آپ «زمرہ:اعظم چشتی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5: سطر 5:
==== شخصیت و فن ====
==== شخصیت و فن ====


حسان پاکستان  کے لقب سے پکارے جانے والے  پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا،  مستند ومعتبر،  نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے  اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔  قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔  علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور  سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو  قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز  آپ کی  خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔  پاکستان میں معتبر و بزرگ نعت خوانوں اور نعت خوانی کی روایت و تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بجا کہ فن ِ نعت خوانی میں اعظم چشتی کی مثال اس چمکتے ہوئے سورج جیسی ہے کہ جس کی مستعار روشنی سے آسمان ِ مدحت پر کئی چاند روشن ہوئے اور اس کی کرنوں سے زمین ِ نعت کا ہر گل و شجر کسی نہ کسی طرح ان سے مستفید ہوا ۔ انہوں نے نہ صرف نعت خوانی کے خد و خال واضح کیے بلکہ اپنے منفرد آہنگ و اسلوب کے طرح بھی ڈالی ۔
حسان پاکستان  کے لقب سے پکارے جانے والے  پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا،  مستند ومعتبر،  نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے  اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔  قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔  علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور  سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو  قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز  آپ کی  خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔   
 


محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و  عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102  میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی  جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ  مثنوی  روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔  آپ کے والد  1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔
محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و  عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102  میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی  جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ  مثنوی  روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔  آپ کے والد  1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔


انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث اور تفسیر قرآن  کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی  کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر  دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں  اس وقت کے گدی نشین  حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے  کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے  باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف  حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا  
انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث،تفسیر قرآن  کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی  کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر  دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں  اس وقت کے گدی نشین  حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے  کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے  باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف  حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا  
=====نعت خوانی کا سفر  :=====
=====نعت خوانی کا سفر  :=====
صدارتی ایوارڈ یافتہ بے مثال نعت خواں منظور الکونین نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا  ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔  محمد اعظم چشتی نے  چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ یہ گھریلو ماحول کا فیضان تھا ۔ والدین عشق رسول کریم میں گندھے ہوئے تھے ۔ ہر جمعتہ المبارک کو گھر میں نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ۔ سکول گئے تو بزم ادب کی روایت نے اپنا حصہ ڈالا۔ گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا  میں دوران تعلیم بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیش  5 سال کی عمر میں نعت مبارکہ پیش کرکے اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے ۔ ان کی  کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعدنعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا گیا ۔  خوش الحانی تو تحفہ ءِ قدرت تھی ۔ تلفظ و ادائیگی کی ابتدائی نوک پلک والد گرامی نے سنواری ۔ مشیعت راستہ متعین کر چکی تھی ۔ 13 سال کی عمر میں پہلی بار مرکز انوار و تجلیات  "داتا دربار" کی محفل نعت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔  داتا دربار کو اس دور میں نعت خوانی کی ایک باقاعدہ درسگاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ [ حواشی : ] جمعرات کو دربار شریف پر حاضری کی روایت تو بہت پرانی ہے ۔ہر جمعرات کو قرب و جوار سے پیران ِ کرام، مشائخ، صاحبانِ طریقت ، سالکین  اور عوام الناس فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے  حاضر ہوتے تو محفل ِ سماع اور محفل نعت کا اہتمام بھی ہوتا ۔  جان محمد امرتسری بھی  داتا دربار کی  ان محافل میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ۔ ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہ تھے ۔ تو جن لوگوں کی خواہش ہوتی کے ان کے گھروں اور محلوں کی فضائیں بھی ان درودی نغمات سے مہکیں وہ جمعرات کو داتا دربار آکر نعت خوانوں سے ان کے گھر یا محلے میں تشریف لانے کی گذارش کرتے ۔ یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کی بنیاد بنا ۔ اعظم چشتی کا داتا دربار میں نعت پڑھنا  گویا ایک نئے ستارے کی دریافت کے مترادف ثابت ہوا ۔ انہوں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور بہت جلد آپ کا شمار معروف نعت خوانوں میں ہونے لگا۔
منظور الکونین صاحب نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا  ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔  محمد اعظم چشتی نے  چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔  
 
[اس کے بعد نعت خوانی کا مزید سفر بھی لکھنا ہوگا  ]


===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی =====
===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی =====
محمد اعظم چشتی کا دور ِ نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔  معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور  فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پُر رونق تھیں۔  امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی  ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ  محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ]
محمد اعظم چشتی کا دور نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔  نعمت ِ پاکستان سے پہلے انہوں نے امرتسر کی فضاوں کو اپنے درودی نغمات سے مہکایا ۔ معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور  فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پر رونق تھیں۔  امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی  ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ  محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا [حوالہ: QTV, نعت کائنات میں اعظم چشتی کے بارے پروگرام ]
 
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا  ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔  جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور  بابا محمد علی نقشبندی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ،  غلام محمدواصف، بابا محمد علی ملتانی،  حاجی غلام محی الدین ، خلیفہ غلام دین ،محمدیونس،حکیم فضل الہی ،انور قادری ،صوفی عبدالشکور ،حاجی نواب دین اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں  کا دور آخر تھا [حواشی : ان تمام نعت خوانوں کے حالات زندگی پر بھی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے  ۔ اگر آپ ان کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہوں تو نعت ورثہ سے ضرور رابطہ کریں ] ۔ پھر  نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی  ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔  ابتدائی دور ریڈیو  کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی  کی  کیف آفریں آواز  سے  سیراب ہوتیں رہیں  ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا پشاور کے غلام حسن قادری، کوئٹہ کے عبد المجید سندھو ہوں یا مظفر آباد [آزاد کشمیر ] کے اسماعیل خان تبسم سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی  آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے سے وارد ہوئے اور اپنے اپنے خطے میں نعت خوانی کی مزید شمعیں روشن کی ۔
 
===== انتخاب نعت =====


زنبیل اعظم میں کلام کے معیار ، لغت اور راگداری کے اعتبار سے اشعار اور طرزوں کا ایک خزانہ تھا ۔اعظم چشتی کے علاوہ بھی کئی ایسے نعت خواں ہیں جن کو ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ اور ایسے بھی کہ جن کی بنائی ہوئی طرزوں میں ایسا تنوع تھا کہ عوام و خواص کی جمالیاتی حس کی تسکین کر سکیں مگر ان کے معیار کا ایسا سخن فہم، فن شناس اور ہنرمند شاید ہی کوئی ہو جو کلام اور فن دونوں میں سادگی سے لیکر فن کی بلند ترین سطح تک جست لگا سکتا ہو اور اس پر یہ ہنر کے وہ سامعین کے مزاج کی پرکھ میں انتہائی تاک تھے ۔ وہ اپنی نعت خوانی میں کلام کا انتخاب محفل میں سامعین کی معیار کے مطابق کرتے ۔ اعظم چشتی کے انتخاب نعت پر "جمشید اعظم چشتی" ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا  ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔  جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور  بابا محمد علی شکر گڑھی المعروف ٹربئی والے ، آغا سرفراز، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، جان محمد امرتسری ، بابا غلام محمد، بابا محمد علی ملتانی، غلام محی الدین ، محمدیونس اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں  کا دور آخر تھا [حواشی : ان تمام نعت خوانوں کے حالات زندگی پر بھی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے  ۔ اگر آپ ان کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہوں تو نعت ورثہ سے ضرور رابطہ کریں ] ۔ پھر  نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی  ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔  ابتدائی دور ریڈیو  کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی  کیف آفریں آواز  سے  سیراب ہوتیں رہیں  ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔


" ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔
۱۔ عامیانہ(عوامی)
۲۔صوفیانہ
۳۔شاعرانہ
۴۔فنکارانہ
اپنی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی انسانی درجے پر کرتے تھے اور جہاں صوفیا اور اہلِ حال حضرات موجود ہوتے وہاں تصّوف اور سلوک سے متعلق اشعار سے لغت کو مزّین کرتے۔جس محفل میں علماء و فضلا اور شاعر لوگ بیٹھے ہوتے وہاں شاعرانہ مہارت و دسترس کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے۔اور جس محفل میں موسیقی سے وابستہ فنکار حضرات بیٹھے ہوتے تو اْن کے ذوق کی تسکین کے لئے راگ داری اور کلاسیکی موسیقی کے رموزواسرار سے پروہ کشائی فرماتے جاتے اور لوگ  سْر رہ جاتے۔گویا انہیں ہر محفل کو اور ہر قسم کے سامع کو قابو کرنے کا فن آتا تھا۔انھوں نے روایتی نعت خوانی بھی کی۔لیکن اس میں اپنی ذہانت، علم،مطالعہ اور ریاضت سے نت نئے تجربات بھی کیئے اور نعت خوانی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بھی عطا کی" [[حواشی : جمشید چشتی کا نعت ورثہ کو ایک برقیاتی مراسلہ  ]]


==== اعظم چشتی اور معاصرین ====
==== اعظم چشتی اور معاصرین ====


پاکستان میں معتبر و بزرگ نعت خوانوں اور نعت خوانی کی روایت و تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بجا کہ فن ِ  نعت خوانی میں اعظم چشتی کی مثال اس چمکتے ہوئے سورج جیسی ہے کہ جس کی  مستعار روشنی سے آسمان ِ مدحت پر کئی چاند روشن ہوئے اور اس کی کرنوں سے زمین ِ  نعت کا ہر گل و شجر کسی نہ کسی طرح ان سے مستفید ہوا ۔  انہوں نے نہ صرف نعت خوانی کے خد و خال واضح کیے بلکہ اپنے منفرد آہنگ و اسلوب کے طرح  بھی ڈالی ۔کئی نعت خوانوں نے آداب و معیار  سے لے کر آہنگ و انداز تک ان کی پیروی کی اور  کچھ ایسے نعت خواں بھی ضرور ہوئے کہ جنہوں نے اعظم چشتی کی عظمت کا  اقرار کرتے ہوئے۔ آداب و معیار کے میں تو ان کی پیروی کی لیکن آہنگ و انداز میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی ۔ آئیے دیکھتے ہیں اپنے زمانے کے کچھ  نامور معاصرین کے ساتھ اعظم چشتی کا میل ملاپ  کیسا تھا ۔ 
معتبر و بزرگ نعت خوانوں اور پاکستان میں نعت خوانی کی روایت و تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا اشد ضروری ہے کہ فن ِ  نعت خوانی میں اعظم چشتی کی مثال اس چمکتے ہوئے سورج جیسی ہے جس کسے مستعار روشنی سے کئی چاند روشن ہوئے ۔  اعظم چشتی اپنے اسلوب کے بانی تھے اور کئی نعت خوانوں نے ان کی پیروی کی ۔ کئی بڑے ناموں نے نے ان کی پیروی تو نہ کی لیکن ان سے متاثر ہو کر نعت خوانی شروع کی ۔ یہ بھی درست کے ان کے دور میں کچھ ایسے نعت خوان بھی جنہوں نے اپنے راستے خود متعین کیے ۔ یہاں ہم ان معروف نعت خوانوں کا مختصر ذکر کریں گے جنہوں نے دور ِ اعظم چشتی میں اپنی پہچان بنائی ۔  


=====  اعظم چشتی اور نذیر حسین نظامی =====
======  اعظم چشتی اور نذیر حسین نظامی =====


نذیر حسین نظامی [ پیدائش ۔ وفات ]  ایک درویش صفت انسان نعت خواں تھے ۔ رموز موسیقی کے لیے "نیاز حسین شامی" کے شاگرد ہوئے  اور ایسے سریلے کہ بس کیا کہا جائے ۔ ان کے  والدین امرتسر  کے رہائشی تھے اور نذیر حسین نظامی لاہور کے ۔ لیکن امرتسر آنا جانا رہتا تھا ۔ وہاں کی فضا نعت خوانی کے لیے بہت پر بہار تھی  ۔ نذیر حسین نظامی اپنے گھر لاہور میں بھی محافل کا انعقاد کرتے ۔ اعظم چشتی ان کی سالانہ محفلوں میں بھی تشریف لاتے اور کبھی یہ دونوں بزرگ امرتسر  کی محفلوں میں بھی اکٹھے ہی جاتے ۔
===== اعظم چشتی اور سید منظور الکونین =====


===== اعظم چشتی اور محمد علی ظہوری =====
===== اعظم چشتی اور محمد علی ظہوری =====
محمد علی ظہوری قصوری [ پیدائش ۔ وفات ]، اعظم چشتی سے کچھ جونئیر رہے ۔ ان کا ایک بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ جس زمانے میں سامعین کی سماعتیں  بابا محمد علی نقشبندی، جان محمد امرتسری، آغا سرفراز اور اعظم چشتی جیسی پر رعب آوزوں کی اسیر ہو چکی تھیں  ۔ محمد علی ظہوری نے  مدھم ، سریلی اور عوامی نعت خوانی سے سامعین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ۔ ان کی آمد سے "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " اور "خود کو دیکھا تو ترا نقش قدم یاد آیا " جیسے بلند آہنگ صوتی اظہاریوں کے ساتھ ساتھ " جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے " اور "لب کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرا نال دا " جیسے کومل و ملائم نغمے بھی سماعتوں کا رزق بنے ۔
اعظم چشتی وضع قطع میں جتنے طرحدار تھے محمد علی ظہوری اتنے ہی سادہ ۔ یہی فرق دونوں کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں بھی ہے ۔ محمد اعظم چشتی کی نعت گوئی و نعت خوانی کلاسیک کی ایک مثال ہے لیکن محمد علی ظہوری قصوری کی نعت گوئی و نعت خوانی  فنی معیار پر پورا تو اترتی ہے لیکن تنی  بلند نہیں اور عوام الناس کے دلوں کے بہت قریب تر ہے ۔ مزاج میں فرق ہونے کے باوجود عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ تار تھی جس نے دونوں صاحبان کو نعت خوانی کے فروغ کے لیے اکٹھا کیا ۔  محمد علی ظہوری "بزم حسان 1952" اور "کل پاکستان جمعیت حسان 1970" میں محمد اعظم چشتی کی صدارت میں نائب صدر رہے ۔ کافی عرصہ اکٹھا کام کرنے کے بعد ایک وقت ایسا کہ مزاجوں کے فرق کی وجہ سے اپنے اپنے انداز میں کام کرنا شروع کر دیا ۔ کچھ حضرات کو ایسا گمان  بھی گذرا کہ جیسے ان دونوں میں فاصلہ آگیا ۔ یہ ممکن بھی ہے اور نظر دھوکا بھی ہو سکتا ہے کہ  دونوں بزرگوں کی مختلف مصروفیات کی وجہ سے ایسا محسوس کیا گیا ہو۔ 
لیکن اس سلسلے میں لاہور کے بزرگ نعت خواں خلیفہ جہانگیر [ پ  1943 ء]  جو سید شریف الدین نیر کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں
"1989 میں اعظم چشتی صاحب کی سرپرستی میں دہلی انڈیا عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اس وفد میں محمد علی ظہوری ، حفیظ تائب ،محبوب ہمدانی ،مرغوب ہمدانی اور قاری صداقت علی بھی شامل تھے اعظم چشتی صاحب اس سفر میں  تمام ساتھیوں کے ساتھ  بہت محبت سے پیش آئے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمد علی ظہوری اور اعظم چشتی کے تعلقات بہت اچھے نہ تھے انہوں نے غلط سنا میں نے ان نعت خوانوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور وضو کروانے کا شرف بھی حاصل کیا ۔ دونوں کے درمیان محبت و عزت کا رشتہ تھا "  [ خلیفہ جہانگیر کی نعت ورثہ سے گفتگو ]
اور  آخرِ عمر میں تو دلوں کے آئینے بالکل شفاف نظر آتے ہیں واقعہ یوں ہے کہ
1993 کی بات ہے جب اعظم چشتی نے اپنی علالت کے دوران  پسر ِعزیز جمشید چشتی سے مدینہ منورہ کی حاضری کی خواہش کا اظہار کیا ۔ڈاکٹر نے بھرپور آرام کا کہہ رکھا تھا ۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ میری ایک حاضری ابھی بنتی ہے -  والد ِ بزرگوار کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے گئے  ۔اعظم چشتی جب مدینہ شریف پہنچے تو ارشاد اعظم چشتی پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ اعظم چشتی کی طبیعت زیادہ خراب ہو چکی تھی ۔ دوبارہ ڈاکٹر کو دکھایا گیا ۔ ڈاکٹر کی ہدایت اور عاشق صادق کے دلی پکار پر عمل کرتے ہوئے انہیں آرام کی غرض سے مدینتہ المنورہ ہی میں ٹھہرایا گیا ۔  ۔ اتفاق سے وہ جس مہمان خانے میں وہ  ٹھہرے اس میں محمد علی ظہوری پہلے سے ہی موجود تھے ۔  ایک دن محمد علی ظہوری نے انہیں ایک محفل نعت کی دعوت دی ۔  اعظم چشتی نے فرمایا
یار ظہوری ،  طبعیت بڑی خراب اے ۔ آنا تے مشکل ہی لگ ریا اے ۔
شام کو محفل شرو ع ہوئی تو درودی ترانوں کی آوازیں اعظم چشتی کی سماعتوں تک بھی پہنچی ۔ آپ نے ارشاد چشتی سے کہا  مجھے بھی ظہوری کے محفل میں لے چلو ۔ بیماری و نحیفی کی وجہ سے یہ مرحلہ قدرے مشکل تھا ۔ محفل چھت پر ہو رہی تھی ۔ جب محمد علی ظہوری صاحب تک یہ خبر پہنچی کی اعظم چشتی بھی محفل میں تشریف لانا چاہ رہے  ہیں تو عاشقان ِ عاشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کیا کہ انہوں  بانہوں کے جھولے میں اٹھا لے آیا جائے ۔ اعظم چشتی محفل میں تشریف لائی تو حاضرین کی آنکھوں میں حیرت و خوشی کی چمک دیکھنے والی تھی ۔ آپسی تعلقات کی خرابی کی اڑتی اڑتی خبریں تواعظم چشتی  نے بھِی سن رکھیں تھیں ۔ موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فورا ارشاد فرمایا کہ
یارو !  ظہوری سرکار دا ثنا خواں اے تے ساڈا وی یار اے ۔
[ ارشاد اعظم  چشتی پسر اعظم چشتی و نعیم ظہوری پسر محمد علی ظہوری کی نعت ورثہ سے گفتگو ]
قرائن و واقعات بتاتے ہیں کہ دونوں بزرگوں میں اگر کوئی معاملہ یا دوری تھی بھی تو ایسی نہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر ِ کریم پر بھی اپنی "میں" کو اونچا رکھا جاتا ۔ یہ عشاقان ِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ سراپا عشق و محبت ۔ اور اسی نسبت کو ہر رشتے اور ناطے سے بلند رکھتے تھے ۔ لیکن افسوس کے آج تو کچھ نعت خواں بانی محفل سے پہلے ہی فرما دیتے ہیں کہ اگر "فلاں" نعت خواں کو بلانا ہےتو میں نہیں آوں گا۔  اب آدمی پوچھے اگر "فلاں" نعت خواں جنت میں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں میں پہنچ گیا تو ؟
===== اعظم چشتی اور سید منظور الکونین =====
اعظم چشتی اور منظور الکونین [ پیدائش ۔ وفات ] نعت خوانی کی تاریخ کی دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا ۔ دونوں اپنے فن میں بے مثال میں تھے ۔
منظور الکونین اعظم چشتی سے بہت چھوٹے تھے ۔ اتنے چھوٹے کی جب منظور الکونین کی  توتلی زبان سے  نعت ادا ہوئی تو اعظم چشتی قصرِ نعت کا ایک بلند مینار تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ سید منظور الکونین نے بھی اپنا سکہ منوایا اور ان  کا نام اعظم چشتی کے مقابل لیا جانے لگا ۔ لیکن باہمی تعلق میں سید منظور الکونین کے ادب اور اعظم چشتی کی شفقت میں کوئی فرق نہ آیا ۔ سید منظور الکونین اگرچہ اعظم چشتی کے شاگرد نہیں تھے لیکن احترام اساتذہ جیسا ہی کرتے رہے ۔ جس بھی محفل میں ان کا ذکر کیا بہت محبت سے کیا ۔ اعظم چشتی کی موجودگی میں نعت پڑھی تو ان کو عزت دی ۔
آپسی محبت و شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے منظور الکونین فرماتے ہیں کہ میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛
"غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد،
اب کچھ بھی نہیں مجھ کو مدینے کے سوا یاد"
نہایت حضوری کیفیت میں پڑھی۔ کوئی آنکھ نم آلود ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہر ہر شعر میں سامعین کی داد اور حالت دیدنی تھی۔ خود محمد اعظم چشتی صاحب میرے ساتھ آواز ملا کر شامل ہو کر پڑھ رہے تھے۔ مقطع کے ساتھ نعت کا اختتام ہوا اور منتظمین ِ عرس میرے واری صدقے جارہے تھے۔ میرے بعد محمد اعظم چشتی صاحب کا اعلان ہوا۔ حسّانِ پاکستان نے کھڑے ہو کر اچانک یوں کہا؛ "دوستوں نعت تو منظور الکونین نے پڑھ دی ہے اب میرا خیال ہے کہ صلوٰۃ و سلام پڑھ لیں اور انہوں نے "یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک" سے سلام کا واقعی آغاز کر دیا اور نعت نہ پڑھی؛ یہ ان کی میرے لیے محبت تھی اور ان کی عظمت کہ میں ان کے تلامذہ میں شامل نہ تھا اور بہت جونیئر تھا لیکن انہوں نے صدقِ دل سے میری پذیرائی کی اور حوصلہ افزائی فرمائی؛ اللہ حضور کے طفیل انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ! [بحوالہ حضور و سرور]
کراچی میں ہونے والے پہلے مقابلہ نعت میں دونوں نے شرکت کی ۔ اعظم چشتی اول اور منطور الکونین دوئم رہے ۔ اس نعتیہ مقابلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پہلی تینوں پوزیشنز کے لیے  گولڈ میڈل دیا گیا [ مقابلہ کس نے کروایا ۔ حوالہ درکار ]


===== اعظم چشتی اور سعید ہاشمی =====
===== اعظم چشتی اور سعید ہاشمی =====
سطر 86: سطر 41:
===== کاروباری زندگی =====
===== کاروباری زندگی =====


لاہور منتقل ہونے کے بعد کاچھو پورہ کے  ایک پیر بھائی اور دوست  امین چشتی  کے ساتھ باہمی شراکت داری کی بنیاد پر برانڈرتھ روڈ پر سٹیل کا  کاروبار شروع کیا جس میں امین چشتی ہی زیادہ متحرک رہے ۔ یہ کاروبار 1952 تک چلا بعد ازاں  مزاج و طبیعت کی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی -1952 میں"لاہور کارپٹ" کے نام سے عثمان گنج اور فاروق گنج  میں  اپنا کاروبار شروع کیا اور ایک منیجر فروز صاحب کو بھی ملازمت پر رکھا ۔ کاروبار پھلتا پھولتا رہا ۔ ساٹھ کی دہائی میں آپ کا قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ اور اس فیکٹری کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست اور خوبصورتی کے باعث افغانستان اور ایران تک جاتے تھے۔ اتنے پھیلے ہوئے کاروبار کے دور میں سبھی بچے ابھی نابالغ اور کم سَن تھے جو کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں تھے ۔ معاونت کے لیے فیروز نامی ایک صاحب کو مینجر بھی رکھا ہوا تھا لیکن کاروباری مصروفیات کی وجہ  محافل نعت سے دوری آن پڑی ۔ اِکا دُکا محفل میں نعت سرائی کے لیے جاتے۔ یہ صورتحال ان کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی کہ کاروبار کرتے ہیں تو سرکار کی مدح سرائی  سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور اگر محافل میں تسلسل سے جاتے ہیں تو کاروبار متاثر ہوتا ہے داتا دربار کی حاضری میں بھی وقفہ پڑ گیا ۔راوی بیان کرتے ہیں کہ  ایک دن  جب داتا دربار حاضری کے لیے گئے تو وہاں ایک مجذوب نے آپکو بلایا اور مخاطب ہوا کہ "اعظم آجکل کتھے ہوناں ایں" [ اعظم آج کل کدھر ہوتے ہو ]۔ آپ نے اپنی کاروباری مصروفیات کا ذکر کیا  تو مجذوب نے کہا "اعظم تیرے لئی  بارہ گاہ ِ رسالت مآب تو پیغام اے کہ تیرا کم صرف نعت خوانی کرنا اے ۔ ہور کج نئیں[ اعظم تمہارے لیے بارگاہ رسالت سے پیغام ہے کہ تمہارا کام صرف نعت خوانی کرنا ہے ۔ اور کچھ نہیں ]۔آپ نے بڑے ادب سے کہاں جی انشاء اللہ  یہ کاروبار  1965 تک چلتا رہا ۔ پھر مکمل خدمت ِ نعت میں مکمل  یکسوئی کے لیے لاہور کارپٹ اپنے ایک قریبی دوست شیخ احمد حسن کے ہاتھ فروخت کردی ۔ وہ فیکٹری لاہور ش شیخ احمد حسن تو انتقال کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی اولاد کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کا بزنس اور جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں ۔  ایک روایت یہ بھی ہے کہ  پیر حضرت محبوب عالم  ہر سال پنے والد گرامی کے عرس مبارکہ  پراعظم چشتی کو  مدعو کیا کرتے ایک دو بار  آپ نہ جا سکے توپیر صاحب  نے مریدین کو پیغام دیا کہ اعظم چشتی کو ہر صورت لاو۔  آپ جب وہاں پہنچے تو حضرت محبوب عالم نے مخاطب ہو کر کہا اعظم چشتی آپکے لیے میرے پاس پیغام آیا ہے کہ اعظم چشتی سے کہوں کہ خود کو نعت خوانی کے لیے وقف کرے - [حوالہ : جمشید اعظم چشتی سے نعت ورثہ کی گفتگو ]
لاہور منتقل ہونے کے بعد کاچھو پورہ کے  ایک پیر بھائی اور دوست  امین چشتی  کے ساتھ باہمی شراکت داری کی بنیاد پر برانڈرتھ روڈ پر سٹیل کا  کاروبار شروع کیا جس میں امین چشتی ہی زیادہ متحرک رہے ۔ یہ کاروبار 1952 تک چلا بعد ازاں  مزاج و طبیعت کی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی -1952 میں لاہور کارپٹ کے نام سے عثمان گنج اور فاروق گنج  میں  اپنا کاروبار شروع کیا اور ایک منیجر فروز صاحب کو بھی ملازمت پر رکھا ۔ کاروبار پھلتا پھولتا رہا ۔ ساٹھ کی دہائی میں آپ کا قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ اور اس فیکٹری کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست اور خوبصورتی کے باعث افغانستان اور ایران تک جاتے تھے۔ اتنے پھیلے ہوئے کاروبار کے دور میں سبھی بچے ابھی نابالغ اور کم سَن تھے جو کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں تھے ۔ معاونت کے لیے فیروز نامی ایک صاحب کو مینجر بھی رکھا ہوا تھا لیکن کاروباری مصروفیات کی وجہ  محافل نعت سے دوری آن پڑی ۔ اِکا دُکا محفل میں نعت سرائی کے لیے جاتے۔ یہ صورتحال ان کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی کہ کاروبار کرتے ہیں تو سرکار کی مدح سرائی  سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور اگر محافل میں تسلسل سے جاتے ہیں تو کاروبار متاثر ہوتا ہے داتا دربار کی حاضری میں بھی وقفہ پڑ گیا ۔راوی بیان کرتے ہیں کہ  ایک دن  جب داتا دربار حاضری کے لیے گئے تو وہاں ایک مجذوب نے آپکو بلایا اور مخاطب ہوا کہ "اعظم آجکل کتھے ہوناں ایں" [ اعظم آج کل کدھر ہوتے ہو ]۔ آپ نے اپنی کاروباری مصروفیات کا ذکر کیا  تو مجذوب نے کہا "اعظم تیرے لئی  بارہ گاہ ِ رسالت مآب تو پیغام اے کہ تیرا کم صرف نعت خوانی کرنا اے ۔ ہور کج نئیں[ اعظم تمہارے لیے بارگاہ رسالت سے پیغام ہے کہ تمہارا کام صرف نعت خوانی کرنا ہے ۔ اور کچھ نہیں ]۔آپ نے بڑے ادب سے کہاں جی انشاء اللہ  یہ کاروبار  1965 تک چلتا رہا ۔ پھر مکمل خدمت ِ نعت میں مکمل  یکسوئی کے لیے لاہور کارپٹ اپنے ایک قریبی دوست شیخ احمد حسن کے ہاتھ فروخت کردی ۔ وہ فیکٹری لاہور ش شیخ احمد حسن تو انتقال کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی اولاد کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کا بزنس اور جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں ۔  ایک روایت یہ بھی ہے کہ  پیر حضرت محبوب عالم  ہر سال پنے والد گرامی کے عرس مبارکہ  پراعظم چشتی کو  مدعو کیا کرتے ایک دو بار  آپ نہ جا سکے توپیر صاحب  نے مریدین کو پیغام دیا کہ اعظم چشتی کو ہر صورت لاو۔  آپ جب وہاں پہنچے تو حضرت محبوب عالم نے مخاطب ہو کر کہا اعظم چشتی آپکے لیے میرے پاس پیغام آیا ہے کہ اعظم چشتی سے کہوں کہ خود کو نعت خوانی کے لیے وقف کرے - [حوالہ : جمشید اعظم چشتی سے نعت ورثہ کی گفتگو ]


دونوں روائیتوں میں سے ممکن ہے کوئی ایک درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ  دونوں درست ہوں ۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ  کاروبار سے بے رغبتی کسی اشارے پر تھی ۔
دونوں روائیتوں میں سے ممکن ہے کوئی ایک درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ  دونوں درست ہوں ۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ  کاروبار سے بے رغبتی کسی اشارے پر تھی ۔
سطر 118: سطر 73:
===== پاکستان سے محبت =====
===== پاکستان سے محبت =====


پاکستان نہ صرف مسلمانانِ ہند بلکہ تمام عالم اسلام کی لیےایک انمول عطیہء خداوندی ہے ۔ اسے حاصل کرنے کی تگ و دو میں جہاں قائد اعظم جیسے رہنما اور اقبال جیسے مفکر کے ساتھ ساتھ  دیگر موقر سیاستدانوں، علماء، طلباء  اور شعراء کا بھی کردار ہے ۔ شعراء نے بھی قومی محبت سے سرشاری نظمیں لکھ اور پڑھ کر عوام الناس کے دلوں کو گرمائے رکھا ۔ اعظم چشتی کو کئی جلوسوں میں قائد اعظم کی رفاقت کا شرف رہا ۔  قائد اعظم بھی آپ سے محبت فرماتے تھے  ۔ اعظم چشتی نے نعتیں پڑھ کر آزادیِ پاکستان کی تحریک کو  عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع سے خوب روشن کیا۔ چونکہ آپ شاعر بھی تھے تو آپ کا کردار ایک عام نعت خواں سے بڑھ کر رہا ۔ آپ نے قومی ترانے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی عظمت کے اقرار میں نظمیں بھی لکھیں ۔
آزادی ِ پاکستان کے جلسے و جلوس میں اعظم چشتی نے بھر پور کردار ادا کیا اور جلسے جلسوں میں نعتیں پڑھ کر آزادیِ پاکستان کی تحریک کو  عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع سے خوب روشن کیا۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم دیکھیے کہ کئی ایک ملی نغمے اور ترانے بھی لکھے اور پڑھے  ۔ آپ نے جہاں نعت گوئی و نعت خوانی کی، وہاں ضرورت پڑنے پر ملک کی محبت میں ملی نغمے و ترانے بھی لکھے اور پڑھے جس سے پاکستان سے آپ کی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
 
اٹھ شیرا پاکستان دیا ہن جاگ تے ہو ہشیار اڑیا
 
تینوں خلقت طعنے ماردی اے ، چھڈ نیندر ہو بیدار اڑیا
 
۔۔۔۔۔۔۔
 
ایسے نعرہء جاھدو نال اعظم
تو ستیاں ہویاں نے جگاندا چلا جا 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ملت کے نگہباں ترا اللہ مدد گار ۔ اے حق کے پرستار
 
تو دشمن ایماں کے لیے زہر کا اک جام
 
تو امن پرستوں کے لیے صلح کا پیغام
 
تو برق جہاں سوز تو ابر گہر بار ۔ اے حق کے پرستار
 
 
اور قائد ِ اعظم کی وفات کے بعد ان کی یاد میں یوں پکار اٹھے
 
اوہ قائد اعظم زندہ اے
 
او قائدِ اعظم زندہ اے
 
جنھے سانوں وطن دوایا ہے ۔ ساڈا دین اسلام بچایا اے
 
اوہ قائد اعظم زندہ اے
 
او قائد اعظم زندہ اے
 
 
اعظم چشتی کے مصرعے " ساڈا دین اسلام بچایا اے " سے ان کی نظر میں پاکستان کی اہمیت و محبت کا چمک دیکھی جا سکتی ہے ۔
 
اعظم چشتی محافل کے اختتام پر سلام " یا نبی سلام علیک " پڑھا کرتے تھے اور پاکستان کے حوالے سے خاص دنوں میں اس میں یہ شعر بھی پڑھتے
 
آقا !
 
یہ وطن تری امانت، ہے مری نظر کی راحت
 
میں وہ آنکھ پھوڑ دوں گا، جو اٹھے گی غاصبانہ
 
یا نبی سلام علیک
 
کبھی سر نگوں نہ ہوگا، یہ ترا پرچم ہلالی
 
یہ کہہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اوریہی ہے مرا ترانہ


 
نعت ِ پاکستان کے ایک بہت معروف نعت خواں "اختر حسین قریشی" ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ  1993ء میں کوثر نیازی کی قیادت میں مَیں اور اعظم چشتی صاحب "رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس "میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جہاز سے اترتے وقت اعظم چشتی صاحب جب آخری سیڑھی پر پہنچے تو کچھ کلمات پڑھنے لگے میں بڑے غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا اور کچھ دیر بعد سجدہ میں گر گئے اور زمیں کو چوم لیا۔
پاکستان کے ایک بہت معروف نعت خواں "اختر حسین قریشی" ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ  1993ء میں کوثر نیازی کی قیادت میں مَیں اور اعظم چشتی صاحب "رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس "میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جہاز سے اترتے وقت اعظم چشتی صاحب جب آخری سیڑھی پر پہنچے تو کچھ کلمات پڑھنے لگے میں بڑے غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا اور کچھ دیر بعد سجدہ میں گر گئے اور زمیں کو چوم لیا۔


=====گھریلو زندگی =====
=====گھریلو زندگی =====
کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے  بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ،  اخلاق حسنہ  سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی  ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب  تھے  ۔  وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں،  ایک  زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ ان کے برخودار وجاہت چشتی فرماتے ہیں
کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے  بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ،  اخلاق حسنہ  سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی  ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب  تھے  ۔  وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں،  ایک  زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت  کی کامرانی  کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔  یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے  پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو  چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا   
 
"بخدا حضرت اعظم چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی شفقت ِ پدری اپنی مثال آپ تھی ۔ اور میں نے بہت دفعہ عالم تصور میں شفقت مادری کو ان کی شفقت ِ پدری پر ناز کرتے دیکھا ہے ۔" [ پروگرام کاروان مدحت، میزبان: سرور نقشبندی https://www.youtube.com/watch?v=dnwupTAZOtA ]
 
کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت  کی کامرانی  کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔  یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے  پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو  چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا   


* دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔
* دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔
سطر 190: سطر 91:
مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی  آخرت کا ساماں کیا  بلکہ  اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔  انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں  ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔  
مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی  آخرت کا ساماں کیا  بلکہ  اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔  انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں  ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔  


گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں  محو استراحت ہوا۔ آپ کا جنازہ داتا دربار کے امام علامہ مقصود احمد قادری  نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ وصیت کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو زاہد ٹاون ہی میں سپرد خاک کیا گیا ۔ آج کل یہاں  جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری و مدرسہ  پر کام جاری ہے  ۔
گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں  محو استراحت ہوا۔ [ کیابیماری سے فوت ہوئے تھے؟ ] آپ کا جنازہ علامہ مقصود احمد قادری جو مسجد داتا دربار کے امام تھے نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ وصیت کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو زاہد ٹاون ہی میں سپرد خاک کیا گیا ۔  
 
 


آج کل یہاں  جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری و مدرسہ  پر کام جاری ہے  ۔
۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔
۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔
مجموعہ ہائے کلام:
مجموعہ ہائے کلام:
سطر 207: سطر 107:
"علم موسیقی  ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔  ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں  پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے  ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس  بحر  بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ]
"علم موسیقی  ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔  ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں  پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے  ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس  بحر  بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ]


جو نسبت نعت گوئی کو  فنون لطیفہ  کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس  طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی  کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔  فقط  گائیکی یا نغمہ سرائی کے فن کی نہیں  ۔ نغمہ سرائی اس وقت غلط ہو گی جب اشعار کا موضوع نا مناسب ہوگا ۔ صالح مضامین والے اشعار کی خوش الحانی اور تقدیسی نغمہ سرائی پر روک نہیں ۔  وگرنہ تو نعت خوانی ہی کی ممانعت قرار پا جائے ۔ اب اگر تقدیسی نغمہ سرائی یا نعت خوانی کا تعلق کسی فن سے قائم ہوتا ہےتو اس فن کو  دائرہ ءِ شریعت میں رہتے ہوئے سیکھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟  آگے چل کے منظور الکونین فرماتے ہیں  
 
جو نسبت نعت گوئی کو  فنون لطیفہ  کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس  طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی  کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔  فقط  گائیکی یا نغمہ سرائی کی نہیں  ۔ نغمہ سرائی اس وقت غلط ہو گی جب اشعار کا موضوع نا مناسب ہوگا ۔ صالح مضامین والے اشعار کی خوش الحانی اور تقدیسی نغمہ سرائی پر روک نہیں ۔  وگرنہ تو نعت خوانی ہی کی ممانعت قرار پا جائے ۔ اب اگر تقدیسی نغمہ سرائی یا نعت خوانی کا تعلق کسی فن سے قائم ہوتا ہےتو اس فن کو  دائرہ ءِ شریعت میں رہتے ہوئے سیکھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟  آگے چل کے منظور الکونین فرماتے ہیں  


" نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے  نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس  راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے "
" نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے  نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس  راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے "


نعت خوانی کے لیےفن ِ موسیقی سے کس قدر شناسائی ضروری ہے ؟ یہ بحث تو جاری رہے گی ۔ "سید منظور الکونین" کی رائے سے اک حد تک اختلاف ممکن ہے مگر فن گائیکی کے مبادیات اور رموز و فن سے شناسائی نعت خوانی کے لیے اس درجہ ضروری نہیں تو نہ سہی لیکن نعت خوانی میں ان کی اہمیت سے کلی انکار حسن ِ نعت خوانی کے  فہم و ادراک سے لا علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس میں کیا شک کہ حسن توازن میں چھپا بیٹھا ہے ۔ اگر نعت خوانی کو صرف فن سمجھ لیا جائے تو نعت خوانی کی روح متاثر ہوتی ہے اور اگر نعت خوانی سے فن ِ گائیکی کو نکال دیا جائے تو اس کے صوتی آہنگ میں ایسی کجی رہ جائے گی جو اہل فن اور  لطیف حسِ جمال رکھنے والے سامعین کی سمع خراشی کا سبب بنے گی ۔  
نعت خوانی کے لیے موسیقی کا کتنا علم ہونا چاہیے ؟ یہ بحث تو جاری رہے گی ۔ کچھ احباب "سید منظور الکونین" کی رائے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں ۔اگر اختلافی رائے مان بھی لی جائے تو فن گائیکی کے مبادیات اور رموز و فن سے شناسائی نعت خوانی کے لیے اس درجہ ضروری نہیں تو نہ سہی لیکن نعت خوانی میں ان کی اہمیت سے انکار حسن ِ نعت خوانی کے  فہم و ادراک سے لا علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس میں کیا شک کہ حسن توازن میں چھپا بیٹھا ہے ۔ اگر نعت خوانی کو صرف فن سمجھ لیا جائے تو نعت خوانی کی روح متاثر ہوتی ہے اور اگر نعت خوانی سے فن ِ گائیکی کو نکال دیا جائے تو اس کے صوتی آہنگ میں ایسی کجی رہ جائے گی جو اہل فن اور  لطیف حسِ جمال رکھنے والے سامعین کی سمع خراشی کا سبب بنے گی ۔  


محمد اعظم چشتی کی آواز نے فقط صبائے نعت کے دوش پر سفر کیا  ۔ وہ فن گائیکی کے تمام نشیب و فراز اور باریکیوں کے  شناسا و تربیت  یافتہ ہونے کے باوجود وہ روایتی و بازاری نغمہ سرائی سے دور رہے  ۔ ملک پاکستان کے کئی مشہور گویوں  سے ان کی سنگت اور دوستانہ رہا اور آ پ نے اہل فن سے کسب فیض کیا ۔  بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محمد اعظم چشتی وہ پہلے نعت خواں ہیں  جنہوں نے نعت خوانی کو ایک فن کی حیثیت سے روشناس  کرایا ۔  سید منظور الکونین جیسے بلند قامت نعت خواں کی گواہی اعظم چشتی کے اس پہلو کو خوب اجاگر کرتی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں ۔
محمد اعظم چشتی کی آواز نے ہمیشہ صبائے نعت کی دوش پر سفر کیا اور وہ روایتی و بازاری نغمہ سرائی سے دور رہے لیکن وہ فن ِ گائیکی کے تمام نشیب و فراز اور باریکیوں کے  شناسا و تربیت  یافتہ تھے ۔ ملک پاکستان کے کئی مشہور گویوں  سے ان کی سنگت اور دوستانہ رہا اور آ پ نے اہل فن سے کسب فیض کیا ۔  بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محمد اعظم چشتی وہ پہلے نعت خواں ہیں  جنہوں نے نعت خوانی کو ایک فن کی حیثیت سے روشناس  کرایا ۔ ۔ یہاں اعظم چشتی کے علم موسیقی پر "سید منظور الکونین" کی رائے پیش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے ۔  


"میرے نعت خوانی کے ابتدائی دور میں نعت کے حوالے سے جو بڑے بڑے نام تھے  ان میں محمد اعظم چشتی مرحوم سرخیل نعت خوانان تھے ۔ علم و ادب کے میدان میں بھی یکتا تھے اور انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی اور ان کے انداز کا باقاعدہ ایک School of Thought بن گیا تھا ۔ "
"میرے نعت خوانی کے ابتدائی دور میں نعت کے حوالے سے جو بڑے بڑے نام تھے  ان میں محمد اعظم چشتی مرحوم سرخیل نعت خوانان تھے ۔ علم و ادب کے میدان میں بھی یکتا تھے اور انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی اور ان کے انداز کا باقاعدہ ایک School of Thought بن گیا تھا ۔ "


یہ  اعظم چشتی کا امتیاز ہے کہ انہوں نے  ایک بازاری و درباری فن کو اتنا پاکیزہ بنا دیا کہ وہ نعت خوانی کی صورت میں وسیلہ بخشش ہوگیا ۔ فن ِ گائیکی میں ان  کےباقاعدہ  اُستاد بڑے غلام علی خان ہوئے جو پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلے گئے،اُس کے بعدانہوں نے اُستاد برکت علی خاں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ چونکہ وہ نعت خوان کے حوالے سے جانے جاتے تھے تو عوامی محافل میں یہ بتانا کہ وہ گویوں سے سیکھے ِ  ہوئے ہیں ایسا قابل قبول نہ ہوتا اور یہ کہناکہ میری طبع ہی میری اُستاد ہےتکبر کی نشانی سمجھا جاتا اس  لیے نعت سے منسلک ایک بزرگ  حکیم فضل الٰہی کی صحبت بھی اختیار کی۔[ حوالہ : نعت ورثہ کی ارشاد اعظم چشتی سے ایک گفتگو ]  حکیم فضل الٰہی کا شمار پاکستان کے عظیم استاد نعت خوانوں میں ہوتا ہے جو لاہور ہی میں پیدا ہوئے ۔  
یہ  اعظم چشتی کا امتیاز ہے کہ انہوں نے  ایک بازاری و درباری فن کو اتنا پاکیزہ بنا دیا کہ وہ نعت خوانی کی صورت میں عرفان کا وسیلہ ہوگیا ۔ فن ِ گائیکی میں ان  کےباقاعدہ  اُستاد بڑے غلام علی خان ہوئے جو پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلے گئے،اُس کے بعدانہوں نے اُستاد برکت علی خاں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ چونکہ وہ نعت خوان کے حوالے سے جانے جاتے تھے تو عوامی محافل میں یہ بتانا کہ وہ گویوں سے سیکھے ِ  ہوئے ہیں ایسا قابل قبول نہ ہوتا اور یہ کہناکہ میری طبع ہی میری اُستاد ہےتکبر کی نشانی سمجھا جاتا اس  لیے نعت سے منسلک ایک بزرگ  حکیم فضل الٰہی کی صحبت بھی اختیار کی۔[ حوالہ : نعت ورثہ کی ارشاد اعظم چشتی سے ایک گفتگو ]  حکیم فضل الٰہی کا شمار پاکستان کے عظیم استاد نعت خوانوں میں ہوتا ہے جو لاہور ہی میں پیدا ہوئے ۔  


یہ عطیہ خداوندی تھا کہ محمد اعظم چشتی نے کبھی گلوکاری نہ کی لیکن اس اس شعبے کے نابغہ روزگار شخصیات  بھی آپ کے فن کی مداح رہیں  ۔آپ کے حلقہ احباب میں  فریدہ خانم و نور جہاں اکثر محافل و مجالس میں آپکو مدعو کرتیں- مہدی حسن خاں صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو گاہے بگاہے آپکو ملنے گھر آتے ۔  شام چوراسی گھرانہ [حوالہ : سید منظور الکونین بھی اسی گھرانے کے نیاز حسین شامی کے شاگرد تھے ] سے آپکے بہت گہرے تعلقات تھے استاد سلامت علی خاں استاد برکت علی خاں اور حسین بخش گلو آپکی خوش الحانی و فن کے قدر دان تھے ۔ -پٹیالہ گھرانہ سے استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں آپکو گھر اکثر مدعو کرتے اور ماہ محرم و ربیع الول میں نعت مبارکہ سنتے۔ استاد نصرت فتح علی خاں ہمیشہ اپنے والد فتح علی خان و چچا استاد مبارک علی خاں کی برسی کے موقع پر آپکوو مدعو کرتے-غزل خواں غلام علی ،عالم لوہار ،شوکت علی سے غزلیں سنی اور انہیں اپنی نعت سے ان کی سماعتوں کو فیض یاب کیا ۔
یہ عطیہ خداوندی تھا کہ محمد اعظم چشتی نے کبھی گلوکاری نہ کی لیکن اس اس شعبے کے نابغہ روزگار شخصیات  بھی آپ کے فن کی مداح رہیں  ۔آپ کے حلقہ احباب میں  فریدہ خانم و نور جہاں اکثر محافل و مجالس میں آپکو مدعو کرتیں- مہدی حسن خاں صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو گاہے بگاہے آپکو ملنے گھر آتے ۔  شام چوراسی گھرانہ [حوالہ : سید منظور الکونین بھی اسی گھرانے کے نیاز حسین شامی کے شاگرد تھے ] سے آپکے بہت گہرے تعلقات تھے استاد سلامت علی خاں استاد برکت علی خاں اور حسین بخش گلو آپکی خوش الحانی و فن کے قدر دان تھے ۔ -پٹیالہ گھرانہ سے استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں آپکو گھر اکثر مدعو کرتے اور ماہ محرم و ربیع الول میں نعت مبارکہ سنتے۔ استاد نصرت فتح علی خاں ہمیشہ اپنے والد فتح علی خان و چچا استاد مبارک علی خاں کی برسی کے موقع پر آپکوو مدعو کرتے-غزل خواں غلام علی ،عالم لوہار ،شوکت علی سے غزلیں سنی اور انہیں اپنی نعت سے ان کی سماعتوں کو فیض یاب کیا ۔


فن و عقیدت کا یہ میل جول نعت خوانی کے لیے اس لحاظ سے خوش آئند رہا کہ جہاں اعظم چشتی فن ِ موسیقی کی اہم شخصیات سے رابطے میں رہ کر اپنے ہنر کے لیے مہمیز لیتے رہیے وہیں ان گلوکاروں کو نعت سے بھی روشناس کراتے رہے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نور جہاں اور سعید ہاشمی صاحب نے مل کر نعتیں پڑھیں ۔ فریدہ خانم اور سعید ہاشمی کے ایک آڈیوکیسٹ کی ریکارڈنگ کی بھی شنید تھی لیکن وہ ریلیز نہ ہو سکا ۔ 
فن و عقیدت کا یہ میل جول نعت خوانی کے لیے اس لحاظ سے خوش آئند رہا کہ جہاں اعظم چشتی فن ِ موسیقی کی اہم شخصیات سے رابطے میں رہ کر اپنے ہنر کے لیے مہمیز لیتے رہیے وہیں ان گلوکاروں کو نعت سے بھی روشناس کراتے رہے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نور جہاں اور سعید ہاشمی صاحب نے مل کر نعتیں پڑھیں ۔
 
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اعظم چشتی  اپنے فن کی وجہ سے ان مغنیات میں زیادہ مقبول تھے تو نور جہاں یا فریدہ خانم کے ساتھ نعت خوانی کے لیے ان کا نام کیوں نہ آیا ؟۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ نور جہاں کے البم میں آلات ِ موسیقی کا استعمال ہونا تھا ۔ اعظم چشتی نے علم موسیقی سیکھا تو ضرور لیکن نعت خوانی میں آلات موسیقی یا بازاری آہنگ کے قائل نہ تھے ۔ ان کی نعت کے آہنگ میں کبھی بازاری موسیقی کا سایہ تک نہ پڑا ۔ اعظم چشتی کی پڑھی ہوئی نعتیں سر، لے اور راگوں سے سجی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکیزگی و تقدس سے بھی آراستہ رہیں ۔ ان کی کسی بھی نعت کو سن کر کوئی بازاری نغمہ یا گانا ذہن میں نہیں آتا ۔ 


====== گلوکاروں کی آراء======
====== گلوکاروں کی آراء======
سطر 257: سطر 156:
    
    
===== بزم ِ حسان کی بنیاد =====
===== بزم ِ حسان کی بنیاد =====
1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے  "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری  کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو  حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔  حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد 1966 تک فروغ نعت کے لیے یہ پاکستان کی واحد  تنظیم رہی ۔
1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے  "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری  کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو  حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔  حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد ؟؟؟ تک فروغ نعت کے لیے یہ پاکستان کی واحد  تنظیم رہی ۔
 
===== ریڈیو پاکستان پر محفل نعت کا سلسلہ =====


اعظم چشتی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب پاکستان بنا تو  14 اگست 1947 کو تلاوت قرآن پاک کے بعد اہل پاکستان نے اعظم چشتی کی آواز میں مدحت ِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنی ۔ یہ معلوم کرنا ہنوز باقی ہے کہ تلاوت قرآن پاک کی سعادت کسے حاصل ہوئی تھی ۔ تا ہم جب ریڈیو پاکستان، لاہور کی نئی بلڈنگ بنی تو اس کا افتتاح صدارتی ایوارڈ یافتہ قاری و نعت خواں  قاری غلام رسول کی تلاوت سے ہوا اور یہیں اعظم چشتی اور قاری غلام رسول نے ریڈیو پاکستان، لاہور پر محالف نعت کی رسم ڈالی جو آج تک قائم ہے ۔  [ روزنامہ پاکستان ، 3 اکتوبر 2014]
===== پاکستان جمعیت حسان =====
===== پاکستان جمعیت حسان =====


سطر 269: سطر 165:
قاری محمد یونس قادری لاہور، کمپئیر و نقیب :  
قاری محمد یونس قادری لاہور، کمپئیر و نقیب :  
"نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں"
"نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں"
سرور نقشبندی، لاہور
نعت دنیا و آخرت میں اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ ایک  بھر پور فن اور علم کا بھی درجہ رکھتی ہے ۔ اس کی اپنی جہات و تقاضے اور اپنے قواعد وضوابط ہیں ۔ ان قواعدو ضوابط اور جن جن خوبیوں کی ایک پڑھنے والے کو ضرورت ہوتی ہے ۔ اعظم چشتی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ ان تمام خوبیوں کے مرقع تھے ۔ نعت کی کلاسیک کی روایت کسی بھی زمانے میں کم نہیں ہوگی اور اس روایت کے امام اعظم چشتی مرحوم ہیں۔ نعت کے ایک مصرع پر گرہ بندی ایک خاص فن ہے اس کے لیے بہت مطالعہ و ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو مضمون آپ پڑھ رہے ہوں اس سے متصل اشعار اس کے ساتھ ملاتے چلے جائیں ۔ اس فن میں حضرت اعظم چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو خاص ملکہ حاصل تھا ۔ [سرور نقشبندی،  ٹی وی پروگرام ۔ کاروان مدحت، وصال یار ]
قاری صداقت حسین
میرے استاد محترم اعظم چشتی کمال شخصیت کے مالک تھے ۔ ہر نئےآنے والے  کی بہت حوصلہ افزائی و راہنمائی کرتے-وہ اپنے فن میں یکتا و کمال نعت خواں تھے ۔ ان کا دور ہو یا  پہلے یا بعدکا  آپ جیسا نعت خواں نہ تھا نہ ہوگا ۔ انہیں حسّان پاکستان کا لقب تو ملا ہی ہے  مگر میں یہ کہنا چاہوںگا  کہ پورے پاک و ہند میں آپکی مثل کوئی نہ تھا میں انہیں  حسْان ِ پاک و ہند سمجھتا ہوں -نعت خوانی میں گرہ بندی پر ملکہ حاصل تھا ۔کبھی کتاب ہاتھ میں نہ پکڑتے یوں کہیے کہ آپ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے  کمال حافظہ تھا ۔ایک شعر پر کئی کئی گھنٹے گرہ بندی کرتے۔ ایک ہی نششت میں 8 سے 9 گھنٹے مسلسل نعت خوانی کا ہنر جانتے -یہ وہ زمانہ تھا جب محافل نعت میں تلاوت کے بعد ایک نعت ہوتی بعد ازاں خطاب اور اندازہ لگائیے کہ کیا نعت خوانی ہوگی جو اس زمانہ میں آپ جیسے عظیم نعت خواں کو کئی کئی گھنٹے علمائے اکرام مشائیخ پیران گرام سماعت کرتے –بہت محافل میں ان کا  ساتھ رہا یہ خوش نصیبی رہی کے آپکی صھبت بھی میسر آئی بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا ان محافل میں ایک کیفیت و روحانیت ہوتی ادب و احترام ہوتا سیکھنے کے مواقع ہوتے جو بد قسنتی سے اب نہیں رہے


اختر حسین قریشی لاہور، نعت خواں
اختر حسین قریشی لاہور، نعت خواں
میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی  کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں  وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان  لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں  اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو  تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔  عبدالشکور بیدل  ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔
میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی  کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں  وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان  لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں  اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو  تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔  عبدالشکور بیدل  ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔


محمد علی ظہوری، لاہور، نعت خواں :
محمد علی ظہوری، لاہور، نعت خواں :
سطر 287: سطر 175:
ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت  میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔  دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں  آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر  چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے  دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔
ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت  میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔  دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں  آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر  چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے  دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔
سید منظور الکونین راولپنڈی:  
سید منظور الکونین راولپنڈی:  
 
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا  معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا  معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔  
 
اور ایک بار پروگرام وصال یار یوٹیو چینل کو  'کاروان ِ مدحت"کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا
 
"محمد اعظم چشتی مرحوم و مغفور بلا شبہ پچھلی پوری صدی [20 صدی ] کے  نعت خوانی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔ اور میں بحثیت نعت گو و نعت خواں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہمہ صفت موصوف انسان تھے ۔ ان کی اتنی صفات ہیں کہ اگر احاطہ کیا جائے تو ممکن نہیں ۔ وہ نبض گو شاعر ، ادیب، شاعر، دانشور، فاضل، خطیب، مقرر اور علوم شرقیہ کے فاضل تھے ۔ لوگوں نے ان کی بہت کم حیثیت کو جانا ہے ۔ صرف ایک نعت گو اور نعت خواں سمجھا ہے ۔ میرے نزدیک ایک مکمل عالم دین تھے ۔ اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے انہوں نے اپنے کلام میں محبتوں کے جو موتی بکھیرے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں "


اختر بزمی راولپنڈی :  
اختر بزمی راولپنڈی :  
-آپ نہائت ملنسار شفیق ، خوش طبع خوش اخلاق خوش لباس انسان تھےمیرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ آپ کی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہوگا ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے ۔  یہ پاکستان بننے کے کچھ سالوں بعد کی بات ہے ۔جب اعظم چشتی صاحب راولپنڈی آتے اور میں انہیں جی ٹی ایس کے بس سٹاپ لیا قت باغ  پر خوش آمدید کہتا۔  اُس وقت لیاقت باغ کا نام کمپنی باغ تھا اور یہ راولپنڈی میں بسوں کا واحد اڈہ تھا۔ رات کو اعظم چشتی فون کر دیتے کہ میں لاہور سے چل پڑا ہوں اور آپ صبح 6بجے راولپنڈی پہنچ جاتے جہاں سے میں ٹانگہ لیکر اڈے پر پہنچ جاتا اور آپکو ساتھ لیکر ہماری بزم میلاد کمیٹی راولپنڈی کے سرپرست جناب باو غلام نبی جو کہ ایک تاجر اور عاشق رسول تھے کے گھر لے جاتا جہاں آپ ناشتہ کرتے اور آرام بھی -یہ وہ زمانہ تھا جب محفل نعت دن میں ہوا کرتیں آپ کچھ دیر آرام کرتے اور بعد ازاں محافل میں جاتے اکثر اوقات آپ آستانہ دیول شریف پنڈی اور آستانہ چوڑا شریف اٹک بھی جایا کرتے 
میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ آپ کی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہوگا ۔
 
ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ  لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا  جس کے شاگرد  بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔
ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ  لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا  جس کے شاگرد  بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔


سطر 339: سطر 221:


==== اعزازات ====
==== اعزازات ====
* جناح کیپ کی روایت
* پرائیڈ آف پرفارمنس
* حسان ِ پاکستان کا خطاب
* آواز کے پارکھ


بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔
بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔
سطر 381: سطر 255:
"یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں  حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی  جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔"
"یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں  حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی  جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔"


===== ریڈیو پاکستان، لاہور میں گریہ زاری =====
نعت ورثہ سے اعظم چشتی کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے شاگرد لیاقت حسین گیلانی  جو ریڈیو ٹی وی کے معروف نعت خواں نے بھی ایک دل پذیر واقعہ سنایا۔ انہی کے الفاظ میں پیش خدمت ہے ۔
"یہ کوئی 1970  اور 80 کے بیچ کی بات ہے  جب مجھے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کی سٹوڈیو میں نعت پڑھنی تھی -ریڈیو پاکستان لاہور میں کمرہ نمبر 1 ریہرسل کے لیے مختص تھا جہاں صرف ریہرسل ہوا کرتی -استاد محترم اعظم چشتی صاحب اور معروف نعت خواں و سامعین بھی مدعو تھے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا کم و بیش 100 افراد کے لیے کرسیاں بھی لگائی جاتیں اور انتظامیہ و سامعین کے لیے لنگر کا انتظام بھی ہوتا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان، لاہور پر ایسی محافل نعت منعقد ہوتیں کہ  آج یاد کرکے دل و روح کو تسکین ملتی ہے – پروڈیوسر ظہیر عباس نے مھے اعظم چشتی کی نعت " ایسا کوئی محبوب ہوگا نہ کہیں ہے " دی کہ اسکی ریکارڈنگ ہونی ہے استاد محترم مجھے ریہرسل والے کمرے میں لے آئے اور کہا نعت سناوں مجھے پسینے آ رہے تھے گبھراہٹ بھی تھی بہرحال استاد محترم کے کہنے پر میں نے نعت شریف پڑھنا شروع کی تو انہوں نے آنکھیں بند کرکے بہت انہماک سے مجھے سنا اور ان کی آنکھوں سے چشمے جاری ہوگئے ۔  میں نعت شریف بھی پڑھ  رہا تھا اور استاد محترم کو مسلسل دیکھ بھی رہا تھا اور یہی گبھراہٹ تھی کہ کے اعظم چشتی صاحب کیا کہیں گے -نعت ختم ہوئی تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اعظم چشتی اتنا خوش بخت ہو گیا ہے کہ اسکے شاگرد اتنا خوبصورت کلام پڑھتے ہیں اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔  ماتھا چوما۔  پیار کیا اور کہا کہ اسی طرح سٹوڈیو میں پڑھنا – کچھ ہی دیر بعد مجھے بلایا گیا سٹوڈیو میں کم وبیش 100 کے قریب لوگ جمع تھے جن میں دیگر معروف نعت خواں بھی موجود تھے ۔ میں  مائیک پر پہنچا تو آلاپ کرکے نعت پڑھنا شروع کردی اور اعظم چشتی صاحب نے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اس بار گریہ زاری شروع ہوگئی۔  تمام محفل میں ایک رقعت طاری ہوگئی ہر طرف یہی منظر تھا -نعت ختم ہونے کے بعد اعظم چشتی اور سبھی سامعین نے خوب داد دی اور سب اعظم چشتی کو مبارکیں دے رہے تھے کہ آپکے شاگرد بھی اپکی طرح اعلی نعت شریف پڑھتے ہیں۔  میں بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کچھ ہی دیر بعد آپ میرے پاس آئے اور کہا کہ "لیاقت جتھے توں پڑھے گا اُتھے لوگ اعظم چشتی نوں ضرور یادکرن گئے "یہ بات سچ ثابت ہوئی میں اب بھی کبھی کسی محفل میں جاتا ہوں تو لوگ آواز سن کر آ جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں اعظم چشتی صاحب کی ریکارڈنگ لگائی ہوئی ہے - آپ کمال محبت کرتے اور ہمیشہ نئے آنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی و راہنمائی بھی کرتے"
اب نہ وہ سننے والے رہے نہ ہی ویسے سنانے والے یہ واقعہ بتاتے ہوئے لیاقت حسین گیلانی  اشک بار ہوگئے ۔ انہوں نے  انٹرویو کے دوران بھی  اسی نعت کے اشعار سنائے کمال  محفل ہوگئی  ایسا محسوس ہوا جیسے اعظم چشتی کا فیض پر انوار سیلاب کی طرح امڈ آیا ہو ۔ ایک ہی سانچے میں ڈھلنے والے برتن کم و بیش ایک ہی سے ہوتے ہیں ۔ اعظم چشتی کا انداز ،اسلوب اور فن تا قیامت امر رہے گا
===== ایک مصرعے میں رات =====
پاکستان کے صف ِ اول کے قاری صداقت حسین اعظم چشتی کے یاد گار لمحات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
" اعظم چشتی کمال کے مزاج شناس تھے ۔ سامعین کی دلوں کی تسکین ان کے معیار اور مزاج کے مطابق کرتے ۔ لیکن آج کل کی نعت خوانی کی طرح نہیں کہ عوام کی مزاج پرسی کے لیے نعت کا ادب و احترام ہی پس ِ پشت ڈال دیا جائے ۔ بلکہ اپنے معیار میں سے سامعین کے ذوق کے جواہر لے کر آتے ۔1980  نے ابھی پہلا ہی زینہ چڑھا ہوگا ۔کہ یہ واقعہ رونما ہوا  ۔  عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی نے محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا
"لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا
مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے او کافر اے جنہوں تیرے اتے پیار نئی آیا
ایک کیفیت ایک سماں  بن گیا ہر طرف رقعت و آہ و زاری تھی ۔ گریہ زاری کا ایسا منظر شاید ہی کبھی دیکھا ہو -
===== جونئیرز کی حوصلہ افزائی  =====
نعت خواں خلیفہ  جہانگیر  جو اس وقت 75 سال کے ہیں  بتاتے ہیں کہ میں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا جب لاہور کے بہت بڑے تاجر  ملک معراج دین  نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی جلوہ افروز ہوئے  - کسی مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مقام سے پہلے نعت پڑھی اور بانی محفل سے رخصت لی ۔ ان کے بعد فورا بعد  مجھے مدعو کیا گیا تو  میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پڑھا ۔ دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد  مرحوم صفدر چشتی  تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل  جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جس محفل میں بھی  ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی و رہنمائی فرمائی ۔


===== رسم تاج پوشی =====
===== رسم تاج پوشی =====
سطر 414: سطر 265:


==== مشہور شاگرد ====  
==== مشہور شاگرد ====  
ثناء اللہ بٹ لاہور،
ثناء اللہ بٹ لاہور،عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی  لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل  لاہور، قاری محبوب سلیم گوجرانوالہ، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید ساننوالہ، شیخ غلام نبی، محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد  پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔
 
منظور حسین ناظم، رحیم یار خان
 
عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی  لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل  لاہور، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید سپانوالہ، شیخ غلام نبی ،محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین ،مینر  حسین ہاشمی ملتان،اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر ت پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد  پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔


اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت  سے ضرور مستفید ہوا ۔
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت  سے ضرور مستفید ہوا ۔
سطر 575: سطر 422:
1938ء میں میٹرک پاس کیا  
1938ء میں میٹرک پاس کیا  
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح"  شائع ہوا ۔
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح"  شائع ہوا۔
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر  پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا  
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر  پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا  
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی  
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی  
سطر 582: سطر 429:
1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی  اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔
1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی  اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔
1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
1966ء 3 دسمبر کو بزم فروغ نعت و مناقب [ بانی  ادیب رائے پوری ]  اور نیشنل بنک آف پاکستان کے تحت ہونے والے کل پاکستان مقابلہ حسن نعت میں اول انعام گولڈ ٹرافی حاصل کی ۔ اسی مقابلہ میں پیر محمد فاروق رحمانی نے اپنی طرف سے ایک گولڈ میڈل دیا اور "حسان ِ پاکستان " کا خطاب دیا ۔ [ نعت کائنات ، تسلیم صابری ]
1966ء بزم فروغ نعت و مناقب اور نیشنل بنک آف پاکستان کے تحت ہونے والے مقابلے میں اول انعام
1968 : 15 جون کو "پاکستان نعت کونسل [ بانی و سرپرست جناب ادیب رائے پوری ] اور یونائیٹڈ بنک کے زیر اہتمام کل پاکستان مقابلہ حسن نعت میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈ میڈل دیا گیا [  عشق حسان ، فروغ عشق حسان کونسل ، کراچی ، 1990، ص  23] اور یونائیٹڈ بنک کی طرف سے خانہ کعبہ کا سونے کا ماڈل پیش کیا گیا ۔ [ تسلیم صابری، پروگرام نعت کائنات، QTV ]
1968ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام نیشنل بنک آف پاکستان پہلا انعام گولڈ ٹرافی حاصل کی جس پر خانہ کعبہ و گنبدِ خضرا کندہ تھا، اس محفل کی صدارت نیشنل بینک کے صدر سید دربار علی شاہ نے کی۔
1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔
1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔
1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1970ء "پاکستان نعت کونسل، کراچی " [ بانی ادیب رائے پوری ] کی سر پرستی قبول کی ۔
1970ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام پاکستان نعت کونسل جس کے بانی و سرپرست جناب ادیب رائے پوری تھے، مقابلہ میں آپ کو اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔
1970ء  رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔
1970ء  رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔
1974ء  حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی ۔
1974ء  حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی۔
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔
سطر 635: سطر 482:
زمانے  کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی،  دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور  کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔  دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ  ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و  کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو  ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں  اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔  
زمانے  کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی،  دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور  کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔  دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ  ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و  کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو  ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں  اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔  


جن لوگوں نے اعظم چشتی کو براہ راست سنا ان میں سے بس چند ایک حیات ہیں ۔ نئی نسل تک اعظم چشتی کا نام اور کام پہنچانے کے لیے کتابوں، ڈیجیٹل لائبریریوں  اور سوشل میڈیا کا سہارا ہی لینا ہوگا ۔ ہم اس سیکشن میں اس حقیقت کا جائزہ لیں گے کہ سوشل میڈیا پر "محمد اعظم چشتی " کے بارے کتنی جانکاری موجود ہے ۔  
ہم اس سیکشن میں اس حقیقت کا جائزہ لیں گے کہ سوشل میڈیا پر "محمد اعظم چشتی " کے بارے کتنی جانکاری موجود ہے ۔  


===== فیس بک =====
===== فیس بک =====
سطر 649: سطر 496:


https://www.facebook.com/MAzamChishti/
https://www.facebook.com/MAzamChishti/
===== یوٹیوب =====
یو ٹیوب پر اعظم چشتی کی نعتوں کا یک خزانہ موجود ہے ۔  اور نعتوں کے علاوہ  ایک بہت اہم تبرک  "اعظم چشتی " کے PTV  پر کرائے ہوئے اپنے تعارف کی ایک منٹ کی وڈیو ہے ۔ [ حوالہ : https://www.youtube.com/watch?v=yldczSwkYKw ]۔ اسی وڈیو میں ان کی PTV  پر پہلی پڑھی ہوئی نعت مبارکہ " ایسا کوئی محبوب ہوا ہے نہ کہیں ہے " کا ایک چھوٹا سا کلپ بھی ہے ۔


==== نعت خوانی میں مشہور کلام ====
==== نعت خوانی میں مشہور کلام ====
سطر 658: سطر 501:
===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے =====
===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے =====


رنگ و بو
رنگ و بو  
 
 
===== ترا کرم جو شہ ِ ذی وقار ہو جائے =====
 
===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد =====
===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد =====


سطر 917: سطر 756:
اوہ سانوں وی کر دے عطا کملی والے
اوہ سانوں وی کر دے عطا کملی والے
                           محمد اعظمؔ چشتی
                           محمد اعظمؔ چشتی
===== جے چمکے میری قسمت دا ستارا یار سول اللہ =====
===== کسی کو کچھ نہیں ملتا تری عطا کے بغیر =====
===== اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب =====
"اےخاور حجاز کے رخشندہ آفتاب"
روشنتمہارے نور سے ہے انجمن تمام
جاناںترے ظہور مقدس کے ساتھ ساتھ
طےہو گئے مراحل تکمیل فن تمام
کچھکچھ کبھی کبھی نظرا آیا کہیں کہیں
پایاہے کس نے دہر میں یہ بانکپن تمام
گذراہے جس طرف سے تیرا کاروان فیض
بکھراگیا ہے راہ مین مشک ختن تمام
جسزیر کی میں تیرے تععلق کی بو نہیں
وہزیر کی ہے اصل میں دیوانہ پن تمام
بخشیہے کنکروں کو اگر لذت سخن
دھویاہے شاعروں کا غرور سخن تمام
عصرجدید ہی تری چوکھٹ پہ خم نہیں
پردرد ہے تجھ سے دامن عہد کہن تمام
رومیہو شاذلی ہو غزالی کہ کلیری
سیکھےہیں دلبری کے تجھی سے چلن تمام
ابھرےہیں تیرے نقش کف پا کو چوم کر
شیریںسخن، بہار پھبن، گلبدن تمام


====نعت گوئی میں مشہور کلام ====
====نعت گوئی میں مشہور کلام ====
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)