"ماجد خلیل ایک منفرد لہجے کا نعت گو ۔ ڈاکٹر عزیز احسن" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی === ماجد خلیل۔۔۔۔۔۔ایک منفرد لہجے کانعت گو! === (خرا...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 149: سطر 149:




سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا :
سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا :





نسخہ بمطابق 12:11، 3 دسمبر 2017ء

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی

ماجد خلیل۔۔۔۔۔۔ایک منفرد لہجے کانعت گو!

(خراج تحسین۔۔۔۔یادوں کے جھرمٹ میں)

ABSTRACT: Late Majid Khalil was known as generous and devoted person in literary circle. He expired after long ailment and his death news become shocking one for his friends. The article presented hereunder contains some memories shedding light on nice behavior and devoted approach towards extending co-operation for solving problems of his friends. His poetry was applauded by various critics in his life time. His particular attention was fixed on creation of Naat for which his diction was uniquely known and recognized.

بدھ:۱۶؍ربیع الاول ۱۴۳۷ھ، مطابق: ۲۷؍جنوری ۲۰۱۶ء کو میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ میڈیل سینٹر جارہا تھا۔ راستے میں بھائی آفتاب مضطر کا فون آیا ۔ گاڑی چلاتے ہوئے فون سننا میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ میں نے بیگم سے کہا فون سنیئے۔ فون پر بات کرنے کے بعد انھوں نے خبر سنائی کہ ماجد خلیل صاحب کا انتقال ہوگیا ۔…اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اَلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o


میرے لیے گاڑی چلانا دشوار ہوگیا۔ یادوں کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔ غالباً نوے کی دھائی تھی۔ سہیل غازی پوری کے ہاں نعتیہ مشاعرہ تھا۔ میں نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ایک صاحب جو میرے لیے بالکل نئے تھے۔انھیں میں نے ان کے مقام سے پہلے دعوتِ کلام دی تو ، سہیل صاحب نے مجھے ٹوکا۔ میں نے کسی دوسرے شاعر کو بلا لیا۔ لیکن جب ان صاحب کی باری آئی تو ان کے شعری لہجے اور نفاستِ بیاں نے دل موہ لیے۔ ماجد صاحب کو دیکھنے اور سننے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ پھر تو جب اور جہاں ان سے ملاقات ہوئی ، دل ان کی محبتوں کی کششِ ثقل کے دائرے سے نکلا ہی نہیں۔


سرکاری نوکریوں میں رہنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہر جگہ آبادی کے بڑے حصے سے تعلق رکھنے والوں کو ،کسی نہ کسی طرح نوازا جاتا ہے۔ اقلیت کو ہر جگہ کچلنے کی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ Merit کا نعرہ لگا کر خود Merit ہی کا خون کیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ۲۸ سال سے زیادہ بے داغ ملازمت کرنے کے باوجود مجھے اپنے ادارے میں ۱۴ سال ایک ہی گریڈ ( ۱۹ گریڈ) میں رکھ کر رٹائر منٹ کی عمر تک پہنچادیا گیا۔ اس بات کا ذکر اس لیے نکلا کہ ۲۰۰۹ء کے اوائل میں اچانک مجھے ماجد بھائی کا فون آیا۔ فرمانے لگے ، بھائی! آپ کے نئے MD ہمارے بہت اچھے دوست ہیں۔ اگر کوئی کام ہو تو کہیں۔ میں نے عرض کیااب تو میں کچھ دن بعد رٹائر ہونے والا ہوں ، میرا کیا کام ہوسکتا ہے۔ بہرحال اگر کوئی ضرورت پڑی تو عرض کروں گا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ایک صاحب ،جو دفتر میں میرے ماتحت رہ چکے تھے ان کی ترقی کے لیے ڈپارٹمنٹ سے تو فائل نکل گئی لیکن MDتک نہیں پہنچائی گئی اور وہ مجھ سے کچھ دن پہلے رٹائر ہوکے کراچی آگئے۔ چناں چہ میں نے ان صاحب کو فون کرکے ماجد بھائی کے پاس بھجوادیا۔ انھوں نے اپنا مدعا بیان کیا تو ماجد بھائی کے کہنے پرMD نے خود فائل منگواکر دستخط کردیئے اور یوں‘ تقریباً آٹھ ملازمین کی ترقی کا پروانہ نکل سکا جن میں وہ صاحب بھی شامل تھے……اتنی بے لوث محبت اور شفقت ،اب کہاں دیکھی جاسکتی ہے؟


میں نے ماجد بھائی کے کلام پر کبھی جم کر کوئی مضمون نہیں لکھا البتہ دو ایک مرتبہ ان کے اعزاز میں ہونے والی محفلوں میں کچھ گفتگو ضرور کی جسے سامعین اور خود ماجد بھائی نے بڑی پذیرائی بخشی۔ہاں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں میں نے ان کی کتاب ’’روشنی ہی روشنی‘‘ پر پروفیسر کلیم عاجز کی رائے نقل کرکے کچھ جملے اپنی طرف سے بھی لکھ دیئے تھے۔میں نے لکھا تھا:


’’کلیم احمد عاجزؔ ایک معروف شاعر ہیں ۔ساتھ ہی شعری نزاکتوں سے آگاہی اور اس کے اظہار نے انہیں تنقید کاسلیقہ بھی عطا کردیا ہے اس لیے ان کی تنقیدی رائے بھی ان کے شعر کی طرح ان کے احساسات کا فطری اظہار معلوم ہوتی ہے۔ماجد خلیل کے شعری مجموعے ’’روشنی ہی روشنی‘‘ پر ’’ایک معتبر شاعر‘‘ کے زیرِ عنوان دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ [جو نام بھی دیا جاسکے] لکھتے ہوئے کلیم عاجز نے بڑے پتے کی بات کی ہے، وہ کہتے ہیں:


’’بقول انگریزی نقاد، ’کولرج‘ کہ ’شاعری یہ نہیں کہ کیا کہا گیا ہے، شاعری یہ ہے کہ کیسے کہا گیا ہے‘۔میں نے اس قول کو بہت فراخ دلی سے جانچا پرکھا اور تجربے نے یہی کہا کہ بات سچ ہے۔اگر صرف اونچی بات ہی شاعری کہلاتی تو اونچی باتیں تو تھوڑی ہی ہیں۔زندگی کی حقیقتیںاور سچائیاں تو شمار میں آسکتی ہیں لیکن اچھی شاعری کا شمار مشکل ہے۔تو اچھی شاعری جو کہ کی گئی ہے وہ دراصل یہی ہے کہ کسی کہنے والے نے کسی انوکھے ڈھنگ سے کہہ دی تو کہی ہوئی بات بھی نئی ہوگئی۔ ماجد صاحب کے کہنے کا ڈھنگ یہی ہے۔ ڈھنگ اگر نقل ہوتو بات اور فرسودہ ہوجاتی ہے۔ڈھنگ اگر تازہ ہو تو پرانی بات بھی نئی ہوجاتی ہے۔شاعری کی اس حقیقت کو فراموش کردیجیے تو معیاری باتیں چند ہی رہ جائیں گی۔لیکن ہماری اردو شاعری اور فارسی شاعری میں معیاری باتیں بہت ہیں اور ان کا معیار ی ہونا باتوں کی نوعیت پر نہیں بلکہ لکھنے کی انفرادی نوعیت پر ہے۔یہ باتیں تسلیم شدہ ہیں اس لیے ان کی وضاحت اور دلائل کی ضرورت نہیں۔ماجد صاحب کے یہاں بھی کہنے کا انفرادی ڈھنگ و آہنگ ہے۔جس نے ان کی شاعری کو پسندیدہ ، دلکش اور دل پسند بنادیا ہے‘‘۔


کلیم عاجزؔ نے ماجد خلیل کا کوئی شعر نقل نہیں کیا، لیکن ان کے بیان کی روشنی میں ماجد خلیل کے کلام کو دیکھیے تو کلیم عاجزکی نکتہ رسی کی داد دینی پڑتی ہے۔واقعی ماجد خلیل نے بہت سے پرانے مضامین کو بیان کی تازگی سے نیا بنادیا ہے۔ مثلاً:


ایک وہ شب تھی کہ ہونا پڑا دہلیز بدر

ایک یہ دن ہے کہ دنیا تری دہلیز پہ ہے

لفظ’ہے‘ کا ہے سزوار یقیناً جب تک

کرۂ ارض کا ماتھا تری دہلیز پہ ہے

جب بھی تڑپا ہے حضوری کی طلب میں ماجدؔ

دیکھنے والوں نے دیکھا تری دہلیز پہ ہے

سبز گنبد سنہری جالی کو

اور ترسیں کے چشم و لب کب تک

عقل، دل ، روح جسم و فکر و نظر

دیکھو ہوتے ہیں ان کے سب کب تک


درجِ بالا اشعار میں بیان کی ندرت نے نعتیہ شاعری کے مروجہ مضامین کو نیا بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیم عاجزؔ کی تنقیدی رائے سے نہ صرف اتفاق کرنے کو جی چاہتا ہے بلکہ ان کی نکتہ رسی کی داد بھی دینی پڑتی ہے۔ (اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ،ص۱۹۳)


ماجد بھائی نے میرا مقالہ پڑھا تو ایک محفل میں مجھ سے فرمانے لگے:


’’کلیم عاجز کے تنقیدی نکتے کو ،برسوں بعد صرف آپ نے سمجھا ہے…میں نے کلیم عاجز سے کہا تھا کہ اپنی بات کی کچھ وضاحت کریں …تو انھوں نے کہا ’’کیا میں ہی سب کچھ لکھ دوں‘‘… بعد والوں کو بھی کچھ لکھنا ہوگا‘‘


ماجدبھائی کی باتوں سے مجھے خوشی ہوئی کہ اتنا کم لکھنے کے باوجود وہ اس نکتے کی تہہ تک پہنچ گئے جسے کلیم عاجز سے استشہاد کرتے ہوئے میں نے اجاگر کرنے کی سعی کی تھی۔


ملازمت کا طویل عرصہ اسلام آباد میں گزارنے کے بعد رٹائر ہوکر میں کراچی آیا تومجھے اپنے غریب خانے پر نعتیہ نشست رکھنے کا خیال آیا۔ دبستانِ وارثیہ کے روح و رواں قمر وارثی صاحب کو فون کرکے شعراء کی شرکت کا ذمہ انھیں دیدیا۔ انھوں نے آٹھ دس شعراء سے کہہ دیا ۔صدارت ماجد خلیل صاحب کی ہوئی۔ پھر تو جب جب میرے ہاں مشاعرے ہوئے ،بیشتر مشاعروں کی صدارت انھوںنے ہی کی۔ دبستانِ وارثیہ کی جانب سے ہر ماہ نعتیہ مشاعرہ ہوتا ہے اور ہر ماہ دبستان کی طرف سے دی ہوئی ردیف پر شعراء طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ماجد بھائی ان مشاعروں میں اکثر شریک رہے ہیں اور بیشتر مشاعروں کی صدارت بھی کی ہے۔ بلا شبہ ان ردیفی مشاعروں میں شعری ضرورتوں اور موضوع کی عظمتوں کے خیال سے طبع آزمائی کرنے والے شعراء میں ماجد بھائی ہمیشہ نمایاں رہے۔ اس بات کی تصدیق ان کتب سے ہوتی ہے جو ہر سال کے اختتام پر دبستان کی جانب سے شائع کی جاتی ہیں۔ماجد صاحب‘ ردیف نباہنے کے تقاضوں سے آشنا تھے اور قوافی کے استعمال میں انتہائی محتاط۔


آج طبیعت اداس ہے۔ کلام پر بھی گفتگو کرنی ہے اور کلیم پر بھی ۔اس لیے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کونسی بات کس مقام پر کہی جائے۔ یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں۔ ایک مرتبہ ماجد بھائی نے فون کیا اور مجھے کہا ’’ آپ کا ایم فل [اقبالیات] کا مقالہ ، اقبال اکادمی پاکستان سے شائع کیا جا سکتا ہے ۔ اس وقت انیق احمد ،سہیل عمر صاحب کے پاس بیٹھے ہیں۔آپ ان سے رابطہ کرکے ان کے مشورے سے اپنا مسودہ انھیں ارسال فرمادیں‘‘……میں حیرت زدہ رہ گیا!!!…بھلا ماجد بھائی کو میرے ایم فل کے مقالے (مثنوی رموزِ بیخودی کا فنی و فکری جائزہ) کا کیسے خیال رہا ۔جبکہ میں نے انھیں شاید ایک بار ہی اپنے مقالے کے بارے میں ،بغیر خواہشِ اشاعت، بتایا ہوگا! لیکن اپنے چھوٹوں پر شفقت فرمانے والے ماجد بھائی نے میری بات کو نہیں بھلایا۔ بہرحال انیق احمد صاحب کے کہنے پرمیں نے وہ مقالہ اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ،بھجوادیا تھا ۔یہ الگ بات کہ ایک سال بعد وہ مسودہ مجھے اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں ہونے والی اکھاڑ بچھاڑ کا حوالہ دے کر واپس کردیا گیا اور پھر نعت ریسرچ سینٹر ، کراچی کے زیرِ اہتمام وہ شائع کیا گیا۔


ایک دن سہ پہر میں ماجد بھائی کا فون آیا۔ فرمانے لگے میں آپ کے محلے میں آیا ہوا ہوں۔ آپ کو ایک نفیس انسان (ڈی ایس پی بشیرالدین صاحب)سے ملوانا چاہتا ہوں۔ بشیرالدین صاحب گلستانِ جوہر میں نئے نئے آباد ہوئے تھے۔ میں وہاں پہنچا ۔بشیر صاحب کی طبیعت ناساز تھی۔ ان سے مل کر انسیت کی خوشبو محسوس کی تو میں ان کی سادگی اور پیار بھری شخصیت کے حصار میں آگیا۔ بعد میں بشیر صاحب نے ترقی پائی اور SPہوگئے۔ لیکن پولیس کی نوکری سے جلدی جان چھڑالی ۔ یعنی قبل از وقت رٹائر منٹ لے لی۔


ماجد بھائی بہت اچھا شعر کہتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی کوئی مصرع بحر سے خارج بھی ہوجاتا تھا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ ،ادباً ان سے کچھ کہتے ہوئے جھجکتے تھے۔ سچی بات ہے ،میں بھی ان کے ایسے مصرعوں پر صرف خاموشی اختیار کرلیتا تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے میرے گھر پر ایک بہت اچھا شعر پڑھا لیکن اس میں عروضی سقم بھی تھا۔ سب نے شعر کی داد دی، جن میں‘میں بھی شامل رہا۔ لیکن جب نعت رنگ کے شمارہ ۲۱ میں احمد صغیر صدیقی صاحب نے ماجد بھائی کے اس شعر کی تعریف کی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے ان کے گھر میں بیٹھ کر انھیں اس شعرکا سقم سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں مانے تو میں نے وہاں موجو دعباس رضوی صاحب کو حکم بنایا ۔انھوں نے کہا عزیز احسن ٹھیک کہتے ہیں شعر میں ایک لفظ ہے ’’لفظ‘‘ جس میں ’’ظ‘‘ کی گردن بالکل جدا ہورہی ہے۔ غرض یہ کہ احمد صغیر صدیقی صاحب نے نعت رنگ شمارہ ۲۲ میں لکھا:


’’راقم الحروف نے ماجد خلیل صاحب کے ایک شعر کو تحسینی کلمات کے ساتھ کوٹ کیا تھا:


اک لفظ سے بنے ہوئے جہاں میں

اک نام سے روشنی ہوئی ہے


حقیقتاً یہ شعر سقیم ہے۔ اس کا پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ ایک رکن اس میں بڑھ گیاہے۔ راقم الحروف کی اس غلطی کی سمت توجہ عزیزی عزیز احسن نے دلائی تھی میں ان کا ممنون ہوں۔‘‘ (نعت رنگ ۲۲ ،ص ۵۵۶)


نعت رنگ کا شمارہ ماجد بھائی کو بھی بھیجا گیا تھا۔ انھوں نے اسے ملاحظہ فرمایا لیکن کبھی مجھ سے نہ تو شکایت کی اور نہ ہی اپنے رویّے سے بے رخی کا ظہار فرمایا۔ پھر یہ کہ جو لفظ میں نے کسی کے سامنے تجویز کیا تھا(ظاہر ہے خود ماجد بھائی سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی) وہی لفظ انھوں نے اپنے شعر میں رکھ کر دوسری شعری نشست میں پڑھا بھی :


اک کن سے بنے ہوئے جہاں میں


بعد میں نعت رنگ شمارہ ۲۴ میں نیویارک [امریکہ] سے جناب تنویر پھول نے بھی یہی تجویز پیش کی کہ ماجد صاحب کے شعر میں لفظ ’’کن‘‘ رکھا جاسکتا ہے۔ (نعت رنگ ۲۴، ص۵۵۹)


نعت رنگ کا وہ شمارہ دیکھ کر ماجد بھائی نے صبیح رحمانی کو خط لکھا تھا جس کی چند سطور درج کررہا ہوں:


’’محترم صبیح رحمانی صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ و بر کاتہ!

اُمید کہ مزاج گرامی مع الخیر ہوگا۔ خاکسار کے حضرتِ دل ان دنوں دھڑکنے کے علاوہ دوسری اٹھکھیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ موصوف راہِ راست پر آجائیں۔نعت رنگ کا شمارہ ۲۴ بدست قمر وارثی موصول ہوا۔ہمیشہ کی طرح جملہ صفات سے مزین اور معلومات میں اضافوں کا ذریعہ۔ سبحان اللہ سبحان اللہ۔ تمام مشمولاتِ نثر و نظم بہترین بالخصوص ’’ابتدائیہ۔‘‘

خطوط کے حصے میں چوںکہ میرے ایک شعر کے حوالے سے گفتگو کا تسلسل ہے اس لیے محترم تنویر پھول صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض گذار ہوں کہ میں نے اپنے شعر میں شائع ہو جانے والے سقم کو اصل مسودہ کی مدد سے بہت پہلے ہی درست کر لیا تھا اور اس طرح شعر کچھ یوں ہو گیا ہے:


اک کن سے بنے ہوئے جہاں میں

اک نام سے روشنی ہوئی ہے


بہر حال جن احباب نے اس شعر کے حوالے سے توجہ فرمائی ان سب کا شکر گزار ہوں۔


جنوری ۲۰۱۵ء میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند، کینیڈا سے کراچی آئے تو ان کی نعت گوئی کے ذوق کے پیشِ نظر میں نے انھیں یکم فروری کو اپنے غریب خانے پر نعتیہ مشاعرے میں مہمانِ اعزازی کے طور پر بلایا۔ ماجد بھائی کو صدارت کے لیے کہا۔ ان دنوںان کی طبیعت ناساز تھی۔ لیکن انھوں نے میری دعوت فوراً قبول فرمالی۔بلکہ یہ بھی ذمہ لیا کہ دوچار شعراء کو وہ خود کہہ دیں گے۔ چناں چہ وہ یادگار مشاعرہ بھی انھی کی صدارت میں ہوا۔


جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ماجد بھائی نے میرے غریب خانے پرہفتہ ، ۲۵/ شعبان ۱۴۳۶ھ مطابق،۱۳/جون ۲۰۱۵ء کو آخری نعتیہ نشست کی صدارت کی تھی۔ آسی سلطانی صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دیے تو مجھے نعتیہ ادب کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کرنے کی دعوت بھی دی۔ میں نے نعتیہ ادب کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی جہتوں پرکچھ باتیں کیں۔ جب میں نے اپنی بات مختصر کرتے ہوئے رخصت ہونا چاہا تو ماجد بھائی نے فرمایا: ’’ذرا تلمیح کے بارے میں بھی کچھ بتا دیجے!‘‘ ……میں نے چند کلمات تلمیحات اور نعتیہ ادب میں ان کی اہمیت پر کہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماجد بھائی کو نعتیہ ادب سے کتنی دلچسپی تھی اور تخلیقی لمحات میں شاعر کے ذہن میں موجود علمی مواد کی درستگی کا کتنا خیال تھا!!!


پچھلے دنوں احمد جاوید صاحب لاہور سے کراچی تشریف لائے تو ایک محفل میں ان سے ملاقات ہوئی ۔انیق احمد صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ماجد بھائی کا ذکر نکلا۔ ان دنوںوہ بہت زیادہ علیل تھے۔ انیق صاحب نے ان کے حوالے سے بتایا …’’ ایک زمانہ تھا کہ ماجد بھائی سعودی ایئر لائن میں ایڈمنسٹریٹر تھے اور پاکستان سے جانے والے احباب کی بڑی خاطر مدارات فرماتے تھے۔ ان دنوں ان کی کیفیت یہ تھی کہ جب بھی نعت کہتے فوراً مدینہ منورہ حاضر ہوکر دربارِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نعت پیش کرتے تھے۔ پھر وہ رٹائر ہوکر کراچی آگئے۔ یہاں سے بھی اکثر ان کا آنا جانا رہا۔ جب ان کے دل کا آپریشن ہوا تو خون کی ضرورت پڑی ۔ماجد بھائی نے کہا ہم بازاری خون نہیں لیں گے۔ کیا معلوم جس آدمی کا خون ہمیں دیا جائے اس نے حلال کا لقمہ کھایا ہو یا حرام کا؟‘‘…یہ بات بتاتے ہوئے انیق احمد صاحب پر رقت طاری ہوگئی………واقعی آج کل اس قدر احتیاط برتنے کا خیال بھی کسی کو نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سے ماجد بھائی کی نیک نفسی، حرام حلال کی تمیز اور آخرت کی جوابدہی کا احساس مترشح ہے۔ اب ایسی مثالیں کہاں ملیں گی؟


ماجد بھائی سے آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کی طرف سے دی گئی دعوتِ ولیمہ میں ہوئی۔ اتوار۸/ربیع الاول ۱۴۳۷ھ مطابق۲۰/دسمبر۲۰۱۵ء کو وہاں جاتے ہوئے میں نے چار شعر کہہ لیے کہ اگر ماجد بھائی سے ملاقات ہوئی تو انھیں سنا دوں گا تاکہ ان کی طبیعت بہل جائے ۔


میں اس دعوت میں پہنچا تو انٹر نیشنل سامع جہانگیر خان صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ پھر کئی احباب آگئے۔ قمر وارثی صاحب تو زیادہ تر ماجد بھائی کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ وہ بھی آگئے۔ کچھ دیر بعد ماجد بھائی بھی پہیوں والی کرسی پر بیٹھے ہوئے وہاں پہنچائے گئے۔ میں نے ان کا چہرہ دیکھا تو بڑا دکھ ہوا۔ ماجد صاحب کا گلاب سا چہرہ کملا چکا تھا۔ حلقوم میں ایک نلکی لگی ہوئی تھی جس کی مدد سے وہ بہت دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے۔ مجھے محسن بھوپالی مرحوم یاد آگئے ۔ان کے گلے میں بھی اسی طرح کی نلکی لگ گئی تھی جو آخری دم تک ان کے گلے میں اٹکی رہی۔سردی بھی تھی، لیکن ماجد بھائی احباب کی خاطر خاصی دیر تک وہاں موجود رہے۔ میں نے انھیں چار شعر سنائے :


حماد کو مبارک ، شادی کی یہ مسرت

اللہ ! بخشے ان کے والد کو جلد صحت

ماجد خلیل صاحب، پائیں خوشی کے لمحے

بن جائے ان کا گھر اب فی الاصل رشکِ جنت

نکلی ہیں ارتجالاً دل سے جو اب دعائیں

کرلے قبول سب ہی، اے کاش رب العزت !

میں بھی عزیز احسن ، شامل ہوں اس خوشی میں

بن جائیں اب یہ لمحے ، دونوں جہاں کی بہجت

اشعار سن کر ماجد بھائی نے مسرت کا اظہار فرمایا۔ ذکر ہورہا تھا آفتاب صاحب کے فون کا جس کے ذریعے ہمیں ماجد بھائی کی رحلت کی خبر ملی تھی۔میڈیل سینٹر سے لوٹتے لوٹتے ساڑھے تین بج گئے۔ میں نے جلدی جلدی ظہر کی فرض نماز ادا کی۔ کھانا زہر مار کیا…اور بشیرالدین صاحب کے ہمراہ منورہ مسجد پہنچا۔ مسجد تلاش کرنے میں کچھ وقت لگا۔جماعت نکل چکی تھی۔ تاہم ہم دونوں نے فوراً عصر کی نماز ادا کی اور نمازِ جنازہ میں شریک ہوگئے۔ وہاں سے سخی حسن قبرستان گئے۔ آفتاب مضطر، قمروارثی، عابد صاحب، پی ٹی وی کے شجاعت اللہ ، صفدر علی خان، جمال احمد جمال اور جہانگیر خان وغیرہم سے ملاقات ہوئی۔ سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ ہر آدمی اپنا غم چھپائے ہوئے اور آنسوؤں کو پلکوں سے تھامے ہوئے نظر آیا۔ عصر کی نماز کے بعد غروبِ آفتاب سے کچھ دیر قبل ہم نے دنیائے شعروادب کے آفتاب کو قبر کی گہرائی میں غروب ہوتے دیکھا۔ فاتحہ پڑھی اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ماجد بھائی کے حوالے سے راستے میں بشیر بھائی سے باتیں ہوئیں۔ میں نے کہا وہ میرے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ وہ کہنے لگے ، ہر شخص کا یہی گمان ہوتا تھا کہ وہ میرے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ لیکن یہی تو ماجد بھائی کی خوبی تھی کہ سب سے یکساں محبت فرماتے تھے!!!


سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا :


جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں


لیکن اب یہ کیفیت ہے کہ مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے:


یہ کیا ہوا کہ فقط تذکروں میں ملتے ہیں

نگاہ ڈھونڈتی پھرتی ہے باکمالوں کو


ظاہر ہے ماجد بھائی بھی اب تذکروں ہی میں ملیں گے ناں؟