آپ «فنِ نعت گوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر واحد نظیر» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:WAHID NAZIR.jpg|LINK=واحد نظیر]]
[[ملف:WAHID NAZIR.jpg|LINK]]


{{ بسم اللہ }}
{{ بسم اللہ }}




مضمون نگار : [[ واحد نظیر ]]
مضمون نگار : [[واحد نظیر   ]]


مطبوعہ : [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2 ]]
مطبوعہ : [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2 ]]
سطر 50: سطر 50:


نعتِ شہِ کو نین و مدیحِ کے وجم را
نعتِ شہِ کو نین و مدیحِ کے وجم را
{{ ٹکر 1 }}
 
گویا لفظیات اور لہجے کے انتخابی مراحل میں نعت گو شعرا کو یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ سلطانِ انبیا اور دنیوی سلاطین کی مد حت میں بیّن فرق ہے۔وہ الفاظ و اصطلاحات جو کسی فرد کے لیے مخصوص ہوں نعتیہ اشعار کا پیرا یۂ اظہار نہیں بن سکتے۔ یہی حکم لہجے اور پیش کش پر بھی صادر ہوتا ہے۔ فلمی گیتوں کے طرز پر نعتِ نبی کا پڑھنا اور لکھنا اسی لیے درست نہیں۔ بیان و اظہار کا یہ محتاط رویہ جہاں نعتِ رسول ﷺ کو عمومیت سے پاک رکھنے میں معاون ہوتا ہے وہیں ذکرِ الوہیت کے خصوصی دائرے میں داخل ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جادۂ نعت کے مسافر در حقیقت نیا بتا ً اللہ کی ہی حمدو ثنا کے سفر میں ہوتے ہیں ان کا فکری اور فنی امتیاز اسی صورت میں باقی رہ سکتا ہے جب کہ ان کی شعری کاوشوں میں توحیدورسالت کا فرق نمایاں طور پر موجود ہو۔ خالق و مخلوق کے امتیازکا شعور کسی بھی مرحلے پر کم نہ ہونے پائے اور ہر ہر لمحہ عقیدت کے ساتھ عقیدہ کا ہوش باقی رہے۔
گویا لفظیات اور لہجے کے انتخابی مراحل میں نعت گو شعرا کو یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ سلطانِ انبیا اور دنیوی سلاطین کی مد حت میں بیّن فرق ہے۔وہ الفاظ و اصطلاحات جو کسی فرد کے لیے مخصوص ہوں نعتیہ اشعار کا پیرا یۂ اظہار نہیں بن سکتے۔ یہی حکم لہجے اور پیش کش پر بھی صادر ہوتا ہے۔ فلمی گیتوں کے طرز پر نعتِ نبی کا پڑھنا اور لکھنا اسی لیے درست نہیں۔ بیان و اظہار کا یہ محتاط رویہ جہاں نعتِ رسول ﷺ کو عمومیت سے پاک رکھنے میں معاون ہوتا ہے وہیں ذکرِ الوہیت کے خصوصی دائرے میں داخل ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جادۂ نعت کے مسافر در حقیقت نیا بتا ً اللہ کی ہی حمدو ثنا کے سفر میں ہوتے ہیں ان کا فکری اور فنی امتیاز اسی صورت میں باقی رہ سکتا ہے جب کہ ان کی شعری کاوشوں میں توحیدورسالت کا فرق نمایاں طور پر موجود ہو۔ خالق و مخلوق کے امتیازکا شعور کسی بھی مرحلے پر کم نہ ہونے پائے اور ہر ہر لمحہ عقیدت کے ساتھ عقیدہ کا ہوش باقی رہے۔
عقیدت اور عقیدہ دراصل یہی وہ دوچیزیں ہیں جن کے اظہارمیں سلامت روی سے گزر جانا نعت کہنے کے فن سے حتی المقدور عہدہ بر آہونے میں کامیابی پانے کے مترادف ہے۔ اگر عقید تو ں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے نعت کے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان و اظہار قاری پر بھی عقیدت و التجا کی وہی کیفیت طاری کردے جس سے شاعر دوچار ہوا ہے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں بھی وہی آرزوئیں مچلنے لگیں جن آرزوئوں اور تمنائوں نے شاعر کو ماہیِ بے آب بنارکھا ہے۔ اگر نعتیہ شاعری میں عقیدوں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان لفظی تلمیحات کا مرہونِ منت ہوئے بغیر فکری طورپر قاری یا سامع کو نہ صر ف اس عقیدے کی تہہ تک پہنچادے بلکہ اس کے افہام میں معاون اور استحکام میں اضافہ کا سبب بن جائے، جس عقیدے سے وابستگی نے اسے متعلقہ شعر کہنے کا ذہن بخشا ہے۔اگر عقیدتوں کے بیان میں شاعر کے لیے یہ بات کسی آفت سے کم نہیں کہ ہوشیاری کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگا ہو تو یقینا عقیدوں کے بیان میں بھی یہ بات ایک بڑی افتاد کے مصداق ہی قرارپائے گی کہ اس کی صحت کسی بھی جہت سے مجروح ہوگئی ہو۔خود شاعر کی نوکِ قلم سے اس کے اپنے عقیدے پر نشترلگ گیا ہواور اسے خبر بھی نہ ہوئی ہو۔ یا اعتقادیہ کے بیان میں ایک قسم کی رمزیت آگئی ہو۔ ایسی رمزیت جو مذہب کو یا تو فرقۂ باطنیہ میں تبدیل کردیتی ہے یا پھر طرح طرح کی تاویل و توجیہہ کے دروازے کھول دیتی ہے۔‘‘وہی جو مستویِ عرش ہے خدا ہوکر ‘‘ جیسے اشعار سے جو علمی قضیے و جود میں آئے ان سے نعتیہ ادب کا مطالعہ رکھنے والے بہ خوبی واقف ہیں۔ دوسری جانب عظمتِ رسول ﷺ کی تحفیف کرنے والے شعر اکی تعداد بھی کم نہیں اعتقادیہ کے بیان میں مبالغہ اور تحفیف دونوں ہی ایمان کے لیے خطرناک ہیں۔
عقیدت اور عقیدہ دراصل یہی وہ دوچیزیں ہیں جن کے اظہارمیں سلامت روی سے گزر جانا نعت کہنے کے فن سے حتی المقدور عہدہ بر آہونے میں کامیابی پانے کے مترادف ہے۔ اگر عقید تو ں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے نعت کے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان و اظہار قاری پر بھی عقیدت و التجا کی وہی کیفیت طاری کردے جس سے شاعر دوچار ہوا ہے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں بھی وہی آرزوئیں مچلنے لگیں جن آرزوئوں اور تمنائوں نے شاعر کو ماہیِ بے آب بنارکھا ہے۔ اگر نعتیہ شاعری میں عقیدوں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان لفظی تلمیحات کا مرہونِ منت ہوئے بغیر فکری طورپر قاری یا سامع کو نہ صر ف اس عقیدے کی تہہ تک پہنچادے بلکہ اس کے افہام میں معاون اور استحکام میں اضافہ کا سبب بن جائے، جس عقیدے سے وابستگی نے اسے متعلقہ شعر کہنے کا ذہن بخشا ہے۔اگر عقیدتوں کے بیان میں شاعر کے لیے یہ بات کسی آفت سے کم نہیں کہ ہوشیاری کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگا ہو تو یقینا عقیدوں کے بیان میں بھی یہ بات ایک بڑی افتاد کے مصداق ہی قرارپائے گی کہ اس کی صحت کسی بھی جہت سے مجروح ہوگئی ہو۔خود شاعر کی نوکِ قلم سے اس کے اپنے عقیدے پر نشترلگ گیا ہواور اسے خبر بھی نہ ہوئی ہو۔ یا اعتقادیہ کے بیان میں ایک قسم کی رمزیت آگئی ہو۔ ایسی رمزیت جو مذہب کو یا تو فرقۂ باطنیہ میں تبدیل کردیتی ہے یا پھر طرح طرح کی تاویل و توجیہہ کے دروازے کھول دیتی ہے۔‘‘وہی جو مستویِ عرش ہے خدا ہوکر ‘‘ جیسے اشعار سے جو علمی قضیے و جود میں آئے ان سے نعتیہ ادب کا مطالعہ رکھنے والے بہ خوبی واقف ہیں۔ دوسری جانب عظمتِ رسول ﷺ کی تحفیف کرنے والے شعر اکی تعداد بھی کم نہیں اعتقادیہ کے بیان میں مبالغہ اور تحفیف دونوں ہی ایمان کے لیے خطرناک ہیں۔
سطر 66: سطر 66:
یہ نکات و اشارات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فکری وفنی حزم و احتیاط اور خلوص کے ساتھ نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عینِ عبادت ہے۔نیز اعتقاد کی صداقت اور موضوع کی حقانیت اس کی بنیادی شرط ہے۔ لہٰذا حقائق کو منظوم کرتے ہوئے حددرجہ احتیاط لازمی ہے جب کہ عقیدتوں کے بیان میں خود سپردگی ، سرشاری اور خلوص ضروری ہے۔ چوں کہ نعت صرف شعری ذوق کی تسکین کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ اسلام اور بانیِ اسلام کی تاریخ ، حیاتِ مومن کا لائحہ، شاعر کے ایمان وایقان کا مظہر اور قران و احادیث کی تفہیم کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس طرح نعتیہ شاعری کے تخلیقی عمل میں ذراسی بے احتیاطی ایمان کو کس طرح نقصان پہنچاسکتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین و آسمان کی کسی بھی حقیقت پہ پہلا حجاب حمدکا ہے کہ ہرشے کی تخلیق خدا نے فرمائی ہے اور دوسر احجاب نعت کا ہے کیوں کہ ہرشے کی تخلیق کا باعث ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لولا ک لماخلقت الافلاک اسی حجاب کی تصدیق ہے۔
یہ نکات و اشارات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فکری وفنی حزم و احتیاط اور خلوص کے ساتھ نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عینِ عبادت ہے۔نیز اعتقاد کی صداقت اور موضوع کی حقانیت اس کی بنیادی شرط ہے۔ لہٰذا حقائق کو منظوم کرتے ہوئے حددرجہ احتیاط لازمی ہے جب کہ عقیدتوں کے بیان میں خود سپردگی ، سرشاری اور خلوص ضروری ہے۔ چوں کہ نعت صرف شعری ذوق کی تسکین کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ اسلام اور بانیِ اسلام کی تاریخ ، حیاتِ مومن کا لائحہ، شاعر کے ایمان وایقان کا مظہر اور قران و احادیث کی تفہیم کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس طرح نعتیہ شاعری کے تخلیقی عمل میں ذراسی بے احتیاطی ایمان کو کس طرح نقصان پہنچاسکتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین و آسمان کی کسی بھی حقیقت پہ پہلا حجاب حمدکا ہے کہ ہرشے کی تخلیق خدا نے فرمائی ہے اور دوسر احجاب نعت کا ہے کیوں کہ ہرشے کی تخلیق کا باعث ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لولا ک لماخلقت الافلاک اسی حجاب کی تصدیق ہے۔


=== مزید دیکھیے ===


{{ٹکر 1 }}
{{باکس مضامین }}
{{باکس 1}}
{{باکس 1}}
{{باکس مضامین}}
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)