صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا ۔ امام احمد رضا خان بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صَدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا


باغِ طیبہ میں سُہانا پھول پھولا نور کا

مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا


بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا

بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا


عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا

یہ مثمّن بُرج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا


تیرے ہی ماتھے رہا اسے جان سہرا نور کا

بخت جاگا نور کا چمکا سِتارا نور کا


میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا

نور دن دو نا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا


تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا

رُخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا


پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا

دیکھیں موسیٰ طور سے اُترا صحیفہ نور کا


تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا

سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا


پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا

گردِسر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا


شمع دِل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا

تیری صورت کے لیے آیا ہے سُورہ نور کا


مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا

ہے گلے میں آج تک کو راہی کرتا نور کا


تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا

نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا


تو ہے سایہ نورکا ہر عضو ٹکڑا نور کا

سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا


کیا بنا نامِ خدا اسرا کا دُولھا نور کا

سر پہ سہرا نور کابر میں شہانہ نور کا


بزمِ وحدت میں مزا ہوگا دوبالا نور کا

ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا


وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترا نہ نور کا

دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا


صبح کردی کفر کی سچّا تھا مژدہ نور کا

شام ہی سے تھا شبِ تیرہ کو دھڑکا نور کا


پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا

سر جھکا اے کشتِ کفر آتا ہے ابلا نور کا


ناریوں کا دَور تھا دل جل رہا تھا نور کا

تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجا نور کا


جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا

نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا


بھیک لے سرکار سے لا جَلد کاسہ نور کا

ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا


شمع ساں ایک ایک پَروانہ ہے اس بانور کا

نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا


تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا


نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا

مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا


اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا

مہر نے چھپ کر کیا خاصا دھند لکا نور کا


تم مقابل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا

تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا


آنکھ مِل سکتی نہیں دَر پر ہے پہرا نور کا

تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا


نزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا

مَر کے اوڑھے گی عروسِ جاں دوپٹا نور کا


تابِ مہرِ حشر سے چَونکے نہ کشتہ نورکا

بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا


وضع واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا

یوں مجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا


انبیا اجزا ہیں تُو بالکل ہے جملہ نور کا

اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچّا نور کا


یہ جو مہرو مَہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا

بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا


تاب ہم سے چَوندھیا کر چاند انھیں قدموں پھرا

ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا


چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھِلونا نور کا


کٓ گیسوہٰ دہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ

کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا


اے رضا یہ احمدِ نوری کا فیض نور ہے

ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا