"تبادلۂ خیال زمرہ:اعظم چشتی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 24: سطر 24:
خلیفہ  جہانگیر بتاتے ہیں کہ میری عمر لگ بھگ  16 سال تھی ملک معرادین  جو لاہور کے بہت بڑے تاجر تھے نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی آئے ہوئے تھے  - اعظم چشتی جب نعت  پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو میں وہاں موجود تھا آپکی نعت ختم ہوئی تو بانی مھفل سے اجازت طلب کرکے چلے گئے اس کے فورا بعد میں نے نعت پڑھنی تھی  -نقیب سے جب  مجھے مدعو کیا تو میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پرھنا شروع کیا اور کچھ  کلام پرھنے کے بعد میں نے بھی بانی محفل سے رخصت طلب کی تو دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد  مرحوم صفدر چشتی  تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل  جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے کمال لوگ تھے وہ کیا محبتیں تھیں کیا صحبتیں تھیں  – اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جہاں بھی مھفل میں ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور رانمائی کرتے  میں آج بھی ان عظیم نعت خوانوں کی جوتیاں سیدھا کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں -اللہ کڑور ہا رحمتیں آپکی قبر پر نازل کرے   
خلیفہ  جہانگیر بتاتے ہیں کہ میری عمر لگ بھگ  16 سال تھی ملک معرادین  جو لاہور کے بہت بڑے تاجر تھے نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی آئے ہوئے تھے  - اعظم چشتی جب نعت  پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو میں وہاں موجود تھا آپکی نعت ختم ہوئی تو بانی مھفل سے اجازت طلب کرکے چلے گئے اس کے فورا بعد میں نے نعت پڑھنی تھی  -نقیب سے جب  مجھے مدعو کیا تو میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پرھنا شروع کیا اور کچھ  کلام پرھنے کے بعد میں نے بھی بانی محفل سے رخصت طلب کی تو دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد  مرحوم صفدر چشتی  تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل  جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے کمال لوگ تھے وہ کیا محبتیں تھیں کیا صحبتیں تھیں  – اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جہاں بھی مھفل میں ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور رانمائی کرتے  میں آج بھی ان عظیم نعت خوانوں کی جوتیاں سیدھا کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں -اللہ کڑور ہا رحمتیں آپکی قبر پر نازل کرے   
1989 میں اعظم چشتی صاحب کی  سرپرستی میں  دہلی انڈیا عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اس وفد میں محمد علی ظہوری ، حفیظ تائب ،محبوب ہمدانی ،مرغوب ہمدانیاور قاری صداقت علی  بھی شامل تھے تمام سفر میں بہت مھبت کے ساتھ پیش آئے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمد علی ظہوری اور اعظم چشتی کے تعلقات بہت اچھے نہ تھے انہوں نے غلط سنا  میں نے ان نعت خوانوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور وضو کروانے کا شرف بھی حاصل کیا  ہمیشہ بہت محبت وکیساتھ دونوں ملتے  اور باہمی عزت کا تعلق رہا  -میں آج کے نعت خوانوں سے پوچھتا ہوں کس کا کس سے قریبی تعلق ہے منہ پر کچھ اور بعد میں کچھ  ان لوگوں سے وہ لوگ  زیادہ مخلص  تھے-ہاں تو میں بات کر رہا تھا دہلی کانفرنس کی وہاں ماشاء اللہ ہم سب کو ہی نعت پڑھنے کا موقعہ ملا خوب داد بھی پائی مگر اعظم چشتی صاحب کی شخصیت و گفتگو و وقار  کا وہاں جاکر پتہ چلا کہ آپ کی  کس قدر عزت و منزلت ہے -اسی کانفرنس میں ایران ایمبیسی کے افراد بھی شریک ہوئے اعظم چشتی کے کلام و خوش الحانی سے بہت متاثر ہوئے تو رات کو انہوں نے ہمیں دعوت دی جو اعظم  چشتی صاحب نے قبول کرلی -جب ہم رات کو ایران ایمبیسی گئے وہاں اعظم چشتی صاحب نے ایسا نگ جمایا کہ واہ واہ  سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں  اور خوب داد ملی – ایک تو اعظم چشتہ صاحب کی  شخصیت  دوسرا  رنگ روپ  تیسرا فارسی فہمی و فارسی کلام کا پڑھنا باقی آپ اب سمجھ سکتے ہیں کیا  ماحول بنا ہو گا
1989 میں اعظم چشتی صاحب کی  سرپرستی میں  دہلی انڈیا عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اس وفد میں محمد علی ظہوری ، حفیظ تائب ،محبوب ہمدانی ،مرغوب ہمدانیاور قاری صداقت علی  بھی شامل تھے تمام سفر میں بہت مھبت کے ساتھ پیش آئے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمد علی ظہوری اور اعظم چشتی کے تعلقات بہت اچھے نہ تھے انہوں نے غلط سنا  میں نے ان نعت خوانوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور وضو کروانے کا شرف بھی حاصل کیا  ہمیشہ بہت محبت وکیساتھ دونوں ملتے  اور باہمی عزت کا تعلق رہا  -میں آج کے نعت خوانوں سے پوچھتا ہوں کس کا کس سے قریبی تعلق ہے منہ پر کچھ اور بعد میں کچھ  ان لوگوں سے وہ لوگ  زیادہ مخلص  تھے-ہاں تو میں بات کر رہا تھا دہلی کانفرنس کی وہاں ماشاء اللہ ہم سب کو ہی نعت پڑھنے کا موقعہ ملا خوب داد بھی پائی مگر اعظم چشتی صاحب کی شخصیت و گفتگو و وقار  کا وہاں جاکر پتہ چلا کہ آپ کی  کس قدر عزت و منزلت ہے -اسی کانفرنس میں ایران ایمبیسی کے افراد بھی شریک ہوئے اعظم چشتی کے کلام و خوش الحانی سے بہت متاثر ہوئے تو رات کو انہوں نے ہمیں دعوت دی جو اعظم  چشتی صاحب نے قبول کرلی -جب ہم رات کو ایران ایمبیسی گئے وہاں اعظم چشتی صاحب نے ایسا نگ جمایا کہ واہ واہ  سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں  اور خوب داد ملی – ایک تو اعظم چشتہ صاحب کی  شخصیت  دوسرا  رنگ روپ  تیسرا فارسی فہمی و فارسی کلام کا پڑھنا باقی آپ اب سمجھ سکتے ہیں کیا  ماحول بنا ہو گا
=== qari sdaqat ali ====
قاری صداقت علی لاہور:
میرے استاد محترم  اعظم چشتی کمال شخصیت کے مالک ہر نئےآنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی و راہنمائی کرتے-اپنے فن میں یکتا و کمال  نعت خواں اپنے دور اور پہلے  یا بعد میں آپ جیسا نعت خواں نہ تھا نہ ہوگا  حسّان پاکستان کا لقب تو ملا ہی مگر میں یہ کہنا چاہوں گو کہ  پورے پاک و ہند میں آپکی مثل کوئی نہ تھا آپکو حسْان پاک و ہند سمجھتا ہوں -نعت خوانی میں گرہطبدی پر ملکہ حاصل تھا کبھی کتاب ہاتھ میں نہ پکڑتے  یوں کہیے کہ آپ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے اور اایک شعر پر کئی کئی گھنٹے گرہ بندی کرتے کمال حافظہ تھا  ایک ہی نششت میں 8 سے 9 گھنٹے مسلسل نعت خوانی  کا  ہنر جانتے -یہ وہ زمانہ تھا جب محافل نعت میں  تلاوت کے بعد ایک نعت ہوتی بعد ازاں خطاب اور یوں سمجھیے کیا نعت خوانی ہوگی جو اس زمانہ میں آپ جیسے عظیم نعت خواں کو کئی کئی گھنٹے علمائے اکرام مشائیخ پیران گرام سماعت کرتے –بہت محافل میں آپکا ساتھ رہا    یہ خوش نصیبی رہی کے آپکی صھبت بھی میسر آئی بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا  ان محافل میں ایک کیفیت و روحانیت ہوتی    ادب ہوتا ہوتا احترام ہوتا  سیکھنے کے مواقع ہوتے  جو بد قسنتی سے اب نہیں رہے
یہ 1980 دہائی کے اوائل کی بات ہے  عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا  اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا
"لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا
کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا
مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے
او کافر اے جنہوں  تیرے اتے پیار نئی آیا
ایک کیفیت ایک سماع بن گیا رقعت آمیز  مناظر ہر طرف گریہ زاری  ایسا منطر شاہد ہی کبھی دیکھا ہو  -جب آپ نعت پرھتے  زماں و مکاں کی خبر سے بے نیاز سامعین  آپکی نعت کوانی مین محو ہوجاتے

نسخہ بمطابق 15:10، 20 نومبر 2017ء

1۔ 4 سال کے بعد کی نعت خوانی

2۔ ان لوگوں کے نام جو اعظم چشتی سے متاثر ہو کر نعت خوانی شروع کی

3۔ پیر حضرت محبوب عالم [ کاروبار کی روایت والے ] کون تھے

4۔ ابتدائی دور ریڈیو کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی کیف آفریں آواز سے سیراب ہوتیں رہیں ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔

ڈیش ڈیش کی جگہ دور دراز کے شہروں اور ان میں اعظم چشتی کی آواز سے متاثر ہو کر نعت خوانی کرنے والوں کے نام لکھیں ۔

فروغِ نعت میں اعظم چشتی کا حصّہ

فروغِ نعت کے سلسلے میں حضرت اعظم چشتی کی ذات ہی اب سے اہم ہے۔ کہ انھوں نے اپنی (72) سالہ زندگی کا ایک ایک لمحہ نبی مکرم کی مدح وثناء میں اور ان کے ذکر وفکر میں گزار دیا۔ وہ جہاں بھی بیھٹے صرف اپنے ممدوح گرامی ہی کی باتیں کرتے۔ پاکستان کے طول وعرض میں انھوں محافلِ نعت کے ذریعے وعشقِ رسول کی کبھی نہ بجنے والی شمعیں لوگوں کے دلوں میں فروزاں کیں۔ انھوں نے گرمی، سردی، بارش، دھوپ وغیرہ کی پرواہ کیے بغیر شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ اور قریہ قریہ طویل سافتیں طے کرکے نعت کی محافل میں اپنی وجد آور آواز اور کیف آگہی انداز سے بچے بچے کو رسالت مآب کا عاشق اور نعت خواں بنا دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں آپ کا قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ آپ کی فیکٹری لاہور کارپٹ عثمان گنج اور فاروق گنج میں واقع تھی اور آپ کی فیکٹری کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست اور خوبصورتی کے باعث افغانستان اور ایران تک جاتے تھے۔ اتنے پھیلے ہوئے کاروبار کے دور میں آپ کے سبھی بچے ابھی نابالغ اور کم سَن تھے جو کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں تھے۔ لٰہذا آپ نے ایک منیجر کو بطور نگران رکھا۔ ان کا نام فیروز بھائی تھا۔ انتہائی ایماندار اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ اعظم چشتی صاحب کی عدم موجودگی میں فیروز بھائی نے ان کا بزنس بہت اچھے سے سنبھال لیا۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ کاروباری مصروفیات کے باعث حضرت اعظم چشتی محافل نعت سے دور ہوگئے اور اِکا دُکا محفل میں نعت سراتی کے لیے جاتے۔ یہ صورتحال ان کے اپنے بیٹے بڑی تکلیف دہ تھی۔ کہ کاروبار کرتے ہیں تو سرکار کی مدح سراتی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور اگر محافل میں تسصل سے جاتے ہیں تو کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں اعظم چشتی کو دونوں میں سے ایک شے کا انتخاب کرنا تھا۔ اور اس عاشقِ رسول نے اپنے آقا ومولا سرکارِ مدینہ کی مدح وستائش پر اپنا کروڑوں کا کاروبار قربان کردیا۔ لاہور کارپٹ اپنے ایک قریبی دوست شیخ احمد حسن کے ہاتھ فروخت کردی اور خود پوری لکیوتی کے ساتھ حضورِ اکرم کی مدح وستائش کے سلسلے میں محو ہوگئے۔ اس سے بڑھ کر فروغِ نعت کے لیے کوئی کیا کرسکتا ہے۔ وہ فیکٹری لاہور کارپٹ آج بھی موجود ہے۔ شیخ احمد حسن تو انتقال کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی اولاد کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کا بزنس اور جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ جمعیتِ حسّان ک قیام 1952 میں لاہور کے مفید نعت خوان حضرات کے تعاون سے حضرت حسّان بن تابت لفہ کے نام سے ایک جماعت بزمِ حسّان عرضِ وجود میں آئی۔ اس بزم کی صدارت کے لیے صرف اعظم چشتی ہی کی ذات کو موزوں سمجھا گیا۔ چنانچہ اس جماعت کے اصل محّرک حضرت مولانا ریاض الدین سہروردی ( امرتسری) جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نعت کوان اور نعت گو بھی تھے۔ اپنے مفید احباب کے ہمراہ اعظم چشتی کے پاس تشریف لے گئے اور اس جماعت کی صدارت قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جسے آپ نے احتراماً قبول کرلیا۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا موصوف کے مستقلد کراچی چلے جانے کے بعد 14 ستمبر 1970 میں جناب اعظم چشتی نے کل پاکستان جمعیت حسّان کی بنیاد رکھی۔ آپ ہی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ نائب صدارت کا عہدہ جان محمد امرتسری اور جناب محمد علی ظہوری (قصوری) کو سونپا گیا۔ جمعیت حسان کی سرپرستی میں آج بھی ملک کے تقریباً ہر شہر اور قصبہ میں اس کی شاخیں قائم ہیں۔ بلکہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکہ میں بھی اعظم چشتی کے شاگردوں نے جمعیت حسّان کی شاخیں کھول رکھی ہیں۔ اور محافلِ نعت کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ آپ کے فرزند اور شاگرد آج بھی نعتِ رسول مقبول کے ذریعے عشقِ رسول کی شمعیں فروزاں کرنے میں سبق بستی ہیں

نئی معلومات

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول چک جھمرا سے حاصل کی اور سکول کے بزم ادب میں پہلی نعت مبارکہ کم و بیز 5 سال کی عمر میں پڑھنے کا عزاز حاصل کیا اور خوب داد وصول کی اور استاتذہ کی توجہ کا مرکز بنے – آپ کے استاتذہ نے آپکی خوش الحانی کو جب دیکھا تو باقاعدگی کیساتھ روزانہ تلاوت قرآن پاک کے بعد آپکو نعت مبارکہ پڑھنے کا پابند کیا اور تربیعت بھی کرتے رہے – تلفظ ادائیگی میں آپکی ابتدائی تربیعت آپکے والد گرامی نے کی جو خود بھی ایک عالم دین تھے -آپکے گھر ہر جمعہ رات کو باقاعدگی کیساتھ محفل نعت کا انعقاد ہوتا جہاں آپ بہت خشوع خضوع کیساتھ نعت مبارکہ پڑھتے اور جو بھی اہل نعت آپکو سماعت کرتے خوب داد و حوصلہ افزائی کرتے -صرف 13 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ داتا صاحب جمعرات کی محفل نعت میں نعت مابرکہ پڑھی تو سب اہل نعت اور سینئرز نعت خوانوں کی توجہ کا مرکز بنے اور یہاں باقاعدگی کیساتھ ہر جمعرات کو آپ آتے تو اہل نعت آپکو اپنی گاڑیوں میں بیٹھا کر گھروں میں محفل نعت کے لیے لے جاتے- یہ وہ زمانہ تھا جب اہل لاہور نے اپنے گھروں میںمحفل نعت کا نعقادکرنا ہوتاتو داتا صاحب جمعراتکے دن آجاتے اور اپنے پسنیدہ نعت خوانوں کو پابند کرے اپنے گھروں میں محفل کا انعقاد کرواتے -یوں دربار فیض عالم نعت خوانی کا ایک ایسا مقام اور یونیورسٹی تھیجہاں جونیئرز تربیعت حاصل کرتے اور سیئرز آپنی خوش الھانی سے اہل نعت کو متاثر کرتے -کیا خوب ماحول ہوتا کیا نعت خوانوں کا جذبہ و عشق ہوتا ہر سینئر جونیئرز کو ادب کی تلقین کرتا اسکی تربیعت کرتا اور محافل میں ساتھ لیکر جاتا یہی ماحول لاہور میں فروغ نعت کا بنیادی سبب بنا – یہی وہ عمر تھی جب دربار گنج بخش نے اعظم چشتی کو فیض ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے کم عمری میں آپکا شمار بڑے نعت خوانوں میں ہونے لگا ہر طرف آپکی چرچا ذکر رہتا اور ہر جمعرات کو اہل نعت اور ثناء خواں آپکو سماعت کرنے یہاں پہنچ جاتے آپ کے والد جو ایک عالم دین اور شعبہ حلکمت سے منسلک تھے کیساتھ بھی آپ اکثر اوقات معاونت کرتے اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا -بعد ازاں لاہور منتقل ہوئے تو جامعہ ابو الحسنات میں داخلہ لیا جہاں دینی علام سکھنے کیساتھ ساتھ 1936 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا – بعد ازاں عربی و فارسی میں منشی فاضلکا کورس مکمل کیا

بیماری

جمشید چشتی جب بیمار ہوا تو اسے آنتوں میں کوراک کی نال کا عارضہ ہوا جسکا علاج اس وقت پاکستان میں نہیں تھا تب جمشید کی عمر کم و بیش 20 سال تھی یہ 1964 میں پیدا ہوا

واقعہ خلیفہ جہانگیر لاہور جنکی عمر اس وقت75

خلیفہ جہانگیر بتاتے ہیں کہ میری عمر لگ بھگ 16 سال تھی ملک معرادین جو لاہور کے بہت بڑے تاجر تھے نے اچھرہ کی جامع مسجد میں ایک محفل نعت کا اہتمام کیا جس میں اعظم چشتی بھی آئے ہوئے تھے - اعظم چشتی جب نعت پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو میں وہاں موجود تھا آپکی نعت ختم ہوئی تو بانی مھفل سے اجازت طلب کرکے چلے گئے اس کے فورا بعد میں نے نعت پڑھنی تھی -نقیب سے جب مجھے مدعو کیا تو میں نے پنجابی کا معروف کلام " جند مکدی مکدی مک چلی ہجے مکیاں یار جدائیاں نئیں " پرھنا شروع کیا اور کچھ کلام پرھنے کے بعد میں نے بھی بانی محفل سے رخصت طلب کی تو دوسرے دن میری دوکان پر اعظم چشتی صاحب کے شاگرد مرحوم صفدر چشتی تشریف لائے جو بہت خوبصورت نعت خواں تھے مجھے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور بہت خوشی سے بتانے لگے کہ کل جب اعظم چشتی مسجد سے نکل رہے تھے تو تمھاری آواز سن کر وہی رکے رہے اور تمھاری نعت کھڑے ہوکر پوری سنی اور مجھے کہنے لگا کہ بچے نے بہت اچھا کلام پڑھا – میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے یہ بہت برا اعزاز ہے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایک عجب کیفیت بن جاتی ہے کمال لوگ تھے وہ کیا محبتیں تھیں کیا صحبتیں تھیں – اس واقعہ کے بعد اعظم چشتی سے جہاں بھی مھفل میں ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور رانمائی کرتے میں آج بھی ان عظیم نعت خوانوں کی جوتیاں سیدھا کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں -اللہ کڑور ہا رحمتیں آپکی قبر پر نازل کرے 1989 میں اعظم چشتی صاحب کی سرپرستی میں دہلی انڈیا عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اس وفد میں محمد علی ظہوری ، حفیظ تائب ،محبوب ہمدانی ،مرغوب ہمدانیاور قاری صداقت علی بھی شامل تھے تمام سفر میں بہت مھبت کے ساتھ پیش آئے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمد علی ظہوری اور اعظم چشتی کے تعلقات بہت اچھے نہ تھے انہوں نے غلط سنا میں نے ان نعت خوانوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور وضو کروانے کا شرف بھی حاصل کیا ہمیشہ بہت محبت وکیساتھ دونوں ملتے اور باہمی عزت کا تعلق رہا -میں آج کے نعت خوانوں سے پوچھتا ہوں کس کا کس سے قریبی تعلق ہے منہ پر کچھ اور بعد میں کچھ ان لوگوں سے وہ لوگ زیادہ مخلص تھے-ہاں تو میں بات کر رہا تھا دہلی کانفرنس کی وہاں ماشاء اللہ ہم سب کو ہی نعت پڑھنے کا موقعہ ملا خوب داد بھی پائی مگر اعظم چشتی صاحب کی شخصیت و گفتگو و وقار کا وہاں جاکر پتہ چلا کہ آپ کی کس قدر عزت و منزلت ہے -اسی کانفرنس میں ایران ایمبیسی کے افراد بھی شریک ہوئے اعظم چشتی کے کلام و خوش الحانی سے بہت متاثر ہوئے تو رات کو انہوں نے ہمیں دعوت دی جو اعظم چشتی صاحب نے قبول کرلی -جب ہم رات کو ایران ایمبیسی گئے وہاں اعظم چشتی صاحب نے ایسا نگ جمایا کہ واہ واہ سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں اور خوب داد ملی – ایک تو اعظم چشتہ صاحب کی شخصیت دوسرا رنگ روپ تیسرا فارسی فہمی و فارسی کلام کا پڑھنا باقی آپ اب سمجھ سکتے ہیں کیا ماحول بنا ہو گا

qari sdaqat ali =

قاری صداقت علی لاہور: میرے استاد محترم اعظم چشتی کمال شخصیت کے مالک ہر نئےآنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی و راہنمائی کرتے-اپنے فن میں یکتا و کمال نعت خواں اپنے دور اور پہلے یا بعد میں آپ جیسا نعت خواں نہ تھا نہ ہوگا حسّان پاکستان کا لقب تو ملا ہی مگر میں یہ کہنا چاہوں گو کہ پورے پاک و ہند میں آپکی مثل کوئی نہ تھا آپکو حسْان پاک و ہند سمجھتا ہوں -نعت خوانی میں گرہطبدی پر ملکہ حاصل تھا کبھی کتاب ہاتھ میں نہ پکڑتے یوں کہیے کہ آپ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے اور اایک شعر پر کئی کئی گھنٹے گرہ بندی کرتے کمال حافظہ تھا ایک ہی نششت میں 8 سے 9 گھنٹے مسلسل نعت خوانی کا ہنر جانتے -یہ وہ زمانہ تھا جب محافل نعت میں تلاوت کے بعد ایک نعت ہوتی بعد ازاں خطاب اور یوں سمجھیے کیا نعت خوانی ہوگی جو اس زمانہ میں آپ جیسے عظیم نعت خواں کو کئی کئی گھنٹے علمائے اکرام مشائیخ پیران گرام سماعت کرتے –بہت محافل میں آپکا ساتھ رہا یہ خوش نصیبی رہی کے آپکی صھبت بھی میسر آئی بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا ان محافل میں ایک کیفیت و روحانیت ہوتی ادب ہوتا ہوتا احترام ہوتا سیکھنے کے مواقع ہوتے جو بد قسنتی سے اب نہیں رہے یہ 1980 دہائی کے اوائل کی بات ہے عمران علی شاہ صاحب کے والد گرامی محفل نعت کا انعقاد کیا رات کے بارہ ایک کا وقت تھا اعظم چشتی صاحب نے ایک شعر پڑھا "لنگدی پئی اے رات ہجے یار نئی آیا کیتا سے اُنہے آن دا اقرار نئی آیا مشرک اے جیڑا تیرے بغیر کسی ہور نو ویکھے او کافر اے جنہوں تیرے اتے پیار نئی آیا ایک کیفیت ایک سماع بن گیا رقعت آمیز مناظر ہر طرف گریہ زاری ایسا منطر شاہد ہی کبھی دیکھا ہو -جب آپ نعت پرھتے زماں و مکاں کی خبر سے بے نیاز سامعین آپکی نعت کوانی مین محو ہوجاتے