"دلاور علی آزر کی نعتیں ۔ فروغ نعت شمارہ 15" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 333: سطر 333:




ہَوائے شہرِ محبت اُڑا کے لے جائے
ہَوائے شہرِ محبت اُڑا کے لے جائے


سُراغ دیتی ہُوئی گِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
سُراغ دیتی ہُوئی گِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
سطر 346: سطر 346:


دعا کی آخری منزِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
دعا کی آخری منزِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


==== سُخن کے باب میں رحمت نزول ہوگئ تھی ====
==== سُخن کے باب میں رحمت نزول ہوگئ تھی ====

نسخہ بمطابق 12:29، 22 ستمبر 2017ء


دھڑکتا دل لا کے میرے سینے میں اُس نے رکھا

دھڑکتا دل لا کے میرے سینے میں اُس نے رکھا

پھر اِس کی دھڑکن کو خود مدینے میں اُس نے رکھا


بہَم کیے خاک و نور اُس نے اِک آئینے میں

تضاد مَرنے میں اور جینے میں اُس نے رکھا


مِری نگاہوں کو سبزِ گُنبد کا خواب دے کر

مِری محبت کو آبگینے میں اُس نے رکھا


یہ آنکھ وہ ہے کہ جس کو بخشا ہے نور اُس نے

یہ وہ سَمُندَر ہے جو سفینے میں اُس نے رکھا


عجب وہ ہستی ہے جو اُتاری گئی لحَد میں

عجب خزانہ ہے جو دفینے میں اُس نے رکھا


ازَل سے لے کر ابَد کی حد پر مُحیط ہے وہ

جو دُکھ محرم کے اِک مہینے میں اُس نے رکھا


اُسی سے سارا جہاں معطر ہُوا ہے آزَر

جو عطر سرکار کے پسینے میں اُس نے رکھا


خواہشِ خواب دیدہ اُن کے حضور

خواہشِ خواب دیدہ اُن کے حضور

سب سے پہلا قصیدہ اُن کے حضور


ایسی حالت میں کوئی کیا مانگے

مَیں ہوں دامن دریدہ اُن کے حضور


یہ جو عالم ہے شاہ ذادوں کا

شاہ زادے خمیدہ اُن کے حضور


مَیں سُناؤں اگر ہو اذنِ کلام

داستاں چیدہ چیدہ اُن کے حضور


نعت منظور ہو کے آئی ہے

یہ نوشتہ ہے دیدہ اُن کے حضور


آئے پیغام جو کبھی اُن کا

جاؤں میں‌ پا بُریدہ اُن کے حضور


لے کے جائیں گے جامی و آزر

اپنا اپنا قصیدہ اُں کے حضور


بخشا ہے اُس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے

بخشا ہے اُس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے

حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی نکتہ چیں مجھے


جو کچھ مِلا حضور کے صدقے سے ہے مِلا

اور جو نہیں ہے اُس کی ضرورت نہیں مجھے


میرے لبوں کی پیاس ہے اُن جالیوں کا لمس

مِل جائے تو قبول دم ِ آخریں مجھے


یہ سوچ کر ہے کپکپی طاری وجود پر

دیکھے گا کس نگاہ سے ماہِ مبیں مجھے


سستا رہا ہوں گنبدِ خضرا کے سائے میں

کہہ دو نہیں ہے حاجتِ خلدِ بریں مجھے


مَیں آگیا ہو آپ کے در پر بصد خلوص

اب آپنے آپ سے کوئی خطرہ نہیں مجھے


آزَر نہ کہہ سکوں گا قصیدہ حضور کا

کہنے کا لاکھ شوق ہے اپنے تئیں مجھے


بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم

بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم

اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم


جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کُھلتی

اُس پر کہاں کُھل پاتا ہے اَسرارِ دو عالم


آکر یہاں مِلتے ہیں چراغ اور ستارہ

لگتا ہے اِسی غار میں دربارِ دو عالم


وہ آنکھ بنی زاویہء محورِ تخلیق

وہ زُلف ہوئی حلقہء پرکارِ دو عالم


سرکار کی آمد پہ کُھلا منظرِ ہستی

آئینہ ہوئے یوں در و دیوارِ دو عالم


جُز اِس کے سرِ لوحِ ازَل کچھ بھی نہیں تھا

تجھ اِسم پہ رکھے گئے آثارِ دو عالم


یہ خاک اُسی نور سے مِل کر ہوئی روشن

یوں شکل بنی شکلِ طرح دارِ دو عالم


آہستہ روی پر تِری قربان سبک پا

اے راہبرِ گردشِ سیارِ دو عالم


توقیر بڑھائی گئی افلاک و زمیں کی

پہنائی گئی آپ کو دستارِ دو عالم


ہَر نقش ہے اس پیکرِ ذی شاں کا مکمل

آزَر یہی شہکار ہے شہکارِ دو عالم


کس کی ہے مجال اِتنی لکھے اُن کا قصیدہ

کس کی ہے مجال اِتنی لکھے اُن کا قصیدہ

کاغذ کےحوالے کیےمَیں نے دل ودیدہ


دل ہی میں دمکتا ہے رخِ ماہِ منور

آئنوں سے ہوتا نہیں یہ عکس کشیدہ


جس پر نہیں کُھل پاتی رہِ سمتِ مدینہ

آنکھو پہ مَلے نقشِ کفِ پا کا ملیدہ


اے کاش کے آئے مجھے پیغام وہاں سے

اے کاش پہنچ جائے مری آہِ تپیدہ


سب میرے سخن ہی پہ نظر رکھے ہوئے ہیں

پڑھتا ہے کہیں کوئی میرے دل کا جریدہ


یہ بارگہِ شاہِ امم ہے علی آزَر

نظریں بھی خمیدہ ہیں یہاں سر بھی خمیدہ

جب تک تِرے روضے پہ نظَر رکھے رہیں گے

جب تک تِرے روضے پہ نظَر رکھے رہیں گے

ہم دیکھتے رہنے کا ہنَر رکھے رہیں گے


وہ کربل و کوفہ ہوں ، مدینہ ہو حرم ہو

سرکار جدھر رکھیں اُدَھر رکھے رہیں گے


ہم پڑھتے رہیں گے تِرا پیغامِ محبت

صفحوں میں یونہی مور کے پَر رکھے رہیں گے


راہوں میں تِری نور کا پیمان رہے گا

قدموں میں تِرے شمس و قمَر رکھے رہیں گے


یہ لوگ تِرے چاہنے والے شہِ لولاک

یہ لوگ زمانوں سے اِدَھر رکھے رہیں گے


دنیا میں بھی وہ خیر خبر رکھے ہوئے ہیں

محشر میں بھی وہ ہم پہ نظَر رکھے رہیں گے


اک روز پہنچ جائیں گے تجھ در پہ یقیناً

آنکھوں پہ تِری راہگُذر رکھے رہیں گے


آزر مِرے آقا ہوئے تخلیق کا موجب

آفاق اِسی دہلیز پہ سَر رکھے رہیں گے


جمال و حسنِ رخِ یار جب شدید ہوا

جمال و حسنِ رخِ یار جب شدید ہوا

یہ آئنہ اُسے تکتے ہوئے شہید ہوا


وگرنہ منزلیں مستور ہونے والی تھیں

مسافروں کو تِرا نقشِ پا مفید ہوا


تِرے غیاب سے ابھرا ستارہءِ سحری

تو سانس لیتی ہوئی صبح میں فرید ہوا


کھڑے تھے لوگ وہاں مال و زر کے تھال لیے

مگر مَیں جنبشِ یک چشم پر خرید ہوا


تمام لفظ علامت کےدرپئے جاں تھے

جو نا شنید تھا بارے وہی شنید ہُوا


لکیر میر نے آواز میں بدل دی تھی

علی کے لحن میں ڈھل کر سخن جدید ہُوا


مدت سے مَیں ہوں منتظرِ خاکِ مدینہ

مدت سے مَیں ہوں منتظرِ خاکِ مدینہ

پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ


سرسبز رہا ، آپ سے نسبت رہی جس کو

اور خاک ہُوا کینہ ورِ خاکِ مدینہ


مجھ کو اُسی مٹی ہی میں تدفین کیا جائے

کھُلتا ہے اگر مجھ پہ درِ خاکِ مدینہ


پوچھیں گے کہ یہ خاک ہُوئی کیمیا کیسے

ہُوگا کوئی صاحِب نظرِ خاکِ مدینہ


مَیں بھی تو اِسی چاک پہ موجود ہوں کب سے

مجھ کو بھی بنا کوزہ گرِ خاکِ مدینہ


قربان میں اُس آمد ِ خوش رنگ پہ آزَر

کیا پھول کھلائے ہیں سرِ خاکِ مدینہ


درود پڑھتے ہُوئے دِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں

درود پڑھتے ہُوئے دِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں

حضور دیکھیے اِس سِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


ازَل سے آپ کی محفل سجائی جاتی ہے

ازَل سے آپ کی محفل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


بعید کیا ہے مِری خاک بھی چمَک اُٹھے

کہ اُس چراغ کی جِھلمِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


فقط یہ آنکھ نہیں اُن کی دید کو بے تاب

وفورِ جذب سے مُشکِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


ہَوائے شہرِ محبت اُڑا کے لے جائے

سُراغ دیتی ہُوئی گِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


مِلا نہ اذن مدینے میں حاضری کا اگر

کروں گا کیا کہ عنادِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں


قبولیت کی گھڑی کا ہے انتظار آزَر

دعا کی آخری منزِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں

سُخن کے باب میں رحمت نزول ہوگئ تھی

سُخن کے باب میں رحمت نزول ہوگئ تھی

یہ نعت لکھنے سے پہلے قبول ہوگئی تھی


ہمیں یہ حکم مِلا تھا دعائیں دو سب کو

ہمیں بتایا گیا تھا جو بھول ہوگئی تھی


تمام آنکھیں منور تھی اُن کی آمد پر

ہماری دید کی دُنیا رسول ہوگئی تھی


سبھی کو نور کا پیکر دکھائی دے رہا تھا

کہ روشنی ہی ہمارا حصول ہوگئی تھی


ابھی ابھی میں مدینے سے ہو کے آیا ہوں

ابھی ابھی مِری خواہش قبول ہوگئی تھی


بکھر رہے تھے سبھی خواب اور خوشبوئیں

چراغ کانپ رہا تھا کہ بھول ہوگئی تھی


کیا تھا ذکر کبھی مَیں نے اُس پسینے کا

اَک ایک لفظ میں خوشبو حلول ہوگئی تھی


اِسی لیے تو بچی ہے یہ کائنات آزَر

مِرے حضور کے قدموں کی دھول ہوگئی تھی


دیکھ آئنہ تمثال جبیں دیکھنے والے

دیکھ آئنہ تمثال جبیں دیکھنے والے

گُم ہُوگئے حیرت کے تئیں دیکھنے والے


کس طرح کسی اور کو مسند پہ بٹھائیں

اِس دل پہ انہیں تخت نشیں دیکھنے والے


ہم دیکھنے آئے ہیں مکینوں کا سراپا

دیوار و در و بام نہیں دیکھنے والے


تجھ پر تو عیاں ہُوگی یہ دیدار کی خواہش

اے دیکھنے والوں کے امیں دیکھنے والے


کیا سوچیں تری سوچ میں ڈوبے ہوئے عشاق

کیا دیکھیں رخِ ماہِ مبیں دیکھنے والے


مَیں نے تو کبھی پردہ گرا کر نہیں دیکھا

ظالم ہیں اُنہیں پردہ نشیں دیکھنے والے


اِن خستہ مکانوں کو حقارت سے نہ دیکھو

رہتے ہیں مکانوں میں مکیں دیکھنے والے


حسرت ہے کوئی روز اِدھر بھی نکل آئیں

کچھ اور بھی دیکھیں یہ زمیں دکھنے والے


سرکار نے مدحت کے لیے ہم کو چنا ہے

ہم لوگ ہیں لفظوں کو نگیں دیکھنے والے

لے جائے جو قسمت سوئے املاکِ مدینہ

لے جائے جو قسمت سوئے املاکِ مدینہ

پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ


بوسیدہ ہُوا جاتا ہے یہ جسم بہر طور

سرکار مجھے چاہیے پوشاکِ مدینہ


اِک تار بلاوے کا اِدھر دستِ رفو گر

سی دیجئے یہ خواہشِ صد چاکِ مدینہ


اسبابِ سفر ساتھ ہی رکھنا ہے مناسب

پیغام بھی آ سکتا ہے عشاقِ مدینہ


قدموں سے لپٹتا شہہ ِ لولاک تمہارے

اے کاش مَیں ہُوتا خس و خاشاکِ مدینہ


اِک عرض گُذاری ہے جو منظور ہو آزَر

نا چیز بھی دیکھ آئے کبھی جا کے مدینہ

سلامکچھ بھی نہیں فرات ہماری نگاہ میں

سلامکچھ بھی نہیں فرات ہماری نگاہ میں

پانی کا شور دَب گیا مِٹی کی آہ میں


اِک روشنی چلی تھی اندھیرے کے بیچ و بیچ

اِک فیصلہ ہُوا تھا سپید و سیاہ میں


آنکھوں سے اب گُذرتے ہیں اشکوں کے قافلے

موتی پِرو دیے ہیں کسی نے نگاہ میں


کیسے یہ جاں کَنی کا سفَر طے ہو زندگی

پڑتی ہے کربَلا ہمیں جنت کی راہ میں


نا حق و حق دست و گریبان ہیں مگر

اُٹھتا نہیں ہے آج کوئی حُر سپاہ میں


اول سے مجھ فقیر پہ اُن کا کرم رہا

مَیں گھوم گھام کر نہ گیا بزمِ شاہ میں


خیمے سے چل پڑی ہے یہ معصوم بے رِدا

رکھے خدا سکینہ کو اپنی پناہ میں


فرست مِلے جو شَر سے تو ماتم کدے میں بیٹھ

تجھ پر بھی اصلِ چہرہ کُھلے رزم گاہ میں


تجھ یاد کی ہَوا نے ہی کاڑھے بدن پہ پھول

گھیرے ہوئے تھے جسم کو کِتنے ہی واہمے


صحرا نے اپنی آگ بجھائی ہے خون سے

مشکیزہ کیوں اُلٹ گیا پیاسوں کی راہ میں


اے آسماں تو اب بھی ہو نالاں تو کیا کریں

ہم جیسا کوئی ایک تو لا کر دکھا ہمیں


آنکھوں کو سرخ دیکھ کے حیراں ہو کس لیے

رکھا گیا ہے رنج ہماری کلاہ میں


صد شکر مدحتِ شہِ اول ہوئی نصیب

ورنہ میں پہلا فرد تھا فردِ سیاہ میں


مَیں نے کِیا قصیدہ بہ نامِ علی رقَم

آزَر مجھے بھی لے چلیں اُس بارگاہ میں


فروغ نعت ۔ شمارہ 15