تبادلۂ خیال زمرہ:اعظم چشتی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

2۔ ان لوگوں کے نام جو اعظم چشتی سے متاثر ہو کر نعت خوانی شروع کی

3۔ پیر حضرت محبوب عالم [ کاروبار کی روایت والے ] کون تھے

4۔ ابتدائی دور ریڈیو کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی کیف آفریں آواز سے سیراب ہوتیں رہیں ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔

ڈیش ڈیش کی جگہ دور دراز کے شہروں اور ان میں اعظم چشتی کی آواز سے متاثر ہو کر نعت خوانی کرنے والوں کے نام لکھیں ۔

5۔ داتا دربار میں جمعرات کی حاضری کی کب شروع ہوئی

6۔ کراچی کے مقابلوں میں کتنی بار گئے ۔ قمر انجم، ادیب رائے پوری وغیرہ سے تعلقات کس نوعیت کے رہے ۔

ان پر کام ہو چکا

فروغِ نعت میں اعظم چشتی کا حصّہ

فروغِ نعت کے سلسلے میں حضرت اعظم چشتی کی ذات ہی اب سے اہم ہے۔ کہ انھوں نے اپنی (72) سالہ زندگی کا ایک ایک لمحہ نبی مکرم کی مدح وثناء میں اور ان کے ذکر وفکر میں گزار دیا۔ وہ جہاں بھی بیھٹے صرف اپنے ممدوح گرامی ہی کی باتیں کرتے۔ پاکستان کے طول وعرض میں انھوں محافلِ نعت کے ذریعے وعشقِ رسول کی کبھی نہ بجنے والی شمعیں لوگوں کے دلوں میں فروزاں کیں۔ انھوں نے گرمی، سردی، بارش، دھوپ وغیرہ کی پرواہ کیے بغیر شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ اور قریہ قریہ طویل سافتیں طے کرکے نعت کی محافل میں اپنی وجد آور آواز اور کیف آگہی انداز سے بچے بچے کو رسالت مآب کا عاشق اور نعت خواں بنا دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں آپ کا قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ آپ کی فیکٹری لاہور کارپٹ عثمان گنج اور فاروق گنج میں واقع تھی اور آپ کی فیکٹری کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست اور خوبصورتی کے باعث افغانستان اور ایران تک جاتے تھے۔ اتنے پھیلے ہوئے کاروبار کے دور میں آپ کے سبھی بچے ابھی نابالغ اور کم سَن تھے جو کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں تھے۔ لٰہذا آپ نے ایک منیجر کو بطور نگران رکھا۔ ان کا نام فیروز بھائی تھا۔ انتہائی ایماندار اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ اعظم چشتی صاحب کی عدم موجودگی میں فیروز بھائی نے ان کا بزنس بہت اچھے سے سنبھال لیا۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ کاروباری مصروفیات کے باعث حضرت اعظم چشتی محافل نعت سے دور ہوگئے اور اِکا دُکا محفل میں نعت سراتی کے لیے جاتے۔ یہ صورتحال ان کے اپنے بیٹے بڑی تکلیف دہ تھی۔ کہ کاروبار کرتے ہیں تو سرکار کی مدح سراتی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور اگر محافل میں تسصل سے جاتے ہیں تو کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں اعظم چشتی کو دونوں میں سے ایک شے کا انتخاب کرنا تھا۔ اور اس عاشقِ رسول نے اپنے آقا ومولا سرکارِ مدینہ کی مدح وستائش پر اپنا کروڑوں کا کاروبار قربان کردیا۔ لاہور کارپٹ اپنے ایک قریبی دوست شیخ احمد حسن کے ہاتھ فروخت کردی اور خود پوری لکیوتی کے ساتھ حضورِ اکرم کی مدح وستائش کے سلسلے میں محو ہوگئے۔ اس سے بڑھ کر فروغِ نعت کے لیے کوئی کیا کرسکتا ہے۔ وہ فیکٹری لاہور کارپٹ آج بھی موجود ہے۔ شیخ احمد حسن تو انتقال کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی اولاد کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کا بزنس اور جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ جمعیتِ حسّان ک قیام 1952 میں لاہور کے مفید نعت خوان حضرات کے تعاون سے حضرت حسّان بن تابت لفہ کے نام سے ایک جماعت بزمِ حسّان عرضِ وجود میں آئی۔ اس بزم کی صدارت کے لیے صرف اعظم چشتی ہی کی ذات کو موزوں سمجھا گیا۔ چنانچہ اس جماعت کے اصل محّرک حضرت مولانا ریاض الدین سہروردی ( امرتسری) جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نعت کوان اور نعت گو بھی تھے۔ اپنے مفید احباب کے ہمراہ اعظم چشتی کے پاس تشریف لے گئے اور اس جماعت کی صدارت قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جسے آپ نے احتراماً قبول کرلیا۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا موصوف کے مستقلد کراچی چلے جانے کے بعد 14 ستمبر 1970 میں جناب اعظم چشتی نے کل پاکستان جمعیت حسّان کی بنیاد رکھی۔ آپ ہی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ نائب صدارت کا عہدہ جان محمد امرتسری اور جناب محمد علی ظہوری (قصوری) کو سونپا گیا۔ جمعیت حسان کی سرپرستی میں آج بھی ملک کے تقریباً ہر شہر اور قصبہ میں اس کی شاخیں قائم ہیں۔ بلکہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکہ میں بھی اعظم چشتی کے شاگردوں نے جمعیت حسّان کی شاخیں کھول رکھی ہیں۔ اور محافلِ نعت کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ آپ کے فرزند اور شاگرد آج بھی نعتِ رسول مقبول کے ذریعے عشقِ رسول کی شمعیں فروزاں کرنے میں سبق بستی ہیں

نئی معلومات

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا سے حاصل کی اور سکول کے بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیز 5 سال کی عمر میں پڑھنے کا عزاز حاصل کیا اور خوب داد وصول کی اور استاتذہ کی توجہ کا مرکز بنے – آپ کے استاتذہ نے آپکی خوش الحانی کو جب دیکھا تو باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعد آپکو نعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا اور تربیعت بھی کرتے رہے – تلفظ ادائیگی میں آپکی ابتدائی تربیعت آپکے والد گرامی نے کی جو خود بھی ایک عالم دین تھے -آپکے گھر ہر جمعہ رات کو باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا جہاں آپ بہت خشوع خضوع کیساتھ نعت مبارکہ پڑھتے اور جو بھی اہل نعت آپکو سماعت کرتے خوب داد و حوصلہ افزائی کرتے -صرف 13 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ داتا صاحب جمعرات کی محفل نعت میں نعت مابرکہ پڑھی تو سب اہل نعت اور سینئرز نعت خوانوں کی توجہ کا مرکز بنے اور یہاں باقاعدگی کیساتھ ہر جمعرات کو آپ آتے تو اہل نعت آپکو اپنی گاڑیوں میں بیٹھا کر گھروں میں محفل نعت کے لیے لے جاتے- یہ وہ زمانہ تھا جب اہل لاہور نے اپنے گھروں میںمحفل نعت کا نعقادکرنا ہوتاتو داتا صاحب جمعراتکے دن آجاتے اور اپنے پسنیدہ نعت خوانوں کو پابند کرے اپنے گھروں میں محفل کا انعقاد کرواتے -یوں دربار فیض عالم نعت خوانی کا ایک ایسا مقام اور یونیورسٹی تھیجہاں جونیئرز تربیعت حاصل کرتے اور سیئرز آپنی خوش الھانی سے اہل نعت کو متاثر کرتے -کیا خوب ماحول ہوتا کیا نعت خوانوں کا جذبہ و عشق ہوتا ہر سینئر جونیئرز کو ادب کی تلقین کرتا اسکی تربیعت کرتا اور محافل میں ساتھ لیکر جاتا یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کا بنیادی سبب بنا – یہی وہ عمر تھی جب دربار گنج بخش نے اعظم چشتی کو فیض ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے کم عمری میں آپکا شمار بڑے نعت خوانوں میں ہونے لگا ہر طرف آپکی چرچا ذکر رہتا اور ہر جمعرات کو اہل نعت اور ثناء خواں آپکو سماعت کرنے یہاں پہنچ جاتے آپ کے والد جو ایک عالم دین اور شعبہ حلکمت سے منسلک تھے کیساتھ بھی آپ اکثر اوقات معاونت کرتے اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا -بعد ازاں لاہور منتقل ہوئے تو جامعہ ابو الحسنات میں داخلہ لیا جہاں دینی علام سکھنے کیساتھ ساتھ 1936 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا – بعد ازاں عربی و فارسی میں منشی فاضلکا کورس مکمل کیا

بیماری

جمشید چشتی جب بیمار ہوا تو اسے آنتوں میں کوراک کی نال کا عارضہ ہوا جسکا علاج اس وقت پاکستان میں نہیں تھا تب جمشید کی عمر کم و بیش 20 سال تھی یہ 1964 میں پیدا ہوا

واقعہ خلیفہ جہانگیر لاہور جنکی عمر اس وقت75

خلیفہ جہانگیر بتاتے ہیں کہ میری عمر لگ بھگ 16 سال تھی ملک معرادین جو لاہور کے بہت بڑے تاجر تھے نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی آئے ہوئے تھے - اعظم چشتی جب نعت پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو میں وہاں موجود تھا آپکی نعت ختم ہوئی تو بانی مھفل سے اجازت طلب کرکے چلے گئے اس کے فورا بعد میں نے نعت پڑھنی تھی -نقیب سے جب مجھے مدعو کیا تو میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پرھنا شروع کیا اور کچھ کلام پرھنے کے بعد میں نے بھی بانی محفل سے رخصت طلب کی تو دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد مرحوم صفدر چشتی تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے کمال لوگ تھے وہ کیا محبتیں تھیں کیا صحبتیں تھیں – اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جہاں بھی مھفل میں ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور رانمائی کرتے میں آج بھی ان عظیم نعت خوانوں کی جوتیاں سیدھا کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں -اللہ کڑور ہا رحمتیں آپکی قبر پر نازل کرے 1989 میں اعظم چشتی صاحب کی سرپرستی میں دہلی انڈیا عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اس وفد میں محمد علی ظہوری ، حفیظ تائب ،محبوب ہمدانی ،مرغوب ہمدانیاور قاری صداقت علی بھی شامل تھے تمام سفر میں بہت مھبت کے ساتھ پیش آئے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمد علی ظہوری اور اعظم چشتی کے تعلقات بہت اچھے نہ تھے انہوں نے غلط سنا میں نے ان نعت خوانوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور وضو کروانے کا شرف بھی حاصل کیا ہمیشہ بہت محبت وکیساتھ دونوں ملتے اور باہمی عزت کا تعلق رہا -میں آج کے نعت خوانوں سے پوچھتا ہوں کس کا کس سے قریبی تعلق ہے منہ پر کچھ اور بعد میں کچھ ان لوگوں سے وہ لوگ زیادہ مخلص تھے-ہاں تو میں بات کر رہا تھا دہلی کانفرنس کی وہاں ماشاء اللہ ہم سب کو ہی نعت پڑھنے کا موقعہ ملا خوب داد بھی پائی مگر اعظم چشتی صاحب کی شخصیت و گفتگو و وقار کا وہاں جاکر پتہ چلا کہ آپ کی کس قدر عزت و منزلت ہے -اسی کانفرنس میں ایران ایمبیسی کے افراد بھی شریک ہوئے اعظم چشتی کے کلام و خوش الحانی سے بہت متاثر ہوئے تو رات کو انہوں نے ہمیں دعوت دی جو اعظم چشتی صاحب نے قبول کرلی -جب ہم رات کو ایران ایمبیسی گئے وہاں اعظم چشتی صاحب نے ایسا نگ جمایا کہ واہ واہ سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں اور خوب داد ملی – ایک تو اعظم چشتہ صاحب کی شخصیت دوسرا رنگ روپ تیسرا فارسی فہمی و فارسی کلام کا پڑھنا باقی آپ اب سمجھ سکتے ہیں کیا ماحول بنا ہو گا

qari sdaqat ali =

قاری صداقت علی لاہور: میرے استاد محترم اعظم چشتی کمال شخصیت کے مالک ہر نئےآنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی و راہنمائی کرتے-اپنے فن میں یکتا و کمال نعت خواں اپنے دور اور پہلے یا بعد میں آپ جیسا نعت خواں نہ تھا نہ ہوگا حسّان پاکستان کا لقب تو ملا ہی مگر میں یہ کہنا چاہوں گو کہ پورے پاک و ہند میں آپکی مثل کوئی نہ تھا آپکو حسْان پاک و ہند سمجھتا ہوں -نعت خوانی میں گرہطبدی پر ملکہ حاصل تھا کبھی کتاب ہاتھ میں نہ پکڑتے یوں کہیے کہ آپ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے اور اایک شعر پر کئی کئی گھنٹے گرہ بندی کرتے کمال حافظہ تھا ایک ہی نششت میں 8 سے 9 گھنٹے مسلسل نعت خوانی کا ہنر جانتے -یہ وہ زمانہ تھا جب محافل نعت میں تلاوت کے بعد ایک نعت ہوتی بعد ازاں خطاب اور یوں سمجھیے کیا نعت خوانی ہوگی جو اس زمانہ میں آپ جیسے عظیم نعت خواں کو کئی کئی گھنٹے علمائے اکرام مشائیخ پیران گرام سماعت کرتے –بہت محافل میں آپکا ساتھ رہا یہ خوش نصیبی رہی کے آپکی صھبت بھی میسر آئی بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا ان محافل میں ایک کیفیت و روحانیت ہوتی ادب ہوتا ہوتا احترام ہوتا سیکھنے کے مواقع ہوتے جو بد قسنتی سے اب نہیں رہے یہ 1980 دہائی کے اوائل کی بات ہے عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا "لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے او کافر اے جنہوں تیرے اتے پیار نئی آیا ایک کیفیت ایک سماع بن گیا رقعت آمیز مناظر ہر طرف گریہ زاری ایسا منطر شاہد ہی کبھی دیکھا ہو -جب آپ نعت پرھتے زماں و مکاں کی خبر سے بے نیاز سامعین آپکی نعت کوانی مین محو ہوجاتے

comments edit akhtar bazmi

اختر بزمی راولپنڈی : یہ بات ہے کم و بیش 1958 کی جب اعظم چشتی صاحب راولپنڈی آتے اور میں انہیں جی ٹی ایس کے بس سٹاپ لاقت باغ سے رسیو کرتا اُس وقت لیاقت باغ کا نام کمپنی باغ تھا یہی ایک بسوں کا اڈا ہوتا – رات کو اعظم چشتی فون کر دیتے کہ میں لاہور سے چل پڑا ہوں اور آپ صبح 6بجے راولپنڈی پہنچ جاتے جہاں سے میں ٹانگہ لیکر اڈے پر پہنچ جاتا اور آپکو ساتھ لیکر ہماری بزم میلاد کمیٹی راولپنڈی کے سرپرست جناب باو غلام نبی جو کہ ایک تاجر تھے اور بہت عاشق رسول بھی کے گھر لے جاتا جہاں آپ ناشتہ کرتے اور آرام بھی -یہ وہ زمانہ تھا جب محفل نعت دن میں ہوا کرتیں آپ کچھ دیر آرام کرتے اور بعد ازاں محافل میں جاتے اکثر اوقات آپ آستانہ دیول شریف پنڈی اور آستانہ چوڑا شریف اٹک بھی جایا کرتے -آپ نہائت ملنسار شفیق ، خوش طبع خوش اخلاق خوش لباس انسان تھے -میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ اپکی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا

klam mulana zafar ali khan by azam chishti

"اےخاور حجاز کے رخشندہ آفتاب" روشنتمہارے نور سے ہے انجمن تمام جاناںترے ظہور مقدس کے ساتھ ساتھ طےہو گئے مراحل تکمیل فن تمام کچھکچھ کبھی کبھی نظرا آیا کہیں کہیں پایاہے کس نے دہر میں یہ بانکپن تمام گذراہے جس طرف سے تیرا کاروان فیض بکھراگیا ہے راہ مین مشک ختن تمام جسزیر کی میں تیرے تععلق کی بو نہیں وہزیر کی ہے اصل میں دیوانہ پن تمام بخشیہے کنکروں کو اگر لذت سخن دھویاہے شاعروں کا غرور سخن تمام عصرجدید ہی تری چوکھٹ پہ خم نہیں پردرد ہے تجھ سے دامن عہد کہن تمام رومیہو شاذلی ہو غزالی کہ کلیری سیکھےہیں دلبری کے تجھی سے چلن تمام ابھرےہیں تیرے نقش کف پا کو چوم کر شیریںسخن، بہار پھبن، گلبدن تمام

new mazmmon of jamshed on father and raggs

محمد اعظم چشتیؒ بحیثیت والد والد صاحب یوں توں بہت سخت مزاج اور بارْعب شخصیت تھے۔ کہیں طبیعت میں جتنا جلال تھا اْس سے کہیں بڑھ کر جمال جلوہ افروز تھا۔ اْنہیں اپنی اولاد سے والہانہ محبت تھی اور محبت کے اظہار میں بہت بے ساختہ پن اور بے باکی تھی۔پورا محلّہ بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کے حوالے سے والد صاحب کی مثال دیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب وہ مجھے میرے آپریشن کی غرض سے لندن لے کر گئے تو ڈاکٹر نے تیماردار (Attendant) کو ساتھ رہنے کی اجازت نہ دی۔ اب ایک تو والد صاحب میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور دوسرے میں بھی اْن کے بغیر ہسپتال میں رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت سمجھایا کہ ہم یہاں مریض کی بہت اچھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہاں کے قانون کے مطابق کسی عزیز یا رشتے دار کو مریض کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔لیکن میں بضد تھا کہ اگر میرے ابّا جی میرے ساتھ نہیں رہیں گے تو میں بھی ہسپتال میں نہیں رہوں گا۔ قصّہ مختصر ۔ڈاکٹروں نے ابّا جی کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی اور ایک ’’ایزی چیئر‘ ‘ دے دی کہ آپ اسی پر آرام کریں گے۔ دوسرا بیڈ لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ابّا جی نے اس پر کوئی تکرار نہیں کیا۔اور اڑھائی ماہ تنہا میری تیمارداری بھی کی،دیکھ بھال بھی کی اور آرام بھی نہیں کیا۔پورے ہسپتال کا عملہ اس پر حیران تھابلکہ ایک روز وہاں کی بیڈ نرس نے ابا جی سے آ کر کہا کہ ہم نے یہاں باپ بیٹے کی محبت کا ذکر تو سنا ہے کہیں آج تک باپ بیٹے میں اتنی محبت بلکہ عشق کا ذکر تک ہم نے نہیں سنا۔ گویا بچوں کے لیئے وہ سراپا محبت و ایثار تھے۔میں اْس وقت یعنی بچپن میں نہیں جانتا تھاکہ یہ کوئی مشہور آدمی ہیں۔کہیں بحیثیت والد مجھے یقین تھا کہ میرے ابا جی جیسا محبت کرنے والا باپ پوری دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نعت اور راگ ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے راگ کھماج مجھ خطاکار سا انسان مدینے میں ہے راگ بھیرویں گذرے وہ جدھر سے راگ میگھ اج سِک تیراں دی ودھیری اے راگ بھیم سمجھا نہیں نیوز مرا عشقِ کے نبات راگ اساوری خود کو دیکھا تو تیرا جْودو کرم یاد آیا راگ ایمن ذاتِ واہدیہ بار بار درود راگ بلاول کون آیا اج دنیا اْتے راگ پہاڑی دل جس سے زندہ ہے راگ تلنگ منقبت خواجہ غریب نواز راگ مالکونس آپ نے اپنی نعتوں میں زیادہ تر راگ کھماج،کلیان اور تلنگ استعمال کیاکرتے تھے۔کہیں راگ داری پسِ پشت رہتی تھی اور رخت سرِ اوّل۔ یعنی رخت پر راگ کو حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔بلکہ لغت کو اپنی شاعری اور جذبے کو اولیت و فوقیت دیتے تھے جبکہ راگ کو پیچھے رکھتے تھے۔میں نے ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔ ۱۔ عامیانہ(عوامی) ۲۔صوفیانہ ۳۔شاعرانہ ۴۔فنکارانہ اپنی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی انسانی درجے پر کرتے تھے اور جہاں صوفیا اور اہلِ حال حضرات موجود ہوتے وہاں تصّوف اور سلوک سے متعلق اشعار سے لغت کو مزّین کرتے۔جس محفل میں علماء و فضلا اور شاعر لوگ بیٹھے ہوتے وہاں شاعرانہ مہارت و دسترس کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے۔اور جس محفل میں موسیقی سے وابستہ فنکار حضرات بیٹھے ہوتے تو اْن کے ذوق کی تسکین کے لئے راگ داری اور کلاسیکی موسیقی کے رموزواسرار سے پروہ کشائی فرماتے جاتے اور لوگ سْر رہ جاتے۔گویا انہیں ہر محفل کو اور ہر قسم کے سامع کو قابو کرنے کا فن آتا تھا۔انھوں نے روایتی نعت خوانی بھی کی۔لیکن اس میں اپنی ذہانت، علم،مطالعہ اور ریاضت سے نت نئے تجربات بھی کیئے اور نعت خوانی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بھی عطا کی۔

new waqiaa

واقعہ سید لیاقت حسین گیلانی صاحب یہ کوئی 1970 کی دہائی کا وسط تھا جب مجھے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کی سٹوڈیو میں نعت پڑھنی تھی -ریڈیو پاکستان لاہور میں کمرہ نمبر 1 ریہرسل کے لیے مختصص تھا جہاں صرف ریہرسل ہوا کرتی -استاد محترم اعظم چشتی صاحب اور معروف نعت خواں و سامعین بھی مدعو تھے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا کم و بیش 100 افراد کے لیے کرسیاں بھی لگائی جاتیں انتظامیہ و سامعین کے لیے لنگر کا بھی بندوبست کرتے اور ایسی محافل نعت منعقد ہوتیں جنہں آج یاد کرکے دل و روح کو تسکین ملتی ہے – پروڈیوسر ظہیر عباس نے مھے اعظم چشتی کی نعت " ایسا کوئی محبوب ہوگا نہ کہیں ہے " دی کہ اسکی ریکارڈنگ ہونی ہے استاد محترم مجھے ریہرسل والے کمرے میں لے آئے اور کہا نعت سناوں مجھے پسینے آ راہے تھے گبھراہٹ بھی تھی بہرحال استاد محترم کے کہنے پر میں نے نعت شریف پڑھنا شروع کی تو اعظم چشت صاحب نے آنکھیں بند کر لیں اور گریہ زاری کرتے رہے میں نعت شریف پڑھ بھی رہا تھا اور استاد محترم کو مسلسل دیکھ بھی رہا تھا اور یہی گبھراہٹ تھی کہ کے اعظم چشتی صاحب کیا کہیں گے -نعت ختم ہوئی تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اعظم چشتی اتنا خوش بخت ہو گیا ہے کہ اسکے شاگرد اتنا خوبصورت کلام پڑھتے ہیں اور میری بہت حوصلہ افزائی بھی کی ماتھا چوما پیار کیا اور کہا کہ اسی طرح سٹوڈیو میں پڑھنا – کچھ ہی دیر بعد مجھے بلایا گیا سٹوڈیو میں کم وبیش 100 کے قریب لوگ جمع تھے جن میں معروف نعت خواں بھی مائیک پر پہنچا تو آلاپ کرکے نعت پڑھنا شروع کردی اور اعظم چشتی صاحب نے کچھ ہی دیر بعد آنکھیں بند کرلیں اور اشک بہاتے رہے تمام محفل یں ایک رقعت طاری ہوگئی ہر طرف یہی منظر تھا -نعت ختم ہونے کے بعد اعظم چشتی اور سبھی سامعین نے خوب داد دی اور سب اعظم چشتی کو مبارکیں دے رہے تھے کہ آپکے شاگرد بھی اپکی طرح اعلی نعت شریف پڑھتے ہین میں بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کچھ ہی دیر بعد آپ میرے پاس آئے اور کہا کہ "لیاقت جتھے توں پڑھے گا اُتھے لوگ اعظم چشتی نوں ضرور یادکرن گئے "یہ بات سچ ثابت ہوئی میں اب بھی کبھی کسی محفل میں جاتا ہوں تو لوگ آواز سن کر آ جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں اعظم چشتی صاحب کی ریکارڈنگ لگائی ہوئی ہے - آپ کمال محبت کرتے اور ہمیشہ نئے آنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی و راہنمائی بھی کرتے – اب نہ وہ سننے والے رہے نہ ہی ویسے سنانے والے یہ واقعہ بتاتے ہوئے آپ اشک بار ہوگئے مجھے کچھ اسی نعت کے اشعار سنائے باخدا محفل ہوگئی اور ایسا محسوس ہوا جیسے اعظم چشتی کی روح لوٹ آئی ہو - آئینہ وہی رہتا ہے چہرے بدل جاتے ہیں تاقیامت اعظم چشتی کا انداز ،اسلوب اور فن امر رہے گا