"لفظ "کبریا" کا استعمال" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 30: سطر 30:
=== اعتراضات ===
=== اعتراضات ===


[[ڈاکٹر عزیز احسن ]] نے اپنے مضمون [[نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے ]] میں لفظ "کبریا" پر بھی گفتگو فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں  
[[ڈاکٹر عزیز احسن ]] نے اپنے مضمون [[نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے ،- ڈاکٹرعزیز احسن | نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے ]] میں لفظ "کبریا" پر بھی گفتگو فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں  


<blockquote>  
<blockquote>  

نسخہ بمطابق 08:42، 27 مارچ 2017ء


آپ اپنی آراء اور حوالہ اس صفحے سے منسلک "تبادلہ خیال" میں پیش کر سکتے ہیں ۔ "تبادلہ خیال" کا ربط اوپر موجود ہے  

"کبریا" کا لفظی معنی "بڑھائی" کے ہیں ۔ لیکن اردو میں بیشتر شعرا نے اسے "بڑھائی والا" کے معنوں میں اللہ عزوجل کے لیے استعمال کیا ہے ۔

مشاہیر کے اشعار

بسی عطر محبوبی ِ کبریا سے

عبائے محمد قبائے محمد

احمد رضا خان بریلوی

۔

محبوب کبریا کی حیات جمیل سے

پایا ہے افتخار بقائے دوام سے

محمد افضل فقیر

بشر پہ جس کی نظر ہو، بشر کو تیرے سوا

کوئی بھی محرم اسرار کبریا نہ ملا

حفیظ ہوشیار پوری

اعتراضات

ڈاکٹر عزیز احسن نے اپنے مضمون نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے میں لفظ "کبریا" پر بھی گفتگو فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں

"کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے ’’اللہ‘‘ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہے۔شعراء نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ’’کبریا‘‘ کو پہلے پہل جس نے بھی اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہوگا اس نے عربی قاعدے سے ناواقفیت کی بنا پر یا اپنے غلط اجتہاد کی بنا پر ایسا کیا ہوگا۔حالانکہ یہ صرف صفت ہے اسمِ صفت نہیں ہے۔قرآنِ کریم میں یہ لفظ صرف دو بار آیا ہے۔سورۂ یونس اور الجاثیہ میں:

وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیآ ءُ فِی اْلَاْرضِ ط ۔۔۔

اور حاصل ہوجائے تم دونوں کو سرداری اس ملک میں۔(55)۔۔۔

وَ لَہُ ا لْکِبْرِیَآ ءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ص ۔۔۔

اور اسی کو سزاوار ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں۔(56)

قرآن کریم کی درجِ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ کبریا بڑائی کو کہتے ہیں ’’بڑے‘‘ کو نہیں۔اللہ کے لیے ’’اکبر‘‘ بھی اسمِ ذات (اللہ) کے ساتھ بولا اور لکھا جاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ اردو لغت بورڈ ، کراچی ، میں بھی ’’کبریا‘‘ کے معنی خدا تعالیٰ کے صفاتی نام کے ہی دیئے ہیں۔حالانکہ اسی لغت میں اس لفظ کے معنی بزرگی، عظمت ، شان و شوکت ، جاہ و جلال ، قدرت اور فضیلت بھی رقم ہیں اور میر کا یہ شعر بھی درج ہے جو اس لفظ کے بالکل درست استعمال کی طرف اشارہ کررہا ہے:

’’میر ؔ ناچیز مشتِ خاک اللہ

ان نے یہ کبریا کہاں پائی‘‘(57)

ان حقائق کی روشنی میں ’’کبریا‘‘ کو اللہ کے صفاتی نام کے طور پر برتنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حواشی و حوالہ جات