"عبد الجلیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 92: سطر 92:


[[نعت ریسرچ سنٹر،كراچی]]
[[نعت ریسرچ سنٹر،كراچی]]
=== پروفیسر محمد اسلم فیضی کی رائے  ===
ساری حمدو ثنا اس ربّ کا ئنا ت کے لئے جس نے ایک لفظ کُن سے سارے عالمین کو تخلیق فرما یا اور اپنے فضل و کرم اور لطف  و  عطا  کی رعنا ئیو ں سے اسے زینت بخشی اور بے حدو بے حساب  درود و سلا م ہوں اس مبا رک اور  پا کیزہ ہستی پر جو اللہ تبارک و تعالی کا بھی محبوب  ہے اور ہر صاحب ِ ایما ن کے دل کی دھڑکنوں  میں بھی آبا دہے۔ سچ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا وجو دِ مسعود ہی  عشق و محبت اور ایما ن و آگہی کا  محور ومرکزہے آ پ ہی کی تعلیما ت ہیں جو زندگی بخش بھی ہیں اور زندگی افروز بھی اور آپ ہی کی سیرت طیبہ ہے جو مختلف خصا ئص ، خصو صاََ  صفتِ رحمت کی آئینہ دار ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کو رفعت وعظمت کی ہر شا ن سے نوازا  ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک اہل دانش نظم ونشر  میں اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہا ر کر تے چلے آرہے ہیں۔
جہا ں تک اردو نعت نگا ری کا تعلق ہے تو ان خوش نصیب شعرا کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے جنہو ں نے حمدونعت کو اظہا ر کا وسیلہ بنا یا ہے ۔ ایسے ہی سعادت مندوں میں ممتا ز عالمِ دین اور سکالر الحاج حافظ قاری عبدالجلیل صاحب کا اسم گرامی بھی شا مل ہے۔
وہ دنیاوی علو م سے تو بہر ہ ور ہیں ہی  ،  دینی علوم  ،  قرآن و حدیث کی روح سے بھی گہری شنا سائی رکھتے ہیں۔  اور  جذ بٔہ عشقِ رسولﷺ سے ان کا سینہ روشن و تا باں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پا کیزہ سوچ او ر  منزّہ افکا ر کے سحاب پارے نعتیہ اشعا ر میں  ڈھل  کر  سا منے آتے ہیں تو رحمتوں کی پھوار  برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ایما ن و ایقا ن  کے  شگو فوں پر تازگی چھا جاتی ہے۔
وہ اپنے نعتیہ کلام میںعقیدے کی صحت کے ساتھ ساتھ قر ینٔہ ادب کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ جذبے کی سچائی  اور آقائے  دو جہا ں ﷺ سے عشق و محبت کی سر شاری نے ان کی نعتوں کو دل گداز ابلاغ کی نعمت سے مالا مال کر دیا ہے ان کے نعتیہ اشعا ر براہ راست دل پر اثر کر تے ہیں اور قاری حسنِ عقیدت اور جمالیاتی فکر سے اپنے جو ہر ایمان کو ایک طلسماتی چمک سے آبدار محسوس کر تا ہے۔
’’مہکا ر مدینے کی‘‘ حافظ قاری عبدا لجلیل صاحب کا پہلا مجمو عٔہ کلام ہے۔
نام ہی ایسا پیارا اور ایما ن افروز ہے کہ لیتے ہی شہر حبیب ﷺ کی فضائوں کے پر کیف جھونکے دل و دماغ کو اپنی مہکا ر سے معطر و معنبر کر دیتے ہیں ۔ میر ی دعا ہے کہ یہ مجموعہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے پیا رے محبو بؐ کی با رگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرے اور قاری صاحب کے لئے تو شٔہ آخرت اور نجا ت کاوسیلہ بنے ۔  آمین ثُم آمین۔ بجاہِ سیّدالمرسلینؐ
پروفیسر محمداسلم فیضی

نسخہ بمطابق 14:21، 25 اگست 2019ء


حافظ عبد الجلیل کا تعلق کوہاٹ سے ہے ۔ وہ اسلم فیضی کے شاگرد ہیں ۔ عبدالجلیل

نام

حافظ محمد عبدالجلیل

تاریخ پیدائش

15.12.1958 ( پندرہ دسمبر سن انیس سو اٹھا ون)

شہر

تحصیل جنڈ ، ضلع اٹک پنجاب

خاندانی تعا رف

ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا اعوان خاندان، راسخ العقید ہ سنی ، مذہبی فکر کا حا مل ، حضورﷺ کی ذات ِ اقدس سے والہا نہ محبت کرنے والا، نعت کا نہا یت عمدہ ذوق رکھنے والا ۔ خاندان میں بڑی تعداد میں حفا ظ ، قراءنعت خوان اور علما ء مو جود ہیں۔

ابتدائی تعلیم

پرائمری تک کو ہا ٹ میں ، میٹرک گورنمنٹ ہا ئی سکول جنڈ (اٹک) سے جبکہ مدرسہ دارالعلوم غوثیہ جنڈ سے قاری کرم الٰہی صا حب سے حفظِ قرآن مجید کی تکمیل کی۔

اعلی ٰ تعلیم

گورنمنٹ کا لج کو ہا ٹ سے گریجویشن اور پشا ور یونیورسٹی سے ایم۔ اے (اسلا میا ت) اردو، تا ریخ اور بی ایڈ کیا جبکہ مرکز ی دارالقر اء بہا دریہ کو ہا ٹ سے قاری سید گلفام شا ہؒ سے تجوید و قرات کی تعلیم حا صل کی اور استا ذ العلما ء مفتی محمد نعیم صاحبؒ سے دیگر علوم میں اکتسابِ فیض کیا۔

گھرکا نعتیہ ما حول

گھر میں نعتیہ ما حول ملا ۔ ما موں جان اچھے نعت خوان تھے نعت شوق سے پڑھی جا تی اور سنی جاتی تھی۔

دوران تعلیم شا عری، نعت خوانی کے معا ملات

دورانِ تعلیم شا عری تو نہ کی البتہ نعت خوانی کا شوق تھا۔ گو آواز اتنی اچھی نہ تھی تا ہم محا فل میں اعلیٰ حضرت ؒ اور صا ئم چشتی ؒ اور محمد علی ظہوریؒ کی نعتیں پڑھا کر تا تھا۔

پہلا نعتیہ شعر کب کہا اور کیسے کہا؍ پہلی نعت کب اور کیسے پڑھی

شا ید ۱۹۸۸ئ ؁ میں پہلا شعر کہا۔ گنگنا تے ہو ئے ایک مطلع ہو گیا ۔ ـ’’جب سے طیبہ کی مجھ کو گلی مل گئی - سا ری دنیا کی سمجھو خو شی مل گئی ‘‘ اس مطلع پر کئی دنو ں میں جب نعت مکمل ہو گئی تو محترم پروفیسر محمد اسلم فیضی صاحب کو سنا ئی۔ اُنہوں نے سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔

پہلا نعتیہ مشا عرہ کہاں اور کیسے پڑھا/ پہلی با قا عدہ ریکا رڈنگ یا محفل نعت کونسی تھی۔

پشاور میں محترم اکبر ضیا ء سیٹھی کے ہا ں تحریک منہا ج القرآن کے زیر اہتما م ، ربیع الا ول شریف میں سا لانہ نعتیہ مشا عرہ تھا جس میں محترم حفیظ تا ئب ، محترم محسن احسان ، ڈاکٹر نذیر تبسم پر وفیسر محمد اسلم فیضی جیسے نا مور شعراء شریک تھے یہ نعت سنا ئی۔ ’’جس میں ذکر رسول ہو تا ہے۔ بس وہ لمحہ قبول ہو تاہے‘‘ تا ہم با قا عدہ نعت خوانی نہیں کی۔


استاد کون ہیں؍ کن لوگوں نے راہنما ئی کی

پروفیسر محمد اسلم فیضی۔ نعت کے حوالے سے اُنہی سے راہنما ئی لیتا رہا اور لے رہا ہوں۔

کن کن شہروں میں بغر ض مشا عرہ تشریف لے جا چکے ہیں

کو ہاٹ میں متعدد مشا عروں میں حصہ لیا ۔ اس کے علاوہ پشاور اور فتح جنگ (ضلع اٹک)

اعزازات

نعت کے حوالے سے تو نہیں البتہ ریڈیو پا کستان نے مذہبی پر وگراموں کے حوالے سے ۲۰۱۳ئ؁ میں بہترین کا رکردگی ایوارڈ دیا۔

نعتیہ خدمات

(i) عالمی شہرت یا فتہ نعت گو شا عر محترم خا لد محمود خالدؒ کے آخری نعتیہ مجموعے ’’سیل تجلیا ت‘‘ پر اُن کے اشعار میں قرآن و حدیث کی فکر کے حوالے سے طویل مضمون لکھا۔ (ii) معروف شا عر ڈاکٹر ارشا د شا کر اعوان کے نعتیہ مجموعہ ’’نعت دریچہ‘‘ پر اُن کے اشعار میں قرآن و حدیث کی فکر کے حوالے سے مضمون لکھا۔ (iii) معروف شا عر محترم ایوب صا بر کے بعد ا زوفا ت محترم شا ہد زمان کے مر تّب کردہ کلا م ’’ منحرف‘‘ کے حوالے سے ’’ ایوب صا بر کی شا عری میں صوفیانہ رنگ‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔

نعتیہ مجموعے

مہکا ر مدینے کی تا حا ل ایک ہی مجموعہ طبع ہو ا ہے۔ مہکا ر مدینے کی

پڑھے ہو ئے مشہورکلا م

اعلی ٰ حضرتؒ کے کلا م ’’سب سے اعلیٰ وا ولیٰ ہما را نبی ﷺ اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دئے ہیں ‘‘ محمد علی ظہوریؒ ’’جب مسجد نبوی کے مینا ر نظر آئے ‘‘ دل یا ر دا نذرانہ لے یا ر دے کول آئے‘‘ دوران طا لب علمی نعت پڑھتا رہا اُس کے بعد با قا عدہ نعت خوانی نہیں کی۔

پسندیدہ شعراء

احمد ندیم قا سمی، احمد فراز

پسندیدہ نعت گو شعراء

مظفر وارثی ؒ ، سید نصیرالدین نصیر ؒ ، خا لد محمود خالد نقشبندیؒ حفیظ تا ئب

پسندیدہ نو جوان نعت گو شعراء

سید صبیح الد ین صبیح رحمانی ، سر ور حسین نقشبندی

پسندیدہ بزرگ نعت خوان

محمد علی ظہوری ؒ ،اعظم چشتی ؒ ،سید منظور الکونین شا ہ ؒ ،سیدفصیح الدین سہروردی

پسندیدہ نو جوان نعت خوان

سیّد زبیب مسعود شا ہ

ان کے شہرکے مشہور نعت خوان

سید ابرار شاہ ، سید ضرار شا ہ، محمد انور خان قا دری ، قا ری خلیل احمد قریشی ، محمد اظہر خان

نعت گو شعراء

پر وفیسر محمد اسلم فیضی، محمد جان عا طف ، محبت خان بنگش، شجا عت علی راہی

نعت خوانی کے با رے نظریہ

نعت خوانی ایک انتہا ئی پا کیزہ عمل ہے اس کیلئے جسم کے سا تھ ساتھ روح کی پا کیزگی وبا لیدگی ازحد ضروری ہے نعت خوان کیلئے لا زم ہے کہ اس با رگاہ کے ادب کو ملحو ظ خا طر رکھے کیونکہ ’’ادب گا ہ ہیست زیر آسمان از عرش نا رک ترنفس گم کردہ می آید جُنیدو با یز یدایں جا‘‘دور حا ضر میں نعت خوانوں کے تجریدی رویوں نے نعت کے تقدس کو بری طرح پا ما ل کیا ہے نعت خوانی اور محا فل نعت کا انعقا د محض کما ئی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے ادب کلیتََا مفقود ہو گیا ہے اہل علم ودانش کو اس حوالے سے اصلا ح احوال کی سنجیدہ کو شش کرنی چا ہیئے تا کہ محا فلِ نعت اور نعت خوانی اہل ایما ن کیلئے حقیقتاََ روح کی غذا ثا بت ہو۔

نعت گوئی کی خدمت پر نعت کا ئنا ت کے با رے ر ائے۔

ما دیت کے اس دور میں فروغِ نعت اور نعت کے تقدس کو بحال کرنے کیلئے پر خلوص کو شش کرنے پر ’’نعت کا ئنا ت‘‘ صد ہزار با ر لا ئق تحسین ہے ۔ اللہ کریم اپنے حبیب ﷺکے صدقے ان کے نیک ارادوں میں بر کتِ مزید عطا فر مائے (آمین)

نعت خوانی کی خدمات پر نعت ورثہ کے با رے رائے

نعت خوانی اگر اپنی اصل روح کے سا تھ دوبا رہ بحا ل ہو جائے اور معیا ری کلام پڑھے جانے لگیں تو نعت ورثہ کی ان خدما ت کو صدیوں تک یا د رکھا جائے گا۔ ان شا ء اللہ


صبیح الدین رحمانی کی رائے

حافظ محمد عبدالجلیل کی نعتیہ شاعری در حقیقت ان کے دل اور روح کے مطالبے پر وجود میں آنے والی شاعری ھے -اس میں جذبوں کی سچائی ،اظہار کی سادگی و برجستگی ، فکر کی پاکیزگی اور عشق ومحبت کی حرارت نمایاں ہے


حافظ صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی والہانہ عقیدت ومحبت اور رشتے کا اظہار نہایت سیدھے سادے انداز میں کیا ھے اور یہی اظہار ان کا اور ان کی زندگی اور فن کا اعتبار بن کر سامنے آیا ھے

ان کے کلام میں فریاد کی لے بھی ھے اور سرخوشی کے نغمے بھی وجہ یہ ھے کہ حضور کی ذات ان کے لیے امید کا سرچشمہ بھی اور ہر خوشی کا منبع بھی-میرے نزدیک تو تعلق اور رشتے کا یہ احساس اور شعور بھی عطائے خداوندی ھے

میری دعا ھے کہ رب لوح و قلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حافظ صاحب کے رشتے اور تعلق کی اس شعری دستاویز کو ان کے لیے توشہ آخرت بنادے آمین


صبیح رحمانی

نعت ریسرچ سنٹر،كراچی


پروفیسر محمد اسلم فیضی کی رائے

ساری حمدو ثنا اس ربّ کا ئنا ت کے لئے جس نے ایک لفظ کُن سے سارے عالمین کو تخلیق فرما یا اور اپنے فضل و کرم اور لطف و عطا کی رعنا ئیو ں سے اسے زینت بخشی اور بے حدو بے حساب درود و سلا م ہوں اس مبا رک اور پا کیزہ ہستی پر جو اللہ تبارک و تعالی کا بھی محبوب ہے اور ہر صاحب ِ ایما ن کے دل کی دھڑکنوں میں بھی آبا دہے۔ سچ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا وجو دِ مسعود ہی عشق و محبت اور ایما ن و آگہی کا محور ومرکزہے آ پ ہی کی تعلیما ت ہیں جو زندگی بخش بھی ہیں اور زندگی افروز بھی اور آپ ہی کی سیرت طیبہ ہے جو مختلف خصا ئص ، خصو صاََ صفتِ رحمت کی آئینہ دار ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کو رفعت وعظمت کی ہر شا ن سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک اہل دانش نظم ونشر میں اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہا ر کر تے چلے آرہے ہیں۔

جہا ں تک اردو نعت نگا ری کا تعلق ہے تو ان خوش نصیب شعرا کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے جنہو ں نے حمدونعت کو اظہا ر کا وسیلہ بنا یا ہے ۔ ایسے ہی سعادت مندوں میں ممتا ز عالمِ دین اور سکالر الحاج حافظ قاری عبدالجلیل صاحب کا اسم گرامی بھی شا مل ہے۔

وہ دنیاوی علو م سے تو بہر ہ ور ہیں ہی ، دینی علوم ، قرآن و حدیث کی روح سے بھی گہری شنا سائی رکھتے ہیں۔ اور جذ بٔہ عشقِ رسولﷺ سے ان کا سینہ روشن و تا باں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پا کیزہ سوچ او ر منزّہ افکا ر کے سحاب پارے نعتیہ اشعا ر میں ڈھل کر سا منے آتے ہیں تو رحمتوں کی پھوار برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ایما ن و ایقا ن کے شگو فوں پر تازگی چھا جاتی ہے۔

وہ اپنے نعتیہ کلام میںعقیدے کی صحت کے ساتھ ساتھ قر ینٔہ ادب کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ جذبے کی سچائی اور آقائے دو جہا ں ﷺ سے عشق و محبت کی سر شاری نے ان کی نعتوں کو دل گداز ابلاغ کی نعمت سے مالا مال کر دیا ہے ان کے نعتیہ اشعا ر براہ راست دل پر اثر کر تے ہیں اور قاری حسنِ عقیدت اور جمالیاتی فکر سے اپنے جو ہر ایمان کو ایک طلسماتی چمک سے آبدار محسوس کر تا ہے۔

’’مہکا ر مدینے کی‘‘ حافظ قاری عبدا لجلیل صاحب کا پہلا مجمو عٔہ کلام ہے۔

نام ہی ایسا پیارا اور ایما ن افروز ہے کہ لیتے ہی شہر حبیب ﷺ کی فضائوں کے پر کیف جھونکے دل و دماغ کو اپنی مہکا ر سے معطر و معنبر کر دیتے ہیں ۔ میر ی دعا ہے کہ یہ مجموعہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے پیا رے محبو بؐ کی با رگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرے اور قاری صاحب کے لئے تو شٔہ آخرت اور نجا ت کاوسیلہ بنے ۔ آمین ثُم آمین۔ بجاہِ سیّدالمرسلینؐ

پروفیسر محمداسلم فیضی