لب پہ صل علی کے ترانے اشک آنکھوں میں آئے ہوئے ہیں ۔ کمال الدین

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: کمال الدین

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے اشک آنکھوں میں آئے ہوئے ہیں

یہ ہوا یہ فضا کہہ رہی ہے آقا تشریف لائے ہوئے ہیں

جھک رہا ہے فلک بھی زمین بھی ایسی چوکھٹ نہ دیکھی کہیں بھی

جس جگہ جبریل امین بھی اپنی گردن جھکاۓ ہوۓ ہیں


جن کی خاطر یہ عالم بنایا اپنے گھر جن کو رب نے بلایا

اے حلیمہ یہ تیرا مقدر وہ ترے گھر میں آئے ہوئے ہیں


کیسے کہہ دوں وہ حاضر نہیں ہیں کیسے مانوں یہ ممکن نہیں ہے

اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو وہ تصور میں آئے ہوئے ہیں


آج پوری ہوئی دل کی حسرت کیوں نہ جی بھر کے کرلوں زیارت

قبر میں اے فرشتو نہ آنا میرے سرکار آئے ہوئے ہیں


نام نبیوں کے بے شک بڑے ہیں عظمتوں کے نگینے جڑے ہیں

مقتدی بن کے پیھچے کھڑے ہیں وہ جو پہلے سے آئے ہوئے ہیں


میں مدینے کی گلیوں کے قرباں جن سے گزرے ہیں شاہِ مدینہ

اس طرح سے مہکتے ہیں رستے عطر جیسے لگائے ہوئے ہیں


چھوڑ کر در بدر کا ٹھکانا اے کمال ان کے در پہ ہے جانا

ہم سے لاکھوں برُوں کو جو اپنا خاص مہماں بنائے ہوئے ہیں