آپ «سلیم یزدانی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5: سطر 5:


<blockquote>
<blockquote>
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے کچھ معجزات ان کی حیات میں ظہور میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، ان کی وفات کے بعد جو درود و سلام، لا تعدولا تحصیٰ، ان کی ذات گرامی پر بھیجے گئے وہ اپنی جگہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ میرے نزدیک سب سے بڑا اور سچا معجزہ ہے، جس کا جواب محال ہے۔ نعتوں کا سلسلہ الگ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور برگزیدہ شخصیت کے لیے، اتنے منظومات، سلام، گیت، بھجن یا مدحتیں لکھی گئی ہوںگی۔ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں بہت سے odes, hymns, songs لکھے گئے ہیں، جیسے سپنسر کا Ode to the Natiity of Christ (برمیلاد مسیح) (۴۶۹) مگر ان کی تعداد اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گی۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ خود غیرمسلموں نے اس میدان میں دل کھول کر طبع آزمائی کی اور بہت کچھ داد سخن آرائی دی، جس کا اعتراف واجب ہے۔ یہ سلسلہ قرون اولیٰ سے جاری ہے، اس کا آغاز جناب رسالت مآب(ص) کے حین حیات میں ہو گیا تھا، اور برابر فروغ پذیر رہا۔ حتیٰ کہ بیسیوں صدی میں گزشتہ سب زمانوں سے بڑھ گیا۔ ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے بھی اس کو تقویت ملی، جس میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور دین کی عظمت مدنظر تھی، جو جناب رسالت مآب کی ذات مکرم سے عبارت ہے<ref>  نعت نامے ، ص 440 </ref> ، بقول [[اقبال]]:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے کچھ معجزات ان کی حیات میں ظہور میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، ان کی وفات کے بعد جو درود و سلام، لا تعدولا تحصیٰ، ان کی ذات گرامی پر بھیجے گئے وہ اپنی جگہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ میرے نزدیک سب سے بڑا اور سچا معجزہ ہے، جس کا جواب محال ہے۔ نعتوں کا سلسلہ الگ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور برگزیدہ شخصیت کے لیے، اتنے منظومات، سلام، گیت، بھجن یا مدحتیں لکھی گئی ہوںگی۔ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں بہت سے odes, hymns, songs لکھے گئے ہیں، جیسے سپنسر کا Ode to the Natiity of Christ (برمیلاد مسیح) (۴۶۹) مگر ان کی تعداد اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گی۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ خود غیرمسلموں نے اس میدان میں دل کھول کر طبع آزمائی کی اور بہت کچھ داد سخن آرائی دی، جس کا اعتراف واجب ہے۔ یہ سلسلہ قرون اولیٰ سے جاری ہے، اس کا آغاز جناب رسالت مآب(ص) کے حین حیات میں ہو گیا تھا، اور برابر فروغ پذیر رہا۔ حتیٰ کہ بیسیوں صدی میں گزشتہ سب زمانوں سے بڑھ گیا۔ ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے بھی اس کو تقویت ملی، جس میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور دین کی عظمت مدنظر تھی، جو جناب رسالت مآب کی ذات مکرم سے عبارت ہے<ref>  نعت نامے ، ص 470 </ref> ، بقول [[اقبال]]:


’’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘‘  
’’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘‘  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)