آپ «فنِ نعت گوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر واحد نظیر» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 30: سطر 30:
القادری رقم طراز ہیں:
القادری رقم طراز ہیں:
’’کس کی مجال ہے جو خلاصۂ کائنات ،فخرموجودات علیہ الصلوٰ ۃ والتحیات کی مدحت سرائی اور سیرت نگاری کا حق ادا کرسکے۔ یہ غلط دعویٰ نہ کسی کی زبان سے نکل کر فضا میں پھیلا اور نہ کسی قلم نے اسے صفحۂ قرطاس پر ثبت کیا۔ اس بارگاہِ اقدس میں جس نے بھی لب کشائی کی تو اس کا مقصد حصولِ سعادت کے سوااور کچھ نہ تھا۔‘‘
’’کس کی مجال ہے جو خلاصۂ کائنات ،فخرموجودات علیہ الصلوٰ ۃ والتحیات کی مدحت سرائی اور سیرت نگاری کا حق ادا کرسکے۔ یہ غلط دعویٰ نہ کسی کی زبان سے نکل کر فضا میں پھیلا اور نہ کسی قلم نے اسے صفحۂ قرطاس پر ثبت کیا۔ اس بارگاہِ اقدس میں جس نے بھی لب کشائی کی تو اس کا مقصد حصولِ سعادت کے سوااور کچھ نہ تھا۔‘‘
{{ٹکر 2}}
 
حصولِ سعادت کا یہی وہ پاکیزہ جذبہ ہے جس سے سرشارہوکر عہد نبوی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت کعب بن زہیر، حضرت کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے کبائر صحابہ کرام نے اپنی زبان ، قلم اور کاغذ کو مرہونِ نعت کیا۔یہاں تک کہ ابوطالب اور میمون بن قیس اعشیٰ جیسے معاصرینِ رسول ﷺنے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مد حت میں خلوص سے کام لیا۔
حصولِ سعادت کا یہی وہ پاکیزہ جذبہ ہے جس سے سرشارہوکر عہد نبوی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت کعب بن زہیر، حضرت کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے کبائر صحابہ کرام نے اپنی زبان ، قلم اور کاغذ کو مرہونِ نعت کیا۔یہاں تک کہ ابوطالب اور میمون بن قیس اعشیٰ جیسے معاصرینِ رسول ﷺنے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مد حت میں خلوص سے کام لیا۔
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے زمانے میں ایک بڑی تعداد ایسے شعرا کی بھی ملتی ہے جو ایمانی دولت سے مملو تونہیں تھے لیکن ان کے مدحیہ اشعار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اوصافِ رسول سے کس قدر متاثر تھے۔ عظمتِ رسول ﷺکے بالواسطہ اعتراف کا یہی وہ پہلو ہے جو ہرزمانے میں معجزہ بن کرروشن ہوتا رہا۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر مذہب میں پیارے مصطفی ﷺکے مدحت سرا پیدا ہوتے رہے اور صبحِ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے۔ تفصیلات سے قطعِ نظر صرف ایک مثال کے ساتھ اس نکتے کو یہیں چھوڑتا ہوں کہ جرمن شاعر گوئٹے کی شہرہ آفاق نظم ’’نغماتِ محمدی ﷺ ‘‘ کا آزاد ترجمہ علامہ اقبال نے ’’جوئے آب کے ‘‘ نام سے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں شامل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے زمانے میں ایک بڑی تعداد ایسے شعرا کی بھی ملتی ہے جو ایمانی دولت سے مملو تونہیں تھے لیکن ان کے مدحیہ اشعار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اوصافِ رسول سے کس قدر متاثر تھے۔ عظمتِ رسول ﷺکے بالواسطہ اعتراف کا یہی وہ پہلو ہے جو ہرزمانے میں معجزہ بن کرروشن ہوتا رہا۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر مذہب میں پیارے مصطفی ﷺکے مدحت سرا پیدا ہوتے رہے اور صبحِ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے۔ تفصیلات سے قطعِ نظر صرف ایک مثال کے ساتھ اس نکتے کو یہیں چھوڑتا ہوں کہ جرمن شاعر گوئٹے کی شہرہ آفاق نظم ’’نغماتِ محمدی ﷺ ‘‘ کا آزاد ترجمہ علامہ اقبال نے ’’جوئے آب کے ‘‘ نام سے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں شامل کیا۔
سطر 42: سطر 42:


ترجمہ: صرف وہ بات چھوڑ دو، جس کا دعویٰ نصرانیوں نے اپنے نبی کے بارے میں کیا ہے اس کے بعد جو تمھاراجی چاہے ، حضور ﷺکی مدح میں کہو اور جو حکم چاہو لگاتے جائو۔
ترجمہ: صرف وہ بات چھوڑ دو، جس کا دعویٰ نصرانیوں نے اپنے نبی کے بارے میں کیا ہے اس کے بعد جو تمھاراجی چاہے ، حضور ﷺکی مدح میں کہو اور جو حکم چاہو لگاتے جائو۔
{{ٹکر 3 }}
 
معلوم یہ ہو اکہ نعت گوئی کے لیے بیانِ مضمون کا ایک بڑا ادب ، اسرائیلی روایا ت سے احتراز ہے، اُس طورِ تفحص سے احتراز جس کا سفر تثلیث کی وادی تک پہنچا دیتا ہے۔امام بوصیری کے اس شعر میں نعت کے موضوع کی تعیین بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ مدحتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکنات اور اس کی حدیں انسان کی فکری دسترس سے باہر ہیں لیکن یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ عہدِ نبوی سے تاحال ہر موزوں طبع عاشقِ رسول ﷺ نے کچھ نہ کچھ نعتیہ اشعار ضرور کہے ہیں۔ان اشعار کے موضوع کی دوقسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہے جس میں شاعر نے اپنے داخلی جذبات و کیفیات کو بارگاہِ مصطفی ﷺمیں پیش کیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور اس کے متعلقات منظوم ہوئے ہیں۔ موضوع کی یہ تقسیم وسیع تناظر میں پیش کی گئی ہے، ورنہ ایمان کی بات یہ ہے کہ نعت میں پیش کیے گئے موضوعات کو عنوان دیا جائے تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں۔
معلوم یہ ہو اکہ نعت گوئی کے لیے بیانِ مضمون کا ایک بڑا ادب ، اسرائیلی روایا ت سے احتراز ہے، اُس طورِ تفحص سے احتراز جس کا سفر تثلیث کی وادی تک پہنچا دیتا ہے۔امام بوصیری کے اس شعر میں نعت کے موضوع کی تعیین بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ مدحتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکنات اور اس کی حدیں انسان کی فکری دسترس سے باہر ہیں لیکن یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ عہدِ نبوی سے تاحال ہر موزوں طبع عاشقِ رسول ﷺ نے کچھ نہ کچھ نعتیہ اشعار ضرور کہے ہیں۔ان اشعار کے موضوع کی دوقسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہے جس میں شاعر نے اپنے داخلی جذبات و کیفیات کو بارگاہِ مصطفی ﷺمیں پیش کیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور اس کے متعلقات منظوم ہوئے ہیں۔ موضوع کی یہ تقسیم وسیع تناظر میں پیش کی گئی ہے، ورنہ ایمان کی بات یہ ہے کہ نعت میں پیش کیے گئے موضوعات کو عنوان دیا جائے تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں۔
داخلی جذبات کے تعلق سے آرزو، استغاثہ، اظہارِ عشق و محبت یا قلبی واردات ،مدینے سے جغرافیائی دوری کے احساسات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ جب کہ حیاتِ رسول ﷺ اور سیرت و شمائل کے حوالے سے حالاتِ ماقبلِ ولادت، بشارت ِو لادت ، ولادتِ باسعادت، رضاعت، یتیمی ، نبوت، رسالت ، خطابت، فصاحت، بلاغت، اخلاق، اوصاف ، خصائل ، معراج، ہجرت، غزوات ، معاہدے، شرافت، نجابت ، سخاوت، شفقت، عدل، صداقت، امانت ، للّٰہیت ،انکساری ، مزاج، حسن و جمال، گفتار، رفتار، تبسم، وضع، رخسار، گیسو، قد، ملبوسات، اسلوبِ کلام، ماکولات، مشروبات ، شجاعت، عزم واستقلال،شعر فہمی، نقدو تبصرہ، معجزات، دعوت نامے، خاندانی شرف، انبیا میں فضیلت ، اہل و عیال وغیرہ ، اسی طرح متعلقات میں گنبدِ خضریٰ ، سنہری جالیاں، حریری پردے، سنگِ درِاقدس، مدینہ منورہ کا جغرافیہ ، اس کی تاریخ، بہارِ مدینہ وغیرہ نعت کے موضوعی عناصر ہیں۔  
داخلی جذبات کے تعلق سے آرزو، استغاثہ، اظہارِ عشق و محبت یا قلبی واردات ،مدینے سے جغرافیائی دوری کے احساسات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ جب کہ حیاتِ رسول ﷺ اور سیرت و شمائل کے حوالے سے حالاتِ ماقبلِ ولادت، بشارت ِو لادت ، ولادتِ باسعادت، رضاعت، یتیمی ، نبوت، رسالت ، خطابت، فصاحت، بلاغت، اخلاق، اوصاف ، خصائل ، معراج، ہجرت، غزوات ، معاہدے، شرافت، نجابت ، سخاوت، شفقت، عدل، صداقت، امانت ، للّٰہیت ،انکساری ، مزاج، حسن و جمال، گفتار، رفتار، تبسم، وضع، رخسار، گیسو، قد، ملبوسات، اسلوبِ کلام، ماکولات، مشروبات ، شجاعت، عزم واستقلال،شعر فہمی، نقدو تبصرہ، معجزات، دعوت نامے، خاندانی شرف، انبیا میں فضیلت ، اہل و عیال وغیرہ ، اسی طرح متعلقات میں گنبدِ خضریٰ ، سنہری جالیاں، حریری پردے، سنگِ درِاقدس، مدینہ منورہ کا جغرافیہ ، اس کی تاریخ، بہارِ مدینہ وغیرہ نعت کے موضوعی عناصر ہیں۔  
سطر 60: سطر 60:


تو پھر صاف پتا چل جاتاہے ک اعتقادیہ کی شکو خیدگی نے کیا گل کھلائے ہیں اور شاعر نے کس طرح یہ عقیدہ نظم کردیا ہے کہ رسول پاک ﷺ نبیِ مختار نہیں، نبی مجبور ہیں۔ یہاں نعتیہ شاعری میں عقیدوں کے بیان کی مختلف کیفیات کو سامنے لانا یا ان مثالوں کی طرف جانا مقصود نہیں، جن میںعقیدۂ اوتاریہ اور نعوذباللہ’’نبی مجبور‘‘ جیسے عقیدے کی پیش کش ہوئی ہے۔ بلکہ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عقیدوں کی پیش کش میں حزم و احتیاط نہ ہو تو نعتیہ شاعری ایمان کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ عقیدوں کی پیش کش میں فنی مرتبے کا ایک او سط حال تو یہ ہے کہ لفظی تلمیح برجستہ آئی ہو اور اس سے بھی بلند درجہ یہ ہے کہ معنوی تلمیح سے صحیح عقیدے کی طرف قابلِ فہم نشاندہی ہوگئی ہو۔ایسی نشاندہی جس میں روحِ قرآنی جھلک رہی ہو۔اگر شاعر پیارے مصطفی ﷺ کا سراپا بیان کررہا ہو تو شانِ تخیل بے لگام نہ ہو بلکہ شمائل نبو ی کے مضامین اس کے موید ہوں۔ مزید ایک بات بر سرِتذکرہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کی نعتیہ شاعری میں عصری حسیت کو بھی مختلف نہجوں سے برتا جارہا ہے۔ عالمی منظر نامے پر اہلِ اسلام کی جو کر بناک تصویر یں ابھررہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اظہار غیر فطری بھی نہیں۔اپنا حال سنانے کے لیے محبانِ رسول ﷺکے سامنے خدا و رسول ﷺ کی بارگہ سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ عصری حسیت کو بیان کرتے ہوئے آدابِ نعت کا دامن ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے کیونکہ حالِ زمانہ کو پیش کرتے ہوئے غلو کا سہارا لینا گویا نبی ﷺکے دربار میں غلو کے ساتھ باتیں کرنا ہے۔
تو پھر صاف پتا چل جاتاہے ک اعتقادیہ کی شکو خیدگی نے کیا گل کھلائے ہیں اور شاعر نے کس طرح یہ عقیدہ نظم کردیا ہے کہ رسول پاک ﷺ نبیِ مختار نہیں، نبی مجبور ہیں۔ یہاں نعتیہ شاعری میں عقیدوں کے بیان کی مختلف کیفیات کو سامنے لانا یا ان مثالوں کی طرف جانا مقصود نہیں، جن میںعقیدۂ اوتاریہ اور نعوذباللہ’’نبی مجبور‘‘ جیسے عقیدے کی پیش کش ہوئی ہے۔ بلکہ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عقیدوں کی پیش کش میں حزم و احتیاط نہ ہو تو نعتیہ شاعری ایمان کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ عقیدوں کی پیش کش میں فنی مرتبے کا ایک او سط حال تو یہ ہے کہ لفظی تلمیح برجستہ آئی ہو اور اس سے بھی بلند درجہ یہ ہے کہ معنوی تلمیح سے صحیح عقیدے کی طرف قابلِ فہم نشاندہی ہوگئی ہو۔ایسی نشاندہی جس میں روحِ قرآنی جھلک رہی ہو۔اگر شاعر پیارے مصطفی ﷺ کا سراپا بیان کررہا ہو تو شانِ تخیل بے لگام نہ ہو بلکہ شمائل نبو ی کے مضامین اس کے موید ہوں۔ مزید ایک بات بر سرِتذکرہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کی نعتیہ شاعری میں عصری حسیت کو بھی مختلف نہجوں سے برتا جارہا ہے۔ عالمی منظر نامے پر اہلِ اسلام کی جو کر بناک تصویر یں ابھررہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اظہار غیر فطری بھی نہیں۔اپنا حال سنانے کے لیے محبانِ رسول ﷺکے سامنے خدا و رسول ﷺ کی بارگہ سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ عصری حسیت کو بیان کرتے ہوئے آدابِ نعت کا دامن ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے کیونکہ حالِ زمانہ کو پیش کرتے ہوئے غلو کا سہارا لینا گویا نبی ﷺکے دربار میں غلو کے ساتھ باتیں کرنا ہے۔
{{ٹکر 4 }}نعت کے فن پر باتیں کرتے ہوئے مختلف ہیئتوں کے استعمال کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔نہ صرف سرحد پار بلکہ خود ہمارے ملک میں بعض شعرانے گیت اور دوہے کی شکل میں نعتِ نبی ﷺ لکھا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان میں یا کسی ادب کے قواعد و ضوابط اور آئین واصول کی رعایتوں کے ساتھ نعت گوئی پر کوئی قید اور کوئی قد غن نہیں۔نبی ﷺکی امت میں صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی شامل ہیں اور اپنے نبی ﷺسے عقیدت و محبت کا اظہار وہ کرتی ہیں اور کر بھی سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اصل چیز بس یہ ہے کہ قریب المفہوم الفاظ و اصطلاحات کے استعمال کا خصوصی دائرہ قائم رہنا چاہیے۔ اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ ہم یوں کہہ سکتے ہیںکہ کسی زبان ، کسی ادب اور کسی شعری ہیئت کے نام پر جہاں معنیاتی لحاظ سے الفاظ کے استعمال میں اس کی سرگذشت ، تداولی کیفیت اور تمدنی ثقافت پر نظر رکھنا ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ ایسی قریب المفہوم اصطلاحوں کے استعمال میں ترادف کے لحاظ سے کوئی سمجھوتہ نہ ہوجن کا تعلق اعتقادات سے ہے یا جو اعمالیا ت میں بہمہ وجود ممتاز و شناختہ ہیں۔کیوں کہ اس احتیاط کے بغیر نعت کے فن کو بھگتی گیتوں کی فضا کے غلبے سے بچانا ناممکن ہے۔
نعت کے فن پر باتیں کرتے ہوئے مختلف ہیئتوں کے استعمال کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔نہ صرف سرحد پار بلکہ خود ہمارے ملک میں بعض شعرانے گیت اور دوہے کی شکل میں نعتِ نبی ﷺ لکھا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان میں یا کسی ادب کے قواعد و ضوابط اور آئین واصول کی رعایتوں کے ساتھ نعت گوئی پر کوئی قید اور کوئی قد غن نہیں۔نبی ﷺکی امت میں صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی شامل ہیں اور اپنے نبی ﷺسے عقیدت و محبت کا اظہار وہ کرتی ہیں اور کر بھی سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اصل چیز بس یہ ہے کہ قریب المفہوم الفاظ و اصطلاحات کے استعمال کا خصوصی دائرہ قائم رہنا چاہیے۔ اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ ہم یوں کہہ سکتے ہیںکہ کسی زبان ، کسی ادب اور کسی شعری ہیئت کے نام پر جہاں معنیاتی لحاظ سے الفاظ کے استعمال میں اس کی سرگذشت ، تداولی کیفیت اور تمدنی ثقافت پر نظر رکھنا ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ ایسی قریب المفہوم اصطلاحوں کے استعمال میں ترادف کے لحاظ سے کوئی سمجھوتہ نہ ہوجن کا تعلق اعتقادات سے ہے یا جو اعمالیا ت میں بہمہ وجود ممتاز و شناختہ ہیں۔کیوں کہ اس احتیاط کے بغیر نعت کے فن کو بھگتی گیتوں کی فضا کے غلبے سے بچانا ناممکن ہے۔
موضوعِ نعت پر اس مختصر گفتگو کے بعد یہ حقیقت روشن ہے کہ نعت گوئی خالص مقصدی شاعری سے عبارت ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کوئی بھی شعری تخلیق دوہی نظریے کے تحت وجود پذیر ہوتی ہے۔ ایک شاعری برائے شاعری اور دوسرا شاعری برائے زندگی۔شاعری برائے شاعری خالص تفریحی اور شعری جمالیات کا آئینہ ہوتی ہے۔ جب کہ شاعری برائے زندگی مقصدیت کی حامل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے پہلے نظریے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔گرچہ شعری حسن کاری کے مظاہر ے کا موقع اس میں زیادہ ہے۔
موضوعِ نعت پر اس مختصر گفتگو کے بعد یہ حقیقت روشن ہے کہ نعت گوئی خالص مقصدی شاعری سے عبارت ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کوئی بھی شعری تخلیق دوہی نظریے کے تحت وجود پذیر ہوتی ہے۔ ایک شاعری برائے شاعری اور دوسرا شاعری برائے زندگی۔شاعری برائے شاعری خالص تفریحی اور شعری جمالیات کا آئینہ ہوتی ہے۔ جب کہ شاعری برائے زندگی مقصدیت کی حامل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے پہلے نظریے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔گرچہ شعری حسن کاری کے مظاہر ے کا موقع اس میں زیادہ ہے۔
اب نعت گو شعرا کے سامنے صرف شاعری برائے زندگی یعنی مقصدی تخلیق کا ہی میدان بچ جاتا ہے۔ ایک ایسا میدان جہاں شعریت یا شعری استعداد کے جو ہر دکھا پانا آسان نہیں۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعریت اور شریعت دونوں کے تقاضوں کو بحسن و خوبی نباہ پانا ایک بڑ افن کار ہونے کا ثبوت ہے۔ مثلاً چودھویں کے چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کا تخیل چہرۂ مصطفی ﷺکی تابانیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اسی چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کی فکری پرواز انگشتِ مصطفیﷺ کی عظمتوں کے آسمان میں گم ہوجاتی ہے۔ اس طرح نعت گوئی کی سعات تو دونوں کو حاصل ہوئی لیکن غوروفکر سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ دونوں کی فکری سطح ، ادراک و عرفان ، احتیاط کے رویّے یہاں تک کہ عشق و محبت کے تقاضے میں بھی بہت فرق ہے۔
اب نعت گو شعرا کے سامنے صرف شاعری برائے زندگی یعنی مقصدی تخلیق کا ہی میدان بچ جاتا ہے۔ ایک ایسا میدان جہاں شعریت یا شعری استعداد کے جو ہر دکھا پانا آسان نہیں۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعریت اور شریعت دونوں کے تقاضوں کو بحسن و خوبی نباہ پانا ایک بڑ افن کار ہونے کا ثبوت ہے۔ مثلاً چودھویں کے چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کا تخیل چہرۂ مصطفی ﷺکی تابانیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اسی چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کی فکری پرواز انگشتِ مصطفیﷺ کی عظمتوں کے آسمان میں گم ہوجاتی ہے۔ اس طرح نعت گوئی کی سعات تو دونوں کو حاصل ہوئی لیکن غوروفکر سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ دونوں کی فکری سطح ، ادراک و عرفان ، احتیاط کے رویّے یہاں تک کہ عشق و محبت کے تقاضے میں بھی بہت فرق ہے۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)