آپ «تشطیراتِ بخشش» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 7: سطر 7:
=== تشطیراتِ بخشش میں شامل مقدمہ ===
=== تشطیراتِ بخشش میں شامل مقدمہ ===


==== عہدِ نَو کا سب رنگ شاعر…مُشاہدؔ رضوی ====
==== ﻋﮩﺪِ ﻧَﻮ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺭﻧﮓ ﺷﺎﻋﺮ … ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ====


[[توفیق احسنؔ مصباحی ]]،ممبئی
ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺍﺣﺴﻦؔ ﻣﺼﺒﺎﺣﯽ ،ﻣﻤﺒﺌﯽ


محترم ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی مالیگانوی نسلِ نو سے تعلق رکھنے والے تازہ کار شاعر ہیں۔جن کی تقدیسی شاعری بھی محض کلاسیکی نہیں کہی جاسکتی؛بل کہ نُدرتِ فکر کے ساتھ اظہارِ خیال اور ترسیلِ معانی کا جو اچھوتا پن ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے وہ مُشاہدؔ رضوی کے شعری امتیاز کو مستحکم کرتا نظر آتا ہے۔اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ شاعری جدید بھی ہو اور کلاسیکی اصولوں کی پابندی بھی کرے۔موجودہ دور کا شعری منظر نامہ غزل اور نظم سے بوجھل نظر آتا ہے ،اس وقت ادبی دنیا میں بڑا شاعر وہ مانا جاتا ہے جو غزل اور صنفِ نظم میں آزاد یا پابند ہو کر اپنے شعر ی سرمایے میں اضافہ کرتا ہے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر روٗنما ہونے والے نیرنگِ زمانہ حالات، حادثات و واقعات اور فلموں و ٹی۔وی سیریلوں میں پیش کی جانے والی عشق و محبت کی داستانوں کو شعری قالب میں ڈھال کر وقت کا مانا جانا لب و لہجہ اور عمدہ اظہارِ محبت کا پختہ گو شاعر کہلانا پسند کرتا ہے ۔ اس کی غزلوں اور نظموں کے مجموعے سال بہ سال شائع ہوتے ہیں اور چنیدہ نقّاد بھی اس کے شعری امتیاز کی کھل کر داد دیتے ہیں ، اسے ایوارڈز و اعزازات بھی ملتے ہیں، اس کے نام ’’شامِ غزل‘‘ منائی جاتی ہے، سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور اس کا شعری و ادبی خطبہ مقالات کی شکل میں پیش ہوکر کتابی صورت میں’’شخصیت و شاعری‘‘ کے نام سے شائع ہوکر دوبارہ کسی ناقد کے پاس مقالہ نگاروں کے تنقید ی رویّے پر تنقید کرنے کے لیے پہونچ جاتے ہیں۔
ﻣﺤﺘﺮﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻣﺎﻟﯿﮕﺎﻧﻮﯼ ﻧﺴﻞِ ﻧﻮ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﺎﺯﮦ ﮐﺎﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺾ ﮐﻼﺳﯿﮑﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ؛ﺑﻞ ﮐﮧ ﻧُﺪﺭﺕِ ﻓﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺧﯿﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺳﯿﻞِ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺍﭼﮭﻮﺗﺎ ﭘﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺟﺪﯾﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺳﯿﮑﯽ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ۔ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﺷﻌﺮﯼ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﻏﺰﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﻢ ﺳﮯ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ،ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺩﺑﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺍ ﺷﺎﻋﺮ ﻭﮦ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻏﺰﻝ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻒِ ﻧﻈﻢ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺯﺍﺩ ﯾﺎ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺮ ﯼ ﺳﺮﻣﺎﯾﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮑﯽ ﻭ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﺭﻭٗﻧﻤﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﯿﺮﻧﮓِ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺣﺎﻻﺕ، ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﻭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﻭ ﭨﯽ۔ﻭﯼ ﺳﯿﺮﯾﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﺸﻖ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﻌﺮﯼ ﻗﺎﻟﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻝ ﮐﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﻟﺐ ﻭ ﻟﮩﺠﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﮦ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﭘﺨﺘﮧ ﮔﻮ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮩﻼﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﺰﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﮧ ﺳﺎﻝ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﯿﺪﮦ ﻧﻘّﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮐﯽ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺳﮯ ﺍﯾﻮﺍﺭﮈﺯ ﻭ ﺍﻋﺰﺍﺯﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ’’ ﺷﺎﻡِ ﻏﺰﻝ ‘‘ ﻣﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺳﯿﻤﯿﻨﺎﺭ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻌﺮﯼ ﻭ ﺍﺩﺑﯽ ﺧﻄﺒﮧ ﻣﻘﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﮐﺮ ﮐﺘﺎﺑﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ’’ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻗﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻘﺎﻟﮧ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﯼ ﺭﻭﯾّﮯ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﮩﻮﻧﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔


ممتاز شاعر و ادیب جناب زبیر رضوی نے ایک جگہ لکھا ہے:
ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺷﺎﻋﺮ ﻭ ﺍﺩﯾﺐ ﺟﻨﺎﺏ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ :


’’موجودہ ادبی منظر نامہ دراصل ان لوگوں کی تگ و دو اور چہل پہل کا منظر نامہ ہے جو اپنی ادبی حیثیت کوپھلتا پھولتا اور خود کو پھولوں کا ہار اور گجرا پہنے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں  ۔‘‘<ref>روزنامہ انقلاب،ممبئی ۲؍اگست ۲۰۰۹ء اتوار</ref>
’’ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺍﺩﺑﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮓ ﻭ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﭼﮩﻞ ﭘﮩﻞ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺩﺑﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮐﻮﭘﮭﻠﺘﺎ ﭘﮭﻮﻟﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮔﺠﺮﺍ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ‘‘
‏( ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ ﺍﻧﻘﻼﺏ،ﻣﻤﺒﺌﯽ ۲؍ﺍﮔﺴﺖ ۲۰۰۹ﺀ ﺍﺗﻮﺍﺭ ‏)


محترم زبیر رضوی صاحب کی باتوں میں یقینی طور پر صداقت ہے جسے قطعاً جھٹلایا اورنظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، آج یقینا ایسا ہورہا ہے اور’’ ادبی دہشت گردی‘‘ پورے عروج پر ہے۔اس سلسلے میں معروف شاعر ونثر نگار سید شکیل دسنوی نے محترم سعید رحمانی کے ادبی جریدے’’ادبی محاذ کٹک اڑیسہ‘‘ شمارہ اپریل تا جون ۲۰۱۰ء میں ایک اداریہ بہ عنوان ’’ادبی دہشت گردی ‘‘تحریر کیا ہے جو انتہائی چشم کشا اور حقائق کا برملا اور دو ٹوک اعتراف و اظہار ہے۔
ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻗﻄﻌﺎً ﺟﮭﭩﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ، ﺍٓﺝ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ’’ ﺍﺩﺑﯽ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ ‘‘ ﭘﻮﺭﮮ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﺮ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺷﺎﻋﺮ ﻭﻧﺜﺮ ﻧﮕﺎﺭ ﺳﯿﺪ ﺷﮑﯿﻞ ﺩﺳﻨﻮﯼ ﻧﮯ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺳﻌﯿﺪ ﺭﺣﻤﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﺟﺮﯾﺪﮮ ’’ ﺍﺩﺑﯽ ﻣﺤﺎﺫ ﮐﭩﮏ ﺍﮌﯾﺴﮧ ‘‘ ﺷﻤﺎﺭﮦ ﺍﭘﺮﯾﻞ ﺗﺎ ﺟﻮﻥ ۲۰۱۰ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺩﺍﺭﯾﮧ ﺑﮧ ﻋﻨﻮﺍﻥ ’’ ﺍﺩﺑﯽ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ ‘‘ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﭼﺸﻢ ﮐﺸﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﺎ ﺑﺮﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﭨﻮﮎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﻭ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻭﮦ ﺑﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺑﺮﭘﺎ ﮐﺮﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﺎ ﻡ ﺗﺮ ﺭﻭﻧﻘﯿﮟ ﻣﺎﺋﻞ ﺑﮧ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﻓﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﺜﻨﯽٰ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ؛ﺗﺮﻗﯽ ﭘﺴﻨﺪﺗﺤﺮﯾﮏ،ﺟﺪﯾﺪﯾﺖ،ﻣﺎﺑﻌﺪ ﺟﺪﯾﺪﯾﺖ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮏ ﺳﺮ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﻮﺍﻓﻖ؛ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍٓﮌ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻏﯿﺮ ﺍﺩﺑﯽ ﮐﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺍ ﺱ ﮐﯽ ﺟﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﻍ ﭘﺎ ﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻏﯿﺮ ﺍﺩﺑﯽ ﺭﺟﺤﺎﻧﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﺩﺏ ﮐﻮ ﮐﺎ ﻓﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﻭ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮞﮑﺮﺭﮨﺎﮨﻮﮞ، ﮔﺮﻭﮦ ﺑﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺍﺭﺗﻘﺎﺋﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﻣﺴﺪﻭﺩ ﮐﺮﺭﮐﮭﯽ ﮨﯿﮟ ۔ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺭﺩﻭﮐﮯ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻇﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻨﻔﺮﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍٓﺝ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﯾﺎ ﻧﺜﺮ ﻧﮕﺎﺭ،ﺗﻨﻘﯿﺪ ﻧﮕﺎﺭ ﮨﻮﯾﺎ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺎﺭﯼ ﺧﻮﺩ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔


ایک بات اور عرض کردوں کہ زندگی کے قریب تمام شعبوں میں گروہ بندی نے طوفان برپا کررکھا ہے جس کی وجہ سے ان شعبوں کی تما م تر رونقیں مائل بہ زوال ہیں۔ادب اور فن بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا؛ترقی پسندتحریک،جدیدیت،مابعد جدیدیت کا نہ تو میں یک سر مخالف ہوں نہ بالکل موافق؛البتہ اس کی آڑ میں ہونے والے غیر ادبی کام اور ا س کی جِلو میں فروغ پا نے والے غیر ادبی رجحانات نے ادب کو کا فی نقصان پہنچایا ہے۔میں ان تحریکوں اور نظریوں کے ذریعہ ہونے والے فوائد و منافع کا انکار نہیں کررہاہوں، گروہ بندی نے اردو زبان و ادب کی ارتقائی راہیں مسدود کررکھی ہیں ۔جس نے اردوکے قارئین کو بھی بدظن اور متنفرکردیا ہے آج شاعر ہویا نثر نگار،تنقید نگار ہویا افسانہ نگار ہر کسی کو اپنا قاری خود تلاش کرنا پڑرہا ہے۔
ﺷﻌﺮﯼ ﺍﺻﻨﺎﻑ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻝ، ﻧﻈﻢ، ﻗﻄﻌﮧ، ﺭﺑﺎﻋﯽ، ﻣﺮﺛﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮨﺎ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﺮ ﺟﺪﯾﺪ ﺷﺎﻋﺮﺍِﻥ ﺍﺻﻨﺎﻑ ﻣﯿﮟ ﻃﺒﻊ ﺍٓﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻧﺎﻗﺪ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ﺍﯾﮏ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺣﻤﺪ ﻭﻧﻌﺖ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻨﻒِ ﺍﺩﺏ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﺍﺱ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺍٓﺋﯽ، ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺑﺪﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻧﻌﺖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺻﻨﻒ ِ ﺳﺨﻦ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﺧﻮﺵ ﺍٓﯾﻨﺪ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﺰﻟﯿﮧ ﯾﺎ ﻧﻈﻤﯿﮧ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﻣﻨﻈﺮِ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺣﻤﺪ ﻭ ﻧﻌﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﮧ ﻃﻮﺭِ ﺗﺒﺮﮎ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮮ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔


شعری اصناف میں [[غزل]]، [[نظم]]، [[قطعہ]]، [[رباعی]]، [[مرثیہ]] وغیرہا کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ ہر جدید شاعراِن اصناف میں طبع آزمائی کرنا چاہتا ہے اور ہر [[ناقد]] اُن پر تنقیدی نگاہ ڈالنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب [[حمد]] و [[نعت]] کو کوئی [[صنفِ ادب ]]ماننے کو تیار نہ تھا، لیکن آہستہ آہستہ اس رجحان میں کمی آئی، نظریہ بدلا اور اب [[نعت]] کو بھی ایک مخصوص صنف ِ سخن تسلیم کرلیا گیا ہے۔یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔اب کسی[[ شاعر]]کا کوئی [[غزلیہ]] یا [[نظمیہ ]][[مجموعہ ]]منظرِ عام پر آتا ہے تو ایک دو [[حمد]] و [[نعت]] بھی بہ طورِ تبرک ابتدا ے کتاب میں شامل رہتی ہے۔
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺧﺎﻟﺺ ﻧﻌﺖ ﻭ ﺣﻤﺪ ﻭ ﻧﻈﻢ ﮐﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺻﻨﺎﻑِ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺍٓﮔﺎﮨﯽ ﮨﮯ، ﻋﺮﻭﺽ ﻭ ﻗﻮﺍﻓﯽ ﮐﺎ ﮔﯿﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﻌﺖ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﮐﺎ ﺍٓﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻗﻠﻢ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺩﺑﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻏﺰﻝ ﮐﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔


اس وقت میں جس شاعر کے متعلق اظہارِ خیال کررہاہوں وہ خالص نعت و حمد و نظم کے شاعر ہیں۔اصنافِ ادب سے انھیں پوری آگاہی ہے، عروض و قوافی کا گیان بھی انھیں حاصل ہے۔ انھوں نے نعت نگاری سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور اب تک مسلسل نعتیہ شاعری قلم بند کررہے ہیں ۔ادبی دنیا میں ان کا نام کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہ غزل کے شاعر نہیں ہیں۔
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻋﺸﻖِ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻭﻓﺮﻭﻍ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻭﻃﯿﺮﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺬﮨﺒﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﻗﻄﺮﮮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﻌﺮﯼ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﭘﺮ ﭼﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺧﺎﻟﺺ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻃﺮﺯ ﻭﺍﺩﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺗﻘﺪﺱ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺎ۔ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﯿﺪ ﯾﺤﯿﯽٰ ﻧﺸﯿﻂؔ ﺭﮐﻦ


مُشاہدؔ رضوی ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اظہار وفروغ جس کا وطیرہ رہا ہے۔اس لیے مذہبیات کے شبنمی قطرے ان کی شعری کائنات پر چھائے ہوئے ہیں ۔انھوں نے اپنی شاعری خالص اسلامی طرز وادا کے ساتھ شروع کی اور اب تک شاعری کا تقدس پامال نہیں ہونے دیا۔ڈاکٹر سید یحییٰ نشیطؔ رکن مجلسِ ادارت بال بھارتی ، پونے کے بہ قول:
ﻣﺠﻠﺲِ ﺍﺩﺍﺭﺕ ﺑﺎﻝ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ، ﭘﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮧ ﻗﻮﻝ :


’’لمعاتِ بخشش کا شاعر محمد حسین مُشاہد ؔرضوی نو عمر و نوجوان ہے ۔ بچپن سے ان کا قلم عشقِ رسول  کے اظہار کے لیے صفحۂ قرطاس پر نعتوں کے موتی بکھیر رہا ہے۔انھوں نے تقدیسی شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور بعض عمدہ اشعار ان اصناف کے تخلیق کیے ہیں۔‘‘
’’ ﻟﻤﻌﺎﺕِ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ ﺷﺎﻋﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﻣُﺸﺎﮨﺪ ؔﺭﺿﻮﯼ ﻧﻮ ﻋﻤﺮ ﻭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮨﮯ ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻗﻠﻢ ﻋﺸﻖِ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﻔﺤﮧٔ ﻗﺮﻃﺎﺱ ﭘﺮ ﻧﻌﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﺑﮑﮭﯿﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻘﺪﯾﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺻﻨﻒ ﻣﯿﮟ ﻃﺒﻊ ﺍٓﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻋﻤﺪﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﻥ ﺍﺻﻨﺎﻑ ﮐﮯ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‘‘
( ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﯿﺪ ﯾﺤﯿﯽٰ ﻧﺸﯿﻂ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﺳﮯ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺎﻭﺷﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﺨﻠﯿﻘﺎﺕ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ‏)


(ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط صاحب سے معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ اللہ عزوجل کے علاوہ کسی انسان کے کام کو نہ تو تخلیق کہا جا سکتا ہے اور نہ اسے خالق سے موصوف مانا جاسکتا ہے نہ اس کی کاوشات کو تخلیقات نام دیا جاسکتا ہے۔)
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﺘﮯ ﮨﯽ ﺟﻮ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﭘﺎﯾﺎ ﻭﮦ ﺧﺎﻟﺺ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺗﮭﺎ۔ﺟﮩﺎﮞ ﻧﻌﺖِ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺪﮬﺮ ﺑﮭﺮﮮ ﻧﻐﻤﺎﺕ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﺱ ﮔﮭﻮﻟﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺠﺎﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻠﺘﺎ، ﻣﺸﺎﮨﯿﺮ ﻧﻌﺖ ﮔﻮ ﺷﻌﺮﺍ ﮐﯽ ﻧﻌﺘﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮﺗﺎ، ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻧﻌﺖ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﺫﻭﻕ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﮔﻮ ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﻧﻌﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺍﺳﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮐﯽ ﺷﺎﮦ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻭﺧﯿﺎﻝ ﮐﺎ ﺟﺎﺩﻭ ﺟﮕﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﯿﮟ۔ﻣﺤﺘﺮﻡ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺍٓﻏﺎﺯ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺧﻮﺩ ﺍﻇﮩﺎﺭ ِ ﺧﯿﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ :


مُشاہدؔ رضوی نے آنکھیں کھولتے ہی جو ماحول پایا وہ خالص اسلامی ماحول تھا۔جہاں نعتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدھر بھرے نغمات ان کے کانوں میں رس گھولتے نظر آتے تھے۔نعتیہ مجالس میں انھیں شرکت کا موقع ملتا، مشاہیر نعت گو شعرا کی نعتیں سننے کا اتفاق ہوتا، اور یوں انھیں خود نعت کہنے کا ذوق بیدار ہوا، اور وہ نعتیہ اشعار موزوں کرنے لگے۔ گو یا ان کی شاعری کی ابتدا نعت ہے اور اب تک اسی ابتدا کی شاہ راہ میں اپنی فکر وخیال کا جادو جگارہے ہیں اور بے طرح کامیاب ہیں۔محترم مُشاہدؔ رضوی نے اپنے شعری سفر کے آغاز کے متعلق خود اظہار ِ خیال فرمایا ہے :
’’ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺩﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺮِ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ ﺍﻋﻼ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭِ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻧﻌﺖ ؎


’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں جماعت دہم میں زیرِ تعلیم تھا تب اعلا حضرت امام احمد رضا کی مشہورِ زمانہ نعت    ؎
ﺯﮨﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺍﻋﺘﻼﮮ ﻣﺤﻤﺪ ‏( ﷺ ‏)


زہے عزت و اعتلاے محمد (ﷺ)
ﮐﮧ ﮨﮯ ﻋﺮﺵِ ﺣﻖ ﺯﯾﺮِ ﭘﺎﮮ ﻣﺤﻤﺪ ‏( ﷺ )


کہ ہے عرشِ حق زیرِ پاے محمد(ﷺ)
ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﻧﻌﺖ ﻗﻠﻢ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ )‘‘ ﺳﺮﻧﻮﺷﺖ،ﻟﻤﻌﺎﺕِ ﺑﺨﺸﺶ ﺹ۱۱ ‏)


    کی زمین میں پہلی نعت قلم بند کی۔ ‘‘<ref>سرنوشت،لمعاتِ بخشش ص۱۱</ref>
ﻣُﺸﺎﮨﺪ ؔﺭﺿﻮﯼ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﮐﺎ ﺷﻌﺮﯼ ﻓﯿﻀﺎﻥ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺎ ﮐﮭﻠﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ،ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻧﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؎


مُشاہد ؔرضوی کی شاعری میں امام احمد رضا کا شعری فیضان جگہ جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔  انھوں نے اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے،اپنی پہلی نعت میں لکھتے ہیں    ؎
ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﻧﻌﺖِ ﺍﻭّﻝ


رضا کے کرم سے بنی نعتِ اوّل
ﺟﻮ ﺍﻭّﻝ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ ﺛﻨﺎﮮ ﻣﺤﻤﺪ ‏( ﷺ ‏)


جو اوّل رقم کی ثناے محمد(ﷺ)
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ۲۰۰۹ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻞ ﺷﻌﺮﯼ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦِ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺴﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺭﮨﮯ۔ ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﺷﻌﺮﯼ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻏﺰﻟﯿﮧ، ﺣﻤﺪﯾﮧ، ﻧﻈﻤﯿﮧ، ﺭﺑﺎﻋﯿﮧ، ﮨﺰﻟﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮨﺎ ؛ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻭﻑ ﮨﺠﺎﺋﯿﮧ ﮐﯽ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﺑﺎﯾﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﻣﻨﻈﺮِ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻟﺺ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺳﯿﺪ ﺍﻭﻻﺩِ ﺭﺳﻮﻝ ﻗﺪﺳﯽ ؔ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺷﻌﺮﯼ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ؛ ﺍﯾﮏ ﻧﻌﺘﯿﮧ، ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻏﺰﻟﯿﮧ، ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻧﻈﻤﯿﮧ … ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ۲۰۰۸ﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﺰﺭﮒ ﺷﺎﻋﺮ ﻭ ﻧﻘّﺎﺩ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺑﺮ ﺳﻨﺒﮭﻠﯽ ﻣﺮﺍﺩﺍٓﺑﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﺣﺮﻭﻑِ ﮨﺠﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﮐﺎ ﻟﺤﺎﻅ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ۱۴۴؍ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔


مُشاہدؔ رضوی نے ۲۰۰۹ء میں اپنا کل شعری سرمایہ اکٹھا کرکے ایک دیوان کی شکل میں قارئین اور ناقدینِ ادب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی اور اس میں پوری طرح کامیاب رہے۔ یوں تو شعری مجموعے ہر روز شائع ہورہے ہیں ، غزلیہ، حمدیہ، نظمیہ، رباعیہ، ہزلیہ وغیرہا ؛ لیکن باقاعدگی کے ساتھ دیوان کی شکل میں حروف ہجائیہ کی ترتیب کے ساتھ شاید وباید کوئی مجموعہ منظرِ عام پر آتا ہے اور وہ بھی خالص نعتیہ شاعری کا دیوان تو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﮐﻮ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻞ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ۲۴۰؍ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻣﺠﻠﺪ ’’ ﻟﻤﻌﺎﺕِ ﺑﺨﺸﺶ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﺮﺍﯾﺎﺗﮭﺎ۔ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﺩﺑﯽ ﺣﻠﻘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ،ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﻭ ﺗﺠﺰﯾﺎﺗﯽ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﮐﯽ ، ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻭ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔


گذشتہ سال محترم سید اولادِ رسول قدسی ؔ کے تین شعری مجموعے ایک ساتھ شائع ہوئے اور تینوں دیوان کی شکل میں؛ ایک نعتیہ، دوسرا غزلیہ، تیسرا نظمیہ… اس سے قبل ۲۰۰۸ء میں بزرگ شاعر و نقّاد محترم ڈاکٹر صابر سنبھلی مرادآبادی نے اپنا نعتیہ دیوان حروفِ ہجائی کی ترتیب کا لحاظ کرتے ہوئے ۱۴۴؍ صفحات میں شائع کیا تھا۔
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻣُﺸﺎﮨﺪ ؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ۲۰۰۵ﺀ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﺩﻝ ﭼﺴﭗ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﺮﻭٗﻑ ﺻﻨﻌﺘﯿﮟ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﻧﺎﺩﺭ ﻭﻧﺎﯾﺎﺏ ﺻﻨﻌﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﮨﻞِ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﻏﻼﻡ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺍﺛﺮؔ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :


مُشاہدؔ رضوی نے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کل سرمایہ دیوان کی شکل میں ۲۴۰؍ صفحات پر مشتمل مجلد’’[[لمعاتِ بخشش]]‘‘ کے نام سے شائع کرایاتھا۔جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی،اخبارات میں اس کتاب پر تنقیدی و تجزیاتی مضامین نظروں سے گذرے اور بڑوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی ، جو ان کے لیے بڑے اعزاز و انعام کی بات ہے۔
’’ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔﺭﺿﻮﯼ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻭﺵ ﺍﺭﺩﻭ ﻃﻠﺒﺎ ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ’ ﻓﺮﮨﻨﮓِ ﺍﺩﺑﯿﺎﺕ ‘ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ۔ ‘‘
ﻣُﺸﺎﮨﺪ ؔﺭﺿﻮﯼ ﮐﺎ ﺳﻨﮧ ﻭﻻﺩﺕ ﺩﺳﻤﺒﺮ ۱۹۷۹ﺀ ﮨﮯ،ﺟﺎﮮ ﭘﯿﺪﺍﯾﺶ ﺷﮩﺮ ﻣﺎﻟﯿﮕﺎﻭﮞ ﮨﮯ،ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﻟﯿﺎﻗﺖ ﺍﯾﻢ۔ﺍﮮ،ﮈﯼ۔ ﺍﯾﮉ،ﯾﻮ ﺟﯽ ﺳﯽ - ﻧﯿﭧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺣﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻘﺎ ﻟﮧ ٔ ﮈﺍﮐﭩﺮﯾﭧ ﺑﮧ ﻋﻨﻮﺍﻥ ’’ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺭﺿﺎ ﻧﻮﺭﯼؔ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﯽ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ‘‘ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﯿﻂ ﻣﺮﺍﭨﮭﻮﺍﮌﮦ ﯾﻮﻧﯽ ﻭﺭﺳﭩﯽ ،ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯﯼ ﻧﻤﺒﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ،ﺍٓﻣﯿﻦ۔


اس سے قبل مُشاہد ؔ رضوی نے ۲۰۰۵ء میں ’’[[اردو کی دل چسپ اور غیر معروٗف صنعتیں]]‘‘ کے نام سے چالیس نادر ونایاب صنعتوں پر مشتمل ایک کتاب اہلِ علم کی خدمت میں پیش کی تھی جس کے متعلق محترم غلام مصطفی اثرؔ صدیقی کا لکھنا ہے کہ :
ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﻮ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﯽ۔ ﺍﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﭖ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﮩﺎﺭﺍﺷﭩﺮ ﺍﺳﭩﯿﭧ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ۲۰۰۲ﺀ ﺳﮯ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﺿﻠﻊ ﭘﺮﯾﺸﺪ ﺍﺭﺩﻭ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ، ﻧﯿﺎﮮ ﮈﻭﻧﮕﺮﯼ، ﺗﻌﻠﻘﮧ ﻧﺎﻧﺪ ﮔﺎﻭﮞ ﺿﻠﻊ ﻧﺎﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﺗﺪﺭﯾﺴﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﺒﮭﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺷﮩﺐِ ﻗﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻨﺪﮨﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ﮨﮯ ۔ﺭﺳﺎﺋﻞ ﻭ ﺟﺮﺍﺋﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﮯ۔ﻣﻤﺒﺌﯽ ﻭ ﻣﺎﻟﯿﮕﺎﻭٔﮞ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻻﺕ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﺌﯽ ﮐﺘﺎﺏ ’’ ﺗﺸﻄﯿٖﺮﺍﺕِ ﺑﺨﺸﺶ ‘‘ ﮐﺎ ﻣﺴﻮﺩﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺳﺠﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ﺑﮧ ﻗﻮﻝ


’’یقینا محمد حسین مُشاہدؔرضوی کی یہ کاوش اردو طلبا و طالبات کیلئے ایک اور ’فرہنگِ ادبیات‘ سے کم نہیں۔‘‘
ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻓﮑﺸﻦ ﻧﮕﺎﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﻭﺍﺩﯾﺐ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﻣﺎﺭﮨﺮﻭﯼ :


مُشاہد ؔرضوی کا سنہ ولادت دسمبر ۱۹۷۹ء ہے،جاے پیدایش شہر مالیگاوں ہے،تعلیمی لیاقت ایم۔اے،ڈی۔ ایڈ،یو جی سی -نیٹ ہے اور ابھی حال ہی میں انھوں نے اپنا مقا لہ ٔ ڈاکٹریٹ بہ عنوان ’’مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘چار سو سے زائد صفحات کو محیط مراٹھواڑہ یونی ورسٹی ،اورنگ آباد میں جمع کردیا ہے۔اللہ عزوجل انھیں امتیازی نمبروں سے کامیابی عطا فرمائے،آمین۔
’’ ﻓﻦِ ﻧﻌﺖ ﮐﺴﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ،ﻭﮨﺒﯽ ﮨﮯ،ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﻋﻄﺎﮮ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ ۔ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺗﮑﻨﯿﮑﯽ ﻧﻮﮎ ﭘﻠﮏ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﻖ ﺍﻭﺭ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ‘‘


موصوف کو بارہویں جماعت اور بی۔ اے میں اردو مضمون میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی طرف سے اعزاز بھی دیا گیا، ۲۰۰۲ء سے تاحال ضلع پریشد اردو پرائمری اسکول ، نیاے ڈونگری، تعلقہ ناند گاوں ضلع ناشک میں تدریسی ذمہ داری نبھارہے ہیں اور ان کا اشہبِ قلم بھی پوری تن دہی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔رسائل و جرائد میں ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور نعتیہ شاعری مطالعہ میں آتے ہے۔ممبئی و مالیگاؤں کے اردو اخبارات میں بھی ان کے مقالات تواتر کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔اس وقت مُشاہدؔ رضوی نے اپنی ایک بالکل نئی کتاب’’تشطیٖراتِ بخشش‘‘ کا مسودہ میرے مطالعہ کی میز پر سجایا ہے اور اب میں اسی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔بہ قول معروف فکشن نگار شاعر وادیب سید محمد اشرف مارہروی :
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﯽ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻭﺍﺷﮕﺎﻑ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﺸﻖِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ، ﻓﻦِ ﻧﻌﺖ ﺳﮯ ﻭﺍﻟﮩﺎﻧﮧ ﻭﺍﺑﺴﺘﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﮯ ﻧﻌﺖ ﮔﻮ ﺷﻌﺮﺍ ﺳﮯ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻧﻌﺖ ﮔﻮ ﺷﺎﻋﺮ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﻄﺎﮮ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﻠﻢ ﺧﺎﻟﺺ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؎


’’فنِ نعت کسبی نہیں ،وہبی ہے،یہ صرف عطاے الٰہی سے حاصل ہوتاہے ۔ البتہ تکنیکی نوک پلک درست کرنے کے لیے مشق اور مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔‘‘
ﮨﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺻﻨﺎﻑِ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻟﯿﮑﻦ


مُشاہدؔ رضوی کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے عشقِ رسول  ﷺ، فنِ نعت سے والہانہ وابستگی اور سچے نعت گو شعرا سے بے پناہ وارفتگی کی وجہ سے انھیں نعت گو شاعر بنادیا ہے اور انھوں نے عطاے الٰہی کا سہارا لے کر اپنا قلم خالص نعتیہ شاعری کے لیے وقف کررکھا ہے وہ کہتے ہیں    ؎
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺭُﺗﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﻌﺖِ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ


ہیں یوں تو اور بھی اصنافِ شاعری لیکن
ﺍﻗﺒﺎﻝؔ، ﺫﻭﻕؔ، ﺍﻣﯿﺮؔﻣﯿﻨﺎﺋﯽ، ﻣﺤﺴﻦؔﮐﺎﮐﻮﺭﻭﯼ، ﺣﻔﯿﻆؔﺟﺎﻟﻨﺪﮬﺮﯼ، ﺍﺣﻤﺪﺭﺿﺎؔﺑﺮﯾﻠﻮﯼ، ﺍﺳﺘﺎﺫِﺯﻣﻦ ﺣﺴﻦؔ ﺭﺿﺎﺑﺮﯾﻠﻮﯼ، ﻧﻮﺭﯼؔﺑﺮﯾﻠﻮﯼ، ﺍﺧﺘﺮؔﺭﺿﺎﺍﺯﮨﺮﯼ، ﻧﻈﻤﯽ ﻣﺎﺭﮨﺮﻭﯼ، ﺍﺟﻤﻞؔﺳﻠﻄﺎﻧﭙﻮﺭﯼ، ﺑﯿﮑﻞؔﺍﺗﺴﺎﮨﯽ ﻭﻏﯿﺮﮨﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭِ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻧﻌﺖ ﮔﻮ ﺷﻌﺮﺍ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﭼﮭﺎﭖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡِ ﻧﻌﺖ ﮔﻮﯾﺎﮞﺎﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺳﺘﺎﺫ ِ ﺷﻌﺮ ﻣﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣُﺴﻦِ ﺗﺨﯿﻞ ﮐﯽ ﭼﻤﮏ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﮦ ﻧﻤﺎ … ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؎


کسی کا رُتبہ نہیں نعتِ مصطفی کی طرح
ﺭﺿﺎ ﮐﺎ ﺣُﺴﻦِ ﺗﺨﯿﻞ ﮨﮯ ﺭﮦِ ﻧﻤﺎ ﻣﯿﺮﺍ
   
اقبالؔ، ذوقؔ، امیرؔمینائی، محسنؔ کاکوروی، حفیظؔ جالندھری، احمدرضابریلوی، استاذِزمن حسن رضابریلوی، نوریؔ بریلوی، اختررضاازہری، نظمی مارہروی، اجملؔ سلطانپوری، بیکلؔ اتساہی وغیرہا مشہورِ زمانہ نعت گو شعرا کی شاعری کا مطالعہ انھوں نے کیا ، جس کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں دکھائی دیتی ہے۔لیکن ان سب کے باوجود انھوں نے امامِ نعت گویاں احمد رضا بریلوی کو اپنا استاذ ِ شعر مانا اور ان کے حُسنِ تخیل کی چمک کو اپنا راہ نما… لکھتے ہیں    ؎


رضا کا حُسنِ تخیل ہے رہِ نما میرا
ﮐﮧ ﻧﻌﺖ ﮔﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﮮ ﺭﺿﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ


کہ نعت گو نہیں کوئی مرے رضا کی طرح
ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺣﻤﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﻊ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺫﮨﻦ ﻭ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ؎


مُشاہدؔ رضوی کی ایک حمد میں نے کسی اخبار میں پڑھی تھی اس کا مطلع آج بھی ذہن و فکر میں گھومتا نظر آتا ہے    ؎
ﺑﻄﻮﻥِ ﺳﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﯽ


بطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تو ہی
ﺻﺪﻑ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﮨﺮِ ﻧﺎﯾﺎﺏ ﮈﮬﺎﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮﮨﯽ


صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے توہی
ﻭﺍﮦ ! ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻨﮯ ،ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﮨﮯ۔ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﻣﺎﺭﮨﺮﻭﯼ ﻧﮯ ۲۰۰۰ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ :


واہ! کیا کہنے ،کتنا اچھا مضمون باندھا ہے۔سید محمد اشرف مارہروی نے ۲۰۰۰ء میں مُشاہدؔ رضوی کو لکھا تھا  :
’’ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻟﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ۲۱؍ ﺑﺮﺱ ﮐﺎﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺗﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﺜﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ۔ …‘‘


’’مجھے دلی خوشی ہوئی کہ ۲۱؍ برس کانوجوان اتنی اچھی اردو اتنی صحیح نثر اور ایسی پیاری نعتیہ شاعری لکھنے پر قادر ہے۔‘‘…
ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺮِ ﻧﻈﺮ ﮐﺘﺎﺏ ’’ ﺗﺸﻄﯿﺮﺍﺕِ ﺑﺨﺸﺶ ‘‘ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺤﻮﺭ ﮐﺮﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮭﻮﮞ، ﮐﯿﺎ ﻧﮧ ﻟﮑﮭﻮﮞ؟ … ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺑﺠﺎ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ : ’’ ﺻﻨﺎﺋﻊ ﻭ ﺑﺪﺍﺋﻊ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺣُﺴﻦ ﻭ ﺯﯾﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ‘‘ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣُﺴﻦ ﻭ ﺯﯾﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺻﻨﺎﺋﻊِ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺻﻨﻌﺖ ’’ ﺗﺸﻄﯿﺮ ‘‘ ﭘﺮﻣﺸﺘﻤﻞ ﺷﻌﺮﯼ ﮔﻞ ﺩﺳﺘﮧ ﮨﮯ۔ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﺻﻄﻼﺡِ ﺍﺩﺏ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﺴﯽ ﺷﻌﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﻣﺼﺮﻋﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍٓﮨﻨﮓ ﻣﺰﯾﺪ ﺩﻭ ﺗﻀﻤﯿﻨﯽ ﻣﺼﺮﻋﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﺻﻨﻌﺖ ﮐﻮ ’’ ﺻﻨﻌﺖِ ﺗﺸﻄﯿٖﺮ ‘‘ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‘‘


اس لیے مجھے مُشاہدؔ رضوی کے تعلق سے مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے، اور زیرِ نظر کتاب’’تشطیراتِ بخشش‘‘ نے مجھے مسحور کررکھا ہے۔کیا لکھوں، کیا نہ لکھوں؟ … مُشاہدؔ رضوی نے بجا تحریر کیا ہے: ’’ صنائع و بدائع شاعری کے حُسن و زیور ہیں۔‘‘ اسی لیے انھوں نے اس حُسن و زیور سے اپنی شاعری کو سجانے کی کوشش کی ہے۔یہ کتاب صنائعِ شاعری کی ایک نمایاں صنعت’’تشطیر‘‘ پرمشتمل شعری گل دستہ ہے۔موصوف کے الفاظ میں’’اصطلاحِ ادب میں جب شاعر کسی شعر کے دومصرعوں کے بیچ میں موضوع سے ہم آہنگ مزید دو تضمینی مصرعوں کا اضافہ کرتا ہے تو اُس صنعت کو ’’صنعتِ تشطیٖر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎؔ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ، ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺭﺿﺎ ﻧﻮﺭﯼؔ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﺮؔﺭﺿﺎ ﺍﺯﮨﺮﯼ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺻﻨﻌﺖ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﮍﯼ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻣﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﻧﺪﺭﺕ، ﺟﺬﺑﮯ ﮐﺎ ﺗﻘﺪﺱ، ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺮﯾﺖ ﮐﯽ ﺟﮭﻠﮑﯿﺎﮞ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﻭﺯﻥ، ﮨﻢ ﻗﺎﻓﯿﮧ، ﮨﻢ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺮﺗﻨﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮨﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﺴﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺩِﻗّﺖ ﻃﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻭﺯﻥ ﻭ ﻗﺎﻓﯿﮧ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﻭ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﮨﻢ ﺍٓﮨﻨﮕﯽ ﮐﺎﺍ ﻟﺘﺰﺍﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻌﺮ ﻗﻠﻢ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﻔﺮ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ؎


امام احمد رضا بریلوی، مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور اختررضا ازہری بریلوی کے چالیس چالیس اشعار میں اس صنعت کا استعمال بڑی مہارت اور سلیقہ مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔جن کے اندر خیالات کی ندرت، جذبے کا تقدس، افکار کی بلندی اور شعریت کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔  ہم وزن، ہم قافیہ، ہم رنگ اور ہم مضمون خیال کو ایک ساتھ برتنا کتنا مشکل کام ہے یہ مُشاہدؔ رضوی ہی جان سکتے ہیں۔ کسی زمین پر کوئی شعر کہہ دینا اتنا دِقّت طلب نہیں جتنا کسی مخصوص وزن و قافیہ کی رعایت کے ساتھ موضوع و خیال کی ہم آہنگی کاا لتزام کرتے ہوئے کوئی شعر قلم بند کرنا ہے اور مُشاہدؔ رضوی نے اس مشکل ترین سفر کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے    ؎
’’ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺴﻞِ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﭽّﮧ ﺑﭽّﮧ ﻧﻮٗﺭ ﮐﺎ ‘‘


’’تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نوٗر کا‘‘
ﺗﯿﺮﮮ ﺻﺪﻗﮯ ﭘﺎﻟﯿﺎ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺧﺰﯾﻨﮧ ﻧﻮٗﺭ ﮐﺎ


تیرے صدقے پالیا سب نے خزینہ نوٗر کا
ﮨﺮ ﮔﻞِ ﺗﺮ ﻧﻮٗﺭ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺫﺭّ ﺫﺭّﮦ ﻧﻮٗﺭ ﮐﺎ


ہر گلِ تر نوٗر کا ہر ذرّ ذرّہ نوٗر کا
’’ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻋﯿﻦِ ﻧﻮﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮔﮭﺮﺍﻧﺎ ﻧﻮٗﺭﮐﺎ ‘‘


’’تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نوٗرکا‘‘
ﺍٓﺝ ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﯾﺎ ﺍﺩﯾﺐ ﮐﯽ ﺷﻌﺮﯼ ﻭ ﺍﺩﺑﯽ ﻧﮕﺎﺭﺷﺎﺕ ﮐﻮ ﻭﺯﻥ ﺩﺍﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﮑّﮧ ﺑﻨﺪ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺍٓﺭﺍ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ، ﻣﯿﮟ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺧﺎﺹ ﭘﮩﻠﻮ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ، … ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺧﻮﺩ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ؛ … ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻗﺪ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﺍٓﺋﮯ ﮔﯽ۔


آج کسی شاعر یا ادیب کی شعری و ادبی نگارشات کو وزن دار بنانے کے لیے سکّہ بند ناقدین کی آرا سے کام لیا جاتاہے ، میں مُشاہدؔ رضوی کے شعری امتیاز کے اس خاص پہلو کو نمایاں کرکے دیکھنے کے لیے ان کے نعتیہ اشعار کے مطالعہ کی دعوت پیش کرتا ہوں اور بس، … ان کے اشعار خود گواہی دیں گے ؛… انھیں کسی ناقد کی شہادت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
ﻣُﺸﺎﮨﺪ ؔﺭﺿﻮﯼ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺑﮩﺖ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ، ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦِ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﮮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺧﺪﻣﺖ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﺭﺿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﺜﺮ ﻧﮕﺎﺭ، ﻣﺎﯾﮧٔ ﻧﺎﺯ ﻣﺤﻘﻖ، ﻗﺎﺩﺭﺍﻟﮑﻼﻡ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﯿﮟ ﺑﻞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻋﮩﺪِ ﻧَﻮ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺭﻧﮓ ﺷﺎﻋﺮ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺩﺑﯽ ﺣﻠﻘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ
ﮐﺘﺎﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﯽ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﮔﯽ۔


مُشاہد ؔرضوی کی یہ کتاب اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن موٹی موٹی کتابوں پر بھاری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کا بھر پور مطالعہ کیا جائے ، بالخصوص ناقدینِ ادب سے ضرور گزارش کروں گا کہ وہ اپنا روے تنقید نعتیہ شاعری کی طرف بھی موڑنے کی زحمت گوارا کریں۔ یہ بھی زبان و ادب کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ مُشاہدؔ رضوی ایک کامیاب نثر نگار، مایۂ ناز محقق، قادرالکلام شاعر ہیں بل کہ میں تو انھیں عہدِ نَو کا سب رنگ شاعر مانتا ہوں ۔امید ہے کہ ادبی حلقوں میں یہ کتاب پذیرائی کی مستحق ہوگی۔
ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺍﺣﺴﻦؔ ،ﻣﻤﺒﺌﯽ ‏( ۸؍ ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ۲۰۱۰ﺀ ﺷﺐ ﺷﻨﺒﮧ ‏)
[[توفیق احسنؔ ]]،ممبئی(۸؍ اکتوبر۲۰۱۰ء شب شنبہ)


=== مزید دیکھیے ===
=== مزید دیکھیے ===


[[ مشاہد رضوی ]] | [[لمعاتِ بخشش ]]
[[ مشاہد رضوی ]] | [[لمعاتِ بخشش ]]
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: