لفظ "کبریا" کا استعمال

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


آپ اپنی آراء اور حوالہ اس صفحے سے منسلک "تبادلہ خیال" میں پیش کر سکتے ہیں ۔ "تبادلہ خیال" کا ربط اوپر موجود ہے  

"کبریا" کا لفظی معنی "بڑھائی" کے ہیں ۔ لیکن اردو میں بیشتر شعرا نے اسے "بڑھائی والا" کے معنوں میں اللہ عزوجل کے لیے استعمال کیا ہے ۔ اب یہ چلن ان بہت سے الفاظ کی طرح عام ہو چکا ہے جو فارسی یا عربی میں تو کچھ اور معنی رکھتے ہیں لیکن اردو میں آکر ان کامطلب یکسر بدل گیا ۔ مثلا "لطیفہ" ۔ فارسی میں "لطیفہ"بمعنی "سخن خوب" اور عربی میں بمعنی "اچھی چیز" وغیرہ ہے ۔ اور اردو میں اس کا مطلب بالکل ہی مختلف ہے۔

مشاہیر کے اشعار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بسی عطر محبوبی ِ کبریا سے

عبائے محمد قبائے محمد

احمد رضا خان بریلوی


محبوب کبریا کی حیات جمیل سے

پایا ہے افتخار بقائے دوام سے

محمد افضل فقیر


کوئی محبوب کبریا نہ ہوا

کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا

اعظم چشتی


عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا

بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

ہوں مفسر کتا ب ِ ہستی کی

مظہر شان کبریا ہوں میں

علامہ اقبال

اعتراضات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر عزیز احسن نے اپنے مضمون نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے میں لفظ "کبریا" پر پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں

"کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے ’’اللہ‘‘ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہے۔شعراء نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ’’کبریا‘‘ کو پہلے پہل جس نے بھی اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہوگا اس نے عربی قاعدے سے ناواقفیت کی بنا پر یا اپنے غلط اجتہاد کی بنا پر ایسا کیا ہوگا۔حالانکہ یہ صرف صفت ہے اسمِ صفت نہیں ہے۔قرآنِ کریم میں یہ لفظ صرف دو بار آیا ہے۔سورۂ یونس اور الجاثیہ میں:

وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیآ ءُ فِی اْلَاْرضِ ط ۔۔۔

اور حاصل ہوجائے تم دونوں کو سرداری اس ملک میں۔<ref> لقرآن ۷۸:۱۰</ref>

وَ لَہُ ا لْکِبْرِیَآ ءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ص ۔۔۔

اور اسی کو سزاوار ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں۔ <ref> القرآن ۳۷:۴۵ </ref>

قرآن کریم کی درجِ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ کبریا بڑائی کو کہتے ہیں ’’بڑے‘‘ کو نہیں۔اللہ کے لیے ’’اکبر‘‘ بھی اسمِ ذات (اللہ) کے ساتھ بولا اور لکھا جاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ اردو لغت بورڈ ، کراچی ، میں بھی ’’کبریا‘‘ کے معنی خدا تعالیٰ کے صفاتی نام کے ہی دیئے ہیں۔حالانکہ اسی لغت میں اس لفظ کے معنی بزرگی، عظمت ، شان و شوکت ، جاہ و جلال ، قدرت اور فضیلت بھی رقم ہیں اور میر کا یہ شعر بھی درج ہے جو اس لفظ کے بالکل درست استعمال کی طرف اشارہ کررہا ہے:

’’میر ؔ ناچیز مشتِ خاک اللہ

ان نے یہ کبریا کہاں پائی‘‘<ref> اردو لغت، (اردو لغت بورڈ، کراچی) </ref>

ان حقائق کی روشنی میں ’’کبریا‘‘ کو اللہ کے صفاتی نام کے طور پر برتنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔


حق میں دلائل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"لفظ" کبریا کو اللہ رب العزت کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں کسی بہت بڑے نام کا کی رائے تو ابھی سامنے نہیں آئی لیکن عام طور پر جو درج زیل دلیلیں دی جاتی ہیں ۔

1۔ جب احمد رضا بریلوی ، افضل فقیر، علامہ اقبال جیسی شخصیات نے اس لفظ کو اللہ رب العزت کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہےتو باقی کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔

2- احمد ندیم ، ڈاکٹر عزیز احسن کی اس رائے کہ "یہ صرف صفت ہے اسمِ صفت نہیں ہے۔" فرماتے ہیں۔

عربی میں صفت اور اسم صفت جیسی کوئی تقسیم نظر سے کبھی نہیں گزری اور عربی بلاغت کا یہ کمال ہے کہ اس میں محذوف مقدر کا چلن عام ہے حتی کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم صرف مرکب اضافی ہو کلام نہ ہو اگر اس میں "ابتدء" کو محذوف مقدر نہ مانا جائے سو مکمل جملہ یوں ہے " ابتدء بسم اللہ الرحمن الرحیم" لیکن "ابتدء" کو حذف کیا جاتا ہے اسی طرح ذو کبریاء میں ذو محذوف مقدر ہے ۔

محذوف مقدر سے مراد ہے کہ یہاں سیاق کلام کے تقاضے کے طور پر محذوف فرض کیا جائے گا تو قرآن پاک کی ہر سورہ سوائے سورہ برآت کے اس قاعدہ زبان کی یاد دہانی کرواتی ہے اردو میں کبریا کو اسم صفت استعمال کرنے والے عربی کے عالم تھے ہم ناقدین بد قسمتی سے عربی زبان سے ناواقف ہیں۔


3۔ الفا ظ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں سفر کرتے ہیں تو کئی بار اپنے معنی بدل لیتے ہیں ۔ بعض اوقات ایک ہی زبان کے الفاط وقت گذرنے کے ساتھ بھی اپنے معنی، شدت یا کیفیت بدل لیتے ہیں ۔ اول الذکر کی مثال "مکر"، "لطفیہ"، "حریص"، "یزداں" جیسے الفاظ ہیں ۔ ثانی الذکر کی مثال جمعدار، داروغہ، خانِ ساماں وغیرہ ہے ۔ "کبریا" بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے ۔ "کبریا"اگرچہ قرآن پاک میں بیان کردہ صفاتی ناموں کی طرح نہیں ہے لیکن خدا، پروردگار، پالن ہار، جیسے الفاظ میں ایک اور اضافہ ہے ۔

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]