آپ «دبستان نو ۔ ریاض حسین چوہدری» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 1: | سطر 1: | ||
’’دبستانِ نو‘‘ ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے‘‘۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے اور تفصیل سے [[ریاض حسین چودھری]] کے شعری محاسن کا جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔‘‘ شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں: ’’ریاض حسین چودھری کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ نعتِ معرّیٰ کا ایسا فن پارہ ہے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں ۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنایاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے ، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ بھی ردیف و قافیہ ار دیگر شعری پابندیوں کو گرانے کا نام ہے ۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔ ‘‘ <ref>[http://www.riaznaat.com/bookid/11/ دبستان نو (2016) ]</ref> | ’’دبستانِ نو‘‘ ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے‘‘۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے اور تفصیل سے [[ریاض حسین چودھری]] کے شعری محاسن کا جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔‘‘ شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں: ’’ریاض حسین چودھری کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ نعتِ معرّیٰ کا ایسا فن پارہ ہے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں ۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنایاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے ، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ بھی ردیف و قافیہ ار دیگر شعری پابندیوں کو گرانے کا نام ہے ۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔ ‘‘ <ref>[http://www.riaznaat.com/bookid/11/ دبستان نو (2016) ]</ref> | ||
{{سانچہ:ریاض}} | {{سانچہ:ریاض}} | ||
== حوالہ جات == | |||