آپ «خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری - الحاج سید مفیض الدین قادری» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:  Dabastan_e_naat.jpg | دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
الحاج سید محمد مفیض الدین قادری ( شاہ جہاں پور )


مضمون نگار: [[محمد مفیض الدین | الحاج سید محمد مفیض الدین قادری ( شاہ جہاں پور )]]
خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری  
 
مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
 
{{بسم اللہ }}
 
=== خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری ===


نعت بڑی ہی نازک صنف ہے اور نعت گوئی کا شرف اللہ تعالیٰ سب کو عطا نہیں کرتا بلکہ جس پر اللہ ربّ العزت کا خاص کرم ہوتا ہے وہی نعتیہ شاعری کر سکتا ہے۔ عربی میں ’’نعت ‘‘ کے معنی توصیف و تمجیداور تعریف و بزرگی کے ہیں۔ عام طور پر لفظ نعت جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف کے لئے بولا جاتا ہے۔ حضرت حسان ، حضرت کعب ، حضرت ابنِ رواحہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نعتیہ اشعار بہت مشہور ہیں۔ صحابہ سے لیکر تا ایں دم تما م اہلِ ایمان حسب توفیق جناب رسول رسول اکرم ﷺ کی شان بیان کرتے آئے ہیں جس کا اظہار کبھی نعت کے اشعار کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی نثر کی عبارت کی صورت میں اور کیوں نہ ہو جبکہ آںحضور ﷺ سے عقیدت و محبت جزوِ ایمان ہے۔اہلِ ایمان کا نبی مکرم ﷺ کے ساتھ تعلق ر وحانی ہے لہٰذہ آپ کی مدح و توصیف ایمان و ایقان اور محبت قلبی کا تقاضہ ہے اور یہی ایمان کی افزودگی اور معراجِ کمالِ مومن ہے۔آں حضور ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے لاَ یُومِنُ اَحَدَکُم حَتیٰ اَکُونَ اَحَبّ اِلَیۃ مِن وَالِدِہٖ و َ وَلَدِہِ وَ الّناسِ اَجمَعیِن۔ یعنی تم میں سے اُس وقت تک کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اس کے بیٹے اور تمام لو گوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
نعت بڑی ہی نازک صنف ہے اور نعت گوئی کا شرف اللہ تعالیٰ سب کو عطا نہیں کرتا بلکہ جس پر اللہ ربّ العزت کا خاص کرم ہوتا ہے وہی نعتیہ شاعری کر سکتا ہے۔ عربی میں ’’نعت ‘‘ کے معنی توصیف و تمجیداور تعریف و بزرگی کے ہیں۔ عام طور پر لفظ نعت جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف کے لئے بولا جاتا ہے۔ حضرت حسان ، حضرت کعب ، حضرت ابنِ رواحہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نعتیہ اشعار بہت مشہور ہیں۔ صحابہ سے لیکر تا ایں دم تما م اہلِ ایمان حسب توفیق جناب رسول رسول اکرم ﷺ کی شان بیان کرتے آئے ہیں جس کا اظہار کبھی نعت کے اشعار کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی نثر کی عبارت کی صورت میں اور کیوں نہ ہو جبکہ آںحضور ﷺ سے عقیدت و محبت جزوِ ایمان ہے۔اہلِ ایمان کا نبی مکرم ﷺ کے ساتھ تعلق ر وحانی ہے لہٰذہ آپ کی مدح و توصیف ایمان و ایقان اور محبت قلبی کا تقاضہ ہے اور یہی ایمان کی افزودگی اور معراجِ کمالِ مومن ہے۔آں حضور ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے لاَ یُومِنُ اَحَدَکُم حَتیٰ اَکُونَ اَحَبّ اِلَیۃ مِن وَالِدِہٖ و َ وَلَدِہِ وَ الّناسِ اَجمَعیِن۔ یعنی تم میں سے اُس وقت تک کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اس کے بیٹے اور تمام لو گوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
سطر 30: سطر 24:


نعت گوئی رسول کریم ﷺ سے انتہائی قلبی تعلق اور بے پناہ محبت کی طالب و متاقاضی ہے اس میں سرشاری و سر مستی کے ساتھ شعور و ادراک کی ہم سفری بھی نہایت ضروری ہے۔ نعت کہنے والے جس شاعر کو یہ سب چیزیں ودیعت ہوئی ہوں وہی کامیاب نعت گو ہو سکتا ہے۔ المختصر ذیل کے مضمون میں ہم خانوادہ ٔ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیں گے۔  
نعت گوئی رسول کریم ﷺ سے انتہائی قلبی تعلق اور بے پناہ محبت کی طالب و متاقاضی ہے اس میں سرشاری و سر مستی کے ساتھ شعور و ادراک کی ہم سفری بھی نہایت ضروری ہے۔ نعت کہنے والے جس شاعر کو یہ سب چیزیں ودیعت ہوئی ہوں وہی کامیاب نعت گو ہو سکتا ہے۔ المختصر ذیل کے مضمون میں ہم خانوادہ ٔ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیں گے۔  
{{ ٹکر 2 }}
 
تعارف خانوادہ ٔ قادری:
تعارف خانوادہ ٔ قادری:


سطر 48: سطر 42:


حضرت یعقوب ؔ کے چار دیوان اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہیں (۱) دھڑکنیں مطبوعہ ۱۹۶۵؁ء (۲) سازِ دل( مجموعہ قطعات و رباعیات ) مطبوعہ ۱۹۷۲؁ء (۳) لمحہ لمحہ آگہی ( اردو اکیڈمی۔ لکھنؤ سے انعام یافتہ ) مطبوعہ ۲۰۱۰؁ء (۴) قصرِ جاں مطبوعہ ۲۰۱۵؁ء  
حضرت یعقوب ؔ کے چار دیوان اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہیں (۱) دھڑکنیں مطبوعہ ۱۹۶۵؁ء (۲) سازِ دل( مجموعہ قطعات و رباعیات ) مطبوعہ ۱۹۷۲؁ء (۳) لمحہ لمحہ آگہی ( اردو اکیڈمی۔ لکھنؤ سے انعام یافتہ ) مطبوعہ ۲۰۱۰؁ء (۴) قصرِ جاں مطبوعہ ۲۰۱۵؁ء  
{{ ٹکر 3 }}
 
جہاں آپ نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے وہیں آپ بہترین نعت گو شاعر بھی ہیں۔ علم الحساب میں ۹۲؍کا عدد کائنات عالم کی ہر شئے میں دیکھ کر آپ نے فرمایا۔  ؎  
جہاں آپ نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے وہیں آپ بہترین نعت گو شاعر بھی ہیں۔ علم الحساب میں ۹۲؍کا عدد کائنات عالم کی ہر شئے میں دیکھ کر آپ نے فرمایا۔  ؎  


سطر 105: سطر 99:


آپ کی یہ مشہور نعت آج بھی خاص و عام کی زباں پر ہے۔ cce Pattern کی منظور شدہ کتاب ماہ ِ اردو ( مصنف راقم الحروف ) درجہ چہارم میں یہ نعت داخلِ نصاب ہے۔ المختصر آج دنیا میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ آپ ﷺ ہی کا صدقہ ہے۔ حدیثِ قدسی ہے۔  
آپ کی یہ مشہور نعت آج بھی خاص و عام کی زباں پر ہے۔ cce Pattern کی منظور شدہ کتاب ماہ ِ اردو ( مصنف راقم الحروف ) درجہ چہارم میں یہ نعت داخلِ نصاب ہے۔ المختصر آج دنیا میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ آپ ﷺ ہی کا صدقہ ہے۔ حدیثِ قدسی ہے۔  
{{ ٹکر 4 }}
 
’’ آگر آپ کی ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ‘‘ پوری نعت اسی مضمون کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیاں میں جہاں جائیں ہر طرف ہر چیز میں آپ کی رحمت کی نشانیاں ملیں گی۔
’’ آگر آپ کی ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ‘‘ پوری نعت اسی مضمون کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیاں میں جہاں جائیں ہر طرف ہر چیز میں آپ کی رحمت کی نشانیاں ملیں گی۔


سطر 153: سطر 147:


آپ ۱۹۶۱؁ء میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ کراچی میں عائشہ باوانی ڈگری کالج میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو ، ہندی ، سنسکرت ، انگلش وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو اپنے بھائی سید محمد معزالدین قادری شاہ جہاں پوری سے سلسلہ عالیہ، قادریہ، بشیریہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی۔ پروفیسر سید محمد ظہیر الدین قادری کوثر ؔ شاہ جہاں پوری کے مجموعہ کلام ’’ ارمغان سخن ‘‘ میں پروفیسر یٰسین خان بہارؔ استاذ شعبہ ٔ اردو لندن کالج آف آرٹس مینجمنٹ ، کرچی پاکستان لکھتے ہیں:-  
آپ ۱۹۶۱؁ء میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ کراچی میں عائشہ باوانی ڈگری کالج میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو ، ہندی ، سنسکرت ، انگلش وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو اپنے بھائی سید محمد معزالدین قادری شاہ جہاں پوری سے سلسلہ عالیہ، قادریہ، بشیریہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی۔ پروفیسر سید محمد ظہیر الدین قادری کوثر ؔ شاہ جہاں پوری کے مجموعہ کلام ’’ ارمغان سخن ‘‘ میں پروفیسر یٰسین خان بہارؔ استاذ شعبہ ٔ اردو لندن کالج آف آرٹس مینجمنٹ ، کرچی پاکستان لکھتے ہیں:-  
{{ ٹکر 5 }}
 
’’کوثر ؔ صاحب نے آفتاب علم و دانش اور مہر زہد و تقویٰ کی روشنی میں آنکھ کھولی ہے۔ ان ضیا پاشیوں کے بہت کچھ اثرات ان کی ذات ، ان کی فکری دھارے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر حاوی نظر آتے ہیں۔ معلمی کا شعبہ ان کی میراث ہے اور شاعری ان کا تقاضائے فطر ت، شاعری اور ادب کی دنیا میں وہ ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں مختلف زبانوں کے شعر و ادب کو انہوں نے تعمق نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس لئے ان کی فکر میں گہرائی اور لہجے میں ایک دل کش توازن و متانت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے شعری خیالات تصوف کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔اس لئے کہ عشق الٰہی اور تصوف ان کے خانوادہ کی میراث و متاع ِ حیات بھی ہے۔ کوثر ؔ صاحب کی جڑیں اپنے ماضی میں بہت گہری ہیں۔ وہ اپنے آبا و اجداد کے طرقِ زندگی ، ان کے علمی شغف اور ان کی راستبازی کے مقلد و مویّد ہیں بلکہ ان پر اپنے بزرگوں کی رسم عبودیت کے اثرات بھی پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ‘‘  
’’کوثر ؔ صاحب نے آفتاب علم و دانش اور مہر زہد و تقویٰ کی روشنی میں آنکھ کھولی ہے۔ ان ضیا پاشیوں کے بہت کچھ اثرات ان کی ذات ، ان کی فکری دھارے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر حاوی نظر آتے ہیں۔ معلمی کا شعبہ ان کی میراث ہے اور شاعری ان کا تقاضائے فطر ت، شاعری اور ادب کی دنیا میں وہ ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں مختلف زبانوں کے شعر و ادب کو انہوں نے تعمق نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس لئے ان کی فکر میں گہرائی اور لہجے میں ایک دل کش توازن و متانت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے شعری خیالات تصوف کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔اس لئے کہ عشق الٰہی اور تصوف ان کے خانوادہ کی میراث و متاع ِ حیات بھی ہے۔ کوثر ؔ صاحب کی جڑیں اپنے ماضی میں بہت گہری ہیں۔ وہ اپنے آبا و اجداد کے طرقِ زندگی ، ان کے علمی شغف اور ان کی راستبازی کے مقلد و مویّد ہیں بلکہ ان پر اپنے بزرگوں کی رسم عبودیت کے اثرات بھی پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ‘‘  


سطر 199: سطر 193:


عرب کیا عالم انسانیت کے آپ رہبر ہیں  
عرب کیا عالم انسانیت کے آپ رہبر ہیں  
{{ ٹکر 6 }}
 
اس میں کوئی شک نہی کہ حضرت کوثرؔ شاہ جہاں پوری کا دل عشق رسول ﷺ سے سرشار ہے۔ ان اشعار میں عشقِ رسول کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چند اشعار آپ بھی پڑھیئے۔  ؎  
اس میں کوئی شک نہی کہ حضرت کوثرؔ شاہ جہاں پوری کا دل عشق رسول ﷺ سے سرشار ہے۔ ان اشعار میں عشقِ رسول کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چند اشعار آپ بھی پڑھیئے۔  ؎  


سطر 231: سطر 225:


دل کو سکوں تو آپ کی چشمِ کرم میں ہے
دل کو سکوں تو آپ کی چشمِ کرم میں ہے
{{ ٹکر 7 }}
 
آنحضرت ﷺ کی مکمل زندگی ایک لفظ رحمت کی تفسیر ہے۔ اور رحمت کا حقیقی مفہوم اگر کہیں بتمام و کمال ادا ہو اہے تو وہ آں حضرت ﷺ ہی کی پاک زندگی ہے جو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ٔہدایت ہے۔ حضرت والد ماجد کا یہ شعر اس کا ضامن ہے ۔  ؎
آنحضرت ﷺ کی مکمل زندگی ایک لفظ رحمت کی تفسیر ہے۔ اور رحمت کا حقیقی مفہوم اگر کہیں بتمام و کمال ادا ہو اہے تو وہ آں حضرت ﷺ ہی کی پاک زندگی ہے جو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ٔہدایت ہے۔ حضرت والد ماجد کا یہ شعر اس کا ضامن ہے ۔  ؎


سطر 266: سطر 260:


سرخی بڑھا رہا ہوں میں کچھ غم کے باب میں  
سرخی بڑھا رہا ہوں میں کچھ غم کے باب میں  
{{ ٹکر 8 }}
 
حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکت عالی صفات تمام اخلاق و خصائل صفاتِ جمال میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی کریم ﷺ کو حاصل ہیں۔ تمام انبیأ و مرسلین آپ کے آفتاب کمال کے چاند اور انوار جمال کے مظہر ہیں۔ حضرت کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔  ؎
حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکت عالی صفات تمام اخلاق و خصائل صفاتِ جمال میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی کریم ﷺ کو حاصل ہیں۔ تمام انبیأ و مرسلین آپ کے آفتاب کمال کے چاند اور انوار جمال کے مظہر ہیں۔ حضرت کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔  ؎


سطر 303: سطر 297:


کہ جو اس دور کی شائستگی سے ہو نہیں سکتا  
کہ جو اس دور کی شائستگی سے ہو نہیں سکتا  
{{ ٹکر 9 }}
 
حضرت ظفرؔ شاہ جہاں پوری کے کلام میں اکثر وبیشتر جو ایک خوبی نظر آتی ہے وہ ان کے واردات قلبی کی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔  ؎
حضرت ظفرؔ شاہ جہاں پوری کے کلام میں اکثر وبیشتر جو ایک خوبی نظر آتی ہے وہ ان کے واردات قلبی کی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔  ؎


سطر 337: سطر 331:


یہ دوری اب نہیں مجھ گوارا یا رسول اللہ  
یہ دوری اب نہیں مجھ گوارا یا رسول اللہ  
{{ ٹکر 1 }}
 
ظفرؔ صاحب کے یہ اشعار ان کے پختہ عزم و حوصلہ کی سچی اور صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ جو عشقِ رسول ﷺ کی دلیل ہیں۔ فرماتے ہیں۔  ؎
ظفرؔ صاحب کے یہ اشعار ان کے پختہ عزم و حوصلہ کی سچی اور صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ جو عشقِ رسول ﷺ کی دلیل ہیں۔ فرماتے ہیں۔  ؎


سطر 360: سطر 354:


دکھا دو اب ظفرؔ کوبھی نظارہ یا رسول اللہ
دکھا دو اب ظفرؔ کوبھی نظارہ یا رسول اللہ
== مزید دیکھیے ===
{{ٹکر 1 }}
{{بکس مضامین}}
{{باکس 1 }}
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)