سعید بدر

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 06:50، 19 اپريل 2017ء از 39.55.46.58 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: سعید بدر۔لاہور 11/جولائی 2014 سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ھمتا کوہے حکمراں ہے اک وُہی باقی بُتان...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

سعید بدر۔لاہور

11/جولائی 2014

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ھمتا کوہے

حکمراں ہے اک وُہی باقی بُتانِ آزادی

آج آپ کی عنایت خسر وانہ کی بدولت نعت رنگ کا چوبیسواں شمارہ ڈاک کے ذریعے ملا۔ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کیونکہ طویل عرصہ کے بعد شائع ہواہے آنکھوں کوتازگی اوررُوح کو بالیدگی میسرآئی۔ اتنی خوشی کی بیان نہیں کرسکتا ۔ آپ سے بھی نصف ملاقات ہوگئی ۔

ٹائیٹل بہت ہی دلکش اور روح پرور ہے اوراس پر عبارت یہ کہ اللہ ٗربّ محمدصلی اللہ علیہ وسلم بے پایاں مسرت اس لیے ہوئی کہ اس سے قبل ایک صاحب ، اللہ کعبہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ایک سفر نامہ (حجاز) شائع کرچکے ہیں ۔ایک احساس ہواکہ جیسے درمیان میں کوئی رکاوٹ ڈال دی گئی ہو ،حالانکہ کعبہ رکاوٹ نہیں لیکن جانے کیوں ،ہمیں اللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی شے اچھی نہیں لگتی ۔آج ایک صاحب ٹی وی پر ’’حدیث‘‘ کے لفظ قرآنی آیات کی روشنی اللہ تعالیٰ سے منسوب کررہے ہیں کہ قرآن نے اللہ کے کلام کواور اللہ کی بات کو’’حدیث ‘‘ کہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔موصوف کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ لفظ رسول پاک سے مخصوص نہیں ہے ۔پتہ نہیں اس ایک ’’خاص طبقے‘‘ کوکیا ہوگیا ہے ۔وہ رسول پاکصلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کو گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔

نعت رنگ کے زیر نظر شمارے میں ایک بات خاص طورپر محسوس ہوئی کہ اس کے ۵۶۰ صفحات میں سے ۵۳۴ سے ۵۴۶ تک صرف ۱۲ صفحات میں ۱۰نعتیں شامل ہیں ،باقی سب کچھ تنقیدہی تنقید ہے گویا مختلف احباب اورقابل قدر اصحاب نے ’’نعت‘‘پر محض تنقید فرمانے کا ہی فریضہ ادا کیاہے خوبیوں کے ساتھ زیادہ تر خامیوں اورکمزوریوں کو اجاگر کیاہے۔تنقید نگار کا مزاج ہمیشہ خامیوں کی تلاش کرنا ہی ہوتاہے وہ اگر ’’حسن و قبح‘‘کی تلاش کے اس دلچسپ شغل میں نعت نگار کی تعریف یا تحسین کے چند جملے لکھتا ہے تو وہ درحقیقت ’’بزور وزن بیت ‘‘ کے عامل ہوتے ہیںیاپھر ان چند جملوں سے اس کامقصد خود خود کو ’’غیر جانبدار‘‘ثابت کرنا ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایسے تنقید نگار ابھی موجود ہیں جنھوں نے غالب واقبال اورظفر علی خاں پربھی نشتر زنی سے گریز نہیں کیا ۔ یہ کہنے سے میرایہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ان ’’بزرگوں‘‘سے غلطیاں نہیں ہوئیں یا ان کے اشعارمیں کہیں سقم موجود نہیں یاپھر وہ’’ معصوم عن الخطاء‘‘تھے یا ہیں ۔ایسا ہرگزنہیں لیکن فارسی اوراردو زبانوں میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ ’’خطائے بزرگان گرفتن خطا است‘‘یعنی بڑوں اوربزرگوں کی غلطیوں یا کمزوریوں کو الم نشرح کرنا بھی ’’خطا ء‘‘کے زمرے میں آتاہے لیکن مغربی افکار سے مسحو ر ومرعو ب ہوکر ہم لوگ اپنے اجداد اوراسلاف کے تابناک اورخوب صورت چہروں پربھی دھبے لگانے پر فخر محسوس کرتے تھے ۔محترم المقام جناب صبیح رحمانی آپ نے جب نعت پر’’تنقید‘‘کا سلسلہ شروع کیا تھاتوراقم نے اس وقت بھی اُن سے اسی’’ خدشے ‘‘کا اظہار کیاتھا لیکن آپ اپنی دھن کے پکے ہیں آپ نے اس کام کوآغاز کرکے ہی دم لیاکیا’’تنقید نگار‘‘حضرات کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نعت نگاروں پرہرپہلو اورہر گہرے گوشے سے حملے کریں اوربالخصوص اگر کوئی نعت نگار پسند نہ ہوتواس کی شامت ہی آجاتی ہے۔چاہیے تویہ کہ حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس صنف کو فروغ حاصل ہو۔

راقم کواس امر کا ذاتی تجربہ ہے کہ جن نوآموز شعراپربے جا تنقید کی گئی ،انہوں نے شعر کہنے سے ہی توبہ کرلی انہوں نے جب شعر کہنا ہی چھوڑ دیاتو نعت کیا کہنا تھی اس طرح نعت کو نقصان پہنچا۔کتابوں پر تبصروں کے دوران میں راقم کے اس قسم کے رویہ کی وجہ سے استاذمکرم ڈاکٹر وحید قریشی اورڈاکٹر انورسدید نے فرمایا:

ُُ’’اردو ادب میں ادیبوں ،شاعروں اوراہل قلم کا پہلے ہی ’’قحط‘‘ہے اگر آپ ان کی حوصلہ شکنی کریں گے تواس شعبہ میں مزید لوگ نہیں آئیں گے میرے رویے کی تبدیلی کے نتیجہ میں تبصرۂ کتب کے لیے رابطہ کرنے والے اصحاب کی تعداد بڑھنے لگی لیکن راقم نے موقع ملنے پر ہرقلمکار کوزبانی کلامی اس کی خامیوں سے آگاہ کردیا جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔یہ بات واضح ہے کہ راقم کویہ دعوی نہیں کہ اُسے شعر و شاعری پرعبور حاصل ہے بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ راقم شعر وشاعری کے ’’ابجد‘‘سے بھی واقف نہیں اس کے لیے علم عروض پرعبور حاصل ہونا لازم اورمفید ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے اصحاب بھی تنقید کے ہتھوڑے اورکلہاڑے چلاتے ہیں جنھوں نے خود زندگی بھرایک نظم ،غزل یا نعت نہیں کہی ہوتی‘‘۔

زیرنظر شمارے کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے قدیم اورجدید نعت کے خدوخال پربحث کی ہے کہ:

’’ اصلاح بیداری کی تحریکوں اورمعاشرتی تقاضوں کے تحت زبان کے مزاج اوراظہار کی صورتوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اورجہاں گیت،بارہ ما سے اوردوہے جیسی عام اورپسندیدہ اصناف میں کمی واقع ہوتی ہے ،وہیں مسلمانوں میں قومی وملّی احساسات کے فروغ اوربیداری کی تحریکوں اور مذہبی مسالک کی باہمی کش مکشوں اورتنازعات کے نتیجے میں بھی جس میں مقام رسالت پربحث ومباحثہ بھی شامل ہے نعت نگاری نے ماضی یا عہد وسطیٰ کے مقابلے میں عہد حاضر میں بتدریج زیادہ مقبولیت اورتوجہ حاصل کی ہے‘‘

جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب نعت کوادب کی صنف تسلیم کیاجانے لگا بہرحال بارہ ماسے اوردوہوں کی اصناف میں کمی کا نقصان بھی توہواہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’عینیت اورغیریت‘‘کے مسئلے کو خوب اجاگر کیاہے کہ ’’ذات احمد‘‘کی ’’میم‘‘سے جدا کرکے اُسے ’’احد‘‘بنانے کا عمل محسن کاکوروی جیسے شعرا کرام نے روارکھا لیکن عہد حاضر میں نعت نگاروں سے اس’’عمل‘‘اجتناب کرتے ہوئے حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتحسین کے معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اوراس کے لیے انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلمکا ’’سراپا‘‘بیان کرنے پرزور دینے کے بجائے ان کی سیرت طیبہ کے پہلو اجاگر کرنے پرزیادہ زور دیاہے اوراُن کی’’ تعلیمات ‘‘کوزیادہ عام کرنے کی سعی وکوشش کی جو قابل صدتحسین شعارہے۔

صفحہ نمبر ۲۵ پرنیویارک سے تنویل پھول صاحب درج ہے جب کہ صفحہ نمبر ۲۱۹ پر’’حمد ونعت میں الفاظ کا مناسب استعمال ‘‘کے عنوان سے تحریر میں صاحب تحریر کااسم گرامی ’’تنویر پھول‘‘درج ہے اپنی اس دلپسند تحریر میں تنویر پھول صاحب نے بڑی عمدگی کے ساتھ اُن اشعار کا ذکر کیاہے جن میں ان کے بقول ’’فنی اورمعنوی تسامحات‘‘موجود ہیں مثال کے طورپر مولاناظفر علی خاں کے مشہور شعر ہے:

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

ایک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں

تنویر صاحب کا اعتراض ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک غار ’’غارحرا‘‘میں مراقبہ فرمایا تھااورشاعر نے ’’غاروں ‘‘استعمال کرکے مبالغہ آرائی کی ہے۔تنویر صاحب!اہل علم وادب نے اسے ’’شعری ضرورت‘‘کے تحت جائز قرار دیاہے لیکن آپ سائنس کے تحت دواوردوچار ہی کو ضروری سمجھتے ہیں۔اسی طرح احمد ندیم قاسمی کے حمدیہ شعر پران کایہ اعتراض بظاہر درست لگتاہے:

مگر جو سوچ لیامیں نے وہ ضرور ہوا

جب کہ حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ:

’’میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے ا پنے رب کو پہچانا۔‘‘

تنویرپھول کا یہ کہنا بہرحال درست اوربجاہے کہ حمد ہویانعت یا منقبت’’انداز ‘‘میں عاجزی وانکساری کی موجودگی ضروری ہے (بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے راقم)مشہور رہے کہ:

با خدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار

بہرکیف تنویر پھول کی کاوش قابل قدر ہے نعتیہ اشعار میں احتیاط لازم ولا بدی ہے کیونکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:

’’رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا نہ کرو . . . . . . . . . کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے کے سارے اعمال ہی ۱کارت جائیں اورتمہیں اس کی خبرنہ ہو۔‘‘

جناب منظر عارفی(کراچی)نے نعت گوئی میں لفظ ’’ارم‘‘کے استعمال کی مذمت کی ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ’’شداد‘‘کے بنائے ہوئے باغ کانام تھا اوربقول اُن کے ’’ارم‘‘جنت کانام بھی نہیں ہے بعض لوگ اس لفظ کو مجازاً جنت کے لیے استعمال کرتے ہیں راقم کے خیال میں اگر زبان سے الفاظ کوترک کرنے کے لیے یہ روش اوررویہ اختیار کیا گیا توپھر اردو زبان میں بلکہ پنجابی میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ’’خدا‘‘کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں جو فارسی میں ’’نمبردار‘‘یا ’’چوہدری‘‘کے معانی میں استعمال ہوتاہے اورحقیقت یہ ہے کہ کٹر توحید پرست لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ عشق پربھی اعتراض کرتے ہیں حکیم الامت نے محبت کے لیے عشق کے لفظ کو خوب استعمال کیا ہے اور اسے خاص معنیٰ عطاکردیے ہیں جس سے عشق الٰہی اور عشق رسول تراکیب عام استعمال ہورہی ہیں ۔اس روش کے تحت ہمیں بہت سارے الفاظ ترک کرنا ہوں گے جوفارسی یا ہندی زبان سے اردو میں درآتے ہیں یہ تو وہی رویہ ہوگا جو فارسی کے مشہور شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں اختیار کیا تھا اوراس نے بزعم خویش عربی الفاظ کا استعمال نہ کرکے خالص فارسی الفاظ استعمال کرکے’’عجم‘‘زندہ کرنے کی کوشش کی یہ رویہ آج بھی جاری ہے اس نے کہا :

عجم زندہ کردم بایں فارسی

بہرحال یہ منظر عارفی کا نکتہ نظرہے۔ شہر کراچی کے ڈاکٹر شہزاد احمد مایہ ناز محقق اورممتاز دانش ور ہیں انہوں نے ’’پاکستان میں نعتیہ صحافت..........ایک جائزہ‘‘کے عنوان کے تحت طویل اورمبسوط مضمون تحریر کیاہے اورپاکستان وہند میں شائع ہونے والے ’’نعت نمبروں‘‘کا مختلف حوالوں سے جائزہ پیش کیاہے۔ان کی یہ تحقیق قابل قدر اورقابل صد ستائش ہے لیکن معذرت کے ساتھ عرض کناں ہوکہ غالباً کمپوزر کی غلطی سے ’’گاہے بگاہے‘‘کا لفظ چھپ گیا ہے جواہل علم وادب کے نزدیک غلط ہے یہ لفظ فارسی زبان سے متعلق لفظ ہے جو دراصل ’’گاہ بہ گاہ‘‘ہے (جسے گاہ بگاہ بھی لکھا جاتاہے)یاپھر اسے ’’گاہے گاہے ‘‘لکھتے یا بولتے ہیں بصد معذرت عرض ہے کہ اس گرانقدر مضمون میں روزنامہ امروز کے ۱۹۸۶ء کے ’’رحمت اللعالمین‘‘نمبر کا ذکر نہیں کیا گیاہے جو نعت ہی کے حوالے سے راقم نے شائع کیاتھا آج کل کی طرح اس زمانے میں بھی اخبارات کے ہفت روزہ ایڈیشن جنھیں ’’سنڈے ایڈیشن‘‘کہاجاتا تھاصرف بیس یا چوبیس صفحات پر مشتمل ہواکرتے تھے لیکن راقم نے یہ’’نمبر‘‘۴۸ صفحات پر شائع کیا تھا اس سے قبل ۱۹۸۵ کے ہفت روزہ میں بھی ۲۴ صفحات میں بیشتر صفحات نعتیہ ادب پر مشتمل تھے یاد رہے کہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اورچھٹی اتوار کے بجائے جمعہ کو ہواکرتی تھی اس لیے اسے سنڈے ایڈیشن کے بجائے جمعہ ایڈیشن ہی کہتے تھے ۔

مزیدبراں راقم کو یادہے کہ ممتاز صحافی شورش کاشمیری نے بھی اپنی زندگی میں ’’ہفت روزہ چٹان ‘‘ کا رحمت للعالمین‘‘نمبر شائع کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا اسی شمارے سے متاثرہوکر راقم نے ’’رحمت للعالمین‘‘ ایڈیشن شائع کیا۔آخر میں ’’ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر‘‘پرعزت مآب ڈاکٹر عزیز احسن کا تبصرہ نما مقالہ شامل ہے یہ مقالہ ڈاکٹر طاہرقریشی کا رسئحہ فکرہے لیکن ڈاکٹر عزیز احسن کے تحریر وتبصرہ سے پتہ چلتاہے کہ یہ گراں قدر مقالہ ہے جس میں کم وبیش تمام شعراے کرام کے نعتیہ کلام کا عمدگی سے جائزہ لیا گیا ہے طاہر قریشی کی یہ کاوش بہرحال تعریف وتحسین کی مستحق ہے۔

مقالہ کے آخر میں اُن حضرات کے بارے میں بعض شعرا کے اشعار کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جن کو پہلے بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی بنگال (سابق مشرقی پاکستان)آناپڑا اورپھر سقوط ڈھاکہ کے بعد جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیاتو’’بہار‘‘کے صوبہ سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آنے والے اپنے ہی ملک میں ’’غیرملکی‘‘ٹھہرائے گئے اس لیے ان کا دکھ اورغم دوچند ہوگیا۔ایک شاعر نے خوب ترجمانی کی ہے:

عیاں ہے آپ پر ہم بے گھروں کا افسانہ

قبول کیجیے دو ہجرتوں کا نذارنہ

بس اک نگاہ کے طالب ہیں آبلہ پا ہم

عذاب دربدری بڑھ رہے ہے روزانہ

سقوط ڈھاکہ کے بعد لاکھوں لوگ اذیت ناک صورت حال کا شکار ہوئے بنگالیوں نے ’’غیربنگالیوں‘‘کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ۔مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان نے بھی ایک محدود تعداد کو پاکستان آنے دیا باقی اب تک ڈھاکہ یا بعض شہروں میں مقیم ’’خیموں‘‘میں زندگی بسرکررہے ہیں نہ کوئی ان کا گھرہے اورنہ بار،بہرکیف وہ عذاب دہ زندگی سے دوچار ہیں۔

اہل پاکستان نے بھی چند برس تک سقوط ڈھاکہ کو یاد رکھا اس کے بعد’’ حقیقت ثابثہ‘‘کو قبول کرلیا۔یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ پرشعری سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج کے پرنسپل اورنامور ادب اورمحقق ڈاکٹر سید عبداللہ ایک بارراقم کے بات چیت کے دوران میں فرمایا کہ:

’’ہم نے سقوط دہلی‘‘پربہت آنسو بہائے اوربہت کچھ لکھا لیکن ’’سقوط ڈھاکہ‘‘پر ہم نے نے خاموشی اختیار کرلی اورکچھ نہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر بالخصوص شعری سرمایہ ہونے کے برابر ہے ۔‘‘

’مدحت‘‘کے حصہ میں ڈاکٹر خورشید رضوی کی نعت خوب ہے مطلع ملا حظہ فرمایئے:

حمد سے نکلا ہوا نام محمد احمد

ور اس نام کا کیا خوب ہے احمد ،احمدؐ

ڈاکٹر ریاض مجید کی نعت کا مطلع بھی عمدہ اورجاں پرور ہے۔

طیبہ کی چند راتیں وہ مکے کے چند دن

آتے ہیں یاد،آج بھی وہ ارجمند دن

بہرحال ان کی نعت بھی جانداراورشاندار ہے ۔ڈاکٹر ریاض مجید کو ان کی نعتیہ کتاب پر حکومت پاکستان سے ۲۰۱۳ء میں ایوارڈ مل چکا ہے۔

جلے خیموں کے اندر سسکیوں کو چلنا پڑتا ہے

ریاضؔ اتنا بھی کب آساں ہے دشت کربلا بننا

ان کا یہ شعر کتنا دلنواز ہے :

بوقت حاضری سرکار دوعالمؐ کی چوکھٹ پر

بہت اچھا مجھے لگتا ہے حرفِ التجا بننا

پس نوشت

ملتان کے جناب گوہر ملسیانی نے ’’گلاب رُتوں کا شاعر‘‘کے دلکش عنوان کے تحت جناب حافظ محمد افضل فقیر کے بارے میں معلومات افزا اورروح پر تحریر پیش کی ہے وہ درویش منش لیکن بلند پایہ انسان تھے۔مشہور وشاعر اورنعت نگار حفیظ تائب کی معیت میں ان سے متعدد بارملاقات کا شرف حاصل ہو اوہ پہلے تواورئینٹل کالج میں پروفیسر کے منصب پرفائز تھے جب نعت کی طرف آئے اورروحانیت کا سفر شروع کیا توبس اللہ اور رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلمکے ہوکر رہ گئے۔ان کے پاس اپنی کہی ہوئی غزلوں کاکثیر ذخیرہ تھا لیکن ان کے عشق رسولؐ کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے کہ جب نعت کہنے لگے توغزلیات کے پیش بہا ذخیرے کوہم سب کے سامنے نذرآتش کردیا۔دوست احباب منع کرتے رہے لیکن وہ باز نہ آئے۔

جان جہاں کے دلکش اورجاں افروز عنوان کے تحت ان کے مجموعہ نعت کے حوالے جناب گوہر ملسیانی نے اس مرددرویش اوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق پر نہایت عمدگی سے خامہ فرسائی کی ہے ان کا مزار ضلع شیخورہ پورہ کے ایک گاؤں کوٹ عبداللہ شاہ میں مرجع خاص وعام ہے لوگ وہاں سے آج بھی روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔

بقول گوہر ملسیانی حافظ محمد افضل فقیر نے عربی زبان میں بھی شعر کہے اور ۶۳ اشعار پر مبنی ایک قصیدہ لکھا۔انہوں نے رباعیات پرخصوصی توجہ دی اس سے قبل عربی زبان میں رباعی کا رواج نہ تھا کہتے ہیں کہ صرف ایک شاعر ابن الفارض کے سوا کسی نے رباعی نہ کہی۔اس لحاظ افضل فقیر دوسرے شاعر ہیں جنھوں نے عربی زبان میں رباعیات کہیں ۔وہ رباعی کے اوزان اخر جے اخرم سے خوب واقف تھے اسی طرح انہوں نے فارسی اورپنجابی میں بھی رباعیات کہیں ۔اردو زبان میں رباعی پیش خدمت ہے:

رسولؐ امیں کی محبت کے راہی

عنایت کو ہرگام پر دیکھتے ہیں

حبیبؐ خداکو تمام اہل ایماں

دل وجاں سے نزدیک تردیکھتے ہیں

ایک رباعی میں سیرت نبوی ؐ کا ذکر کس قدر عمدہ انداز میں کیاہے:

روشن ہیں سیرت نبویؐ کے تمام نقش

ہرجلوۂ کمال یہاں بے جواب ہے

طرز نبیؐ کو چھوڑ کے امت ہے لخت لخت

ناپید ہے سکون ،دل و دل اضطراب ہے

ایک دوسری رباعی میں بھی سیرت پاک کی تجلیات کا کس خوبی اورعمدگی سے اظہار کیا ہے:

جب دل ہو غم گردش ایام سے بیتاب

انؐ کی نگہ لطف ہی دیتی ہے دلاسا

ہردور میں ہے اس کی تجلی نظر افروز

تابندہ ہے سرکارؐ کی سیرت گہرآسا

ایک شعر میں خواہش حضوری کو کس سلیقے اورادب نے بیان کیا ہے:

گر وقت سمٹ جائے، یہ فاصلہ ہٹ جائے

قدموں سے لپٹ جائے ،دل فرطِ محبت سے

دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اُن جیسی عشق ومحبت کی وارفتگی ہم کو بھی عطا فرمائے ۔اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود وہ ’’چھوٹے افراد‘‘ کا احترام کرتے ۔بندہ ناچیز حاضری کے لیے پیش ہوتاتو فرماتے لو ! ’’باباجی‘‘ آگئے ۔ایک دن حفیظ تائب نے اعتراض کیا توفرمانے لگے !آپ کا کیا؟میں جو چاہوں ، کہوں۔یہ میری مرضی ہے ۔ایک دفعہ مجھ سے نعت سن کر تڑپ اُٹھے اوراشکبا رہوگئے ۔کہنے لگے کہ باباجی!تمہارے اشعار رُلا دیتے ہیں ۔جانے اشعار میں یہ اثرکہاں سے آگیا پھرمسکرا پڑے کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اب ایسے لوگوں کو ۔


مزید دیکھیے

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25