عبد الستار نیازی
نمونہ کلام
آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا
آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا
بے کس کا آسرا ہے مدینہ حضور کا
پھر جا رہے ہیں اہل محبت کے قافلے
پھر یاد آ رہا ہے مدینہ حضور کا
تسکین جاں ہے راحت دل وجہ انبساط
ہر درد کی دوا ہے مدینہ حضور کا
نبیوں میں جیسے افضل و اعلی ہیں مصطفی
شہروں میں بادشاہ ہے مدینہ حضور کا
ہے رنگ نور جس نے دیا دو جہان کو
وہ نور کا دیا ہے مدینہ حضور کا
جب سے قدم پڑے ہیں رسالت مآب کے
جنت بنا ہوا ہے مدینہ حضور کا
قدسی بھی چومتے ہیں ادب سے یہاں کی خاک
قسمت پہ جھومتا ہے مدینہ حضور کا
ہر ذرہ ذرہ اپنی جگہ ماہتاب ہے
کیا جگمگا رہا ہے مدینہ حضور کا
ہو ناز کیوں نہ اس کو نیازی نصیب پر
جس کو بھی مل گیا ہے مدینہ حضور کا
ایسا طالب کوئی نہیں ہے ، جیسا حق تعالی ہے
ایسا طالب کوئی نہیں ہے، جیسا حق تعالی ہے
کوئی نہیں محبوب ایسا، جیسا کملی والا ہے
طہ کا سرتاج سجا ہے دوش پہ نور کا ہالہ ہے
آنکھوں میں مازاغ کا کجلا آپ خدا نے ڈالا ہے
دنیا کہتی ہے یہ حلیمہ تو نے نبیﷺ کو پالا ہے
میں کہتا ہوں تجھ کو حلیمہ میرے نبیﷺ نے پالا ہے
اپنی بخشش ، اپنی بھلائی کا یہ کام نکالا ہے
اپنے نبیﷺ کے گن گاتے ہیں جب سے ہوش سنبھلا ہے
دیکھنے والوں نے دیکھا ہے وہ بھی منظر آنکھوں سے
ستر پینے والے ہیں اور ودھ کا ایک پیالہ ہے
کون ہے جس نے پائی نہیں ہے عزت عظمت اس در سے
اس در کی تم بات نہ پوچھو وہ در سب سے اعلی ہے
جگمگ جگمگ ذرہ ذرہ روشن گوشہ گوشہ ہے
آمنہ بی بی کے چاند کا صدقہ گھر گھر نور اجالا ہے
کوئی نہیں غم توڑ لے رشتے مجھ سے نیازی یہ دنیا
میرا والی میرا آقا شہر مدینے والا ہے