آپ «زمرہ:اعظم چشتی» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 5: | سطر 5: | ||
==== شخصیت و فن ==== | ==== شخصیت و فن ==== | ||
حسان پاکستان کے لقب سے پکارے جانے والے پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا، مستند ومعتبر، نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔ قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔ علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز آپ کی خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔ | حسان پاکستان کے لقب سے پکارے جانے والے پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا، مستند ومعتبر، نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔ قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔ علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز آپ کی خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔ | ||
محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102 میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ مثنوی روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔ آپ کے والد 1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔ | محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102 میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ مثنوی روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔ آپ کے والد 1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔ | ||
انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ | انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث،تفسیر قرآن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں اس وقت کے گدی نشین حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا | ||
=====نعت خوانی کا سفر :===== | =====نعت خوانی کا سفر :===== | ||
منظور الکونین صاحب نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔ محمد اعظم چشتی نے چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ یہ گھریلو ماحول کا فیضان تھا ۔ والدین عشق رسول کریم میں گندھے ہوئے تھے ۔ ہر جمعتہ المبارک کو گھر میں نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ۔ سکول گئے تو بزم ادب کی روایت نے اپنا حصہ ڈالا۔ گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا میں دوران تعلیم بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیش 5 سال کی عمر میں نعت مبارکہ پیش کرکے اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے ۔ ان کی کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعدنعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا گیا ۔ خوش الحانی تو تحفہ ءِ قدرت تھی ۔ تلفظ و ادائیگی کی ابتدائی نوک پلک والد گرامی نے سنواری ۔ مشیعت راستہ متعین کر چکی تھی ۔ 13 سال کی عمر میں پہلی بار مرکز انوار و تجلیات "داتا دربار" کی محفل نعت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔ داتا دربار کو اس دور میں نعت خوانی کی ایک باقاعدہ درسگاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ جمعرات کو دربار شریف پر حاضری کی روایت تو بہت پرانی ہے ۔ہر جمعرات کو قرب و جوار سے پیران ِ کرام، مشائخ، صاحبانِ طریقت ، سالکین اور عوام الناس فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے حاضر ہوتے تو محفل ِ سماع اور محفل نعت کا اہتمام بھی ہوتا ۔ اس وقت امرتسر میں نعت خوانی کا زیادہ رحجان تھا ر جان محمد امرتسری بھی ا داتا دربار کی ان محافل میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ۔ ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہ تھے ۔ تو جن لوگوں کی خواہش ہوتی کے ان کے گھروں اور محلوں کی فضائیں بھی ان درودی نغمات سے مہکیں وہ جمعرات کو داتا دربار آکر نعت خوانوں سے ان کے گھر یا محلے میں تشریف لانے کی گذارش کرتے ۔ یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کی بنیاد بنا ۔ اعظم چشتی کا داتا دربار میں نعت پڑھنا گویا ایک نئے ستارے کی دریافت کے مترادف ثابت ہوا ۔ انہوں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور بہت جلد آپ کا شمار معروف نعت خوانوں میں ہونے لگا۔ | |||
===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی ===== | ===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی ===== | ||
محمد اعظم چشتی کا دور ِ نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پُر رونق تھیں۔ امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ] | محمد اعظم چشتی کا دور ِ نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پُر رونق تھیں۔ امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ] | ||
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔ جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور بابا محمد علی نقشبندی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ، | اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔ جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور بابا محمد علی نقشبندی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ، بابا غلام محمد، بابا محمد علی ملتانی، غلام محی الدین ، محمدیونس اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں کا دور آخر تھا [حواشی : ان تمام نعت خوانوں کے حالات زندگی پر بھی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے ۔ اگر آپ ان کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہوں تو نعت ورثہ سے ضرور رابطہ کریں ] ۔ پھر نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔ ابتدائی دور ریڈیو کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی کیف آفریں آواز سے سیراب ہوتیں رہیں ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔ | ||
===== انتخاب نعت ===== | ===== انتخاب نعت ===== | ||
زنبیل اعظم میں کلام کے معیار ، لغت اور راگداری کے اعتبار سے اشعار اور طرزوں کا ایک خزانہ تھا ۔اعظم چشتی کے علاوہ بھی کئی ایسے نعت خواں ہیں جن کو ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ اور ایسے بھی کہ جن کی بنائی ہوئی طرزوں میں ایسا تنوع تھا کہ عوام و خواص کی جمالیاتی حس کی تسکین کر سکیں مگر ان کے معیار کا ایسا سخن فہم، فن شناس اور ہنرمند شاید ہی کوئی ہو جو کلام اور فن دونوں میں سادگی سے لیکر فن کی بلند ترین سطح تک جست لگا سکتا ہو اور اس پر یہ ہنر کے | زنبیل اعظم میں کلام کے معیار ، لغت اور راگداری کے اعتبار سے اشعار اور طرزوں کا ایک خزانہ تھا ۔اعظم چشتی کے علاوہ بھی کئی ایسے نعت خواں ہیں جن کو ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ اور ایسے بھی کہ جن کی بنائی ہوئی طرزوں میں ایسا تنوع تھا کہ عوام و خواص کی جمالیاتی حس کی تسکین کر سکیں مگر ان کے معیار کا ایسا سخن فہم، فن شناس اور ہنرمند شاید ہی کوئی ہو جو کلام اور فن دونوں میں سادگی سے لیکر فن کی بلند ترین سطح تک جست لگا سکتا ہو اور اس پر یہ ہنر کے سامعین کے مزاج کی پرکھ میں انتہائی تاک تھے ۔ اعظم چشتی اپنی نعت خوانی میں کلام کا انتخاب محفل میں سامعین کی معیار کے مطابق کرتے ۔ اعظم چشتی کے انتخاب نعت پر "جمشید اعظم چشتی" ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں | ||
" ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔ | " ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔ | ||
سطر 28: | سطر 27: | ||
۳۔شاعرانہ | ۳۔شاعرانہ | ||
۴۔فنکارانہ | ۴۔فنکارانہ | ||
اپنی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی انسانی درجے پر کرتے تھے اور جہاں صوفیا اور اہلِ حال حضرات موجود ہوتے وہاں تصّوف اور سلوک سے متعلق اشعار سے لغت کو مزّین کرتے۔جس محفل میں علماء و فضلا اور شاعر لوگ بیٹھے ہوتے وہاں شاعرانہ مہارت و دسترس کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے۔اور جس محفل میں موسیقی سے وابستہ فنکار حضرات بیٹھے ہوتے تو اْن کے ذوق کی تسکین کے لئے راگ داری اور کلاسیکی موسیقی کے رموزواسرار سے پروہ کشائی فرماتے جاتے اور لوگ سْر رہ جاتے۔گویا انہیں ہر محفل کو اور ہر قسم کے سامع کو قابو کرنے کا فن آتا تھا۔انھوں نے روایتی نعت خوانی بھی کی۔لیکن اس میں اپنی ذہانت، علم،مطالعہ اور ریاضت سے نت نئے تجربات بھی کیئے اور نعت خوانی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بھی عطا کی" [[ | اپنی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی انسانی درجے پر کرتے تھے اور جہاں صوفیا اور اہلِ حال حضرات موجود ہوتے وہاں تصّوف اور سلوک سے متعلق اشعار سے لغت کو مزّین کرتے۔جس محفل میں علماء و فضلا اور شاعر لوگ بیٹھے ہوتے وہاں شاعرانہ مہارت و دسترس کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے۔اور جس محفل میں موسیقی سے وابستہ فنکار حضرات بیٹھے ہوتے تو اْن کے ذوق کی تسکین کے لئے راگ داری اور کلاسیکی موسیقی کے رموزواسرار سے پروہ کشائی فرماتے جاتے اور لوگ سْر رہ جاتے۔گویا انہیں ہر محفل کو اور ہر قسم کے سامع کو قابو کرنے کا فن آتا تھا۔انھوں نے روایتی نعت خوانی بھی کی۔لیکن اس میں اپنی ذہانت، علم،مطالعہ اور ریاضت سے نت نئے تجربات بھی کیئے اور نعت خوانی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بھی عطا کی" [[ نعت ورثہ سے کو ایک خط ]] | ||
==== اعظم چشتی اور معاصرین ==== | ==== اعظم چشتی اور معاصرین ==== | ||
سطر 42: | سطر 42: | ||
محمد علی ظہوری قصوری [ پیدائش ۔ وفات ]، اعظم چشتی سے کچھ جونئیر رہے ۔ ان کا ایک بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ جس زمانے میں سامعین کی سماعتیں بابا محمد علی نقشبندی، جان محمد امرتسری، آغا سرفراز اور اعظم چشتی جیسی پر رعب آوزوں کی اسیر ہو چکی تھیں ۔ محمد علی ظہوری نے مدھم ، سریلی اور عوامی نعت خوانی سے سامعین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ۔ ان کی آمد سے "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " اور "خود کو دیکھا تو ترا نقش قدم یاد آیا " جیسے بلند آہنگ صوتی اظہاریوں کے ساتھ ساتھ " جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے " اور "لب کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرا نال دا " جیسے کومل و ملائم نغمے بھی سماعتوں کا رزق بنے ۔ | محمد علی ظہوری قصوری [ پیدائش ۔ وفات ]، اعظم چشتی سے کچھ جونئیر رہے ۔ ان کا ایک بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ جس زمانے میں سامعین کی سماعتیں بابا محمد علی نقشبندی، جان محمد امرتسری، آغا سرفراز اور اعظم چشتی جیسی پر رعب آوزوں کی اسیر ہو چکی تھیں ۔ محمد علی ظہوری نے مدھم ، سریلی اور عوامی نعت خوانی سے سامعین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ۔ ان کی آمد سے "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " اور "خود کو دیکھا تو ترا نقش قدم یاد آیا " جیسے بلند آہنگ صوتی اظہاریوں کے ساتھ ساتھ " جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے " اور "لب کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرا نال دا " جیسے کومل و ملائم نغمے بھی سماعتوں کا رزق بنے ۔ | ||
اعظم چشتی وضع قطع میں جتنے طرحدار تھے محمد علی ظہوری اتنے ہی سادہ ۔ یہی فرق دونوں کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں بھی ہے ۔ محمد اعظم چشتی کی نعت گوئی و نعت خوانی کلاسیک کی ایک مثال ہے لیکن محمد علی ظہوری قصوری کی نعت گوئی و نعت خوانی فنی | اعظم چشتی وضع قطع میں جتنے طرحدار تھے محمد علی ظہوری اتنے ہی سادہ ۔ یہی فرق دونوں کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں بھی ہے ۔ محمد اعظم چشتی کی نعت گوئی و نعت خوانی کلاسیک کی ایک مثال ہے لیکن محمد علی ظہوری قصوری کی نعت گوئی و نعت خوانی فنی اعتبار سےاتنی بلند نہیں لیکن عوام الناس کے دلوں کے قریب تر ہے ۔ مزاج میں فرق ہونے کے باوجود عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ تار تھی جس نے دونوں صاحبان کو نعت خوانی کے فروغ کے لیے اکٹھا کیا ۔ محمد علی ظہوری "بزم حسان 1952" اور "کل پاکستان جمعیت حسان 1970" میں محمد اعظم چشتی کی صدارت میں نائب صدر رہے ۔ کافی عرصہ اکٹھا کام کرنے کے بعد ایک وقت ایسا کہ مزاجوں کے فرق کی وجہ سے اپنے اپنے انداز میں کام کرنا شروع کر دیا ۔ کچھ حضرات کو ایسا گمان بھی گذرا کہ جیسے ان دونوں میں فاصلہ آگیا ۔ یہ ممکن بھی ہے اور نظر دھوکا بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں بزرگوں کی مختلف مصروفیات کی وجہ سے ایسا محسوس کیا گیا ہو۔ کیونکہ آخرِ عمر میں دلوں کے آئینے بالکل شفاف نظر آتے ہیں واقعہ یوں ہے کہ | ||
===== اعظم چشتی اور سید منظور الکونین ===== | ===== اعظم چشتی اور سید منظور الکونین ===== | ||
اعظم چشتی اور منظور الکونین [ پیدائش ۔ وفات ] نعت خوانی کی تاریخ کی دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا ۔ دونوں اپنے فن میں بے مثال میں تھے ۔ | اعظم چشتی اور منظور الکونین [ پیدائش ۔ وفات ] نعت خوانی کی تاریخ کی دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا ۔ دونوں اپنے فن میں بے مثال میں تھے ۔ | ||
منظور الکونین اعظم چشتی سے بہت چھوٹے تھے ۔ اتنے چھوٹے کی جب منظور الکونین کی توتلی زبان سے نعت ادا ہوئی تو اعظم چشتی | منظور الکونین اعظم چشتی سے بہت چھوٹے تھے ۔ اتنے چھوٹے کی جب منظور الکونین کی توتلی زبان سے نعت ادا ہوئی تو اعظم چشتی معبد ِ نعت کا ایک بلند مینار تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ سید منظور الکونین نے بھی اپنا سکہ منوایا اور ان کا نام اعظم چشتی کے مقابل لیا جانے لگا ۔ لیکن باہمی تعلق میں سید منظور الکونین کے ادب اور اعظم چشتی کی شفقت میں کوئی فرق نہ آیا ۔ سید منظور الکونین اگرچہ اعظم چشتی کے شاگرد نہیں تھے لیکن احترام اساتذہ جیسا ہی کرتے رہے ۔ جس بھی محفل میں ان کا ذکر کیا بہت محبت سے کیا ۔ اعظم چشتی کی موجودگی میں نعت پڑھی تو ان کو عزت دی ۔ | ||
آپسی محبت و شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے منظور الکونین فرماتے ہیں کہ میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛ | آپسی محبت و شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے منظور الکونین فرماتے ہیں کہ میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛ | ||
سطر 154: | سطر 137: | ||
اعظم چشتی کے مصرعے " ساڈا دین اسلام بچایا اے " سے ان کی نظر میں پاکستان کی اہمیت و محبت کا چمک دیکھی جا سکتی ہے ۔ | اعظم چشتی کے مصرعے " ساڈا دین اسلام بچایا اے " سے ان کی نظر میں پاکستان کی اہمیت و محبت کا چمک دیکھی جا سکتی ہے ۔ | ||
سطر 173: | سطر 142: | ||
=====گھریلو زندگی ===== | =====گھریلو زندگی ===== | ||
کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ | کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت کی کامرانی کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔ یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا | ||
کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت کی کامرانی کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔ یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا | |||
* دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔ | * دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔ | ||
سطر 190: | سطر 155: | ||
مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی آخرت کا ساماں کیا بلکہ اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔ | مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی آخرت کا ساماں کیا بلکہ اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔ | ||
گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں محو استراحت ہوا۔ آپ کا جنازہ داتا دربار کے امام علامہ مقصود احمد قادری نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ | گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں محو استراحت ہوا۔ آپ کا جنازہ داتا دربار کے امام علامہ مقصود احمد قادری نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ وصیت کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو زاہد ٹاون ہی میں سپرد خاک کیا گیا ۔ | ||
آج کل یہاں جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری و مدرسہ پر کام جاری ہے ۔ | |||
۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔ | ۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔ | ||
مجموعہ ہائے کلام: | مجموعہ ہائے کلام: | ||
سطر 207: | سطر 171: | ||
"علم موسیقی ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس بحر بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ] | "علم موسیقی ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس بحر بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ] | ||
جو نسبت نعت گوئی کو فنون لطیفہ کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔ فقط گائیکی یا نغمہ سرائی | جو نسبت نعت گوئی کو فنون لطیفہ کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔ فقط گائیکی یا نغمہ سرائی کی نہیں ۔ نغمہ سرائی اس وقت غلط ہو گی جب اشعار کا موضوع نا مناسب ہوگا ۔ صالح مضامین والے اشعار کی خوش الحانی اور تقدیسی نغمہ سرائی پر روک نہیں ۔ وگرنہ تو نعت خوانی ہی کی ممانعت قرار پا جائے ۔ اب اگر تقدیسی نغمہ سرائی یا نعت خوانی کا تعلق کسی فن سے قائم ہوتا ہےتو اس فن کو دائرہ ءِ شریعت میں رہتے ہوئے سیکھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟ آگے چل کے منظور الکونین فرماتے ہیں | ||
" نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے " | " نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے " | ||
سطر 259: | سطر 223: | ||
1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد 1966 تک فروغ نعت کے لیے یہ پاکستان کی واحد تنظیم رہی ۔ | 1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد 1966 تک فروغ نعت کے لیے یہ پاکستان کی واحد تنظیم رہی ۔ | ||
===== پاکستان جمعیت حسان ===== | ===== پاکستان جمعیت حسان ===== | ||
سطر 269: | سطر 230: | ||
قاری محمد یونس قادری لاہور، کمپئیر و نقیب : | قاری محمد یونس قادری لاہور، کمپئیر و نقیب : | ||
"نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں" | "نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں" | ||
اختر حسین قریشی لاہور، نعت خواں | اختر حسین قریشی لاہور، نعت خواں | ||
سطر 287: | سطر 240: | ||
ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | ||
سید منظور الکونین راولپنڈی: | سید منظور الکونین راولپنڈی: | ||
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | |||
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | |||
اختر بزمی راولپنڈی : | اختر بزمی راولپنڈی : | ||
میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ آپ کی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہوگا ۔ | |||
ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ||
سطر 346: | سطر 293: | ||
* حسان ِ پاکستان کا خطاب | * حسان ِ پاکستان کا خطاب | ||
* | * | ||
بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | ||
سطر 381: | سطر 328: | ||
"یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔" | "یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔" | ||
===== رسم تاج پوشی ===== | ===== رسم تاج پوشی ===== | ||
سطر 414: | سطر 338: | ||
==== مشہور شاگرد ==== | ==== مشہور شاگرد ==== | ||
ثناء اللہ بٹ | ثناء اللہ بٹ لاہور،عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل لاہور، قاری محبوب سلیم گوجرانوالہ، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید ساننوالہ، شیخ غلام نبی، محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔ | ||
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | ||
سطر 575: | سطر 495: | ||
1938ء میں میٹرک پاس کیا | 1938ء میں میٹرک پاس کیا | ||
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | 1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | ||
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع | 1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع ہوا۔ | ||
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | 1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | ||
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | 1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | ||
سطر 589: | سطر 509: | ||
1970ء رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔ | 1970ء رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔ | ||
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | 1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | ||
1974ء حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل | 1974ء حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی۔ | ||
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | 1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | 1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | ||
سطر 635: | سطر 555: | ||
زمانے کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی، دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔ دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔ | زمانے کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی، دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔ دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔ | ||
ہم اس سیکشن میں اس حقیقت کا جائزہ لیں گے کہ سوشل میڈیا پر "محمد اعظم چشتی " کے بارے کتنی جانکاری موجود ہے ۔ | |||
===== فیس بک ===== | ===== فیس بک ===== | ||
سطر 652: | سطر 572: | ||
===== یوٹیوب ===== | ===== یوٹیوب ===== | ||
یو ٹیوب پر اعظم چشتی کی نعتوں کا یک خزانہ موجود ہے ۔ اور نعتوں کے علاوہ ایک بہت اہم تبرک "اعظم چشتی " کے PTV پر کرائے ہوئے اپنے تعارف کی ایک منٹ کی وڈیو ہے ۔ [ حوالہ : https://www.youtube.com/watch?v=yldczSwkYKw ]۔ اسی وڈیو میں ان کی PTV پر پہلی پڑھی ہوئی نعت مبارکہ " ایسا کوئی محبوب ہوا ہے نہ کہیں ہے " کا ایک چھوٹا سا کلپ بھی ہے ۔ | یو ٹیوب پر اعظم چشتی کی نعتوں کا یک خزانہ موجود ہے ۔ اور نعتوں کے علاوہ ایک بہت اہم تبرک "اعظم چشتی " کے PTV پر کرائے ہوئے اپنے تعارف کی ایک منٹ کی وڈیو ہے ۔ [ حوالہ : https://www.youtube.com/watch?v=yldczSwkYKw ]۔ اسی وڈیو میں ان کی PTV پر پہلی پڑھی ہوئی نعت مبارکہ " ایسا کوئی محبوب کوئی ہوا ہے نہ کہیں ہے " کا ایک چھوٹا سا کلپ بھی ہے ۔ | ||
==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ||
سطر 658: | سطر 578: | ||
===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے ===== | ===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے ===== | ||
رنگ و بو | رنگ و بو | ||
===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد ===== | ===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد ===== | ||
سطر 920: | سطر 836: | ||
===== جے چمکے میری قسمت دا ستارا یار سول اللہ ===== | ===== جے چمکے میری قسمت دا ستارا یار سول اللہ ===== | ||
====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== | ====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== |