"حضرت محسنؔ کاکوروی۔ اُردو کے باکمال قصیدہ گو اور مثنوی نگار شاعر" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 10: سطر 10:
(۱)گلدستۂ رحمت(۲)ابیاتِ نعت(۳)مدیحِ خیر المرسلین(۴)نظمِ دل افروز(۴)انیٖسِ آخرت
(۱)گلدستۂ رحمت(۲)ابیاتِ نعت(۳)مدیحِ خیر المرسلین(۴)نظمِ دل افروز(۴)انیٖسِ آخرت


=====مثنویات ====
====مثنویات ====


(۱)صبحِ تجلّی(۲)چراغِ کعبہ(۳)شفاعت و نجات(۴)فغانِ محسنؔ (۵)نگارستانِ الفت
(۱)صبحِ تجلّی(۲)چراغِ کعبہ(۳)شفاعت و نجات(۴)فغانِ محسنؔ (۵)نگارستانِ الفت

نسخہ بمطابق 20:40، 27 دسمبر 2016ء

از ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی

اردو میں نعتیہ شاعری کی رویت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اردو شاعری کی تاریخ، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے منسوب ’’معراج العاشقین‘‘ اور فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راو پدم راو‘‘سے باضابطہ اردو نعتیہ شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ مذکورہ دونوں کتب میں اردو کے اوّلین نعتیہ کلام حمدِ باریِ تعالیٰ کے بعد نظم کیے گئے ہیں۔ ان کے بعد کے دور میں تقریباً اردو کے ہر شاعر نے نعت کو یا تو بطورِ تبرک تحریر کیا ہے یا تو روایت کے مطابق…البتہ بعض ایسے عاشقانِ رسول(ﷺ) شعرا بھی گذرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر شاعرانہ صلاحیتیں اور اور بصیرتیں نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا کے لیے وقف کر دیں۔ ان میںکافیؔ مرادآبادی، لطفؔ بدایونی، امام احمد رضا بریلوی، محسن کاکوروی وغیرہم کے نام آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ امام احمد رضا بریلوی اور محسنؔ کاکوروی نےنعت گوئی کوہی اپنا موضوعِ شاعری بنایا اور اس فن کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔ آج اردو میں نعتیہ شاعری کے جتنے سرمایے ملتے ہیں وہ سب کے سب براہِ راست یا بالواسطہ ان حضرات کے تخیلات کے عطر مجموعہ ہیں۔ نعت اردو کی جملہ اصناف میں انتہائی مشکل ترین صنف ہے۔ اس میں زبان و بیان پر قدرت حاصل کر لینا ہی ضروری نہیں بل کہ شاعرانہ صلاحیت اور فنی محاسن کے ساتھ ساتھ قلب و ذہن کی پاکیزگی، عشقِ رسول(ﷺ) کی وارفتگی اور خلوص و للہیت نعت گوئی کے لیے ضروری ہیں۔ ان اوصاف کے بغیر نعتیہ کلام میں سوز وگدازسے مبرّہ اور کیف و سرمستی سے خالی صرف تعریفی و توصیفی اشعار کا مجموعہ ہو کر رہ جائے گا۔

حضرت محسنؔ کاکوروی ۱۲۴۲ھ میں دیارِ اردو لکھنؤ کے قصبہ کاکوری کے ایک شریف، دین دار اور تعلیم یافتہ علوی سیّد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فطری اعتبار سے آپ نیک، متقی، پرہیزگار اور پاکیزہ طبیعت کے حامل تھے۔ دل عشقِ رسول ﷺ سے معطر و معنبر تھا…لہٰذا ن کے قلم سے نکلا ہوا ہر شعر کیف و سرمستی اور سوز و گداز میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ محسنؔ نے زیادہ تر نعتیہ کلام قصیدے کے فارم میں قلم بند کیے۔ آپ کے یہاں دیگر شعرا کی طرح خیالات کی بے راہ روی نہیں ملتی۔ آپ نے محض سولہ سال کی عمر میں ایک ایساشان دار نعتیہ قصیدہ لکھا جو خیالات کی پاکیزگی، جذبات کی صداقت، ندرتِ بیان اور تعظیم و محبت کے حدود میں قائم رہنے کی وجہ سے ایک شاہ کار قصیدہ سمجھاجاتا ہے۔ محسنؔ کا قصیدہ سراپائے رسول‘‘بھی کافی مقبولیت رکھتا ہے۔ محسنؔ نے قصائد کے علاوہ کئی مذہبی مثنویاں بھی لکھیں

تصانیف

قصائد

(۱)گلدستۂ رحمت(۲)ابیاتِ نعت(۳)مدیحِ خیر المرسلین(۴)نظمِ دل افروز(۴)انیٖسِ آخرت

مثنویات

(۱)صبحِ تجلّی(۲)چراغِ کعبہ(۳)شفاعت و نجات(۴)فغانِ محسنؔ (۵)نگارستانِ الفت

ان کے علاوہ رباعیات اور مسدس کی ہیئت میں بھی کچھ نعتیہ منظومات ملتی ہیں۔ محسنؔ کی شعری کائنات، فکری پاکیزگی، بلند نگاہی، ندرتِ بیان اور نادر تشبیہات و استعارات، پیکر اور ترکیب سازی کی وجہ سے ایک خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔

’’صبحِ تجلّی‘‘ میں رسولِ مکرم ﷺ کی ولادتِ پاک کا ذکرِ جمیل بہت ہی حسیٖن اور خوب صورت شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔ اشعار میں منظر نگاری اور مصوری کا حسن پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ نت نئی تشبیہات واستعارات کیف و سرور کو دوبالا کرتے ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎

بیضاویِ صبح کا بیاں ہے تفسیرِ کتابِ آسماں ہے

سبزہ ہے کنار آبِ جو پر یا خضر ہے مستعد وضو پر

غنچے میں خامشی کا عالم یا صومِ سکوت میں ہے مریم