سردار ظہیر احمدخان ظہیر کی نعتییں

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 12:03، 22 ستمبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: === سردار ظہیر احمد خان ظہیر === ==== نئی سحر ہوئی جلوہ فگن مدینے میں ==== نئی سحر ہوئی جلوہ فگن مدینے میں...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

سردار ظہیر احمد خان ظہیر

نئی سحر ہوئی جلوہ فگن مدینے میں

نئی سحر ہوئی جلوہ فگن مدینے میں

ہیں سجدہ ریز سبھی مرد و زن مدینے میں


بدل گیا ہے زمانہ اٹھی نئی تہذیب

جو مہر باں ہوا چرخ کہن مدینے میں


بسی ہے جس کی زمانے میں چار سو خوشبو

گلی گلی ہوئی رشکِ چمن مدینے میں


جو رہا گیا ہے یہاں، سایہ ہے فقط ورنہ

ہے میری روح، بدن، جان ،تن مدینے میں


ملا حیات کو اظہار کا نیا اسلوب

ظہیر ہوگئی تکمیلِ فن مدینے میں

ہے آرزو کہ شعر جو تصنیف میں کروں

ہے آرزو کہ شعر جو تصنیف میں کروں

ہر لفظ میں حضور کی تعریف میں کروں


حسان کا قلم جو مری دسترس میں ہو

بعد از خدا بزرگ کی توصیف میں کروں


اسی رحمتِ جہاں کی جو چادر نصیب ہو

اپنے دکھوں میں تھوڑی سی تخفیف میں کروں


بچھڑوں جو کارواں سے مدینے کی راہ میں

دل سے قبول عیش میں تکلیف میں کروں


شاعر نہیں نبی کا نمک خوار ہوں ظہیر

کیوں اس حسیں کلام میں تحریف میں کروں

ہے مرا مدعا مدینے میں

ہے مرا مدعا مدینے میں

یعنی حاجت روا مدینے میں


سبز گنبد میں محوِ راحت ہے

ہر نبی کی دعا مدینے میں


درد مندو! ذرا نہ گھبراؤ!

ہے دوا و شفا مدینے میں


ایسے سجدے پہ نیکیاں قرباں

جو ادا ہو گیا مدینے میں


جس طرف دیکھا یوں لگا، جیسے

سامنے ہے خدا مدینے میں


جسم گرچہ رہا اٹک میں ظہیر

دل ہمیشہ رہا مدینے میں

مقدر میں مرے یہ لمحہ یارب بار ہا آئے

مقدر میں مرے یہ لمحہ یارب بار ہا آئے تصور میں مدینہ ہو نظر میں مصطفیٰ آئے درِ اقدس کی چوکھٹ چوم کر ہر روز آتی ہے یہ خوش بختی مگر میرے بھی حصے میں صبا! آئے ہوئے پیدا تو ہر ذرے نے ہاتف کی صدا سن لی محمد مصطفیٰ، فخرِ رسل خیرالوریٰ آئے کوئی حسرت نہیں رہتی اگر سرکار بلوا لیں وفور جذبِ دل سے رات دن لب پہ دعا آئے میں تاریکی میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوںبرسوں سے کبھی تو میری جانب ان کے چہرے کی ضیا آئے حضوری میں مجھے پا کر مرے احباب بول اٹھے وہ دیکھو ڈھوک شرفہ کے ظہیر پر خطا آئے

(۵) توڑ دو میرے ہجر کی زنجیر پوری ہو جائے خواب کی تعبیر پھر نہ لوٹوں گا میں وہاں سے کبھی چاہے بن جاؤں راستے کی لکیر اے خدا موت دے مدینے میں یہ خلش کھا گئی ہے میرا ضمیر آپ کے آسرے پہ زندہ ہوں ورنہ کیا ہے حیاتِ پر تقصیر نور والے! ترے گھرانے کی مدح میں آئی آیۂ تطہیر اس کی تعریف کر رہا ہے خدا میں بھلا کیا لکھوں گا نعت ظہیر


(۶) غم دنیا سے چور ہوں آقا جب سے میں بے حضور ہوں آقا اک نظر ، اک نظر خدا کے لیے ہجر سے نا صبور ہوں آقا میں ثنائے حضور کیا لکھوں بے ہنر، بے شعور ہوں آقا لوگ کچھ بھی مجھے سمجھتے رہیں تیرا خادم ضرور ہوں آقا خود نگر بھی ہوں اور غریب بھی ہوں یوں ترے در سے دور ہوں آقا جل رہا ہوں تری محبت میں گویا میں رشکِ طور ہوں آقا ہے ظہیر آپ کے غلام کا نام اس لیے پر غرور ہوں آقا

(۷) جن و بشر کے ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہی نغمہ ہے گھر گھر، صلی اللہ علیہ وسلم تاریکی سے اس نے نکالا، بھٹکے ہوؤں کو راہ پہ ڈالا حق کا حامی ، خیر کا محور گھر، صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے اس کی شیریں بیانی، زم زم ہے دھوون کا پانی شافع محشر، ساقیٔ کوثر گھر، صلی اللہ علیہ وسلم جینے کا انداز تھا اس کا ، آپ نہ کھانا سب کو کھلانا اس کا عمل رخشندہ گوہر، صلی اللہ علیہ وسلم جان چکا تھا سارا زمانہ، بو جہلوں نے پھر بھی نہ مانا ہاتھ میں جس کے بولے کنکر، صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی ظہیر اب مان لے کہنا، باقی عمر مدینے رہنا قدم اٹھا بسم اللہ کہہ کر، صلی اللہ علیہ وسلم

(۸) پورا ہر حرف مدعا کیجے جو طلب ہے مجھے عطا کیجے ہجر کا روگ کھا رہا ہے مجھے اے طبیب جہاں دوا کیجے حاضری ہو مری مدینے میں یہ کرم مجھ پہ بارہا کیجے غیر کا ہر خیال مٹ جائے یوں محبت میں مبتلا کیجے مصطفیٰ کے غلام ہو تو ظہیر بے وفاؤں سے بھی وفا کیجے

(۹) جو منہ سے نکل جائے وہ ہر بات بھلی ہو ہر لفظ جو لکھ پاؤں وہ مصری کی ڈلی ہو سجدوں کے نشانات سے رستے کو سجاؤں اے کاش کہ نزدیک مدینے کی گلی ہو

اے بادِ صبا مجھ پہ کرم کر مجھے لے جا قسمت سے اگر ارضِ مقدس کو چلی ہو اس شمع کی مانند سراپا ہے مرا آج جو ہجر کی تاریک و سیہ شب میں جلی ہو قرآن کی آیات ہیں تعریفِ محمد یاسین کا غنچہ ہو کہ طٰہٰ کی کلی ہو گو خاک نشیں ہو پہ ظہیر آج اٹک میں جب نعت کہی تم نے تو لگتا ہے ولی ہو

(۱۰) مدحتِ مصطفیٰ نعت کی شاعری رحمتِ کبریا نعت کی شاعری میرے آقا کا مجھ پہ کرم ہوگیا میں بھی کرنے لگا نعت کی شاعری یہ بھی تیرے کرم کا ہے اک معجزہ ہوگئی بر ملا نعت کی شاعری جب بھی حضرت کی مجھ کو حضوری ملی حکم تھا اب سنا نعت کی شاعری کیوں نہ آسانیاں ہوں میسر مجھے میری مشکل کشا نعت کی شاعری بابِ فردوش کیوں کر نہ کھلتا ظہیر تھا وظیفہ مرا نعت کی شاعری

(۱۱) زہے عزت و افتخارِ محمد دو عالم پہ ہے اقتدارِ محمد ذرا ادن منی کے الفاظ دیکھو خدا کو بھی ہے انتظارِ محمد وہ سورج ہو یا چاند یا کہکشاں ہو ہر اک شے پہ ہے اختیارِ محمد زمانہ کرے سجدہ کعبے کی جانب مرے دل کا کعبہ دیارِ محمد دعا ہے ظہیرِ حزیں روز محشر پکاریں مجھے جاں نثارِ محمد

(۱۲) کیا کریں ہم گلاب کی خوشبو ہم کو بس ہے جناب کی خوشبو فاتحہ پڑھ کے خود یقیں کر لیں کیا ہے ام الکتاب کی خوشبو غالباً چھو لیا تھا کوثر کو بڑھ گئی ہے شراب کی خوشبو عشق میں راستے سے گم ہو کر پائی میں نے سراب کی خوشبو اس سراج منیر کے صدقے کم نہ ہو آفتاب کی خوشبو


(۱۳) اے خوشا یہ بھی دقیقہ آیا نعت کہنے کا سلیقہ آیا میں بھی حسان کا شاگرد ہوا مدح آقا کا سلیقہ آیا

(۱۴) ہم دم و مہرباں رسول کریم شافع عاصیاں رسولِ کریم آدمیت خزاں رسیدہ ہے گر نہ ہوں باغباں رسولِ کریم کیوں نہ وہ ذرہ آفتاب بنے جس پہ ہوں مہرباں رسول کریم بے کسو! چارہ گر کی قدر کرو حامی بے کساں رسول کریم روز محشر ظہیر رقص کناں آگیا، تھے جہاں رسولِ کریم

(۱۵) بشارت دی ملائک نے کہ ختم المرسلیں آیا نبوت کی ہوئی تکمیل، پیغامِ مبیں آیا غلاموں کو ملا آزادیوں کا مژدۂ شیریں زمانے نے وہ کروٹ لی کہ عہدِ بہتریں آیا تعصب کو کیا نابود الفت کی فضاؤں نے مٹے ظلم و ستم سب رحمة اللعالمیں آیا نبوت کا ہوا اعلان تو سب سوچ میں ڈوبے وہی صدیق کہلایا جسے پہلے یقیں آیا ہوئے اغیار بھی قائل تری شیریں بیانی کے مخالف کے لیے بھی بالیقیں صادق امیں آیا ظہیر اس کے غلاموں میں لکھا رکھا ہے نام اپنا جو انسانوں میں لے کر اک پیامِ دلنشیں آیا

(۱۶) محبت کا حاصل حضور آپ ہیں خدا کی خدائی میں نور آپ ہیں مزمل، مدثر نہیں اور کوئی اگر ہے کوئی تو ضرور آپ ہیں کسی اور کو کب ملا یہ مقام قریبِ خدائے غفور آپ ہیں چٹائی کا بستر اگر ہے تو کیا بلندی میں تو رشکِ طور آپ ہیں مٹا دیجئے میرے رنج محن علاج دلِ نا صبور آپ ہیں ظہیر اس کو قربِ خدا کیوں ملے وہ بد بخت ہے جس سے دور آپ ہیں

(۱۷) دل کا دروازہ مدینے کی ہوا سے کھل گیا ہجر میں آنسو بہے اعمال نامہ دھل گیا حشر کے میدان میں ہونے لگا جب احتساب نعت کا ہر لفظ نیکی بن کے بھاری تل گیا آفتاب اس کو کہوں تو شرم آتی ہے مجھے آفتاب اس کے مقابل جب گیا، ہو گُل گیا بھاگ کر سرکار کے قدموں سے جا لپٹا ظہیر کیا خبر اس کو، کہاں تک راستے کا پل گیا

(۱۸) ہوں جتنے فاصلے بھی مدینہ قریب ہے روضے کے سامنے ہوں یہ میرا نصیب ہے جو کچھ خدا سے مانگنا چاہوں ملے مجھے لیکن مری دعا کا خلاصہ حبیب ہے جس کے سخن سے اہلِ جنوں فیض یاب ہوں میری طلب وہی ہے وہ میرا طبیب ہے خندق کا معرکہ ہو تو مزدور رہنما حج الوداع کے وقت مثالی خطیب ہے امی لقب بھی ہے تو سخن ور بھی بے مثال وہ مخزنِ ادب ہے وہ اعلیٰ ادیب ہے


(۱۹) مصطفیٰ مجتبیٰ اپنے در پر بلا اے حبیبِ خدا اپنے در پر بلا خاک پائے سگِ شہر بطحا ہوں میں مجھ کو روضہ دکھا اپنے در پر بلا میں سوالی ترا تو ہے والی مرا بھیک کردے عطا اپنے در پر بلا تیرے روضے کی جالی کو میں چوم لوں ہے مری التجا اپنے در پر بلا ہے ظہیرِ حزیں ہجر میں مبتلا اس کی سن لے صدا اپنے در پر بلا

(۲۰) توقیر آدمی کا سبب ذات آپ کی انسان کو ملاتی ہے رب، ذات آپ کی اللہ کی صفات کا مظہر حضور ہیں اہل نظر کا حسنِ طلب ذات آپ کی سوچا جو آپ نے وہی ارشاد حق ہوا سر چشمۂ شعور و ادب ذات آپ کی اپنے ظہیر پر بھی عنایت کی اک نظر اس کیلیے ہے روح طلب ذات آپکی

(۲۱) نعتِ رسول پاک سے عزت ملی مجھے سو نعمتوں سے بڑھ کے یہ نعمت ملی مجھے دنیا کی دولتوں سے رہا بے نیاز میں ہاں فخر ہے کہ دولتِ الفت ملی مجھے لکھتا ہوں جب ثنائے شہِ انبیا کبھی لگتا ہے یوں کہ آپ کی قربت ملی مجھے میں اس جنوں کو کس لیے چھوڑوں ، محال ہے اس میں نبی کی جلوت و خلوت ملی مجھے لکھوں گا اب تو نعت یہی عہد ہے ظہیر اہلِ نظر کی اس سے ہی صحبت ملی مجھے

(۲۲) اے حبیب خدا تم پہ لاکھوں سلام مصطفیٰ مجتبیٰ تم پہ لاکھوں سلام مطلع اصفیا آپ کی ذات ہے مقطعِ انبیا تم پہ لاکھوں سلام مصدرِ فیض ہو محورِ جود ہو خود خدا نے کہا تم پہ لاکھوں سلام

تم نے دنیا کو تہذیبِ نو بخش دی قائد و رہ نما تم پہ لاکھوں سلام خود ہدایت ترے در سے لے روشنی منتہائے ہدا تم پہ لاکھوں سلام حاضری میں ظہیر آج پہنچے ہو تم اب کہو بارہا تم پہ لاکھوں سلام (۲۳) آئے تو کائنات کا نقشہ بدل گیا تاریکیوں کو صبح کا سورج نگل گیا گردن اٹھا کے چل نہ مدینے کی راہ میں ان کے حضور جو بھی گیا سر کے بل گیا دشمن جو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا رخصت کے وقت قدموں پہ ان کے پگھل گیا خوش بخت ہے ظہیر زیارت کو جب گیا ہر راستے پہ گاتا انہی کی غزل گیا

(۲۴) خاتم الانبیا ہو سلام آپ پر مالکِ دوسرا ہو سلام آپ پر آپ کو سب ملائک نے سجدہ کیا شافعِ حشر ہونے کا رتبہ ملا قائد و پیشوا ہو سلام آپ پر

پہلے بیت المقدس کی تھیں رفعتیںــ پھر حرم کو ملیں برکتیں عزتیں مٹ گئے فاصلے مل گئیں قربتیں اے حبیبِ خدا ہو سلام آپ پر

تیرے آنے سے لوٹ آئیں سب رونقیں میلے لگنے لگے جم گئیں محفلیں خلوتیں کم ہوئیں سج گئیں مجلسیں اے مکین حرا ہو سلام آپ پر

آپ کا پایہ کوئی کہاں پا سکا جس کا سایہ نہ ہو ایسا کون آسکا کون رحمت کے پھولوں کو مہکا سکا رشکِ بادِ صبا ہو سلام آپ پر

دیکھ لینا وہ اک دن اخیر آئے گا عشق کی بیڑیوں میں اسیر آئے گا سامنے جب مدینہ ظہیر آئے گا لب پہ ہوگی دعا ہو سلام آپ پر (۲۴) دلوں میں رونقیں آئیں گلستاں پر شباب آیا نبوت کے فلک پر جگ مگاتا آفتاب آیا مثال سنگ تھی نوعِ بشر ٹھہری ہوئی، بے بس رسول ہاشمی کے ساتھ دورِ انقلاب آیا گڈریوں کی قیادت کو کیا تسلیم دنیا نے غرض تہذیب کی تاریخ کا رنگین باب آیا کہاں ہے دعوت ارنی کا طالب اس کو مژدہ دو شب اسریٰ میں وہ نورِ مجسم بے نقاب آیا وہ امی جس کے نطق پاک سے قرآن عبارت ہے امام الانبیا بن کر وہی عالی جناب آیا ظہیر اپنی تمنا کا صدف بھر لو مبارک ہو مدینے کی طرف سے نور برساتا سحاب آیا

(۲۵) گوشۂ دل میں نہاں نعت رسولِ اکرم حرز جاں وردِ زباں نعتِ رسول اکرم کتنا خوش بخت ہے وہ جس کے رگ وپے میں ہے خون کے ساتھ رواں نعت رسول اکرم اہلِ دل اہلِ نظر اہل خرد دیکھتے ہیں غنچہ و گل سے عیاں نعت رسولِ اکرم کتنی شیرینی سی حلقوم میں گھل جاتی ہے کر کے دیکھو تو بیاں نعتِ رسولِ اکرم ہر نئے عہد میں تازہ ہے حایتِ سرور ہر نئے لمحہ جواں نعتِ رسولِ اکرم میرے الفاظ بھی سب اس کی عنایت ہیں ظہیر میں کہاں اور کہاں نعتِ رسولِ اکرم

(۲۶) کیا جہاں میں اجالا تمہاری آنکھوں نے جمالِ ذات کو دیکھا تمہاری آنکھوں نے تمہاری ذات مقدس کی کیا کروں تعریف کیا نظارۂ عقبیٰ تمہاری آنکھوں نے تمہارے حسنِ تدبر سے قسمتیں بدلیں ہر ایک عقدہ کیا وا تمہاری آنکھوں نے تمہارے جلوے سے ہر ذرہ آفتاب بنا ہر انجمن کو سجایا تمہاری آنکھوں نے تمہارا اسمِ گرامی ظہیر کے لب پر خدا کا چہرہ دکھایا تمہاری آنکھوں نے


(۲۷) استن حنانہ کو بخشا دوامِ زندگی مردہ روحوں کو دیا تو نے نظام زندگی تو اگر چاہے تو جنت کی طرف کردے رواں تیرے ہاتھوں میں ہے اب میری زمام زندگی میں غم ہستی کے ہاتھوں ایک مشت خاک تھا تو کرم فرما کہ میں پاؤں پیام زندگی تجھ سے پہلے تھا تعصب اور جہالت کا عروج زیست نے پایا ترے آنے سے نام زندگی تیری عظمت کے مقابل کج کلاہی مرگئی تیرے آگے سرنگوں پایا نظام زندگی تم ثنائے مصطفے کے مے کدے میں ہو ظہیر ہو مبارک، پالیا ہے تم نے جامِ زندگی

(۲۸) تم آگئے تو مٹ گئے رنج و محن تمام سر سبز و تازہ ہوگئے سرو وسمن تمام شمس و قمر ، نجوم تمھی سے ہیں مستفیض ”روشن تمہارے نور سے ہے انجمن تمام“ ہم کو یہ فخر ہے کہ تمہارے غلام ہیں تابع تمہاری ذات کے ہیں اہلِ فن تمام تم کب تھے کس جگہ تھے کہاں تھے کہاں نہ تھے کون و مکاں تمہارے جدید و کہن تمام ہر نغمہ گر کو زندگی تم سے ہوئی نصیب زندہ ہوئے تمھی سے ہیں شعر و سخن تمام محبوبِ رب کے جلوۂ رنگیں کے سامنے رعنائیاں بھی ختم ہیں سب بانکپن تمام ہو جائے گر ظہیر حزیں پر بھی اک نظر آباد اس کے دل کے ہوں دشت و دمن تمام

(۲۹) ثریا سے جو بالا تر گیا ہے سرِ عرشِ بریں سرور گیا ہے فرشتوں کو تعجب ہو رہا ہے بشر مہماں خدا کے گھر گیا ہے ذراسی دیر اور اتنی مسافت خرد حیران ہے کیونکر گیا ہے زبانِ کہکشاں یہ کہہ رہی ہے ”کوئی اس راہ سے ہوکر گیا ہے“ محمد پرتوِ خلق الٰہی مہ و انجم کا دامن بھر گیا ہے کوئی اس در سے نہیں آیا ہے خالی گدا بن کر جو اس در پر گیا ہے فرشتوں کے جلے ہیں پر جہاں پر وہاں تک شافع محشر گیا ہے چھپالو اپنی کملی میں مجھے بھی قیامت سے مرا دل ڈر گیا ہے ظہیر اس کا مقدر ہے مقدر در اقدس پہ جو بھی مر گیا ہے

(۳۰) شاہِ کونین ہوئے جلوہ نما آج کے دن اپنی مخلوق سے راضی ہے خدا آج کے دن آج مظلوم بشر صاحبِ تقدیر ہوئے ہوئی مقبول یتیموں کی دعا آج کے دن کس کی آمد ہے کہ ہر سمت میں تا حدِ نظر جگمگائے ہوئے ہیں ارض و سما آج کے دن یہ مہک کیسی ہے یہ رنگ انوکھا کیا ہے حاصلِ موسم گل پھول کھلا آج کے دن

(۳۱) میں شاعر ہاں دل دی لگن وار دیواں نبی جی توں شعراں دا فن وار دیواں حجاز مقدس دے اکلاپیاں توں حیاتی دی ہر انجمن وار دیواں عرب تیری دھرتی دے ہر ذرے اُتوں چلے وِس تاں انبر دا چن وار دیواں جنہاں راھواں ماہی دے قدماں نوں چُمیا انہاں تے میں سرو و سمن وار دیواں اوہ غاراں جنہاں میرے ماہی نوں تکیا انہاں تے ہر اک بانکپن وار دیواں ظہیر اج مری سوچ دا فیصلہ اے ”مدینے دی راہواں توں تن وار دیواں“