مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ۔ فخر الدین نظامی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 15:50، 30 اکتوبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: مثنوی کدم راو پدم راو کے بارے ڈاکٹر نسیم الدین فریس ۔ بھارت فرماتے ہیں <blockquote>...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

مثنوی کدم راو پدم راو کے بارے ڈاکٹر نسیم الدین فریس ۔ بھارت فرماتے ہیں

بہمنی دور کے شاعر فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘ اردو کی پہلی مثنوی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق نظامی نے یہ مثنوی بہمنی خاندان کے مشہور فرمان روا احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت ۸۲۵ ؍ ۱۴۲۱ء تا ۸۳۹؍ ۱۴۳۵ء میں لکھی۔ گویا یہ مثنوی آج سے کوئی چھ صدی قبل کی تصنیف ہے۔ اسی اعتبار سے اس کی زبان بھی چھ سو سال پرانی ہے۔ نظامی نے مثنوی کا آغاز حمد سے کیا ہے۔ حمد کے بعد نعت رسول اللہؐ ہے جو بائیس ابیات پر مشتمل ہے۔ نظامی کی زبان نہایت کٹھن اور مغلق ہے۔ اس میں سنسکرت تت سم اور تدبھو الفاظ کی کثرت ہے۔ اس کی لغات لہجے اور اسلوب پر ہندوی اثر غالب ہے۔ نظامی نے عربی اور فارسی کے الفاظ خال خال ہی استعمال کیے ہیں۔ نعتیہ اشعار میں بھی وہ رسول مقبولؐ کی توصیف و ستائش میں عربی یا فارسی کے القاب استعمال نہیں کرتا بلکہ سنسکرت القاب استعمال کرتا ہے جیسے وہ سرور عالم کے لیے۔

راو کساتیں (بمعنی آقا) یا راوت (بمعنی شہنشاہ ) کہتا ہے۔


تہیں ایک ساچا گستائیں امر( توہی ایک سچا اور لافانی آقا ہے)

محمد بڑا راوتِ جگ تھا(محمد دنیا کے بڑے شہنشاہ تھے)


نظامی کہتا ہے کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا کے سر کا انمول تاج ہیں اور آپ خالق کی بے سہارا مخلوق کے کام بناتے ہیں:


امولک مکٹ سیس سنسار کا

کرے کام نردھار کرتا رکا

محمد عالم کی بنیاد اور نور ہیں

دونوں عالم میں آپ کے نور کا فیض ہے


محمد جرم آدبنیاد نور

دوئی جگ سرے دے پرساد نور


معجزہ شق القمر کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی مخالفت میں دشمنوں نے کج بحثی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے ہاتھ کی انگلی سے چاند کو پھاڑ کر دو کردیا:


نبی بیر میں دندکیتا بنار

انگل ہت کرچند کیتا دو پھاڑ

آگے وہ کہتا ہے کہ خدا نے سنوارا تو ذات مصطفی سنور گئی۔ خدا نے صفا کے ساتھ مصطفی کو سنوار ہے:


خدا سنوریا مصطفی سنوریا

خدا باصفا مصطفی سنوریا ۱؎


زبان کی قدامت و غرابت کے سبب نظامی کے اشعار کا سمجھنا کارے دارد ہے۔ لیکن تاریخ ادب میں اس کے نعتیہ اشعار کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اردو کی پہلی ادبی تصنیف اور پہلی مثنوی کے نعتیہ اشعارہیں۔