و دیں ہے
 
اگر تم مقصد عالم نہیں ہو
شرف ملابشریت کو اُس کے قدموں میں
تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے
 
نہیں میں واقف سر الٰہی
یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہاکی طرح
مگر دل میں یہ نکتہ جا گزیں ہے
 
جو دل انوار سے ان کے ہے روشن
 
وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے
اُسی کے حسنِ سماعت کی ہے کرامتِ خاص
نہ کہیے ان کا سایہ ہی نہیں تھا
 
کہ ثانی تو کوئی بے شک نہیں ہے
وہ اِک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی طرح
مگر جس پر بھی سایہ پڑ گیا ہے
 
وہ انساں نازش روئے زمیں ہے
 
وہ شہر بے حصار ان کا مدینہ
وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود
کہ جس کی خاک ارمان جبیں ہے
 
نہ پوچھو ہے حصار اس کا کہاں تک
یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی طرح
یہ المغرب سے تا اقصائے چیں ہے
 
جھکی جاتی ہے خود سجدے میں گردن
 
نہ جانے کفر ہے یا کار دیں ہے
بغیرِ عشقِ محمد کسی سے ُکھل نہ سکے
کہ دل میں ماسوائے اسمِ احمد
 
نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے
رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا طرح
-
 
سخن کو ان کے حسیں نام سے سجاتے ہیں
 
ہم اپنا مان اسی صورت سے کچھ بڑھاتے ہیں
ریاضِ مدحِ رسالت میں رہوارِ غزل
بساطِ فکر چمن زار ہو گئی گویا
 
جو لفظ ہوتے ہیں موزوں ،مہکتے جاتے ہیں
چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح
ملی ہے اِن کو جو کچھ اُن کے رنگ و بو کی رمق
 
توپھول جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں
 
بہ پیشِ نورِ ازل جائے استعارہ کہاں
نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین
جو نقش سامنے آتے ہیں بجھ سے جاتے ہیں
 
ہے ذاتِ حق اَحَد وحیّ و مالک وداور
مرے قلم میں ہے جنبش پرِ ہما کی طرح
ہم ان حروف میں ان کابھی نام پاتے ہیں
 
خداکی دین یہ گلہائے نعت ہیں،جن کو
 
ہم اپنی ہیکلِ تخییل پر سجاتے ہیں
جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفرؔ!
ہمیں شکایتِ محرومیِ نظارہ نہیں
 
انہیں توہم کھلی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں
دماغِ رند ہوا عرشِ کبریا کی طرح
کرشمے ہیں اسی نورِ ازل کے ماہ و نجوم
 
یہ سب انہی کے ہیں جلوے جو جگمگاتے ہیں
-
اداہو کس سے بھلا حق ثنائے خواجہ کا
اے خاتم الرسل شہ دوراں تمہیں توہو
نہ پوچھئے کہ یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں
 
t
نذرانہ جس کاہے گہرِ جاں تمہیں تو ہو
شاہ حسن عطاؔ
 
(۲۵؍مارچ رائے بریلی … ۷؍ جولائی ۱۹۸۱ء کراچی)
 
نہیں کہ تجھ کو بشر ہی سلام کرتے ہیں
ہر آئینے کو جلوہ گہہِ شش جہات میں
شجر حجرَ بھی ترا احترام کرتے ہیں
 
اسی  سے گرمیٔ محفل ہے آج بھی قائم
جس نے دیاہے دیدۂ حیراں تمہیں تو ہو
کہ تیرا ذکر جہاں میں مدام کرتے ہیں
 
وہ ضبطِ نفس وہ سرمستیِ پیام ِ الست
 
ترے حضور فرشتے قیام کرتے ہیں
نوعِ بشر کا محسن اعظم تمہارا نام!
تری طلب میں جو رہتے ہیں رہ نورد یہاں
 
وہی توسارے زمانے میں نام کرتے ہیں
عالم ہے جس کا بندۂ احساں تمہیں تو ہو
مصافِ زیست میں جاں دادگانِ عشق ترے
 
ہر ایک آفتِ دوراں کو رام کرتے ہیں
 
ترا یقیں ہے فزوں تر،مہ و ثریا سے
صبح ازل منور وتاباں تمہیں سے تھی
کہ اس کے نور سے برپَا نظام کرتے ہیں
 
رہِـ جنوں کی طلب میں بھی جَاں نثار چلیں
شامِ ابد کی شمعِ فروزاں تمہیں تو ہو
رہِ خرد کا جو یہ اہتمام کرتے ہیں
 
ملی ہے جن کو محبت تری زمانے میں
 
خموش کارِ اُمم وہ غلام کرتے ہیں
رشتہ ہماری ذات کا یزداں سے استوار
تری قیادتِ عُظمیٰ ہوئی ابد پیما
 
کہ تجھ کو سارے پیمبرَ امام کرتے ہیں
جس نے کیا وہ پرتوِ یزداں تمہیں تو ہو
تری زباں کے توسط جو مانتے ہیں کتاب
 
وہ کیوں حدیث میں تیری کلام کرتے ہیں
 
جو مستحق تھے عقوبت کے ہیں وہ خُلد نشیں
ہر امرِ کائنات تمہاری نظر میں ہے
نگہ کرم کی شہِ ذی مقامَ کرتے ہیں
 
سکھائے تو نے جوپیکار وصلح کے آئیں
آگاہِ راز پیدا وپنہاں تمہیں تو ہو
جہاں کی رہبری تیرے غلام کرتے ہیں
 
ترا مقام ہے اب تک نظرسے پوشیدہ
 
اگرچہ ذکر تیرا خاص و عام کرتے ہیں
ہرمسئلے میں رشد وہدایت تمہیں سے ہے
-
 
تیری خیر البشری زد میں نہیں شک کے ذرا
ہر فیصلے میں عدل کی میزاں تمہیں تو ہو
تو نے انساں کو دلائی ہے غلامی سے نجات
 
یہی افلاک جو رفعت میں تحیرّزا ہیں
 
تیرے قدموں تلے روندے گئے معراج کی رات
وہ جس نے جسم و جاں میں نئی روح پُھونک دی
دید جس کی نہ میسر کبھی موسیٰ کو ہوئی
 
تجھ سے اس خالق کونین نے کی کھل کے بات
وہ جس سے زندگی ہوئی جولاں تمہیں تو ہو
یہ تفاخر بجز از روح قدس کس کو ملا
 
کس نے کھینچی ہے بھلا تیری سواری پہ قنات
 
تیرے افکار سے دنیائے توہمّ ویراں
شاداب جس کے فیض سے میرے دل ودماغ
تری آمد سے گرے خاک پہ سب لات ومنات
 
منفعل تری تجلّی سے روِاحہؓ  کا سخن
وہ موجۂ نسیم گلستاں تمہیں تو ہو
پوری اتری تری قامت پہ نہ حساّن کی بات
 
محو حیرت تری مداحی میں خاقانی ہے
 
سعدی وقدسی وجامی سبھی محوصلات
مجھ بے نوا و بے سروسامان شہر کو
بدراولیٰ میں تری ژرف نگاہی کی قسم
 
تو نے مومن کو دیاِ ذوق شعور آفات
جس نے عطا کیا سروساماں تمہیں توہو
حشر میںترے جلو میں ہے ملائک کا ہجوم
 
ذاتِ باری کے سوا سب پہ فزوں تیری ذات
 
اک اشارے پہ تری سب نکل آئے گھر سے
مجھ رِند بے شعور کے دامانِ تنگ کو
صفِ جنگاہ میں زہاُد بنے کوہ ثبات
 
داستاں خونچکاں تھی سفرِ طائف کی
بخشی ہے جس نے دولتِ عرفاں تمہیں تو ہو
پنڈلیوںسے دم احمر کی تراوش ہئییات
 
چمن دہر میں رحمت کی چلی باد نسیم
 
زمزمہ خواں تری آمد پہ مدینہ کی بنات
مجھ بوریا نشیں کو قناعت کے رنگ میں
یہ تو اک رہ گزرِ عشق پیمبر ہے حسنؔ
 
ہے ابھی دور بہت منزلِ اعمالِ نجات
جس نے دیا ہے رُتبہ سلطاں تمہیں تو ہو
t
 
شاہدؔ اکبر آبادی
 
(وفات:۸؍جون ۱۹۹۳ء کراچی)
میں نے طوافِ کوئے غزالاں کے باوجود
اے امین ِ کن فکاں،اے خاتم حق کے نگیں
 
اے دلِ یزداں کی دھڑکن اے شفیع المذنبیں
باندھا ہے جس سے شوق کاپیماں تمہیں تو ہو
اے شبِ اسری کی زینت اے امام المرسلیں
 
اے کتاب عالمِ امکاں کے بابِ اولیں
 
السلام اے بے عدیل و بے مثال و بے نظیر
.
اے رئیس ِقدسیاں اے عرشِ اعظم کے سفیر
شرابِ عشق نبی سے جو فیضاب ہوئے
آپ وہ ہیں مصدر جود و سخا کہئیے جنہیں
 
آپ وہ ہیں منبع لطف و عطا کہیئے جنہیں
ہم ایسے رند بھی بیگانۂ شراب ہوئے
آپ وہ ہیں مرکزِ صدق وصفا کہیئے جنہیں
 
آپ وہ ہیں مظہرِ ذات خدا کہیئے جنہیں
 
آپ مینارِ تقدس آپ کہسارِ یقیں
جلا جودل میں چراغِ جمالِ مصطفوی
السلام اے شہرِ علم اے صاحبِ وحیٔ مبیں
 
یہ جہان آب وگل یہ کوہ دشت وگلستاں
سیاہ رو شجرِ طور کا جواب ہوئے
یہ فلک یہ مہرومہ یہ محفلِ سیارگاں
 
یہ عطارد ، یہ زحل ، یہ مشتری ، یہ کہکشاں
 
جس سے روشن ہیں یہ صبح وشام یہ کون ومکاں
ہوئی طلوع جو سینے میں آرزوئے رسول
دن کا وہ مہر منور شب کا وہ ماہِ مبیں
 
آپ ہیں صرف آپ ہیں یارحمت للعالمیں
جو وسوسے تھے دلوں کے خیال و خواب ہوئے
کاروانِ شش جہت کے مقتدا سرکار ہیں
 
نورِحق ،شمس الضحیٰ،بدر الدجیٰ سرکار ہیں
 
جوہرِ آئینۂ لوحِ قضا سرکار ہیں
ہراک شے کا مقدر بدل دیا اُس نے
نازشِ کونین، فخرِ انبیا سرکار ہیں
 
سجدگاہِ قدسیاں ہے آپ کا در یا رسول
نظر اٹھائی توذرّے بھی آفتاب ہوئے
سرمۂ چشم دوعالم آپ کے قدموں کی دھول
 
آپ صدرِ بزم امکاں آپ جان ِشش جہات
 
آپ کا ہر نقشِ پا ہے مشعلِ راہ حیات
ادا شناس تھی میزانِ انتخاب اس کی
ہے جلا بخشش دوعالم جلوۂ ذات وصفات
 
السلام اے مسند آرائے سریرِ کائنات
گدا بھی منتخب چشم انتخاب ہوئے
آیۂ لولاک و اسریٰ آپ کی شانِ ورود
 
وجہ تکونینِ دوعالم ذات اقدس کا وجود
 
نقشِ پاسے آپ کے پھوٹی تمدن کی سحر
مٹے ہوؤں کو اُبھارا ہے نقشِ نو کی طرح
خاک کے ذرّوں کو بخشی عظمتِ شمس وقمر
 
ختم ہے ہر ارتقائے نوعِ انساں آپ پر
ٍستم زدوں پہ کرم اُس کے بے حساب ہوئے
آپ ہیں نورالہدی، کف الوری خیرالبشر
 
محسن ِانسانیت بھی مقصد ِکونین بھی
 
آپ آنکھوں کی بصارت بھی دلوں کاچین بھی
فریب قیصروکسریٰ کھلا زمانے پر
ُخلق، خُلق بے نہایت ُحسن ُحسنِ بے مثال
 
دل وہ جس پرآئینہ مستقبل وماضی وحال
نظر میں افسر و اکلیل بھی سراب ہوئے
زلف پر واللیل رُخ پر آئیہ والفجر دال
 
آپ شہکارِ مصور آپ تصورِ جمال
 
موبمو، سر تا بپا ، تنویر یزداں ہیں حضور
دیا وہ رتبۂ نو بوریا نشینوں کو  
عرش نے جس کے قدم چومے وہ انساں ہیں حضور
 
جانے کب سے منتظر تھیں عرش کی پہنائیاں
کہ بورئیے بھی انہیں خلعت وخطاب ہوئے
آپ نے رکھا قدم بجنے لگیں شہنائیاں
 
تا بہ سدرہِ اس قدر صدقے ہوئیں رعنائیاں
 
نور کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئیں پرچھائیاں
اسی کے درسِ جلالی کا معجزہ ہے کہ ہم
ہو گیا ثابت، مجسم نورِ عرفاں آپ ہیں
 
جسم بے سایہ نہ کیوں ہوعکسِ یزداں آ پ ہیں
حریفِ سیف ہوئے صاحب کتاب ہوئے
مصحفِ ناطق بھی آپ ،آئینہ ِقرآں بھی آپ
 
آپ شہرِ علم بھی سرچشمۂ عرفاں بھی آپ
 
عبد بھی اور سر سے پا تک مظہرِ یزداں بھی آپ
اُسی کا ُیمنِ قدم تھا کہ ریگ زاروں کو
جلوۂ صبحِ ازل بھی، جلوۂ فاراں بھی آپ
 
ابتدا بھی آپ ہی سے، انتہا بھی آپ ہیں
سرشگفت ہوا تختہ گلاب ہوئے
شرح لفظِ کن بھی، ختم الانبیاء بھی آپ ہیں
 
مقطعِٔ نظم نبوت، مطلعِٔ صبحِ ازل
 
خالقِ کونین کے دیوان کی پہلی غزل
اُسی کی ذات نے عالم کی رہنمائی کی
کھل اٹھا ہرحرف پر تقدیرِ انساں کا کنول
 
آپ ہر غم کا مداوا، آپ ہر مشکل کا حل
اُسی کے لطف سے تحلیل سب حجاب ہوئے
نبضِ فطرت میں تڑپ جس دل  سے ہے وہ دل ہیں آپ
 
فکر کے ہرکا رواں کی آخری منزل ہیں آپ
 
t
اُسی کے فیض سے آئی حریم جاں میں بہار
شاہد الوری
 
(۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ء الور…۱۵؍دسمبر ۲۰۰۴ء کراچی)
اُسی کے دم سے بپادل میں انقلاب ہوئے
دونوں عالم میں جمال مصطفی کا آئینہ
 
اور جمال مصطفی نور خدا کا آئینہ
 
لے کے آئے تھے اسے عرشِ بریں سے جبریل
وہ ابرِ لطف وکرم جس کی راہ کے ذرات
آیت اقرا تو ہے غارِ حرا کا آئینہ
 
ہو نہیں سکتا کبھی عرفانِ ذات مصطفی
صبا کے ساتھ اڑے خیمۂ سحاب ہوئے
دل اگر تیرا نہیں صدق و صفا کا آئینہ
 
سوچ لے یہ بھی دعا کو ہاتھ اٹھاتے وقت تو
 
چاہتاہے صیقل نیت دعا کا آئینہ
وہ بحرِ جُودوسخا جس سے بہرِ کسبِ گُہر
آخری خواہش یہی میری ہے شاہد الوری
دل مرا بن جائے تسلیم و رضا کا آئینہ
t
شاہدؔ نقوی
(۱۵؍جون۱۹۳۵ء۔لکھنؤ…۹؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
نکلا افق پہ حکم خدا سے وہ آفتاب
تھا جو ازل سے چشم مشیت کا انتخاب
باطل کے ہر خروج کا ظلمت شکن جواب
ظاہر میںایک سادہ ورق اصل میںکتاب
جس کو ازل میں احمد و امجد کہا گیا
امکان کی حدوں میں محمد کہا گیا
اک کہکشاں نظر میں بنائی رسول نے
کرنوں سے بزم فکر سجائی رسول نے
صحرا میں شمع نور جلائی رسول نے
اللہ کی کتاب سنائی رسول نے
تہذیب و تزکیہ کا عجب اہتمام تھا
آواز تھی نبی کی، خدا کا کلام تھا
آیاکلام حق کا ترانہ لیے ہوئے
ہرلفظ جس کا ایک زمانہ لیے ہوئے
اجمال میں طویل فسانہ لیے ہوئے
عالم کے خشک و تر کا خزانہ لیے ہوئے
بے زر نے دامنوں کو جواہر سے بھر دیا
اُمیّ نے جہل فکر کو ذی علم کردیا
t
شاہدہ حسن
(۲۴؍نومبر ۱۹۵۳ء چٹاگانگ)
حکمِ یزداں سے ملا اذن پیمبر سے ملا
مجھ کو مدحت کا ہنر میرے مقدر سے ملا
کب سے اس خانۂ آفت میں مقید تھی میں
اورایسے میں بلاوا مجھے اُس در سے ملا
جلد لے چل مجھے اے شوقِ سفر اُن کی طرف
میرے ہادی میرے آقا مرے رہبر سے ملا
قلزم اشک بہاتی ہوئی پہنچوں گی وہاں
اک اشارہ جو مجھے روضۂ انور سے ملا
ایک اک بوند سے سو پیاس بجھالوں گی میں
جوں ہی اک جامِ مجھے ساقیِ کوثر سے ملا
رمزِ تخلیقِ جہاں خلقتِ احمد میں نہاں
کُن کا مفہوم اُسی چہرۂ انور سے ملا
از ازل تا بہ ابد راہِ ہدایت ہے کھلی
سارا منشور اُسی نور کے منبر سے ملا
لکھ سکا کون سرِ عرش ملاقات کاحال
شب معراج خدا اپنے ہی دلبر سے ملا
اے مرے خواب دکھا نقشِ کف پائے رسول
اے مری نیند کبھی روحِ منور سے ملا
اے زمانے تو مجھے روند کے رکھ دے لیکن
میرے خاشاک کواُس حُسنِ گل ترسے ملا
عصرِ حاضر کے سوالات کی زد پر ہے یہ عقل
آگہی مجھ کو اُسی علم کے دفتر سے ملا
زخم کھا کھا کے دعائیں تھیں لبوں پر جس کے
راہ طائف مجھے اُس صبر کے پیکر سے ملا
دیں کی تلقین کا آغاز ہوا تھا جس جا
اوجِ فاراں مجھے اُس شام کے منظر سے ملا
اُن کی امت میں رکھا بختِ رسا نے مجھ کو
مجھ کو یہ اوج وشرف میرے مقدر سے ملا
t


نجوم و شمس و قمر کاسۂ حباب ہوئے
شاہدہ عروج خان
 
(۱۱؍مارچ ۱۹۶۵ء حیدرآباد سندھ)
 
نہ سہ پائے باطل، نوائے محمد
قلم اٹھا جو مرا مدحتِ رسالت میں
کہ جب حق کا پیغام لائے محمد
 
سعادت بڑی اس سے کیا اور ہوگی
دل ودماغ میں واآگہی کے باب ہوئے
خدا کر رہا ہے ثنائے محمد
 
جو بیمارِ دل ہیں اُنھیں بھی یقیں ہے
 
کہ اِک دن ملے گی شفائے محمد
دبے ہوئے تھے جو ارض وسما کے سینے میں
زبان پر ہے حمد و ثنا اُن کی ہر دم
 
سدا مجھ پہ ہے یہ عطائے محمد
وہ راز اُس کی سعادت سے بے نقاب ہوئے
مدینہ مقدس، معطر فضائیں
 
وہاں پر ہے حمد و ثنائے محمد
 
تڑپنے لگا تھا اُسی دن سے باطل
دل اُس کے عشق میںکھویا توپائی دل کی مراد
کہ جس دن سے دنیا میں آئے محمد
 
کسی سے غرض ہے، نہ مطلب، نہ لالچ
سراس کے درپہ جھکایا توکامیاب ہوئے
ہے ہر سانس میری برائے محمد
 
عروجؔ ! اب تو کوئی بھی خواہش نہیں ہے
 
مرے دل میں ایسے سمائے محمد
غزل سرا جو ہوا میں بذوقِ نعت ظفرؔ
t
 
شاہین فصیح ربانی
زباں پہ حرفِ غزل حرفِ مستجاب ہوئے
(۴؍نومبر ۱۹۶۴ء،ضلع جہلم)
 
حرف حرف عزت ہو،لفظ لفظ مدحت ہو
 
سوچ سوچ ندرت ہو، شعر شعر حرمت ہو
====سردار عبدالرّب نشترؔ====
لہجہ لہجہ اَمرت ہو، صفحہ صفحہ عظمت ہو
 
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
(۱۳؍جون۱۸۹۹ ء پشاور…۱۴؍فروری۱۹۵۹ء کراچی)
پھو ل پھول نکہت ہو، نجم نجم رفعت ہو
 
زیست زیست چاہت ہو، خواب خواب قربت ہو
شب و روز مشغول صلِ علیٰ ہوں
روح روح عشرت ہو ، قلب قلب اُلفت ہو
 
نعت وہ لکھوں جس میں ، عجز ہو عقیدت ہو
میں وہ چاکر خاتمِ انبیا ہوں
آپ ہی سے نسبت ہو، اس طرح کی قسمت ہو
 
رنج رنج راحت ہو،درد درد فرحت ہو
 
چشم چشم حسرت ہو، آپ کی محبت ہو
نگاہِ کرم سے نہ محروم رکھیو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
سوچ ہو بصیرت ہو، آپ کی سی سیرت ہو
لمحہ لمحہ تسکیں ہو، لحظہ لحظہ راحت ہو
گاؤں گاؤں خوشحالی، شہر شہر جنت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
زندگی کارستہ ہو،ایک ہی تمنّا ہو
اُن کے در پہ جانا ہو، اور فصیحؔ! ایسا ہو
پاؤں پاؤںچلناہو،عمر کی مسافت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
t
شبنم رومانی
(۳۰؍ دسمبر ۱۹۲۸ء شاہ جہاں پور … ۱۷؍ فروری ۲۰۰۹ء کراچی)
انسان ہیں وہ بھی،مگر
رحمت نفس ،خیر البشر
انسانیت کے واسطے
اُن کی دعائیں رات بھر
ہرظلم کی یلغار میں
سب کے لیے سینہ سپر
ہراک قدم،رفتارمیں
صدیوں کا تہذیبی سفر
انسان ہیں وہ بھی،مگر
انسانیت کے واسطے اک دائمی منشور ہیں
وہ آسماں کانور ہیں
جوخاک سے پیدا ہوا
وہ آفتابِ روح جوادراک سے پیدا ہوا
علمِ حقیقی
ان کے اسمِ پاک سے پیدا ہوا
انسان ہیں وہ بھی ،مگر
اُن کازمانہ        جاوداں
اُن کاپتہ      اسرارِ ذات
اُن کانشاں      رمزِ حیات
اُن کاٹھکانہ شش جہات
اُن کاقدم نقشِ حرم
اُن کاکرم بابِ نجات
اُن کاجریدہ زندگی
اُن کاقصیدہ کائنات
انسان ہوں میں بھی        مگر
میرایہ اندازِ نظر
میرایہ اعجازِ قلم
میری یہ نظمِ معتبر
میری یہ نعتِ محترم
سب خود پناہی کے لیے    !
سب دادخواہی کے لیے      !
t
شبنم صدیقی، پروفیسر
(۲۶؍نومبر ۱۹۴۳ء رائے بریلی یوپی انڈیا)


تمھارا ہوں میں گر َبھلا یا بُرا ہوں
کچھ اس شان سے بزمِ کون و مکاں میں ،فروزاں ہے شمعِ لقائے محمد
 
کہ ساری خدائی صدا دے رہی ہے،خدا کی خدائی فدائے محمد
 
خودی کی بلندی کا عالم تو دیکھو،رضائے خدا ہے رضائے محمد
مجھے بھی یوں معراج ، معراج والے
اسی سے تو دل پر یہ عقدہ کھلاہے ،گدائے خدا ہے گدائے محمد
 
یہی دردِ دل ہے یہی جستجو ہے ،یہی بیقراری یہی آرزو ہے
میں دیوانہ لیلائے معراج کا ہوں
مدینے کی جانب چلا جارہاہوں ،لیے دل میں شوقِ لقائے محمد
 
زمانے کی رفتار تھم سی گئی ہے،مہ و سال پر برف جم سی گئی ہے
 
کہ تاریخِ اقوام کے گنبدوں میں ،ابھی گونجتی ہے صدائے محمد
مرے لحن پر رشک داؤد کو ہے
اِسی میں مداوائے حالِ زبوں ہے ،اِسی میں شفا ہے اِسی میں سکوں ہے
 
کہ تہذیبِ افرنگ کے فرد بیمار ،کو اب اُڑھا دو ردائے محمد
مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں
گلوں سے ہم آغوش ہو کیوں نہ شبنم ،کہ خوشبو تو ہے اِک نشانِ نبوت
 
کرن مہر کی کیوں نہ شبنم کو چومے ، کہ شبنم تو ہے خاکِ پائے محمد
 
t
نہ کیوں فخر ہو عشق پر اپنے مجھ کو
شکیل احمدضیا
 
(۲۵ ؍دسمبر ۱۹۲۱ء جھانسی(یوپی)…۷؍مارچ۱۹۹۹ء کراچی)
رقیبِ خدا ، عاشقِ مصطفیٰ ہوں
حق کا فرمان ہے فرمانِ رسول عربی
 
مرحبا مرتبہ وشانِ رسول عربی
 
دونوں عالم میں ہے فیضانِ رسالت جاری
میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ
دونوں عالم پہ ہے احسانِ رسول عربی
 
ذرہ ذرہ ہے مدینے کا خمستان بہار
گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں
بے خزاں ہے چمنستانِ رسول عربی
 
مسترد ہوگئیں توریت و زبور و انجیل
 
صرف باقی رہا قرآن رسول عربی
====سرفراز ابدؔ====
حشر میں پرستش اعمال سے گھبرا نہ ضیاؔ
 
تھام لے گوشہ دامانِ رسول عربی
(۲۵؍فروری ۱۹۵۲ء کراچی)
t
 
شکیل نشترؔ
یہ اور بات کبھی سامنا ہوا بھی نہیں
(۱۹۳۴ء میرٹھ…۴؍دسمبر ۱۹۹۳ء کراچی)
 
دیدنی یوں ہے کہ صحرا میں بہار آئی ہے
دل اُن کی یاد سے غافل مگررہا بھی نہیں
دل کا ہرزخم مدینے کا تمنائی ہے
 
پتھروں کو بھی عطا قوتِ گویائی ہے
 
ہائے کیا معجزۂ حُسنِ مسیحائی ہے  
کرم اور ایساکرم جس کی انتہا بھی نہیں
ورنہ انسان کو مرنے کا سلیقہ بھی نہ تھا
 
شاہِ دیں آئے تو جینے کی ادا آئی ہے
وہ مل گیا مری تقدیر میں جو تھا بھی نہیں
ایک یہ بھی شبِ معراج کا مفہوم ہوا
 
خود تماشہ ہے خدا خود ہی تماشائی ہے
 
عبد و معبود کے مابین نہیں ہے کوئی
خدا کی بات خدا جانے وہ خدا بھی نہیں
نام ہے غارِ حرا گوشۂ تنہائی ہے
 
ان کا مصرف تو یہی ہے کہ مدینہ دیکھیں
مگریہ سچ ہے کوئی اُن سا دوسرا بھی نہیں
ورنہ کیا آنکھیں ہیں کیا آنکھوں کی بینائی ہے
 
ہے ہمہ وقت مدینے کا تصور نشترؔ
 
اب تو خلوت بھی مری انجمن آرائی ہے
مطالبہ کبھی اُن سے کوئی کیا بھی نہیں
t
 
شمس بریلوی، علامہ
ملا وہ حسبِ ضرورت جو سوچتا بھی نہیں
(۱۹۱۹ء بریلی…۱۳؍مارچ۱۹۹۷ء کراچی)
 
یہاں دخل حسنِ عمل نہیں یہ فقط نصیب کی بات ہے
 
کرے جس پہ چاہے نوازشیں کرم حبیب کی بات ہے
چڑھا ہوں نظروں پہ چشمِ کرم کے زینے سے
حرم نبی کے مسافرو ، یہ صدائے درد ذرا سنو
 
کسے دیکھ کرمیں تڑپ گیا یہ بہت قریب کی بات ہے
نہ لکھتا نعت جہاں مجھ کو پوچھتا بھی نہیں
یہ ورائے فہم وشعورہے یہ مقام عین شہود ہے
 
یہ کمال قرب کا ذکرہے سفرحبیب کی بات ہے
 
توحرم سے شیخ پلٹ پڑا میں درنبی پرمقیم ہوں
خدا ہے مہرباں دیوانۂ محمد پر
وہ ترے نصیب کی بات تھی یہ مرے نصیب کی بات ہے
 
وہ کہ جس کا ذکراگرنہ ہو،نہ اذان ہے نہ نماز ہے
دوا کاہوش توکیا فرصت دعا بھی نہیں
  یہ اسی کا ذکرجمیل ہے اسی حبیب کی بات ہے
 
دلِ دردمند سنبھل سنبھل،ہے ادب بھی شرط نہ یوں مچل
 
تجھے دردِعشق عطاہوا،یہ بڑے نصیب کی بات ہے
مثال اُن کی نہ ڈھونڈوبشر کے پردے میں
کسے دیکھ کر یہ مچل گیا کسے دیکھ کر یہ تڑپ گیا
 
تمہیں شمسؔ اوربتائے کیایہ دل غریب کی بات ہے
نہ اب ہے اُن سانہ ہوگا کبھی ہوابھی نہیں
t
 
شمس زبیری
 
(۱۹۱۷ء میرٹھ…۳؍ستمبر ۱۹۹۹ء کراچی)
بسا ہُوا ہے مدینہ خیال میں جس کے
جب محمد کا لب پہ نام آیا
 
روح پرور کوئی پیام آیا
نظراٹھا کے وہ جنت کو دیکھتا بھی نہیں
بزم جمتی رہی ستاروں کی  
 
بعد سب کے مہِ تمام آیا
 
دوست دشمن پہ کچھ نہیں موقوف
کرم یہ اُن کا کہ میری طرف ہے دستِ عطا
میرا آقا تو سب کے کام آیا
 
کوئی در سے پھرا نہ خالی ہاتھ
مرا یہ حال مرا کوئی مدّعا بھی نہیں
جو بھی پہنچا وہ شاد کام آیا
 
مٹ گئی خاص و عام کی تفریق
 
جب وہ مولائے خاص و عام آیا
جہاں کی راہ کا رہبر بناؤ عشقِ رسول
آدمی آدمی کو پہچانا
 
آدمی آدمی کے کام آیا
ابدؔ ! کچھ اس کے سوا اورراستہ بھی نہیں
جس کی ہر دَور کو ضرورت تھی
 
آپ آئے تو وہ نظام آیا
 
t
 
شمس قادری بدایونی
====سرور بارہ بنکوی====
(۹۲۷اء بدایوں…۹؍نومبر ۲۰۰۴ء کراچی)
 
اے اہل دل ، فریب ہے دنیا کی آب وتاب
(۳۰ ؍جنوری ۱۹۱۹ء بارہ بنکی یوپی…۳؍اپریل۱۹۸۰ء ڈھاکہ)
ہے آب و تاب وادیٔ طیبہ کی آب و تاب
 
آنکھوں سے پھوٹنے لگیں کرنیں درود کی
سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا
جب سامنے ہو گنبدِ خضرا کی آب و تاب
 
اب دامنِ خیال میں سو آفتاب ہیں
زباں کو حوصلہ مدحِ آنجناب ہوا
اشکوں میں ہے تصور بطحٰی کی آب و تاب
 
محبوب رب کے نقش قدم پرہزار بار
 
قربان تاج قیصر و کسری کی آب و تاب
نہ ہوسکا ہے نہ ہوگاازل سے تابہ ابد
اک رات کو فضائے زمان و مکاں تھی ایک
 
یکجا ہوئی تھی بندہ و آقا کی آب و تاب
جواب اس کا جو آپ اپنا خود جواب ہوا
پھر یوں ہوا کہ قرب کی منزل نہ جاسکی
 
ہرشب میں رچ گئی شبِ اسرٰی کی آب و تاب
 
اے شمس رہروان مدینہ کو الوداع
  اسی کے فیض سے ارض وسما عبارت ہیں
بھیج ان کے ساتھ اپنی تمنا کی آب و تاب
 
t
اسی کے نور سے ظلمت کا سدِّباب ہوا
شمعؔ افروز ڈاکٹر
 
(۱۸؍فروری۱۹۸۷ء کراچی)
 
مائل اُن کی سمت جس دم دل ہوا
زفرش تابہ فلک کون ایسا ذرہ ہے  
جسم سارا جانبِ منزل ہوا
 
مرتبہ پایاہے کس نے آپ سا
جو آفتاب کرم سے نہ فیض یاب ہوا
کون ہے جو آپ سا کامل ہوا
 
خود بھی حیراںہے نظامِ کائنات
 
کیسے دوٹکڑے مہِ کامل ہوا
وہی ہے نکتۂ آغاز علم وحکمت کا
جس کے لب پر گُل درودوں کے کھلے
 
عابدانِ حق میں وہ شامل ہوا
وہ اسم پاک جہاں داخلِ نصاب ہوا
دولتِ عشقِ نبی جس کو ملی
 
اہلِ ایماں میں وہی داخل ہوا
 
آپ کی سیرت پہ جوچلنے لگے
اب ایسی ذات گرامی کی مدح کیا ہوگی
روح کو اُن کی سکوں حاصل ہوا
 
t
کہ جس کے نام سے قرآں کا انتساب ہوا
شمیم  جاویدؔ
 
(۲؍ جنوری ۱۹۳۰ء …۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کراچی)
-
اگر پندرہ سو ہجری قبل میں پیدا ہوا ہوتا
اللہ اللہ میری قسمت ایسا رتبہ اورمیں
مری قسمت کا اندازہ کرو میں کیا سے کیا ہوتا
   
مرے پیشِ نظر نورِ محمد مصطفیٰ ہوتا
جاگتی آنکھوں سے دیکھوں خوابِ طیبہ میں
مرے لب پرفقط صلِ علیٰ ۔ صلِ علیٰ ہوتا
 
میںہرپل منتظر رہتا اُسی نورِمجسم کا
 
وہی نورِمجسم دیدہ ودل کی ضیا ہوتا
دم بخود ہیں آج دونوں میری دنیا اورمیں
بے قیدِ وقت دل کی دھڑکنیں سجدے اداکرتیں
 
مرارونا وضو ہوتا مرا نالہ دعا ہوتا
بارگاہ صاحبِ یسٰین وطہٰ اورمیں
ہواؤں سے میں جب بھی پوچھتا وہ اب کہاں ہوں گے
 
بس اک خوشبو کے جھونکے نے پتا بتلا دیا ہوتا
 
میں جن گلیوں میں اوررستوں پہ وہ نقشِ قدم پاتا
آج ان آنکھوں کو بینائی کا حاصل مل گیا
بہ ہر ساعت وہیں سجدے پہ سجدہ کرلیا ہوتا
 
گدائے مسجدِ نبوی کہا کرتی مجھے دنیا
روبرو ہے گنبد خضرا کا جلوہ اورمیں
نہ میراگھر نہ کوئی نام نہ میرا پتہ ہوتا
 
مجھے اہل مدینہ چھیڑتے دیوانہ کہہ کہہ کر
 
میں اپنے اس لقب پروالہانہ جھوم اٹھا ہوتا
آپ کی چشم کرم کا میں نے دیکھا معجزہ
وہ لحنِ سرمدی سُن کر ہمیشہ وجد میں رہتا
 
خموشی کے تکلم میں خدا جلوہ نما ہوتا
آپ کے روضے کی جالی میرے آقا اورمیں
یہ سوتے جاگتے جاویدؔ کیا کیا سوچتا ہوںمیں
 
جویوںہوتا تو کیا ہوتا جو یوں ہوتا توکیاہوتا
 
t
آپ ہی چاہیں تورکھ لیں آبروورنہ حضور
شوقؔ عظیم آبادی
 
(۱۹۰۰ء پٹنہ عظیم آباد…۱۶؍اپریل ۱۹۸۷ء کراچی)
اپنے منہ سے آپ کی نسبت کا دعویٰ اورمیں
 
 
مجھ کو اذنِ باریابی اوراس انداز سے
 
آپ پرقرباں مرے اجداد وآبا اور میں
 
 
میں جہاں پرہوںوہاں محسوس ہوتاہے سرورؔ
جیسے پیچھے رہ گئے ہوں میری دنیا اور میں
 
 
====سرورؔ جاوید====
 
(۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء بلند شہر، بھارت)
 
عقیدتوں کا سفر یوں تو عمر بھر کا ہے
 
مگر نجات کا رستہ تمھارے گھر کا ہے
 
 
ولائے نعتِ محمد شعورِ ذات نبی
 
تمام عمر یہی راستہ سفر کا ہے
 
 
اندھیری شب میں برائے سفرہے یہ خورشید
کڑی ہو دھوپ تو سایہ اسی شجر کا ہے
 
 
جو اس کی ذات کی وسعت سمیٹنے بیٹھوں
 
وہی ہو حال خرد کا کہ جو نظر کا ہے
 
 
وفا کا حسن ، محبت کا فن ، کمالِ حیات
 
اسی کی ذات سے رشتہ ہر اک ہنر کا ہے
 
 
عقیدتوں میں محبت کے رنگ ہیں سرورؔ
 
یہ سلسلہ بھی اسی ذات کے اثر کا ہے
 
 
====سعدیہ حریم====
 
(۹؍جنوری ۱۹۴۶ء لکھنؤ)
 
رقم کیسے کروں شانِ محمد
 
خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد
 
 
ازل سے تا ابد جاری و ساری
 
بحمدِ اللہ ہے فیضانِ محمد
 
 
تمنائیِ رضائے حق اگر ہے
 
عمل کر حسبِ فرمانِ محمد
 
 
وہ سقراط و ارسطو سے ہے برتر
 
جو ہے طفلِ دبستانِ محمد
 
 
ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر
 
ہیں چاروں جاں نثارانِ محمد
 
 
فرشتوں کو بھی اس پر رشک آئے
 
جسے ہو جائے عرفانِ محمد
 
 
وہ ہیں منشائیِ تخلیق دو عالم
 
دو عالم پر ہے احسانِ محمد
 
 
تمنائے حریمؔ اللہ یہی ہے
 
کہے اک نعت شایانِ محمد
 
 
====سعید الظفر صدیقی====
 
(۲۱؍ مارچ ۱۹۴۴ء بھوپال، بھارت)
 
تھا جو مٹی کا بدن کندن بنا کر آئے ہیں
 
بارشوں میں ہم مدینے کی نہا کر آئے ہیں
 
 
ہم نے خود آنکھوں سے دیکھے ہیں نظارے خلد کے
 
ہم سے پوچھو ہم درِ اقدس پہ جا کر آئے ہیں
 
 
ہیچ ہیں نظروں میں اب سارے جہاں کی رونقیں
 
خاکِ طیبہ کو ان آنکھوں سے لگا کر آئے ہیں
 
 
اپنے والی ، اپنے حامی ، اپنے آقاؐ کے حضور
 
اپنی بپتا ، اپنا حالِ دل سنا کر آئے ہیں
 
 
بے سر و ساماں گئے تھے لے کے لوٹے کائنات
 
نام آقاؐ کے غلاموں میں لکھا کر آئے ہیں
 
 
بوجھ سر پر تھا گناہوں کا ظفرؔ کرتے بھی کیا
 
ایک کونے میں کھڑے آنسو بہا کر آئے ہیں


آپ شمس الضحیٰ آپ بدرالدجیٰ آپ نور العلیٰ ،سیدالاصفیا
آپ کہف الوریٰ اشرف الانبیاء ،آپ نورِ ھدا ،خاتم الانبیا
آپ ماہِ مبیں ، اس سے بڑھ کر حسیں ، آپ کا کوئی ہمسر بشر میں نہیں
سیّد المرسلیں ، شافعِ مذنبیں، خاتم المرسلیں، آپ صدر العلیٰ
شرک میں مبتلا جب تھاسارا عرب،تھے حرم میں بتوں کے پرستار سب
آپ توحید کا لائے پیغام جب ، لات و عزیٰ ہُبل ہو گئے سب فنا
ایک عالیٰ نسب ، ایک والا حسب ،یعنی محبوبِ رب ،لائے تشریف جب
پھر گئے دن زمانے کے اُن کے سبب،لائے ہمراہ قرآن کامعجزہ
آپ خیر البشر ، آپ والاگہر،ساری خلقت کے ہیں آپ نورِ نظر
خود خدا بھیجتا ہے درود آپ پر،اللہ اللہ یہ مرتبہ آپ کا
اِک سرِ مو بھی آگے قدم گررکھیں،پر فروغِ تجلی سے جلنے لگیں
تاب و طاقت کہاں اب یہ جبریل میں ،آگئی سرحدسدرۃ المنتہیٰ
آپ کامرتبہ قاب قوسین ہے ،عرش پر اپنے خالق سے جاکر ملے
قدسیوں کی زباں پر ہے صلی علیٰ ،مرحبا مصطفی مرحبا مصطفی
شوقؔ! مشرک نہیں ہے مسلمان ہے،ایک معبود پر اس کا ایمان ہے
اپنی تر دامنی پر پشیمان ہے ،المدد المدد یا شفیع الوریٰ
t
شوکت تھانوی
(۳؍فروری ۱۹۰۴ء…۴؍مئی ۱۹۶۳ء لاہور)
ہم ہیں تصورات کی جنت لیے ہوئے
آنکھیں ہیں بند جادۂ رحمت لیے ہوئے
دیوانہ وار آہی گیا ان کی بزم میں
اک روسیاہ حسرتِ طاعت لیے ہوئے
پہنچے ہوئے ہیں آج دیارِ حبیب میں
اس بختِ نارسا کی شکایت لیے ہوئے
جیسے کہ سامنے متبسم حضور ہیں
اور ہم ہیں ایک اشکِ ندامت لیے ہوئے
احساس عطر بیزہے ،عنبرفشاں خیال
بیٹھے ہیں ہم مدینے کی نکہت لیے ہوئے
اُن کے حضور اِس لبِ خاموش کی قسم
ہر حرف ِمدّعا ہے حکایت لیے ہوئے
ہے اُن کے رو برو یہ جنونِ سپردگی
عصیاں کے اعتراف میں جرأت لیے ہوئے
توفیقِ شرم اور ہمیں،اے زِہے نصیب
کس درجہ سرخ رو ہیںخجالت لیے ہوئے
یارب! کھلے نہ آنکھ کہ بیٹھے ہوئے ہیں ہم
پیشِ نظر جمالِ رسالت لیے ہوئے
جیسابھی کچھ ہے آپ کاہے ،آپ کے سپرد
آیا ہے اپنے آپ کو شوکتؔ لیے ہوئے
t
شوکت عابد
(۲۳؍دسمبر ۱۹۵۳ء کراچی)
پروانہ جو بھی شمعِ رسالت سے دُور ہے
منزل سے دُور نورِ ہدایت سے دُور ہے
ذکرِ نبی سے چشم ہی روشن نہیں فقط
دل کا یہ آئینہ بھی کدوت سے دُور ہے
جس دل میں آرزوے مدینہ نہیں، وہ دل
مولاے کائنات کی رحمت سے دُور ہے
ہے جس کے سر پہ سایۂ دامانِ مصطفی
سمجھو کہ وہ ہر ایک مصیبت سے دُور ہے
عابدؔ ہوا ہے جب سے درِ شاہ کا غلام
دنیاے مال و زر کی محبت سے دُور ہے
t
شہناز نور
(۱۰؍نومبر۱۹۴۷ء سکھر)
خدا ،خدائی،خدا کی کتاب میرے لیے
سرِ مدینہ یہ اُترا نصاب میرے لیے
جب ان کا نام لیا دشتِ آزمائش میں
اک ایک خار ہوا ہے گلاب میرے لیے
جو پتھروں کو بھی گویائی بخش دیتے ہیں
رسول ایسے ہوئے انتخاب میرے لیے
مجھے جلائے توکیادھوپ کیا تھکائے سفر
ہے اسم شاہِ اُمم جب سحاب میرے لیے
بڑاکرم ہو جو میدان حشر میں ہو عطا
کنیز احمد مرسل خطاب میرے لیے
تمام راہیں اسی شاہرہ سے ملتی ہیں
بناگئے جورسالت مآب میرے لیے
اب اور چائیے شہنازؔ نور کیا مجھ کو
بہت ہے عشق رسالت مآب میرے لیے
-
مری نگاہ اگر محرم حجاز نہیں
توچشم شوق میں بینائی کا جواز نہیں
اسے بھی آہ سحر خیز سے شناسا کر
غم حبیب میں جودل ابھی گداز نہیں
دل و نظر بھی ہو شامل رہ عباد ت میں
لباس زہد فقط زینت نماز نہیں
سرمدینہ الفت مری جبیں سائی
مقام عشق ہے سجدہ گہہ ایاز نہیں
ضرور ابرکرم اس طرف سے گزرے گا
وہ میرے حال پریشاں سے بے نیاز نہیں
میں کس کی راہ چلوں کس جگہ قیام کروں
کہ نور!ؔ اب حق وباطل میں امیتاز نہیں
t
شیدا گجراتی
(۱۹۲۲ء گجرات،پنجاب…۱۹۸۷ء کراچی)
سو رنگ فسانہ ہے اِک زندہ حقیقت ہے
اِک نقشِ محمد سے ، ہر نقش عبارت ہے
طیبہ کا ہر اِک گوشہ فردوس بداماں ہے
سرکار کی نسبت سے کعبے کی فضلیت ہے
ہر پھول ترا چہرہ ،ہر روپ ترا جلوہ
انوار کی کثرت سے رنگِ رُخِ وحدت ہے
ہر شخص کے ہونٹوں پر ذکرِ شہِ بطحا ہے
ہر سانس میں حضرت کی خوشبوئے محبت ہے
t
صابر بدر جعفری
(۲۴؍دسمبر ۱۹۳۴ء جے پور )
بدرِ عاصی اشک آنکھوں میں لیے
آپ کے دَر پے کھڑا ہے دیر سے
منہ سے کچھ کہتا نہیں ، خاموش ہے
کہنے سنے کا اسے کب ہوش ہے
دل کی بیتابی عیاں آنکھوں سے ہے
بے زبانی کو زباں اشکوں سے ہے
آپ سے آخر کہے بھی کوئی کیا
آپ سے مخفی ہے کس کا مدعا
آپ کی شانِ کریمی کے نثار
اس کی جانب دیکھ لیجیے ایک بار
بات اس کے دل کی سن لیجیے حضور
ان کہی ہے پھربھی سن لیجیے حضور
آپ کے دامن کا سایہ چاہیے
اس کواوراس کے سوا کیا چاہیے
اس کے غم خانے کو یہ سایہ بہت
آپ سے  نسبت کا سرمایہ بہت
t
صابر ظفر
(۲۴؍ ستمبر ۱۹۴۹ء)
جئے ہیں جینے کی صورت درود پڑھتے ہوئے
اوراُس کے بعد شہادت درود پڑھتے ہوئے
کسی سے عشق نہیں عشق مصطفیٰ کے سوا
اور آئے عشق میں شدت درود پڑھتے ہوئے
یہ اوربات کہ دشمن ہیں جان کے درپے
گزررہے ہیں سلامت درود پڑھتے ہوئے
یزیدی ایک طرف اورہم ہیں ایک طرف
ہماری ہوگی شفاعت درود پڑھتے ہوئے
نظر کے سامنے رکھتے ہیں مصحفِ مولا
سوپڑھتے جائیں ہرآیت درود پڑھتے ہوئے
کہاں کہاں نہیں معتوب ظالموں نے کیا
مگرملی ہمیں رفعت درود پڑھتے ہوئے
ستم سہے ہیں بہت دیر ہم پہ اب کرم ہوگا
کرم بھی ہوگا نہایت درود پڑھتے ہوئے
درور پڑھتے ہوئے ہرسخن کریں آغاز
ادا ہو فرضِ اطاعت درود پڑھتے ہوئے
ہمی غلامئی ختمِ رُسل کے لائق ہیں
سُنی گئی ہے بشارت درود پڑھتے ہوئے
جو گومگو کے ہیں عالم میں اُن کو ہو توفیق
کہ ہم توکرچکے بیعت درود پڑھتے ہوئے
درِ مدینہ و کعبہ ہے وا ہمارے لیے
بیان کرتے ہیں سیرت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھتے رہو دَم بدَم کہ ہوتا ہے
فروغِ شانِ رسالت درود پڑھتے ہوئے
حضور خواب میں آئیں توخواب سچ ہوجائے
سوباندھیں دید کی نیت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھتے رہو آفتِ مسلسل میں
کہ ٹلتی رہتی ہے آفت درود پڑھتے ہوئے
جنونِ عشقِ محمد حیاتِ دائم ہے
فزوں ہوآپ سے نسبت درود پڑھتے ہوئے
دھڑکنا آتاہے ذکرِ نبی کے ساتھ جنہیں
وہ دل ہوں صاحبِ ثروت درود پڑھتے ہوئے
نصیب ہوتی ہے روح وبدن کی سرشاری
رہے نہ خود سے شکایت درود پڑھتے ہوئے
ہزار روشنیاں ہیں مگر وہ منبع نور
چمکتی دیکھی ہے قسمت درود پڑھتے ہوئے
سُنائی دیتی ہے خلق اُن کی مدح کرتی ہوئی
دکھائی دیتے پربت درود پڑھتے ہوئے
ہم اسم ِ احمد مرسل کو چوم لیتے ہیں
نصیب ہویہ سعادت درود پڑھتے ہوئے
اگرچہ جاری وساری خدا کی رحمت ہے
مگر مزید ہورحمت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھنے کے ہرآن جو بھی قائل ہیں
ہم اُن سے ہیں بڑے سہمت درود پڑھتے ہوئے
وہ دکھ اُٹھائے ہیں ہم نے کہ یاد آنے لگے
حسین اور اُن کی شہادت درود پڑھتے ہوئے
قبول ہم نے کیا اورسدا کریں گے قبول
ہراک نظامِ خلافت درود پڑھتے ہوئے
بہت نشیب وفراز آئے ہرسفر میں ظفر
رہانہ رنجِ مسافت درود پڑھتے ہوئے
-
-
جب سے سرکارؐ کی روشنی مل گئی
وجود کیسے نہ ہو،منزل آشنا میرا
 
جمال اسم محمد ہے پیشوا میرا
زندگی کو نئی زندگی مل گئی
وہ کیوں نہ راستہ دے،بعد کے مسافرکو
 
کہ شاہ رحمت عالم ہے رہ نما میرا
 
زبان توتھی جائے درود پڑھتے ہوئے
آخری آرزو دل کی پوری ہوئی
کہ شافع آپ ہیں اورمہرباں خدا میرا
 
میں دور،روضے سے تیرے جو دیکھنا ہوں تجھے
دوریاں مٹ گئیں ، حاضری مل گئی
قبول کر مرے آقا یہ دیکھنا میرا
 
پناہ دے مجھے یعنی حصارِ عشق میں رکھ
 
یہ غیر توڑ نہ دیں کاسہ دعا میرا
ہیں اجالے قدم در قدم ہم رکاب
یہ التجا کا الاو قبول کرلیجئے
 
جلا رہا ہے مجھے شعلہ نوا میرا
رہ گزر ، رہ گزر روشنی مل گئی
میں روز مدح رسالت مآب کرتا ہوں
 
اوران دنوں تو لہو ہے سخن سرا میرا
 
خدا کا شکرکہ دونوں کریں ثنائے رسول
لوگ جو پستیوں میں تھے ڈوبے انہیں
یہ روشن آنکھیں یہ دل جاگتا ہوا میرا
 
حضور میری دعاوں کے عکس دُھنلے ہیں
آکے طیبہ میں خوش قامتی مل گئی
حضور چاہوں کہ اجلاہو آئینہ میرا
 
رہ وفا میں جو بھٹکوں میں بے خیالی میں
 
خیال حشر میں رکھنا ، شہ ہدا میرا
مل گئیں عاجزوں کو سرافرازیاں
عطا کشادہ دلی کیجیے تنگ ظرفوں کو
 
حضور ہے جہاں ممنوع داخلہ میرا
بے قراروں کو آسودگی مل گئی
خلافتوں کی بہاروں نے کردیا سرسبز
 
حضو ر ورنہ یہ دل تھا خزاں زدہ میرا
 
ظفرؔ ہے نور مسلسل یہ میرا پختہ یقیں
دو جہانوں میں وہ سرخرو ہو گیا
دیار احمد مرسل ہے ناصیہ میرا
 
t
جس کو محبوبِؐ رب کی گلی مل گئی
صابر عظیم آبادی
 
(۲۶؍اگست ۱۹۴۰ء پٹنہ، بہار)
 
نکل کے غارِ حراکی راہوں سے سوئے کعبہ وہ آنے والا
نعت کہنے کا جس دم ارادہ کیا
تمام دنیا کے بت کدوں سے نقوشِ آذر مٹانے والا
 
جہانِ ہستی کی تنگ راہیں ، اُسی کے جلووں سے ہیں منور
اک مہکتی ہوئی شاعری مل گئی
وہ شمعِ نورِ ھدا کہ جو تھا ،چراغِ وحدت جلانے والا
 
چمن چمن ہے پیام اُس کا،ہے سب اعلیٰ مقام اُس کا
 
وہ فخرِ آدم وہ فخرِ حوا،وہ عرشِ اعلیٰ پہ جانے والا
دل جو طیبہ کی فرقت میں رویا سعیدؔؔ
زمانہ منتِ کشِ نبوت،وہ بانیِ فخرِ آدمیت
 
وہ نور ، نورِ علا جو اپنے ،پرائے کا غم اُٹھانے والا
اس کو سارے جہاں کی خوشی مل گئی
عروجِ آدم کاوہ نشاں ہے ،تمام خلقت کا پاسباں ہے
 
حریمِ کعبہ کاوہ نگہباں ،وہ سب سے آخر میں آنے والا
 
رہی رموزِ حیاتِ آدم ،وہی نمودِ وجودِ عالم
====سعیدؔ عباسی====
زمانے بھر کی حقیقتوں کا ،وہی ہے پردہ اُٹھانے والا
 
نبی ہے میرا رسول ہے وہ، نہالِ ہستی کاپھول ہے وہ
(یکم اگست ۱۹۲۳ء بدایوں)
وہ رنگتِ گل، وہ رشکِ سنبل،وہ غنچۂ دل کھلانے والا
 
صفاتِ ذاتِ کمال ہے وہ،جمالِ ماضی و حال ہے وہ
ہزار بار اُٹھیں گے قدم خدا کی طرف
وہ شمعِ وحدت وہ نورِ یزداں ،وہ بزمِ ہستی سجانے والا
 
وہی توصابرؔ! زمانے بھر کے ،دکھوں کا درماں بناہوا ہے
بس ایک بار چلے آؤمصطفی کی طرف
وہی تھا ٹوٹے ہوئے دلوں کو ، ملانے والا بنانے والا
 
t
 
صابر وسیم
تمام عالمِ انسانیت تھازیرِ قدم  
(۹؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کراچی)
 
مایوسی کی ظلمت سے جب دل گھبراتا ہے
بڑھے تھے سرورِ کونین جب حرا کی طرف
اسمِ محمد تاریکی میں دیا جلاتا ہے
 
اُس کے نام سے کھل اُٹھتے ہیں امیدوں کے پھول
 
ہرا بھرا اک موسم اپنے پاس بلاتا ہے
جہاں سے حضرت جبریل ہو گئے واپس
اُس رحمت کا دامن تھام کے زندہ رہتے ہیں
 
ورنہ ہمیں کب اس دُنیا میں جینا آتا ہے
وہ اِک قدم تھا محمد کا انتہاکی طرف
اُس ہستی کے واسطے ہی تخلیق ہوا یہ سب
 
صرف تماشے کو یہ دُنیا کون بناتا ہے
 
راتوں کے سناٹوں میں سرشاری رہتی ہے
یہ اور بات کہ واعظ نے قبلہ رو جانا
ذکر محمد لمحہ لمحہ رس برساتا ہے
 
دھیان میںاُس کے سوجائیں توشب بھراُس کا دھیان
ہمارا رُخ تھا اُنہیں کے نقوشِ پا کی طرف
خواب سرا کی دیواروں پہ رنگ بچھاتا ہے
 
اللہ کا پیغام ہوا کی لہروں پر جا کے
 
بحر و بر میں اُس کا ہی چرچا پھیلاتا ہے
امیرِ شہر کی نظریں کسی طرف ہی سہی
صرف وہی آنکھیں ہیں جن کو آنکھیں کہتے ہیں
 
اُس گنبد کا منظر جن آنکھوں میں سماتا ہے
غریبِ شہر کی آنکھیں ہیں مصطفی کی طرف
t
 
صفدر صدیق رضی
 
(۱۳؍فروری ۱۹۴۹ء سیالکوٹ)
اُنہیں کا نقشِ کفِ پا نشانِ منزل ہے
زمین پر جو ترے آستاں کا حصّہ ہے
 
زمیں کا حصّہ نہیں ، آسماں کا حصّہ ہے
یہی تو ہیں کہ جو لے جائیں گے خدا کی طرف
زمیں کو تیری سعادت ، فلک کو تجھ سے شرف
 
کہ تیرا لُطف و کرم دو جہاں کا حصّہ ہے
 
کوئی بھی راہ سہی ، تیری پیروی میں تو ہے
خدا سے عشقِ محمد کی روشنی مانگیں
ہر اک مسافر اسی کارواں کا حصّہ ہے
 
ترے نقوشِ قدم سے جو سرفراز ہوئی
یہ انتہا ہے کہ لوٹ آئیں ابتدا کی طرف
وہ مُشتِ خاک مرے جسم و جاں کا حصّہ ہے
 
جزا کااہل نہیں ہوں سزا کی تاب نہیں
 
مرا وجود کہیں درمیاں کا حصّہ ہے
====سلیم احمد====
t
 
ضحی آروی
(۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء بارہ بنکی،یوپی…یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کراچی)
(۱۹۲۴ء آرہ صوبہ بہار)
 
مراسر ہے نقش قدم آپ کا  
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
خوشابخت!کتنا کرم آپ کا
 
عرب آپ کا ہے عجم آپ کا
ثنا کرے کوئی اس کی کیونکر بشر ہے لیکن خدا نما ہے
یہ دیوانِ لوح وقلم آپ کا
 
شرف آدمی کو ملا آپ سے
 
ہے احساںخدا کی قسم آپ کا
وہی ہے اول وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر
حضور آپ کا مرتبہ ہے بلند
سرعرش نقشِ قدم آپ کا
شہنشاہ کون ومکاں آپ ہیں
دوعالم میں اونچا علم آپ کا
ضحی ؔ!شانِ رحمت ہے سرکار کی
ہمارا جو غم ہے وہ غم آپ کا
t
ضیاء الحق قاسمی
(۵؍فروری،۱۹۳۵ء امرتسر…۲۵؍اکتوبر،۲۰۰۶ء کراچی)
خلاّقِ دو جہاں کے ہیں راز داں محمد
حق ترجماں محمد عظمت نشاں محمد
نوعِ بشرپہ اُن کا احساں یہ کم نہیں ہے
نوعِ بشر کے اب بھی ہیں پاسبان محمد
میں اُن کا امتی ہوں میں اُن کا مدح خواں ہوں
رحمت کا میرے سر پر ہیں سائباں محمد
ہم کو ملا خدا بھی تو فیض سے انہی کے
انساں اور خدا کے ہیں درمیاں محمد
قرآں میں جو رقم ہیں سب بالیقیں اہم ہیں
نکتے وہ کر گئے ہیں سارے بیاں محمد
بعدِ خدا انہیں کا ہم کو تو ہے سہارا
اس ارضِ آب و گل پر ہیں آسماں محمد
تخلیق انہی کی خاطر دونوں جہاں ہوئے ہیں
دنیا میں بھی ہماری ہیں ضوفشاں محمد
ہے امتی ضیاؔ تواُس پر نہ کیوں نظر ہو
جب اپنے دشمنوں پر ہیں مہرباں محمد
-
محتاج نہیں رکھا محمد کی عطا نے
دریائے کرم بخشا درِ جُود وسخا نے
تاباں ہیں مہ و انجم وخورشید جواب تک
اک روشنی دی ہے انھیں نقشِ کفِ پانے
اللہ رے کس درجہ ہے تاثیر کرم کی
منہ پھیر دیا غم کا مدینے کی ہوا نے
سنتے ہیں کہ بخشش کی سند درسے ملے گی
ہم آئے ہیں سرکار میںنام اپنا لکھانے
اللہ کی رحمت ہوئی سرکار کی صورت
درکھول دیے ہم پہ عنایاتِ خدا نے
اک سلسلہ ٔ جُود وسخا سے ہے تعلق
پابندِ کرم کر دیا رحمت کو خطانے
دھڑکن ہی کہیں دل کی نہ رک جائے خوشی میں
آئی ہے مدینے سے صبا آج بلانے
t
طاہر مسعود، ڈاکٹر
(۷؍جنوری ۱۹۵۷ء راج شاہی مشرقی پاکستان)


یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیاہے جو رہ گیا ہے




وہ سر تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
اِک التجائے عاجزانہ بحضور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم


وجود کی ساری وسعتوں پرمحیط ہے جو وہ دائرہ ہے


کس سے جاکر کہوں
اپنا دکھ اپنا غم
لے کے جاؤں کہاں
زخمِ دل ، چشمِ نم
اے شہِ دوجہاں، آسر ادیجیے
اپنے بیمارِ غم کو دوا دیجیے
اپنے جذبات کو
دے نہ پاؤں زباں
کس طرح میں کروں
حال دل کابیاں
دور ہیں منزلیں
اور میں ناتواں
میںاٹھاؤں قدم
اتنی ہمت کہاں
ہے زمیں تنگ تر
میں ہوں بے بال و پر
کاٹے کٹتا نہیں
رات دن کا سفر
آپ کی یاد کو
گنگناتا ہے دل
آپ کے ذکر سے
جگمگاتا ہے دل
ہے لبوں پر مرے
بس یہی اِک فغاں
مونسِ جسم و جاں
سخت ہے امتحاں
ہے کٹھن ہر گھڑی
حوصلہ دیجیے
میرے دل کی سیاہی
مٹادیجیے
دل میں میرے دیا اِک
جلا دیجیے
اپنے دامن میں مجھ کو بھی
جا دیجیے
اے شہِ دوجہاں
اے شہِ دو جہاں
t


انہی کا مسکن انہی کا گھر ہے انہی کی نسبت سے معتبر ہیں
حرم ہو طیبہ ہو میرا دل ہویہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
کوئی نہیں ہے مثیل اس کا کوئی نہیں ہے نظیر اس کا
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اورآپ اپنا ہی آئنہ ہے
ہے خطِ واصل کہ حد فاضل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
سلیم عاجز ہے فہم کامل وہی بشر ہے وہی خدا ہے


ظفرؔ بھوپالی
( یکم جنوری۱۹۵۶ء بھوپال)
ہے جہاں اسوۂ نبی روشن
دن بھی روشن ہے شام بھی روشن
ذکرِ خیرالانام کرتاہوں
کیوں نہ ہو میری زندگی روشن
تیرگی کو کہیں پناہ نہیں
ہے مدینے کی ہرگلی روشن
جن کے دل میں نہیں ہے عشقِ نبی
ان کی ہستی نہ ہوسکی روشن
ہم نے کرکے طوافِ کوئے نبی
کرلیا ذوق بندگی روشن
t
ظفر،محمد خان
(۱۵؍دسمبر ۱۹۴۲ء ٹونک راجستھان)
تاریک جہاں مطلعِ انوار نہ ہوتا
خورشیدِ رسالت جو نمودار نہ ہوتا
رحمت کی گھٹا بن کے اگر آپ نہ آتے
صحرائے دوعالم کبھی گلزار نہ ہوتا
انصاف کی میزان اگر آپ نہ لاتے
انسان کے کردار کا معیار نہ ہوتا
آئینۂ ماضی میں اگر آپ نہ ہوتے
میں عکسِ گزشتہ کا طلب گار نہ ہوتا
آتی نہ مجھے نامِ محمد کی جو خوشبو
میں خلدکے پھولوں کا خریدار نہ ہوتا
پاتا نہ جھلک آپ کی آنکھوں میں اگر میں
بے جان ستاروں سے مجھے پیار نہ ہوتا
تعلیم پہ گر آپ کی چلتا تو زمانہ
چنگیز نہ بنتا کبھی تاتار نہ ہوتا
ہوتے نہ محمد اگر اللہ کے محبوب
معراج کارستہ کبھی ہموار نہ ہوتا
اے کاش کسی شب وہ مرے خواب میں آتے
اور پھر میں کبھی خواب سے بیدار نہ ہوتا
دستار ظفرؔ! دہرمیں ہر گام اُچھلتی
گر نامِ نبی طرّۂ دستار نہ ہوتا
t
ظہیر قاسمی،ظہیر الحسن شاہ قاسمی
(۲۵؍دسمبر ۱۹۳۵ء بنارس…۲۱؍اپریل ۲۰۰۱ء کراچی) 
لیا ہے نامِ محمد کو جب قرینے سے
پیامِ زیست ملاہے مجھے مدینے سے
نبی کے نام کا بس ایک جام پینے سے
زمانہ آکے لپٹتا ہے میرے سینے سے
مہک اُٹھا ہے گلستاں ، ہوا معطر ہے
گلوںنے مانگ لی خوشبو ترے پسینے سے
غمِ فراق میں دل کو ہزار داغ ملے
ہر ایک داغ چمکنے لگا نگینے سے
الٰہی ! بخش دے توفیق اس قدر مجھ کو
ہمیشہ ربط ہمارا رہے مدینے سے
ہر ایک موجِ بلا اپنی موت آپ مری
کبھی ہوا جو تصادم مرے سفینے سے
ظہیرؔ ! کہتا ہوں یہ بات بھی وثوق کے ساتھ
بلاوا آئے گا اِک دن مرا مدینے سے
t
-
-
طبیعت تھی میری بہت مضمحل
اگر دعویٰ ہے سرکارِ دوعالم سے محبت کا
تو رہنا چاہیے دنیا میں پیروکار سنت کا
ستا رکھا ہے دنیا کے غم و آلام نے لیکن
مراارمان ہے سرکارِ طیبہ کی زیارت کا
رُخِ زیبائے سرور کی زیارت جس نے کی واعظ
مفسر بن گیا وہ شخص قرآں کی عبارت کا
طواف خانۂ کعبہ سے کب تسکین ہوتی ہے
نہ ہو جب تک درِ آقا پہ اِک سجدہ محبت کا
تصور میں چلاجاتا ہوں میں اکثر مدینے تک
نہیں اس آنے جانے میں کوئی جھگڑا مسافت کا
ظہیرِ قاسمی ؔ ! یہ مشغلہ ہاتھ آگیا اچھا
شہِ قاسمؔ کی قربت سے شہِ ولا کی مدحت کا
t


کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل
عابد شاہجہاپوری
(۳؍جنوری ۱۹۳۶ء شاہجہاں پور…۶؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کراچی)
دراقدس پہ ایک اک اشک دل کا ترجماں ٹھہرا
یہ انداز فغاں بھی کس قدر تسکین جاں ٹھہرا
انہیں کے واسطے پہ مایۂ کون ومکاں ٹھہرا
انہیں کی یہ زمیں ٹھہری انہی کا آسماں ٹھہرا
خدا شاہد کہ یہ بھی اک نیا اسلوب مدحت ہے
نہ یہ اشک رواں ٹھہرے نہ یہ قلب تپاں ٹھہرا
میں زخمی ہوں کہاں جاؤں بتاؤ قافلے والو!
کہ جب ان کا ہی در گہوارہ امن و اماں ٹھہرا
ہمیشہ ذکر آقا سے فضائیں گونج اُٹھی ہیں
زمین شعر کا ایک ایک مصرع آسماں ٹھہرا
جلی لفظوں میں یہ تصدیق بھی قرآن کرتاہے
سوائے ان کے کب کوئی مکین لامکاں ٹھہرا
جوہے پیشانیٔ امت پہ عابدؔ چاند سجدے کا
وہی تعمیل حکم مصطفی کا اک نشاں ٹھہرا
t
عارف امام
(۱۲؍اپریل ۱۹۵۶ء کراچی)
کہیں خلا میں ہے کاغذ، قلم زمیں پہ نہیں
میں نعت لکھتے ہوئے کم سے کم زمیں پہ نہیں
خرام ناز، کہ رستے پہ بچھ گئے ہیں فقیر
ہمارے سینے پہ رکھئے قدم زمیں پہ نہیں
خوشی کے مارے زمیں پہ قدم نہیں پڑتے
یقیں ہوا کہ دیارِ حرم زمیں پہ نہیں
یہ لوگ عشقِ محمد کے آسمان پہ ہیں
عرب زمیں پہ نہیں ہیں عجم زمیں پہ نہیں
سر شکِ عشق تجھے آسماں سمیٹتا ہے
زمیں پہ میں ہوں مری چشمِ نم زمیں پہ نہیں
کسی میں تاب کہ تصویرِ نور کھینچ سکے
یہاں تو سایۂ شاہِ اُمم زمیں پہ نہیں
درِرسول پہ ہیںاے قضائے عجلت خیز
یہیں سے ہم کو اُٹھالے کہ ہم زمیں پہ نہیں
بتانِ کعبہ ! تمہیں اب زمیں پہ گرنا ہے
یہ بُت شکن ہے اور اس کے قدم زمیں پہ نہیں
سخن کی بھیک ہے افلاک سے اُترتی ہے
کہ اِس شمار میں دام و درہم زمیں پہ نہیں
t


عارف شفیق
(۳۱؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کراچی)
جب نظر کے سامنے روضے کامنظر آئے گا
خود بخود میری زباں پر ذکرِ سرور آئے گا
دیکھنا ہے سایۂ احمد تو دیکھو عرش پر
آسماں سے سایہ آخر کیوں زمیں پر آئے گا
مجھ کو نسبت ہے محمد سے نہیں دنیا کا خوف
مجھ سے ٹکرائی تو گردش کو بھی چکر آئے گا
تیرگی کو کاٹ دے گی جنبشِ نوکِ قلم
روشنی کے ہاتھ میں کرنوں کا خنجر آئے گا
میں ہوں مداحِ نبی ممکن نہیں مجھ کو زوال
دیکھنا کس اوج پر میرا مقدر آئے گا
جو محمد کے نہیں نظریں جھکا کر جائیں گے
مدح خوانِ مصطفی تو سر اُٹھا کر جائے گا
آنکھ میں بھر لوں گا میں تو شربتِ دیدار کو
جام بھرنے جب مرا ساقیِ کوثر آئے گا
جس کے دل میں آئے گا عارفؔ ! محمد کاخیال
بخت کی تاریکیوں میں مثلِ خاور آئے گا
t
عباس رضوی
(۲؍ستمبر ۱۹۴۴ء علی گڑھ)
آغازِ نعت ہم نے کیا اس دعا کے ساتھ
مولا عطاہو حمد کی دولت ثنا کے ساتھ
کیسا ملا ہے ہم کو یہ اعزاز دیکھیے
ہم ہیں شریک عشقِ نبی میںخدا کے ساتھ
پہنچے جوبارگاہِ رسولِ انام میں
ہم نے بھی سرجھکا دیا قدر وقضا کے ساتھ
دل میںبسائے شہرِ مدینہ کی آرزو
ہم بے نوابھی گرمِ سفر ہیں صبا کے ساتھ
اللہ نے نبی کی محبت کے باب میں
مشروط کردیا ہے بقا کو فنا کے ساتھ
مخصوص تھی جوپائے رسالت مآب سے
وابستہ ہوگئی ہے وہ خوشبو حرا کے ساتھ
چلتا رہے یہ قافلۂ عشقِ مصطفیٰ
پڑھتا رہوں درود میں بانگِ درا کے ساتھ
t
-
یہ عالَموں پہ جو اک سلسلہ کرم کا ہے
یہ فیض نورِ ازل سیّدِ اُمم کا ہے
وہ جن کے در سے فرشتے مراد پاتے ہیں
یہ رحمتوں کا چلن، ان کے دم قدم کا ہے
مرا شرف ہے کہ میں ہوں غلام ابنِ غلام
خوشا نصیب یہ رشتہ جنم جنم کا ہے
نبی کے روضے پہ پہنچے تو باوضو ہوجائے
یہ افتخار، یہ اعزاز چشمِ نم کا ہے
غبارِ ُکوے مدینہ سے جا ملے، مری خاک
یہ جسم و جاں کا حوالہ تو کوئی دم کا ہے
وہ بادشاہِ دوعالم، کرم کی حد نہ حساب
میں کم سواد، سو میرا سوال کم کا ہے
ہے ایک سانس کی دُوری پہ رہ گزارِ نجات
وجود سے بھی یہی فاصلہ عدم کا ہے
t
عبد العزیز بے خودؔ
(۱۵؍نومبر ۱۹۱۵ء کاٹھیاوار صوبہ گجرات…۲۰۰۱ء کراچی)
فضاؤں پر تسلط ہو چکا تھا کفر و ظلمت کا
دلوں سے مٹ چکاتھاحوصلہ اخلاق و الفت کا
زمانے میں نہ تھاکوئی کسی کو پوچھنے والا
ذرا سی بات پہ آپس میں کشت و خون ہوتا تھا
نظامِ بزمِ عالم آچکا تھا کفر کے بس میں
مروج ہو چکی تھیں ہر طرف الحاد کی رسمیں
زمانہ لے رہاتھاکروٹیں آغوشِ رحمت میں
یکایک جوش سا پیدا ہو ادریائے رحمت میں
تو عبد اللہ کے گھر میں وہ گوہر ہوگیاپیدا
جسے سب دیکھ کر بولے کہ رہبر ہوگیاپیدا
عرب کی وادیوں سے پھوٹ نکلے نور کے چشمے
زمین و آسماں ، لوح و قلم سب جگمگا اُٹھے
سلام اُس پر کہ جوتھا کالی کملی اوڑھنے والا
سلام اُس پر کھجوروں کی چٹائی جس کا بستر تھا
سلام اس پر جو تھا رازِ مشیّت جاننے والا
محبت کی نگاہیں دور سے پہچاننے والا
سلام اس پر جو تھا غارِ� حرا میں رونقِ ہستی
خلوص و بندگی کا آئینہ تھی جس کی خاموشی
سلام اس پرزمانے کی اُٹھائیں سختیاں جس نے
غلاموں کو چھڑایا قیدِ محکومی کی لعنت سے
t
عبدالجلیل بسمل
(۹۲۴ء ۱دربھنگہ،بھارت…۲۴؍نومبر ۲۰۰۶ء کراچی)
حاصل مدعا اور کیا چاہیے
قربت مصطفی اور کیا چاہیے
مجھ کو سرمایۂ دوجہاں مل گیا
ماسوا کیا رہا اور کیا چاہیے
دل کی باتیں بھی توان کہی رہ گئیں
پا گیا مدعا اور کیا چاہیے
عاصیوں کی شفاعت کے ضامن ہیں آپ
زندگی کا صلہ اور کیا چاہیے
ہے رضائے محمد رضائے خدا
بس یہی اک رضا اور کیا چاہیے
نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں
ہاں یہی مشغلہ اور کیا چاہیے
روضۂ مصطفی کا نظارہ مدام
شوق کی انتہا اور کیا چاہیے
ہو مبارک مدینے کا بسملؔ سفر
راہِ راہِ ہدی اور کیا چاہیے
t
عبدالحمید فہمیؔ
(۱۹۳۲ء بھرتپور راجپوتانہ…۲۳؍ جون ۲۰۱۵ء کراچی)
زندگی عشق محمد میں بسر ہوتی ہے
میری راتوں میں بھی تنویر سحر ہوتی ہے
جس طرف فخر دوعالم کی نظرہوتی ہے
رُوح ِکونین بہر طور اُدھر ہوتی ہے
دل سے تعریف ِصحابہ بھی اگر ہوتی ہے
نعتِ احمد ہی بہ عنوان ِدِیگر ہوتی ہے
حال کیوں کہہ کے مدینے کو صبا سے بھیجوں
میرے آقا کو دوعالم کی خبر ہوتی ہے
سینکڑوں رنج والم دل سے بھلانے کے لیے
بادۂ حبُ نبی زود اثر ہوتی ہے
نام احمد ہی تودیتاہے سہارا اس کو
کشتیِ زیست اگر زیروزبر ہوتی ہے
مجھ کو بلوا لو وہاں جلد شہہ کون و مکاں
بارشِ نور جہاں آٹھوں پہر ہوتی ہے
اُس پہ کُھل جاتے ہیں اسرارِدوعالم فہمیؔ!
جس پہ سرکارِ دو عالم کی نظر ہوتی ہے
t
عبدالعلیم صدیقی قادری، علامہ
(۳؍ اپریل۱۸۹۲ء  میرٹھ…۲۲؍ اگست ۱۹۵۴ء مدینہ منوّرہ)
ہاں شفیع المذنبیں تم ہی تو ہو
رحمت للعالمیں تم ہی توہو
کنجیاں ہیں آپ ہی کے ہاتھ میں
گنج قدرت کے امیں تم ہی ہو
دوجہاں میں آپ ہی کا راج ہے
صاحب تاج ونگیں تم ہی ہو
ہیں منورہر دوعالم آپ سے
نوررب العالمیں تم ہی توہو
حسن والے جس کی طلعت پرفدا
وہ ملیح و مہجبیں تم ہی توہو
دستگیر بے کساں کیجئے مدد
سارے عالم کے معین تم ہی توہو
دوجہاں میں لاج رکھ لیجئے مری
مالک دنیا ودیں تم ہی تو ہو
ڈوبتی کشتی مری منجدھار میں
کھینے والے بالقیں تم ہی تو ہو
آپ کی قربت میں دل بے چین ہے
راحت جانِ حزیں تم ہی تو ہو
t
عبدالودود بسملؔ
(یکم ستمبر ۱۹۲۰ء دانا پور مغربی بنگال…۳؍جنوری۲۰۰۴ء کراچی)
اے جذبہ دل اب ترا اتنا تو اثر ہو
بے تابیٔ دل کی مرے اب ان کو خبر ہو
وہ سرخرو عقبی میں ہے دنیامیں سرافراز
جس پہ تری الطاف و عنایت کی نظر ہو
بہتے ہیں جہاں کوثروتسنیم کے دھارے
اس کوچے سے یارب کبھی اپنا بھی گزر ہو
یو ںعشق خدا عشق نبی دل میں ہو اپنے
شب کعبے میں گزرے تومدینے میں سحر ہو
بسمل کا زمانے میں نہیں کوئی بھی پُرساں
اے سرور کونین عنایت کی نظر ہو
t
عبرتؔ صدیقی بریلوی
(۱۹۰۹ء بدایوں … یکم ستمبر ۱۹۹۰ء کراچی)
قمر نے نور پاشی کی گلستاں ِ نبوت میں
ستارے مشعلیں لے کے بڑھے شوقِ زیارت میں
بڑھا کرہاتھ فطرت نے فلک کی کھول دیں راہیں
چلا خورشید شوقِ دید میں ملتا ہوا آنکھیں
کیا روشن زمانے کو طلوعِ صبح فطرت نے
فضا کو کر دیا پُرنور خورشیدِ رسالت نے
عجب وقت ظہورِ جلوۂ محبوب داور تھا
ہراک گوشہ فضائے زندگی کا خلد منظر تھا
فضائیں جگمگا اٹھیں منور ہوگئی دنیا
بہارِ جلوۂ احمد سے خلد نور تھی دنیا
نظر کے سامنے ہرسمت شمع طور روشن تھی
عرب کی سرزمیں گویا تجلی زارِ ایمن تھی
سلام اعزازِ انسانی کے باعظمت پیامی پر
سلام اللہ کے محبوب کی ذاتِ گرامی پر
شہشاہوں میں یکتا ہیں،یہی اک تاج  والے ہیں
نبوت ختم ہے ان پر یہی معراج والے ہیں
t
عبید اللہ ساگر  ؔ
(۱۹۴۸ء مظفر پور بہار)
دیارِ مصطفی عرشِ معلیٰ کے برابر ہے
جسے فردوس کہتے ہیں مدینے کی زمیں پر ہے
طفیلِ رحمتِ عالم تنی رحمت کی چادر ہے
بہت ہی روح پرور گنبدِ خضرا کا منظر ہے
خدا نے نور کے سانچے میں ڈھالا جسمِ اطہر کو
جمالِ سرورِ عالم تجلی کا سمندر ہے
یہ اِک زندہ حقیقت ہے اگر آقا کا شیدائی
درِ اقدس پہ مر جائے مقدر کا سکندر ہے
بڑھا دی قدرو قیمت لے کے بوسہ سرورِ دیں نے
ہے پتھر سنگِ اسود بھی مگر ہیرے سے برتر ہے
بصیرت ہو عطاآقا زمانے کی نگاہوںمیں
جوکمتر ہے وہ اعلیٰ ہے جو اعلیٰ ہے وہ کمتر ہے
عرب کے ماہِ کامل کا تصور ہے مرے دل میں
اندھیری رات میں ساگر  ؔ ! ہر اِک رستہ منور ہے
t
عتیق الرحمن عطاؔ
(۲؍ فروری ۱۹۵۸ء مدراس)
یاد انہیں کرتی ہیں آنکھیں سلسلہ درسلسلہ
دید کی پیاسی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
آپ ہی کے مصحفِ رخ کی ضیاء کو چار سو
دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
اے شہنشاہِ دوعالم اب کرم فرمائے
حالِ دل کہتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
جادٔہ طیبہ میںآنے کے لیے یا مصطفی
کتنے دکھ سہتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
پیار کا مرہم ملا کرتا ہے در سے آپ کے
زخم بھر دیتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
ہے یہ عالم آرزوئے کوچہ سرکار کا
وجد میںرہتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
نورِ رب، نورِ محمد کا عطاؔ شام و سحر
ذکر کر لیتی ہیں آنکھیں سلسلہ در سلسلہ
t
عزم بہزاد
(۳۱؍دسمبر ۱۹۵۸ء کراچی …۴؍ مارچ ۲۰۱۱ء کراچی)
مجھے ان کے ذکر راہ میں عجب اختیار عطا ہوا
مرے فاصلوں میں کمی ہوئی مراقرب مجھ میں سوا ہوا
وہ صراطِ خیر کی روشنی وہ وجودِ حرف کی آگہی
یہ انہی کی چشم کرم توہے کہ میں ان کا مدح سرا ہوا
کئی عہد آکے گزر گئے مگر ان کے فضل کا تذکرہ
کبھی خامشی میں اذاں بنا کبھی گفتگو میں دعا ہوا
کوئی ایسی نعت رقم کروں کہ سماعتیں بھی پکار اٹھیں
یہ نبی کی شاں بیاں ہوئی یہ نفس کا قرض ادا ہوا
وہ برائے حاضری حکم دیں تو میں کس نگاہ سے جاؤں گا
مراقلب اتناسیاہ ہے کہ میں روح تک ہوں جلا ہوا
-
قرار جسم وہی اورثبات جاں بھی وہی
زمین دل پہ محبت کا آسماں بھی وہی
سواد کینہ ونفرت میں وہ دعا کا چراغ
فصیل ظلم میںدروازۂ اماں بھی وہی
ہوائے تند وہ شمع نفاق کے حق میں
اوراہل انس ومحبت کے قدرداں بھی وہی
یقیں کی راہ میں منزل ہیں ان کے نقش قدم
گماں کی دھوپ میں تمثیل سائباں بھی وہی
انھی کے ذکر سے سینے میں خوشبوئیں جاگیں
کھلا کہ میرے لیے اصل گلستاں بھی وہی
مجھے اب ان کے سواکچھ نظر نہیں آتا
مرابیاں بھی وہی میری داستاں بھی وہی
t
عزیز حامد مدنی
(۱۵؍جون ۱۹۲۲ء رائے پور ، یوپی … ۲۳؍اپریل ۱۹۹۱ء کراچی)
مرحبا سیّدِ والا یہ اُفق تابی بھی
حرف کا طاق ہوا جاتا ہے محرابی بھی
بزم عالم کی بنا کیا تھی ظہور قدسی
معجزِ نورِ ازل عشق کی بے تابی بھی
منکشف تجھ پہ عیاں اس طرح اسرار حیات
مرہمِ چاکِ دل و رشتۂ سرتابی بھی
ایک ٹھہرائو کا عالم جو حرا سے جھلکا
ایک پیغامِ مسلسل ہے کہ سیمابی بھی
میرے مولا ملے اس خاک کو دامن میں اماں
محضرِ عشق مجسم ہے کہ مہتابی بھی
وسعتِ ظرفِ معانی کہ بنام انساں
کعبہ دل میں محبت ہے کہ گردابی بھی
ناشکیبائی کے عالم پہ کرم ہو مولا
غنچہ دل میں نظر آئے گی شادابی بھی
کیا ترا ذکرِ معظم ہو زبانِ مدنیؔ
مرحمت تجھ سے ہوا عنصرِ خطاّبی بھی
-
تو اے کاری بدریا۔ اب مدینہ کی طرف جاری
ہمالہ کی گھٹا ہر بوند میں جس کی ہے چنگاری
مہکتی نافۂ آہو سی جس سے ہوش اڑتے ہیں
خیال و خواب پر ہر لمحہ جس سے کیفیت طاری
اتر کر جو سوادِ ہند سے گوکل پہ رک جائے
جہاں ملتی ہے سحرِ نے نوازی کی فضا ساری
قصیدہ کی فضا سی محسن کاکوروی والی
رہی جس کی فضا میں جسم وجاں پر اک گہر باری
محبت کے وہ بادل جو چلے متھرا کی جانب پھر
سرودِ رودِ جمنا کر چکا جس کی ہواداری
صبا کی طرح جو میر عرب تک آپ پہو نچی تھی
رواں ٹھنڈی ہوا ، دامن میں لے کے رنگِ پر کاری
خرامِ فیلِ بے زنجیر کے مانند اڑتی سی
فضا میں پھیلتی طبع بہار افراز دلداری
بہت دانائی کے گہوارے میں نے دیکھ ڈالے تھے
نظر میں لندن و نیویارک کی تھی گرم بازاری
کبھی ان سے کسی نے ہے سراغ زندگی پایا
ہوئی کیا کیا نہ روز و شب میں مری ذلت و خواری
گرجتی گھومتی بِنتی سی کرتی چارہ سازی کی
تو اے کاری بدریا اب مدینے کی طرف جاری
نوا کر سیس اے کالی گھٹا آقاؐ سے جاکہیو
مجھے کملی میں لے لیں اب ہوا ئے یک نگہداری
ہراِک نے پائی ہے مولا تیرے در سے کوئی نسبت
اسی نسبت سے آخر ایک ہیں ہندی و تاتاری
مرے آبانے تیرے نام سے اک عشق پایا تھا
صدائے شبلی نعمانی تک آئی جس کی سرشاری
مجھے بھی ہو عطا اے صاحب جودوسخا آخر
کوئی ایسا نشاں جس کو سمجھ لوں تیری غم خواری
فقط تیرے کرم کا منتظر اب رہ گیا ہوں میں
جہاں کی رسم اب ہوتی چلی ہے مردم آزاری
’’تو اب مولائے یثرب آپ میری دستگیری کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زناّری‘‘
t


بہت مضطرب تھا بہت بے حواس
عطیہ خلیل عرب
 
(۲۷؍دسمبر۱۹۴۳ء بھوپال …۴؍جنوری ۲۰۱۶ء دبئی)
کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھاراس
زہے نصیب صلہ یہ ملا مدینے میں
 
کہیں رہوںمیں رہے دل ِمرا مدینے میں
 
عجیب شان سے اب کے بہار آئی ہے
مرے دل میں احساس غم رم گیا
جو گل کھلا وہ کھلا ہی رہا مدینے میں
 
ہوئیں دامنِ رحمت اُٹھا کے چلتی ہیں
غبار آئینے پر بہت جم گیا
دردو پڑھتی ہے بادِ صبا مدینے میں
مشامِ جاں میں رہی عنبریں نفس کی مہک
یہ معجزہ بھی ہوا بارہا مدینے میں
ہزار در بھی اگر بند ہوں تو کیا غم ہے
درِ قبول رہے گا کھلا مدینے میں
فرازِ عرش سے رحمت جہاں اُترتی ہے
وہی ہے روضۂ خیرالوریٰ مدینے میں
غریبِ شہر ہوں،میرا کہاں ٹھکانہ تھا
ہزار شکر ملا در ترا مدینے میں
بس اِک نگاہِ کرم کی اُمید وار ہوں میں
ہے قبلہ رو مِرا حرفِ دُعا مدینے میں
t
عقیل عباس جعفری
(۱۰؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی)
رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ
ذکر نبی جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ
لیتے ہی اُن کا نام مقدر سنور گیا
پہنچے ہیں پھر کہاں سے کہاں ہم فقیر لوگ
ہر سانس میں ہے لفظ مدینہ بسا ہوا
رکھتے ہیں یہ اثاثہ جاں ہم فقیر لوگ
خلوت نشینی و دمِ غربت کے باوجود
دستِ عطا سے کب ہیں نہاں ہم فقیر لوگ
آقا کی رحمتوں سے برابر ہیں فیضیاب
جبریل آسماں پہ ، یہاں ہم فقیر لوگ
اُن کا کرم ہے اپنی گلی میں بلا لیا
ورنہ کہاں مدینہ، کہاں ہم فقیر لوگ
مانا کہ ان کے در پہ پہنچ بھی گئے عقیلؔ
کیسے کریں گے حال بیاں ہم فقیر لوگ
-
نعت لکھنے کو جو کاغذ پہ لکھا بسم اللہ
آئی جبریل کی فورا ہی صدا ،بسم اللہ
نعت لکھنے کے لیے پہلے دعا مانگتے ہیں
اور پڑھتے ہیں سدا قبلِ دعا، بسم اللہ
میں نے کاغذ پہ کیا سورہ یسٰین کودم
اور خامے سے کہا، صل علیٰ بسم اللہ
دین اسلام کی نصرت کا جہاں آیا سوال
ایک ہی گھر تھا، کہا جس نے سدا بسم اللہ
مجھ میں طاقت یہ کہاں نعتِ پیمبر لکھتا
ہے فقیروں پہ یہ آقا کی عطا،بسم اللہ
آنکھ ہے روضے کی جالی پہ، جبیں چوکھٹ پر
موت اب تجھ کو جو آناہے توآ،بسم اللہ
میں نے اِک نعت سنانے کی اجازت چاہی
اور نکیرین نے خوش ہو کے کہا ،بسم اللہ
t
علم دارحسین اسلمؔ
خوشا کہ نامِ نبی ہرنفس کے دھیان  میں ہے
خدا کی طرح سے ذاتِ نبی ہے لاثانی
دلیل آپ کی عظمت کی اورکیا ہوگی
بغیرِ اذنِ خدا نعت لکھ نہیں سکتا
نوازتے دعاؤں سے دشمنِ جاں کو
اساسِ جوہرِ تریاق ہے لعابِ دہن
اسی لیے ہیں زمانے کی رونقیں اسلمؔ
مرے مکان کا مالک مرے مکان میں ہے
جواب ان کا زمیں پرنہ آسماں میں ہے
ہراک آیۂ قرآن ان کی شان میں ہے
حریف ِ نعتِ نبی جانے کس گمان میں ہے
یہ وصفِ خاص محمد کے خاندان میں ہے
جوسنگ موم کرے وہ اثر زبان میں ہے
نبی کی ذاتِ مقدس جو درمیان میں ہے
t
علی محسن صدیقی ، پروفیسر
(۱۹۲۹ء غازی پور … ۱۴؍جنوری ۲۰۰۲ء کراچی)
محمد بے زبانوں کی زباں ہیں
اُنہیں سے معتبر حرف و بیاں ہیں
فقیروں کے وہ یار و مہرباں ہیں
محمد حامیِ بے چارگاں ہیں
تمیزِ مومن و کافر سے بالا
محمد رحمتِ اہلِ جہاں ہیں
یتیموں اور بیواؤں کے والی
وہی غم خوارِ جانِ بے کساں ہیں
نظیر ان کی کوئی ہے اور نہ ہو گی
رسول اللہ ختمِ مرسلاں ہیں
کتاب اللہ کی سب سورتوں بیچ
نقوشِ سیرتِ احمد عیاں ہیں
فقیری میں جلالِ بے نہایت
امیری میں جمالِ بے کراں ہیں
معارض ہوں جو دینِ مصطفی سے
وہ عقلی کاوشیں وہم و گماں ہیں
-
نشانِ عظمت و تقدیس بام و در ٹہرے
ترے حوالے سے پتھر بھی معتبر ٹہرے
ہزار دانش و فرہنگ کے لیے پندار
ترے حضور جو پہنچے، تو بے خبر ٹہرے
خرد سے خیرہ نگہہ، اہل دانش و بینش
ترے ہی نورِ بصیرت سے دیدہ ور ٹہرے
تری نگاہ کا فیضان ہی تو ہے، جس سے
عمرؓ کے ایک اشارے پہ بحر و بر ٹہرے
یہ معجزہ ہے تری تربیت کا جس کے طفیل
جو بے ہنر تھے کبھی، صاحبِ ہنر ٹہرے
بھٹک رہے تھے جو صدیوں سے راہ گم کردہ
ترے ہی فیض سے دنیا کے راہ بر ٹہرے
نفس میں تیری، عرار و گلاب کی خوش بو
ترے ہی لفظ، گہر سے بھی خوب تر ٹہرے
خدا کے خلق کے پیکر، محمد و احمد
خدا کے بعد، تمھیں سب سے معتبر ٹہرے
.
دلوں میں حبِ احمد ضوفشاں ہے
عجب جذبوں کی روشن کہکشاں ہے
مزارِ سرورِ عالم یہاں ہے
مدینہ کی زمیں، رشکِ جناں ہے
کہاں ہم تر زباں اور نعتِ احمد
ثناخواں اُن کا ربّ انس و جاں ہے
ہے اُن کا قول حکمت کا خزینہ
عمل اُن کا، ہدایت کا نشاں ہے
اُنھیں کے ُخلق سے ہر شئے منور
اُنھیں کے خلق سے قائم جہاں ہے
وہی ہیں آبروئے عصرِ حاضر
اُنھیں کا دین، اس کا ترجماں ہے
اُنھیں کا دین، اس ’’دورِ فتن‘‘ میں
حقیقی داعیٔ امن و اماں ہے
اُنھیں کا دین، اس ’’نفرت کدہ‘‘ میں
محبت کا معطر بوستاں ہے
صلوٰۃ اُن پر، سلام اُن پر، ہمیشہ
کہ ذات اُن کی، امامِ رہ براں ہے
t


عنبرنظامی،منظور احمد خان
(۲۲؍اکتوبر۱۹۲۲ء ۔میرٹھ چھاؤنی…۱۳؍جون ۱۹۸۸ء کراچی)
عاصی ہوں گنہگار ہوں سرکارِ مدینہ
رحمت کا طلب گار ہوں سرکارِ مدینہ
گو دل میں لیے پھرتا ہوں میں شوقِ زیارت
مجبور ہوں، لاچار ہوں سرکارِ مدینہ
للہ کرم کیجیے نعلین کا صدقہ
میں طالبِ دیدار ہوں سرکارِ مدینہ
کب تک غمِ فرقت میں تڑپتا ہی رہوں گا
اُلجھن میں گرفتار ہوں سرکارِ مدینہ
اے کاش کبھی میں بھی کہوں تھام کے جالی
میں حاضرِ دربار ہوں سرکارِ مدینہ
عنبرؔ پہ کرم کیجیے حسنینؓ کا صدقہ
بے یار و مددگار ہوں سرکارِ مدینہ
t
عنبرین حسیب عنبر
(۲۳؍ جون ۱۹۷۹ء کراچی)
ہے جہاں محو خود نمائی میں
خوش ہوں میں آپ کی گدائی میں
اسمِ احمد ورق پہ لکھتے ہی
آگیا نور روشنائی میں
بھیجتی ہوں درود آقا پر
میں فرشتوں کی ہم نوائی میں
کس سے تشبیہہ دوں مرے آقا
آپ سا کون ہے خدائی میں
مل گیا ربِّ کائنات مجھے
سرورِ دیں کی رہنمائی میں
لاکھ بدلے چلن زمانے کا
میں رہوں عشقِ مصطفائی میں
نعت کہنے میں ہے جو سرشاری
وہ کہاں ہے غزل سرائی میں
t
عیشؔ ٹونکی
(۱۹۱۹ء ٹونک…۷؍ مارچ ۱۹۸۵ء کراچی)
شمشیر سے، ناوک سے، نہ خنجرسے ملا ہے
اسلام ہمیں خلقِ پیمبر سے ملا ہے
دل ساقیٔ کوثر کی محبت میں ہے سرشار
اک قطرۂ ناچیز سمندر سے ملا ہے
دیدارِ خدا ، عفوِ خطا، مژدہ جنت
کیا کیا نہ ہمیں شافعِ محشر سے ملا ہے
پروانوں نے پایا ہے مذاقِ تپشِ عشق
شمعوں کو اجالا رخِ انور سے ملا ہے
دیوانگیٔ عشقِ محمد پہ ہوں نازاں
سودا یہ مرے سر کو مقدر سے ملا ہے
کیوں سجدہ گہِ شوق مدینے کو نہ سمجھوں
جوجس کوملا ہے، وہ اسی در سے ملا ہے
جاکر لبِ کوثر بھی وہ پیاسا ہی رہا عیشؔ
جب تک نہ کوئی ساقیٔ کوثرسے ملا ہے
t
غریبؔ سالکی
(۱۹۱۲ء حیدرآباد دکن…۱۶؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)
سامنے گلشنِ طیبہ ہے بہار آئی ہے
جس طرف دیکھیے رحمت کی گھٹا چھائی ہے
میری تقدیر مدینے میں مجھے لائی ہے
اب مرے زیرِ قدم سطوتِ دارائی ہے
زینتِ بزمِ دوعالم ہی نہیں اس کا وجود
حاصلِ خلدِ بریں آپ کا شیدائی ہے
اپنی آنکھوںمیں جگہ دی ہے ملائک نے اُسے
جس نے بھی ارضِ مدینہ میں جگہ پائی ہے
میں ہوں اور میری نظر میں ہے نبی کاجلوہ
کتنا پُر کیف مرا عالمِ تنہائی ہے
خلد میں بھی اُسے کیا خاک مزا آئے گا
زندگی جس نے مدینے میں گزار آئی ہے
جو شہِ دیں کی تجلی سے ہو معمور غریبؔ!
بس اُسی سینے میں کونین کی پنہائی ہے
t
غفار شادؔ
(۱۹۴۸ء…۲۸؍ اپریل ۲۰۰۲ء کراچی)
اے کہ تجھ جیسا حقیقت آشنا کوئی نہیں
تو فقط تو ہے کہ تجھ سا دوسرا کوئی نہیں
پتھروں کا توجو دیتا ہے دعاؤں سے جواب
اس سے بڑھ کر اور معیارِ وفا کوئی نہیں
کس تناظر میں تجھے دیکھیں کہ ہے سیرت تیری
طرح دار اتنی کہ جس کی انتہا کوئی نہیں
اے کہ صورت میں تری بعد خدا درد آشنا
اک تو ہی ہے ہمارا دوسرا کوئی نہیں
کس کو ہے ادراک بالاخر حقیقت کا تری
جز خدا جس کی حقیقت جانتا کوئی نہیں
-
مری بینائی بن جائے ، مری تصویر ہو جائے
مری آنکھوں میں گر روشن تری تصویر ہو جائے
کمر سے باندھ کرنکلے عددِ تیغ ستم لیکن
رخِ پُر نور دیکھے اور خود تسخیر ہو جائے
بھلے سے دم نکل جائے مرا فرطِ مسرت سے
مگرشایانِ شاں اک لفظ ہی تحریر ہو جائے
بجا مرنا تو ہے لیکن فقط ان کی محبت میں
بہر لمحہ یہی چاہوں کہ کچھ تاخیر ہو جائے
نہ کیوں خیرالبشر ٹھہرے وہ تدبیر و تدبر میں
جو انساں عالمِ اسباب کی تقدیر ہو جائے
میں ان کے نام سے ہر کام کا آغاز کرتا ہوں
تو کیونکر مسئلہ میرا کوئی گمبھیر ہو جائے
کبھی اے کاش لے جائے وہاں مجھ کو کوئی لمحہ
اوراس کے بعد میرے پاؤں کی زنجیر ہو جائے
t
غلام رسول طاہرؔ
(۶؍جولائی ۱۹۵۴ء،سمستی پور بہار)
دُرِّ فلاح ، لعلِ شفاعت حضور سے
ملتی نہیںہے کون سی دولت حضور سے
پھولوں کو دلکشی ، تو ستاروں کو روشنی
کس چیز کو ملی نہیں ندرت حضور سے
ہوتے ہیںدوجہاںمیں وہی لوگ سرخ رو
کرتے ہیںرات دن جو محبت حضور سے
اُس سے بڑا تو ظالم و جاہل کوئی نہیں
رکھتا ہے دل میںجو بھی عداوت حضور سے
اِک اِک ورق ہے آج بھی تاریخ کا گواہ
بدلی ہے ساری دنیا کی حالت حضور سے
طاہرؔ ! ہم اپنے آپ سے پوچھیں تو یہ کبھی
ہے آج دور کس لیے اُمت حضور سے
t
غیاثؔ الٰہ آبادی
(۲۳؍مارچ ۱۹۱۶ء  الٰہ آباد)
اتنی نہ اپنے حسن پہ تو اے بہار پھول
فیضِ حبیب حق سے ہیں نکہت شعار پھول
اُس سر زمیں کانام ہے طیبہ کہ جس جگہ
ہر ذرہ آفتاب ہے ہرایک خار پھول
برسائے مصطفیٰ نے بعنوانِ گفتگو
خوش رنگ دیدہ زیب سراپا بہار پھول
فصل خزاں کی یورش پیہم کے باوجود
گلزار مصطفی میں کھلے بے شمار پھول
آرام گاہِ سید خیر الانام پر
برسا رہے ہیں آج بھی لیل ونہار پھول
تڑپا رہی ہے گلشن طیبہ کی آرزو
باغِ بہشت میں ہیں بہت بے قرار پھول
ہے یہ غیاث سرور عالم کا امتی
بخشش کے اس کی سمت بھی آئے ہزار پھول
-
دیکھا جو میں نے شاہ رسولوں کے اردگرد
سو دولتیں ملیں مرے داماں کے اردگرد
یارب مصطفیٰ تری رحمت کا وقت ہے
دنیا کی سازشیں ہیں مسلماںکے اردگرد
دنیا کو کیا خبر کہ میں کعبے کے نام سے
محوِ طواف ہوں درجاناں کے اردگرد
بچنا ہے ظلمتوں سے توآقاکے نام سے
کھینچو حصارِ عشق دل وجاں کے اردگرد
غافل نہ ان کی یاد سے ہونا کہ ان دنوں
دیکھا گیاہے کفرکو ایماں کے اردگرد
صدقہ انہیں کے نام کا ہے ورنہ اے غیاثؔ!
خوشبو نہ رقص کرتی گلستاں کے اردگرد
.
غبار راہ خاکِ در سے مل جائے توکیا کہنا
دیارشافع محشر سے مل جائے تو کیا کہنا
مری پس منظری، منظر سے مل جائے توکیا کہنا
مرا زنگار بھی جوہر سے مل جائے تو کیا کہنا
جوان کے در کی نیت سے مکرم ہے مقدس ہے
مقدرمیرا اس پتھر سے مل جائے تو کیاکہنا
ضرورت کی کفالت کے بہت اسباب ہیں لیکن
اگر کچھ مصطفی کے درسے مل جائے تو کیا کہنا
مہ وخورشید کی تابانیاں دل تک نہیں آتیں
تجلی روضۂ انور سے مل جائے تو کیا کہنا
طواف کعبہ کرکے حاضری دوں جب مدینے میں
طہارت کی سند اطہر سے مل جائے تو کیاکہنا
غیاثؔ!اس عالم ہستی میں ہررشتہ تمنا کا
حبیب خالق اکبر سے مل جائے تو کیا کہنا
t
غیوراحمد خاں غیورؔ
(۶؍۲مارچ۱۹۴۲ء رامپور…۱۸؍مارچ۲۰۰۷ء کراچی)
فضائے طیبہ میں دیدِ حسن وجمال کرتی ہیں میری آنکھیں
غمِ جدائی کے داغ کا اندمال کرتی ہیں میری آنکھیں
میں شرم عصیاں سے مُہر برلب درنبی پرکھڑا ہوا ہوں
جو میرے لب تک نہ آسکے وہ سوال کرتی ہیں میری آنکھیں
بربِ کعبہ طوافِ کعبہ نہ جانے کس دُھن میں کررہا ہوں
نظارۂ حسنِ لم یزل،باکمال کرتی ہیں میری آنکھیں
بس ایک وہ لمحہ حضوری کہ زندگی بھر کا ماحصل ہے
اُ س ایک لمحے کی سرخوشی لازوال کرتی ہیں میری آنکھیں
یہی بصارت کا مُنتہا ہے کہ ذرۂ خاکِ پا کو دیکھے
تمہاری گلیوں کو دیکھتی ہیں کمال کرتی ہیں میری آنکھیں
زباں ہلانے کی مجھ کو غیورؔ پیشِ آقا مجال کب ہے
میں سر جھکائے کھڑا ہوں اور عرضِ حال کرتی ہیں میری آنکھیں
t
فاخر البری،سید افتخار احمد
(۶؍جنوری۱۹۲۲ء بلند شہر یوپی…۲۹؍نومبر۱۹۹۱ء کراچی)
ہوا ہے خواب میں میرا گذر طیبہ کی گلیوں میں
بہت گھوما پھراہوں رات بھر طیبہ کی گلیوںمیں
کہاں سے لاؤں وہ الفاظ جو دیکھا ہے بتلائوں
خدا کی شان آتی ہے نظرطیبہ کی گلیوں میں
معطر تھیں فضائیں چار سو انوار کی بارش
کھلے تھے جا بجا جنت کے درطیبہ کی گلیوں میں
میں استجاب کے عالم میں اب تک محو حیرت ہوں
کہاں سے آگیا تھا میرا گھر طیبہ کی گلیوں میں
مرے جذب محبت توہی میری دستگیری کر
یونہی پھرتا ہوں میں عمر بھر طیبہ کی گلیوں میں
مرے آقا کاہے یہ شہر میںادنی ساذرہ ہوں
مقدر ہے مراکس اوج پر،طیبہ کی گلیوں میں
میں فاخر ہوں مجھے دیوانگی پہ فخر ہے اپنی
مرے کام آگیا سودائے سرطیبہ کی گلیوں میں
-
میری بیچارگی کو سلام آگیا
اُن کا حسنِ کرم میرے کام آگیا
سب جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں
جب عرب میں وہ ماہِ تمام آگیا
پچھلے احکام منسوخ سب ہوگئے
آپ آئے تواک حکمِ عام آگیا
یہ کرشمہ ہی سارا محبت کاہے
عرش سے اک نظامِ دوام آگیا
بات کرنے کا جن کو سلیقہ نہ تھا
ایسے لوگوں کو حسنِ کلام آگیا
اس سے آگے توجبریل جاتے نہیں
سدرۃ المنتہیٰ کا مقام آگیا
دو بدو راز کی ایسے باتیں ہوئیں
فرش کا چاند بالائے بام آگیا
جب ہوائیں مدینے کی آنے لگیں
میں نے جانا ادب کا مقام آگیا
اُن کے گنبد کی جانب نظر جب گئی
اک نئی زندگی کا پیام آگیا
حاضری کابلاوا ملاہے مجھے
اُن کی فہرست میں میرا نام آگیا
اُن کے در جیسا فاخرؔ نہ در مل سکا
گھوم پھر کروہیں پھر غلام آگیا
t
فاطمہ حسن
(۲۴؍جنوری ۱۹۵۳ء کراچی)
طلوعِ صبح اور چوکھٹ نبی کی
میں کب سے منتظر تھی اس گھڑی کی
ہرے گنبد کو چُھو کر آرہی ہے
ہوا میں لہر ہے آسودگی کی
سبھی راہیں یہاں کی معتبر ہیں
سمیٹوں خاک میں کس کس گلی کی
سنہری جالیوں سے چھن کر آئی
محبت اک کرن ہے روشنی کی
مناظر کر گئے سیراب مجھ کو
شکایت اب نہیں ہے تشنگی کی
رسائی چاہتی ہوں اُن حدوں تک
جہاں سے ابتدا ہے آگہی کی
t
فراست رضوی
(۱۰؍جولائی ۱۹۵۴ء لکھنؤ)
شہِ حجاز کاہے تذکرہ اذاں کی طرح
یہ ایک اسم ہے ہم کو متاعِ جاں کی طرح
نُقوشِ پائے محمد سے جل رہے ہیں چراغ
رہِ حیات چمکتی ہے کہکشاں کی طرح
مجھے زمانے کے گرداب کیا ڈرائیں گے
خیالِ احمد مُرسل ہے بادباں کی طرح
اُنہی کے قدموں کو چھو کر خزف ستارہ ہُوئے
کہ اُن کے پاؤں کی مٹّی ہے آسماں کی طرح
وہ جن کا سایہ نہ تھا اُن کا سایۂ رحمت
غموں کی دھوپ میں ہے سرپہ سائباں کی طرح
کوئی گدا نہ پلٹ کر گیا تہی دامن
نہیں ہے کوئی بھی دراُن کے آستاں کی طرح
دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے شہرِ رسول
کشش نہیں ہے کسی خاک میں یہاں کی طرح
گرفتہ دل ہو فراستؔ اُنہی کو یاد کرو
صعوبتوں میں وہ اک یاد ہے اماں کی طرح
t
فرحت ندیم ہمایوں
(۲۰؍مارچ ۱۹۵۶ء)
اُن کے غم میں جو یہ آنکھ نم ہو گئی، خود بخود اُن کی چشمِ کرم ہو گئی
اِک نظر اُن کی میرا بھرم ہو گئی، ذات میری بڑی محترم ہ وگئی
کائنات آپ سے پہلے اندھیر تھی،آپ آئے تو ہر سو ہوئی روشنی
آپ کی محترم ذات پیارے نبی، وجہِ تخلیقِ لوح و قلم ہو گئی
رسم پھیلائی افہام و تفہیم کی ، دشمنوں نے بھی یہ بات تسلیم کی
آپ آئے تو کعبے نے تعظیم کی ، سجدہ کرنے کو دیوار خم ہو گئی
دل غمِ مصطفی سے منوّر کیا، اوروضو کے لیے آنکھ کو تر کیا
پھرتصور میں دیدارِ سرور کیا،مدحتِ شاہِ بطحا رقم ہو گئی
دل کو یادِ خدا میں مگن کرلیا،سنتِ مصطفی پیرہن کرلیا
جس نے نعتوں کو اپنا سخن کر لیا، اُس کی بخشش خدا کی قسم ہو گئی
جنبشِ لب کو ایسا اثر مل گیا، جیسے سوکھے شجر کو ثمر مل گیا
یا نبی! آپ کاسنگِ در مل گیا،اور یہیں میری معراجِ غم ہو گئی
مجھ کو تقدیر نے آزمایا بہت ، گردشِ دو جہاں نے ستایابہت
اسمِ احمد یہاں کام آیا بہت، ختم کیفیّتِ رنج و غم ہوگئی
-
جسارت نعت کہنے کی دلِ بے باک سے ہو گی
اِسی صورت مجھے نسبت رسول پاک سے ہو گی
مقامِ مصطفی تیری سمجھ میں آنہیں سکتا
عطایہ روشنی قرآن کے ادراک سے ہو گی
بس اِک ان کی محبت اور اطاعت اصل دولت ہے
کہ محشر میں امیری بس انہی املاک سے ہو گی
بنالے اُن کی ہر سنت کوبس تو پیرہن اپنا
جہانوں میں تری تکریم اِسی پوشاک سے ہو گی
سجی ہو گئی جہاں بھی مصطفی کے ذکر کی محفل
تو بارش رحمتوں کی اس جگہ افلاک سے ہو گی
مسیحاؤ! بھلاتم دردِ دل کی کیا دوا دو گے
شفا مجھ کو تو بس اُن کی گلی کی خاک سے ہو گی
یقیں کر لے ندیمؔ ! اذنِ سفر مل جائے گا تجھ کو
اگر خواہش حضوری کی دلِ صد چاک سے ہوگی
t
فرمانؔ فتح پوری، ڈاکٹر
(۲۶؍جنوری ۱۹۲۶ء  فتح پور… ۳؍ اگست ۲۰۱۳ء کراچی)
میں حرم کا مسافر ہوں میرا سفر کیوں نہ ہو وجہِ تسکینِ قلب و نظر
میرے آقا اِدھر ،میرے مولااُدھر ،میرے مطلوب و مقصود کا گھر اُدھر
وردِ سجنکٰ ہرنفس ، ہر قدم ، لاشریک لک اور طوافِ حرم
پھر صفا اور مروہ کا گشتِ بہم سعی کے نام سے رحمتوں کا سفر
بہر سجدہ جبیں مضطرب اس طرف ،بہرنظارہ مضطر نگہہ اس طرف
سنگِ اسود ادھر،سبز گنبد اُدھر،اب میں ایسے میں جاؤں توجاؤں کدھر
گاہے رکنَ یمانی کو بوسہ دیا گاہے اسود کے کونے سے لپٹا ہوا
دونوں ہاتھوں سے پردے کو تھامے ہوئے گڑگڑایا کیا رکھ کے چوکھٹ پہ سر
پڑھ کے نفلیں جو بعدِ طوافِ حرم میں چلا جانبِ شہر خیرالامم
آنکھیں موتی پرونے لگیں دمبدم،دل کی دھڑکن ہوئی تیز سے تیز تر
باب جبریل سے جوں ہی داخل ہوا،مجھ کو روضے کی جالی نے تڑپا دیا
فرطِ جذبات سے دل اُمڈنے لگا،ایک رقت سی طاری ہوئی جان پر
سجدۂ شکر کیسے میں لاؤں بجا ،اس قدر اوج پر اورمقدر مرا
ان کا منبر جہاں،ان کا حجرہ جہاں اورجہاں ان کا در ہے وہیں میراسر
مجھ کو چوری چھپے جب بھی موقع ملا،جالیاں چھو کے ہاتھوں کو چوما کیا
دوستو مجھ کو جو چاہو دے لوسزا،میں خطاوار ہوں یہ خطا ہے اگر
ان کی بندہ نوازی پہ تن من فدا، مجھ گنہگار کا اور یہ مرتبہ
پاس بلوا لیا اور دکھلا دیا، اپنے دربارِ دُربار کا کرّوفر
کیا بیاں ہو اس اکرام و احسان کا ، سر نہ اُٹھے گا سجدے سے فرمانؔ کا
کھل گیا ایک اِک غنچہ ارمان کا، ایک اِک آرزو ہوگئی بارور
t
-
فاران کی چوٹی پر چمکا خورشید رسالت کیا کہنا
ایماں کی کرنوں سے پھیلی ہر سمت حرارت کیا کہنا
وہ عین جمالِ حسن ازل نکھرا ہے بہ شکل ختم رسل
روشن ہیں عرب کے دشت وجبل یہ نور کی کثرت کیا کہنا
وہ عالم ہو،جلوؤں میں علو ، غنچوں میں بو ،ہرشے میں نمو
شبنم سے کیا جاتاہے وضویہ بارشِ رحمت کیا کہنا
وہ منبع نور و صدق و صفا وہ مخزن لطف وجود و عطا
بٹتی ہے جہاں پر صبح و مسا ایمان کی دولت کیا کہنا
وہ نور ہدی،محبوب خدا، حق جن پہ فدا جو حق پہ فدا
وہ محفل ناز و ُحسن و ادا وہ گرمیٔ الفت کیاکہنا
اے کاش کہیں فرمانِ حزیں رکھ پائے درِ مولا پہ جبیں
پھر نعت کی کثرت کیا کہنا اشعار کی لذت کیا کہنا
t
فرید جاوید
(۱۸؍اپریل۱۹۲۷۔سہارن پور…۲۷؍دسمبر ۱۹۷۷۔کراچی)
وہ ذرّہ نظرآئے نہ کیوں غیرتِ خورشید
چھو جائے جسے سایۂ دامانِ محمد
جمعیت خاطر میں بھی وہ لطف نہیں ہے
جس لطف سے واقف ہے پریشانِ محمد
یارب رہے سرسبز و تروتازہ و شاداب
یارب پھلے پھولے چمنستانِ محمد
t
فرید،شاہ فرید الحق، پروفیسر
(۱۹۳۳ء غازی پور…۲۷؍دسمبر۲۰۱۱ء کراچی)
حُسنِ سرکار سے پھولوں نے ضیا پائی ہے
باغِ عالم میں شہا تیری ہی رعنائی ہے
شادمانی ہے محبت کی فضاچھائی ہے
رب کے محبوب کی محفل میں پذیرائی ہے
خلق نوری ہے،ہراک عضونرالا ان کا
سرسے پاتک عجب انداز کی یکتائی ہے
طاعتِ شاہ دوعالم پہ ہے موقوف نجات
ورنہ ہرگام پہ نقصان ہے رسوائی ہے
رُخِ سرکار ہے وہ آئینہ جس میں ہمہ وقت
نور کی کثرت و وحدت ہی نظر آئی ہے
کیوں نہ ہو چشمِ کرم شاہِ مدینہ کی فریدؔ!
تم نے ناموس پہ مرنے کی قسم کھائی ہے
t
فضلؔ فتح پوری
(۲؍جولائی۱۹۳۰ء فتح پور…یکم جون۲۰۰۳ء کراچی)
کملی والے تیرے در پردھونی آن رمائیں گے
توڑ کے سارے رشتے ناتے تیرے ہی ہوجائیں گے
گنبدِ خضری تیراتجلیٰ پیاسی آنکھیں تیراجلوہ
پی کے تیری دید کے ساغر دل کی پیاس بُجھائیں گے
ارضِ مدینہ تیرا نقشہ تیری گلیاں تیرا جلوہ
ہر ہر منظر خُلد سے بہتر دیکھ کے بس کھو جائیں گے
اپنا نبی نبیوں میں اعلیٰ سب سے انوکھا سب سے نرالا
دونوں جہاں میں جس کا اُجالا اُسی سے آس لگائیں گے
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن آتشِ گل سے دہکا ہوابن
صحرا وادی کنج اورگلبن تیری جوت جگائیں گے
فضلؔ حزیں مشتاق تمھارا ہردم ہرپل ایک ہی نعرہ
ترے کرم کا کرکے سہارا سب عاصی گن گائیں گے
t
فہمیدہ مقبول،نوروز بیگم
(۱۹۴۱ء سکندر آباد بلند شہر بھارت)
شہنشاہِ عالم مدینے کے والی
ترانام اعلیٰ تری شان عالی
چمن در چمن جومہکتی ہے خوشبو
گلوں نے وہ تیرے بدن سے چرالی
اُسے مل گئی روشنی دو جہاں کی
ترے نام کی جس نے شمع جلالی
ترا نام لے کر عقیدت سے ہم نے
مکمل کیا دیں یہ دنیا بنالی
جو مانگوں دعائیں جبیں کو بچھاکر
تو ممکن نہیں میرا دامن ہو خالی
بہاریں تھرکتی پھریں گلستاں میں
کرم سے ترے جھومے پھولوں کی ڈالی
یہ حسرت ہے دل میں کہ پہنچوں مدینہ
کروں اشک باری پکڑ کے میں جالی
کرم سے خدا کے ہوں امت میں تیری
ہے یہ ناز مجھ کو ہوں میں بخت والی
درودِ محمد کی یہ برکتیں ہیں
کہ فہمیدہـ تو نے بھی قسمت جگا لی
t
فہیم اعظمی
(۱۹۲۴ء اعظم گڑھ … ۱۴جولائی ۲۰۰۴ء کراچی)
بڑے ارمان تھے دل میں کہ ہو تجھ پر جبیں سائی
بالآخر میری قسمت مجھ کو تیرے درپہ لے آئی
عقیدت سے ادب سے ہم تری آغوش میں آئے
جنونِ شوق کے غلبے سے جب ہم ہوش میںآئے
توفوراً خاک کو سرمہ کیا جھک کرجبیں رکھ دی
متاع الفت واخلاص جو کچھ تھی یہیں رکھ دی
ترے ہر ذرۂ خاکی میںسورج کی چمک دیکھی
ہزاروں چاند کی ریگ بیاباں میں دمک دیکھی
ہمیں یاد آگیا جب اک بشر محبوب سبحانی
کہ خاکی جسم جس کا تھا مگر تھی روح نورانی
قدم سے اس کے تونے زینت ارض و سما پائی
زمینِ خلد بھی تیری ضیا پاشی سے شرمائی
چمک اٹھا تری آغوش میں جب نورایمانی
فرشتوں سے بھی آگے بڑھ گئی تقدیر انسانی
t
فہیم شناس کاظمی
(۱۱؍مئی ۱۹۵۶ء کراچی)
دھندلائے منظروں میں ستارہ ہے تیرا نام
تنہائیوں میں دل کا سہارا ہے تیرا نام
چاروں طرف عجیب سی اِک روشنی ہوئی
جب لوحِ دل پہ میں نے اُتارا ہے تیرا نام
ہر ایک حرف ِکھلتا ہوا اِک گلاب سا
ہر ایک نام سے مجھے پیارا ہے تیرا نام
مایوسیوں کے گھور اندھیروں میں روشنی
غم کے سمندروں میں کنارا ہے تیرا نام
ہر ایک لمحہ تیری طلب میں بسر ہوا
ہر ایک لمحہ میں نے پکارا ہے تیرا نام
تنظیم میری بکھری ہوئی ذات کی ہوئی
جب روح و دل سے میں گزارا ہے تیرا ہے نام
ناآشنا ہے آج تک اِس راز سے شناسؔ!
وہ رمز کیا ہے ، جس کا اشارہ ہے تیرا نام
t
فیاضؔ ہاشمی
(۱۹۲۰ء کلکتہ … ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۱ء کراچی)
ایک ہی میںدیکھ سب کو ایک ہی کا نام لے
سارے دامن سایہ دیں گے ایک دامن تھام لے
زندگی ان کی پرستش ان کی چاہت کاہے نام
بندگی سے صبح لے اورعاشقی سے شام لے
بخش دیتی ہے دلوں کوان کے دامن کی ہوا
وہ حسیں پرواز جو عرشِ معلی تھام لے
ایک درپر بیٹھ جا در در بھٹکنا چھوڑ دے
توڑ سب جام وسبو ان کی نظر سے جام لے
میری نسبت ہے اویسی گر سمجھنا ہے مجھے
فاصلوں کے ہوش اڑا جذبِ وفا سے کام لے
درس گاہِ زیست میں علم و عمل کی قدر ہے
امتحاں دے کامراں ہو اور پھر انعام لے
بام پر فیاضؔ وہ آئیں گے تجھ کو دیکھنے
اپنے سران کا پسندیدہ کوئی الزام لے
t
فیصل عظیم
(۶؍نومبر ۱۹۷۴ء کراچی)
آرزوئیں مدحت کی لوح کو بھگوتی ہیں
لفظ میری نعتوں کے آنسوؤں کے موتی ہیں
آنسوؤں کے موتی ہیں ، یا وضو کا پانی ہے
وہ بتائے ، طیبہ کی جس نے خاک چھانی ہے
خاک ایک صحر اکی پھول جس میں کھلتے ہیں
خاک وہ جہاں ہم کو دوجہان ملتے ہیں
جو پڑھاکتابوں میں ہم کو یاد کرنے دو
نور اُن کی سیرت کاروح میں اُترنے دو
مکڑیوں کے جالے تھے ، غار کے دہانے پر
منکرو! ذرا سوچو ، کون تھا نشانے پر
کس کے اِک اشارے پر چاند ہو گیا ٹکڑے
اور سنگ ریزے بھی ہاتھ میں پکار اٹھے
وقت لے چلے ہم کو ،گر اُسی زمانے میں
ہم بھی دست بستہ ہوں اُن کے آستانے میں
اب تو بس یہ خواہش ہے ایک دن اُدھر جائیں
اور ہم مدینے کی خاک میں اُتر جائیں
ہوں درود سے روشن سب دیے نگاہوں کے
اور ہم مسافر ہوں ،آخرت کی راہوں کے
t


مجھے ہوگیا تھا اک آزار سا
فیض احمد فیضؔ
(۱۴؍ فروری ۱۹۱۱ء سیالکوٹ …۲۰؍نومبر ۱۹۸۴ء لاہور)
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دگر از برائے تو
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویش ملک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لقائے تو
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشکِ تر ز دردِ غریباں ردائے تو
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کند
روزے بسوئے عدل و عنایت صدائے تو
t


میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا


فیض عالم بابرؔ
(۱۰؍اپریل ۱۹۷۴ء، کراچی)
حضور خود کوغلامی میں دینے آیا ہوں
حضور آپ سے اتنا ہی کہنے آیا ہوں
حضور دل نہیں لگتا ہے مرا دنیا میں
حضور آپ کی صحبت میں رہنے آیاہوں
حضوردیکھ لیں اک بارچشم رحمت سے
حضور دل کو نگاہوں سے دھونے آیاہوں
حضور خواب سے محروم ہیںمری آنکھیں
حضور آپ کے قدموں پہ سونے آیا ہوں
کماکے تھک گیا دنیا توآپ کے درپر
حضور اک نیا انسان بننے آیا ہوں
میں بن کے رہ گیا دنیا میں نام کا مسلم
حضور دولت ایماں لینے آیاہوں
حضور سر پہ محبت سے ہاتھ پھیریں نا
حضور روح میں خوشیاں سمونے آیا ہوں
حضور بابرِ دل گیر کو دعائیں دیں
حضور خاک سے اکسیر ہونے آیا ہوں
t
قمر ؔجمالی
(۲۵؍جنوری ۱۹۲۵ء امروہہ)
رحمتوں کا سلسلہ دیکھا تو اندازہ ہوا
میں درِ اقدس پہ جب پہنچا تو اندازہ ہوا
خود بخود کس طرح ہو جاتی ہیں آساں مشکلیں
جب لبوں پر ان کا نام آیا تو اندازہ ہوا
ان کے در پر کیسے ہوتی ہیں دعائیں مستجاب
ابرِ رحمت جھوم کر آیا تو اندازہ ہوا
کیا بتائوں راہِ طیبہ میں ہیں کیا کیا راحتیں
خود تمازت بن گئی سایہ تو اندازہ ہوا
آمدِ جانِ چمن کی برکتیں ہیں کس قدر
رشکِ جنت بن گیا صحرا تو اندازہ ہوا
مدحتِ محبوب خالق کا صلہ اور یہ صلہ
اوج پر نامِ قمرؔ چمکا تو اندازہ ہوا
t
قیصر بارہوی
(۱۶؍ جنوری ۱۹۲۸ء ۔کرنالی بھارت…۲۶؍ دسمبر ۱۹۹۶ء کراچی)
دامنِ نعت کے قابل کوئی گوہر لائے
کون ایساہے جو مٹھی میں سمندر لائے
ہم پہ یہ راز ُکھلا مصحف سیرت پڑھ کے
آپ ہرلفظ میں انساں کا مقدر لائے
آپ نے خُلق سے رحمت کے دریچے کھولے
لوگ دامن میں چھپائے ہوئے خنجر لائے
اب کسی حشر کے سورج کاکوئی خوف نہیں
اپنی امت کے لیے آپ وہ چادر لائے
آپ نے ناؤ کنارے پہ لگادی ورنہ
ہم تو سو بار اسے طوفاں کی زد پر لائے
جن کے سینوں میںپھراآپ کی سیرت کا جمال
نورکردار وہی آئنہ پیکر لائے
پوری سچائی سے جینے کی تڑپ ہو جس میں
آپ کانام وہی شخص زباں پرلائے
میں نے بھرپور متانت سے لیاآپ کا نام
لوگ جب سامنے اعمال کا دفترلائے
عظمت نعت بچانے کے لیے اے قیصرؔ!
مثل شبیر ہتھیلی پہ کوئی سر لائے
t
کاشف حسین غائر
(۱۲؍مارچ ۱۹۷۹ء کراچی)
آنکھ اُٹھتی ہو کوئی جیسے نگینے کی طرف
آسماں دیکھتا رہتا ہے مدینے کی طرف
سب کو خوش آتی ہے دربارِ محمد کی فضا
مرنے والے بھی چلے آتے ہیں جینے کی طرف
کھینچتی ہے مجھے سرکارِ دو عالم کی کشش
اْٹھتے جاتے ہیں قدم میرے مدینے کی طرف
آپ رستہ ہیں وہی، آپ وسیلہ ہیں وہی
جو ہمیں لے کے چلے خْلد کے زینے کی طرف
دیکھ سیلابِ بلا اْن کے غلاموں کا مقام
خود کنارہ چلا آتا ہے سفینے کی طرف
ایک مدّت سے مرا دھیان لگا ہے غائرؔ
اْن کی رحمت کی طرف، اْن کے خزینے کی طرف
t
کامران  بشرؔ
(۱۹۷۶ء، کراچی)
یہ نہیں رحمت نہ پائیں مشرقین ومغربین
شہرِ آقا میں توآئیں مشرقین ومغربین
دیکھ تولیں اک نظر گلزارِ طیبہ کی بہار
اپنی رنگت پھر دکھائیں مشرقین ومغربین
اب تو آنکھیں دیکھ آئیں جلوہ گاہِ شاہِ دیں
اب نگاہیں کیا ملائیں مشرقین ومغربین
جان ودل سے گر وہ اپنائیں غمِ سرکار کو
زندگی بھر مسکرائیں مشرقین ومغربین
آب وتاب نور و نکہت رنگ و رعنائی بہار
شہر آقا دیکھیں جائیں مشرقین ومغربین
جن کی خاطر سے بنائے ہیں خدا نے صبح وشام
ان سے باہر تونہ جائیں مشرقین ومغربین
کیوں بھٹکتے ہو اندھیرے میںبشرؔ ان سے ملو
جن کے در سے نور پائیں مشرقین ومغربین
t
کاملؔ القادری
(۵؍جولائی ۱۹۳۲ء گیابہار…۲؍جولائی ۱۹۸۲ء کراچی)
مرے حبیب، حبیب خدا، سراج منیر
تو ہی بشارت عیسی، تو ہی دعائے خلیل
تو ہی ہے مادر اطہر کے خواب کی تعبیر
ترے ظہور سے عالم کا ذرہ ذرہ بنا
حریفِ کوکب و اختر، مثال ماہ تمام
مرے حبیب، حبیبِ خدا درود و سلام
تو ہی ہے نور و ضیا کا قدیم تر منبع
تمام حسن و لطافت کی دلنش تصویر


یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی
ترے وجود سے بدلا نظام جوروستم
 
غلام لایق صد عز و احترام ہوئے
کہ اک دن تھا نویدِ شفا مل گئی
ترے کرم سے نگوں سر بلند بام ہوئے
ترے ظہور سے لہرایا امن کا پرچم
مرے حبیب، حبیب خدا، جلیل و کریم
ازل سے کس کی طالب میں ہوں مثلِ موج نسیم
t


کامل ؔدہلوی
(اپریل ۱۹۱۴ ء دہلی… ۲۹؍جنوری ۱۹۹۴ء کراچی)
یہی ہے یہی اقتدائے محمد
کہ ہم دل سے ہوں ہم نوائے محمد
بشر کر سکے کیاثنائے محمد
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد
محمد سا پیدا ہوا ہے نہ ہوگا
یہ خود کہہ رہا ہے خدائے محمد
سرافرازیاں اُس کی دیکھو تو کیا ہیں
ہوا جو کوئی خاکِ پائے محمد
کسی شاہ میں ایسی شوکت نہ دیکھی
جو دیکھی ہے شانِ گدائے محمد
خدا کی ملاقات کاہے وسیلہ
اگر ہو کوئی آشنائے محمد
محمد کی تعلیم ، تعلیمِ قرآن
رضائے خدا ہے رضائے محمد
یہی میرا قبلہ ، یہی میرا کعبہ
میں ہوں جان و دل سے فدائے محمد
وہ بزمِ فلک ہو کہ بزمِ زمیں ہو
ہر اِک جا ہے یکساں ضیائے محمد
یہ نیرنگیاں جو کہ ہم دیکھتے ہیں
سراسر ہے ُحسنِ ادائے محمد
اُسے دین و دنیا میں کیا خوف کاملؔ!
جو آیا ہو زیرِ لوائے محمد
-
واہ کیا شوکت و حشمت ہے مدینے والے
دولتِ رُشد و ہدایت کے خزینے والے
اللہ اللہ یہ اعجازِ اخوّت تیرا
بن گئے بھائی جو آپس میں تھے کینے والے
اِک نظر تیرے تلطف کی اِدھر ہوجائے
زخم سینے میں کئی ہیں میرے سینے والے
بحرِ گرداب میں ہے کشتیِ امت تیری
آکے ساحل پہ لگا اس کوسفینے والے
درسِ عبرت ہے زمانے میں ہماری حالت
کوئی آثار ہمارے نہیں جینے والے
اب تو حسرت یہ ہے کاملؔ ! کہ بلالیں مجھ کو
قربتِ روضۂ اقدس میں مدینے والے
t


مجھے زندگی کا سلام آگیا
کاوش رضوی
(۱۹۲۵ء  … ۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کراچی)
نعتیہ نظم’’مردِ آفاق بیں …انقلاب آفریں‘‘


زباں پہ محمد کا نام آگیا
ضربتِ شب شکن
موجۂ ضو فگن
جیسے صبحِ ارم
روشنی کی کرن
مردِ آفاق بیں
انقلاب آفریں
محنتوں کا امیں
ماہتابِ زمیں
رحمت ِ  عالمیں
لامکاں ، لازماں
صبحِ نو کی اذاں
حریّت کی زباں
امن کا ترجماں
انقلاب آفریں
مردِ آفاق بیں
رحمتِ  عالمیں
سر تاپا محترم
اِک خلوصِ اتم
بابِ تاریخِ نو
نے عرب ، نے عجم
مردِ آفاق بیں
انقلاب آفریں
رحمتِ  عالمیں
ناخدا ، با خدا
سیلِ موجِ بقا
اسوۂ ارتقا
دستِ بادِ صبا
حرفِ عین الیقیں
رحمتِ عالمیں


اجتہادِ نظر
اتحادِ ململ
نقدِ ژوفِ ہنر
ایک تاریخ وَر
ناخدا بن کے آیا
خدا سے ملا
رنگ زاروں میں جو
پھول بن کے کھلا
ایک انسان ہے
علم و عرفان ہے
جو مساواتِ آدم
کا قرآن ہے
آمروں کے لیے
موت کا وار ہے
وہ جو انسانیت
کا پرستار ہے
جو صداقت کا پرچم
اخوت کا مینار ہے
مردِ آفاق بیں
انقلاب آفریں
محنتوں کا امیں
رحمتِ عالمیں
t
کرارؔ حسین، پروفیسر
(۸ ستمبر ۱۹۱۱ء راجستھان … ۷ ؍ نومبر ۱۹۹۹ء کراچی)
رازداں کہتا ہے خود کو، وہ جوخود ہی راز ہے
یہ بھی اس کی رازداری کا بلیغ اندازہے
وقت ساکن،ذرہ ذرہ گوش برآواز ہے
بزم ہے معراج کی اورقُربِ حق کا سازہے
توہی معنی، توہی مقصد،  توہی رہبر،توہی راہ
تجھ بن اس ارض وسما میں اورکیااعجاز ہے
نام تیرا علم و قدرت کے خزانے کا امیں
اورزباں میری، کہ ظلم وجہل کی غماّز ہے
ایک منزل پردرِ توبہ بھی ہوجاتاہے بند
وہ درِ رحمت ہے تیرا، جو ہمیشہ بازہے
یا محمد! پردٔہ غَیبت ہو، یا شانِ ظہور
تیری ہستی اہلِ ایماں کے لیے ایک رازہے
اور کیا حاجت رہی اس کو، سوائے شُکرِ رب
تیری چوکھٹ جس گدا کی تکیہ گاہِ ناز ہے
t
کوثرؔ القادری
(۳؍جون ۱۹۲۳ء میرٹھ… ۲۸؍اگست۱۹۸۴ء کراچی)
حقیقت کا مظہر ہے نامِ محمد
عجب روح پرور ہے نامِ محمد
عطا کا خزانہ ہیں سرکار والا
سخا کا سمندر ہے نامِ محمد
وہ جس کا ہر اک گام منزل نشاں ہے
وہ ہادی وہ رہبر ہے نامِ محمد
جو بعدِ خدا مظہر ہر صفت ہے
وہ ممدوحِ داور ہے نامِ محمد
درخشاں ہے جس سے فضائیِ دوعالم
وہی مہرِ خاور ہے نامِ محمد
نشاں بھی ہے خود اور جو بے نشاں بھی
اُسی کا تو مظہر ہے نام محمد
جو بیماریٔ جسم و جاں کی شفا ہے
وہ طاہر وہ اطہر ہے نامِ محمد
کہیں ہے لقب اُن کا یسٓیں و طٓہ
کہیں میرا کوثر ہے نامِ محمد
زمیں کیا فلک پر بطورِ وظیفہ
فرشتوں کے لب پر ہے نامِ محمد
جو آنکھوں میں ہے اُن کے روضے کا منظر
تو کوثر ؔلبوں پر ہے نامِ محمد
-
جوقسمت سے پہنچوں گا باب حرم تک پکڑ کرکہوں گا میں روضے کی جالی
کہ اے جگ کے داتا دوعالم کے والی مجھے بھیک دومیری جھولی ہے خالی
نگاہوں میں ہے شام طیبہ کا منظر تصور میں ہے ان کے روضے کی جالی
تصور کی سرمستیاں اللہ اللہ مدینے سے جلوؤں کی جنت منگالی
جواس ہاتھ میں دامن پاک رحمت تواس ہاتھ میں ان کے روضے کی جالی
بس اب میری قسمت پہ صدقے دوعالم نہ یہ ہاتھ خالی نہ یہ ہاتھ خالی
الٰہی پھر آجائے لال آمنہ کا پھر ایک بارگونجے اذان بلالی
پھر ایک بارہو دورفاروق اعظم پھر اک بارلہرائے پرچم ہلالی
تری اس گدائی پہ قربان شاہی امیروں کے سلطاں غریبوں کے والی
کہ مختارکونین اورگھر میں فاقہ شہنشاہ عالم مگر پیٹ خالی
جہاں کی زمیں رشک خلدبریں ہے جہاں خاصۂ حق وہ جلوت نشیں ہے
وہاں اے صبا میری جانب سے لے جا سلاموں کے تحفے درودوں کی ڈالی
یہ کون آج کوثرؔ پیام بہاراں لیے ساتھ آتا ہے سوئے گلستاں
چٹکتی ہیں صلِ علیٰ کہہ کہ کلیاں لچکتی ہے مستی میں ہراک ڈالی
t


محمد قرار دل بیکساں
کوثر نقوی
(۱۰ ؍اگست ۱۹۵۳ء کراچی)
خود اُن کے لطف سے ہے اتنی تاب آنکھوں میں
ہے نقش پائے رسالتمآب آنکھوں میں
نظر حضور کے، بحر کرم پہ ہے جب سے
ہوئے ہیں سارے سمندر حباب آنکھوں میں
جچیں بھی کیسے، سلاطینِ وقت کے دربار
ہے تاجدارِ حرم کی جناب آنکھوں میں
سوال یہ ہے کہ جنت حسین ہے کتنی
بشکلِ طیبہ لیے ہوں جواب آنکھوں میں
ہمارے سامنے ہے جب سے نقشِ پائے رسول
سُبک ہے تب سے،رخِ آفتاب آنکھوں میں
نظر ہٹائے زلیخا،جمالِ یوسف سے
گر آئے حُسنِ رسالتمآب آنکھوں میں
میں شاید ارضِ مدینہ میں آگیا اے دل
ہیں خاربھی یہاں مثلِ گلاب آنکھوں میں
تمام عمر،ہمیں جتنی بارنیند آئی
بسے ہیں اُتنے،مدینے کے خواب آنکھوں میں
جھکیں نہ کیسے،یہ باب نبی پہ اے کوثرؔ
ہے احترامِ نبی کا نصاب آنکھوں میں
-
ہے بلندی کا نشاںِ نعلینِ اقدس آپ کی
چومتاہے آسماں ،نعلینِ اقدس آپ کی
اُس زمین کو دیکھتے ہیں رشک سے اہل فلک
رکھی جاتی ہے جہاں،نعلینِ اقدس آپ کی
کیوں نہ ہم چشمِ تصور سے کریں ا س کا طواف
لوح دل پرہے عیاں،نعلینِ اقدس آپ کی
چودھویں کا چاند بھی ویسا سماں دیتا نہیں
جیسا دیتی ہے سماں،نعلینِ اقدس آپ کی
پھراُسے رہتی نہیں ہے اورزینت کی تلاش
کرلے جو زیبِ مکاں،نعلینِ اقدس آپ کی
رفعتِ نعلین موسیٰ، اُس کے آگے کچھ نہیں
جس بلندی پرہے،ہاںنعلینِ اقدس آپ کی
ہم زمیں والے توپھر،خاکی ہیں اے آقائے کُل
ہے چراغِ قُدسیاں،نعلینِ اقدس آپ کی
آپ کے پیروں میںیہ،عرش الٰہی تک گئی
کون پہنچا ہے جہاں، نعلینِ اقدس آپ کی
ہر لغت کے لفظ،ناکافی ہیں اس کے واسطے
ہونہیں سکتی بیاں،نعلینِ اقدس آپ کی
ہے دعا کوثر کی،جب خورشیدِ محشر سرپہ ہو
ہومسلسل سائباں،نعلینِ اقدس آپ کی
t
کوثر ؔالٰہ آبادی
(یکم فروری ۱۹۳۱ء الٰہ آباد)
عرش روشن جس سے وہ شمس الضحیٰ آنے کو ہے
چاند جس کا عکس وہ بدرالدجیٰ آنے کو ہے
ہادی و خاتم ہے جو وہ حق نما آنے کو ہے
فخرِ کعبہ ، معدنِ صدق و صفا آنے کو ہے
سجدۂ گاہِ عاصیاں بننے کو ہے اب یہ زمیں
آج عالم میں محمد مصطفی آنے کو ہے
ذرّہ ذرّہ وا کیے ہیں شوق میں آغوش کو
آمنہ کے گھر میں فخرِ انبیا آنے کو ہے
جو لٹائے گا خزانے امتنانِ قلب کے
دہر میں وہ پیکرِ جود و سخا آنے کو ہے
مست ہوں اپنی فقیری میں اس اطمینان پر
جھولیاں بھرنے کو اِک کانِ عطا آنے کو ہے
سر کے بل چلنا پڑے گا اب تجھے کوثرؔ! یہاں
دیکھ بابِ رحمتِ رب العلیٰ آنے کو ہے
-
اے رسولِ عرب یہ لگن ہے، کاش ایسا ہو کوئی قرینہ
دوستو سے سنا تو بہت ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھوں مدینہ
موج پر موج چڑھنے لگی ہے، غم کی تاریکی بڑھنے لگی ہے
ناخدا کا میں دامن پکڑ لوں، قبل اِس کے کہ ڈوبے سفینہ
میرے ہر ہر قدم پر ہے قدغن، ہیں میرے ہم سفر مجھ سے بدظن
میرے آقا کرو کچھ وسیلہ، میں پہنچ جاؤںاُڑ کر مدینہ
کاش ایسی بھی اِک صبح آئے ،میں جو جاگوں خدا یہ دکھائے
ہو مرے سامنے اُن کا روضہ ، اور لمحے مہینہ مہینہ
جس کو حاصل ہو اُن کی گدائی ، وہ نہ لے گر ملے بھی خدائی
وہ کرے کیا ملے جو دفینہ، اُس کو خاکِ مدینہ دفینہ
کوثرؔ! اب عمر یوں ہی بسر ہو، اُن کی چوکھٹ ہو اور میرا سر ہو
اُن کا روضہ ہو اور میری آنکھیں ،اُن کی اُلفت ہو اور میرا سینہ
t
کیف رضوانی
(۱۹۴۰ء حیدرآباد دکن … ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۴ء کراچی)
تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں
جب قدموں سے اُٹھے تو کچھ اور ہی ہوجائے
جو خاک بسر جائے سرکار کے قدموں میں
اک بار رکھوں ان کے قدموں میں یہ سر اپنا
پھر عمر گزر جائے سرکار کے قدموں میں
سو باتیں ہوں کہنے کی، چاہوں کہ سبھی کہہ دوں
ہر بات بسر جائے سرکار کے قدموں میں
جلتے ہوئے سینے میں ٹھنڈک سی اُتر جائے
دل خوش بو سے بھر جائے سرکار کے قدموں میں
یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوش بو میں
اور جاکے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں
-
اب کہاں وہ عکس ربانی کے جیسا آئینہ
اب قیامت تک نہیں آئے گا ویسا آئینہ
دشمنوں نے بھی کہا بے ساختہ صادق، آمین
کون لا سکتا ہے اس کردار جیسا آئینہ
گنبد خضرا سے پہلے گنبد خضرا کے بعد
کیسی صورت کیسی آنکھیں اور کیسا آئینہ
لاکھ پہلو اور ہر پہلو سراپا نور تھا
کوئی دکھلائے مرے سرکار جیسا آئینہ
اس میں جو جھانکے اسے نور نبی آئے نظر
کیف بن جائے مرا دل کاش ایسا آئینہ
t
گلنار آفرین
(۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء ٹونک)
یہ جلوے کہاں ہوتے اگر آپ نہ ہوتے
سب وہم و گماں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
جھکتی نہ درِ کعبہ پہ پیشانیِ عالم
یہ سجدے کہاں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
افلاک سے اترے ہوئے فطرت کے صحیفے
ہر دل پہ گراں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
یہ کوثر و تسنیم کے شاداب نظارے
ہم دوشِ خزاں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
تقدیس بشر عظمتِ انساں کے فسانے
کس طرح بیاں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
ہم آپ کے صدقے کہ پئے زمزمۂ عشق
صحرا کی اذاں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
اے ختمِ رسل!وحدت و کثرت کے قرینے
محتاجِ بیاں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
کھلتے نہ کبھی دل میں کبھی محبت کے شگوفے
ہم گریہ کناں ہوتے اگرآپ نہ ہوتے
t
لیاقت علی عاصم
(۱۴؍اگست ۱۹۵۱ء منوڑہ کراچی)
نام در نام مٹی جاتی ہے اُمّت مددے
اے قریشی لقب و ہاشمی نسبت مددے
دُھوپ ہے اور بہت بے سروسامانی ہے
آیۂ حق مددے، سایۂ رحمت مددے
آسمانوں سے مسلسل یہ بلاؤں کا نزول
کوئی نیکی مددے، کوئی عبادت مددے
چشم مژگاں بھی دھواں ، سینہ و دل بھی تاریک
مطلعِ نورِ خدا، مُہرِ نبوت مددے
اپنے ہی رنگ سے بے عکس ہے چہروں کا ہجوم
مرجعِ خوش نظراں، آئینہ صورت مددے
اب کوئی غیر نہیں اپنے مقابل ہم ہیں
اے صف آرائے اُحد، حسنِ قیادت مددے
آپ کا درسِ مواخات مٹا جاتا ہے
حامیِ رسمِ سفر، صاحبِ ہجرت مددے
-
توڑ کر جس نے دوبارہ مہِ کامل باندھا
میں نے اس ہاتھ سے یہ ٹوٹا ہوا دل باندھا
بس ارادہ ہی کیا تھا کہ چلوں سوے رسول
ناقۂ شوق نے خود پیٹھ پہ محمل باندھا
استعارہ کوئی محبوب و محب کا نہ ملا
میں نے آئینے کے آئینہ مقابل باندھا
مرا رخ بھی اسی جانب ہے کہ طوفانوں میں
اہلِ مکہ نے مدینے ہی کو ساحل باندھا
آپ کی نرم مزاجی کا جو مضمون سوجھا
میں نے کافر کو بھی کافر نہیں غافل باندھا
.
گیسوئے مشکیں کے خوابوں پر خُتن صدقے کروں
سرخیٔ لب کے تصور میں یمن صدقے کروں
دھیان میں آئے جو دندانِ مبارک کی چمک
آفتابِ عمر کی ایک اک کرن صدقے کروں
کالی کملی پر فدا ہر عیشِ سنجاب و سمور
بوریے پر ہر سکونِ جان و تن صدقے کروں
سایۂ سرکارپر دنیا کا ہر سایا نثار
قامت اطہر پہ ہر سرو سمن صدقے کروں
خلوت صلِّ علیٰ کے دم سے ہے یہ انجمن
خلوت صلِّ علیٰ پر انجمن صدقے کروں
احمد و یٰسین و طٰہٰ کیا پکاروں کیا کہوں
کس پہ واروں ناطقہ کس پر دہن صدقے کروں
اپنے آقا کا تبسم یاد ہے عاصم مجھے
کیوں نہ ہر خارِ زمانہ پر چمن صدقے کروں
t
ماجدؔ قادری ، عبدالمصطفیٰ الازہری،علامہ
(۱۹۱۶ء قصبہ گھوسی ،ضلع اعظم گڑھ…۱۹؍اکتوبر۱۹۸۹ء کراچی)
یدِموسیٰ نے تری ضو سے ضیا پائی ہے
تیرے ہی دم سے مسیحا کی مسیحائی ہے
حشر میں زلف ترے شانوں پہ لہرائی ہے
میکشو دوڑو کہ کوثر پہ گھٹا چھائی ہے
آپ کا نام چراغِ شبِ تنہائی ہے
آپ کا ذکر مری آنکھوںکی بینائی ہے
اَحد و احمد و قوسین ہیں تنہائی ہے
زندگی ایک ہی مرکز پہ سمٹ آئی ہے
زُلف ہے یاکہ بلالِ حبشی حاضر ہیں
لب ودنداں پہ فدا شانِ مسیحائی ہے
یادِ سرکارِ دوعالم ہے شبِ ہجراں ہے
کس قدر شاق خیالِ شبِ تنہائی ہے
ہر نظر حیرت نظاّرہ بنی ہے ماجدؔ
ایک آئینہ ہے اورخلق تماشائی ہے
-
مہک رہی ہے ہر اک رہ گزر مدینے کی
بسی ہے راہ میں خوشبو ترے پسینے کی
چمک رہاہے تری تابشوں سے دل کا چراغ
اندھیری رات میں لوبڑھ گئی نگینے کی
تجلیات الٰہی سے جگمگاتا ہے
بڑی ہے طورسے عزت ہمارے سینے کی
رسول پاک کا در ملجأ دو عالم ہے
ہے جنتوں سے بڑی وسعتیں مدینے کی
لگے ہیں چور کہ چپکے سے لے اُڑیں ایماں
سپردآپ کے قسمت ہے اس سفینے کی
گناہگار ہے ماجدؔ مگر تمھارا ہے
پناہ، آپ ہیں سرکار اس کمینے کی
t


کہ نام محمد ہے آرامِ جاں
مبین مرزا
 
(۵؍ جنوری ۱۹۶۵ء ملتان)
 
آپ ہیں رشکِ چمن سارے چمن بھی آپ کے
ریاضِ خدا کا ُگلِ سرسبد
دل فدا ہے آپ پر اور جان و تن بھی آپ کے
 
خلوتوں میں آپ کی یادوں سے ہی روشن ہیں دل
محمد ازَل ہے محمد ابد
تذکرے ہیں انجمن در انجمن بھی آپ کے
 
رنگ و خوش بو حسن و قامت سب کو نسبت آپ سے
 
لالہ و گل آپ کے سر و سمن بھی آپ کے
محمد کہ حامد بھی محمود بھی
سب زمینیں اور زمانے ہیں قلم رَو آپ کی
 
سب فلسطین و عرب ، شام و یمن بھی آپ کے
محمد کہ شاہد بھی مشہود بھی
وقت ٹھیرایا گیا تھا جس مسافت کے لیے
اس کی راہوں کے سمندر ، دشت ، بن بھی آپ کے
-
یاد جب اُن کو کیا دل میں ستارے جاگے
اور پھر سوئے ہوئے بخت ہمارے جاگے
وہ جو بولے ہیں تو آواز کو اعزاز ملا
اور نظر کو جو اٹھایا تو نظارے جاگے
سب کے سب رحمتِ ابرار نے گلزار کیے
اُن کی راہوں میں جو فتنوں کے شرارے جاگے
موج در موج ہلاکت کا سماں تھا ہر سُو
بس پھر اک لہر اٹھی اور کنارے جاگے
مل گئی آ کے یہاں سرحدِ آلام و طرب
یہ وہی در ہے جہاں درد کے مارے جاگے
کیسے خوابوں سے اک آواز جگاتی ہے مجھے
اٹھ بھی جا اب کہ مقدر کے اشارے جاگے
t
مجید فکریؔ
(۷؍ فروری ۱۹۴۹ء بھرت پور)
ہر سمت روشنی ہے جو بالائے روشنی
آنکھوں میں کیوں نہ آج سمٹ آئے روشنی
پروانۂ جمالِ شہِ دوجہاں نہیں
جو خود ہرایک سمت نہ پھیلائے روشنی
آنکھوں سے زندگی کے اجالے سمیٹ لوں
یوں راہ مصطفی میں نظر آئے روشنی
لازم ہے فرط شوق سے صل علیٰ کہے
تاریکیوں میں جس کو نظرآئے روشنی
فکریؔ وہی ہے نقطہ آغاز نور کا
جب روشنی کے سامنے آجائے روشنی
t
مجید کھام گانوی
(یکم جنوری ۱۹۱۲ء کھام گاؤں…۱۳؍مئی ۱۹۹۳ء کراچی)
کچھ اس اداسے نفس نفس کو نبی کاعرفان ہو رہا ہے
حیات پر لمحہ لمحہ جیسے، نزولِ قرآن ہورہاہے
وہ دل کی آنکھوں کے روبرو ہیں طلوع فیضان ہورہاہے
شعور پربارشِ کرم ہے، نظر پہ احسان ہورہاہے
وہی ہے سرمایۂ محبت وہی ہیں پیمانۂ شریعت
دلوں سے تائید ہورہی ہے نظر سے پیمان ہورہاہے
درود ہونٹوں پہ ہے ہمارے، حضور خود سامنے کھڑے ہیں
نفس نفس میں وہ روشنی ہے کہ تازہ ایمان ہورہاہے
ملائکہ ہی کا ذکر کیاہے،خدا ہے مصروف جشن خود بھی
یہ کون تشریف لارہاہے یہ کون مہمان ہورہاہے
ادھر سے یہ حال زندگی کا،جھکی ہیں شرمِ گنہ سے آنکھیں
اُدھر ہیں بے تاب میرے آقا کرم کا سامان ہورہاہے
شکست دام خرد ہی کہیے نمود یک معجزہ سمجھئے
کہ بت شکن پرمجید آزربھی آج قربان ہورہاہے
t
محب لکھنوی
(یکم جنوری ۱۹۳۰ء لکھنؤ…۲۰۰۲ء کراچی)
یہی تھی دل کی لگن اور یہی نظر کی لگن
مدینے لائی مجھے میری عمر بھر کی لگن
قلم چلے جو کبھی سیرتِ رسول لکھے
مری زبان پہ رہے ذکر معتبر کی لگن
ہواکے ساتھ ہی دشوار مرحلے گزریں
سفر میں ساتھ رہے ان کی رہگزر کی لگن
زمینِ مکہ و طیبہ کے درمیان رہوں
کبھی ادھر کی لگن ہو کبھی اُدھر کی لگن
خیال کرتا رہے روضہ نبی کا طواف
مجھے نہ روک سکے میرے بال  و پر کی لگن
دوبارہ روضہ اقدس کی دید ہو جائے
اثر پذیر ہو گر آہ بے اثر کی لگن
مجھے ہے فخر محبِ رسول ہوں میں بھی
لگی ہے فخرِ دو عالم سے اک بشر کی لگن
t
محسن اعظم ملیح آبادی
(۳؍ستمبر ۱۹۳۹ء ملیح آباد)
آپ نے بخشا بشر کو حسنِ سیرت کا ہنر
آگیا اِس کو شعورِ آدمیت کا ہنر
آپ نے بخشی فراست تفقہو فی الدین کی
آپ سے روشن ہے تفہیمِ شریعت کا ہنر
آپ ہی دنیا میں ہیں سب سے بڑے صادق امیں
آپ نے بخشا ہمیں صدق و امانت کا ہنر
رازِ الااللہ ، ہر اِک آدمی پر وا کیے
آپ نے بخشا شعورِ ذاتِ وحدت کا ہنر
آپ نے ہم کو سکھایا احترامِ آدمی
آپ سے حاصل ہواہے سب کی عزت کا ہنر
آپ نے مطلق اکائی کا دیا درسِ عظیم
آپ نے بخشا ہمیں عرفانِ وحدت کاہنر
آپ کے اقوال و ارشادات کی تنویر ہیں
آگیا انساں کوتحصیلِ حقیقت کاہنر
نفرتوں کی تیرگی سے جن کے دل لبریز تھے
اُن دلوں میں بھر دیا نورِ محبت کا ہنر
آپ ہی سارے رسولوں کے ہیں سردار و امام
کس نے پایا آپ سے بڑھ کر رسالت کاہنر
محسنؔ اعظم ہے معزّز آپ کے اکرام سے
آپ نے بخشا ہے اِس کو حُسنِ مدحت کاہنر
-
ہرنفس میرا فنا آثار ہے میرے لیے
بے شعورِ مصطفی تلوار ہے میرے لیے
ہر نفس صبحِ ابد آثار ہے میرے لیے
آپ ہی کی زندگی معیار ہے میرے لیے
میری کشتی غرق ہو سکتی نہیں منجدھار میں
نسبتِ شاہِ زمن پتوار ہے میرے لیے
آپ کے نوریں خصائل ، آپ کاآپ کا حسن و جمال
سیرت وصورت کااِک معیار ہے میرے لیے
آپ کا ہر نقشِ پا میرا دلیلِ راہ ہے
زیست کاہرراستہ ہموار ہے میرے لیے
اِبتلا کی دھوپ سے تپتے ہوئے ماحول میں
اُن کی ہستی سایۂ اشجار ہے میرے لیے
آپ کی نسبت نے یہ اعزاز بخشا ہے مجھے
آپ کی نسبت خدا کا پیار ہے میرے لیے
محسنؔ اعظم! ذکر سے اُن کے ہے دل جلوہ فگن
ہر نفس اِک بارشِ انوار ہے میرے لیے
t
محسنؔ بھوپالی
(۲۹؍ ستمبر ۱۹۳۲ء بھوپال … ۱۶-۱۷ جنوری کی درمیانی شب، کراچی)
ہے آنکھ وہ جو محو دیدار مصطفیٰ ہے
اس دل کی بات کیا جوسرشارِ مصطفیٰ ہے
یہ کہکشاں وانجم یہ مہر وماہ وپرویں
ہر آئینے میں عکسِ انوارمصطفیٰ ہے
جو لفظ منہ سے نکلاآئین بن گیا
معراجِ آدمیت کردار مصطفیٰ ہے
مانگی ہوئی تجلی نظروں میں کب جچے گی
پیش نظر ہمارے کردار مصطفیٰ ہے
ہر چند عین ایماں ہے ذاتِ خالق کل
لیکن بنائیِ ایماں اقرار مصطفیٰ ہے
الفاظِ نارسا سے نادمِ نہیں ہوں محسنؔ
جذبے کی قدر ہے یہ سرکار مصطفیٰ ہے
-
لازم ہے اس سے پہلے کہ نعتِ نبی لکھوں
جو کچھ لکھاہے کچھ نہیں لکھا یہی لکھوں
پاسِ ادب میں جنبشِ لب کی کہاں مجال
اورشوقِ مدح اس پہ مصرِ ہے ابھی لکھوں
وہ کائنات علم ہیں،وہ علمِ کائنات
منجلمۂ صفات لکھوں تویہی لکھوں
جو اُن سے آشنا ہوا،حق آشنا ہوا
آگاہی نبی کو خدا آگہی لکھوں
اس جزوِ نورِکل سے ہے تابندگی تمام
میں کیوں نہ اس کے سائے کوبھی روشنی لکھوں
.
ہے امت پہ لازمِ ثنائیِ محمد
خدا خود ہے مدحتِ سرائیِ محمد
جو خالق نے چاہا کہا وہ نبی نے
رضائے خدا ہے رضائے محمد
ملی شب پرستوں کو بھی راہِ منزل
ہے وہ خطِ روشن صدائیِ محمد
وہ تخلیق بھی وجہہِ تخلیق بھی ہیں
نہیں کچھ جہاں میں ورائیِ محمد
زر و تاج کیا اپنی خاطر میں لائے
ہے شاہوں سے بڑھ کر گدائیِ محمد
مجھے حشر کا غم ہو کس طرح محسنؔ
ہیں میرے دل و جاں فدائیِ محمد
t
محشر بریلوی،حکیم
(۱۹۲۱ء بریلی … ۲۲؍اگست ۱۹۸۴ء کراچی)
فکرِ محشر ہے نہ اس کو غمِ رسوائی ہے
ارض ِ طیبہ میں جسے چین کی نیند آئی ہے
حال احباب جو پوچھیں تویہ کہنا ہمدم
مرحباخاک ِ مدینہ اسے راس آئی ہے
چارہ گر چھوڑدیں بیمارکو طیبہ کے قریب
بس اسی خاک میں اعجازِ مسیحائی ہے
اُن کو رب نے کبھی طحٰا کبھی یسٰین کہا
اورکبھی اُن کے مدینے کی قسم کھائی ہے
ناخدا چھوڑ دے کشتی پہ محمد لکھ کر
آج بڑھتے ہوئے طوفاں کی خبر آئی ہے
فردِ عصیاں سرِ محشر نہ دکھاؤ مجھ کو
آنکھ احساسِ ندامت ہی سے بھر آئی ہے
چھٹ گئی گرمئی خورشیدِ قیامت محشرؔ
کرمِ شاہِ مدینہ کی جو یاد آئی ہے
t
محمد شکیل اوجؔ ،ڈاکٹر
(۱۹۶۰ء، کراچی … ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۴ء کراچی)
آیتوں کی جب تلاوت کیجیے
آپ کی ہر دم زیارت کیجیے
گر کیا مہجور اس قرآن کو
پھر نہ آقا سے شکایت کیجیے
جس کی الفت دین کی بنیاد ہے
اُس نبی کی دل سے چاہت کیجیے
اُن کے نامِ پاک پر مر جائیے
موت کو فخرِ شہادت کیجیے
اُستوار عہدِ اِطاعت کیجیے
کامرانی کی وہ صورت کیجیے
ابتدا اسلام کی کیسے ہوئی؟
یاد غُربت کی مَسافت کیجیے
آلِ حق پر جو اُترتی ہے سَدا
پھر وہی ہم پر سکینت کیجیے
آپ اور اصحاب کا اُسوہ ہے یہ
دشمنانِ دیں پہ شدّت کیجیے
رحم ہو آپس میں گویا اِس طرح
گر لڑے کوئی توحیرت کیجیے
باہمی اُلفت رہے کچھ اس قدر
غیرمانے وہ اخوت کیجیے
مزرعِ اسلام کوپھر سینچ کر
قلبِ کافر پر قیامت کیجیے
ہاتھ ہے جن کا مرے اللہ کاہاتھ
ایسے ہاتھوں پر ہی بیعت کیجیے
فیصلہ کُن انقلاب آنے کو ہے
پیش دعوے پر شہادت کیجیے
اپنے ایماں اور اپنے دین کی
بدنظر سے پھر حفاظت کیجیے
حق پرستی کی سزا کیوں کر ملے؟
آگے بڑھئیے اور جرأت کیجیے
حق نے باطل کو مٹایا جس طرح
پھر اُسے زندہ حقیقت کیجیے
جس کی حُرمت پر فدا یہ جان ہے
اُس نبی کی دل سے عزت کیجیے
ان کی ہستی پر جو سبقت کیجیے
مُسترد ہے، گو عبادت کیجیے
صوت پر ان کی ترفّع جُرم ہے
نیکیوں کو یوں نہ غارت کیجیے
رب کا بھی ارشاد ہے  لا تجھروا
کیوں عمل اپنا اکارت کیجیے
ان کے رب نے کب پکارا نام سے؟
آپ مت ایسی جسارت کیجیے
جب بُلائیں آپ کو آقا حضور
حاضری میں پھر نہ غفلت کیجیے
جلوۂ صد رنگ ہو پیشِ نگاہ
پھر عطا چشمِ بصیرت کیجیے
-
آپ کی سب کو ضرورت ہے، جہاں آرا حضور
ظلمتیں ہی ظلمتیں ہیں، ہو اُجالا یاحضور!
لفظِ یثرب میں کہاں ہے، کوئی خوبی و کمال
اس لیے کہنا پڑا تھا آپ کو ’طیبہ‘ حضور
لفظ و معنی میں کوئی رشتہ مگر ایسا تو ہو
جس کی نسبت کہہ سکیں ہم آپ کو مولیٰ حضور
ایسے وصفوں سے تعلق، عشق کو مطلوب ہے
حسن بڑھ کر خود پکارے، آپ کو آقا حضور
دیکھو لو ’میثاق‘ سے پہلے کی دنیا اور تھی
آپ کی ہجرت سے پہلے تھا ’مدینہ‘ کیا حضور
ہجرت و نصرت کی یک جائی سے اُمت بن گئی
ہے مواخاۃِ مدینہ، آپ کا اُسوہ حضور
ہم سراپا آرزو اور جستجو کوئی نہیں
ہم نے اب تک آپ کو بالکل نہیں سمجھا حضور
t
محمد عثمان رمزؔ، پروفیسر
(۲۶؍جولائی ۱۹۲۹ء الٰہ آباد … ۷؍مئی ۱۹۹۸ء، کراچی)
ذکرِ اوصاف نبی علم و حکم کی بات ہے
نعت گوئی حرمتِ لوح و قلم کی بات ہے
آخرِ شب دے رہے ہیں لَو دعاؤں کے حروف
لب پہ رحمت کی شفاعت کی کرم کی بات ہے
سب نے ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں پھر ماہ و نجوم
قدسیوں کے لب پہ پھر شمعِ حرم کی بات ہے
گاہے رونا گاہے ہنسنا گاہے چپ رہنا مرا
عشقِ احمد میں جنوں کے کیف وکم کی بات ہے
گنبدِ خضرا میں جتنی دھاریاں ہیں نور کی
ان سے ظاہر اوجِ تقدیرِ اُمم کی بات ہے
شہرِ طیبہ سے اگر جائے کوئی سوئے عدم
پھر توجنت کی مسافت دوقدم کی بات ہے
رمزؔ میری نعت میں تائیدِ یزداں کے طفیل
صاحبِ لولاک کے جود و کرم کی بات ہے
t
-
توجہ آپ کی جب کاشفِ اسرار ہوتی ہے
تو ہر خفتہ حقیقت زیست سے بیدار ہوتی ہے
ندامت کا پسینہ خشک ہوجاتاہے طیبہ میں
یہاں کی دھوپ بھی اِس درجہ سایہ دار ہوتی ہے
دفینے کروٹیں لیتے ہیں صحرا کے سرابوں میں
ہماری آنکھ جب روضے پہ گوہر بار ہوتی ہے
غمِ عشقِ محمد کی اگر دولت میسر ہو
محبت کی خریداری سرِ بازار ہوتی ہے
پہنچ جاتاہوںمیں اِک جست میں شہرِ مدینہ تک
اگرچہ سرزمینِ خواب ناہموار ہوتی ہے
انا کے دور میں خُلقِ شہِ طیبہ کی سچائی
سوادِ تیرہ میں والشمس کااظہار ہوتی ہے
جنابِ رمزؔ کے زخموں کی رنگت شہرِ طیبہ میں
کبھی گل رنگ ہوتی ہے کبھی گلنارہوتی ہے
t
محمد ناصر
(۲۷؍جولائی ۱۹۶۲ء پشاور)
چراغِ مصطفوی ضامنِ صباٹھہرے
ہوا کا کوئی بھی جھونکاہو وہ دیا ٹھہرے
یہ چاند شق ہو جہاں اور سنگ بولتے ہوں
بجز حضور وہاں کون دوسرا ٹھہرے
وہاں بھی ختم نہ کرنا حدِ ثنا یارو!
نگاہ و دل میں جہاں کوئی فاصلہ ٹھہرے
کوئی بھی حرف ہو بس معتبر اُنہیں سے ہے
ہر ایک دور میں وہ ایک آئینہ ٹھہرے
مجھے نصیب ہو یوں عرضِ مدّعا بھی کبھی
لبوں پہ ٹھہری ہوئی خامشی صدا ٹھہرے
t
محمد نعیم الرحمن جوہرؔ
(۱۹۳۷ء، دہلی … ۲۸؍جولائی ۱۹۹۵ء، کراچی)
رہ نما جو ہم بنائیں سیرتِ سرکار کو
خود جلاِ ملتی رہے گی شیشۂ کردار کو
یہ درِ اقدس کے دیوانے کا ہے ادنیٰ کمال
روک دیتا ہے نظر سے وقت کی رفتار کو
جس نے دیکھی ہے سرِ سدرہ تقدس کی جھلک
پوچھیے اس سے مقامِ احمدِ مختار کو
دشمنوں کے ساتھ یہ حسنِ تکلم آپ کا
اک نیالہجہ دیا ہے آپ نے گفتار کو
دشمنی  دستک نہ دے دروازہ دل پرکبھی
ہم اگر گرنے نہ دیں اخلاق کے معیار کو
ہو اگر منشورِ سرکارِ دو عالم پرعمل
آج بھی دنیا میں حق ملنے لگے حقدار کو
اب کسی عالم میں بھی ملتا نہیں دل کوسکوں
جب سے دیکھاہے مدینے کے در و دیوار کو
t
مختار اجمیری
(۱۸؍جنوری ۱۹۳۷ء اجمیر)
قلم جنبش میں پہیم ہے خداوندا میں کیا لکھوں
تمنا ہے اگر لکھوں تو نعتِ مصطفی لکھوں
رُخ پُر نور کو آئینہ دارِ والضحیٰ لکھوں
پڑھوں والیل پڑھ کے مدحتِ زلفِ دوتا لکھوں
تصور میں رُخ سرکار کے شمس الضحیٰ لکھوں
حسینِ بدر آنکھوں میں ہوجب بدر الدجی لکھوں
میں پہلے سیکھ لوں آدابِ علمِ ابجدِ الفت
فنا ہو کر حروف عشقِ شہ میں پھر بقا لکھوں
محمد مصطفی کا نام نامی آبِ زرّیں سے
میں اوراقِ کتابِ زندگی پرجا بجا لکھوں
شبِ معراج آنکھوں میں جومنظر کہکشاں کاہو
میں اُس منظر کوشہ کا آسمانی راستا لکھوں
سند ہے عین ایمانِ مفصل کے مکاتب کی
سنوں نامِ محمد اورمیں صل علیٰ لکھوں
خطِ ہستی کا جب مضمون ہونے کو مکمل ہو
تواے مختارؔ اس خط پرمدینے کا پتا لکھوں
t
مختارؔ حیات،ڈاکٹر
(۳؍ستمبر ۱۹۴۱ء سہارنپور)
نغمگی کا سلسلہ از ابتدا تا انتہا
وہ حبیبِ کبریا از ابتدا تا انتہا
وجہِ تخلیق ددعالم وجہِ تزئین جہاں
آمدِ صلِ علیٰ از ابتدا تا انتہا
ان کی رحمت عام ہے ان کی عنایت عام ہے
مغفرت کاراستہ از ابتدا تا انتہا
ساتھ ساتھ ان کے چلیں گے ہم توجنت جائیں گے
حق نما و حق رسا از ابتدا تا انتہا
حق و صدق وعجزوشوق وعشق رب کے باب میں
وہ تمامی انتہا از ابتدا تا انتہا
طاعتِ رب دوعالم کی دلیل اندر دلیل
سیرتِ بدرالدجی از ابتدا تا انتہا
ان کی خاکِ پا کو بھی کوئی پہنچ سکتا نہیں
ہر سوا سے ماسوا از ابتدا تا انتہا
اک نعت ایسی عطا ہو جائے مجھ کو اے خدا
جو ہو ہر دل کی صدا از ابتدا تا انتہا
t
مرزا  عاصمؔ بیگ
(یکم جنوری۱۹۳۲ء مراد آباد)
خدائی خدا کا راز بتلایا محمد نے
اندھیری ہستیوں میں نور پھیلایا محمد نے
نہ تھا جن کا کوئی ایسوں کو اپنایا محمد نے
ہر اک مظلوم و بیکس پر ترس کھایا محمد نے
خدا نے عرش پر معراج کی شب ان کو بلایا
شفیع روزمحشر کا لقب پایا محمد نے
مہِ کامل کے ٹکڑے کرکے اک ادنی اشارے سے
نرالا معجزہ دنیا کو دکھلایا محمد نے
تصدق کیوں دل وجاں ہوں نہ عاصمؔ ایسے آقا پر
کیا وہ ہے خدا نے، جو کہ فرمایا محمد نے
t
مسعود عظیم آبادی
(۵؍جون۱۹۴۲ء موضع بانک تھانہ نیر ضلع پٹنہ)
خدا نے جو بھی پیام بھیجا ہمیں وہ آقا بتا چکے ہیں
یہ ہے ہماری سیاہ بختی کہ دل سے اُس کو بھلا چکے ہیں
نہ تھی چمن میں نسیمِ مرسل ، کہ پھیلتی جو شمیمِ وحدت
قدم سے اپنے روش روش وہ،یقیں کی خوشبو بسا چکے ہیں
خدا کا جلوہ تو چار سو تھامگر خدائی تھی تیرگی میں
اندھیری راتوں میں کفر کی وہ چراغِ وحدت جلا چکے ہیں
وہ جن کی رفعت ہے آسمان پر ،زمیں کی مٹی نے پائی عظمت
بپاسِ خاطر بشر کی حرمت بڑے بڑے دُکھ اُٹھا چکے ہیں
جو کفر کو تھا عنادِ وحدت ،نہیں وہ تابِ بیاں زباں کو
مگر وہ قول و عمل سے سب کو ،مطیع اپنا بناچکے ہیں
گماں کے صحرا سے آدمی کو،یقیں کے گلشن میں آپ لائے
خدا کا کلمہ پڑھا کے سب کو،رہِ صداقت دکھا چکے ہیں
فقط یہ مسعود ہی نہیں ہے ، گناہ میں مبتلا ہیں لاکھوں
جہاں کے محسن کرم ہو اُن پر،فریبِ ہستی جوکھا چکے ہیں
t


مسلمؔ  عظیم آبادی
(۱۸۸۸ء محلہ صادق پور،پٹنہ بہار…۵؍فروری۱۹۷۷ء کراچی)
وہی ہدی ہیں وہی ہیں شاہد وہی نذیر اوروہی مبشر
وہی ہیں احمد وہی محمد وہی ہیں طبیب وہی ہیں طاہر
وہی ہیں شمس الضحائے مکہ وہی ہیں بدرالدجیٔ طیبہ
فقہہ اعظم بڑے مقنن، عظیمجنرل، بڑے مدبر
جو عالم بے بدل وہ اُمی جو افضل الانبیاء و داعی
وہی سراج منیر عالم وہی مزمل وہی مدثر
وہ عجز و صبر و رضا کا پیکر کریم بھی صادق الامیں بھی
نبی رسول اورخدا کابندہ نہ کوئی مجنوں نہ کوئی شاعر
انہی کی خاطر خدا نے قرآں کو لوحِ محفوظ سے اُتارا
دیا شفاعت کا حق انہی کو بنائی دنیا انہی کی خاطر
وہ ختمی مرتبت لقب جس کا اورجوہے خاتمِ نبوت
حسب نسب میں وہ سب سے اعلیٰ شہہ مدینہ مگرمہاجر
وہ جس پہ رب خود درود بھیجے پڑھیں گے صلِ علیٰ نہ کیوں ہم
نفس نفس اس کا ذکر ہوگا خدا کا جب ذکر ہے’’فذکرّ‘‘
جہاں کو وہم وگمان کی قید سے رہائی دلائی کس نے
یقین کامل کادرس دینے ہوا تھا مبعوث وہ مفکر
انہی کا اعجاز تھاکہ جگ میں نہ بچ سکا ذکروفکر رب سے
کوئی کلیسانہ گردوارہ کوئی شوالہ نہ کوئی مندر
جناب حسانؓؔ کی نہیں خاکِ پا مگر مجھ پہ یہ کرم ہو
مجھے عطا ہو خلوص جامی،لسانِ بہزاد،عشق ماہر
وہ اپنے عاصی سے ہوں گے غافل مجھے تواس کا یقیں نہیں ہے
کہ میں انہی کاتوامتی ہوںانہی کا شیداانہی کا شاعر
t
مظہرؔ اعظمی
(۱۶؍ستمبر ۱۹۳۱ء اعظم گڑھ)
عارض کی سحر زلف کی ہررات اثاثہ
سردارِ مدینہ کی ہر ایک بات اثاثہ
سرکار مرے سارے زمانے کے لئے ہیں
اطوار اثاثہ ہے توعادات اثاثہ
آئینۂ افکار میں صورت ہے نبی کی
اس واسطے میرے ہیں خیالات اثاثہ
جز عشقِ خداعشقِ محمد کے سوا میں
رکھتا ہی نہیں قبلۂ حاجات اثاثہ
بگڑے ہوئے صدیوں کے زمانے کو سنوارا
ہیں شاہِ مدینہ کے خیالات اثاثہ
آنکھوں سے غمِ ہجرِ پیمبر میں جوبرسی
بس میرے لئے ہے وہی برسات اثاثہ
ہوں خلقِ محمد سے جو وابستہ وہمرنگ
بن جاتی ہیں مظہرؔ وہ حکایات اثاثہ
t
معراج حسن عامرؔ
(۱۹؍مئی ۱۹۵۳ء سیہ پور … ۱۷؍فروری ۱۹۹۹ء کراچی)
شب معراج نے صدیوں کو لمحوں میں پبا دیکھا
فرشتوںنے خدا کو میزبانِ مصطفی دیکھا
محمد کو سر منظر پس منظر خدا دیکھا
نبی کے آئینے میں عکس نورکبریا دیکھا
خداشاہد ہے قرآں میںکہ اقصی کی نگاہوں نے
نبی کے گرد نبیوں کا حسیں ایک دائرہ دیکھا
محمد مصطفی ہی مرکزپرکار ہستی ہیں
بدل کرہم نے بینائی کا ہراک زاویہ دیکھا
ہمیں کو فخر حاصل ہے کہ ہم ہیں اُمی ان کے
کہ جن کے دم قدم سے رحمتوں کا سلسلہ دیکھا
کھلاتھا پھول جو اک آئینے کی گرد میں عامرؔ
جہاں نے آج تک اس پھول کو مہکا ہوادیکھا
-
قلم کو روشنائی اشک سے درکار ہوتی ہے
رقم قرطاس پر جب مدحتِ سرکار ہوتی ہے
فقط غارِحرا کی ایک معمولی سی دستک سے
عمارت تیرگیٔ کفر کی مسمار ہوتی ہے
قدم سرکار کے پہنچے اُدھر قوسین کی جانب
ادھر یہ گردش دوراں سکوت آثار ہوتی ہے
محمد مصطفی کی ذات کا ادراک ہوتے ہی
نگاہِ آدمیت محرم اسرار ہوتی ہے
نہیں ہے حرف پسپائی کتاب زیست میں ان کی
فتح سرخم کیے حاضر درسرکارہوتی ہے
دلوں کے آئینوںپر کفر کی جب گرد جم جائے
نگاہے مصطفی سے بارش انوار ہوتی ہے
رقم ہے دل پہ نام مصطفی کچھ اس طرح عامرؔ!
عبارت جسے کوئی سرخیِ اخبار ہوتی ہے
t
مفتی شفیع، محمد
(جنوری ۱۸۹۷ء دیوبند…۵اور۶؍/اکتوبرکی درمیانی رات ۱۹۷۶ء کراچی)
پھر پیشِ نظر گنبد خضرا ہے حرم ہے
پھر نام خدا روضہ جنت میں قدم ہے
پھر شکر خدا سامنے محراب نبی ہے
پھر سر ہے مرا اور ترا نقش قدم ہے
محراب ِنبی ہے کہ کوئی طور تجلی
دل شوق سے لبریز ہے اورآنکھ بھی نم ہے
پھر منتِ دربان کا اعزاز ملاہے
اب ڈرہے کسی کانہ کسی چیز کا غم ہے
پھر بار گہہ سیّد کونین میں پہنچا
یہ ان کا کرم ان کا کرم ان کا کرم ہے
یہ ذرّہ ناچیز ہے خورشید بداماں
دیکھ ان کے غلاموں کا بھی کیا جاہ وچشم ہے
ہرموئے بدن بھی جوزباں بن کے کرے شکر
کم ہے بخداان کی عنایات سے کم ہے
رگ رگ میں محبت ہو،رسول عربی کی
جنت کے خزائن میں یہی بیع و سلم ہے
t
منظر امکانی
(۱۹۴۸ء ملتان…۱۸؍جون۱۹۹۷ء کراچی)
اہل دنیا کواندھیروں سے بچایا آپ نے
ہرقدم پرنور کا دریا بہایا آپ نے
لالہ و ُگل ہی نہیں ہیں آپ کے احسان مند
چاند تاروں کا مقدر جگمگایا آپ نے
بت تراشی بت پرستی دین تھی ایمان تھی
کلمۂ حق ایسے عالم میں سنایا آپ نے
آئینۂ خانے کی دنیا حیرتوں میں غرق تھی
معجزہ شقِ القمر کاجب دکھایا آپ نے
سینکڑوں آئے نبی لیکن میسر کب ہوا
وہ جو اک معراج کا اعزاز پایا آپ نے
روح سجدہ ریز ہوگی جاگ اُٹھے گا نصیب
اپنے روضے پرجومنظرؔ کو بلایا آپ نے
-
دنیا ہیں محمد مری عقبی ہیں محمد
تخلیقِ دو عالم کا خلاصا ہیں محمد
کامل نہیں ایماں جو نہ ہو اُن سے محبت
ایماں کی بنا میرا عقیدہ ہیں محمد
اللہ نے کیا نُور سے اپنے جنہیں پیدا
کونین میں وہ نورِ سراپا ہیں محمد
تقدیر پہ اپنی تجھے ناز آج نہ کیوں ہو
اے عرش بریں انُجمن آرا ہیں محمد
پیدا نہ ہوا عیسیٰٔ دوراں کوئی ایسا
ہر درد کا انساں کے مداوا ہیں محمد
ہے شرط یہی اُن کو پکارے کوئی دل سے
نادار کا بے کس کا سہارا ہیں محمد
جنت ہے نہ حوریں ہیں نہ کوثر ہے نہ غلماں
منظرؔ دلِ مومن کی تمنا ہیں محمد
t
منظرحسن منظرؔ،خواجہ
(۲۹؍دسمبر۱۹۲۳ء پٹنہ، بہار … ۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء کراچی)
وہ جن کو قدسیوں نے سنوارا رسول ہیں
قرآں خدا نے جن پہ اُتارا رسول ہیں
اِک آبشارِ جود و سخا ہے وجودِپاک
اِک درس گاہِ خلق و مدارا رسول ہیں
قرآنِ پاک کا ہے مرقع وہ ایک ذات
قرآں کا جس نے روپ نکھارا رسول ہیں
اُمّی تو ہیں مگر ، ہیں دوعالم سے باخبر
علم و خبرکا ایک منارہ رسول ہیں
فتحِ مبین جس سے ہے صلحِ حدیبیہ
دریائے آگہی کا وہ دھارا رسول ہیں
اب مثلِ آفتاب وہ چمکے گا تاابد
روشن تھا جو ازل سے ستارہ رسول ہیں
منبر پہ پند واعظ ، تو مسند پہ فیضِ عام
بدر و حنین ہوں تو صف آرا رسول ہیں
منظرؔ! تری نجات کی اُمید ہے تو یہ
اُمّت کا روزِ حشر سہارا رسول ہیں
t
منظرعلی خان منظرؔ
(۶؍جون ۱۰۳۸ء بھاگل پور…۸؍جنوری ۱۹۹۶ء کراچی)
کیوں کر بیاں ہو مرتبہ اُس ذی وقار کا
محبوبِ بارگاہ ہو جو پروردگار کا
اعجازِ پائے احمد مرسل تو دیکھیے
ہر زرّہ آفتاب بنا رہ گزار کا
دل کا سرور آنکھ کی ٹھنڈک ہے چار سو
طیبہ میں صبح و شام ہے موسم بہار کا
پاتے ہی حکم آپ کا سورج پلٹ پڑا
شق ہو گیا جگر شبِ عالم شکار کا
غالب رہے گادین اُنہیں کاجہان میں
جب تک کہ سلسلہ ہے یہ لیل و نہار کا
منظرؔ پہ اِک نگاہِ کرم ڈال دیجیے
کب تک رہے اسیر غمِ روز گار کا
t
منظور حسین شورؔ، پروفیسر
(جولائی ۱۹۱۰ء امراوتی، برار … ۸؍جولائی ۱۹۹۴ء کراچی)
گفتگو کا ساز کیا،تخیٔل کی آواز کیا
باَم عرفان نبی پرعقل کی پرواز کیا
پُر شکستہ لفظ و معنی، آبلہ پا عقلِ خام
لب کُشائی،کس کی جرأت کس کو یارائے کلام
عالمِ لاہوت سے طرز بیاں لادو مجھے!
عرش سے کوئی فرشتوں کی زباں لادو مجھے
نام آیا ہے،لبوں پراُس رسولِ پاک کا
معرفت میں جس کی جھک جاتا ہے سرادراک کا
عرشِ جس کافرشِ پا  ہفت آسماں جس کی زمیں
آستاں جس کاہے بوسہ گاہِ جبریل امیں
آیۂ والشمس جس کے روئے تاباں کی قسم
نکتۂ والیل جس کے گیسوؤں کا پیچ وخم
وہ رسول دوسرا،وہ تاجدارِ بحر وبر
جس کے قدموں پرجھکا ہے قیصر وکسریٰ کا سر
فقر سے جس کے شہنشاہی کو آیاہے زوال
جس کی عظمت کھا گئی اسکندر وجم کا جلال
جس کے ہیں افسانہ خواں ہسپانیہ کے بام ودر
چین تک پہنچی ہے اڑ کرجس کی گردِ رہگذر
لوٹتے ہیں جس کی ٹھوکر میں شہنشاہوں کے تاج
خاکِ پالیتی ہے جس کی آسمانوں سے خراج
رحمتیں جس کی کنیزیں،مغفرتِ جس کی سفیر
جس نے ارزانی کیا اولادِ آدم کو ضمیر
رحمت اللعالمیں بن کر جو آیا وہ رسول
آدمی کو آدمی جس نے بنایا،وہ رسول
وہ غریبوں کا سہارا،وہ یتیموں کی پناہ
نطق جس کی بندگی جس کا تنفس لااِلہ
وہ شہہِ کونین،وہ وہ عصمت پناہِ ہست و بود
ہرنفس جس کی عبادت ہرنظر جس کی سجود
وہ شہنشاہِ اُمم،وہ بندۂ یزداں صفات
نسلِ آدم کو سکھائے جس نے آدابِ حیات
فلسفہ ہے، جس کے درک و ہوش کا دریوزہ گر
جس کے بام معرفت پرعقل کے جلتے ہیں پر
بے وضو لیتے نہیں،روح الامیں میں بھی جس کا نام
اُس کی شاہی کو سلام،اُس کی فقیری کو سلام
t
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی
(۱۹۲۹ء کھیم کرن…۲۴؍اپریل ۱۹۸۴ء کراچی)
حبیب خداہیں حسیں ہیں محمد
نبی مصطفی ہیں امیں ہیں محمد
بشیر’‘ نذیر’‘ سراج’‘ منیر
سراپا وہ نور مبیں ہیں محمد
عزیز’‘ حریص’‘ روف’‘ رحیم
وہ غم خوار امت معیں ہیں محمد
نبی سارے رحمت ہوئے ہیں بلاشک
مگر رحمت عالمیں ہیں محمد
وہی بے کسوں کے ہیں ماویٰ و ملجا
وہی شافع المذنبیں ہیں محمد
سر طور موسیٰ، فلک پر ہیں عیسیٰ
سرِ عرش مسند نشیں ہیں محمد
صفاتی تجلی سے بے ہوش موسیٰ
مگر ذاتِ حق کے قریں ہیں محمد
حسینانِ عالم میں ان کی ضیا ہے
خداکی قسم وہ حسین ہیں محمد
محمد شفیع خادم دینِ حق ہے
محمد شفیع کے معیں ہیں محمد
t
مونسہ ؔرضوی،سیدہ
(۱۹۱۸ء امروہہ… ۶؍ نومبر ۲۰۱۱ء کراچی)
شہ ملک نبوت صاحب تاج سریر آئے
جہاں روشن ہواجن سے وہی ماہِ منیر آئے
امین و رحمتللعالمیں اور شافع اُمت
بڑھانے مرتبہ انسان کا ارفع بشر آئے
ضعیفوں پرستم کرنا سیاہی تھی امارت کی
مٹانے کویہ ظلمت نائب رب قدیر آئے
گرے تھے قصروکسری کے کنگووے سن کے یہ کلمہ
گرانے کفرکی دیوار وہ نور نذیر آئے
خوشاقسمت کہ ہم جیسے سیاہ کاروں کی بخشش کو
روف آئے، رحیم آئے، کفیل آئے، بصیر آئے
ہوں میرے جان ودل قرباںمیرے ماں باپ بھی قرباں
لبوں پر مونسہؔ کے نام جب علم الخبیر آئے
t
مہتاب ظفر بدایونی
(۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کراچی)
سوادِ وقت میںخورشید بن کراک بشر ابھرا
جہاں شاہد ہے جس کی رحمت للعالمینی کا
کروں کیسے احاطہ اس سراپا ابرِ رحمت کا
بہاراں سارے ویرانے گلستاں کی ہر طرح صحرا
وہ جس کی ذاتِ اقدس سے طریق بندگی سیکھا
مرا مولا، مرا رہبر، مرا ہادی، مرا آقا
پڑھانے کا سبق سب کو مساوات واخوت کا
جہاں میں رحمت کل بن کے وہ تشریف لے آیا
وہ نعت و منقبت کے ایک سرمائے پہ بھاری ہے
ہمارے شاعر مشرق کا قطعہ چار مصرعوں کا
’’وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے ُکل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی فرقاں وہی یسٓ وہی طہٰ‘‘
t
مہتاب عالمؔ مہتاب
(یکم مارچ ۱۹۸۴ء کراچی)
کیوں نہ ہو اس دل پہ آقا حکمرانی آپ کی
ہم نے اپنے رب کو جانا ہے زبانی آپ کی
خود  عمل کرکے دکھایا حکم جس کا بھی دیا
گویا ہے تفسیرِ قرآں زندگانی آپ کی
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ خود اللہ نے
جابجا قرآن میں کی مدح خوانی آپ کی
آپؐ کو حاصل ہوا قرب الہٰی بے مثال
خود خدا نے عرش پہ کی میزبانی آپ کی
یہ اذانِ پنج گانہ اور یہ حمد و ثنا
رنگ لائی ہے جہاں میں جاں فشانی آپ کی
ہم تو ناوقف تھے عالمؔ مالک و معبود سے
آپ نے کلمہ پڑھایا مہربانی آپ کی
t
میر واصف علی
(۱۶ ؍جنوری ۱۹۵۶ء کراچی)
عرش بریں پہ عظمت لوح وقلم ہیں آپ
فرش زمیں پہ منبع جود وکرم ہیں آپ
اللہ کے حبیب ہیں شاہ امم ہیں آپ
کونین میں خدا کی قسم محترم ہیں آپ
گر آپ کا کرم نہ ہو مٹ جائیں دوجہاں
کل ہی نہیں تھے آج بھی بحر کرم ہیں آپ
قدموں پہ جن کے چاند ستارے نثار ہیں
عالم میں وہ حسین خدا کی قسم ہیں آپ
واصفؔ ! یہ وصف مدحتِ خیرالبشر کا ہے
اس بزم آب و گل میں بڑے محترم ہیں آپ
t
نازش ؔرضوی
(۱۹۲۸ء…۲۸؍مئی۱۹۹۱ء کراچی)
حد امکان سے بھی گذرا ہوں
اللہ اللہ کہاں میں پہنچا ہوں
عرش پرذہن ہے گویا میرا
نعت گوئی کے لیے بیٹھا ہوں
میری محفل میں فرشتو!آؤ
لوسنو شعر میں کچھ پڑھتا ہوں
اس کی وسعت پہ میں جب غور کروں
توخلاؤں سے بھی بڑھ جاتاہوں
وہ توہے ایک مکمل منزل
اورمیں راہ کا اک ذرہ ہوں
وہ سمندر سے کہیں بڑھ کرہے
ایک قطرے سے بھی میں چھوٹا ہوں
وہ میرے ساتھ ہے اک اک لمحہ
گوکہ میں دیکھنے میں چھوٹا ہوں
صفحہ دل کہ ہے مخصوص مرا
ایک ہی نام فقط لکھتا ہوں
ہرنفس اس کا ہے احساں مجھ پر
اس کا صدقہ ہے کہ میں زندہ ہوں
میں بھلا لکھوں نعت اے نازشؔ!
بولتا ہے کوئی میں لکھتا ہوں
t
نازؔ،عائشہ، شاہد علی
(۱۹؍اگست ۱۹۸۴ء کراچی)
وفور شوق کا یہ بھی کرشمہ دیکھ لیتے ہیں
ہم اکثرجاگتی آنکھوں سے طیبہ دیکھ لیتے ہیں
دکھا دیتے ہیں جلوہ پیارے آقاخواب میں آکر
وہ اپنے ہجر میںجس کو تڑپنا دیکھ لیتے ہیں
جواپنے دل کوان کے ذکر سے آباد رکھتا ہے
ملائک اس بشرکے گھر کارستہ دیکھ لیتے ہیں
مدینے کی زمیں پررشک آتا ہے ہمیں بے حد
خصوصاً ان کا جب نقشِ کف پادیکھ لیتے ہیں
فقط اس واسطے عزت ہماری ہے جہاں بھر میں
ہمیں چشم کرم سے شاہ والا دیکھ لیتے ہیں
ہمارے دل کا عالم نازؔ! کیا ہوتا ہے کیا کہیے
کسی کو جب مدینے پاک جاتا دیکھ لیتے ہیں
t
ندیم قیس
(۸؍دسمبر ۱۹۸۲ء کراچی)
حضور آپ کے  ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں
حضور ایسے سخن پر نثار ہو جاؤں
حضور آپ کا دیدار چاہتا ہے یہ دل
حضور دیکھ لوں بے اختیار ہو جاؤں
حضور آپ جو بخشیں حیات تو مجھ کو
حضور موت کے سر پر سوار ہو جاؤں
حضور آپ پہ قربان جسم و جاں میرے
حضور آپ کی رہ میں غبار ہو جاؤں
حضور آپ ہوں بس آپ ہوں علاج میرا
حضور عشق میں، یوں جاں نثار ہو جاؤں
حضور چاند کو حاجت تھی اک اشارے کی
حضور حکم کریں تار تار ہو جاؤں
t
نزہت عباسی،ڈاکٹر
(۲۷؍جون۱۹۷۱ء کراچی)
اک زمین کیا آسماں تک نورہے
اک مکاں کیا لامکاں تک نور ہے
نور مرسل کی فراوانی نہ پوچھ
اس جہاں سے اُس جہاں تک نور ہے
بام پر گنبد پہ میناروں پر آج
جس طرف دیکھو وہاں تک نور ہے
روبرو ان کے نظر اٹھتی نہیں
کیا بتائیں ہم کہاں تک نور ہے
عشق محبوب خدا کے سوز سے
چشم دل سے جسم وجاں تک نور ہے
رحمت للعالمیں کا فیض ہے
ہرعیاں اورہرنہاں تک نور ہے
صد مبارک محفل روحانیاں
دل کے بحرِ بے کراں تک نور ہے
t
نسیم احمد نسیم
(۶؍جون ۱۹۷۴ء کراچی)
کاشفِ سِّر لا ہیں ہمارے نبی
راز دارِخدا ہیں ہمارے نبی
رشکِ شمس و قمر، نورِ عرشِ بریں
مظہرِ کبریا ہیں ہمارے نبی
رونقِ گلستاں ، مشک و عنبر فشاں
جانِ موجِ حیا ہیں ہمارے نبی
عشق کی انتہا نازشِ کبریا
سیدالانبیا ہیں ہمارے نبی
مونسِ بے کساں ،محسنِ انس وجاں
سب کے حاجت روا ہیں ہمارے نبی
اُن کی رحمت سے مایوس کوئی نہیں
دردِ دل کی صدا ہیں ہمارے نبی
اے نسیم ؔ! اُن کے اوصاف کیا ہوں بیاں
جب کہ بعد از خدا ہیں ہمارے نبی
t
نشاطؔ غوری
(۱۹۴۵ء کراچی)
مصائب میں محمد کے سوا کس کا سہارا ہے
مدد بروقت کرتے ہیں اُنہیں جب بھی پکارا ہے
مسلم ہے سرِ محشر اُسی کی مغفرت ہو گی
ہر اِک لمحہ تمہاری یاد میں جس نے گزارا ہے
مری ہستی منوّر ہے بفیضِ نیّرِ عالم
نگاہ و دل میں میرے نورِ احمد کا اُجالا ہے
مری رُودادِ غم کیا ہے ،پتا ہے سب محمد کو
مرا جو حال ہے سرکار پر سب آشکارا ہے
عطائے دردِ اُلفت تو مسرت کی علامت ہے
مگر میں دور ہوں تم سے ، مجھے اِس غم نے مارا ہے
مرا عزمِ سفر لے جا رہا ہے جانبِ منزل
مدینے کی طرف جاؤں ، مجھے اِس کا اشارہ ہے
سفینہ غرق ہو نے سے بچائیں گے نشاط ؔ ! آقا
نہ ڈوبے ہیں ، نہ ڈوبیں گے ، خیال اُن کوہمارا ہے
t
نشترؔاکبرآبادی
(۷؍اپریل۱۹۱۴ء اکبر آباد…۱۹۹۵ء کراچی)
کیا حضور نے جب بیت محترم کا طواف
توبت پرست بھی کرنے لگے حرم کا طواف
تھے ان کی یاد کے آنسو جو آنکھ سے برسے
گھٹانے اٹھ کے کیا،میری چشم نم کا طواف
وہ راستے جو گذرگاہ سروردیں تھے
دل و نظر نے کیاان کے پیچ وخم کا طواف
بروز حشر جو اپنی پناہ میں لے گا
کریں گے لوگ اُسی دامنِ کرم کا طواف
دل و نظر میں ہے جب ان کے نور کا عالم
نہ جا عرب کی طرف اور نہ کر عجم کا طواف
رہ رسول کا رہروہوں ننگ راہ نہیں
کریں گے ذرّے مری لغزشِ قدم کا طواف
مرے لیے ہے ہی سوغات بھی محبت کی
تمام عمر کیا ہے نبی کے غم کا طواف
حرم میں گزرا ہوا وقت یاد ہے نشتر
قدم قدم پہ وہ سجدے وہ دم بدم کا طواف
t


محمد سراج و محمد منیر


محمد بشیر ومحمد نذیر
نصیر ترابی
(۱۵؍ جون ۱۹۴۵ء حیدرآباد دکن)
ورقِ جاں پہ کوئی نعت لکھا چاہیے ہے
ایسی حسرت کو تقرب بھی سوا چاہیے ہے
ظرفِ بینائی کو دیدارِ شہہ لوح و قلم
وصفِ گویائی کو توفیقِ ثنا چاہیے ہے
حرفِ مدحت ہو کچھ ایسا کہ نصیبہ کُھل جائے
ایسے ممکن کوفقط حُسنِ عطا چاہیے ہے
چشمِ آشفتہ کو اک حدِّ یقیں ہے درکار
دلِ بے راہ کو نقشِ کفِ پا چاہیے ہے
آنکھ غم ناک ہو اور سانس میں اِک اسم کی رو
زندہ رہنے کے لیے آب و ہوا چاہیے ہے
مژدۂ غیب ہے اِک بابِ حضوری مجھ کو
اتنے امکان کے بعد اب مجھے کیا چاہیے ہے
اِس شب و روز کے آشوبِ مسافت میں نصیرؔ!
اب مدینے کی طرف بھی تو چلا چاہیے ہے
t
نظرؔ امروہوی
(۲۷؍نومبر ۱۹۲۴ء امروہہ … ۱۷؍جنوری ۲۰۱۴ء کراچی)
سردارِ دوجہاں ہیں نام خدا محمد
صلی علیٰ محمد صلی علیٰ محمد
صُبحِ ازل وہ چہرہ، شامِ ابد وہ گیسو
شمس الضحیٰ محمد بدرالدجے محمد
دونوں جہاں کی دولت ملتی ہے اُن کے در سے
خیرالبشر محمد خیرالوریٰ محمد
عقل وشعورٔ ودانش عشق وجنون وحکمت
نُکتہ رساں محمد عقدہ کُشا محمد
آئینہ مشیت سرچشمۂ ہدایت
ہیں حق نگر محمد ہیں حق نما محمد
میں کیا مری طلب کیا غم کیا مری خوشی کیا
یہ زندگی ہے تم پر قربان یا محمد
چلتا رہوں اُسی پر تا زندگی نظرؔ میں
مجھ کو بتا گئے ہیں جو راستا محمد
t
نعیم بازید پوری
(یکم جنوری ۱۹۴۵ء )
ہیںسارے نبی خوب بہت خوب مگرآپ
اللہ کے محبوب ہیں اور خیرِبشر آپ
سُن لیں زِ رہ لطف مِری نعت اگر آپ
کُھل جائیںگے مجھ پر سبھی اسرارِہنر آپ
لگتا ہے کہ ہیں پھیرے ہوئے ہم سے نظر آپ
لے لیجیے ہم بے خبروں کی بھی خبر آپ
دیکھیں تو کبھی ایک نظر ایک نظر آپ
اِک لمحے میں ہوجائے گا دل زیر وزبر آپ
ہوجاتا ہے دو لخت اشاروں میں قمر آپ
اور حکم کی تعمیل میں چلتا ہے شجر آپ
کیوں جال بچھائے کھڑی رہتی ہے یہ جالی
وائے رے مشیت ،کہ اِدھر ہم ہیں اُدھر آپ
کیا دیں گے ہمیں چاندیہ سوج یہ ستارے
ہیں آپ کے انوار کے سب دست نگر آپ
t
نعیم دہلوی
(یکم جنوری ۱۹۳۶ء دہلی…۲۸؍دسمبر ۱۹۹۷ء کراچی)
خوشی چاہتاہوں نہ غم چاہتا ہوں
کرم یا محمد ! کرم چاہتاہوں
یہ ہے سب تمہارا کرم یامحمد
تمہیں میں تمہاری قسم چاہتاہوں
سرِحشر آقا مری لاج رکھنا
نہ کھل جائے میرا بھرم چاہتاہوں
مرے دل کی یہ دھڑکنیں کہہ رہی ہیں
مدینے کو میں دم بدم چاہتاہوں
مرے سامنے تو رہے جلوہ آرا
میں اس طرح طوفِ حرم چاہتا ہوں
جبینِ عقیدت کی خاطر الٰہی!
نبی کے میں نقشِ قدم چاہتاہوں
شہنشاہِ کونیں کا نعت گو ہوں
نعیمؔ ! اُن سے جاہ و حشم چاہتاہوں
-
نہ خیالِ ہشت جنت ،نہ ارم کی آرزو ہے
مگر اے بہارِ طیبہ مجھے تیری جستجو ہے
اے مکینِ سبز گنبد!جہاں دیکھتا ہوں تو ہے
ترے حسن سے مرصع ، یہ جہانِ رنگ و بوہے
تجھے دیکھنا عبادت ، ہے فرائضِ نظر میں
یہ بتا رہے ہیں آنسو ، کہ نگاہ باوضو ہے
ترا ذکر کرتے کرتے ، مجھے نیند آگئی ہے
مرے خوابِ نیم کش میں ، ترا حسنِ خوبرو ہے
تری بندہ پروری کے ، میں نثار کیوں نہ جاؤں
ترے فضل ہی سے میری ،دوجہاں میں آبرو ہے
جہاں گفتگو ہے تیری ، وہاں ذکر ہے خدا کا
جہاں ذکر ہے خدا کا، وہاں تیری گفتگو ہے
یہ نعیمؔ کیا بتائے ، یہ کرم ہے تیرا آقا
مری شاعری کامرکز ، ترے در کی جستجو ہے
t
نفیسؔ فریدی
(۲؍جولائی ۱۹۳۵ء بدایوں … ۳۰؍ نومبر ۲۰۱۱ء کراچی)
نبیوں میں مرتبہ یہ رسالت مآب کا
پھولوں میں جیسے پھول چمن میں گلاب کا
نورخدا ہے جلوہ فگن ذات عکس پاک
جیسے ہو ماہتاب میں عکس آفتاب کا
طاعت خدا کی طاعت خیرالوری سے ہے
کہتاہے حرف حرف خدا کی کتاب کا
اس دور کے لیے بھی دعا کی حضور نے
جو دور مستحق تھا خدا کے عذاب کا
یہ در وہ در ہے جس کے بھکاری ہیں سب نفیسؔ!
شاہ و گدا سبھی پہ کرم ہے جناب کا
t
نقوشؔ نقوی
(۱۹۴۲ء امروہہ)
مدینے کابھی کیسا راستہ ہے
کہ ہر ہر گام منزل کا پتہ ہے
معطر ہیں میرے گھر کی فضائیں
لبوں پرذکر شاہ دوسرا ہے
نظر آتاہے جس میں عشق سرور
مرادل ایک ایسا آئینہ ہے
میں گھبراؤں غم دنیا سے کیسے
شہ بطحا کا مجھ کو آسرا ہے
وہی ہے اصل میں سچا مسلماں
جو پیرو صاحب قرآن کا ہے
خیال روئے احمد اللہ اللہ
بہ ہر سوروشنی کا سلسلہ ہے
وسیلے سے محمد مصطفی کے
نقوشؔ اب مجھ کو جینا آگیا ہے
t
نکہت بریلوی
(۱۲؍مئی ۱۹۳۵ء بریلی)
بجز سلامِ عقیدت کروں میں پیش تو کیا
بہت عظیم ہے وہ ذاتِ پاک میرے لیے
مری زباں میں یہ طاقت کہاں کہ کچھ بولے
مرے قلم  کو مجالِ رقم کہاں کہ لکھے
صفت میں اس کی کوئی حرف معتبر ایسا
جواس کی وسعتِ گردوں صفت کوچھو آئے
وہ علم وعدل ومساوات کی علامت ہے
وہ دُر عزم ویقیں،پیکرِ شجاعت ہے
وہ ارتقاء ہے توکل ہے اورعبادت ہے
وہ روشنی ہے  محبت ہے اورصداقت ہے
وہ حق پسند ہے اورصاحبِ امانت ہے
وہ کائنات کی رونق دلوں کی راحت ہے
ہزاروصف ہیں اُس میں کسے بیان کروں
زمینِ شعر کو کیونکر میں آسمان کروں
t
نوربریلوی
(۱۹۲۲ء بریلی … ۱۲؍نومبر ۲۰۰۱ء کراچی)
باعثِ تخلیق بھی تخلیق کے حاصل بھی آپ
نورِ حق بھی شاہکارِ بزمِ آب و گل بھی آپ
انجمن کی جان بھی ہیں، گرمیِ محفل بھی آپ
نغمۂ سازِ محبت بھی صدائے دل بھی آپ
آرزو بھی، جستجو بھی، جذبۂ کامل بھی آپ
رہنما بھی ، جادۂ منزل رسا منزل بھی آپ
کیا سمجھ میں آئے تسکین و خلش کی بات جب
بیقراری بھی قرارِ اضطرابِ دل بھی آپ
زندگی کی لہر اُٹھتی ہے فنا کی موج سے
دافعِ گرداب بھی ہیں ، راحتِ ساحل بھی آپ
آپ ہی سے ہستیِ کونین میں ہے رنگ و بو
آپ عنوانِ محبت بھی حدیثِ دل بھی آپ
آپ کے جلووں کی تابانی پہ ہے موقوف نورؔ!
منبعِ خورشید بھی ، اصلِ مہِ کامل بھی آپ
-
بکھری ہوئی ہے بوئے گلستانِ مصطفی
روزِ ازل سے عام ہے فیضانِ مصطفی
جو چاہے عافیت کی ردا میں پناہ لے
سب کے لیے ہے سایۂ دامانِ مصطفی
خالی رہے خیالِ تمنائے خام سے
دل میں رہے تو بس رہے ارمانِ مصطفی
خوفِ خدا، خلوصِ عمل ، پیروی بغیر
ملتا نہیں ہے جادۂ عرفانِ مصطفی
یارب ! نہ اجر ہو مرا دادِ سخن وری
مجھ کوملے شعورِ دبستانِ مصطفی
لکھیے سلام و نعت کہ نورِ ازل کو نورؔ!
ہیں بالیقیں عزیز ثناخوانِ مصطفی
t
نوید عالم زیدی
(۱۵؍اگست ۱۹۳۹ء دہلی)
نامِ نبی ادا ہی ہوا تھا زبان سے
اِک نور سا برسنے لگا آسمان سے
پردے اٹھا کے آپ نے سب درمیان سے
رشتہ زمیں کا جوڑ دیا آسمان سے
عالم تمام جس سے ضیا پاش ہو گیا
پھیلا وہ نور غارِ حرا کی چٹان سے
جب سے درِ نبی کی گدائی ملی مجھے
بے فکر ہو گیا ہوں غمِ دوجہان سے
لنگر اُٹھا دیا ہے محمد کے نام پر
کشتی سے اب غرض نہ غرض بادبان سے
بے تاب ہوکے سوئے مدینہ چلا نویدؔ!
نکلا ہو جیسے تیر َہوا میں کمان سے
t
نیاز بدایونی
(اپریل ۱۹۳۵ء بدایوں … ۲۹؍ فروری۲۰۰۸ء کراچی)
ہے جو قرآں میں کلام از ابتدا تا انتہا
نعتِ سرور ہے تمام از ابتدا تا انتہا
رہ نما اُمت کا اپنی، ہر نبی، لیکن حضور
سب کے ہادی گام گام از ابتدا تا انتہا
مجھ یہ ساقی کی عطازم زم سے کوثر تک رہی
میں رہا بے خود مدام از ابتدا تا انتہا
میں نہیں تاریخ کہتی ہے کرو تو ان سے عشق
تم رہو گے شاد کام از ابتدا تا انتہا
نعت گو ہوں میں ، نہ کر رضواں مجھے عاصی شمار
دیکھ لے فردیں تمام از ابتدا تا انتہا
نور کا اک سلسلہ آدم سے تا ختم الرسل
حُسن کے لاکھوں مقام از ابتدا تا انتہا
اے نیاز ان پر اور ان کی آل پر پہیم درود
اے نیازؔ ان پر سلام از ابتدا تا انتہا
-
خواب میں جب بھی مدینہ نظر آتاہے مجھے
رات میں دن کا اُجالا نظر آتا ہے مجھے
وقت کو یاد دلاتا ہوں سہارا اپنا
جب کوئی کام بگڑتا نظر آتاہے
دیکھ لینے دے دمِ نزع مجھے روئے رسول
ٹھیر! اے موت ابھی اتنا نظر آتا ہے مجھے
مجھ کو بچپن سے تمنا تھی کہ میں نعت لکھوں
آج یہ خواب تو سچّا نظر آتا ہے مجھے
اب ترا گردشِ ایّام خدا حافظ ہے
میں تو رخصت کہ مدینہ نظر آتا ہے مجھے
ایک ہی در سے بر آتی ہے کہاں سب کی اُمید
ہاں مگر ایک در ایسا نظر آتا ہے مجھے
جوبھی دیتا ہے خدا ،اُن کے وسیلے سے نیازؔ!
وہ طلب سے بھی زیادہ نظر آتا ہے مجھے
t
نیرؔ مدنی
(۱۹۱۳ء الہ آباد یوپی…۱۷؍ اگست ۱۹۸۳ء کراچی)
انوار فروشِ دوعالم ہے ایک شمعِ جمیل ِ بزمِ اُحد
یا صبحِ ازل کے چہرے سے اٹھی ہے نقابِ شام اَبد
اللہ رے اثر اس دنیا میں اک اُمی لقب کی آمد کا
ہیں سربگریباں اہلِ زباں حیران وپریشان علم وخرد
محدود نظر تیری جانب دیکھے بھی توکیونکر دیکھ سکے
اتمام ہوئی ہے آکے تری  ہستی میں جمال ذات کی حد
لاریب درود پاک تراباطل کے لیے پیغامِ فنا
لاریب کہ تیری ہستی ہے ظلمت کے جگر پرنور کی زد
وہ لوگ بھی صادق کہتے تھے ان کی بھی نگاہوں میں تھے امیں
جوراہ میں کانٹے بوتے تھے رکھتے تھے جو دل میں آپ سے کَد
اب حد سے فزوں ہے آپ کا غم، مایوسیٔ پہیم طرفہ سِتم
سرکارِ دو عالم چشمِ کرم ،مختار دو عالم میری مَدد
دیدار کے پیاسے اہل یقیں شبنم بھی حزیں نیرؔ بھی حزیں
اے ساقی صہبا خانۂ دیں اے شاہدِ بزمِ نازِ احد
-
خرد کا وہم قدم کو جو ڈگمگا نہ سکے
فرشہ گرد رہ مشتِ خاک پانہ سکے
اٹھا لیا بہ طفیل حبیب حق ہم نے
وہ بار غم جسے روح الامیں اٹھا نہ سکے
جلا گئے دلِ مومن میںوہ چراغ حضور
ہوائے دامنِ باطل جسے بجھا نہ سکے
اب اس مقام پہ ہے کاروانِ شوق جہاں
ہجوم یاس بھی قدموں کو ڈگمگانہ سکے
تصورات کی محفل نہ ہوسکی برہم
حوادث آپ کے درسے ہمیں اٹھانہ سکے
اگر نقاب رخ مصطفی سرک جائے
تجلی وسعت کونین میں سما نہ سکے
حضور اذن حضوری جو مرحمت فرمائیں
سوال زادِ سفر درمیاں میں آنہ سکے
کبھی کبھی یہ خود اپنے سے پوچھتے رہیے
گئے نہیں کہ درمصطفی پہ جانہ سکے
یہ اضطراب کہ دل خون ہوگیا نیرؔ
یہ احتیاط کہ آنسو مژہ تک آنہ سکے
.
پیکر عشق نبی کی چاک گریباں والے
نور ہی نور ہیں سوزِ غمِ ہجراں والے
جن کو سرکار کہیں چاک گریباں والے
ان کے قدموں سے لپٹ جا غم دوراں والے
میں نے صحرائے مدینہ کی زیارت کی ہے
مجھ سے آنکھیں نہ ملائیں چمنستاں والے
میں گدائے درسرکار ہوں میرے درپر
بھیک لینے کے لیے آسروساماں والے
زخمی زخمی جگر فاطمہ زہرا کی قسم
خودگلستاں ہیں محمد کے گلستاں والے
ٹوٹنے والاہے دنیا سے تعلق میرا
چند روزاور بھی صبراے غم ہجراں والے
t


واصل عثمانی، محمد
(۳؍جولائی ۱۹۳۵ء اِلٰہ آباد )
اس طرح بھی اکثر اے واصل اللہ کی رحمت ہوتی ہے
طیبہ کی تمنا تھی دل میں آج اُس کی زیارت ہوتی ہے
اشکوںکی زباں سے کہہ جاؤں یا رب میں یہیں پر رہ جاؤں
مشکل تو نہیں کوئی مولا ایسی بھی توقسمت ہوتی ہے
کیاجانیے کتنافرق ملا طیبہ کی عباد ت میںہم کو
پہلے بھی عبادت ہوتی تھی اوراب بھی عباد ت ہوتی ہے
محراب و ستوں فرش ومنبر ہرایک جگہ وہ پیش نظر
محسوس یہ ہوتاہے ہردم اب اُن کی زیارت ہوتی ہے
یارب نہ کبھی یوں دل ٹوٹے مجھ سے نہ در آقا چھوٹے
جاتے ہیں سنور دین ودنیا جب اُن کی عنایت ہوتی ہے
حالِ دلِ مضطر تم نہ کہو، بس نعتِ رسولِ پاک لکھو
اس طرح سکوں مل جائے گا یہ دل کو ودیعت ہوتی ہے
سنتے تھے مدینے کی ہرشے اک منبع نور رحمت ہے
اب آج سنی باتوںپہ یہاں آنکھوں سے شہادت ہوتی ہے
اس طرح میں ان کا ذکرکروں ماہر کی زمیں میں لکھوں
طیبہ کی زمیں پاجائے گا واصلؔ یہ بشارت ہوتی ہے
t


محمد کلیم و محمد کلام
وجد ؔچغتائی
(۸؍ دسمبر ۱۹۲۷ء گوالیار … ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۳ء کراچی)
وجودِپاک کے پردے میں رازِ کن مستور
وہی ازل کا اجالا وہی ابد کا سرور
وہ روشنی جو احد سے ملی ہے احمد کو
ہزار نام سے وہ روشنی ہوئی مشہور
بہت وسیع ہے وہ دامنِ رؤف و رحیم
کوئی ہو ظالم و مظلوم جابر و مجبور
وہ روحِ دہر نہیں ہے وہ روحِ عصر بھی ہے
وہی کہ انفس و آفاق پر ہوا مامور
وہ رہ گزر ، وہ مسافر ، وہ منزلِ مقصود
وہی نظر، وہی ناظر ،وہ غیب میں بھی حضور
یہاں کلام بھی در پردہ بالمقابل بھی
یہاں حدیثِ دگر ہے کوئی کلیم نہ طور
کھلی کتاب ہے جس کی حیاتِ فکر ونظر
وہی ہے حق وصداقت کا بولتا دستور
وہی قلم ، وہی تعلیمِ زیست کا درماں
اُسی کے نطق نے بخشا ہے عالمی منشور
سجودِ کعبہ کی نیت کہ پنجگانہ کی بات
جو امر قلبِ مبارک پہ ہوگیا منظور
وہی ہے آیۂ رحمت وہی رؤف و رحیم
وہی ہے کامل و اکمل ، اسی کا نور ظہور
ہزار عالمِ امکاں ہے اُس سے وابستہ
اُسی کی ذات ہے مظہر اُسی کی ذات ظہور
بسا لیاہے جو دل میں تو وجدؔ ! پالو گے
جہانِ عشق ومحبت میں کوئی قرب نہ دور
t
وزیرؔ پانی پتی
(۴؍ نومبر ۱۹۳۵ء پانی پت … ۶؍ اگست ۲۰۱۰ء کراچی)
ہوش والوں ہی میں شامل ہیں نہ دیوانوں میں ہیں
ہم تو اے شمعِ دوعالم تیرے پروانوں میںہیں
ساقیٔ کوثر تمھارے تشنہ کاموں کے یہ دل
میکدے کے میکدے محفوظ پیمانوں میںہیں
بوئے گل تیری ہی باتوں کی مہک سے مستعار
رنگ تیرے ہی تبسم کے گلستانوں میں ہیں
فقر کی دولت سے مالامال ہیں تیرے فقیر
کچھ نہیں رکھتے مگر چرچے سلیمانوں میںہیں
خوفِ دوزخ اورہمیں زاہد خدا کانام لے
سوز غم رکھتے ہیںدل میں سوختہ جانوں میںہیں
نور افشاں ہیں تومہتابِ مدینہ کے طفیل
شمعیں جتنی بھی زمانے کے شبستانوں میں ہیں
t
وضاحت نسیم
(۱۷؍جون ۱۹۵۶ء کراچی)
کون و مکاں میں ایک صدا ہے ، صبح و شام ہے صل علیٰ
فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک آپ کا نام ہے صل علیٰ
خالقِ کل کو اپنے شایاں آخر اک محبوب ہوا
یوں تبلیغِ دینِ مبیں کو اذنِ دوام ہے صل علیٰ
ہاتھ آئی اک نعمتِ عظمیٰ، مدحِ رسالت کیسے ہو
ہر اک دور میں آپ کی بعثت اک انعام ہے صل علیٰ
دیکھ لیا کہ سیرتِ عظمیٰ ہر پہلو سے مکمل ہے
اسمِ مقدس، رتبۂ عالی اک پیغام ہے صل علیٰ
بیگانے تھے ہر اک جانب اور مخالف رستے تھے
کیسے ان کو راہ پہ لائے، کیا آلام تھے صل علیٰ
اک بے دیں کو کون بتائے کون و مکاں ہیں کس کے لیے
اس دنیا کا راز تو سارا طشت از بام ہے صل علیٰ
بے جہتی کا ، بے سمتی کا ایک تدارک اور بس ایک
جو قرآن کی صورت میں ہے ایک نظام ہے صل علیٰ
t
وفاؔ براہی
(۱۹۱۷ء پٹنہ بہار…۴؍دسمبر۱۹۹۳ء کراچی)
سرور مرسلیں، بندہ کبریا
رحمت دوجہاں خاتم الانبیا
روح صدق و صفا ، جان صد اتقیا
احمد مجتبی ، حضرت مصطفی
ان کی عظمت کا ممکن کہاں تذکرہ
جن کی طاعت سے ادنی بھی اعلیٰ ہوا
ظلمت جہل کو دور جس نے کیا
وہ ہیں شمس الضحیٰ،وہ ہیں نورالہدی
میرے مولا ! وفا ؔکی یہی ہے دعا
اتباع محمد کا دے حوصلہ
t
وفا ؔراشدی،ڈاکٹر
(یکم مارچ ۱۹۲۶ء کلکتہ … یکم نومبر ۲۰۰۳ء کراچی)
اُس  نے کہا تُوکون ہے کیا کام ہے اس جا تِرا
میں نے کہا سودائی ہوں لایا یہاں سودا تیرا
اس نے کہا ہے نام کیا باشندہ ہے کِس مُلک کا
میں نے کہا گمنام ہوں مسکن مِرا کوچہ تِرا
اس نے کہا جا کام کرمسجد میںکر اپنی گزر
میں نے کہا ناکام ہوں کافی ہے دروازہ تِرا
اس نے کہا بے جستجو پوری نہ ہوگی آرزو
میں نے کہا تیرا کرم دکھلائے گا جلوہ تِرا
اس نے کہا ہیں خوبرو عالم میں لاکھوں سوبسو
میں نے کہا کونین میں ثانی نہیں پایا تِرا
اس نے کہا کیا آرزو رکھتاہے اپنے دل میں تُو
میں نے کہا اے شمع رومحشر میں ہو سایا تِرا
اس نے کہا اس کے سِوا کچھ اوربھی ہے مدعا
میں نے کہا دیکھا کروں ہردَم رُخِ زیبا تِرا
اُس نے کہا اب اورکیا مطلب تِرا باقی رہا
میں نے کہا اے دلربا کافی ہے نظاّرا تِرا
اس نے کہا موجود ہے جو اے وفاؔ مقصود ہے
میں نے کہا بس قرب ہو مجھ کو شہِ بطحا تِرا
-
مجھ پر بھی ہو کچھ لطف و عنایات محمد
اُٹھ جائیں نگاہوں سے حجابات محمد
دیکھوں ترے جلوؤں کو میں دن رات محمد
آیا ہے ترے در پہ ترے کا پجاری
مجھ پر بھی نظر مہر کی میں بھی ہوں بھکاری
للہ ملے مجھ کو بھی خیرات محمد
کونین کا مقصدہے دو عالم کی بنا ہے
سب کچھ ہے ترے ہاتھ میں تودستِ خداہے
توچاہے تو بن جائے مری بات محمد
رضواں ہوا قربان تو حوریں ہوئیں صدقے
اک دُھوم فرشتوں میں تھی جب عرش پہ پہنچے
اللہ سے کرنے کو ملاقات محمد
ڈھونڈا ہے سر عرش بھی جا جا کے  گماں  نے
کی اپنی سی پرواز بہت اہلِ جہاں نے
سمجھا نہ کوئی تیرے مقامات محمد
کونینِ کا آئینہ ترا قلب مصفا
ظاہر ترے انداز سے خوشنودیٔ مولا
باتیں تری قرآن کی آیات محمد
دائم رہوں آزاد میں کونین کے غم سے
کچھ د’ور وفاؔ یہ نہیں مولا کے کرم سے
جاری رہے لب پہ مرے دن رات محمد
t
وفاؔکانپوری
(۲۰ ؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کانپور … ۲۴؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
نہ اجلے دن نہ گئی رت کے خواب مانگتا ہوں
خدایا عشق رسالت مآب  مانگتا ہوں
پھر آج تذکرۂ شہر علم ہے مطلوب
شکوہ لہجۂ اُمّ الکتاب مانگتا ہوں
وہ جس کو آیۂ تطہیر سے کیا ہے کشید
قسیم روز ازل! وہ شراب مانگتا ہوں
کسی کی آنکھ نے دیکھانہ ہوجسے اب تک
بہ فیضِ عشق محمدؐ وہ خواب مانگتا ہوں
ترے کرم کی تصدق مگر ولائے رسول
ترے کرم کی طرح بے حساب مانگتا ہوں
وفاؔ جو دل ہی نہیں روح منقلب کردے
وہ انقلاب پسِ انقلاب مانگتا ہوں
-
یوں ہیں محمد کے جلوؤں میں سارے پیمبر جھلمل جھلمل
عکس رخ مہتاب سے جیسے سطح سمندر جھلمل جھلمل
فیض نبی سے لیلۃ اسری تیرا مقدر جھلمل جھلمل
فرش زمین سے عرش بریں تک اک اک منظر جھلمل جھلمل
جوشِ طلب میں دل کا یہ عالم سانسوں کی رفتاربھی مدہم
یادنبی میں نوکِ مژہ پہ طلعتِ گوہر جھلمل جھلمل
اونچے نیچے پیڑوں کے پیچھے روضے کا میناروکلس
چودھویں شب وہ نور کی بارش شہر پیمبر جھلمل جھلمل
عارضِ ُگل پر شبنمی قطرے جو اعجاز دکھاتے ہیں
یوں ہے پسینے کی بوندوں سے چہرہ انور جھلمل جھلمل
کعبۂ دل میں یادِ خدا کے پہلو بہ پہلو عشق رسول
جیسے میانِ آیۂ قرآں سورۂ کوثر جھلمل جھلمل
سرمہ سمجھ کر قبرِ نبی کی خاک لگائی جس نے وفا
کرنے لگا اس نابینا کی آنکھ کا پتھر جھلمل جھلمل
t


محمد پہ لاکھوں درود و سلام
ولیؔ ،محمدرازی،مولانا
(جنوری ۱۹۳۵ء سہانپور)
(غیرمنقوط)
ہردم درودِ سرورِ عالم کہا کروں
ہرلمحہ محو روئے مکرم رہا کروں
اسمِ رسول ہوگا مداوائے دردِ دل
صل علیٰ سے دل کے دکھوں کی دوا کروں
ہر سطر اس کی اُسوۂ ہادی کی ہو گواہ
اس طرح حال احمدِ مرسل لکھا کروں
معمور اس کو کرکے معریٰ سطور سے
ہرکلمہ اس کادل کے دکھوں سے لکھا کروں
گر مرحلہ گراں ہے مگر ہورہے گا طے
اسمِ رسول سے ہی درِ دل کو وا کروں
ہردم رواں ہودل سے درودوں کا سلسلہ
طے اس طرح سے راہ کا ہر مرحلہ کروں
دے دوں اگررسول مکرم کا واسطہ
دل کی ہراک مراد ملے گر دعا کروں
اس کے علاوہ سارے سہاروں سے ٹوٹ کر
اللہ کے کرم کے سہارے رہا کروں
اردو کواک رسالۂ الہام دوں ولیؔ!
لوگوں کو دورِ ہادیِ عالم عطا کروں
t
ہاتفؔ عارفی
(۷؍نومبر۱۹۵۳ء…۱۲؍جنوری ۲۰۰۶ء کراچی )
دل میں اُلفت رکھے نبی کے لیے
یہ ہی بہتر ہے آدمی کے یے
جتنی اُن کے لیے ہے اِس دل میں
اتنی چاہت نہیں کسی کے لیے
مولا بخشے گا ساری اُمت کو
اپنے محبوب کی خوشی کے لیے
جس میں پیارے نبی کا روضہ ہے
دل ہے بے تاب اُس گلی کے لیے
ایک دنیا ہی پہ نہیں موقوف
سارے عالم بنے نبی کے لیے
کوئی مؤمن ہو چاہے ہو کافر
وہ تو رحمت ہیں ہر کسی کے لیے
چشم و دل دونوں وا ہیں ہاتفؔ کے
میرے سرکار آپ ہی کے لیے
t
ہادیؔ مچھلی شہری
(یکم اکتوبر۱۸۷۸ء مچھلی شہر ضلع جونپور…۲۵؍اکتوبر ۱۹۶۱ء کراچی)
سلام
سلام اس پر،بدل دی غمکدوں کی زندگی جس نے
سلام اس پر،دیاِ دنیا کو پیغامِ خوشی جس نے
سلام اس پر، تھا جس کی ذات میں نورِ خدا شامل
سلام اس پر ہوا قرآن جس کے قلب پرنازل
سلام اس پر متاعِ آفرنیش ذات تھی جس کی
سلام اس پر خدا کی بات اک اک بات تھی جس کی
سلام اس پر وقار ایمان کا جس نے کیا ثابت
سلام اس پرشرف انسان کا جس نے کیا ثابت
سلام اس پر جو تھا منزلِ شناسِ رازِ یزدانی
سلام اس پر جو تھا پردہ کشائے حُسنِ سبحانی
سلام اس پر سمجھتا تھا جو لذت دل نوازی کی
سلام اس پر جسے حاصل تھی نعمت چارہ سازی کی
سلام اس پر جولے کر زندگی کا اعتبار آیا
سلام اس پر جو بن کر باغِ ہستی کی بہارآیا
سلام اس پر جو ہر توصیف اور تحمید کی حد تھا
سلام اس پر جو احمد مصطفیٰ تھا جو محمد تھا
t
ہاشم رضا،سید
(۱۶؍فروری ۱۹۱۰ء ضلع اناوا، یوپی … ۳۰؍ستمبر ۲۰۰۳ء کراچی)
چلے ہیں سوئے عدم کے آرزؤے رسول
یہ حوصلہ ہے کہ دم لیں گے روبروئے رسول
ہماری شام لحد کی یہی ہے صبح اُمید
قدم بہ عرصۂ محشر نظر بہ سوئے رسول
مدینہ آگیا اے ساتھیوں ، خموش رہو
انہی فضاؤں میں گونجی ہے گفتگوئے رسول
کن آندھیوں میں جلا تھا، چراغ مصطفی
کن آفتوں کا مداوا بنی ہے خوئے رسول
ہیں تخت و تاج و زر و مال ان کی ٹھوکر میں
رہی ہے جس کے تصور میں آبروئے رسول
نہ سوشل ازم سمجھتے ہیں ہم نہ کیپٹل ازم
ہمارے فہم و فراست کا رُخ ہے سوئے رسول
جمال نورفشاں اور کلام ساز الست
زہے جبینِ محمد زہے گلوئے رسول
ہماری بات ہی کیا ہے بساط ہی کیاہے
کلام رب کو ہوئی جبکہ جستجوئے رسول
ہماری عقل کہاں رتبہ رسول کہاں
کمال عشق سے ممکن ہے جستجوئے رسول
حضورہم نہ ہوئے آپ کے زمانے میں
گلہ کریں گے مقدر کا روبروئے رسول
-
ہیں یوں توبہت لوگ طلب گار مدینہ
لیکن جسے اپنائیں وہ سرکار مدینہ
خورشید قیامت سے اماں کس نے دلائی
پہنچا ہے کہاں سایۂ دیوار مدینہ
ممکن نہیںمٹ جائے نشانِ رہ منزل
باقی ہیں ابھی چند وفادار مدینہ
افلاس کے غم سے کہیں دل ڈر ہی نہ جائے
بے چین نہ کر حسرت دیدار مدینہ
یہ سوچ کے بیٹھا ہوں دوعالم پہ، میں ہاشمؔ!
کھل جائیں گے اک روز تو اسرار مدینہ
t
ہلال نقوی
(۱۸؍فروری۱۹۵۰ء روالپنڈی)
جو غزل میں نے لکھی اس میں کئی ردوقبول
نعت کے اپنے تقاضے نعت کے اپنے اصول
میرے نخل ذات کی ویرانیوں میں ان کا نام
ایک شاخ بے نہال و خشک میں جیسے کے پھول
لب وہ لب جس کی ہر اِک جنبش میں تشریحِ حدیث
دل وہ دل جس کے لیے بے تاب قرآں کا نزول
سب زبانیں جامعیت کا اگر پہنیں لباس
اک فقط میمِ محمد میںہے ہر ابجد کا طول
جن کی دستارِ شرف کے زیر سایہ سب علوم
ایسے ہی انسان ہوتے ہیں رسولوں کے رسول
آپ کے نقش کف پا سے لپٹ کر جاملوں
خود ہی منزل تک پہنچ سکتی نہیں رستے کی دھول
دل رہا غافل جواس ذاتِ رسالت سے ہلالؔ
موت بھی مرگ جہالت زندگانی بھی فضول
t
ہوش ؔ امروہوی
(۹؍جولائی ۱۹۲۴ء امروہہ)
وردِ زباں ہے اب یہی صلی علیٰ محمد
وجہِ سکونِ زندگی، صلی علیٰ محمد
آپ نے اِک نگاہ کی ، ظلمتِ کفر چھٹ گئی
راہِ نجات مل گئی، صلی علیٰ محمد
لاکھوں درود اور سلام ،اُس شہِ دوسرا کے نام
نازاں ہے جس پہ سروری، صلی علیٰ محمد
کوئے حبیب سے صبا ، لائی پیام زیست کا
دل کی کلی سی کھل گئی، صلی علیٰ محمد
جس پہ نگاہِ مہر کی،دہر میں مفتخر ہوا
آپ کی بندہ پروری، صلی علیٰ محمد
آپ فلک پہ کیا گئے ،رفعتِ آسماں بڑھی
قسمتِ مہر و مہ کھلی، صلی علیٰ محمد
آپ کالطف چاہیے ، ہوشؔ کو فکرِ راہ کیوں
آپ ہیں شمعِ رہبری، صلی علیٰ محمد
t
یاور عباس،ڈاکٹر
(۲۱؍ فروری ۱۹۱۷ء دہلی …۲۵؍ اگست ۱۹۸۵ء کراچی)
محراب کرم ہے خمِ ابروئے محمد
رحمت کی گھٹا سایہ گیسوئے محمد
اقدار کے پیمانے ڈھلے قولِ نبی سے
اخلاق کا معیار بنی خوئے محمد
میزانِ عدالت ہے شکن لوح جبیں کی
انصاف ہے منت کشِ ابروئے محمد
جس باغ میں بھی جاؤ مدینہ کی بہاریں
جس پھول کوسونگھو وہی خوشبوئے محمد
ترشا ہواناخن ہے مہ عید فلک پر
اب لائے تصور میں کوئی روئے محمد
ہوں شہر پُر آشوب کراچی میں مگرواہ
دل سجدہ کناں ہے طرفِ کوئے محمد
روشن ہو مقدر کا ستارہ ابھی یاورؔ!
پڑ جائے اگر سایۂ گیسوئے محمد
-
قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے
ڈوبے نہ کبھی میراسفینہ لکھ دے
جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے
اے کاتبِ تقدیر مدینہ لکھ دے
t
یکتاؔ امروہوی
(۱۹۱۱ء امروہہ …۱۴؍جولائی۲۰۰۳ء کراچی)
خدائی میں کیا تھا محمد سے پہلے
خداہی خدا تھا محمد سے پہلے
نہ انساں کوئی عرش تک جاسکے گا
نہ کوئی گیا تھا محمد سے پہلے
کہاں طور اور طور پر نوُرپاشی
اندھیرا پڑا تھا محمد سے پہلے
یہ کون و مکاں ایک ہُو کا مکاں تھا
مکاں کون سا تھا محمد سے پہلے
نہ ذوقِ صباحت نہ کیفِ ملاحت
بھلا کیا مزا تھا محمد سے پہلے
فضا آشنا کب تھے نغماتِ وحدت
خلا بے سدا تھا محمد سے پہلے
جو کچھ ہوگیا ہے جوہے اورجوہوگا
خدا کہہ چکا تھا محمد سے پہلے
خدا کے بھی گھر کی خبر ہے بتاؤ
کہ کعبہ میں کیا تھا محمدسے پہلے
بُجز ایک اللہ کے اور یکتاؔ!
کہاں دُوسرا تھا محمد سے پہلے
t




.
شوقِ بے حد، غمِ دل، دیدۂ تر مل جائے


مجھ کو طیبہ کے لیے اذن سفر مل جائے




نام احمد کا اثر دیکھ جب آئے لب پر


چشم بے مایہ کوآنسو کا گہر مل جائے




چشم خیرہ،نگراں ہے رخ آقا کی طرف


جیسے خورشید سے ذرّے کی نظر مل جائے




یاد طیبہ کی گھنی چھاؤں ہے سرپہ میرے


جیسے تپتی ہوئی راہوں میں شجر مل جائے




نخل صحراکی طرح خشک ہوں وہ ابر کرم


مجھ پہ برسے تومجھے برگ و ثمر مل جائے


/
میرا سکھ سنسار محمد


جی کا چین قرار محمد


صبیح رحمانی …ایک تعارف


میرا سب کچھ تم پر صدقے
نام : سید صبیح الدین صبیح رحمانی ولد سید اسحاق الدین
 
قلمی نام : صبیح رحمانی
میں اور سب گھر بار محمد
تاریخِ پیدائش : ۲۷؍جون ۱۹۶۵ء
 
بانی و سیکرٹری جنرل : نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
 
دُکھ برہا کے کب تک جھیلوں
 
درشن دو، سرکار محمد
 
 
گھورِ اندھیرا، طوفاں بھاری
 
کر دو نیاّ پار محمد
 
 
چھٹ گئے دکھ، بپتا کے بادل
 
جب بھی کہا اک بار محمد
 
 
بپھری موجوں سے کیا ڈرنا
 
جب ہوں کھیون ہار محمد
 
 
بھیک دیا کی سلیمؔ کو دے دو
 
لطف و کرم آثار محمد
 
 
====سلیم فوز====
 
(۲۸؍فروری۵ ۱۹۶ء خانیوال)
 
تری یاد وہ دلِ مضطرب میں سکون کو جو اُتار دے
 
تو وہ آئینہ کہ جو عکس پر نئے خدّوخال اُبھار دے
 
 
ترا دھیان وہ کڑی دھوپ میں جوگھنیری چھاؤں کا آسرا
 
ترا اسم وہ جو خزاں رسیدہ شجر کو اذنِ بہار دے
 
 
تو وہ رہنما کہ جو دیکھتا ہے غبارِ راہ کے پار بھی
 
جو بھٹک گئے ، ترا نقشِ پا انہیں منزلوں کو سدھار دے
 
 
میں وہ بے ہنر جو نہ پا سکاتری خاکِ شہر کا مرتبہ
 
مری عاجزی کوقبول کر مری عافیت کو سنوار دے
 
 
میں وہ کم نظر کہ جو خواہشوں کے  بھنور میں گھرتا چلاگیا
 
ترا ذکر وہ کسی ڈوبتے کو جو ساحلوں پہ ابھار دے
 
 
تجھے سوچ کر مرے جسم و روح میں پھیلتی ہے جو روشنی
 
اُسی روشنی سے مرے سخن کی صداقتوں کو نکھار دے
 
-
بتا دیا مری منزل کا راستہ مجھ کو
 
مرے نبی کے بکھرنے نہیں دیا مجھ کو
 
 
میں صرف خاک تھا اُن کے ظہور سے پہلے
 
کیا ہے ربطِ محبت نے کیمیا مجھ کو
 
 
میں وہ فقیرجو آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے
 
کرم کی بھیک ملے شاہِ انبیا مجھ کو
 
 
تمہاری یاد گُہر بن گئی ہے سینے میں
 
کہ آگیا ہے ستارہ تراشنا مجھ کو
 
 
میں ٹوٹ جاتا ہوں جب گردشِ زمانہ سے
 
تمہارے ذکر سے ملتا ہے حوصلہ مجھ کو
 
 
ملا ہے مجھ کو سبھی کچھ تمہاری نسبت سے
 
بس اب دکھا دو مدینے کا راستہ مجھ کو
 
 
میں بند آنکھوں سے دیکھوں تمہارے روضے کو
 
سکھا دو ایسا کوئی اسم یا دُعا مجھ کو
 
 
سلیم فوزؔ نے دیکھے ہوئے ہیں خواب بہت
 
عطا ہو مسجدِ نبوی کا رتجگا مجھ کو
 
 
====سوزؔ شاہجہاں پوری====
 
(۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء شاہ جہاں پور… ۲۳؍ جنوری ۶ ۹ ۹ ء کر اچی)
 
نہ گمان ہے نہ یقین ہے ،جو نظر میں ہے وہی راز ہے
 
یہی عشق کی ہیں حقیقتیں ، یہی اصلِ ناز و نیاز ہے
 
 
مِرے لب پہ نام حبیب کا ،مِرے دل میں یاد رسول کی
 
یہی بندگی کانظام ہے ، یہی عاشقوں کی نماز ہے
 
 
وہی حسنِ ذات کاراز داں، وہی نورِ عرش کا مدح خواں
 
وہی لااِلٰہ کا راز ہے ،وہی سوز ہے وہی ساز ہے
 
 
ہو زباں پہ ذکرِ نبی اگر ، تو جہاں ہے منزلِ بے خطر
 
یہ عجیب جادۂ عشق ہے ،کہ نشیب ہے نہ فراز ہے
 
 
وہ فلک پہ شانِ جمال ہے ، یہ زمیں پہ عکس جمال کا
 
یہی ایک فرق ہے درمیاں ، یہی ایک پردۂ راز ہے
 
 
جو عرب کاحسنِ تمام تھا ، وہ عجم کے دل کا سکوں ہوا
 
وہ حبیبِ ذاتِ اِلٰہ ہے ، وہی جانِ راز و نیاز ہے
 
 
جو غلامِ شاہِ انام ہیں ،اُنہیں سوزؔ! اِ س سے ہے واسطہ
 
کہ جہاں کہیں ہو وہ نقشِ پا ، وہی سجدہ گاہِ ایاز ہے
 
 
====سہیل احمد صدیقی ====
 
(۱۵؍دسمبر ۱۹۶۴ء کراچی)
 
نعتیہ ہائیکو
مجھ سے ہیں بہتر کرتے ہیں بہتر کیا ماضی کیا حال؟ مانندِ شبنم
پنکھ پکھیرو کرتے ہیں روضے پہ حاضر طائر صلِ علیٰ کا ورد کرے روضے پہ جب حاضر ہوں
ذکر پیغمبر نعتِ پیغمبر خوش بخت و خوش حال ہو دیدہ پُرنم
 
دائم ہے سکھ چین جن و ملک حیراں اصل کائنات
پہلوئے آقا میں دیکھ ایک ہی جست میں اسرا کی حور و غلماں قرباں ہوں
خوابیدہ شیخین ہر منزل آساں فخرِ موجودات
t
 
====سید اشتیاق اظہرؔ====
(۳؍مئی ۱۹۲۴ء کانپور … ۴؍نومبر ۱۹۹۹ء ، کراچی)
رسول ہاشمی نے جو سبق ہم کو پڑھایا تھا
اگر ہم اس سبق کویاد کرلیں دلنشیں کرلیں
اگر ہم آج پھر پڑھ لیں سبق مہرومحبت کا
اگر ہم خود کو پھر وارفتۂ دینِ متیں کرلیں
اگر ہم آج پھر ہوجائیں گرویدہ صداقت کے
اگرہم اس سبق کو اوربھی دل کے قریں کرلیں
مساوات ومودت پراگرایمان لے آئیں
اگر ہم خود کووقفِ حکمِ رب العالمیں کرلیں
یقیں ہم کو اگر ہوزندگی کی بے ثباتی کا
حیاتِ چند روزہ نذرِ ختم المرسلیں کرلیں
اگر  ہم آشنا ہوجائیں ملت کے تقاضوں سے
پیام حق کو سمجھیں امیتازِ کفرودِیں کرلیں
نبی کے آخری پیغام کو پھر حفظ کر ڈالیں
خداکے دین کی سچائیوں پر پھر یقیں کرلیں
زمیں پر آخری امت کے اس اعزاز کی خاطر
ہم اپنے آپ میں پیدا خلوصِ مومنیں کرلیں
ٍخلوص مومنیں خوشنودیٔ آقا کا باعث ہے
چلو اورچل کے یہ پیش شفیع المذنبیں کرلیں
کہاں تک معصیت کی داستاں دہرائے جائیں گے
مناسب ہے کہ اب ہموارراہِ واپسیں کرلیں
زمیں پر عظمت آدم کے جلوے عام کرڈالیں
کبھی توخود کو بھی ہم رُتبہ مہرٔ مبیں کرلیں
طوافِ کعبہ اپنا کعبۂ مقصود بن جائے
مدینے کے سفر کو اپنا عزمِ اولیں کرلیں
سزاوارِ کرم بن جائیں ماضی کی طرف لوٹیں
حرم کی خاک سے آراستہ اپنی جبیں کرلیں
تواپنے حال پر اللہ کا انعام ہوجائے
یہ ارضِ پاک پھر گہوارۂ اسلام ہوجائے
t
====سید فضل احمد کریم فضلیؔ====
(۴؍نومبر۱۹۰۶ء الہٰ احمد کریم…۱۷؍دسمبر۱۹۸۱ء کراچی)
ہے اگر کائنات ایک رباب
ذات پاکِ حضور ہے مضراب
سب میںکچھ کچھ کمی سے لگتی ہے
جوبھی آتے ہیں ذہن میں القاب
وہ کہ ان کا نہیں کوئی بھی مثیل
وہ کہ ان کانہیں کوئی بھی جواب
ان کی ذات وصفات اک دریا
اور الفاظ میرے مثل حباب
بے نواؤں کوعظمتیں بخشیں
ان کی عظمت کی کوئی حدنہ حساب
نور ان کا ہے کردیا جس نے
ذرے ذرے کومہرِ عالم تاب
قوم جوعلم سے تھی بے بہرہ
کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب
بے ادب بادیہ نشینوں کو
آئے موت وحیات کے آداب
موت کویوں بنادیا محبوب
لوگ مرنے کوہوگئے بے تاب
دولت وملک ونسل کی تفریق
تھی جو انسانیت کے حق میںعذاب
یوں مٹا دی کہ بوذر و سلماں
ہو گئے ہمسرِ عمر خطابؔ
آپ ہی کی بتائی وہ نکلی
جب بھی سوجھی کسی کوراہِ صواب
ان کا پیغام جس نے اپنایا
آگیا اس کی زندگی پہ شباب
روح کو ان کے عشق سے آرام
دل ہے گو اُن کے عشق میں بیتاب
ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے
سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب
ذکرِ پاک اُن کا اور تو فضلیؔ
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
t
====سیف حسن پوری====
(۱۹۲۵ء حسن پور گیابہار…یکم فروری ۲۰۰۶ء کراچی)
خوبی نہ پوچھ اہلِ محبت سے پھول کی
ہر پنکھڑی سے آتی خوشبو رسول کی
ہم نے جو داد مطلع کی اپنے وصول کی
تعریف کی خدا کی خدا کے رسول کی
ہاتھ آگیا حضور کی سیرت کا آئینہ
تالیف ہو گئی مرے قلبِ ملول کی
نوعِ بشر کو واقفِ سود و زیاں کیا
دکھلائی راہ زیست کے اصل الاصول کی
جب چھڑگیا کبھی رُخِ زیبا کاتذکرہ
آنکھوں کے آگے کھنچ گئی تصویر پھول کی
انسانیت کونورِ ہدایت ہوا نصیب
کس دل فریب لمحے میں آدم نے بھول کی
گوعمر کاٹ دی ہے گناہوں میں تو نے سیفؔ!
اب فکر کر بہشتِ بریں کے حصول کی
t
 
====سیما شکیب====
( ۱۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کراچی)
نہ تھا کچھ بھی یہاں ہوتے ہوئے بھی
جہاں کب تھا ، جہاں ہوتے ہوئے بھی
خدانے ایک اُمی پرکیا تھا
عیاں سب کچھ،نہاں ہوتے ہوئے بھی
شبِ معراج تھم کررہ گئی تھی
ہراک ساعت رواں ہوتے ہوئے بھی
جُھکے تھے آپ کی تعظیم کرنے
وہ سب کروبیاں ہوتے ہوئے بھی
حرا کی پاک خاموشی سے پُوچھو
میں کیوں چُپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی
وہ فرشِ خاک پرآرام فرما
شہہِ کون ومکاں ہوتے ہوئے بھی
حرارت عشق کی،نغمہ بلالی
اذاں کب تھی،اذاں ہوتے ہوئے بھی
سفر ہجرت کا تھا رحمت خداکی
ہجومِ دُشمناں ہوتے ہوئے بھی
ثنا کا حق ادا کب ہوسکا ہے
زباں ، زورِ بیاں ہوتے ہوئے بھی
t
====سیّد آل رضا====
(۱۰؍جون ۱۸۹۶ء ضلع اناوا ودھ…یکم مارچ۱۹۷۸ء کراچی)
تہذیبِ عبادت ہے سراپائے محمد
تسلیم کی خوشبو چمن آرائے محمد
تنظیمِ خدا ساز تمنائے محمد
منشا جو خدا کا وہی منشائے محمد
جس دل میں ہے اللہ وہیں رہتے تھے یہ بھی
اللہ جو کہتاہے وہی کہتے ہیں یہ بھی
اللہ کی طاعت ہے محمد کی اطاعت
قرآن کی دعوت ہے محمد کی اطاعت
مرکز کی حفاظت ہے محمد کی اطاعت
حد بند شریعت ہے محمد کی اطاعت
ہوجتنا شعور،اتنا ہی اس حد کو سمجھ کر
اسلام کو سمجھو ، تو محمد کو سمجھ کر
اللہ ہے کیا ؟ جس نے بتایا وہ محمد
پیغام سا پیغام جو لایا ، وہ  محمد
آیات میں پیوست جو آیا ، وہ  محمد
جس نے بشریت کو سجایا وہ محمد
معیار بنا بارگۂ عزوجل میں
آہنگِ محمد ، صفت قول و عمل  میں
t
====سیّد سلیمان ندوی ،علامہ====
(۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ضلع ؟؟؟بہار…۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء کراچی)
نقش جس قلب پہ نام شہہ ابرار نہیں
سکۂ قلب ہے وہ درخور بازار نہیں
توہے مجموعہ خوبیٔ وسراپائے جمال
کونسی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں
مجلسِ شاہ میں ہے نغمۂ تسلیم و درود
شورِ تسبیح نہیں،شورش افکار نہیں
ذرّہ ذرّہ ہے مدینہ کا تجلی گہہ نور
دشتِ ایمن یہ نہیں،جلوہ گاہِ نار نہیں
جان دے دے کے خریدار بنے ہیں انصار
عشقِ زارِ نبوی مصر کا بازار نہیں
شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں
کونسا ذرّہ وہاں مطلع انوار نہیں
ہرقدم بادصبا،حسن ادب سے رکھنا
بوئے گیسوئے نبی نافۂ تاتار نہیں
صیدِ مژگانِ محمد ہیں، غزالانِ حرم
اس لیے ناوک وپیکاں کے سزاوار نہیں
t
====سیّد محمد جعفری====
(۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء …۷؍جنوری ۱۹۹۹ء، کراچی)
سلام بھیجوں، درود اُس نبی کو نذر کروں
کہ جس کو رحمتِ ُکل عالمین کہہ توسکوں
بلند مرتبت ایسا رسول بھیجا گیا
کہ گرخدا نہ کہوں اُس کو ناخداتوکہوں
یہ شعرِ حضرتِ اقبال مجھ کو یاد آیا
کہ آبروئے بشرجس سے ہوگئی افزوں
’’خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے‘‘
’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘
محمدِ عربی ہیں کہ جن کے صدقہ میں
دلِ بشر کو خدا نے دیاہے سوزِ دروں
اُنھیں کے نور سے ہر خلعتِ وجود ملا
انھیں کے نور سے روشن جہانِ بوقلموں
محمد عربی وجہِ خلقت افلاک
ودیعت اُن کو ہوا رب سے رازُِ کن فیکوں
’’محمد عربی آبروئے ہر دوسرا‘‘
انھیں کو قرب ملاہے ملائکہ سے فزوں
بلندیاں شبِ معراج وہ ملیں کہ جہاں
اگرہے عقلِ بشر کچھ توایک صیدِ زبوں
نہ نفسِ ناطقہ پہنچے،نہ لفظ ساتھ چلیں
بیاں کروں شبِ معراج کاتوکیسے کروں
اک عبد خاص ہے مہمانِ حضرت معبود
چمک رہاہے سرعرش ہر درمکنوں
وہ فاصلہ جو تھا قوسین بلکہ اس سے بھی کم
مقرّب اتنا کوئی ہے ملک سے کیا پوچھوں
یہ جبریل نے سدرہ پہ جاکے عرض کیا
تجلیوں سے جلیں پرگراس سے آگے چلوں
وہ ذات پاک ہے لے کرنبی کو جوآیا
حریم کعبہ سے اقصی تک اس کی حمد کروں
ہیں انبیاء سلف راستے میں صف بستہ
دلوں میں اپنے لیے اشتیاق حد سے فزوں
وہ آدم اور وہ ادریس و نوح و ابراہیم
وہ یوسف اور سلیمان و یونسِ ذوالنوں
کھڑے ہیں موسی عمراں وخضر بھی ان میں
لیے ہوئے یدِبیضا عصا و ُمہر سکوں
وجیہِ عقبیٰ و دنیا وہ عیسی مریم
ہیں منتظر کہ یہ آئیں تو میں قدم لے لوں
بلایا کیوں شب معراج اور کہا کیا کچھ
خدا ہی جانتا ہے اس میں کیا ہے رازِ دروں
خدا کرے کہ ملے جعفری کو یہ توفیق
درود بھیجے جو حدوشمار سے ہو بروں
 
====سیّد مظفر احمد ضیا====
(۱۵؍جولائی ۱۹۳۱ء میرٹھ…۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کراچی)
آگیا دہر میں جینے کا قرینہ مجھ کو
میرے مولانے دکھایا ہے کہ مدینہ مجھ کو
اب بھلا بھائیں گے کیا بادہ و مینا مجھ کو
آب کوثر سے بھرا جام ہے پینا مجھ کو
کسی طوفان کا ڈر تھا نہ بھنور کاہی خیال
لے چلا جانب  طیبۂ جو سفینہ مجھ کو
میں نے اک خواب سادیکھا تھا کہ بس نور ہی نور
ہونہ ہو شہر یہ لگتا ہے مدینہ مجھ کو
چشم حیراں کہ تھی محروم تماشہ کب سے
آپ کے در سے ملا دیدۂ بینا مجھ کو
جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی
زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو
آپ کے در پہ تہی دست ہی آیا تھا یہاں
مل گیا رحمتِ باری کا خزینہ مجھ کو
اس لیے تر ہے مرا خامہ مژگاں کہ ضیا
آسکے نعت نگاری کا قرینہ مجھ کو
t
====شاداب احسانی====
(۱۴؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی)
سرزمینِ مدینے کے صدقے شاخِ دل لہلہانے لگی ہے
سیرتِ پاک پڑھنے سے مجھ کو زندگی راس آنے لگی ہے
علم کا استعارہ محمد ، مصطفیٰ مصطفیٰ مصطفیٰ بس
میں نے تکیہ کِیامصطفی پہ تب جہالت ٹھکانے لگی ہے
کیا بتاؤں میں شانِ رسالت معجزے آپ کے ہیںبہت خوب
ماہِ دو نیم یاد آرہا ہے چاندنی جھلملانے لگی ہے
اب تو مجھ میں دیارِ مدینہ پڑھ رہا ہے محمد محمد
دل مرا دف بجانے لگا ہے آرزو گنگنانے لگی ہے
ناز کر خود پہ شادابؔ ہرپل رحمت اُن کی تری ذات پر ہے
ایسے آقا سے نسبت ہوئی کہ تیرگی منہ چھپانے لگی ہے
t
====شان الحق حقی====
(۱۵؍ ستمبر ۱۹۱۷ء دہلی … ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء ٹورانٹو، کینیڈا)
مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے
مرا تو بس یہی ایماں و دیں ہے
اگر تم مقصد عالم نہیں ہو
تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے
نہیں میں واقف سر الٰہی
مگر دل میں یہ نکتہ جا گزیں ہے
جو دل انوار سے ان کے ہے روشن
وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے
نہ کہیے ان کا سایہ ہی نہیں تھا
کہ ثانی تو کوئی بے شک نہیں ہے
مگر جس پر بھی سایہ پڑ گیا ہے
وہ انساں نازش روئے زمیں ہے
وہ شہر بے حصار ان کا مدینہ
کہ جس کی خاک ارمان جبیں ہے
نہ پوچھو ہے حصار اس کا کہاں تک
یہ المغرب سے تا اقصائے چیں ہے
جھکی جاتی ہے خود سجدے میں گردن
نہ جانے کفر ہے یا کار دیں ہے
کہ دل میں ماسوائے اسمِ احمد
نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے
-
سخن کو ان کے حسیں نام سے سجاتے ہیں
ہم اپنا مان اسی صورت سے کچھ بڑھاتے ہیں
بساطِ فکر چمن زار ہو گئی گویا
جو لفظ ہوتے ہیں موزوں ،مہکتے جاتے ہیں
ملی ہے اِن کو جو کچھ اُن کے رنگ و بو کی رمق
توپھول جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں
بہ پیشِ نورِ ازل جائے استعارہ کہاں
جو نقش سامنے آتے ہیں بجھ سے جاتے ہیں
ہے ذاتِ حق اَحَد وحیّ و مالک وداور
ہم ان حروف میں ان کابھی نام پاتے ہیں
خداکی دین یہ گلہائے نعت ہیں،جن کو
ہم اپنی ہیکلِ تخییل پر سجاتے ہیں
ہمیں شکایتِ محرومیِ نظارہ نہیں
انہیں توہم کھلی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں
کرشمے ہیں اسی نورِ ازل کے ماہ و نجوم
یہ سب انہی کے ہیں جلوے جو جگمگاتے ہیں
اداہو کس سے بھلا حق ثنائے خواجہ کا
نہ پوچھئے کہ یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں
t
====شاہ حسن عطاؔ====
(۲۵؍مارچ رائے بریلی … ۷؍ جولائی ۱۹۸۱ء کراچی)
نہیں کہ تجھ کو بشر ہی سلام کرتے ہیں
شجر حجرَ بھی ترا احترام کرتے ہیں
اسی  سے گرمیٔ محفل ہے آج بھی قائم
کہ تیرا ذکر جہاں میں مدام کرتے ہیں
وہ ضبطِ نفس وہ سرمستیِ پیام ِ الست
ترے حضور فرشتے قیام کرتے ہیں
تری طلب میں جو رہتے ہیں رہ نورد یہاں
وہی توسارے زمانے میں نام کرتے ہیں
مصافِ زیست میں جاں دادگانِ عشق ترے
ہر ایک آفتِ دوراں کو رام کرتے ہیں
ترا یقیں ہے فزوں تر،مہ و ثریا سے
کہ اس کے نور سے برپَا نظام کرتے ہیں
رہِـ جنوں کی طلب میں بھی جَاں نثار چلیں
رہِ خرد کا جو یہ اہتمام کرتے ہیں
ملی ہے جن کو محبت تری زمانے میں
خموش کارِ اُمم وہ غلام کرتے ہیں
تری قیادتِ عُظمیٰ ہوئی ابد پیما
کہ تجھ کو سارے پیمبرَ امام کرتے ہیں
تری زباں کے توسط جو مانتے ہیں کتاب
وہ کیوں حدیث میں تیری کلام کرتے ہیں
جو مستحق تھے عقوبت کے ہیں وہ خُلد نشیں
نگہ کرم کی شہِ ذی مقامَ کرتے ہیں
سکھائے تو نے جوپیکار وصلح کے آئیں
جہاں کی رہبری تیرے غلام کرتے ہیں
ترا مقام ہے اب تک نظرسے پوشیدہ
اگرچہ ذکر تیرا خاص و عام کرتے ہیں
-
تیری خیر البشری زد میں نہیں شک کے ذرا
تو نے انساں کو دلائی ہے غلامی سے نجات
یہی افلاک جو رفعت میں تحیرّزا ہیں
تیرے قدموں تلے روندے گئے معراج کی رات
دید جس کی نہ میسر کبھی موسیٰ کو ہوئی
تجھ سے اس خالق کونین نے کی کھل کے بات
یہ تفاخر بجز از روح قدس کس کو ملا
کس نے کھینچی ہے بھلا تیری سواری پہ قنات
تیرے افکار سے دنیائے توہمّ ویراں
تری آمد سے گرے خاک پہ سب لات ومنات
منفعل تری تجلّی سے روِاحہؓ  کا سخن
پوری اتری تری قامت پہ نہ حساّن کی بات
محو حیرت تری مداحی میں خاقانی ہے
سعدی وقدسی وجامی سبھی محوصلات
بدراولیٰ میں تری ژرف نگاہی کی قسم
تو نے مومن کو دیاِ ذوق شعور آفات
حشر میںترے جلو میں ہے ملائک کا ہجوم
ذاتِ باری کے سوا سب پہ فزوں تیری ذات
اک اشارے پہ تری سب نکل آئے گھر سے
صفِ جنگاہ میں زہاُد بنے کوہ ثبات
داستاں خونچکاں تھی سفرِ طائف کی
پنڈلیوںسے دم احمر کی تراوش ہئییات
چمن دہر میں رحمت کی چلی باد نسیم
زمزمہ خواں تری آمد پہ مدینہ کی بنات
یہ تو اک رہ گزرِ عشق پیمبر ہے حسنؔ
ہے ابھی دور بہت منزلِ اعمالِ نجات
t
====شاہدؔ اکبر آبادی====
(وفات:۸؍جون ۱۹۹۳ء کراچی)
اے امین ِ کن فکاں،اے خاتم حق کے نگیں
اے دلِ یزداں کی دھڑکن اے شفیع المذنبیں
اے شبِ اسری کی زینت اے امام المرسلیں
اے کتاب عالمِ امکاں کے بابِ اولیں
السلام اے بے عدیل و بے مثال و بے نظیر
اے رئیس ِقدسیاں اے عرشِ اعظم کے سفیر
آپ وہ ہیں مصدر جود و سخا کہئیے جنہیں
آپ وہ ہیں منبع لطف و عطا کہیئے جنہیں
آپ وہ ہیں مرکزِ صدق وصفا کہیئے جنہیں
آپ وہ ہیں مظہرِ ذات خدا کہیئے جنہیں
آپ مینارِ تقدس آپ کہسارِ یقیں
السلام اے شہرِ علم اے صاحبِ وحیٔ مبیں
یہ جہان آب وگل یہ کوہ دشت وگلستاں
یہ فلک یہ مہرومہ یہ محفلِ سیارگاں
یہ عطارد ، یہ زحل ، یہ مشتری ، یہ کہکشاں
جس سے روشن ہیں یہ صبح وشام یہ کون ومکاں
دن کا وہ مہر منور شب کا وہ ماہِ مبیں
آپ ہیں صرف آپ ہیں یارحمت للعالمیں
کاروانِ شش جہت کے مقتدا سرکار ہیں
نورِحق ،شمس الضحیٰ،بدر الدجیٰ سرکار ہیں
جوہرِ آئینۂ لوحِ قضا سرکار ہیں
نازشِ کونین، فخرِ انبیا سرکار ہیں
سجدگاہِ قدسیاں ہے آپ کا در یا رسول
سرمۂ چشم دوعالم آپ کے قدموں کی دھول
آپ صدرِ بزم امکاں آپ جان ِشش جہات
آپ کا ہر نقشِ پا ہے مشعلِ راہ حیات
ہے جلا بخشش دوعالم جلوۂ ذات وصفات
السلام اے مسند آرائے سریرِ کائنات
آیۂ لولاک و اسریٰ آپ کی شانِ ورود
وجہ تکونینِ دوعالم ذات اقدس کا وجود
نقشِ پاسے آپ کے پھوٹی تمدن کی سحر
خاک کے ذرّوں کو بخشی عظمتِ شمس وقمر
ختم ہے ہر ارتقائے نوعِ انساں آپ پر
آپ ہیں نورالہدی، کف الوری خیرالبشر
محسن ِانسانیت بھی مقصد ِکونین بھی
آپ آنکھوں کی بصارت بھی دلوں کاچین بھی
ُخلق، خُلق بے نہایت ُحسن ُحسنِ بے مثال
دل وہ جس پرآئینہ مستقبل وماضی وحال
زلف پر واللیل رُخ پر آئیہ والفجر دال
آپ شہکارِ مصور آپ تصورِ جمال
موبمو، سر تا بپا ، تنویر یزداں ہیں حضور
عرش نے جس کے قدم چومے وہ انساں ہیں حضور
جانے کب سے منتظر تھیں عرش کی پہنائیاں
آپ نے رکھا قدم بجنے لگیں شہنائیاں
تا بہ سدرہِ اس قدر صدقے ہوئیں رعنائیاں
نور کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئیں پرچھائیاں
ہو گیا ثابت، مجسم نورِ عرفاں آپ ہیں
جسم بے سایہ نہ کیوں ہوعکسِ یزداں آ پ ہیں
مصحفِ ناطق بھی آپ ،آئینہ ِقرآں بھی آپ
آپ شہرِ علم بھی سرچشمۂ عرفاں بھی آپ
عبد بھی اور سر سے پا تک مظہرِ یزداں بھی آپ
جلوۂ صبحِ ازل بھی، جلوۂ فاراں بھی آپ
ابتدا بھی آپ ہی سے، انتہا بھی آپ ہیں
شرح لفظِ کن بھی، ختم الانبیاء بھی آپ ہیں
مقطعِٔ نظم نبوت، مطلعِٔ صبحِ ازل
خالقِ کونین کے دیوان کی پہلی غزل
کھل اٹھا ہرحرف پر تقدیرِ انساں کا کنول
آپ ہر غم کا مداوا، آپ ہر مشکل کا حل
نبضِ فطرت میں تڑپ جس دل  سے ہے وہ دل ہیں آپ
فکر کے ہرکا رواں کی آخری منزل ہیں آپ
====شاہد الوری====
 
(۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ء الور…۱۵؍دسمبر ۲۰۰۴ء کراچی)
 
دونوں عالم میں جمال مصطفی کا آئینہ
اور جمال مصطفی نور خدا کا آئینہ
لے کے آئے تھے اسے عرشِ بریں سے جبریل
آیت اقرا تو ہے غارِ حرا کا آئینہ
ہو نہیں سکتا کبھی عرفانِ ذات مصطفی
دل اگر تیرا نہیں صدق و صفا کا آئینہ
سوچ لے یہ بھی دعا کو ہاتھ اٹھاتے وقت تو
چاہتاہے صیقل نیت دعا کا آئینہ
آخری خواہش یہی میری ہے شاہد الوری
دل مرا بن جائے تسلیم و رضا کا آئینہ
t
====شاہدؔ نقوی====
(۱۵؍جون۱۹۳۵ء۔لکھنؤ…۹؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)
نکلا افق پہ حکم خدا سے وہ آفتاب
تھا جو ازل سے چشم مشیت کا انتخاب
باطل کے ہر خروج کا ظلمت شکن جواب
ظاہر میںایک سادہ ورق اصل میںکتاب
جس کو ازل میں احمد و امجد کہا گیا
امکان کی حدوں میں محمد کہا گیا
اک کہکشاں نظر میں بنائی رسول نے
کرنوں سے بزم فکر سجائی رسول نے
صحرا میں شمع نور جلائی رسول نے
اللہ کی کتاب سنائی رسول نے
تہذیب و تزکیہ کا عجب اہتمام تھا
آواز تھی نبی کی، خدا کا کلام تھا
آیاکلام حق کا ترانہ لیے ہوئے
ہرلفظ جس کا ایک زمانہ لیے ہوئے
اجمال میں طویل فسانہ لیے ہوئے
عالم کے خشک و تر کا خزانہ لیے ہوئے
بے زر نے دامنوں کو جواہر سے بھر دیا
اُمیّ نے جہل فکر کو ذی علم کردیا
t
شاہدہ حسن
(۲۴؍نومبر ۱۹۵۳ء چٹاگانگ)
حکمِ یزداں سے ملا اذن پیمبر سے ملا
مجھ کو مدحت کا ہنر میرے مقدر سے ملا
کب سے اس خانۂ آفت میں مقید تھی میں
اورایسے میں بلاوا مجھے اُس در سے ملا
جلد لے چل مجھے اے شوقِ سفر اُن کی طرف
میرے ہادی میرے آقا مرے رہبر سے ملا
قلزم اشک بہاتی ہوئی پہنچوں گی وہاں
اک اشارہ جو مجھے روضۂ انور سے ملا
ایک اک بوند سے سو پیاس بجھالوں گی میں
جوں ہی اک جامِ مجھے ساقیِ کوثر سے ملا
رمزِ تخلیقِ جہاں خلقتِ احمد میں نہاں
کُن کا مفہوم اُسی چہرۂ انور سے ملا
از ازل تا بہ ابد راہِ ہدایت ہے کھلی
سارا منشور اُسی نور کے منبر سے ملا
لکھ سکا کون سرِ عرش ملاقات کاحال
شب معراج خدا اپنے ہی دلبر سے ملا
اے مرے خواب دکھا نقشِ کف پائے رسول
اے مری نیند کبھی روحِ منور سے ملا
اے زمانے تو مجھے روند کے رکھ دے لیکن
میرے خاشاک کواُس حُسنِ گل ترسے ملا
عصرِ حاضر کے سوالات کی زد پر ہے یہ عقل
آگہی مجھ کو اُسی علم کے دفتر سے ملا
زخم کھا کھا کے دعائیں تھیں لبوں پر جس کے
راہ طائف مجھے اُس صبر کے پیکر سے ملا
دیں کی تلقین کا آغاز ہوا تھا جس جا
اوجِ فاراں مجھے اُس شام کے منظر سے ملا
اُن کی امت میں رکھا بختِ رسا نے مجھ کو
مجھ کو یہ اوج وشرف میرے مقدر سے ملا
t
 
شاہدہ عروج خان
(۱۱؍مارچ ۱۹۶۵ء حیدرآباد سندھ)
نہ سہ پائے باطل، نوائے محمد
کہ جب حق کا پیغام لائے محمد
سعادت بڑی اس سے کیا اور ہوگی
خدا کر رہا ہے ثنائے محمد
جو بیمارِ دل ہیں اُنھیں بھی یقیں ہے
کہ اِک دن ملے گی شفائے محمد
زبان پر ہے حمد و ثنا اُن کی ہر دم
سدا مجھ پہ ہے یہ عطائے محمد
مدینہ مقدس، معطر فضائیں
وہاں پر ہے حمد و ثنائے محمد
تڑپنے لگا تھا اُسی دن سے باطل
کہ جس دن سے دنیا میں آئے محمد
کسی سے غرض ہے، نہ مطلب، نہ لالچ
ہے ہر سانس میری برائے محمد
عروجؔ ! اب تو کوئی بھی خواہش نہیں ہے
مرے دل میں ایسے سمائے محمد
t
شاہین فصیح ربانی
(۴؍نومبر ۱۹۶۴ء،ضلع جہلم)
حرف حرف عزت ہو،لفظ لفظ مدحت ہو
سوچ سوچ ندرت ہو، شعر شعر حرمت ہو
لہجہ لہجہ اَمرت ہو، صفحہ صفحہ عظمت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
پھو ل پھول نکہت ہو، نجم نجم رفعت ہو
زیست زیست چاہت ہو، خواب خواب قربت ہو
روح روح عشرت ہو ، قلب قلب اُلفت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں ، عجز ہو عقیدت ہو
آپ ہی سے نسبت ہو، اس طرح کی قسمت ہو
رنج رنج راحت ہو،درد درد فرحت ہو
چشم چشم حسرت ہو، آپ کی محبت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
سوچ ہو بصیرت ہو، آپ کی سی سیرت ہو
لمحہ لمحہ تسکیں ہو، لحظہ لحظہ راحت ہو
گاؤں گاؤں خوشحالی، شہر شہر جنت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
زندگی کارستہ ہو،ایک ہی تمنّا ہو
اُن کے در پہ جانا ہو، اور فصیحؔ! ایسا ہو
پاؤں پاؤںچلناہو،عمر کی مسافت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو
t
شبنم رومانی
(۳۰؍ دسمبر ۱۹۲۸ء شاہ جہاں پور … ۱۷؍ فروری ۲۰۰۹ء کراچی)
انسان ہیں وہ بھی،مگر
رحمت نفس ،خیر البشر
انسانیت کے واسطے
اُن کی دعائیں رات بھر
ہرظلم کی یلغار میں
سب کے لیے سینہ سپر
ہراک قدم،رفتارمیں
صدیوں کا تہذیبی سفر
انسان ہیں وہ بھی،مگر
انسانیت کے واسطے اک دائمی منشور ہیں
وہ آسماں کانور ہیں
جوخاک سے پیدا ہوا
وہ آفتابِ روح جوادراک سے پیدا ہوا
علمِ حقیقی
ان کے اسمِ پاک سے پیدا ہوا
انسان ہیں وہ بھی ،مگر
اُن کازمانہ        جاوداں
اُن کاپتہ      اسرارِ ذات
اُن کانشاں      رمزِ حیات
اُن کاٹھکانہ شش جہات
اُن کاقدم نقشِ حرم
اُن کاکرم بابِ نجات
اُن کاجریدہ زندگی
اُن کاقصیدہ کائنات
انسان ہوں میں بھی        مگر
میرایہ اندازِ نظر
میرایہ اعجازِ قلم
میری یہ نظمِ معتبر
میری یہ نعتِ محترم
سب خود پناہی کے لیے    !
سب دادخواہی کے لیے      !
t
شبنم صدیقی، پروفیسر
(۲۶؍نومبر ۱۹۴۳ء رائے بریلی یوپی انڈیا)
 
کچھ اس شان سے بزمِ کون و مکاں میں ،فروزاں ہے شمعِ لقائے محمد
کہ ساری خدائی صدا دے رہی ہے،خدا کی خدائی فدائے محمد
خودی کی بلندی کا عالم تو دیکھو،رضائے خدا ہے رضائے محمد
اسی سے تو دل پر یہ عقدہ کھلاہے ،گدائے خدا ہے گدائے محمد
یہی دردِ دل ہے یہی جستجو ہے ،یہی بیقراری یہی آرزو ہے
مدینے کی جانب چلا جارہاہوں ،لیے دل میں شوقِ لقائے محمد
زمانے کی رفتار تھم سی گئی ہے،مہ و سال پر برف جم سی گئی ہے
کہ تاریخِ اقوام کے گنبدوں میں ،ابھی گونجتی ہے صدائے محمد
اِسی میں مداوائے حالِ زبوں ہے ،اِسی میں شفا ہے اِسی میں سکوں ہے
کہ تہذیبِ افرنگ کے فرد بیمار ،کو اب اُڑھا دو ردائے محمد
گلوں سے ہم آغوش ہو کیوں نہ شبنم ،کہ خوشبو تو ہے اِک نشانِ نبوت
کرن مہر کی کیوں نہ شبنم کو چومے ، کہ شبنم تو ہے خاکِ پائے محمد
t
شکیل احمدضیا
(۲۵ ؍دسمبر ۱۹۲۱ء جھانسی(یوپی)…۷؍مارچ۱۹۹۹ء کراچی)
حق کا فرمان ہے فرمانِ رسول عربی
مرحبا مرتبہ وشانِ رسول عربی
دونوں عالم میں ہے فیضانِ رسالت جاری
دونوں عالم پہ ہے احسانِ رسول عربی
ذرہ ذرہ ہے مدینے کا خمستان بہار
بے خزاں ہے چمنستانِ رسول عربی
مسترد ہوگئیں توریت و زبور و انجیل
صرف باقی رہا قرآن رسول عربی
حشر میں پرستش اعمال سے گھبرا نہ ضیاؔ
تھام لے گوشہ دامانِ رسول عربی
t
شکیل نشترؔ
(۱۹۳۴ء میرٹھ…۴؍دسمبر ۱۹۹۳ء کراچی)
دیدنی یوں ہے کہ صحرا میں بہار آئی ہے
دل کا ہرزخم مدینے کا تمنائی ہے
پتھروں کو بھی عطا قوتِ گویائی ہے
ہائے کیا معجزۂ حُسنِ مسیحائی ہے
ورنہ انسان کو مرنے کا سلیقہ بھی نہ تھا
شاہِ دیں آئے تو جینے کی ادا آئی ہے
ایک یہ بھی شبِ معراج کا مفہوم ہوا
خود تماشہ ہے خدا خود ہی تماشائی ہے
عبد و معبود کے مابین نہیں ہے کوئی
نام ہے غارِ حرا گوشۂ تنہائی ہے
ان کا مصرف تو یہی ہے کہ مدینہ دیکھیں
ورنہ کیا آنکھیں ہیں کیا آنکھوں کی بینائی ہے
ہے ہمہ وقت مدینے کا تصور نشترؔ
اب تو خلوت بھی مری انجمن آرائی ہے
t
شمس بریلوی، علامہ
(۱۹۱۹ء بریلی…۱۳؍مارچ۱۹۹۷ء کراچی)
یہاں دخل حسنِ عمل نہیں یہ فقط نصیب کی بات ہے
کرے جس پہ چاہے نوازشیں کرم حبیب کی بات ہے
حرم نبی کے مسافرو ، یہ صدائے درد ذرا سنو
کسے دیکھ کرمیں تڑپ گیا یہ بہت قریب کی بات ہے
یہ ورائے فہم وشعورہے یہ مقام عین  شہود ہے
یہ کمال قرب کا ذکرہے سفرحبیب کی بات ہے
توحرم سے شیخ پلٹ پڑا میں درنبی پرمقیم ہوں
وہ ترے نصیب کی بات تھی یہ مرے نصیب کی بات ہے
وہ کہ جس کا ذکراگرنہ ہو،نہ اذان ہے نہ نماز ہے
یہ اسی کا ذکرجمیل ہے اسی حبیب کی بات ہے
دلِ دردمند سنبھل سنبھل،ہے ادب بھی شرط نہ یوں مچل
تجھے دردِعشق عطاہوا،یہ بڑے نصیب کی بات ہے
کسے دیکھ کر یہ مچل گیا کسے دیکھ کر یہ تڑپ گیا
تمہیں شمسؔ اوربتائے کیایہ دل غریب کی بات ہے
t
شمس زبیری
(۱۹۱۷ء میرٹھ…۳؍ستمبر ۱۹۹۹ء کراچی)
جب محمد کا لب پہ نام آیا
روح پرور کوئی پیام آیا
بزم جمتی رہی ستاروں کی
بعد سب کے مہِ تمام آیا
دوست دشمن پہ کچھ نہیں موقوف
میرا آقا تو سب کے کام آیا
کوئی در سے پھرا نہ خالی ہاتھ
جو بھی پہنچا وہ شاد کام آیا
مٹ گئی خاص و عام کی تفریق
جب وہ مولائے خاص و عام آیا
آدمی آدمی کو پہچانا
آدمی آدمی کے کام آیا
جس کی ہر دَور کو ضرورت تھی
آپ آئے تو وہ نظام آیا
t
شمس قادری بدایونی
(۹۲۷اء بدایوں…۹؍نومبر ۲۰۰۴ء کراچی)
اے اہل دل ، فریب ہے دنیا کی آب وتاب
ہے آب و تاب وادیٔ طیبہ کی آب و تاب
آنکھوں سے پھوٹنے لگیں کرنیں درود کی
جب سامنے ہو گنبدِ خضرا کی آب و تاب
اب دامنِ خیال میں سو آفتاب ہیں
اشکوں میں ہے تصور بطحٰی کی آب و تاب
محبوب رب کے نقش قدم پرہزار بار
قربان تاج قیصر و کسری کی آب و تاب
اک رات کو فضائے زمان و مکاں تھی ایک
یکجا ہوئی تھی بندہ و آقا کی آب و تاب
پھر یوں ہوا کہ قرب کی منزل نہ جاسکی
ہرشب میں رچ گئی شبِ اسرٰی کی آب و تاب
اے شمس رہروان مدینہ کو الوداع
بھیج ان کے ساتھ اپنی تمنا کی آب و تاب
t
شمعؔ افروز ڈاکٹر
(۱۸؍فروری۱۹۸۷ء کراچی)
مائل اُن کی سمت جس دم دل ہوا
جسم سارا جانبِ منزل ہوا
مرتبہ پایاہے کس نے آپ سا
کون ہے جو آپ سا کامل ہوا
خود بھی حیراںہے نظامِ کائنات
کیسے دوٹکڑے مہِ کامل ہوا
جس کے لب پر گُل درودوں کے کھلے
عابدانِ حق میں وہ شامل ہوا
دولتِ عشقِ نبی جس کو ملی
اہلِ ایماں میں وہی داخل ہوا
آپ کی سیرت پہ جوچلنے لگے
روح کو اُن کی سکوں حاصل ہوا
t
شمیم  جاویدؔ
(۲؍ جنوری ۱۹۳۰ء …۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کراچی)
اگر پندرہ سو ہجری قبل میں پیدا ہوا ہوتا
مری قسمت کا اندازہ کرو میں کیا سے کیا ہوتا
مرے پیشِ نظر نورِ محمد مصطفیٰ ہوتا
مرے لب پرفقط صلِ علیٰ ۔ صلِ علیٰ ہوتا
میںہرپل منتظر رہتا اُسی نورِمجسم کا
وہی نورِمجسم دیدہ ودل کی ضیا ہوتا
بے قیدِ وقت دل کی دھڑکنیں سجدے اداکرتیں
مرارونا وضو ہوتا مرا نالہ دعا ہوتا
ہواؤں سے میں جب بھی پوچھتا وہ اب کہاں ہوں گے
بس اک خوشبو کے جھونکے نے پتا بتلا دیا ہوتا
میں جن گلیوں میں اوررستوں پہ وہ نقشِ قدم پاتا
بہ ہر ساعت وہیں سجدے پہ سجدہ کرلیا ہوتا
گدائے مسجدِ نبوی کہا کرتی مجھے دنیا
نہ میراگھر نہ کوئی نام نہ میرا پتہ ہوتا
مجھے اہل مدینہ چھیڑتے دیوانہ کہہ کہہ کر
میں اپنے اس لقب پروالہانہ جھوم اٹھا ہوتا
وہ لحنِ سرمدی سُن کر ہمیشہ وجد میں رہتا
خموشی کے تکلم میں خدا جلوہ نما ہوتا
یہ سوتے جاگتے جاویدؔ کیا کیا سوچتا ہوںمیں
جویوںہوتا تو کیا ہوتا جو یوں ہوتا توکیاہوتا
t
شوقؔ عظیم آبادی
(۱۹۰۰ء پٹنہ عظیم آباد…۱۶؍اپریل ۱۹۸۷ء کراچی)
 
آپ شمس الضحیٰ آپ بدرالدجیٰ آپ نور العلیٰ ،سیدالاصفیا
آپ کہف الوریٰ اشرف الانبیاء ،آپ نورِ ھدا ،خاتم الانبیا
آپ ماہِ مبیں ، اس سے بڑھ کر حسیں ، آپ کا کوئی ہمسر بشر میں نہیں
سیّد المرسلیں ، شافعِ مذنبیں، خاتم المرسلیں، آپ صدر العلیٰ
شرک میں مبتلا جب تھاسارا عرب،تھے حرم میں بتوں کے پرستار سب
آپ توحید کا لائے پیغام جب ، لات و عزیٰ ہُبل ہو گئے سب فنا
ایک عالیٰ نسب ، ایک والا حسب ،یعنی محبوبِ رب ،لائے تشریف جب
پھر گئے دن زمانے کے اُن کے سبب،لائے ہمراہ قرآن کامعجزہ
آپ خیر البشر ، آپ والاگہر،ساری خلقت کے ہیں آپ نورِ نظر
خود خدا بھیجتا ہے درود آپ پر،اللہ اللہ یہ مرتبہ آپ کا
اِک سرِ مو بھی آگے قدم گررکھیں،پر فروغِ تجلی سے جلنے لگیں
تاب و طاقت کہاں اب یہ جبریل میں ،آگئی سرحدسدرۃ المنتہیٰ
آپ کامرتبہ قاب قوسین ہے ،عرش پر اپنے خالق سے جاکر ملے
قدسیوں کی زباں پر ہے صلی علیٰ ،مرحبا مصطفی مرحبا مصطفی
شوقؔ! مشرک نہیں ہے مسلمان ہے،ایک معبود پر اس کا ایمان ہے
اپنی تر دامنی پر پشیمان ہے ،المدد المدد یا شفیع الوریٰ
t
شوکت تھانوی
(۳؍فروری ۱۹۰۴ء…۴؍مئی ۱۹۶۳ء لاہور)
ہم ہیں تصورات کی جنت لیے ہوئے
آنکھیں ہیں بند جادۂ رحمت لیے ہوئے
دیوانہ وار آہی گیا ان کی بزم میں
اک روسیاہ حسرتِ طاعت لیے ہوئے
پہنچے ہوئے ہیں آج دیارِ حبیب میں
اس بختِ نارسا کی شکایت لیے ہوئے
جیسے کہ سامنے متبسم حضور ہیں
اور ہم ہیں ایک اشکِ ندامت لیے ہوئے
احساس عطر بیزہے ،عنبرفشاں خیال
بیٹھے ہیں ہم مدینے کی نکہت لیے ہوئے
اُن کے حضور اِس لبِ خاموش کی قسم
ہر حرف ِمدّعا ہے حکایت لیے ہوئے
ہے اُن کے رو برو یہ جنونِ سپردگی
عصیاں کے اعتراف میں جرأت لیے ہوئے
توفیقِ شرم اور ہمیں،اے زِہے نصیب
کس درجہ سرخ رو ہیںخجالت لیے ہوئے
یارب! کھلے نہ آنکھ کہ بیٹھے ہوئے ہیں ہم
پیشِ نظر جمالِ رسالت لیے ہوئے
جیسابھی کچھ ہے آپ کاہے ،آپ کے سپرد
آیا ہے اپنے آپ کو شوکتؔ لیے ہوئے
t
شوکت عابد
(۲۳؍دسمبر ۱۹۵۳ء کراچی)
پروانہ جو بھی شمعِ رسالت سے دُور ہے
منزل سے دُور نورِ ہدایت سے دُور ہے
ذکرِ نبی سے چشم ہی روشن نہیں فقط
دل کا یہ آئینہ بھی کدوت سے دُور ہے
جس دل میں آرزوے مدینہ نہیں، وہ دل
مولاے کائنات کی رحمت سے دُور ہے
ہے جس کے سر پہ سایۂ دامانِ مصطفی
سمجھو کہ وہ ہر ایک مصیبت سے دُور ہے
عابدؔ ہوا ہے جب سے درِ شاہ کا غلام
دنیاے مال و زر کی محبت سے دُور ہے
t
شہناز نور
(۱۰؍نومبر۱۹۴۷ء سکھر)
خدا ،خدائی،خدا کی کتاب میرے لیے
سرِ مدینہ یہ اُترا نصاب میرے لیے
جب ان کا نام لیا دشتِ آزمائش میں
اک ایک خار ہوا ہے گلاب میرے لیے
جو پتھروں کو بھی گویائی بخش دیتے ہیں
رسول ایسے ہوئے انتخاب میرے لیے
مجھے جلائے توکیادھوپ کیا تھکائے سفر
ہے اسم شاہِ اُمم جب سحاب میرے لیے
بڑاکرم ہو جو میدان حشر میں ہو عطا
کنیز احمد مرسل خطاب میرے لیے
تمام راہیں اسی شاہرہ سے ملتی ہیں
بناگئے جورسالت مآب میرے لیے
اب اور چائیے شہنازؔ نور کیا مجھ کو
بہت ہے عشق رسالت مآب میرے لیے
-
مری نگاہ اگر محرم حجاز نہیں
توچشم شوق میں بینائی کا جواز نہیں
اسے بھی آہ سحر خیز سے شناسا کر
غم حبیب میں جودل ابھی گداز نہیں
دل و نظر بھی ہو شامل رہ عباد ت میں
لباس زہد فقط زینت نماز نہیں
سرمدینہ الفت مری جبیں سائی
مقام عشق ہے سجدہ گہہ ایاز نہیں
ضرور ابرکرم اس طرف سے گزرے گا
وہ میرے حال پریشاں سے بے نیاز نہیں
میں کس کی راہ چلوں کس جگہ قیام کروں
کہ نور!ؔ اب حق وباطل میں امیتاز نہیں
t
شیدا گجراتی
(۱۹۲۲ء گجرات،پنجاب…۱۹۸۷ء کراچی)
سو رنگ فسانہ ہے اِک زندہ حقیقت ہے
اِک نقشِ محمد سے ، ہر نقش عبارت ہے
طیبہ کا ہر اِک گوشہ فردوس بداماں ہے
سرکار کی نسبت سے کعبے کی فضلیت ہے
ہر پھول ترا چہرہ ،ہر روپ ترا جلوہ
انوار کی کثرت سے رنگِ رُخِ وحدت ہے
ہر شخص کے ہونٹوں پر ذکرِ شہِ بطحا ہے
ہر سانس میں حضرت کی خوشبوئے محبت ہے
t
صابر بدر جعفری
(۲۴؍دسمبر ۱۹۳۴ء جے پور )
بدرِ عاصی اشک آنکھوں میں لیے
آپ کے دَر پے کھڑا ہے دیر سے
منہ سے کچھ کہتا نہیں ، خاموش ہے
کہنے سنے کا اسے کب ہوش ہے
دل کی بیتابی عیاں آنکھوں سے ہے
بے زبانی کو زباں اشکوں سے ہے
آپ سے آخر کہے بھی کوئی کیا
آپ سے مخفی ہے کس کا مدعا
آپ کی شانِ کریمی کے نثار
اس کی جانب دیکھ لیجیے ایک بار
بات اس کے دل کی سن لیجیے حضور
ان کہی ہے پھربھی سن لیجیے حضور
آپ کے دامن کا سایہ چاہیے
اس کواوراس کے سوا کیا چاہیے
اس کے غم خانے کو یہ سایہ بہت
آپ سے  نسبت کا سرمایہ بہت
t
صابر ظفر
(۲۴؍ ستمبر ۱۹۴۹ء)
جئے ہیں جینے کی صورت درود پڑھتے ہوئے
اوراُس کے بعد شہادت درود پڑھتے ہوئے
کسی سے عشق نہیں عشق مصطفیٰ کے سوا
اور آئے عشق میں شدت درود پڑھتے ہوئے
یہ اوربات کہ دشمن ہیں جان کے درپے
گزررہے ہیں سلامت درود پڑھتے ہوئے
یزیدی ایک طرف اورہم ہیں ایک طرف
ہماری ہوگی شفاعت درود پڑھتے ہوئے
نظر کے سامنے رکھتے ہیں مصحفِ مولا
سوپڑھتے جائیں ہرآیت درود پڑھتے ہوئے
کہاں کہاں نہیں معتوب ظالموں نے کیا
مگرملی ہمیں رفعت درود پڑھتے ہوئے
ستم سہے ہیں بہت دیر ہم پہ اب کرم ہوگا
کرم بھی ہوگا نہایت درود پڑھتے ہوئے
درور پڑھتے ہوئے ہرسخن کریں آغاز
ادا ہو فرضِ اطاعت درود پڑھتے ہوئے
ہمی غلامئی ختمِ رُسل کے لائق ہیں
سُنی گئی ہے بشارت درود پڑھتے ہوئے
جو گومگو کے ہیں عالم میں اُن کو ہو توفیق
کہ ہم توکرچکے بیعت درود پڑھتے ہوئے
درِ مدینہ و کعبہ ہے وا ہمارے لیے
بیان کرتے ہیں سیرت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھتے رہو دَم بدَم کہ ہوتا ہے
فروغِ شانِ رسالت درود پڑھتے ہوئے
حضور خواب میں آئیں توخواب سچ ہوجائے
سوباندھیں دید کی نیت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھتے رہو آفتِ مسلسل میں
کہ ٹلتی رہتی ہے آفت درود پڑھتے ہوئے
جنونِ عشقِ محمد حیاتِ دائم ہے
فزوں ہوآپ سے نسبت درود پڑھتے ہوئے
دھڑکنا آتاہے ذکرِ نبی کے ساتھ جنہیں
وہ دل ہوں صاحبِ ثروت درود پڑھتے ہوئے
نصیب ہوتی ہے روح وبدن کی سرشاری
رہے نہ خود سے شکایت درود پڑھتے ہوئے
ہزار روشنیاں ہیں مگر وہ منبع نور
چمکتی دیکھی ہے قسمت درود پڑھتے ہوئے
سُنائی دیتی ہے خلق اُن کی مدح کرتی ہوئی
دکھائی دیتے پربت درود پڑھتے ہوئے
ہم اسم ِ احمد مرسل کو چوم لیتے ہیں
نصیب ہویہ سعادت درود پڑھتے ہوئے
اگرچہ جاری وساری خدا کی رحمت ہے
مگر مزید ہورحمت درود پڑھتے ہوئے
درود پڑھنے کے ہرآن جو بھی قائل ہیں
ہم اُن سے ہیں بڑے سہمت درود پڑھتے ہوئے
وہ دکھ اُٹھائے ہیں ہم نے کہ یاد آنے لگے
حسین اور اُن کی شہادت درود پڑھتے ہوئے
قبول ہم نے کیا اورسدا کریں گے قبول
ہراک نظامِ خلافت درود پڑھتے ہوئے
بہت نشیب وفراز آئے ہرسفر میں ظفر
رہانہ رنجِ مسافت درود پڑھتے ہوئے
-
وجود کیسے نہ ہو،منزل آشنا میرا
جمال اسم محمد ہے پیشوا میرا
وہ کیوں نہ راستہ دے،بعد کے مسافرکو
کہ شاہ رحمت عالم ہے رہ نما میرا
زبان توتھی جائے درود پڑھتے ہوئے
کہ شافع آپ ہیں اورمہرباں خدا میرا
میں دور،روضے سے تیرے جو دیکھنا ہوں تجھے
قبول کر مرے آقا یہ دیکھنا میرا
پناہ دے مجھے یعنی حصارِ عشق میں رکھ
یہ غیر توڑ نہ دیں کاسہ دعا میرا
یہ التجا کا الاو قبول کرلیجئے
جلا رہا ہے مجھے شعلہ نوا میرا
میں روز مدح رسالت مآب کرتا ہوں
اوران دنوں تو لہو ہے سخن سرا میرا
خدا کا شکرکہ دونوں کریں ثنائے رسول
یہ روشن آنکھیں یہ دل جاگتا ہوا میرا
حضور میری دعاوں کے عکس دُھنلے ہیں
حضور چاہوں کہ اجلاہو آئینہ میرا
رہ وفا میں جو بھٹکوں میں بے خیالی میں
خیال حشر میں رکھنا ، شہ ہدا میرا
عطا کشادہ دلی کیجیے تنگ ظرفوں کو
حضور ہے جہاں ممنوع داخلہ میرا
خلافتوں کی بہاروں نے کردیا سرسبز
حضو ر ورنہ یہ دل تھا خزاں زدہ میرا
ظفرؔ ہے نور مسلسل یہ میرا پختہ یقیں
دیار احمد مرسل ہے ناصیہ میرا
t
صابر عظیم آبادی
(۲۶؍اگست ۱۹۴۰ء پٹنہ، بہار)
نکل کے غارِ حراکی راہوں سے سوئے کعبہ وہ آنے والا
تمام دنیا کے بت کدوں سے نقوشِ آذر مٹانے والا
جہانِ ہستی کی تنگ راہیں ، اُسی کے جلووں سے ہیں منور
وہ شمعِ نورِ ھدا کہ جو تھا ،چراغِ وحدت جلانے والا
چمن چمن ہے پیام اُس کا،ہے سب اعلیٰ مقام اُس کا
وہ فخرِ آدم وہ فخرِ حوا،وہ عرشِ اعلیٰ پہ جانے والا
زمانہ منتِ کشِ نبوت،وہ بانیِ فخرِ آدمیت
وہ نور ، نورِ علا جو اپنے ،پرائے کا غم اُٹھانے والا
عروجِ آدم کاوہ نشاں ہے ،تمام خلقت کا پاسباں ہے
حریمِ کعبہ کاوہ نگہباں ،وہ سب سے آخر میں آنے والا
رہی رموزِ حیاتِ آدم ،وہی نمودِ وجودِ عالم
زمانے بھر کی حقیقتوں کا ،وہی ہے پردہ اُٹھانے والا
نبی ہے میرا رسول ہے وہ، نہالِ ہستی کاپھول ہے وہ
وہ رنگتِ گل، وہ رشکِ سنبل،وہ غنچۂ دل کھلانے والا
صفاتِ ذاتِ کمال ہے وہ،جمالِ ماضی و حال ہے وہ
وہ شمعِ وحدت وہ نورِ یزداں ،وہ بزمِ ہستی سجانے والا
وہی توصابرؔ! زمانے بھر کے ،دکھوں کا درماں بناہوا ہے
وہی تھا ٹوٹے ہوئے دلوں کو ، ملانے والا بنانے والا
t
صابر وسیم
(۹؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کراچی)
مایوسی کی ظلمت سے جب دل گھبراتا ہے
اسمِ محمد تاریکی میں دیا جلاتا ہے
اُس کے نام سے کھل اُٹھتے ہیں امیدوں کے پھول
ہرا بھرا اک موسم اپنے پاس بلاتا ہے
اُس رحمت کا دامن تھام کے زندہ رہتے ہیں
ورنہ ہمیں کب اس دُنیا میں جینا آتا ہے
اُس ہستی کے واسطے ہی تخلیق ہوا یہ سب
صرف تماشے کو یہ دُنیا کون بناتا ہے
راتوں کے سناٹوں میں سرشاری رہتی ہے
ذکر محمد لمحہ لمحہ رس برساتا ہے
دھیان میںاُس کے سوجائیں توشب بھراُس کا دھیان
خواب سرا کی دیواروں پہ رنگ بچھاتا ہے
اللہ کا پیغام ہوا کی لہروں پر جا کے
بحر و بر میں اُس کا ہی چرچا پھیلاتا ہے
صرف وہی آنکھیں ہیں جن کو آنکھیں کہتے ہیں
اُس گنبد کا منظر جن آنکھوں میں سماتا ہے
t
صفدر صدیق رضی
(۱۳؍فروری ۱۹۴۹ء سیالکوٹ)
زمین پر جو ترے آستاں کا حصّہ ہے
زمیں کا حصّہ نہیں ، آسماں کا حصّہ ہے
زمیں کو تیری سعادت ، فلک کو تجھ سے شرف
کہ تیرا لُطف و کرم دو جہاں کا حصّہ ہے
کوئی بھی راہ سہی ، تیری پیروی میں تو ہے
ہر اک مسافر اسی کارواں کا حصّہ ہے
ترے نقوشِ قدم سے جو سرفراز ہوئی
وہ مُشتِ خاک مرے جسم و جاں کا حصّہ ہے
جزا کااہل نہیں ہوں سزا کی تاب نہیں
مرا وجود کہیں درمیاں کا حصّہ ہے
t
ضحی آروی
(۱۹۲۴ء آرہ صوبہ بہار)
مراسر ہے نقش قدم آپ کا
خوشابخت!کتنا کرم آپ کا
عرب آپ کا ہے عجم آپ کا
یہ دیوانِ لوح وقلم آپ کا
شرف آدمی کو ملا آپ سے
ہے احساںخدا کی قسم آپ کا
حضور آپ کا مرتبہ ہے بلند
سرعرش نقشِ قدم آپ کا
شہنشاہ کون ومکاں آپ ہیں
دوعالم میں اونچا علم آپ کا
ضحی ؔ!شانِ رحمت ہے سرکار کی
ہمارا جو غم ہے وہ غم آپ کا
t
ضیاء الحق قاسمی
(۵؍فروری،۱۹۳۵ء امرتسر…۲۵؍اکتوبر،۲۰۰۶ء کراچی)
خلاّقِ دو جہاں کے ہیں راز داں محمد
حق ترجماں محمد عظمت نشاں محمد
نوعِ بشرپہ اُن کا احساں یہ کم نہیں ہے
نوعِ بشر کے اب بھی ہیں پاسبان محمد
میں اُن کا امتی ہوں میں اُن کا مدح خواں ہوں
رحمت کا میرے سر پر ہیں سائباں محمد
ہم کو ملا خدا بھی تو فیض سے انہی کے
انساں اور خدا کے ہیں درمیاں محمد
قرآں میں جو رقم ہیں سب بالیقیں اہم ہیں
نکتے وہ کر گئے ہیں سارے بیاں محمد
بعدِ خدا انہیں کا ہم کو تو ہے سہارا
اس ارضِ آب و گل پر ہیں آسماں محمد
تخلیق انہی کی خاطر دونوں جہاں ہوئے ہیں
دنیا میں بھی ہماری ہیں ضوفشاں محمد
ہے امتی ضیاؔ تواُس پر نہ کیوں نظر ہو
جب اپنے دشمنوں پر ہیں مہرباں محمد
-
محتاج نہیں رکھا محمد کی عطا نے
دریائے کرم بخشا درِ جُود وسخا نے
تاباں ہیں مہ و انجم وخورشید جواب تک
اک روشنی دی ہے انھیں نقشِ کفِ پانے
اللہ رے کس درجہ ہے تاثیر کرم کی
منہ پھیر دیا غم کا مدینے کی ہوا نے
سنتے ہیں کہ بخشش کی سند درسے ملے گی
ہم آئے ہیں سرکار میںنام اپنا لکھانے
اللہ کی رحمت ہوئی سرکار کی صورت
درکھول دیے ہم پہ عنایاتِ خدا نے
اک سلسلہ ٔ جُود وسخا سے ہے تعلق
پابندِ کرم کر دیا رحمت کو خطانے
دھڑکن ہی کہیں دل کی نہ رک جائے خوشی میں
آئی ہے مدینے سے صبا آج بلانے
t
طاہر مسعود، ڈاکٹر
(۷؍جنوری ۱۹۵۷ء راج شاہی مشرقی پاکستان)


صبیح رحمانی کی تصانیف 
(۱) ماہ طیبہ ۱۹۸۹ء نظامی اکیڈمی، کراچی
(۲) جادہء رحمت ۱۹۹۳ء ممتاز پبلیشرز، کراچی 


صبیح رحمانی کے کلام پر مشتمل انتخاب:
(۱) خوابوں میں سنہری جالی ہے مرتبہ: عزیز احسن
اشاعتِ اول ۱۹۹۷ء ممتاز پبلیشرز، کراچی
اشاعتِ دوم: ۱۹۹۷ء فضلی سنز، کراچی
اشاعتِ سوم: ۱۹۹۸ء تاج کمپنی، نیو دہلی (بھارت)
(۲) سلام کے لیے حاضر غلام ہوجائے مرتبہ: محمد مقصود حسین قادری…۲۰۰۰ء 
فیض رضا پبلی کیشنز، کراچی
(۳) سرکار کے قدموں میں مرتبہ: مدثرسرور چاند …۲۰۰۶ء
دُعا پبلی کیشنز، لاہور


اِک التجائے عاجزانہ بحضور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
صبیح رحمانی  کے شعری مجموعوں کے تراجم:
(۱) Reverence Unto His Feet      سارہ کاظمی
اشاعتِ اول: ۲۰۰۹ء نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
اشاعتِ دوم: ۲۰۱۲ء نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
(۲) Jada-e-Rahmat  جسٹس ڈاکٹر منیر احمد مغل…۲۰۰۹ء،
ناشر : نعت ریسرچ سینٹر، کراچی


صبیح رحمانی  کے نام لکھے گئے خطوط کے مجموعے:
(۱) نعت اور آدابِ نعت علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی
اشاعتِ اول : ۲۰۰۳ء ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور
اشاعتِ دوم:  ۲۰۰۴ء  مہرِ منیر اکیڈمی، کراچی 
(۲) نعت نامے مربتہ: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
اشاعتِ اول: ۲۰۱۴ء نعت ریسرچ سینٹر، کراچی


کس سے جاکر کہوں
صبیح رحمانی  کی تالیفات:
اپنا دکھ اپنا غم
(۱) ایوانِ نعت (نعتیہ انتخاب) ۱۹۹۳ء  اقلیمِ نعت، کراچی
لے کے جاؤں کہاں
(۲) جمالِ مصطفیٰﷺ (نعتیہ انتخاب) ۱۹۳۳ء  فرید پبلشرز، کراچی
زخمِ دل ، چشمِ نم
(۳) نعت نگر کا باسی ۲۰۰۸ء  اقلیمِ نعت، کراچی
اے شہِ دوجہاں، آسر ادیجیے
(۴) غالب اورثنائے خواجہ ۲۰۰۹ء  نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
اپنے بیمارِ غم کو دوا دیجیے
(۵) اُردو نعت میں تجلیاتِ سیرت ۲۰۱۵ء  نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
اپنے جذبات کو
(۶) غالب اورثنائے خواجہ ۲۰۱۶ء دوسرا ایڈیشن، ادارہء یادگارِ غالب،کراچی
دے نہ پاؤں زباں
(۷)اردو نعت کی  شعری روایت ۲۰۱۶ء، اکادمی بازیافت، کراچی
کس طرح میں کروں
(۸) مدحت نامہ ۲۰۱۶ء نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
حال دل کابیاں
زیر ترتیب :  
دور ہیں منزلیں
۱۔پاکستانی زبانون میں نعت
اور میں ناتواں
۲۔کلام رضا کے فنی اور فکری زاویئے
میںاٹھاؤں قدم
اتنی ہمت کہاں
ہے زمیں تنگ تر
میں ہوں بے بال و پر
کاٹے کٹتا نہیں
رات دن کا سفر
آپ کی یاد کو
گنگناتا ہے دل
آپ کے ذکر سے
جگمگاتا ہے دل
ہے لبوں پر مرے
بس یہی اِک فغاں
مونسِ جسم و جاں
  سخت ہے امتحاں
ہے کٹھن ہر گھڑی
  حوصلہ دیجیے
میرے دل کی سیاہی
مٹادیجیے
دل میں میرے دیا اِک
جلا دیجیے
اپنے دامن میں مجھ کو بھی
جا دیجیے
اے شہِ دوجہاں
اے شہِ دو جہاں
t


صبیح رحمانی  پر لکھے گئے مقالات:
(۱) صبیح رحمانی کی شخصیت اور فن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ …عائشہ ناز ،  ۲۰۱۱ء جامعہ کراچی
(۲) صبیح رحمانی بحیثیت نعت نگار …ساجدہ اقبال…۲۰۱۱ء جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد


ظفرؔ بھوپالی
صبیح رحمانی  پر شائع شدہ کتب و رسائل:
( یکم جنوری۱۹۵۶ء بھوپال)
(۱)جادہء رحمت کا مسافر   ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی  ۲۰۰۸ء آفتاب اکیڈمی، کراچی
ہے جہاں اسوۂ نبی روشن
(۲) مجلہ سفیرِ نعت (صبیح رحمانی نمبر) ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی  ۲۰۰۹ء آفتاب اکیڈمی، کراچی 
دن بھی روشن ہے شام بھی روشن
(۳) فنِّ اداریہ نویسی اور نعت رنگ  ڈاکٹر اِفضال احمد انور ۲۰۱۰ء  نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
ذکرِ خیرالانام کرتاہوں
کیوں نہ ہو میری زندگی روشن
تیرگی کو کہیں پناہ نہیں
ہے مدینے کی ہرگلی روشن
جن کے دل میں نہیں ہے عشقِ نبی
ان کی ہستی نہ ہوسکی روشن
ہم نے کرکے طوافِ کوئے نبی
کرلیا ذوق بندگی روشن
t
ظفر،محمد خان
(۱۵؍دسمبر ۱۹۴۲ء ٹونک راجستھان)
تاریک جہاں مطلعِ انوار نہ ہوتا
خورشیدِ رسالت جو نمودار نہ ہوتا
رحمت کی گھٹا بن کے اگر آپ نہ آتے
صحرائے دوعالم کبھی گلزار نہ ہوتا
انصاف کی میزان اگر آپ نہ لاتے
انسان کے کردار کا معیار نہ ہوتا
آئینۂ ماضی میں اگر آپ نہ ہوتے
میں عکسِ گزشتہ کا طلب گار نہ ہوتا
آتی نہ مجھے نامِ محمد کی جو خوشبو
میں خلدکے پھولوں کا خریدار نہ ہوتا
پاتا نہ جھلک آپ کی آنکھوں میں اگر میں
بے جان ستاروں سے مجھے پیار نہ ہوتا
تعلیم پہ گر آپ کی چلتا تو زمانہ
چنگیز نہ بنتا کبھی تاتار نہ ہوتا
ہوتے نہ محمد اگر اللہ کے محبوب
معراج کارستہ کبھی ہموار نہ ہوتا
اے کاش کسی شب وہ مرے خواب میں آتے
اور پھر میں کبھی خواب سے بیدار نہ ہوتا
دستار ظفرؔ! دہرمیں ہر گام اُچھلتی
گر نامِ نبی طرّۂ دستار نہ ہوتا
t
ظہیر قاسمی،ظہیر الحسن شاہ قاسمی
(۲۵؍دسمبر ۱۹۳۵ء بنارس…۲۱؍اپریل ۲۰۰۱ء کراچی)   
لیا ہے نامِ محمد کو جب قرینے سے
پیامِ زیست ملاہے مجھے مدینے سے
نبی کے نام کا بس ایک جام پینے سے
زمانہ آکے لپٹتا ہے میرے سینے سے
مہک اُٹھا ہے گلستاں ، ہوا معطر ہے
گلوںنے مانگ لی خوشبو ترے پسینے سے
غمِ فراق میں دل کو ہزار داغ ملے
ہر ایک داغ چمکنے لگا نگینے سے
الٰہی ! بخش دے توفیق اس قدر مجھ کو
ہمیشہ ربط ہمارا رہے مدینے سے
ہر ایک موجِ بلا اپنی موت آپ مری
کبھی ہوا جو تصادم مرے سفینے سے
ظہیرؔ ! کہتا ہوں یہ بات بھی وثوق کے ساتھ
بلاوا آئے گا اِک دن مرا مدینے سے
t
-
اگر دعویٰ ہے سرکارِ دوعالم سے محبت کا
تو رہنا چاہیے دنیا میں پیروکار سنت کا
ستا رکھا ہے دنیا کے غم و آلام نے لیکن
مراارمان ہے سرکارِ طیبہ کی زیارت کا
رُخِ زیبائے سرور کی زیارت جس نے کی واعظ
مفسر بن گیا وہ شخص قرآں کی عبارت کا
طواف خانۂ کعبہ سے کب تسکین ہوتی ہے
نہ ہو جب تک درِ آقا پہ اِک سجدہ محبت کا
تصور میں چلاجاتا ہوں میں اکثر مدینے تک
نہیں اس آنے جانے میں کوئی جھگڑا مسافت کا
ظہیرِ قاسمی ؔ ! یہ مشغلہ ہاتھ آگیا اچھا
شہِ قاسمؔ کی قربت سے شہِ ولا کی مدحت کا
t


عابد شاہجہاپوری
صبیح رحمانی  کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسائل اور جرائد:
(۳؍جنوری ۱۹۳۶ء شاہجہاں پور…۶؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کراچی)
(۱) مجلہ لیلۃ النعت ، کراچی ۱۹۸۷ء
دراقدس پہ ایک اک اشک دل کا ترجماں ٹھہرا
) ایقان انٹر نیشنل  سینٹر، کراچی ۱۹۹۲ء
یہ انداز فغاں بھی کس قدر تسکین جاں ٹھہرا
(۳) مجلہ نعت رنگ ، کراچی (26 شمارے) ۱۹۹۵ء تا  ۲۰۱۶ء
انہیں کے واسطے پہ مایۂ کون ومکاں ٹھہرا
٭٭٭
انہیں کی یہ زمیں ٹھہری انہی کا آسماں ٹھہرا
خدا شاہد کہ یہ بھی اک نیا اسلوب مدحت ہے
نہ یہ اشک رواں ٹھہرے نہ یہ قلب تپاں ٹھہرا
میں زخمی ہوں کہاں جاؤں بتاؤ قافلے والو!
کہ جب ان کا ہی در گہوارہ امن و اماں ٹھہرا
ہمیشہ ذکر آقا سے فضائیں گونج اُٹھی ہیں
زمین شعر کا ایک ایک مصرع آسماں ٹھہرا
جلی لفظوں میں یہ تصدیق بھی قرآن کرتاہے
سوائے ان کے کب کوئی مکین لامکاں ٹھہرا
جوہے پیشانیٔ امت پہ عابدؔ چاند سجدے کا
وہی تعمیل حکم مصطفی کا اک نشاں ٹھہرا
t
عارف امام
(۱۲؍اپریل ۱۹۵۶ء کراچی)
کہیں خلا میں ہے کاغذ، قلم زمیں پہ نہیں
میں نعت لکھتے ہوئے کم سے کم زمیں پہ نہیں
خرام ناز، کہ رستے پہ بچھ گئے ہیں فقیر
ہمارے سینے پہ رکھئے قدم زمیں پہ نہیں
خوشی کے مارے زمیں پہ قدم نہیں پڑتے
یقیں ہوا کہ دیارِ حرم زمیں پہ نہیں
یہ لوگ عشقِ محمد کے آسما
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: