آپ «زمرہ:اعظم چشتی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5: سطر 5:
==== شخصیت و فن ====
==== شخصیت و فن ====


حسان پاکستان  کے لقب سے پکارے جانے والے  پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا،  مستند ومعتبر،  نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے  اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔  قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔  علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور  سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو  قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز  آپ کی  خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔  پاکستان میں معتبر و بزرگ نعت خوانوں اور نعت خوانی کی روایت و تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بجا کہ فن ِ نعت خوانی میں اعظم چشتی کی مثال اس چمکتے ہوئے سورج جیسی ہے کہ جس کی مستعار روشنی سے آسمان ِ مدحت پر کئی چاند روشن ہوئے اور اس کی کرنوں سے زمین ِ نعت کا ہر گل و شجر کسی نہ کسی طرح ان سے مستفید ہوا ۔ انہوں نے نہ صرف نعت خوانی کے خد و خال واضح کیے بلکہ اپنے منفرد آہنگ و اسلوب کے طرح بھی ڈالی ۔
حسان پاکستان  کے لقب سے پکارے جانے والے  پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا،  مستند ومعتبر،  نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے  اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔  قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔  علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور  سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو  قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز  آپ کی  خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔   
 


محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و  عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102  میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی  جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ  مثنوی  روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔  آپ کے والد  1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔
محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و  عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102  میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی  جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ  مثنوی  روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔  آپ کے والد  1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔


انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث اور تفسیر قرآن  کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی  کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر  دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں  اس وقت کے گدی نشین  حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے  کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے  باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف  حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا  
انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث،تفسیر قرآن  کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی  کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر  دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں  اس وقت کے گدی نشین  حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے  کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے  باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف  حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا  
=====نعت خوانی کا سفر  :=====
=====نعت خوانی کا سفر  :=====
صدارتی ایوارڈ یافتہ بے مثال نعت خواں منظور الکونین نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا  ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔  محمد اعظم چشتی نے  چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ یہ گھریلو ماحول کا فیضان تھا ۔ والدین عشق رسول کریم میں گندھے ہوئے تھے ۔ ہر جمعتہ المبارک کو گھر میں نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ۔ سکول گئے تو بزم ادب کی روایت نے اپنا حصہ ڈالا۔ گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا  میں دوران تعلیم بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیش  5 سال کی عمر میں نعت مبارکہ پیش کرکے اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے ۔ ان کی  کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعدنعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا گیا ۔  خوش الحانی تو تحفہ ءِ قدرت تھی ۔ تلفظ و ادائیگی کی ابتدائی نوک پلک والد گرامی نے سنواری ۔ مشیعت راستہ متعین کر چکی تھی ۔ 13 سال کی عمر میں پہلی بار مرکز انوار و تجلیات  "داتا دربار" کی محفل نعت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔  داتا دربار کو اس دور میں نعت خوانی کی ایک باقاعدہ درسگاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ [ حواشی :  ] جمعرات کو دربار شریف پر حاضری کی روایت تو بہت پرانی ہے ۔ہر جمعرات کو قرب و جوار سے پیران ِ کرام، مشائخ، صاحبانِ طریقت ، سالکین  اور عوام الناس فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے  حاضر ہوتے تو محفل ِ سماع اور محفل نعت کا اہتمام بھی ہوتا ۔  جان محمد امرتسری بھی  داتا دربار کی  ان محافل میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ۔ ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہ تھے ۔ تو جن لوگوں کی خواہش ہوتی کے ان کے گھروں اور محلوں کی فضائیں بھی ان درودی نغمات سے مہکیں وہ جمعرات کو داتا دربار آکر نعت خوانوں سے ان کے گھر یا محلے میں تشریف لانے کی گذارش کرتے ۔ یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کی بنیاد بنا ۔ اعظم چشتی کا داتا دربار میں نعت پڑھنا  گویا ایک نئے ستارے کی دریافت کے مترادف ثابت ہوا ۔ انہوں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور بہت جلد آپ کا شمار معروف نعت خوانوں میں ہونے لگا۔
صدارتی ایوارڈ یافتہ بے مثال نعت خواں منظور الکونین نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا  ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔  محمد اعظم چشتی نے  چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ یہ گھریلو ماحول کا فیضان تھا ۔ والدین عشق رسول کریم میں گندھے ہوئے تھے ۔ ہر جمعتہ المبارک کو گھر میں نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ۔ سکول گئے تو بزم ادب کی روایت نے اپنا حصہ ڈالا۔ گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا  میں دوران تعلیم بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیش  5 سال کی عمر میں نعت مبارکہ پیش کرکے اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے ۔ ان کی  کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعدنعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا گیا ۔  خوش الحانی تو تحفہ ءِ قدرت تھی ۔ تلفظ و ادائیگی کی ابتدائی نوک پلک والد گرامی نے سنواری ۔ مشیعت راستہ متعین کر چکی تھی ۔ 13 سال کی عمر میں پہلی بار مرکز انوار و تجلیات  "داتا دربار" کی محفل نعت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔  داتا دربار کو اس دور میں نعت خوانی کی ایک باقاعدہ درسگاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ [ حواشی :  ] جمعرات کو دربار شریف پر حاضری کی روایت تو بہت پرانی ہے ۔ہر جمعرات کو قرب و جوار سے پیران ِ کرام، مشائخ، صاحبانِ طریقت ، سالکین  اور عوام الناس فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے  حاضر ہوتے تو محفل ِ سماع اور محفل نعت کا اہتمام بھی ہوتا ۔  جان محمد امرتسری بھی  داتا دربار کی  ان محافل میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ۔ ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہ تھے ۔ تو جن لوگوں کی خواہش ہوتی کے ان کے گھروں اور محلوں کی فضائیں بھی ان درودی نغمات سے مہکیں وہ جمعرات کو داتا دربار آکر نعت خوانوں سے ان کے گھر یا محلے میں تشریف لانے کی گذارش کرتے ۔ یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کی بنیاد بنا ۔ اعظم چشتی کا داتا دربار میں نعت پڑھنا  گویا ایک نئے ستارے کی دریافت کے مترادف ثابت ہوا ۔ انہوں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور بہت جلد آپ کا شمار معروف نعت خوانوں میں ہونے لگا۔
سطر 17: سطر 16:
محمد اعظم چشتی کا دور ِ نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔  معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور  فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پُر رونق تھیں۔  امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی  ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ  محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ]
محمد اعظم چشتی کا دور ِ نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔  معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور  فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پُر رونق تھیں۔  امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی  ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ  محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ]


اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا  ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔  جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور  بابا محمد علی نقشبندی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ،  غلام محمدواصف، بابا محمد علی ملتانی، حاجی غلام محی الدین ، خلیفہ غلام دین ،محمدیونس،حکیم فضل الہی ،انور قادری ،صوفی عبدالشکور ،حاجی نواب دین اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں  کا دور آخر تھا [حواشی : ان تمام نعت خوانوں کے حالات زندگی پر بھی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے  ۔ اگر آپ ان کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہوں تو نعت ورثہ سے ضرور رابطہ کریں ] ۔ پھر  نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی  ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔  ابتدائی دور ریڈیو  کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی  کی  کیف آفریں آواز  سے  سیراب ہوتیں رہیں  ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا پشاور کے غلام حسن قادری، کوئٹہ کے عبد المجید سندھو ہوں یا مظفر آباد [آزاد کشمیر ] کے اسماعیل خان تبسم سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی  آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے سے وارد ہوئے اور اپنے اپنے خطے میں نعت خوانی کی مزید شمعیں روشن کی ۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا  ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔  جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور  بابا محمد علی نقشبندی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ،  غلام محمدواصف، بابا محمد علی ملتانی، غلام محی الدین ، محمدیونس،حکیم فضل الہی ،انور قادری ،صوفی عبدالشکور ،حاجی نواب دین اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں  کا دور آخر تھا [حواشی : ان تمام نعت خوانوں کے حالات زندگی پر بھی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے  ۔ اگر آپ ان کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہوں تو نعت ورثہ سے ضرور رابطہ کریں ] ۔ پھر  نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی  ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔  ابتدائی دور ریڈیو  کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی  کی  کیف آفریں آواز  سے  سیراب ہوتیں رہیں  ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا پشاور کے غلام حسن قادری، کوئٹہ کے عبد المجید سندھو ہوں یا مظفر آباد [آزاد کشمیر ] کے اسماعیل خان تبسم سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی  آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے سے وارد ہوئے اور اپنے اپنے خطے میں نعت خوانی کی مزید شمعیں روشن کی ۔


===== انتخاب نعت =====
===== انتخاب نعت =====


زنبیل اعظم میں کلام کے معیار ، لغت اور راگداری کے اعتبار سے اشعار اور طرزوں کا ایک خزانہ تھا ۔اعظم چشتی کے علاوہ بھی کئی ایسے نعت خواں ہیں جن کو ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ اور ایسے بھی کہ جن کی بنائی ہوئی طرزوں میں ایسا تنوع تھا کہ عوام و خواص کی جمالیاتی حس کی تسکین کر سکیں مگر ان کے معیار کا ایسا سخن فہم، فن شناس اور ہنرمند شاید ہی کوئی ہو جو کلام اور فن دونوں میں سادگی سے لیکر فن کی بلند ترین سطح  تک جست لگا سکتا ہو اور اس پر یہ ہنر کے وہ سامعین کے مزاج کی پرکھ میں انتہائی  تاک تھے ۔ وہ اپنی نعت خوانی میں کلام کا انتخاب محفل میں سامعین کی معیار کے مطابق کرتے  ۔ اعظم چشتی کے انتخاب نعت پر "جمشید اعظم چشتی" ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں  
زنبیل اعظم میں کلام کے معیار ، لغت اور راگداری کے اعتبار سے اشعار اور طرزوں کا ایک خزانہ تھا ۔اعظم چشتی کے علاوہ بھی کئی ایسے نعت خواں ہیں جن کو ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ اور ایسے بھی کہ جن کی بنائی ہوئی طرزوں میں ایسا تنوع تھا کہ عوام و خواص کی جمالیاتی حس کی تسکین کر سکیں مگر ان کے معیار کا ایسا سخن فہم، فن شناس اور ہنرمند شاید ہی کوئی ہو جو کلام اور فن دونوں میں سادگی سے لیکر فن کی بلند ترین سطح  تک جست لگا سکتا ہو اور اس پر یہ ہنر کے سامعین کے مزاج کی پرکھ میں انتہائی  تاک تھے ۔ اعظم چشتی اپنی نعت خوانی میں کلام کا انتخاب محفل میں سامعین کی معیار کے مطابق کرتے  ۔ اعظم چشتی کے انتخاب نعت پر "جمشید اعظم چشتی" ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں  


" ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔
" ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔
سطر 64: سطر 63:


اعظم چشتی اور منظور الکونین [ پیدائش ۔ وفات ] نعت خوانی کی تاریخ کی دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا ۔ دونوں اپنے فن میں بے مثال میں تھے ۔
اعظم چشتی اور منظور الکونین [ پیدائش ۔ وفات ] نعت خوانی کی تاریخ کی دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا ۔ دونوں اپنے فن میں بے مثال میں تھے ۔
منظور الکونین اعظم چشتی سے بہت چھوٹے تھے ۔ اتنے چھوٹے کی جب منظور الکونین کی  توتلی زبان سے  نعت ادا ہوئی تو اعظم چشتی قصرِ نعت کا ایک بلند مینار تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ سید منظور الکونین نے بھی اپنا سکہ منوایا اور ان  کا نام اعظم چشتی کے مقابل لیا جانے لگا ۔ لیکن باہمی تعلق میں سید منظور الکونین کے ادب اور اعظم چشتی کی شفقت میں کوئی فرق نہ آیا ۔ سید منظور الکونین اگرچہ اعظم چشتی کے شاگرد نہیں تھے لیکن احترام اساتذہ جیسا ہی کرتے رہے ۔ جس بھی محفل میں ان کا ذکر کیا بہت محبت سے کیا ۔ اعظم چشتی کی موجودگی میں نعت پڑھی تو ان کو عزت دی ۔  
منظور الکونین اعظم چشتی سے بہت چھوٹے تھے ۔ اتنے چھوٹے کی جب منظور الکونین کی  توتلی زبان سے  نعت ادا ہوئی تو اعظم چشتی معبد ِ نعت کا ایک بلند مینار تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ سید منظور الکونین نے بھی اپنا سکہ منوایا اور ان  کا نام اعظم چشتی کے مقابل لیا جانے لگا ۔ لیکن باہمی تعلق میں سید منظور الکونین کے ادب اور اعظم چشتی کی شفقت میں کوئی فرق نہ آیا ۔ سید منظور الکونین اگرچہ اعظم چشتی کے شاگرد نہیں تھے لیکن احترام اساتذہ جیسا ہی کرتے رہے ۔ جس بھی محفل میں ان کا ذکر کیا بہت محبت سے کیا ۔ اعظم چشتی کی موجودگی میں نعت پڑھی تو ان کو عزت دی ۔  


آپسی محبت و شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے منظور الکونین فرماتے ہیں کہ میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛  
آپسی محبت و شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے منظور الکونین فرماتے ہیں کہ میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛  
سطر 388: سطر 387:
"یہ کوئی 1970  اور 80 کے بیچ کی بات ہے  جب مجھے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کی سٹوڈیو میں نعت پڑھنی تھی -ریڈیو پاکستان لاہور میں کمرہ نمبر 1 ریہرسل کے لیے مختص تھا جہاں صرف ریہرسل ہوا کرتی -استاد محترم اعظم چشتی صاحب اور معروف نعت خواں و سامعین بھی مدعو تھے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا کم و بیش 100 افراد کے لیے کرسیاں بھی لگائی جاتیں اور انتظامیہ و سامعین کے لیے لنگر کا انتظام بھی ہوتا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان، لاہور پر ایسی محافل نعت منعقد ہوتیں کہ  آج یاد کرکے دل و روح کو تسکین ملتی ہے – پروڈیوسر ظہیر عباس نے مھے اعظم چشتی کی نعت " ایسا کوئی محبوب ہوگا نہ کہیں ہے " دی کہ اسکی ریکارڈنگ ہونی ہے استاد محترم مجھے ریہرسل والے کمرے میں لے آئے اور کہا نعت سناوں مجھے پسینے آ رہے تھے گبھراہٹ بھی تھی بہرحال استاد محترم کے کہنے پر میں نے نعت شریف پڑھنا شروع کی تو انہوں نے آنکھیں بند کرکے بہت انہماک سے مجھے سنا اور ان کی آنکھوں سے چشمے جاری ہوگئے ۔  میں نعت شریف بھی پڑھ  رہا تھا اور استاد محترم کو مسلسل دیکھ بھی رہا تھا اور یہی گبھراہٹ تھی کہ کے اعظم چشتی صاحب کیا کہیں گے -نعت ختم ہوئی تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اعظم چشتی اتنا خوش بخت ہو گیا ہے کہ اسکے شاگرد اتنا خوبصورت کلام پڑھتے ہیں اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔  ماتھا چوما۔  پیار کیا اور کہا کہ اسی طرح سٹوڈیو میں پڑھنا – کچھ ہی دیر بعد مجھے بلایا گیا سٹوڈیو میں کم وبیش 100 کے قریب لوگ جمع تھے جن میں دیگر معروف نعت خواں بھی موجود تھے ۔ میں  مائیک پر پہنچا تو آلاپ کرکے نعت پڑھنا شروع کردی اور اعظم چشتی صاحب نے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اس بار گریہ زاری شروع ہوگئی۔  تمام محفل میں ایک رقعت طاری ہوگئی ہر طرف یہی منظر تھا -نعت ختم ہونے کے بعد اعظم چشتی اور سبھی سامعین نے خوب داد دی اور سب اعظم چشتی کو مبارکیں دے رہے تھے کہ آپکے شاگرد بھی اپکی طرح اعلی نعت شریف پڑھتے ہیں۔  میں بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کچھ ہی دیر بعد آپ میرے پاس آئے اور کہا کہ "لیاقت جتھے توں پڑھے گا اُتھے لوگ اعظم چشتی نوں ضرور یادکرن گئے "یہ بات سچ ثابت ہوئی میں اب بھی کبھی کسی محفل میں جاتا ہوں تو لوگ آواز سن کر آ جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں اعظم چشتی صاحب کی ریکارڈنگ لگائی ہوئی ہے - آپ کمال محبت کرتے اور ہمیشہ نئے آنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی و راہنمائی بھی کرتے"
"یہ کوئی 1970  اور 80 کے بیچ کی بات ہے  جب مجھے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کی سٹوڈیو میں نعت پڑھنی تھی -ریڈیو پاکستان لاہور میں کمرہ نمبر 1 ریہرسل کے لیے مختص تھا جہاں صرف ریہرسل ہوا کرتی -استاد محترم اعظم چشتی صاحب اور معروف نعت خواں و سامعین بھی مدعو تھے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا کم و بیش 100 افراد کے لیے کرسیاں بھی لگائی جاتیں اور انتظامیہ و سامعین کے لیے لنگر کا انتظام بھی ہوتا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان، لاہور پر ایسی محافل نعت منعقد ہوتیں کہ  آج یاد کرکے دل و روح کو تسکین ملتی ہے – پروڈیوسر ظہیر عباس نے مھے اعظم چشتی کی نعت " ایسا کوئی محبوب ہوگا نہ کہیں ہے " دی کہ اسکی ریکارڈنگ ہونی ہے استاد محترم مجھے ریہرسل والے کمرے میں لے آئے اور کہا نعت سناوں مجھے پسینے آ رہے تھے گبھراہٹ بھی تھی بہرحال استاد محترم کے کہنے پر میں نے نعت شریف پڑھنا شروع کی تو انہوں نے آنکھیں بند کرکے بہت انہماک سے مجھے سنا اور ان کی آنکھوں سے چشمے جاری ہوگئے ۔  میں نعت شریف بھی پڑھ  رہا تھا اور استاد محترم کو مسلسل دیکھ بھی رہا تھا اور یہی گبھراہٹ تھی کہ کے اعظم چشتی صاحب کیا کہیں گے -نعت ختم ہوئی تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اعظم چشتی اتنا خوش بخت ہو گیا ہے کہ اسکے شاگرد اتنا خوبصورت کلام پڑھتے ہیں اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔  ماتھا چوما۔  پیار کیا اور کہا کہ اسی طرح سٹوڈیو میں پڑھنا – کچھ ہی دیر بعد مجھے بلایا گیا سٹوڈیو میں کم وبیش 100 کے قریب لوگ جمع تھے جن میں دیگر معروف نعت خواں بھی موجود تھے ۔ میں  مائیک پر پہنچا تو آلاپ کرکے نعت پڑھنا شروع کردی اور اعظم چشتی صاحب نے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اس بار گریہ زاری شروع ہوگئی۔  تمام محفل میں ایک رقعت طاری ہوگئی ہر طرف یہی منظر تھا -نعت ختم ہونے کے بعد اعظم چشتی اور سبھی سامعین نے خوب داد دی اور سب اعظم چشتی کو مبارکیں دے رہے تھے کہ آپکے شاگرد بھی اپکی طرح اعلی نعت شریف پڑھتے ہیں۔  میں بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کچھ ہی دیر بعد آپ میرے پاس آئے اور کہا کہ "لیاقت جتھے توں پڑھے گا اُتھے لوگ اعظم چشتی نوں ضرور یادکرن گئے "یہ بات سچ ثابت ہوئی میں اب بھی کبھی کسی محفل میں جاتا ہوں تو لوگ آواز سن کر آ جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں اعظم چشتی صاحب کی ریکارڈنگ لگائی ہوئی ہے - آپ کمال محبت کرتے اور ہمیشہ نئے آنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی و راہنمائی بھی کرتے"


اب نہ وہ سننے والے رہے نہ ہی ویسے سنانے والے یہ واقعہ بتاتے ہوئے لیاقت حسین گیلانی  اشک بار ہوگئے ۔ انہوں نے انٹرویو کے دوران بھی  اسی نعت کے اشعار سنائے کمال  محفل ہوگئی  ایسا محسوس ہوا جیسے اعظم چشتی کا فیض پر انوار سیلاب کی طرح امڈ آیا ہو ۔ ایک ہی سانچے میں ڈھلنے والے برتن کم و بیش ایک ہی سے ہوتے ہیں ۔ اعظم چشتی کا انداز ،اسلوب اور فن تا قیامت امر رہے گا
اب نہ وہ سننے والے رہے نہ ہی ویسے سنانے والے یہ واقعہ بتاتے ہوئے لیاقت حسین گیلانی  اشک بار ہوگئے ۔ انہوں نے مجھے بھی  اسی نعت کے اشعار سنائے کمال  محفل ہوگئی  ایسا محسوس ہوا جیسے اعظم چشتی کا فیض پر انوار سیلاب کی طرح امڈ آیا ہو ۔ ایک ہی سانچے میں ڈھلنے والے برتن کم و بیش ایک ہی سے ہوتے ہیں ۔ اعظم چشتی کا انداز ،اسلوب اور فن تا قیامت امر رہے گا
 
===== ایک مصرعے میں رات =====


پاکستان کے صف ِ اول کے قاری صداقت حسین اعظم چشتی کے یاد گار لمحات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں  
پاکستان کے صف ِ اول کے قاری صداقت حسین اعظم چشتی کے یاد گار لمحات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں  


" اعظم چشتی کمال کے مزاج شناس تھے ۔ سامعین کی دلوں کی تسکین ان کے معیار اور مزاج کے مطابق کرتے ۔ لیکن آج کل کی نعت خوانی کی طرح نہیں کہ عوام کی مزاج پرسی کے لیے نعت کا ادب و احترام ہی پس ِ پشت ڈال دیا جائے ۔ بلکہ اپنے معیار میں سے سامعین کے ذوق کے جواہر لے کر آتے ۔1980  نے ابھی پہلا ہی زینہ چڑھا ہوگا ۔کہ یہ واقعہ رونما ہوا  ۔ عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی نے محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا  
" اعظم چشتی کمال کے مزاج شناس تھے ۔ سامعین کی دلوں کی تسکین ان کے معیار اور مزاج کے مطابق کرتے ۔ لیکن آج کل کی نعت خوانی کی طرح نہیں کہ عوام کی مزاج پرسی کے لیے نعت کا ادب و احترام ہی پس ِ پشت ڈال دیا جائے ۔ بلکہ اپنے معیار میں سے سامعین کے ذوق کے جواہر لے کر آتے ۔یہ 1980 کے اوائل کے بات ہے ۔ عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا  


"لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا  
"لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا  
سطر 400: سطر 397:
مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے او کافر اے جنہوں تیرے اتے پیار نئی آیا
مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے او کافر اے جنہوں تیرے اتے پیار نئی آیا


ایک کیفیت ایک سماں  بن گیا ہر طرف رقعت و آہ و زاری تھی ۔ گریہ زاری کا ایسا منظر شاید ہی کبھی دیکھا ہو -
ایک کیفیت ایک سماں  بن گیا ہر طرف رقعت و آہ و زاری تھی ۔ گریہ زاری کا ایسا منظر شاید ہی کبھی دیکھا ہو -


===== جونئیرز کی حوصلہ افزائی  =====
نعت خواں خلیفہ  جہانگیر  جو اس وقت 75 سال کے ہیں  بتاتے ہیں کہ میں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا جب لاہور کے بہت بڑے تاجر  ملک معراج دین  نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی جلوہ افروز ہوئے  - کسی مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مقام سے پہلے نعت پڑھی اور بانی محفل سے رخصت لی ۔ ان کے بعد فورا بعد  مجھے مدعو کیا گیا تو  میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پڑھا ۔ دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد  مرحوم صفدر چشتی  تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل  جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جس محفل میں بھی  ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی و رہنمائی فرمائی ۔
نعت خواں خلیفہ  جہانگیر  جو اس وقت 75 سال کے ہیں  بتاتے ہیں کہ میں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا جب لاہور کے بہت بڑے تاجر  ملک معراج دین  نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی جلوہ افروز ہوئے  - کسی مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مقام سے پہلے نعت پڑھی اور بانی محفل سے رخصت لی ۔ ان کے بعد فورا بعد  مجھے مدعو کیا گیا تو  میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پڑھا ۔ دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد  مرحوم صفدر چشتی  تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل  جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جس محفل میں بھی  ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی و رہنمائی فرمائی ۔


===== رسم تاج پوشی =====
===== رسم تاج پوشی =====
سطر 414: سطر 410:


==== مشہور شاگرد ====  
==== مشہور شاگرد ====  
ثناء اللہ بٹ لاہور،
ثناء اللہ بٹ لاہور،عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی  لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل  لاہور، قاری محبوب سلیم گوجرانوالہ، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید سپانوالہ، شیخ غلام نبی، نور محمد جرال ،محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین ،مینر  حسین ہاشمی ملتان،اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد  پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔
 
منظور حسین ناظم، رحیم یار خان
 
عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی  لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل  لاہور، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید سپانوالہ، شیخ غلام نبی ،محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین ،مینر  حسین ہاشمی ملتان،اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر ت پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد  پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔


اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت  سے ضرور مستفید ہوا ۔
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت  سے ضرور مستفید ہوا ۔
سطر 575: سطر 567:
1938ء میں میٹرک پاس کیا  
1938ء میں میٹرک پاس کیا  
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح"  شائع ہوا ۔
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح"  شائع ہوا۔
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر  پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا  
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر  پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا  
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی  
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی  
سطر 589: سطر 581:
1970ء  رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔
1970ء  رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔
1974ء  حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی ۔
1974ء  حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی۔
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)