علامہ یوسف بن اسماعیل النبھانی۔ایک عظیم مدح نگار،- ڈاکٹر محمد اسحق قریشی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 11:53، 18 اپريل 2017ء از 39.55.246.104 (تبادلۂ خیال) (←‏مزید دیکھیے)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

نعت رنگ کراچی

شمارہ نمبر:25



ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Allah Subhana-hoo-Taalaa has given His Messenger, Muhammad (S.A.W) renown for indefinite time and space. This Will of Almighty Allah is reflected in the efforts of those people who serve for the cause of preserving Sacred Life events of Prophet Muhammad (S.A.W) in their writings and to praise virtues of His character and physical beauty of Personality. Allama Yusuf Ibn-e-Ismail Al-Nabhani was fortunate to devote his life for the task of Praising Holy Prophet Muhammad (S.A.W) in prose and poems. Dr. Ishaq Qureshi is a scholar of Devotional Poetry in the sense of Researcher and Critic of high taste of literature of power, has now introduced the historical work of Prose and Poems in praise of Muhammad (S.A.W) done by Allama Nabhani in Arabic. The details of life sketch and literary work of Nabhani, provided by Dr. Ishaq Qureshi, are useful for all literature loving people in general and those in touch with the Naatia literature, in particular.

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی۔ فیصل آباد

علامہ یوسف بن اسماعیل النبھانی۔۔۔ ایک عظیم مدح نگار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مدح نگاری ایک انفعالی عمل کا فعال اظہار ہے۔ اس لیے مدح نگار بیک وقت تاثر پذیر بھی ہے اور اثر آفریں بھی، وہ ممدوح کی ذات اور اُس سے نمایاں ہونے والی صفات کو قبول کرتا ہے اور پھر اس قبولیت کا اظہار شدت جذبات کے جلو میں کرتا ہے۔ اس دو گونہ عمل میں اگر کسی جانب کی تہذیب و تنقیح مناسب نہ ہو تو نتیجہ غیر تسلی بخش نکلتا ہے۔ اس لیے مدح نگار کی تاثر پذیری کی اصلاح بھی ضروری ہے اور اس کے جذبات کے اظہار کی تہذیب بھی درکار ہے اسلام طرفین کی اصلاح کا ضامن ہے۔ ممدوح کا انتخاب بھی غورو فکر کا متقاضی ہے کہ غیر مستحق ممدوح نہ بنے اور مستحق نظر انداز نہ ہو اور مدح کو بھی آداب آشنا ہونا چاہیے تاکہ فرقِ مراتب کی فطری ضرورت کا احساس باقی رہے۔قرآن مجید میں انبیاء کرام علیھم السلام اور مومنین کے اوصاف کا تذکرہ ہے اور انداز تحسین اپنی تمام تر راعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ کفار و مشرکین کے کردار کے سیاہ گوشے بھی مذکور ہیں اور طرز اظہار موضوع سے ہمہ پہلو ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح احادیث میں وصف جمیل اور کردار نا مقبول کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ اعمال صالحہ پر تحسین اور افعال مذمومہ پر نفرین صرف ذاتی جذبے کی تسکین کے لیے نہیں ہوتی ۔ اس سے متضاد و متفاوت اعمال کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنا بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بہتر کی ترغیب اور بدتر سے اجتناب کا رویہ پیدا ہو۔

خوش آئند اعما ل پراظہار خوشنودی اور قابل گرفت افعال پر اظہار ناراضی انسان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ وہ خوش ہوتا ہے تو اس کا اعلان کرتا ہے اور ناراض ہو تو ردِ عمل دیتا ہے۔ اسلام، انسان کو اس فطری حق سے محروم نہیں کرنا چاہتا، البتہ وہ اس حق کو عین فطرت اور عین واقعہ بنانے کا خواہش مند ضرور ہے۔ اسلام کی یہی روش تھی کہ مدح نگاری پر کوئی ناروا پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ اظہارجذبات کو مناسب راہ دکھائی گئی تاکہ یہ فطری تقاضا فطری حدود کے اندر پورا ہو، روایات حدیث کے عظیم ذخیرے میں متعدد ایسی روایات موجود ہیں جو مدح کو آزادی عطا کرتی ہیں مگر صنوبر کو طرح پابہ گل بھی دیکھنا چاہتی ہیں۔ حدیث مبارک ہے: ’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لا یشکر الناس لا یشکر اللہ‘‘(۱)

حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو لوگوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘

اسی مضمو ن کی حدیث حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کے بے پایاں انعام و اکرام انسان کی سپاس گزاری کی دعوت دیتے ہیں مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ انسان حق شناس ہو اُس کے مزاج میں محسن کے احسانات پر ممنونیت کا جوہر موجود ہو، انسان کادوسرے انسانوں سے یہ اخلاقی رویہ اس کے فطری رویہ کا عکاس ہوگا۔ بندوں کے حسن سلوک کے جواب میں شکر گزاری کی عادت اُسے اپنے خالق کے سامنے سرنگوں ہونے کا ابتدائیہ بنے گی، حدیث میں احسان پر شکریہ کی ترغیب ہے، یہی شکریہ شعر کے قالب میں ڈھلے تو مدح بنتا ہے اور یہ مدح حمد کی تمہید بنتی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’قیل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أرأیت الرجل یعمل العمل من الخیر و یحمد الناس علیہ قال تلک عاجل بشری المؤمن ۔‘‘ (۳)

’’کہا گیا کیا آپ نے ایسے آدمی کو دیکھا جو بھلائی کا کام کرتا ہے اور لوگ اس کی اُس عملِ خیر پر تعریف کرتے ہیں تو آپ نے کہا یہ ایک ایسی عجلت ہے جو مومن کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘

عمل خیر پر مدح کو جنت کی پیشگی بشارت فرما کر واضح کر دیا کہ نیک اعمال کو سراہنا چاہیے تاکہ ان کی ترویج ہو اور یہی مدح کی بنیاد ہے۔ کتب حدیث میں کتاب المناقب، کتاب الفضائل کا وجود اسی رویے کا اظہار ہے۔ یہ مدح کا روشن اور جائز پہلو ہے اگرچہ احادیث کی خاصی تعداد غیر محمود مدح کی مذمت میں بھی وارد ہوئی۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یثنی علی رجل و یطریہ فی مدحہ فقال اھلکتم أو قطعتم ظہر الرجل‘‘۔(۴)(نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سنا کہ وہ کسی کی تعریف کررہا تھا اور تجاوز کررہا تھا۔ فرما یا تم نے ہلاک کردیا یا یہ کہ اس کی کمر توڑ دی)

معلوم ہوا کہ ثنا یا مدح، ممدوح کے لیے ابتلاء کا باعث ہوتی ہے عین ممکن ہے کہ اس سے اس کی شخصیت کی اٹھان مجروح ہو اور وہ غلط روش پر چل کر ہلاکت کا شکار ہو جائے۔

ان احادیث سے مدح نگاری کی تردید نہیں ہوئی تہذیب ہوئی ہے تاکہ وہ حقائق سے صرفِ نظر نہ کریں اور انتخاب میں محتاط رہیں اس لیے کہ جب مداحین واقعہ سے بڑھ کر بیان کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نوازش سے زیادہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو رحمت پروردگار کے اعتراف میں گستاخی ہے اور فریب نفس بھی اسی لیے ایسے مداحین کے منہ کو مٹی سے بھر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔(۵)

طمع، خواہش اور حرص و آز مدح کے محرک بن جائیں تو مدح باطل قرار پاتی ہے جبکہ اظہار ممنونیت کا مخلصانہ رویہ مدح کو محترم بناتا ہے۔ اصل چیز وہ محرک ہے جس کی کوکھ سے مدح جنم لیتی ہے۔ اسلام خیالات کو شائستگی اور الفاظ کو متانت عطا کرتا ہے۔ مدح مداح کی نوازش نہیں ہے بلکہ موافق حقیقت خصائل کے اعتراف کا فریضہ ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات میں مدح کے حدود متعین ہیں۔ یہ موافق واقعہ غلو سے مبرا، حسین حرفوں کا پیکر، بلاغت کا مرقع اور مخلص و نیک طینت انسان کے دل کی آواز ہے۔ اس میں نفسانی خواہشات اور مادی مفادات کی رذالت نہیں ہوتی۔یہ ممدوح کا قرض سمجھ کر ادا کی جاتی ہے اور ممدوح کے مقام و مرتبہ کے لائق الفاظ و اسالیب پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسلام جب عام مدح نگاری کو اس قدر ضوابط کا پا بند بناتا ہے تو اس کی ارفع تریں شکل اورا س کے بلند ترین مظہر یعنی مدح رسالت مآبﷺ میں کس طرح غیر حقیقی جذبات، مصنوعی خیالات اور غیر معیاری کلمات برداشت کرے گا۔ مدح خواجہ گردوں پناہ ﷺ ہیں۔ صداقت شعاری ضروری ہی نہیں فرض ہے، یہ تذکرہ کائنات کے سب سے بڑے صادق کا ہے جس کی پوری زندگی سے صداقت عکس ریز تھی۔ جو صداقت کا پیغامبر بھی تھا اور صداقت شعاری کا اعلیٰ ترین اسوہ بھی۔ اس لیے مداحین کے لیے قدم قدم پر احتیاط لازم ہے کہ یہاں صرف ایک صنف سخن کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کا مسئلہ نہیں ایمان کی سا لمیت کا بھی سوال ہے۔ یہ راہ پر خطر ہے اس لیے حزم و احتیاط شرط ہے۔ ذات گرامی کا ہمہ صفت موصوف ہونا سہولت بھی بہم پہنچاتا ہے اور راستے کی مشکلات کی بھی خبر دیتا ہے۔ یہاں تو جنبش لب خارج از آہنگ خطا ہے۔ (۶)افراط و تفریط کی دو طرفہ حدبندی نے اس راہ کو پل صراط بنادیا ہے جہاں بڑے بڑوں کے قدم لرزتے ہیں۔ حاضر دربار کی کیفیت کچھ اس طرح کی ہے کہ:

نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ(۷)

فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا:

’’حقیقتاً نعت شریف بہت مشکل کام ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں ایک جانب کوئی حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے‘‘۔ (۸)

مدح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایک مشکل ترین صنف سخن ہے مگر اہل اسلام نے اس پر کامیابی سے چل کر خود کو ثابت کیا ہے۔ چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ قریہ قریہ ، شہر شہر مدحت سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گائے جاتے رہے۔ عوام ہوں یاِ خواص سب اس حیطۂ عقیدت میں یکساں شامل رہے مدائح نبویہؐ کی طویل روایت اسلامی تاریخ کا ایسا شرف ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔

مدح رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا تاریخی سفر تو آغاز کائنات سے شروع ہوگیا اور پھر تخلیق کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا ہے۔ رشد و ہدایت کے تمام سلسلوں نے حرافۃً یا کنایہً جزوی اور مدحت سرائی کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو’’و مبشراً بر سولٍ یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘(۹) میں اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دے رہا ہوں جن کا نام احمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہوگا) کہہ کر طلوع آفتاب کے آثار کی نشاندہی کردی جس سے اشتیاق بڑھا۔ قبل ولادت کی تاریخ بے شمار واقعات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے آنے والے’’ممدوح کل‘‘ کے خیرمقدمی ترانے گاتی محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری کائنات نوید باد بہاری کے لیے سراپا انتظار تھی، آفتاب نبوت ہویدا ہوا تو نظریں اس کی کرنوں کی ضیا پاشیوں میں مسحور ہوگئیں۔ شاید ہر مرد و عورت کو نطق کی دولت سے اس لیے نوازا گیا کہ وہ اپنی عقیدت کے گجرے اس مقدس وجود کے حضور پیش کرے۔ ابن رشیق کہتے ہیں:

’’بنو عبدالمطلب کے مردوعورت میں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی ا یسا نہ تھا جو شعر نہ کہتا ہو۔‘‘(۱۰)

یعنی ممدوح ایک اور باقی سب مداحین، انصار مدینہ کے ہاں شعرگوئی اتنی عام تھی کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’قدم علینا رسول اللہﷺ وما فی الانصار بیت الا وھو یقول الشعر قیل لہ وانت ابا حمزۃ قال وانا ‘‘ (۱۱)

’’کہ جب رسول اللہ ﷺہمارے ہاں یعنی مدینہ منورہ آئے تو انصار کے تمام گھرانوں میں شعر کہا جاتا ہے کہا گیا کہ اے ابو حمزہ(یعنی حضرت انس) آپ بھی شعر کہتے تھے کہا میں بھی‘‘

حافظ ابن عبدالبر(م۴۶۳ھ) نے ایک سو بیس مدح گو صحابہ کے نام گنوائے ہیں، حافظ ابن سیدالناس (م ۷۳۴ھ) نے اسی موضوع پر میمیہ قصیدہ لکھا اورپھر اس کی ’’منح المدح ‘‘ کے نام سے شرح تحریر کی جس میں ترتیب ھجاء سے دو سو صحابہ کے نام شامل کیے ہیں۔ (۱۲)

مدح نگاری کا معلوم سلسلہ مکی زندگی سے ہی شروع ہوگیا تھا مگر وہاں کی فضا ناموافق تھی اس لیے جذبات مدح اندر ہی اندر مچلتے رہتے۔ مدینہ منورہ میں’’ذات مصطفوی ‘‘ کے جلوے عیاں تر تھے۔ مکہ مکرمہ میں تو آپ ایک قریشی النسل نیک طینت انسان تھے جو معاشرے کی اصلاح کی خاطر اور دین کی تبلیغ کے لیے مسلسل مصائب کا شکار تھے مگر مدینہ منورہ میں آپؐ ایک سلطنت کے بانی، ایک معاشرے کے محرک ایک تہذیب کے موجد اور ایک طرز حیات کے پیغام بر تھے۔ آپ مبلغ بھی تھے اور مفکر بھی، صلح جو بھی تھے اور مجاہد بھی۔ راہنما بھی تھے اور راہبر بھی۔ نظریات دہندہ بھی تھے اور اُن پر عامل بھی۔ سپہ سالار بھی تھے اور مردِمیدان بھی۔ غرضیکہ وجود انور کے بو قلموں رخ تھے اور متعدد گوشے تھے۔ ہر رخ ضوفشاں اور ہر گوشہ مثلِ ماہ نوری تھا۔ عرب فطرتاً حقائق آشنا تھے اور جذبوں کو لفظوں میں ڈھالنے کا فن بھی جانتے تھے اس لیے یہ وجودِ مقدس اُن کے دلوں کی دھڑکن اور لبوں کی آواز بناء صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آفتاب نبوت سے بلا فصل مستفیذ ہوئے اس لیے سراپا سپاس بن گئے۔ دنیا نے عقیدت و محبت کے ان گنت گلدستے پیش ہوتے دیکھے۔ اس جماعت کے سرخیل، تائید روح القدس کے حامل حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ جن کا حوالۂ زیست ہی مدح حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمبنا بے حد نوازشوں سے نوازے گئے اور آنے والوں کے لیے مدح نگاری کے پیغام بر قرار پائے۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی سیماب صفت طبیعت آخر بانت سعاد کا گلدستہ لیے حاضر دربار ہوئی اور ردائے رحمت سے با مراد ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ’’رخ حضرت کو ہدایت کا کفیل اور نجات کا وسیلہ گردانتے رہے۔ ان کے علاوہ حضرت کعب بن مالک ابو سفیان بن الحارث، العباس بن مرداس، النابغ الجدری، عبداللہ بن الزبصری اور کثیر تعداد سے سلک مروارید کے گہرِ تابدار تھے۔ یہ سلسلۂ شفاعت اسی عزیمت سے رواں دواں رہا۔اس میں مفسرین و محدثین بھی ہیں آئمہ لغت اور علماء نحو بھی، درویش فراست اور صاحبِ شوکت و حشمت بھی، ان متعدد اسماء میں الصرصری (م ۶۰۶ھ) ابو تریٰ(م ۶۶۲ھ) الشھاب محمود الحلبی(م۶۹۰ھ) امام الجرجوی (۶۹۶ھ) لسان الدین بن الخطیب (م ۷۷۶ھ) ابن بنات( م۷۶۸ھ) ابرعی(م۸۰۳ھ) ابن خلدون(م۸۰۸ھ) ایفروزآبادی (م۸۱۷ھ)ابن حجۃ الحموی(م۸۳۷ھ) اترابی(م۸۰۹ھ) الشھاب المقری(م۱۰۴۱ھ) اورعبدالغنی النابلسی(م۱۱۴۳ھ) نے بڑا نام پایا۔

بارھویں صدی ہجری کے آخر تک سقوط بغداد کا طاری اضمحلال اپنی انتہا کو پہنچا، منتشر حکومتیں اور دست و گریباں سلطنتیں یورپ کی صنعتی یلغار کے سامنے سپر انداز ہو گئیں، عثمانی سلطنت اپنی بساط لپیٹ رہی تھی۔ عالم عرب پر اس کی حکومت تھی مگر سلطنت عباسیہ کے ایامِ زوال کی طرح اس کی حیثیت ایک یادگار کی سی تھی جس کا احترام تو تھا وقار نہ تھا۔ مصر میں ممالیک نائبال عثمان کہلانے کے باوجود خودسر اور لاتعلق تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عالم اسلام مندی کے گہرے سایوں کی زد پر تھا۔ مایوسی کا عالم کہ آزادی کی تڑپ بھی دم توڑ رہی تھی۔ تیرھویں صدی جمود و بے بسی کی صدی تھی مگر چودھویں صدی میں زندگی کے آثار نمودار ہونے لگے، تحریکیں ابھرنے لگیں اور جدوجہد بارآور ہونے لگی۔

یہ تھا سیاسی پس منظر جس کے حوالے سے مدح رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی یہ گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ چند حقائق واضح کر دیے جائیں تاکہ تفہیم میں کوئی دقت نہ ہو۔

غلامی ایک ایسی بے بسی کو کہتے ہیں جس کی مداومت سے انسانی جوہر دھندلانے لگتا ہے۔ خوب و زشت کی تمیز اورعزت و ذلت کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔ بارھویں اور تیرھویں صدی میں باعزت زندگی کا تصور نہ رہا تو بلند نظری بھی گہنا گئی۔ مدح رسالتؐ معروضی ہو یا موضوعی، ذاتِ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے وجود پذیر ہوتی ہے جس میں شاعر کی ذات اور ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ اس دور میں قومی نقاہت کا یہ عالم تھا کہ دربارِ رسالتؐ کی طرف اٹھنے والی پکار بھی دم بخودتھی۔ اس لیے یہ صدی نعت کے خمول کی صدی ہے۔

عالم اسلام پر بے چارگی مسلط تھی۔ ذہنی توانائیاں کسبِ رزق میں مصروف تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب شکم کے مسائل گھمبیر ہو جائیں تو عقلی اور شعوری قوتوں کو زوال آجاتا ہے۔ شعرا اور پھر مدح نبویؐ تو ذہنی صلاحیت کے ساتھ ذہنی وابستگی بھی چاہتے ہیں جو ان دنوں مفتود تھی اس لیے نعتیہ شاعری کی دنیا بے کیف رہی۔

مدح نبویؐ ایک فعال عمل ہے، شاعر صرف لفظوں کے تار و پود ہی نہیں سنوارتا، اپنے وجود کا حصہ بھی ڈالتا ہے۔ شعراُس کے اپنے وجود کا عکاس ہوتا ہے کہ اس میں اُس کا باطن شریک ہوتا ہے۔ مدحیہ شعر تو ممدوح اور مداح کے درمیان رابطے کی کڑی ہے اور جب یہ رابطہ کمزور ہو تو شعر ایک ایسا وجود ہوتا ہے جس کی روح نہ ہو۔

ان اسباب نے مدحیہ شاعری اور نعتیہ ادب کو بہت نقصان پہنچایا مگر قدرت کے فیصلے انمول بھی ہوتے ہیں اور حکمت آمیز بھی، یورپ کا عروج عالم اسلام کے زوال کی خشتِ آخر تھی اور یہی اس میں آزادی کی تحریکوں کی خشت اول بھی تھی۔ آزادی کا شعور ابھرنے لگا، یورپی استعمار نے غلاموں کے لیے اچھا رزق تو مہیا کیا مگر انہیں آزادی کی نعمت دینے سے انکار کیا۔ آزادی کے شعور مگر طلب پر قدغن نے ردعمل پیدا کیا، خواہش دل و دماغ پر چھائی تو آتشِ نفس سے اس میں حدت آگئی اور بالآخر شعلہ جوالہ کی صورت امڈنے لگی۔ مسلمان قوم کی حالت اُس زیرِدام پرندے کی سی تھی جو آزادی کی تڑپ میں جال سے الجھ رہا ہو اور الغیاث پکارتا ہو۔ اس پکار نے دربارِ رسالتؐ کی راہ دکھائی اور استمداد و استغاثے کے روپ میں مدحیہ شاعری کا آغاز ہوا۔ سقوطِ بغداد کے بعد دلی جذبات الصرصری اور بو صیری کے وجود میں مچلے تھے اب ابہارودی، احمد شوقی(م۱۳۰۱ھ) ، احمد محرم(م۱۳۶۴ھ) اور خاص طور پر امام یوسف النبھانی(م۱۳۵۰ھ) کا روپ دھارنے لگے۔ نعتیہ ادب نے اعتماد نفس اور ذھنی استواری عطا کی۔ نت نئے معاشرتی مسائل، رزق کی مساوات کا جدید تصور، یورپ کی حاکمیت، تہذیبی یلغار اور نظریاتی مغالطوں کا سلسلہ مدحیہ شاعری کا حصہ بنا۔ شعر عقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ دفاعِ عقیدہ، صیانت نظریہ اور استحکامِ ملت کا ذریعہ بنا۔ اس فضا میں علامہ یوسف نبھانی نے مجاہدانہ کردار انجام دیا، شعر کی ضرب بھی لگائی، حفظِ ماسلف کا فرض بھی ادا کیا۔ ملت کو حوصلہ، ایمانیات کو تابانی اور عقیدت کو جولانی عطا کی، زبان و قلم کی بے پناہ قوت سے ملت اسلامیہ پر ایسے ایسے احسان کیے کہ ان کا اعتراف فرض بھی ہے اور قرض بھی، یہ مختصر مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

علامہ یوسف بن اسماعیل النبھانی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ یوسف بن اسماعیل بن یوسف بن اسماعیل بن حسن بن محمد ناصر الدین الشافعی البیروتی کی کنیت ابوالمحاسن تھی۔(۱۳) فلسطین کے ایک قدیم بادیہ نشین قبیلہ ’’نبھان‘‘ کی نسبت سے نبھانی کہلائے۔(۱۴) آپ ارضی شام کے قصبہ اِجزم جو شمالی فلسطین میں حیفا سے ۲۰ کلو میٹر جنوب میں واقع ہے ۱۲۶۶ھ میں پیدا ہوئے۔(۱۵) دیگر سوانح نگار مثلاً الزکلی اور صاحب معجم المؤلفین نے ۱۲۶۵ھ پر اعتماد کیا ہے۔(۱۶) ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم اور مقامی علماء سے حاصل کی، ۱۲۸۳ھ میں مزید تعلیم کے لیے مصر کا قصد کیا اور جامعہ ازھر میں داخلہ لیا۔ ۱۲۸۳ھ سے ۱۲۸۹ھ تک جامعہ ازھر کے فاضل اساتذہ سے کسبِ علم میں مصروف رہے اور سندِ فراغت حاصل کی۔(۱۷) ۱۲۹۱ھ میں نابلس کے قصبے جنین میں قاضی مقرر ہوئے ، پھر استنبول چلے گئے۔(۱۸) وہاں رسالہ ’’الجوائب‘‘ کے ادارہ تحریر میں شامل ہوگئے، ادارہ کی تمام مطبوعات کی تصحیح بھی آپ کے فرائض میں شامل تھی۔ ۱۲۹۴ھ میں شام لوٹ آئے۔(۱۹) ولایت موصل کے شہر کوی منجق میں قاضی مقرر ہوئے۔(۲۰) استنبول، موصل، حلب، دیاربکر، شھروز، بغداد، سامرا، بیت المقدس کے سفر کیے۔ پہلے لاذقیہ کے محکمہ عدل کے رئیس مقرر ہوئے پھر اسی منصب پر بیت المقدس گئے۔ ۱۳۰۵ھ میں بیروت کے محکمہ حقوق کے رئیس بنا دیے گئے، بیس سال سے زاید عرصہ بیروت میں اس عہدے پر بسر کیا اور بالآخر دیارِ مدینہ کی تڑپ انہیں حجاز لے آئی۔(۲۱) ایک طویل عرصہ مدینہ منورہ میں حاضرِ دربار رہنے کی سعادت پائی، اُن کی سرمستی اور اُن کا سوز و گداز بعض ظاہر پرستوں کو اچھا نہ لگا۔ علامہ النبھانی محب صادق تھے اور محبت دوئی پسند نہیں ہوتی لیکن یہ ضرور ہے کہ محب اپنے محبوب کے خلاف کسی مخفی اشارے کو بھی بھانپ لیتا ہے اور ردِعمل پر اُتر آتا ہے۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، آپ نے ایک قصیدہ جو الرائیۃ الصغریٰ کے نام سے مشہور ہے اور پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے، دربارِ رسالتؐ کے حوالے سے سنت کی تعریف اور بدعت کے رد میں لکھا جس میں ضمناً چند مشہور شخصیات کا تذکرہ بھی ہوا۔ اس پر بعض معاند سازش کرنے لگے جس کے نتیجہ میں ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۱۲ء کو آپ گرفتار ہو گئے، علامہ النبھانی اس سازش کے خلاف خود لکھتے ہیں:

’’ ذلک بناء علیٰ تعصب الکافرین والمنافقین اللئام الذین اوقعوا الفساد بینی و بین الحکومۃ بایھا مھم ایّاھا انی افرّق بین ریاعاھا بکتُبی و قصائدی الّتی دافعت بھا عن دین الاسلام و نافحت بھا عن سیّداالانام علیہ الصلاۃ والسلام ولاسیما الرائیۃ الکبری فی وصف الملۃ الاسلامیۃ والملل الاخری التی اشبعت فیھا الکلام فی الرد علی النصاری فی مقابلۃ تعرضھم لدین الاسلام و الرائیۃ الصغری فی ذمّ البدعۃ و مدح السنۃ الغراء التی اشبعت فیھا الردعلی أھل البدع و الضلال اللئام الذّین یدعون الاجتھاد ویسعون فی الارض الفساد۔‘‘(۲۲)

’’یہ سب کچھ کافروں اور کم ظرف منافقوں کی فتنہ سازی کی وجہ سے ہوا جنہوں نے میرے اور حکومت کے مابین فساد بپا کیا۔ اس گمان پر کہ میں اپنی کتابوں اور اپنے قصائد کے ذریعے رعایا میں عدم استحکام پیدا کرتا ہوں جبکہ و ہ قصائد ایسے تھے جن کے ذریعے میں نے دین کا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا دفاع کیا تھا خاص طور پر قصیدہ الرائیۃ الکبریٰ(اس میں سات سو پچاسی شعر ہیں) جو ملت اسلامیہ اور دیگر ملتوں کے بارے میں ہے اور جس میں عیسائیوں کی دین اسلام کے خلاف مہم کا بھرپور رد ہے اور دوسرا قصیدہ الرائیۃ الصغریٰ(جس میں پانچ سو پچاس شعر ہیں) جو سنت پاکؐ کی مدح اور بدعت کے رد میں ہیں جس میں اہل بدعت و ضلال کے دعویٰ اجتہاد اور مبنی بر فساد منصوبوں پر شدید گرفت ہے۔‘‘

مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمتہ نے ایک عینی شاہد کے طور پر یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے:

’’ ایک دفعہ سلطان عبدالحمید نے مدینہ منورہ کے گورنر بصری(باشا) کو علامہ یوسف نبھانی کی گرفتاری کا حکم دیا، گورنر بصری، علامہ کا انتہائی معتقد تھا، آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلطان کا حکم نامہ پیش کیا۔ علامہ یوسف نبھانی ملاحظہ فرماتے ہی گویا ہوئے ’’سمعت و قرات و اطعت‘‘ ( میں نے سُنا، پڑھا اور اطاعت کی)، گورنر بصری عرض کرنے لگا، حضور گرفتاری تو ایک بہانہ ہے گورنر ہاؤس تشریف لائیے آپ میرے ہاں بحیثیت مہمان ہی ہوں گے۔ اس بہانے مجھے میزبانی کا شرف حاصل ہو جائے گا اور جو علماء و فضلاء اور مشائخ آپ سے ملاقات کے لے آئیں گے وہ بھی میرے ہی مہمان ہوں گے۔ آپ کے عقیدت مندوں پر گورنر ہاؤس کے دروازے ہر وقت کھُلے رہیں گے۔ آپ کا گورنر ہاؤس میں قیام قید نہیں محض سلطان کے حکم کی تعمیل کے لیے ایک حیلہ ہے۔‘‘(۲۳)

علامہ اس قید کے بارے میں خود فرماتے ہیں:

’’حُست فی المدینۃ المنورۃ مدّۃ اسبوع ولکن بالاکرام و الاحترام‘‘(۲۴)

’’مجھے ایک ہفتے کے لیے مدینہ منورہ میں اکرام و احترام کے ساتھ بند رکھا گیا‘‘

’’فأ مرت بتخلیۃ سبیلی و اظھرلی کبار رجالھا الندم علی ماکان‘‘(۲۵)

’’حکومت نے میری رہائی کا حکم دے دیا اور اکابرین حکومت نے جو ہوا اُس پر افسوس کا اظہار کیا۔‘‘

انہی دنوں جنگِ عظیم اول شروع ہوئی۔ دنیا کا امن اور حکومتوں کا توازن بگڑنے لگا تو علامہ نبھانی اپنے وطن مالوف اجزم لوٹ آئے۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ متعدد لائق استفادہ تالیفات مرتب کیں۔ اکثر آپ کی زندگی ہی میں طبع ہو گئیں اگرچہ بعض طباعت کے مراحل سے نہ گزر سکیں جن کی اشاعت اہلِ علم و دانش اور اصحابِ ذوق پر قرض رہا۔ علامہ نبھانی نے پچاسی سال کی عمر میں رمضان المبارک ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کے سعادت بھرے ایام میں رخت سفر باندھا۔ تاریخ وفات ۲۹ رمضان المبارک ہے اگرچہ بعض نے ۲۳ رمضان بھی تحریر کی ہے۔(۲۶)

راہ نوردِ شوق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی نے اپنے دور کے جلیل القدر علماء سے استفادہ کیا تھا۔ جامعہ ازھر کے دینی و ادبی ماحول میں رہے تھے۔ ان کے فاضل اساتذہ میں المعمرالشمس محمد الدمنھوری، البرھان السقا المصری، الشمس محمود حمزہ الدمشقی، محمد بن عبداللہ الدمشقی، الشمس الانیابی المصری، عبدالہادی الابیاری المصری، ابراھیم الزورالخلیلی المصری، المعمر محمد أمین البیطار، شیخ ابو الخیر بن عابدین اور عبداللہ بن ادریس بن السنوسی(۲۷) کے علاوہ شیخ احمد الاجھوری الشافعی، شیخ الحسن العدوی المالکی، شیخ عبدالرحمٰن الشبرینی الشافعی، شیخ عبدالقادر الرافعی الحنفی الطرابلسی اور شیخ یوسف البرقادی الحنبلی بھی شامل ہیں۔ (۲۸) اکتساب علم کے ساتھ ساتھ علامہ النبھانی معرفت کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ شاید انھیں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(م۱۳۵۲ھ) کے والد گرامی حضرت مولانا سیف الدینؒ کا یہ فرمان پہنچ چکا تھاکہ آپ نے حضرت شیخ کو درسیات سے فراغت پر فرمایا تھا کہ بیٹا علم پڑھ لیا ہے مگر یہ ضرور یاد رہے کہ تو ’’ملائے خشک و ناہموار نباشی‘‘(۲۹) صرف خشک اور نا مستقیم اور کھردرا سا ملا نہ بن جانا، مقصود یہ تھا کہ علم معتبر سہی اس کا حصول ایک نعمت سہی لیکن جب تک علم واردات میں نہ ڈھلے حرف شناسی سے زیادہ کچھ نہیں، یہ ذہنی بالیدگی کا عمل ہے جو جوارح پر طاری ہونا چاہیے اور یہ کاملین کی صحبت کے بغیر ممکن نہیں، علامہ نبھانی اس راز کو پا چکے تھے اس لیے قریہ قریہ گھومے، مختلف سلاسل سے رابطہ رکھا اور ہر دروازے پر دستک دی کہ مقصد اجتماعِ حسنات تھا۔ چنانچہ آپ نے سلسلہ اوریسیہ، شیخ اسماعیل نواب مہاجر مکی، سلسلہ رفاعیہ شیخ عبدالقادر ابو ریاح الدجانی الیافی، سلسلہ خلوتیہ، شیخ حسن رضواں الصعیدی، سلسلہ شاذلیہ، شمس محمد بن سعود الفاسی اور علی نور الدین البشرطی، سلسلہ نقشبندیہ، غیاث الدین اریلی اور حضرت امداداللہ مہاجر مکی اور سلسلہ قادریہ حسن بن علاوۃ الغزمی سے حاصل کیا۔ ان کے علاوہ شیخ محمد سعید الحبال الدمشقی، شیخ احمد بن حسن العطاس، شیخ سلیم المسوقی الدمشقی، شیخ حسین بن محمد بن حسین الحبشی الباعلوی، شیخ عبداللہ السکری الحنفی الدمشقی اور ابو عبداللہ محمد سے روایت و اجازت کا فیض پایا۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میں شیخ محمد سعید المغربی سے دلائل الخیرات کا سماع نصیب ہوا اور اجازت حاصل کی۔(۳۰) علم و عمل کے اس گداز نے طبیعت میں توازن، روح میں بحرِ بے کنار کا سا خروش اور نگارشات میں پختگی اور وقار پیدا کر دیا۔ اُس دور میں جبکہ اسلامی تعلیمات پر توجہ کم ہوتی جا رہی تھی، ماحول کے ناسازگاری اور مادیت کی یلغار کی چکاچوند نے بڑے بڑے آستانوں اور حرم کدوں کو ویران کر دیا تھا، علامہ نبھانی کے دل میں عشق کی وہ شمع روشن رہی کہ اس کی لَو اُن کی تالیفات کے ورق ورق سے آج بھی صاحبان علم اور متلاشیان راہِ حق کو مہکا رہی ہیں۔ اسے علم کا جلال کہیے یا معرفت کا جمال کہ آپ ہر عشق پیشہ کے لیے سراپا انکسار اور ہرگردن فراز کے لیے شمشیر بے نیام تھے۔ آپ اَشدّاء علی الکفار ورحماء بینھم (کافروں پر شدید اور آپس میں رحیم) کی تصویر اور علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی تعبیر تھے:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مؤلفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی عصر حاضر کے ایسے صاحب تصنیف بزرگ ہیں جنہیں قدیم علماء کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی تالیفات کی کثرت، موضوع اور اسلوب کی جدت اور معلومات کی وسعت نے آپ کو سیوط ؤقت کے لقب سے نوازا جبکہ شعر کے گداز اور مدح رسالتؐ کے ذوق نے انھیں بوصیرئ عصر کا خطاب دیا۔(۳۲) آپ بیک وقت ایک پختہ مشق شاعر، کہنہ مشق ادیب، قابل اعتماد عالم، لائق استفادہ صوفی اور فیض بخش مصنف تھے۔ اُن کی نگارشات قاری کو مسحور کرتی ہیں۔ جبکہ قلم کی جولانی اور تحریر کی روانی لذت مطالعہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ الزرکلی نے اُن کی پچیس تصانیف کا ذکر کیا ہے۔(۳۳) فھرس الفھارس میں چوبیس کا حوالہ ہے۔(۳۴) جبکہ صاحب معجم المولفین نے تالیفات کی تعداد اڑتالیس بتائی ہے۔(۳۵)خود علامہ نبھانی نے ’’المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ :الجز الرابع‘‘ کے آخر پر اپنی کتابوں کی فہرست درج کی ہے جو طبع ہو چکی تھیں۔ ان کی تعداد اٹھائیس ہے۔ یہ فہرست ۱۳۲۰ھ تک کی ہے کہ اسی سال یہ مجموعہ طبع ہوا تھا۔(۳۶) پھر اس مجموعہ کے آخری صفحہ پر التنبیہ الثالث کے زیر عنوان پانچ مزید مکمل کتابوں کا ذکر ہے جبکہ دو کے بارے میں تحریر کیا کہ تکمیل پذیر ہیں۔(۳۷) مناسب ہوگا کہ علامہ نبھانی کی معلوم تالیفات کی ایک فہرست نذر قارئین کر دی جائے تاکہ آپ کے علمی مرتبہ او ر وسعت فکر کی وضاحت ہو سکے۔ (ا) اُن مولفات کے اسماء جن کو علامہ نبھانی نے خود ذکر کیا کہ طبع ہو چکی ہیں:

۱۔ الشرف المؤبد لٰال محمد ﷺ۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری نے برکاتِ آل رسولؐ کے نام سے کیا۔

۲۔ وسائل الوصولی الی شمائل الرسول

۳۔ افضل الصلوات علی سید السادات

۴۔ الانوار المحمدیہ مختصر المواھب اللدنیۃ

۵۔ النظم البدیع فی مولد الشفیع

۶،۷۔ طیبۃ الغراء فی مدح سیّد الانبیاء مع حاشیتھا

۸۔ الاحادیث الاربعین فی فضائل سید المرسلین

۹۔ الاحادیث الاربعین من امثال افصح العالمین

۱۰۔ سعادۃ المعاد فی موازنۃ بانت سعاد

۱۱۔ حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین

۱۲۔ خلاصۃ الکلام فی ترجیح دین الاسلام

۱۳۔ سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین

۱۴۔ رسالۃ فی مثال النعل الشریف

۱۵۔ صلوات الثناء علیٰ سید الانبیاء

۱۶۔ قصیدہ القول الحق فی مدح سید الخلق

۱۷۔ ھادی المرید الی طرق الاسانید

۱۸۔ قصائد، السابقات الجیاد فی مدح سید العباد

۱۹۔ جامع الصلوات و مجمع السعادات

۲۰۔ الفضائل المحمدیۃ

۲۱۔ الورد الشافی مختصر الحصن الحصین

۲۲۔ المذدوجۃ الغراء فی الاستغاثۃباسماءِ اللہ الحسنیٰ

۲۳۔ الصلوات الالفیہ فی الکمالات المحمدیہ

۲۴۔ ریاض الجنۃ فی اذکار الکتاب و السنۃ

۲۵۔ الاستغاثۃ الکبری باسماء اللہ الحسنیٰ

۲۶،۲۷۔المجوعۃ النبھانیۃ فی المدائح النویۃ مع حاشیتھا

۲۸۔ الخلاصۃ الوفیۃ فی رجال المجوعۃ النبھانیۃ (۳۸)

نوٹ: ان تالیفات کے صفحات ۶۶۸۸ ہیں اور یہ ۱۳۰۹ھ سے ۱۳۲۰ھ کے دوران میں طبع ہوئی ہیں۔

(ب) اُن مولفات کی فہرست جن کی تکمیل کی علامہ نبھانی نے صراحت کی، نیز وہ مؤلفات جو بقول اُن کے تکمیل پذیر تھیں۔

۲۹۔ الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ الی الجامع الصغیر، تین اجزاء پر مشتمل یہ مجوعہ جس میں چودہ ہزار چار سو پچاس احادیث ہیں۔ علامہ نبھانی کی وفا ت کے بعد مطبع المصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ بمصر سے طبع ہوا

۳۰۔ صلوات الاخیار علی النبی المختار

۳۱۔ ارشاد الحیاری فی تحزیر المسلمین من مدارس النصاری

۳۲۔ الاسالیب البدیعۃ فی فضل الصحابۃ و اقناع الشیعۃ

۳۳۔ السھام الصائبۃ لاصحاب الدعادی الکاذیۃ

۳۴۔ جامع کرامات الاولیاء، دو ضخیم جلدوں میں اس کتاب کا اردو ترجمہ مکتبہ حامدیہ سے شائع ہوا ہے۔ عربی متن بھی مطبوع ہے۔

۳۵۔ ھدایۃ الرحمٰن فی الرد علی ھدایۃ الشیطان (۳۹)

۳۶۔ قصیدہ الرائیۃ الکبریٰ، سات سو پچاس اشعار کا قصیدہ

۳۷۔ قصیدہ الرائیۃ الصغریٰ ، پانچ سو پچاس اشعار کا قصیدہ (۴۰)

(ج) اُن تالیفات کی فہرست جن میں بعض طبع ہو چکی ہیں اور بعض کا سوانح نگاروں نے ذکر کیا ہے۔

۳۸۔ جواھر البحار فی فضائل النبی المختار، چار اجزاء پر مشتمل فضائل نبویہ پر ایک جامع کتاب جو طبع ہو چکی ، اس کا اردو ترجمہ بھی قسط وار شائع ہو رہا ہے۔

۳۹۔ شواھدالحق فی الاستغاثۃ بسیدا لخلق، ایک ضخیم لائق استفادہ کتاب

۴۰۔ الاحادیث الاربعین فی وجوب طاعۃ امیر المومنین

۴۱۔ نجوم المھتدین فی معجزاتہ و الرد علی اعداء ہ اخوان الشیاطین

۴۲۔ احسن الوسائل فی نظم اسماء النبی الکامل (اسماء منظوم)

۴۳۔ البرھان المسدد فی اثبات نبوۃ سیدنا محمد ﷺ

۴۴۔ کتاب الاسماء فی مالسیدنا محمد ﷺ من الاسماء

۴۵۔ اتحاف المسلم

۴۶۔ مختصر ریاض الصالحین للنووی

۴۷۔ منتخب الصحیحین، دس ہزار احادیث مکمل اعراب و حرکات کے ساتھ (۴۱)

۴۸۔ تھذیب النفوس فی ترتیب الدروس

۴۹۔ اربعین فی فضل عثمانؓ

۵۰۔ اربعین فی فضل ابی بکرؓ و عمرؓ و غیر ھما

۵۱۔ اربعین فی فضل ابی بکرؓ

۵۲۔ اربعین فی فضائل عمرؓ

۵۳۔ اربعین فی فضائل علیؓ (۴۲)

۵۴۔ قّرۃ العینین علی منتخب الصحیحین ، تین ہزار احادیث کا مجموعہ

۵۵۔ قرۃ العینین من البیضاوی و الجلالین

۵۶۔ جامع الثناء علی اللہ وھو یشتمل علی جملۃ من احزاب اکابر الاولیاء

۵۷۔ مفرح الکُروب

۵۸۔ جزب الاستغاثات

۵۹۔ حُسن الشرعۃ فی مشروعۃ صلواۃ الظھر بعد جمعۃ

۶۰۔ الرحمۃ المھداۃ فی فضل الصلاۃ

۶۱۔ دلیل التجار الی اخلاق الاخیار

۶۲۔ سبیل النجاۃ

۶۳۔ التحذیر من اتخاد الصور و التصویر

۶۴۔ تنبیہ الافکار محکمۃ اقبال الدنیا علی الکفار

۶۵۔ سعادۃ الانام فی اتباع دین الاسلام

۶۶۔ الاربعین من احادیث سیّد المرسلین

۶۷۔ العقود اللولویۃ فی المدائح النبویۃ ، دیوان المدائح

۶۸۔ البشائر الایمانیۃ فی المبشرات المنامیۃ ، الدلالات الواضحات کے آخر پر طبع ہے (۴۳)

۶۹۔ المبشرات

۷۰۔ کتاب الاذکار

۷۱۔ کتاب البرزخ (۴۴)

مندرجہ بالا مؤلفات کے علاوہ بھی بعض کتب اور قصائد کا وجود ممکن ہے کہ ایسے قلم برداشتہ قلمکار کے ہاں تالیف و تصنیف ایک معمول کا عمل ہوتا ہے پھر جبکہ زبان و بیان کی قدرت کے ساتھ معلومات کی فراوانی بھی حاصل ہو تو تالیفات کی کثرت عین ممکن ہوتی ہے۔ یہ تو علامہ مرحوم پر تحقیق کرنے والے محققین کا فرض ہے کہ وہ مسلسل کوشش اور غیر مختتم جدوجہدسے اس مشن کو جاری رکھیں۔

مؤلفات کی فہرست کا طائرانہ جائزہ بھی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ علامہ نبھانی کا تصنیفی سرمایہ ایک مرکز پر مجتمع ہے۔ نثر ہو یا نظم، تالیف ہو یا تصنیف، تحقیق ہو یا روایت، غرضیکہ کوئی رُخ تصنیف ہو، مقصد صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے اپنے قلب و ذھن اور قلم و فکر کو منّور رکھنا ہے۔ کبھی آپ فرمودات رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تجمیع و ترتیب میں ’’قولِ حضور‘‘ کی چاشنی پاتے ہیں۔ صحیحین کا انتخاب ہو یا الجامع الصغیر کی تدوین و ترتیب، اذکار الکتاب و السنۃ کی حلاوت ہو کہ ریاض الصالحین کے اختصار کی چاشنی ، الحصن الحصین کے اوراد کی تکرار ہو یا اربعین کے حوالے سے نطق محبوب کی حیات آفرینی ، یہ سب بہانے ہیں اُس وجودِ محترم کے تذکرے کے، جو کائنات کا ایام اور انسانیت کا مر ّ بی ہے، شمائل رسول ہوں معجزات سید العالمین، فضائل جناب کے جواہر ہوںیا مثال نعل کے نقوش تابندہ ، افضل الصلوات ہو یا سعادۃ دارین، جامع الصلوات ہو یا صلوات الثناء، الصلوات الالفیۃ ہو یا البرھان المسدد، المزدوجۃ الغراء یا القول الحق، الاسالیب البدیعۃ ہو یا الشرف ا لأوید، تمام نگارشات کا مقصد در حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دہائی او رذات و صفات سرکار سے استغاثہ ہے۔ فضائل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا کوئی رنگ ہو، حُسن بہر رنگ مطلوب و محبوب ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان کے تذکرے ہوں اور اربعین کا پیراھن ہو یا اہلِ بیت اطہار کی مدح سرائی، محبوبوں کا ذکر ہو یا عشاق کی داستانِ رنگیں، آئمہ کرام کے حوالے سے بات ہو یا اولیاء اللہ کی کرامات کی حکایت، مطمح نظر ایک ہی ہے۔ اس یکتائی محبوب کا انہوں نے خود بیان یوں تحریر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’ہم مقدمہ میں تفصیلاً بیان کرنے والے ہیں کہ ہر ولی کی کرامت دراصل اس کے بنی کا معجزہ ہے تو ہمارے آقاؐ کی امت کے اولیائے کرامؒ کی کرامات بھی اس اصول کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں جو دینِ محمدیؐ کی صحت و صدق پر دلیل ہیں۔ یہی حقیقت مجھے اس کتاب (یعنی جامع کرامات اولیاء) کی تحریر پر آمادہ کر رہی ہے تاکہ میں اسے اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘کا تتمہ قرار دے سکوں۔‘‘(۴۵)

واضح ہو گیا کہ علامہ نبھانی کے نزدیک ہر کمال اُسی صاحبِ کمال کا عکس ہے اور ہر حُسن اُسی حُسنِ تمام کی زکوۃٰ ہے۔ عاشق صادق دوئی پسند نہیں ہوتا اور یہ بھی نہیں کہ وہ حقائق آشنا نہیں رہتا، اُس کا خیال تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اُسے ہر رنگ محبوب نظر آتا ہے کہ سب میں اُس کا فیضان ہے۔ علامہ نبھانی نے ابتدائی دور میں بعض اکابرین کی مدح میں شعر کہے تھے جن کا اُن کو ملال رہا۔ اس پر معذرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’الشعر صنعۃ لاءِ ظھار المھارۃ و الحذق لاءِ خبار بالحق و الصدق۔‘‘(۴۶)

’’شعر مہارت و ذہانت کے اظہار کا ذریعہ تھا حقائق و صداقت کی خبر نہ تھا۔‘‘

یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پھر کبھی اس روش کو نہیں اپنایا، علامہ نبھانی کی چند دیگر کتب کا مقصد بھی اصلاحِ امت تھا کہ یہ بھی صاحبِ اُمت کے حضور خراج کا ذریعہ تھیں۔ نصاریٰ کا رد، مدارس نصاریٰ سے اجتناب کی تاکید، ذاتِ نبوتؐ سے بے نیازی پر مشتمل اجتھاد او ربلند بانگ دعا وی۔ آپ کے موضوعات میں اس لیے شامل ہو گئے کہ ان کی اصلاح میں امت کی بہبود کا راز پنہاں تھا۔ آپ کی مؤلفات کا مجموعی جائزہ واضح کرتا ہے کہ اُن کی پچاسی سالہ زندگی کا ہر لمحہ وقفِ سرکارِ مدینہؐ تھا۔ اُن کے جذبوں اور اُن کے خیالوں پر ایک ہی ذات جلوہ فگن تھی اور وہ کسی قیمت پر اس ’’توحید مستی‘‘ سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے۔

علامہ نبھانی ___ایک منفرد مدح نگار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی کی مؤلفات کا سرسری جائزہ اُن کے محبوب نظر کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ نثر ہو یا نظم آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مدح نگار ہیں، دربارِ رسالتؐ اُن کا مقصود بھی ہے اور اُن کے دل کا قرار بھی، نظم میں پیوستگی الفاظ اور موسیقی اصوات کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی اثر آفرینی بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ جذبات عشق و محبت کے لیے شعرموزوں تر ہے کہ اس میں تاثر منضبط ہوتا ہے اور آہنگ میں ربطِ شعورکی جھلک ہوتی ہے۔ علامہ نبھانی تھے ہی عشق پیشہ اس لیے اُنھیں شعر میں جذبوں کو سمونے کی ضرورت بھی اور اس پر سلیقہ شعار قدرت بھی حاصل تھی۔ شعر گوئی اُن کے لیے زندگی بھر کا وظیفہ تھا۔ بچپن میں ہی تھے کہ شعر کہنے لگے اور ماحول کے مطابق مدح اکابرین میں مصروف ہوئے مگر جونہی شعور پختہ ہوا، اس کارِ بے توفیق سے کنارہ کش ہوگئے اور ماسلف شعر گوئی پر پشیمان اور نادم رہے۔ پشیمانی یہ تھی کہ درِ حبیبؐ کے سوا کسی پر آواز کیوں دی۔یہ ندامت تلافئ مافات کا سبب بنی اور پھر عمر بھر اس کا ارتکاب نہ ہوا۔ شعور کی ساری شاعری گواہ ہے کہ موضوعات کے تنّوع کے باوجود ہر نظم اور ہر قصیدے کا مرکزی خیال عشقِ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی رہا۔ آپ شاہ ولی اللہ محدثؒ کے اس ارشاد کے نہایت مناسب مصداق تھے کہ:

فَمن مثاء فلیذکر جمال بثینۃ

ومَن شاء فلیغزل بحب الزیانب

سا ذکر حبّی للحبیب محمد

اذا وصف العشاق حب الحبائب

’’پس جو چاہیے بثینہ کے جمال کا تذکرہ کرے اور جو چاہے زینبوں( زینب کی جمع) کی محبت کے ترانے گائے میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ہی ذکر کروں گا جب دیگر عشاق محبوباؤں کی محبت بیان کریں۔‘‘

آپ کے معلوم ذخیرہ اشعار کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُن کے اشعار کے ماخذ کی نشاندہی کر دی جائے تاکہ کمیت کے اعتبار سے اُن کے مرتبۂ شاعری کا اندازہ ہو جائے۔

ا۔النظم البدیع فی مولد الشفیع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ ایک مخمس ہے جس میں ایک سو تئیس (۱۲۳) بند ہیں۔ ولادتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے اس کا مرکزی موضوع آپؐ کی دنیا میں تشریف آوری کی حکایت ہے۔ واقعات ولادت کی ترتیب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ تمہید ہے جس میں وجۂ تصنیف کا بیان ہے، ولادت جو دیباچہ ہے ’’رحمت باری‘‘ کے نزول کا۔ اس لیے مجلسِ ولادت کے آداب کا خیال رہنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پاکیزہ محفل، پاک کلام، مستند واقعات اور عشق و محبت کی فضا، درود کے زمزموں میں حاضری کا تصور کہ رحمتِ ربّ استقبال کرے، یہ ہیں وہ موضوعات جن سے پہلا حصہ عبارت ہے۔ یہ حصہ بیس بند کا ہے۔ دوسرا حصہ نور احمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ظہور سے حضرت آمنہ رضی اللہ عنھا کی گود تک کی روایات پر مشتمل ہے۔ یہ بھی بیس بند کا ہے۔ تیسرا حصہ عظمت نسب کے حوالے سے بیان ہوا جو بیس بندوں کا ہے۔ چوتھا حصہ قرب و لادت اور بعد از ولادت نازل ہونے والی برکات کا بیان لیے ہوئے ہے۔ پانچواں حصہ ولادت کی رات کے اوصاف کے ذکر پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں حصے بھی بیس بیس بند کے ہیں۔ آخری اور چھٹا حصہ بعد از ولادت، علاماتِ عظمت کے ذکر کے ساتھ دعا و استغاثہ ہے اس میں تیئیس بند ہیں۔ علامہ نبھانی نے پوری مخمس کو محفلِ میلاد کے حوالے سے مکمل کیا ہے۔ مولود برزنجی تو منثور بیان ہے جبکہ النظم البدیع منظوم خراجِ محبت ہے۔ پوری نظم سلاستِ الفاظ اور شکوہِ معنیٰ سے مزین ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عقیدت و محبت کی آبشار ہے جو تیز خرام بھی ہے اور نغمہ آفریں بھی، یہ مولود نبھانی ایک مستقل کتابچہ کی صورت بھی چھپا اور ’’حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینؐ‘‘ کے باب ثانی میں ص۲۴۰ سے ۲۵۴ تک بھی طبع کیا گیا۔

ب۔طیبۃ الغراء فی مدح سید الانبیاء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی سراپا مدح نگار تھے۔ اس میدان میں علامہ بوصیری ؒ (م۶۹۶ھ) اُن کے امام تھے۔ امام بوصیریؒ کا قصیدہ بردہ تو اپنی عظمت و جلالتِ شان کی بنا پر نعتیہ شاعری کا اسوہ حسنہ ہے مگر آپ کا قصیدہ ھمزمیہ ’’اُم القریٰ فی مدح خیر الوریٰ‘‘ اپنی طوالت اور مضمون آفرینی کی بنا پر بلند مقام رکھتا ہے۔ امام بوصیریؒ کا ھمزیہ ۴۵۶ اشعار کا قصیدہ ہے۔ اس سے ہمزیہ کی روایت بھی چلی جو تتبع تھا حضرت حسانؓ کے ھمزیہ کا، علامہ نبھانی نے اس روایت کو نہایت مستحکم انداز سے قائم رکھا اور ’’طیبۃ الغراء فی مدح سید الانبیاء‘‘ کے عنوان سے ایک ہزار ایک (۱۰۰۱) اشعار کا ھمزیہ قصیدہ کہا۔ یہ قصیدہ مدحیہ شاعری کا بحرِ بے کنار ہے۔ مضامین کا تنوع مگر تسلسل، الفاظ کی متانت مگر روانی، قصیدے کو عربی ادبیات کا شہکار بنا دیتی ہے۔ صاحب فھرس الفھارس کہتے ہیں:

’’ثم ھمزیتہ و بھا اشتھر و تناقل الناس مالہ من خیر، لبلاغتھا و انسجا مھا و طلاوتھا، ثم عظم ذکرہ ہما صنّف و نظم و نثر و طبع و نشر خصوصاً جی الجانب المحمدی الأعظم۔‘‘ (۴۸)

’’ پھر اُن کا ھمزیہ جو ان کی شہرت کا سبب بنا، اس میں ان کی وجود خیر لوگوں میں منتقل ہوئی۔ اس کی بلاغت، حُسن الفاظ اور اس کی رخشندگی کی بنا پر، پھر آپ کا ذکر ہر تصنیف پر بلند تر ہوتا گیا۔ وہ نظم تھی یا نثر، طبع ہوئی یا شائع، خاص طور پر مدحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے حوالے سے۔‘‘

طیبۃ الغراء ایک معارضہ ہے مگر انھیں امام بوصیریؒ کی عظمت کا احساس ہے اس لیے خود کہتے ہیں:

’’یقول ناظمھا قد وازنت بھمزتی ھزہ ھمزیۃ الامام الأ بوصیری’ اُم القری فی مدح خیر الوریٰ’ عالما اُنّ الفضل للمتقدم و أنہ بنمنزلہ المعلم و أنا بمنزلہ المتعلم۔‘‘

’’ناظم ہمزیہ کا کہنا ہے بے شک میں اس اپنے ھمزیۃ سے امام بوصیریؒ کے ھمزیۃ ’’اُم القریٰ فی مدح خیر الوریٰ‘‘ کا معارضہ لکھا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ فضیلت متقدم ہی کو حاصل ہے اور یہ کہ وہ معلم کے مقام پر ہیں اور میں طالب علم کی سطح پر۔‘‘

یہ ھمزیۃ قصیدہ بار بار چھپا، مصر کے مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ کا طبع ثانی (۱۳۷۱ھ ۱۹۰۲ء) ہمارے پیشِ نظر ہے۔ یہ قصیدہ علامہ نبھانی کے مجموعہ نبھانیہ کے الجزء الاول کے صفحہ ۲۰۴ سے ۲۸۷ پر بھی موجود ہے۔

ھمزیۃ النبھانی میں مدح شماری کے تمام ضوابط کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سیر ت و شمائل کا تذکرہ اور خاندانی وجاہت و نسلی صیانت کا ذکر، پھر صفات و خصائص، خیر البشر، وجۂ کائنات ہونے کا حوالہ، مولا پاک، توسل انبیاء کا دلآویز بیان، خاندان کے بزرگوں کی طہارت، رضاعت، شق صدر، والدین کریمین، تبلیغ اور اس کی مشکلات، شق قمر و شعب ابی طالب، عام الحزن، طائف کا سفر، معراج کی منزلت کی روایات، بیعت انصار، ہجرتِ ، مدینہ آمد، اذن قتال، غزوات، عمرۃ الحدیبیہ، یہود سے معاملات اور اخراج، فتح مکہ، غزوہ حنین، طائف ، تبوک، حجۃ الوداع اور وفات، پھر عظمت کے آثار، معجزات کا تفصیلی بیان، ابتدا سے انتہا تک واقعاتِ سیرت کا مرغزار لہلہا رہا ہے۔ اک بے پایاں عقیدت ہے جو مچلتی جا رہی ہے۔ ایک عاشق کی صدا ہے جو دلوں پر دستک دیتی ہے۔ ابتدا یوں ہوتی ہے:

نُورکُ الکُلّ وَ الْوَرَی اجزاءُ

یا نبیاً مِنْ جُندہِ الانبیاءُ

روح ھٰذا الوجودِ اَنْتَ ولولا

ک لدامت فی غیبھا الاشیاءُ

مُنتھی الفضل فی العوالم جمعاً

فوقہُ من کمالِک الابتداءُ

’’آپؐ کا نور ، نورِ مبارک کُل ہے، جبکہ پوری کائنات اس کے اجزاء و حصے ہیں، آپؐ ایسے نبی ہیں جن کے لشکر میں دوسرے تمام انبیاء ہیں، آپؐ اس وجود کے اصل روحِ رواں ہیں اور اگر آپؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا، آپؐ تمام عوالم کے لیے فضل کی منتھی ہیں، اُن کے اوپر آپؐ کے کمال کی ابتدا ہے‘‘

ج۔سعادۃ المعاد فی موازنۃ بانت سُعاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حضرت کعب بن زھیرؓ کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ دربارِ رسالتؐ میں پڑھا گیا جس پر ردائے مبارک کی جزا بھی حاصل ہوئی اس لیے ہر شاعر کے دل میں اس کے تتبع میں قصائد کہنے کی تحریک ہوئی۔ یہ لامیہ قصیدہ ہے جس کے معارضہ میں کثیر تعداد میں لامیہ قصائد لکھے گئے۔ علامہ نبھانی کا یہ قصیدہ بھی اسی خواہش کا مظہر ہے۔ ایک سو چوالیس اشعار کا یہ قصیدہ لامیہ ۱۳۱۵ھ میں دس صفحات کے ایک پمفلٹ کی صورت میں خود علامہ نے شائع کرایا پھر اسے اپنے مجموعہ ’’المجموعۃ النبھانیہ فی المدائح النبویۃ‘‘ کے تیسرے حصے میں شامل کر لیا۔(۵۱)

’’سعادۃ المعاد‘‘ میں حضرت کعب بن زہیرؓ کا بار بار ذکر ہوا۔ مدح کی ابتداء میں تشبیب کا ارادۃً بیان بھی اسی تتبع کا اثر ہے جو قصیدہ کے ہر شعر سے عیاں ہے۔

’’ھوائے طیبہ‘‘ تشبیب کا موضوع ہے جس کے جمال کے سامنے سعاد ایک تمثال ہی تو ہے۔ فرماتے ہیں:

فما سُعاد اِذاقیست ببھجتھا

و کُل امثالھا اِلا تماثیل(۵۲)

’’سعاد کو جب بھی وادی مدینہ کے جمال کے سامنے کیا گیا تو وہ کیا اُس جیسی سب صرف متاثیل ہی تو ہیں۔‘‘

لکن لکعبک یا خیر الانام علیٰ

رُؤ سِنا ثابتٌ فضلٌ و تفضیلُ (۵۳)

’’آپ کے کعب کی اے خیر الانام ہمارے سروں پر فضل و فضیلت ثابت ہے۔‘‘

اس میں کعب میں توریہ ہے کہ مراد حضرت کعبؓ ہوں تو مراد یہ کہ آپ ہمارے سر کا تاج ہیں، موابلہ معارضہ کیسے ہو سکتا ہے اور اگر ٹخنہ مراد ہے تو پھر بھی اس ٹخنے کی عظمت سر آنکھوں پر ہے۔

د۔السابقات الجیاد فی مدح سید العباد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی نے عربی حروفِ ھجاء کے ہر حرف کو قافیہ بنا کر دس دس اشعار کہے جو اُن کی کتاب ’’سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علیٰ سیدالکونین‘‘ کے آخر پر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔(۵۴) یہی قصائد ان کی تالیف ’’المجموعۃ النبھانیہ‘‘ کے تمام اجزاء میں ہر حرف کے قافیہ میں آخری قصیدہ کے طور پر شامل ہیں۔ یہ مجموعی طور پر انتیس (۲۹) قصائد ہیں کہ ان میں الف متصوریٰ بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ حرف ھمزہ میں ایک زاید قصیدہ ہے اور حرف لام مع الالف میں ایک قصیدہ ان پر زائد ہے۔ یوں یہ معشرات یعنی دس دس اشعار کے اکتیس قصائد ہیں جو ۳۱۰ اشعار پر مشتمل ہیں۔ ان قصائد میں التزام کی وجہ سے بعض اشعار میں آورد کا گمان ہوتا ہے مگر شاعر پختہ ہو تو آورد بھی تراشی ہوئی مورتی دکھائی دیتی ہے لیکن عمومی طور پر ان معشرات میں جذبے کی فراوانی اور وارفتگی کا عالم ہے۔

ہ۔القول الحق فی مدح سیّد الخلق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک سو تیرہ شعر کا قصیدہ لامیہ جو بانت سعاد کے معارضہ کے علاوہ ہے۔ اس قصیدہ میں مدح کے عمومی مضامین کے علاوہ معجزات کا بطور خاص تذکرہ ہے۔ خود علامہ نبھانی اسے القصیدہ الفریدۃ کہتے ہیں ۔ آپ کے خلاف جو شورش بپا ہوئی تھی اُس کے حوالوں میں یہ قصیدہ موضوعِ بحث رہا ہے کہ شو اھدالحق کی طرح القول الحق میں بھی استعانت اور استغاثات کی بازگشت زیادہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ کہ آپ کا یہ قصیدہ آپ کے دینی میلانات اور روحانی کیفیات کا مکمل عکس ہے۔ یو ں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی پہچان ہے۔

و۔قصیدہ الرائیۃ الکبریٰ و الرائیۃ الصغریٰ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الرائیۃ الکبریٰ سات سو پچاس شعر اور الرائیۃ الصغریٰ پانچ سو پچاس شعر کا قصیدہ ہے۔ تیرہ سو اشعار خاص مقاصد کے تحت کہے گئے ہیں۔ الرائیۃ الکبریٰ میں اسلام کی فضیلت اور دیگر مذاہب کا رد ہے جن میں خاص طور پر عیسائیت پر بھرپور تنقید ہے۔ ضمناً ان افراد کا بھی رد ہوا جو عیسائی دنیا سے متاثر ہوئے اور اسلامی تعلیمات کو دیگر مذاہب کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے لگے۔ الرائیۃ الصغریٰ میں سنت کی تعریف اور بدعت کا رد ہے۔ ضمناً ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے بعض پہلوؤں کی تشکیلِ نو کے لیے غیر ضروری اجتہاد کا سہارا لے رہے تھے۔ ان میں وہ شخصیات بھی تھیں جو سیاسی میدان میں بڑی قدآور تھیں مگر علامہ نبھانی تو انہیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے دیکھ رہے تھے اس لیے مذمت سے دست بردار نہیں ہوئے۔ برصغیر میں سر سید احمد خان اور اُن کے رفقاء کے خلاف جو کچھ دینی طبقہ کی طرف سے ہوا ایسا ہی شیخ محمد عبدہ اور المنار کے مدیر علامہ رشید رضا کے خلاف رد عمل عرب ممالک میں پیدا ہوا تھا۔ شخصی دشمنی نہ تھی، صیانت عقائد کا مرحلہ تھا۔ علامہ نبھانی نے اس محاذ پر نثر میں بھی کام کیا اور نظم میں بھی۔ نثر میں ’’خلاصۃ الکلام فی ترجیح دین الاسلام‘‘ ، ’’ارشادالحیاریٰ فی تحذیر المسلمین من مدارس نصاریٰ‘‘ ، ’’الاسالیب البدیعۃ فی فضل الصحابۃ و اقناع الشیعۃ‘‘ ، ’’السھام الصائبۃ لاصحاب الدعاوی الکاذبۃ‘‘ ، ’’ھدایۃ الرحمٰن فی الرد علی ھدایۃ الشیطان‘‘ ، ’’نجوم المھتدین فی معجزاتہ والرد علی اعداء و اخوان الشیاطین‘‘ ، ’’البرھان المسدد فی اثبات نبوۃ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ ہیں جو حضرت مجددالف ثانیؒ کی کتاب ’’اثبات نبوت‘‘ کی یاد دلاتی ہے۔ اِن کے علاوہ دیگر کتب میں دفاعِ اسلام کا مجاہدانہ کردار نمایاں ہے۔ نظم میں الرائیۃ قصائد مولانا فضل حق خیر آبادی کے رسالہ منظوم ’’امتناع النظیر‘‘ کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کا اثر یہ ہوا کہ حکومت کو بہکایا گیا اور ایک ہفتے کے لیے علامہ نبھانی گرفتار بھی ہوئے لیکن ان کا جوشِ دینی اور دفاع ذات نبویؐ کا ذوق کم نہ ہوا بلکہ آپ ہمہ وقت شمشیر محبت کے حامل میدان مبارزت میں موجود رہے۔ خلوص اور نیک نیتی کا اپنا جلال ہوتا ہے۔ مخالفت کے ارادے کے باوجود مخالف زیرِ منقار رہتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا علامہ کے خلاف مجموعی جدوجہد اور تعاون سے محمود شکری آلوسی (م۱۳۴۲ھ) کو تیار کیا گیا۔ انہوں نے ’’شواھد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق‘‘ اور اسی قبیل کی دیگر کتب اور نظریات کی تردید میں دو اجزاء پر مشتمل ایک کتاب ’’غایۃ الامانی فی الرد علی النبھانی‘‘ تیار کی۔ موضوع وہی تھا جو بہت عرصے سے زیر بحث چلا آرہا تھا۔ اس کتاب میں علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے علامہ ابن حجر، علامہ السبکی، علامہ السیوطی کی تحریروں کو بھی موضوع بنایا گیا۔ کتاب حُسنِ ترتیب سے عاری تھی کہ قاری پڑھنے میں دقتیں محسوس کرتا ہے مسلسل عبارت جو بلا فصل اور بلا عنوان ہے۔ بات سے بات نکالی گئی ہے۔ بہر کیف یہ ردعمل تھا جو پوری قوت سے ترتیب پایا مگر علامہ نبھانی کی ہیبت تھی کہ اس کی اشاعت اور فروغ نہ ہوسکا۔ اس سے عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں علامہ نبھانی کی ساکھ کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ محمود شکری آلوسی کی کتاب کے دیباچہ نگار محمد بن عبداللہ بن السبیل لکھتے ہیں کہ اس کی اشاعت شیخ تلمسائی اور شیخ محمد نصیف کی مشترکہ کوششوں سے ہوئی اور طباعت کا اہتمام فرج زکی الکردی کے سپرد کیا گیا:

’’فقام بطبعتہ الاولی و قد وضع المؤلف علی طرۃ الکتاب: تالیف أبی المعالی الحسینی، اشارۃ الی کنیتہ و نسبہ الحسینی، و زاد علیھا السلامی الشافعی لئلا یتضح اسمہ خوفا علی نفسہ‘‘۔۔۔ ’’فلذلک خاف السید محمود شکری الالوسی من اظھار اسمہ علی طرۃ الکتاب و کذلک صاحب المطبعۃ فرج اللہ زکی خاف علی نفسہ، ولم یذکر اسمہ الارمزا(ف،ج،ز) ولا اسم مطبعتہ ، ولاالبلدالتی فیھا المطبعۃ۔۔۔۔‘‘(۵۵)

’’پس فرج زکی الکردی نے اس کے طبع اول کا اہتمام کیا، کتاب کے اوپر مؤلف کا نام اس طرح لکھا،تالیف ابی المعالی الحسینی، یہ کنیت اور نسبت کی جانب اشارہ تھا۔ اس پر السلامی الشافعی کا اضافہ بھی کیا کہ نام ظاہر نہ ہو، جان کے خوف کی وجہ سے‘۔۔۔ پس اس سبب سید محمود شکری الالوسی کتاب پر اپنا نام نہ لکھا، اسی طرح صاحب مطبع نے خوفِ جان کے سبب صرف اشارہً نام لکھنے پر اکتفا کیا یعنی، (ف، ج، ز) لکھا، نہ مطبع اور نہ اُس شہر کا نام لکھا گیا جہاں یہ کتاب طبع ہوئی۔‘‘

ز۔چند دیگر منظوم کتب و رسائل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی نے اسماء حسنیٰ سے استغاثہ کے موضوع پر ’’المزدوجۃ الغراء فی الاستغاثہ باسماء اللہ الحسنیٰ‘‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے ’’احسن الوسائل فی نظم اسماء النبی الکامل‘‘ جیسے عقیدت مندانہ قصائد لکھے۔ ان کے علاوہ ’’العقود اللؤلویۃ فی المدائح النبویۃ‘‘ کے زیر عنوان اُن کے دیوان کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ شیخ البرعی کے میمیہ قصیدہ پر ایک مصرعہ کے اضافہ سے تخمیس کہی۔(۵۶) موشحات اندلسیہ کے معارضہ میں ابن العقاد کے موشح پر ایک سو دو شعروں کا موشح لکھا۔(۵۷) اسی طرح الموشحات الشامیہ کے معارضہ میں نعتیہ موشح لکھا جو ایک سو دو شعروں کا ہے۔(۵۸) آخری موشح ابو عبید کے معارضہ میں ہے جو سینتالیس اشعار کا ہے۔(۵۹) اگرچہ علامہ نے خود اپنے شعروں کا شمار کرتے وقت اسے تیس شعروں کا کہا ہے۔(۶۰) قافیہ لام کے زیر عنوان چار قطعات بھی اُن کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔(۶۱) اگرچہ ایک دالیہ ہے جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ جو المجموعہ النبھانیہ کو دوبارہ شائع کرائے وہ اس کو حرف دال میں درج کردے۔

ٍ اس مختصر جائزے سے واضح ہو گیا کہ علامہ نبھانی نے عربی میں مدحِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے موضوع پر اور اس کی مناسبت سے تقریباً چار ہزار اشعار لکھے جو کسی بڑے سے بڑے شاعر کے لیے وجۂ شرف ہو سکتے ہیں۔ یہ اُن کی قادرالکلامی اور عربی ادب پر دسترس کی دلیل ہے۔ یقیناًاُنہیں عصرِ حاضر کے نمائندہ عرب شاعروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ح۔المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی کے شعری سرمایہ کا بیشتر حصہ ان کے مشہور مجموعہ ’’المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ‘‘ کے چار اجزاء میں موجود ہے۔ آپ خود باکمال شاعر تھے۔ انھوں نے نہایت وقیع قصائد قارئین کے لیے تحریر کیے۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ عہدِ صحابہ کرامؓ سے اپنے دور تک جس قدر قصائد، معارضات، موشحات اور مخمسات اُن کو دستیاب ہوئے انہوں نے ان چار اجزاء میں جمع کر دیے۔ ان پر حواشی لکھے اور دیباچہ کے طور پر نہایت کارآمد مباحث پر رائے زنی کی۔ اس طرح یہ چار اجزاء نعتیہ شاعری کا دائرہ معارف بن گئے۔ یہ قصائد ۲۱۳ اصحاب کی شعری کاوشوں کا ثمر ہیں۔ ان میں چونتیس معلوم صحابہ کرامؓ اور چار وہ ہیں جن کی عہدِ صحابہ میں مستند نشاندہی نہ ہوسکی۔ اس طرح اڑتالیس افراد کا تعلق عہدِ صحابہؓ سے ہے۔ ان میں ۱۶۰ وہ شعراء بھی ہیں جن کی نسبت اور اسماء معلوم نہیں اور ۱۵ مجہول ہیں۔ اس طرح عہدِ صحابہؓ کے بعد سے عصرِ حاضر تک ۱۷۵ شعراء کی شعری کاوشیں المجموعہ النبھانیہ کی زینت بنی ہیں۔ ان مدائح میں اصنافِ سخن کے لحاظ سے بھی تنوع ہے کہ ۴۵۶ قصائد، ۹۹قطعات، ۱۳ مخمسات، ۱۶موشحات، ایک تسدیس اور ایک تشطیر ہے۔ ان مختلف اصناف کے مظاہر میں صحابہ کرامؓ کے کل شعر ۴۶۱ ہیں جبکہ ۲۴۶۳۵ اشعار دیگر شعراء کرام کے ہیں۔ اس طرح کل شعر ۲۵۰۹۶ ہیں۔ مختلف ادوار پر پھیلا ہوا اس قدر ضخیم مجموعہ علامہ نبھانی کا وہ کارنامہ ہے جس پر عربی ادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔

المدائح النبویۃ کا تجزیاتی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ نبھانی مدح رسالتؐ میں اس قدر مستغرق رہے کہ صاحب فھرس الفھارس نے اُنہیں بوصیری العصر (۶۲) کا لقب دیا۔ یہ اس لیے نہیں کہ انہوں نے علامہ بوصیریؒ کے تتبع میں مدح سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو وظیفۂ حیات بنایا، اُن کا ھمزیہ تو اس تتبع کا عملی اظہار ہے۔ ’’سعادۃ المعاد‘‘ میں حضرت کعب بن زھیرؓ کی پیروی کی اور مجموعی روش میں حضرت حسان بن ثابتؓ کا اتباع کرتے رہے۔ حضرت حسانؓ سے اُن کی نسبت کا اظہار تو خود حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا، مولانا محمد میاں صدیقی کی زبانی سنیے موصوف اپنے والد محترم محمد ادریس کاندھلوی کے تذکرہ میں فرماتے ہیں:

’’۱۹۷۲ء میں ناچیز راقم (یعنی محمد میاں صدیقی) نے علامہ یوسف النبھانی کی کتاب ’’الوسائل الوصول الی شمائل الرسول‘‘(مراد وسائل الوصول ہے) کا اردو ترجمہ کیا، چھپا تو پیش کیا۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے (یعنی مولانا محمد ادریس کاندھلوی) اور علامہ نبھانی کے بارے میں ایک واقعہ سنایا، فرمایا: میں ۱۳۵۶ھ میں فلسطین گیا وہاں ایک عالمِ دین سے ملاقات ہوئی، وہ علامہ نبھانی کے احباب اور رفقا میں سے تھے (علامہ نبھانی کا انتقال ۱۳۵۲ھ میں ہوا تھا، آپ فلسطین کے رہنے والے تھے) وہ کہنے لگے کہ نبھانی کے انتقال کے کچھ روز بعد مجھے خواب میں حضورِ اقدسؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ، نبھانی ہمارا ساتھی ہے، اُس نے آپ کی مدح، تعریف اور فضائل میں بہت سی کتابیں لکھیں، اس کا انتقال ہو گیا، اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ حضور ؐ نے فرمایا: ’’نبھانی تو ہمارا حسان تھا‘‘ حضورؐ نے صرف اتنا فرمایا۔والد صاحب (یعنی مولانا محمد ادریس کاندھلوی)فرمانے لگے کہ علامہ نبھانی نے تقریباً پچاس کتابیں حضور اقدسؐ کے بارے میں تالیف کیں۔ وہ اللہ کے اور اس کے رسولؐ کے مقبول بندوں میں سے تھے۔‘‘(۶۳)

علامہ یوسف نبھانی نے المجموعۃ النبھانیہ کے دیباچہ میں ’’مدح رسالتؐ ‘‘ کی حدود، ضرورت اور تسلسل کے بارے میں مختلف مفید معلومات کا اندراج کیا ہے۔ اس تفصیل کا اجمال یہ ہے:

۱۔ مدح رسالتؐ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اس میں انقطاع ممکن نہیں، اس لیے مدح کا حصر انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ہر مدح کم اور ہر مداح ناتمام ہے، علامہ ابن الفارض فرماتے ہیں:

أریٰ کل مدح فی النبی مقصّراً

و ان بالغ المثنی علیہ و أکثرا

اِذا اللّٰہ اثنیٰ بالذی ھواھلُہ

علیہ فما مقدار ما تمدح الوریٰ

’’میں نبی کریمؐ کی ہر مدح کو قاصر خیال کرتا ہوں اگرچہ ثنا خواں کس قدر مبالغہ اور کثرت سے کام لے۔ اس لیے کہ جب آپؐ کے مرتبے کے مطابق خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے تو مخلوق کی تعریف کس شمار میں ہے‘‘

۲۔ مدحتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا حق کوئی ادا نہ کر سکا تو بھی مدح میں دوام رہنا چاہیے کیونکہ:

’’فمن مدحہ صلی اللّٰہُ علیہ وسلم من المتقدمین و المتأخرین اِنما مدحہ توسلاً بجنابہِ أوتفریجاً لکربہ و مصابہ او رغبۃً فی جزیل ثوابہ او استفشاءً ببرکۃ ذاتہ واستلذاذاً بذکراسمہ الشریف و صفاتہ۔۔۔۔۔ و مقاصد المادحین شتی و انما التوفیقُ مواھب۔‘‘(۶۵)

’’متقدین اور متاخرین میں سے جس نے بھی آپؐ کی مدح کی تو بے شک یہ مدح آپؐ کی بارگاہ کے توسل یا اپنی تکالیف اور مصائب سے نجات یا اس کے بہتر ثواب کی رغبت یا آپؐ کی ذات کی برکت سے شفا کی طلب یا آپؐ کے اسماء و صفات کے ذکر سے متمتع ہونے کے لیے۔۔۔ مدح نگاروں کے مقاصد مختلف ہیں۔

یقیناًتوفیقِ مدح بھی ایک کرم ہے۔[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس مدح میں توازن، شائستگی اور متانت ضروری ہے۔ مدح کے موضوعات، سیرت کے ذکر، خصائص کے تذکار، آل و اصحاب کی منقبت اور دشمنانِ اسلام سے دفاعی کاوشوں پر مشتمل ہیں۔

۳۔ مدح سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دوران میں یہ حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ آپؐ اس مدح کے محتاج نہیں ہیں، یہ تو مدح نگار کی قسمت ہے کہ اُسے اس بارگاہ میں لب کشائی کی توفیق حاصل ہوئی ہے کیونکہ خالق کی مدح کا تو جواب نہیں ہے۔

۴۔ مدح میں روایتِ قصیدہ کو نبھانے کا عمدہ ترین انداز یہ ہے کہ تشبیب کے حوالے دیارِ مدینہ منورہ سے متعلق رہیں۔ اس کی وادیوں، بستیوں، موسموں اور جہتوں کا تذکرہ چاہیے تاکہ روایت بھی قائم رہے اور ادب کے تقاضے بھی ملحوظ رہیں۔

۵۔ تشبیب کی قصیدہ میں موجودگی بانت سعاد کے حوالے متحقق رہی ہے مگر اس میں کوئی اشارہ، کوئی کلمہ اور کوئی تشبیہ و استعاہ منصب ممدوح کے مقام و مرتبہ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ لفظ پاکیزہ ، خیالات عمدہ اور اسالیب باوقار ہونے چاہئیں، عورتوں کے حوالے اور اُن کے متعلقات کے بیان سے اجتناب ضروری ہے۔ درحقیقت علامہ نبھانی تشبیب کے جواز کے قائل ہیں اگرچہ احتیاط کے بھی قائل ہیں۔

۶۔ مداحین کی کثرت، مدح نگار کو راستے کے نشیب و فراز جاننے کے لیے معاون ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ مدح نگار اُن مداحین کے کلام اور رویہ کو پیش نظر رکھے جن کی شعری صلاحیت اور معنوی عظمت کا اک جہان معترف ہو چکا ہے۔ مثلاً امام بوصیری، امام بُرعی، امام صرصری، شھاب محمود حلبی، ابن نباتہ، القیراطی، النواجی، امام ابن حجر، الصفی الحلی وغیرہ، یہ بھی کہ اُس کے سامنے بیش تر کلام ہونا چاہیے بلکہ مختلف اصناف کے عمدہ نمونے بھی تاکہ اُس کی راہ آسان ہو جائے۔

۷۔ مدح نگار کو اُن شعراء سے متاثر نہیں ہونا چاہیے جو دنیائے شعر میں تو نمایاں مقام رکھتے تھے مگر مدح رسالتؐ میں ژولیدہ بیان ثابت ہوئے اس لیے کہ مدح رسالتؐ ایک توفیق ہے اور دنیا پرستوں کو یہ روحانی سربلندی حاصل نہیں ہوتی۔

۸۔ مدح نگاری، سیرت کے مطالعہ اور خصائص نبویؐ سے کسبِ فیض کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے اس دینی سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور مطالعہ سیرت کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ مدح میں مضامین کی تنگ دامنی راہ نہ کاٹے۔

ان توضیحی اشارات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ علامہ نبھانی مدحیہ شاعری کے بارے میں کن خیالات کے حامل تھے۔ اُن کے نقطہ نظر کو سمجھ لینے کے بعد اُن کی مدحیہ شاعری کا جائزہ مفید رہے گا۔

علامہ نبھانی کا ھمزیہ قصیدہ ایک ہزار ایک شعر کا ہے جس میں سیرت کے واقعات یوں بیان ہوئے ہیں کہ یہ منظوم سیرت نگاری کا عمدہ ترین نمونہ ہے۔ تشبیب کے حوالے سے مدینہ منورہ کا روح پرور نقشہ ہے، ذرا شدتِ جذبات ملاحظہ ہو:

’’لیت شعری کیف الوصول الی طیبۃ وھی الحبیبۃ العذراءُ‘‘(۶۶)

’’کاش مجھے خبر ہوتی کہ طیبہ کی حاضری کیسے ہوگی کہ ایسی محبوبہ کی طرح ہے کہ جس کا حُسن لٹا ہی نہیں یعنی محفوظ ہے‘‘

پھر دربار کے گردونواح کو سلام محبت پیش کرتے ہیں کہ یہ وہ مقام ہے:

’’حیت روح الارواح حیث جنان الخلد حیث النّعیم و النعماءُ‘‘

’’جہاں روحوں کی راحت، خلد کی جنت، نعمتیں اور نعمت والے ہیں۔‘‘

’’حیت یثوی محمد سید الخلق و فی بابہ الوریٰ فقراءُ‘‘(۶۷)

’’جہاں حضرت محمدسید الخلق صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم رونق افروز ہیں جن کے دروازے پر ساری مخلوق فقیرانہ حاضر ہے۔‘‘

ھو حیٌ فی قبرہ بحیاۃ

کل حی منھا لہُ استتملاءُ(۶۸)

’’آپ اپنی قبر میں سراپا زندگی کے ساتھ حیات ہیں اور ہر زندہ اُسی زندگی سے زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔‘‘

ایک مسلسل رواں دواں اندا زہے کہ عظمت کے ہر حوالے سے استمداد طلب کر رہا ہے۔ پاک وجود، پاک ارحام سے منتقل ہوتا ہوا آرہا ہے اور جہاں جہاں بھی ٹھہرا ہے عظمت لُٹاتا جا رہا ہے۔

و سری فی الجدود کا لروح سراً

صانہُ الاُمھات والاباءُ(۶۹)

’’وہ وجود آباء اجداد میں روح کی طرف چلتا رہا، ماؤں اور باپوں نے اُس کی خود حفاظت کی‘‘

ایک اور طویل سلسلہ بیان سیرت کے مختلف گوشوں کے حوالے سے جاری ہے پھر معجزات، شمائل ، حلیہ مبارکہ کی دلفریب روداد اور پھر خصائص کا بیان ہے۔ استفہامیہ انداز اور تکرار کلمات نے روح پرور سماں باندھا ہے۔ آخر پر توسل و استغاثہ جو علامہ کا مرغوب موضوع ہے، خاندان کے ایک فرد کے نام سے توسّل نے لفظوں کو جذبوں کی زبان عطا کر دی ہے۔ پہلا شعر اسی قدر وجد آفرین ہے:

سیدی یا أبا البتول سُؤالٌ

من فقیرٍ جوابہُ الاعطاءُ(۷۰)

’’اے آقا! بتول زھرا کے باباجان، فقیرکا ایک سوال ہے جس کا جواب کرم و عطا ہی ہے‘‘

علامہ نبھانی نے قصیدہ کے آخر پر امام بوصیریؒ ، حضرت کعب بن زھیرؓ اور حضرت حسان بن ثابتؓ کو شفیع بنایا ہے کہ اُنہیں اُن کی اقتدا پر ناز ہے۔ بیان میں لفظی گلکاریاں بھی ہیں اور صوری آتش فشانیاں بھی، چند شعر ایضاح مطلب کے لیے حاضر ہیں:

سید العالمین یا بحر جودٍ

قطرہٌ من سخاۂ الأَ سخیاءُ

ھٰذہ طیبۃ بمدحک قدطا

لت وطاب الانشادو الانشاءُ

مست فیھا باثر شیخ امام

قد اقرّت بسبقہ الشعراءُ

و اِذا لم اکن بمدحک حسّا

نًا فھٰذی قصیدتی حسناءُ

لو رآھا کعبٌ لقال سُعادٌ

أَمۃ من اِ ماءھا سوداءُ(۷۱)

مثلی فیک فی مدیحی کما لَو

وصف العرش ذرّہٌ عمشاءُ(۷۲)

انت شمسٌ وفی سناک ظھوری

غیرُ مسُتغربٍ لأ نّی ھباءُ

کم فقیر بلحظۃ منک اضحیٰ

عن جمیع الوری لہُ استغناءُ

قدأَ اجزت المداح قبلی فکانت

سنۃ واقتدی بک الکرماءُ(۷۳)

’’اے سب جہانوں کے سردار اور اے جودوکرم کے بحر بے کراں، تمام سخی آپ کی سخاوت کا ایک قطرہ ہی تو ہیں۔ یہ طیبۃ قصیدہ آپ کی مدح میں طویل ہو گیا۔ شعرو انشاء پاکیزہ تر ہو گئے۔ اس قصیدہ میں مَیں اُس امام محترم (یعنی امام بوصیری) کے نقش قدم پر چلا جس کی پیش روی کو سب شعراء تسلیم کر چکے ہیں۔ جبکہ میں آپ کی مدح میں حسّان نہ بن سکا۔ یہ بھی کہ حسین تر نہ ہو سکا تو یہ خوبصورت قصیدہ حاضر ہے۔ اگر اس قصیدہ کو حضرت کعبؓ دیکھتے تو ضرور کہتے کہ سعاد اس کی لونڈیوں میں سے ایک سیاہ فام لونڈی ہے۔ آپؐ کی مدح نگاری میں میری مثال یوں ہے جیسے کہ کم نظر ذرہ یا چیونٹی‘ عرش کے اوصاف بیان کرے۔ آپؐ سورج ہیں آپ کے نور میں میرا ظہور ہے جوغروب ہونے والا نہیں کہ میں تو ایک ذرہ غبار ہوں، ایسا غبار جو سورج کی شعاع ہی میں نظر آتا ہے، کتنے فقیر ہیں جو آپ کی نظرِ کرم سے تمام مخلوق سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ آپ نے مجھ سے پہلے بھی مداحین کو نوازا ہے، یہ آپؐ کا طریقہ ہے اور اس میں صاحبِ بخشش لوگوں نے آپ ہی کی اقتداء کی ہے۔‘‘

الغرض یہ قصیدہ ھمزیہ علامہ نبھانی کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے، لفظوں کی آب ہے جو قلب و دماغ پر دستک دیتی ہے اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔ قاری سیرت مطہرہ کے مختلف گوشوں سے آگاہ بھی ہوتا ہے جو عصرِ حاضر کی ضرورت اور پسند ہے اور لفظوں میں گھُلے ہوئے جذبوں سے صیانت عقیدہ کے عمل سے بھی گزرتا ہے اور وارفتگی کی حالت میں علامہ نبھانی کے جذبوں کا ہم رکاب بھی ہو جاتا ہے۔ یہ قصیدہ واقعات اور جذبات کا حسین مجموعہ ہے جس کی شیرینی مدت تک محسوس ہوتی رہے گی۔ اس قصیدے سے علامہ نبھانی کی معلومات کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ شعری صلاحیت کا بھی اور حاضرئ دربار کے آداب کا بھی۔

قصیدۃ سعادۃ المعادۃ حضرت کعب بن زھیرؓ کے قصیدہ بانت سعاد کا معارضہ ہے۔ تشبیب کے اشعار میں محبوبہ وادی مدینہ ہے جسے وہ ’’عذراء‘‘ کہہ کر ’’توریہ‘‘ کرتے ہیں کہ اس کا معنٰی دوشیزہ بھی ہے اور یہ مدینہ منورہ کا ایک اسم بھی ہے۔ لوگ دوشیزاؤں سے نسبت دے کر حُسن تغزل کی بات کرتے ہیں تو علامہ نبھانی فرادی تورحمت کے ترانے گاتے ہیں:

کلٌ المحاسن جُزءٌ من محاسنھا

اجما لُھا بجمال الکون تفصیلُ

فما سُعادُ اذا قیست ببھجتھا

وکلٌ أمثالھا الا تماثیل(۷۴)

’’ہر حسن مدینہ منورہ کے محاسن سے لیا ہوا ہے یہ اجمال ہے کہ جس کی تمام کائنات تفصیل ہے، سعاد ہی نہیں جبکہ اسے اس کے حسن و جمال پر قیاس کیا جائے بلکہ اُس جیسی تمام محبوبائیں صرف تماثیل ہیں‘‘

نواح مدینہ کے زمز سے متعدد اشعار تک ممتد ہو گئے ہیں، وارفتگی کا عالم ہے کہ اس مکان سے مکین کی یاد آنے لگتی ہے تو مدح سرائی کا چشمہ ابل پڑتا ہے۔

کائنات کا ذرہ ذرہ جھومتا ہے اور حُسن عالمتاب کی عظمت کا نشان ہے۔ اسی روانی میں معجزات کے تذکرے جو ذھن کو گرفت میں لے لیتے ہیں، شروع ہوجاتے ہیں، حُسن و رعنائی کی داستان میں شاعر اپنے عجز کلام کا اعتراف کرتے ہوئے پکارتا ہے:

لایعلم الناسُ فی الدنیا حقیقتہ

فالعقل عنھا بجل العجز معقول

وفی القیامۃ تبدو شمس رُتبتہ

کأَنھا فوق ھام الخلق اکلیل(۷۵)

’’دنیا میں لوگ ان کی حقیقت کو نہیں جان سکے کہ عقل اس بلندئ مرتبہ کے ادراک سے عاجزی کے بندھن کی اسیر ہے۔ اُن کے مراتب کا آفتاب تو قیامت میں طلوع ہوگا یوں جیسے کہ لوگوں کے سروں پر تاج ہو‘‘

علامہ نبھانی کے کلام میں عصری تقاضوں کی بازگشت بھی بڑی واضح ہے۔ غیروں کے ظلم و ستم اور اپنوں کی بے وفائی بھی ان کے کلام میں بڑی نمایاں ہے۔

ھمزیہ میں دین مبین پر ظالموں اور منافقوں کی یلغار پر سراپا دعا بن کر عرض کرتے ہیں:

عاد فیہ الدین المبین کما قلت غریباً و أھلہُ عُرباءُ

فقدارکہ قبل أن تخطُرا الاخطار فالیوم مسہُ الاعیاءُ

کم ابُوجھَل استطال علی الدین وکم ذا أزرت بہِ الجھلاءُ

ولکم فی ثیا بہِ ابن سلوثیا شاکہُ من نفاقہ سُلّاءُ(۷۶)

’’اس دور میں دین مبین ویسے ہی ہوگیا جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ وہ غریب ہوجائے گا اور دین دار اجنبی بن جائیں گے، آپ اس کا تدارک فرمائیں قبل اس کے خطرات منڈلانے لگیں کہ آج دین کو درماندگی لاحق ہوگئی ہے، کتنے ابوجہل ہیں جنہوں نے دین پر ظلم کیا اور کتنے ہیں جن کی وجہ سے جاہل لوگ مصائب کا شکار ہوئے اور کتنے ابنِ سلول یعنی عبداللہ بن سلول رئیس المنافقین کے لبادے میں ہیں کہ ان کے منافقت کے کانٹوں نے دین کو زخمی کر رکھا ہے‘‘

اسی طرح سعادۃ المعاد میں زمانے کا ماتم بڑا پُر تاثیر اور زود اثر ہے جس پر وہ پناہِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دہائی دیتے ہیں:

اشکو الیک زمانی شاکرأ نعماً

ما عند مثلی باذن اللّٰہ تسھیلُ

فقد بُلیت بعصر کلہُ فتن

فیہ اخوالحق مغلوبٌ و مغلولُ

الدین فیہ بحکم الجمر قابضہ

بنار دُنیاہُ بین الناس مشعولُ(۷۷)

’’شاکر نعمت ہوتے ہوئے بھی میں آپؐ سے اپنے زمانے کا شکوہ کرتا ہوں، مجھ ایسے کے ہاں تو باذن اللہ کوئی سہولت و بندگی کا سامان نہیں، میں تو ایسے زمانے کا آزمودہ ہوا ہوں جو سراپا فتن ہے اس میں صاحب حق مغلوب ہے اور غیر کا اسیر ہے، دین پر قابض تو شعلوں کی زبان میں قبضہ کر رہے ہیں اور لوگوں کے درمیان دنیا کی آگ بڑھکائی جا رہی ہے‘‘

آخر پر حضرت کعبؓ کے حوالے معارضت پر معذرت مگر بخشش و عطا کی التجا ہے

علامہ نبھانی کا قصیدہ ’’الوعدالحق‘‘تو اُن کے شدت جذبات کا عکاس ہے اسے وہ خود ہی القصیدۃ الفریدۃ کہتے ہیں۔ اسی پر اُن کے خلاف ایک ہنگام بپا ہوا تھا ۔ اس میں سے یہی اُن کے مزاج کا ترجمان ہے۔ تشبیب کے ضمن میں شاعر کا اضطرار ملاحظہ ہو:

فیا رکب الحجاز فدتک نفسی

تحمّل ما یخف علیک حملا

متی جزت النقا و رُبوع سلعٍ

وجئت أعزّ ارض اللّٰہ اھلا

فبادر بالسجود علیٰ ثراھا

وأد بلثمہ فرضاً و نفلا

وبلغ طیبۃ و السا کنیھا

رسائل من ملئ الشوق تملی

یظل فؤا دُہ للجزعِ یصبو

ویھوی باللّوی ماءً و ظلاّ(۷۸)

’’اے حجاز کے مسافر تجھ پر میری جان فدا ہے، تو مجھ پر اتنا بوجھ ڈال دے جو تیرے بوجھ کو کم کرے دے۔ جب تو نقا ء اور سلع کی منزلوں سے گزر ے اور اُس سرزمین پر جائے جو اللہ کی ساری زمین سے عزیزتر ہے تو اُس کی مٹی پر سجدہ کرنے میں جلدی کرنا اور اس مٹی کو چوم کر فرض و نفل ادا کرنا، مدینہ منورہ اور وہاں کے ساکنین کو میرے وہ پیغام پہنچانا جو شوق سے املا ہوئے ہیں۔ یہ بھی پہنچانا کہ اس کا دل ’جزع‘ کے لیے مشتاق ہے اور وہ ’اللوی‘ میں پانی و سایہ کا متلاشی ہے‘‘

مدح سرائی میں جولانئ طبع کا رنگ دیکھئے اور استغاثے کا بیانیہ انداز ملاحظہ کیجیے:

فلم یخلق لک الرحمٰن شبھاً

ولم یخلق لک الرحمٰن مثلا

ونوع الانس أشرف کل نوعٍ

لانک منھم یا نور شکلا

ایامن قد تمنی کل تاجٍ

یکون برجلہ للنعل نعلا

وخیر الناس یرضی ان تراہ

للثم تراب تلک النّعل اھلا

ولست بحاجۃٍ للمدح لٰکن

لنا حاجٌ و لیس سواک مولی(۷۹)

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کے کوئی مثال پیدا نہیں کیا اور نہ آپ کا مثل بنایا ہے، نوع انسانی کو تمام دیگر مخلوقات پر اس لیے شرف حاصل ہے کہ آپ ان میں سے ہیں، شکل کے اعتبار سے، اے وہ وجود گرامی کہ ہر تاج شاہی آپ کے نعل کا نعل بننا چاہتا ہے اور لوگوں میں سے بہتر سے بہتر انسان بھی یہ پسند کرتا ہے کہ آپ اُسے اپنی نعلین کی مٹی کو بوسہ دینے کا اہل سمجھیں، آپ تو مدح کے محتاج نہیں ہیں، محتاج تو ہم ہیں کہ آپ کے سوا کوئی آقاؐ نہیں ہے۔‘‘

خوش عقیدگی کا ایک مرقع قطعہ کی صورت میں پڑھیے اور صاحبِ عقیدت کی محبت آفرینی کی داد دیجیے:

علیٰ رأس ھٰذا الکون نعل محمدٍ

علت فجمیع الخلق تحت ظلالہ

لدی الطور موسیٰ نودی اخلع و احمد

علی العرش لم یؤذن بخلع نعالہ(۸۰)

’’اس کائنات کے سر پر نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہے ، وہ اس قدر بلند ہے کہ ساری مخلوق اس کے سایوں میں ہے، طُور پر موسیٰ علیہ السلام کو نعلین اتارنے کی صدا دی گئی اور احمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو عرش پر بھی نعلین اتارنے کی اجازت نہ ملی۔‘‘

علامہ نبھانی کے وہ قصائد جو ’’السابقات الجیاد فی مدح سید العباد‘‘کے عنوان سے ’’سعادۃ الدارین‘‘ میں شامل ہیں اور المجموعۃ النبھانیہ کے تمام اجزاء میں حسبِ قافیہ موجود ہیں، ۲۹ قصائد ہیں جن میں ھمزہ اور لام میں اسی نسبت سے اضافہ بھی ہے، اس طرح ۳۱ قصائد ، ۳۱۰ شعروں پر مشتمل ہیں۔ یہ دس دس شعروں کا مختصر قصیدہ ہے جس کا انہوں نے ارادۃً التزام کیا ہے جیسا کہ امام الوتری نے بیس بیس شعروں پر مشتمل قصائد کہے۔ ان میں اختصار کی وجہ سے جذبوں کی شدت بھی سمٹ آئی ہے اور نہایت بلیغ انداز میں مافی الضمیر کو بیان کیا گیا ہے مثلاً:

آہ لولا الجناح منی کسیر

کنت فی الحال للحجاز اطیرُ

سید الخلق صفوۃُ الحق شمس الافق

اُفق الھدیٰ البشیرُ النذیرُ(۸۱)

نقبّل ارضاً مسھا قدم الذی

لہ سُحبت فوق السماء دیول

نبیٌ جمیع الانبیاء محمدٌ

نعم ولکل المرسلین رسول

فما کان بین الخلق مثل لاحمد

ولیس لہٌ فیمن یکون مثیلُ(۸۲)

’’کاش اگر میرے بازو بے بس نہ ہوتے تو میں فوری طور پر حجاز کی جانب پرواز کرتا،آپ مخلوق کے سردار، حق کا انتخاب آفاق کے آفتاب، ہدایت کے آفاق اور بشیر و نذیر ہیں، ہم اسی سرزمین کو چومتے ہیں جس پر وہ قدم لگے ہیں جن قدموں والا کے دامن آسمان پر کشاں رہتے ہیں، وہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جو سارے نبیوں کا نبی ہے اور تمام رسولوں کا رسول ہے، مخلوق میں احمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی کوئی مثل نہیں ہے اور نہ اُن کی مثل ہوگا۔‘‘

علامہ نبھانی عصری حادثات اور واقعات سے متاثر ہو کر دین کے درد کا برملا اظہار کرتے ہیں:

اُنظر الیٰ دینک المبین غداً

لملّۃ الکفر فی الوریٰ ھدفا

ھاھم تداعواکما ابنت لا

و نحن مع کثرۃ بنا ضعفا

فکن بھٰذا الزمان ذانظرٍ

لنا کما کُنت فی الذی سلفا(۸۳)

’’اپنے دین مبین کے مستقبل پر نظر ڈالیے کہ وہ کفر کی ملّت کا تمام مخلوق میں نشانہ بنا ہوا ہے، وہ دیکھیے کہ ایک دوسرے کو پکار رہے ہیں جیسا کہ آپؐ نے واضح فرمایا تھا یعنی جمعیت کفر کو دین مبین کے خلاف اکٹھا کر رہے ہیں اور ہم دین والے کثرت کے باوجود کمزور ہیں، اس زمانے پر ویسے ہی نظر ڈالیے جیسا کہ آپ گزرے ہوئے ادوار میں نظرِ رحمت فرماتے رہے ہیں۔‘‘

ٍعلامہ یوسف نبھانی نے ’’النظم البدیع فی مولد الشفیع‘‘ کے زیرِ عنوان میلاد نامہ بھی لکھا ہے۔ ۱۲۳ بند پر مشتمل یہ مخمس اس اہتمام سے رقم ہوئی ہے کہ میلاد کی محافل میں پڑھی جانے کے قابل ہے۔ ولادت سے قبل اور بعد کے واقعات، احادیث و سِیر کی کتابوں کے حوالے سے نہایت مہارت اور محبت و عقیدت سے سلسلہ وار روایت ہوئے ہیں کہ یہ سیرت نگاری بھی ہے اور مدح نگاری بھی۔ اس لیے کہ مدح سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وسعت بے پایاں ہے، آپ کی شخصیت کا ہرپہلو، سیرت مطہرہ کا ہر گوشہ اور پیغمبرانہ عظمت کا ہر رُخ اس میں سمویا گیا ہے۔ کہیں آپؐ کے حسن و جمال کا تذکرہ ہے تو کہیں اخلاق و عادات کا، ایک کے ہاں ذات کے حوالے سے متعلقات کے ادراک کی خواہش ہے تو دوسرا متعلقات کے راستے ذاتِ اقدس تک رسائی کے لیے بے چین ہے۔ بعض کے ہاں تاثر پسندی کی انفعالیت ہے اس لیے وہ سیرت مبارکہ کو الفاظ کا پیراہن مہیا کر رہا ہے تو بعض کے ہاں اپنے داعیات و محرکات کی فعالیت ہے اور وہ اپنی ذات کے حوالوں سے التجاؤں اورتمناؤں کی دنیا بسائے ہوئے ہے ۔ مدح نگاری کا معروضی عنصر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا تذکار یعنی آپؐ کی حیاتِ ظاہرہ کا بیان ہے۔ سیرت کے واقعات میں مداحین کے نزدیک سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ’’ولادت‘‘ کا واقعہ ہے۔ پیدائش سے قبل کے حالات، پیش گوئیاں، آثارِ رحمت، عجائب کا ظہور، جناب آمنہؓ سے بعض خوارق کی حکایت اور اسی قسم کے دیگر واقعات جن سے نومولود کی عظمت اور شرافت کا اظہار ہوتا تھا۔ مدح نگاروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ محافل کا انعقاد ہونے لگا تو اظہار تشکر و عقیدت کے لیے واقعاتِ سیرت دوہرائے جانے لگے، ولادت کی مناسبت سے قصائد کہے گئے۔ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر مستقل تصانیف معرضِ وجود میں آئیں جن میں مقفٰی نثر ہوتی اور برمحل اشعار سے انہیں دو آتشہ کیا جاتا، ایسے موالید کی کثیر تعداد دارلکتب المصریہ اور دیگر کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ علامہ نبھانی کی ’’النظم البدیع‘‘ ایسی ہی کوشش ہے کہ شاعر واقعات کی روایت بھی کر رہا ہے اور چشم تصور سے حاضرِ دربار بھی ہے۔ واقعہ تاریخ کا ورق نہیں رہا ورقِ دل کی حکایت بن گیا ہے۔ الفاظ کا جلال ، موضوع کا جمال اور شاعر کا شعری کمال یوں پیوست ہوگئے ہیں کہ نظم اپنے مظاہر میں بدیع بھی ہے اور شاعر کے لیے مجسم شفیع بھی، ملاحظہ کیجئے:

ولم یزل نور النبی الاکمل

من سیدٍ لسیدٍ ینتقلُ

کا نہ فوق الجبین مشعل

کراہ من یعقل من لایعقل

ککوکبٍ قدحل برج سعد(۸۴)

فی للۃ الاثنین لاثنی بحشرا

قبیل فجرٍ من ربیع ظھرا

فاشرق الکون بہاذا اسفرا

واخجل الشمس وفاق القمرا

والبدر قد حکمہ فی المھد(۸۵)

یاربّنا بجاھہ لدیکا

انا توسلنا بہ الیکا

معتمدین ربّنا علیکا

وطالبین الخیر من یدیکا

فأَلھم الکل سبیل الرشد(۸۶)

’’نبی اکرم و اکمل صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا نور مبارک ایک محترم وجود سے دوسرے وجود میں منتقل ہوتا رہا، یوں وہ نور چمک رہا تھا جیسے پیشانیوں پر مشعل روشن ہو جسے ہر سمجھ دار اور بے سمجھ دیکھ لیتا تھا کہ یہ وہ کوکب ہے جو برج سعد میں اُتر آیا ہے‘‘

’’پیر کی رات بارہ ربیع الاول فجر سے کچھ پہلے وہ نور ظاہر ہوا، جب وہ نور چمکا تو کائنات روشن ہو گئی اور سورج اور چاند کو اس نے شرمندہ کر دیا اورچودہویں کے چاند سے پنگوڑے ہی میں ہم کلام ہوتا رہا۔‘‘

’’اے ہمارے پروردگار اُس نبی محترمؐ کی اُس عظمت کے واسطے جو اُن کو تیرے ہاں حاصل ہے کہ ہم انہیں کے واسطے تجھ سے التجا کرتے ہیں، اے پرودگار تجھ پر اعتماد رکھتے ہوئے اور تیرے ہاں سے خیر کی طلب کرتے ہوئے کہ تو سب کو ہدایت کے راستے کی ہدایت دے۔‘‘

دینِ اسلام اور امت مرحومہ کی حالت زار علامہ نبھانی کا خاص موضوع ہے۔ نظم ہو یا نثر وہ موقعہ کی مناسبت سے نصیحت کرتے ہیں اورپروردگارِ عالم سے طلب گارِ اعانت ہوتے ہیں۔ اس مخمس میں بھی یہ انداز برقرار ہے فرماتے ہیں:

یا ربّ و ارحم اُمۃ المختار

فی کل عصرٍ و بکل دار

وأحر سھم من سلطۃ الاغیار

فی سائر البلاد والاقطار

فی کل غورٍ و بکل نجد

بہ استجب یا ربنا دعواتنا

اٰمن بہ یا ربّنا روعاتنا

حسن بہ یا ربّنا حالاتنا

و بدّلن بالحسن سیّئا

و نجنا من حسد و حقد(۸۷)

’’اے میرے ربّ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی امت پر رحم فرما، ہر دور اور ہر علاقے میں اور انہیں دشمن کے غلبے سے محفوظ فرما، تمام شہروں اور اطراف میں، ہر نشیب اور فراز میں‘‘

’’اے ہمارے ربّ اُس نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے وسیلے سے ہماری دعائیں قبول فرما اور اُن کے صدقے ہمیں خوف و ہراس سے محفوظ فرما، اُن کے واسطے سے ہمارے حالات بہتر فرما اور ہمارے گناہ نیکیوں میں بدل دے اور ہم کو حسد و کینے سے نجات دے‘‘

الغرض علامہ نبھانی کا ہر قصیدہ اور ہر نظم اُن کے جذبات کا مظہر اور مدح کے تمام ممکنہ مشتملات کا حامل ہے۔ آپ ایک پختہ مشق شاعر ہیں۔ آپ کے کلام میں اُن کی دینی علوم پر دسترس اور عربی زبان و ادب پر عبور کی جھلک نمایاں ہے مگر حیرت یہ ہے کہ علماء دین میں شامل ہونے اور درس و تدریس سے شغف کے باوجود اُن کا کلام مدرسانہ نہیں ہے۔ اُن کے اشعار میں الفاظ و تراکیب کا ایک بہتا ہوا دریا موجزن ہے۔ ان کی شاعری ایک محور کے گرد گھومتی ہے اور محورو مرکز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے۔ ایک لمحے کو بھی وہ اس مرکز نگاہ سے صرف التفات نہیں کرتے، مدح اُن کی، دفاع اُن کے مقام و مرتبہ کا، حکایت اُن کی سیرت کی اور توسّل اُن کی ذات کا، غرضیکہ ہر پہلو ذات مصطفوی جلوہ فگن ہے اور علامہ نبھانی مثل پروانہ بہر جانب رقصاں ہیں۔ ان گزارشات کو آپ کے ایک موشح پر ختم کیا جاتا ہے جو موشحات اندلسیہ کے معارضہ میں کہا گیا تھا، دستِ طلب دراز ہے اور سائل دربار اپنا حالِ دل سنا کر رحم و کرم کی بھیک مانگ رہا ہے کہ یہی دربارِ عالی ہے اور سارا جہاں اس در کا سوالی ہے:

یا أبا الزھراءِ کُن فی مسعدا

فلقد اوھی زمانی جلدی

لست ابغی من سواک المددا

انت من بین الوریٰ معتمدی

وعلی ضعیفی اِذا صال العدا

جاھک الاعظم اقوی عددی

أنا ان اسلمتنی لن اسلما

فعداتی کل ذئب اطلس

ادرک ادرکنی مادام الذما

لاتدعنی مضغۃ المفترس(۸۸)

اے حضرت زھراؓ کے باباجان آپ میرے لیے سہارا بن جائیں کہ میرے اس زمانے نے میری قوت کو کمزور کر دیا ہے، میں آپ کے سوا کسی کی مدد نہیں چاہتا، آپ ہی مخلوق کے درمیان میرا اعتماد اور سہارا ہیں، جب دشمن میری کمزوری پر حملہ آور ہوتا ہے تو آپ کی عظیم شان میرا مضبوط ترین سامانِ حفاظت ہوتی ہے، اگر آپ نے مجھے بے سہارا چھوڑ دیا تو میں نہ بچ سکوں گا کہ میرے دشمن کا ہر فرد خاکستری رنگ کا بھیڑیا ہے، لیجیے، مجھے بچا لیجیے جب تک بھی مری روح سلامت ہے مجھے کسی درندہ کا لقمہ بنا نہ رہنے دیجئے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔جامع الترمذی باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک، ص۳۵

۲۔حوالہ مذکورہ

۳۔صحیح مسلم کتاب البرو الصلۃ و الادب، باب اذا اثنی علی الصالح فھو بشری، ص۳۳۲

۴۔صحیح بخاری کتاب الشھادات، باب مایکرہ من الاطناب فی المدح، ص۳۶۶، وباب مایکرہ من التمادح، ص۸۹۵

۵۔صحیح مسلم کتاب الذھد، باب النھی عن المدح، ص۴۱۴

۶۔مولانا، حالی، مسدس

۷۔اقبال عظیم

۸۔الملفوظ، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ، حصہ دوم ص۴

۹۔سورہ الصف:۶

۱۰۔العمدہ لابن رشیق، الجزء الاوّل، ص۱۵

۱۱۔العقدالضرید لابن عبدریہ، الجزء الثالث، ص۳۸۸

۱۲۔الوافی بالوفیات للصغدی، فی ترجمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، یذکرمن مدحہ، ص۹۳،۹۴

۱۳۔معجم المؤلفین عمر رضا کمالہ، الجزء الثالث عشر، ص۶۷۵

۱۴۔الاعلام لخیر الدین الزرمکی، المجلد الثامن، ص۲۱۸

۱۵۔فھرس الفھارس و الاثبات لعبدالحئی بن عبدالکبیر الکتانی، الجزء الثانی، ص۱۱۰۸

۱۶۔الاعلام، المجلد الثامن، ص۲۱۸، و معجم المؤلفین، الجزء الثالث عشر، ص۶۷۵

۱۷۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۸

۱۸۔معجم المؤلفین، الجزء الثالث عشر، ص۲۷۶

۱۹۔الاعلام المجلد الثامن، ص۲۱۸

۲۰۔معجم المؤلفین، الجزء الثالث عشر، ص۲۷۶

۲۱۔الاعلام المجلد الثامن، ص۲۱۸

۲۲۔الدلالات الواضحات للنبھانی، ص۱۳۹

۲۳۔برکات، ال رسول(اردو ترجمہ الشرف المؤید لٰال محمد للنبھانی)، ص۱۲

۲۴۔الدلالات الواضحات، ص۱۳۹

۲۵۔حوالہ مذکورہ

۲۶۔معجم المؤ لفین، الجزء الثالث عشر، ص۲۷۶

۲۷۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۸

۲۸۔برکاتِ آل رسولؐ ، ص۱۰

۲۹۔حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی، خلیق نظامی، ص۸۵

۳۰۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۸

۳۱۔سورہ الفتح :۲۹

۳۲۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۷

۳۳۔الاعلام المجلد الثامن، ص۲۱۸

۳۴۔فھرس الفھارس و الاثبات الجزء الثانی، ص۱۱۰۹،۱۱۱۰

۳۵۔معجم المؤلفین، الجزء الثالث عشر، ص۲۷۶

۳۶۔المجموعۃ النبھانیہ فی المدائح النبویۃ، الجزء الاربع، ص۴۷۱

۳۷۔حوالہ مذکورہ، ص۴۷۲

۳۸۔حوالہ مذکورہ، ص۴۷۱

۳۹۔حوالہ مذکورہ، ص۴۷۲

۴۰۔الدلالات الواضحات، ص۱۳۹

۴۱۔ فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۹،۱۱۱۰

۴۲۔الاعلام، المجلد الثامن، ص۲۱۸

۴۳۔برکات آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۴ تا ۱۶، جامع کرامات اولیاء(اردو ترجمہ) ص۵۸ تا ۶۵

۴۴۔جامع کراماتِ اولیاء(اردو ترجمہ) ص۶۳ تا ۶۵

۴۵۔حوالہ مذکورہ، ص۷۶

۴۶۔الاعلام، المجلد الثامن، ص۲۱۸

۴۷۔اطیب النغم فی مدح سید العرب و العجم، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ص۲۰،۲۱

۴۸۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۸

۴۹۔قصیدہ، طیبۃ الغراء فی مدح سیّد الانبیا، طبع ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۲ء مطبعۃ مصافیٰ البابی الحلبی و اولادہ بمصر الطبعۃ الثانیہ، ص۲

۵۰۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاول، ص۲۰۴

۵۱۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۱۶۶ تا ۱۷۶، سعادۃ الدارین للنبھانی، ص۷۱۵ تا ۷۲۰

۵۲۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۱۶۶

۵۳۔حوالہ مذکورہ، ص۱۷۶

۵۴۔سعادۃ الدارین، ضمیمہ، ص۱ تا ۲۰

۵۵۔غایۃ الامانی فی الرد علی النبھانی لمحمود شکری الآلوسی، المجلد الاول، ص۸،۹

۵۶۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاربع، ص۳۵۴ تا ۳۵۷

۵۷۔حوالہ مذکورہ، ص۴۴۹ تا ۴۵۶

۵۸۔حوالہ مذکورہ، ص۴۵۶ تا ۴۶۴

۵۹۔حوالہ مذکورہ، ص۴۶۴ تا ۴۶۷

۶۰۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاول، دیباچہ، ص۱۶

۶۱۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۴۰۶، ۴۰۷

۶۲۔فھرس الفھارس و الاثبات، الجزء الثانی، ص۱۱۰۷

۶۳۔تذکرہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی، محمد میاں صدیقی، ص۱۷۱،۱۷۲

۶۴۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاول، دیباچہ، ص۳

۶۵۔حوالہ مذکورہ، ص۷

۶۶۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاول، دیباچہ، ص۲۰۸

۶۷۔حوالہ مذکورہ، ص۲۰۹

۶۸۔حوالہ مذکورہ، ص۲۱۰

۶۹۔حوالہ مذکورہ، ص۲۱۰

۷۰۔حوالہ مذکورہ، ص۲۷۷

۷۱۔حوالہ مذکورہ، ص۲۸۲،۲۸۳

۷۲۔حوالہ مذکورہ، ص۲۸۴

۷۳۔حوالہ مذکورہ، ص۲۸۶

۷۴۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۱۶۶

۷۵۔حوالہ مذکورہ، ص۱۷۶

۷۶۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاول، ص۲۸۵،۲۸۶

۷۷۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۱۷۴

۷۸۔حوالہ مذکورہ، ص۴۰۸

۷۹۔حوالہ مذکورہ، ص۴۱۴،۴۱۵

۸۰۔حوالہ مذکورہ، ص۴۰۶

۸۱۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثانی، ص۲۴۸

۸۲۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثالث، ص۴۱۵،۴۱۶

۸۳۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الثانی، ص۴۰۱

۸۴۔حجۃ اللّٰہ العالمین فی معجزات سید المرسلین للنبھانی، ص۲۴۳

۸۵۔حوالہ مذکورہ، ص۲۵۲

۸۶۔حوالہ مذکورہ، ص۲۵۲

۸۷۔حوالہ مذکورہ، ص۲۵۳

۸۸۔المجموعۃ النبھانیہ، الجزء الاربع، ص۴۵۵


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25