"تبادلۂ خیال:فروغ نعت ۔ شمارہ 15" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(تمام مندرجات حذف)
 
(ایک ہی صارف کا 5 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:


=== سلک درر ===
==== اداریہ ====
[[فروغ نعت ۔ شمارہ 15 ۔ اداریہ | حرف تمنا (اداریہ) : مدیر]]
==== حمد ====
[[کوئی عقبی کوئی دنیا مانگے ۔ نور احمد قادری | حمد رب جلیل : حافظ نور احمد قادری۔اسلام آباد ]]
==== نعت ====
[[محبوب حق نے وحدت ِ حق کا پتا دیا ۔ نور احمد قادری | نعت سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : حافظ نور احمد قادری۔اسلام آباد]]
=== تذکرہ نعت گویان اٹک ===
==== سردار ظہیر احمد خان ظہیر ====
* [[ سردار ظہر احمد خان ظہیر تعارف ۔ ادارہ ۔ فروغ نعت شمارہ 15 | سردار ظہر احمد خان ظہیر تعارف ۔ ادارہ ]]
*  [[دامنِ تر(ظہیراحمدظہیرکی نعتیہ شاعری) عرضِ احوال ۔ سید شاکر القادری ۔ فروغ نعت شمارہ 15 | دامنِ تر(ظہیراحمدظہیرکی نعتیہ شاعری) عرضِ احوال ۔ سید شاکر القادری]]
* [[سردار ظہیر احمدخان ظہیر کی نعتیں ۔ فروغ نعت شمارہ 15 | سردار ظہیر احمدخان ظہیر کی نعتیں ]]
==== دلاور علی آذر ====
*دلاور علی آذر (تعارف) : ادارہ ۳۱
* لفظوں کا بھیدی۔ دلاور علی آزر : یونس تحسین۔ گوجرانوالہ ۳۲
* دلاور علی آزر کی نعتیں : ۳۷
=== مضامین ===
* نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدی جائزہ : شاہد کمال۔ لکھنؤ ۵۳
* مدحتِ مصطفیٰ کے متنی تقاضے : ڈاکٹر عزیز احسن۔ کراچی ۹۰
=== انتقاد و تاثرات ===
=== قارئین کے خطوط ===
(۱)
نئی سحر ہوئی جلوہ فگن مدینے میں
ہیں سجدہ ریز سبھی مرد و زن مدینے میں
بدل گیا ہے زمانہ اٹھی نئی تہذیب
جو مہر باں ہوا چرخ کہن مدینے میں
بسی ہے جس کی زمانے میں چار سو خوشبو
گلی گلی ہوئی رشکِ چمن مدینے میں
جو رہا گیا ہے یہاں، سایہ ہے فقط ورنہ
ہے میری روح، بدن، جان ،تن مدینے میں
ملا حیات کو اظہار کا نیا اسلوب
ظہیر ہوگئی تکمیلِ فن مدینے میں
(۲)
ہے آرزو کہ شعر جو تصنیف میں کروں
ہر لفظ میں حضور کی تعریف میں کروں
حسان کا قلم جو مری دسترس میں ہو
بعد از خدا بزرگ کی توصیف میں کروں
اسی رحمتِ جہاں کی جو چادر نصیب ہو
اپنے دکھوں میں تھوڑی سی تخفیف میں کروں
بچھڑوں جو کارواں سے مدینے کی راہ میں
دل سے قبول عیش میں تکلیف میں کروں
شاعر نہیں نبی کا نمک خوار ہوں ظہیر
کیوں اس حسیں کلام میں تحریف میں کروں
(۳)
ہے مرا مدعا مدینے میں
یعنی حاجت روا مدینے میں
سبز گنبد میں محوِ راحت ہے
ہر نبی کی دعا مدینے میں
درد مندو! ذرا نہ گھبراؤ!
ہے دوا و شفا مدینے میں
ایسے سجدے پہ نیکیاں قرباں
جو ادا ہو گیا مدینے میں
جس طرف دیکھا یوں لگا، جیسے
سامنے ہے خدا مدینے میں
جسم گرچہ رہا اٹک میں ظہیر
دل ہمیشہ رہا مدینے میں
(۴)
مقدر میں مرے یہ لمحہ یارب بار ہا آئے
تصور میں مدینہ ہو نظر میں مصطفیٰ آئے
درِ اقدس کی چوکھٹ چوم کر ہر روز آتی ہے
یہ خوش بختی مگر میرے بھی حصے میں صبا! آئے
ہوئے پیدا تو ہر ذرے نے ہاتف کی صدا سن لی
محمد مصطفیٰ، فخرِ رسل خیرالوریٰ آئے
کوئی حسرت نہیں رہتی اگر سرکار بلوا لیں
وفور جذبِ دل سے رات دن لب پہ دعا آئے
میں تاریکی میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوںبرسوں سے
کبھی تو میری جانب ان کے چہرے کی ضیا آئے
حضوری میں مجھے پا کر مرے احباب بول اٹھے
وہ دیکھو ڈھوک شرفہ کے ظہیر پر خطا آئے
(۵)
توڑ دو میرے ہجر کی زنجیر
پوری ہو جائے خواب کی تعبیر
پھر نہ لوٹوں گا میں وہاں سے کبھی
چاہے بن جاؤں راستے کی لکیر
اے خدا موت دے مدینے میں
یہ خلش کھا گئی ہے میرا ضمیر
آپ کے آسرے پہ زندہ ہوں
ورنہ کیا ہے حیاتِ پر تقصیر
نور والے! ترے گھرانے کی
مدح میں آئی آیۂ تطہیر
اس کی تعریف کر رہا ہے خدا
میں بھلا کیا لکھوں گا نعت ظہیر
(۶)
غم دنیا سے چور ہوں آقا
جب سے میں بے حضور ہوں آقا
اک نظر ، اک نظر خدا کے لیے
ہجر سے نا صبور ہوں آقا
میں ثنائے حضور کیا لکھوں
بے ہنر، بے شعور ہوں آقا
لوگ کچھ بھی مجھے سمجھتے رہیں
تیرا خادم ضرور ہوں آقا
خود نگر بھی ہوں اور غریب بھی ہوں
یوں ترے در سے دور ہوں آقا
جل رہا ہوں تری محبت میں
گویا میں رشکِ طور ہوں آقا
ہے ظہیر آپ کے غلام کا نام
اس لیے پر غرور ہوں آقا
(۷)
جن و بشر کے ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ وسلم
ایک یہی نغمہ ہے گھر گھر، صلی اللہ علیہ وسلم
تاریکی سے اس نے نکالا، بھٹکے ہوؤں کو راہ پہ ڈالا
حق کا حامی ، خیر کا محور گھر، صلی اللہ علیہ وسلم
عام ہے اس کی شیریں بیانی، زم زم ہے دھوون کا پانی
شافع محشر، ساقیٔ کوثر گھر، صلی اللہ علیہ وسلم
جینے کا انداز تھا اس کا ، آپ نہ کھانا سب کو کھلانا
اس کا عمل رخشندہ گوہر، صلی اللہ علیہ وسلم
جان چکا تھا سارا زمانہ، بو جہلوں نے پھر بھی نہ مانا
ہاتھ میں جس کے بولے کنکر، صلی اللہ علیہ وسلم
تو بھی ظہیر اب مان لے کہنا، باقی عمر مدینے رہنا
قدم اٹھا بسم اللہ کہہ کر، صلی اللہ علیہ وسلم
(۸)
پورا ہر حرف مدعا کیجے
جو طلب ہے مجھے عطا کیجے
ہجر کا روگ کھا رہا ہے مجھے
اے طبیب جہاں دوا کیجے
حاضری ہو مری مدینے میں
یہ کرم مجھ پہ بارہا کیجے
غیر کا ہر خیال مٹ جائے
یوں محبت میں مبتلا کیجے
مصطفیٰ کے غلام ہو تو ظہیر
بے وفاؤں سے بھی وفا کیجے
(۹)
جو  منہ سے نکل جائے وہ ہر بات بھلی ہو
ہر لفظ جو لکھ پاؤں وہ مصری کی ڈلی ہو
سجدوں کے نشانات سے رستے کو سجاؤں
اے کاش کہ نزدیک مدینے کی گلی ہو
اے بادِ صبا مجھ پہ کرم کر مجھے لے جا
قسمت سے اگر ارضِ مقدس کو چلی ہو
اس شمع کی مانند سراپا ہے مرا آج
جو ہجر کی تاریک و سیہ شب میں جلی ہو
قرآن کی آیات ہیں تعریفِ محمد
یاسین کا غنچہ ہو کہ طٰہٰ کی کلی ہو
گو خاک نشیں ہو پہ ظہیر آج اٹک میں
جب نعت کہی تم نے تو لگتا ہے ولی ہو
(۱۰)
مدحتِ مصطفیٰ نعت کی شاعری
رحمتِ کبریا نعت کی شاعری
میرے آقا کا مجھ پہ کرم ہوگیا
میں بھی کرنے لگا نعت کی شاعری
یہ بھی تیرے کرم کا ہے اک معجزہ
ہوگئی بر ملا نعت کی شاعری
جب بھی حضرت کی مجھ کو حضوری ملی
حکم تھا اب سنا نعت کی شاعری
کیوں نہ آسانیاں ہوں میسر مجھے
میری مشکل کشا نعت کی شاعری
بابِ فردوش کیوں کر نہ کھلتا ظہیر
تھا وظیفہ مرا نعت کی شاعری
(۱۱)
زہے عزت و افتخارِ محمد
دو عالم پہ ہے اقتدارِ محمد
ذرا ادن منی کے الفاظ دیکھو
خدا کو بھی ہے انتظارِ محمد
وہ سورج ہو یا چاند یا کہکشاں ہو
ہر اک شے پہ ہے اختیارِ محمد
زمانہ کرے سجدہ کعبے کی جانب
مرے دل کا کعبہ دیارِ محمد
دعا ہے ظہیرِ حزیں روز محشر
پکاریں مجھے جاں نثارِ محمد
(۱۲)
کیا کریں ہم گلاب کی خوشبو
ہم کو بس ہے جناب کی خوشبو
فاتحہ پڑھ کے خود یقیں کر لیں
کیا ہے ام الکتاب کی خوشبو
غالباً چھو لیا تھا کوثر کو
بڑھ گئی ہے شراب کی خوشبو
عشق میں راستے سے گم ہو کر
پائی میں نے سراب کی خوشبو
اس سراج منیر کے صدقے
کم نہ ہو آفتاب کی خوشبو
(۱۳)
اے خوشا یہ بھی دقیقہ آیا
نعت کہنے کا سلیقہ آیا
میں بھی حسان کا شاگرد ہوا
مدح آقا کا سلیقہ آیا
(۱۴)
ہم دم و مہرباں رسول کریم
شافع عاصیاں رسولِ کریم
آدمیت خزاں رسیدہ ہے
گر نہ ہوں باغباں رسولِ کریم
کیوں نہ وہ ذرہ آفتاب بنے
جس پہ ہوں مہرباں رسول کریم
بے کسو! چارہ گر کی قدر کرو
حامی بے کساں رسول کریم
روز محشر ظہیر رقص کناں
آگیا، تھے جہاں رسولِ کریم
(۱۵)
بشارت دی ملائک نے کہ ختم المرسلیں آیا
نبوت کی ہوئی تکمیل، پیغامِ مبیں آیا
غلاموں کو ملا آزادیوں کا مژدۂ شیریں
زمانے نے وہ کروٹ لی کہ عہدِ بہتریں آیا
تعصب کو کیا نابود الفت کی فضاؤں نے
مٹے ظلم و ستم سب رحمة اللعالمیں آیا
نبوت کا ہوا اعلان تو سب سوچ میں ڈوبے
وہی صدیق کہلایا جسے پہلے یقیں آیا
ہوئے اغیار بھی قائل تری شیریں بیانی کے
مخالف کے لیے بھی بالیقیں صادق امیں آیا
ظہیر اس کے غلاموں میں لکھا رکھا ہے نام اپنا
جو انسانوں میں لے کر اک پیامِ دلنشیں آیا
(۱۶)
محبت کا حاصل حضور آپ ہیں
خدا کی خدائی میں نور آپ ہیں
مزمل، مدثر نہیں اور کوئی
اگر ہے کوئی تو ضرور آپ ہیں
کسی اور کو کب ملا یہ مقام
قریبِ خدائے غفور آپ ہیں
چٹائی کا بستر اگر ہے تو کیا
بلندی میں تو رشکِ طور آپ ہیں
مٹا دیجئے میرے رنج محن
علاج دلِ نا صبور آپ ہیں
ظہیر اس کو قربِ خدا کیوں ملے
وہ بد بخت ہے جس سے دور آپ ہیں
(۱۷)
دل کا دروازہ مدینے کی ہوا سے کھل گیا
ہجر میں آنسو بہے اعمال نامہ دھل گیا
حشر کے میدان میں  ہونے لگا جب احتساب
نعت کا ہر لفظ نیکی بن کے بھاری تل گیا
آفتاب اس کو کہوں تو شرم آتی ہے مجھے
آفتاب اس کے مقابل جب گیا، ہو گُل گیا
بھاگ کر سرکار کے قدموں سے جا لپٹا ظہیر
کیا خبر اس کو، کہاں تک راستے کا پل گیا
(۱۸)
ہوں جتنے فاصلے بھی مدینہ قریب ہے
روضے کے سامنے ہوں یہ میرا نصیب ہے
جو کچھ خدا سے مانگنا چاہوں ملے مجھے
لیکن مری دعا کا خلاصہ حبیب ہے
جس کے سخن سے اہلِ جنوں فیض یاب ہوں
میری طلب وہی ہے وہ میرا طبیب ہے
خندق کا معرکہ ہو تو مزدور رہنما
حج الوداع کے وقت مثالی خطیب ہے
امی لقب بھی ہے تو سخن ور بھی بے مثال
وہ مخزنِ ادب ہے وہ اعلیٰ ادیب ہے
(۱۹)
مصطفیٰ مجتبیٰ اپنے در پر بلا
اے حبیبِ خدا اپنے در پر بلا
خاک پائے سگِ شہر بطحا ہوں میں
مجھ کو روضہ دکھا اپنے در پر بلا
میں سوالی ترا تو ہے والی مرا
بھیک کردے عطا اپنے در پر بلا
تیرے روضے کی جالی کو میں چوم لوں
ہے مری التجا اپنے در پر بلا
ہے ظہیرِ حزیں ہجر میں مبتلا
اس کی سن لے صدا اپنے در پر بلا
(۲۰)
توقیر آدمی کا سبب ذات آپ کی
انسان کو ملاتی ہے رب، ذات آپ کی
اللہ کی صفات کا مظہر حضور ہیں
اہل نظر کا حسنِ طلب ذات آپ کی
سوچا جو آپ نے وہی ارشاد حق ہوا
سر چشمۂ شعور و ادب ذات آپ کی
اپنے ظہیر پر بھی عنایت کی اک نظر
اس کیلیے ہے روح طلب ذات آپکی
(۲۱)
نعتِ رسول پاک سے عزت ملی مجھے
سو نعمتوں سے بڑھ کے یہ نعمت ملی مجھے
دنیا کی دولتوں سے رہا بے نیاز میں
ہاں فخر ہے کہ دولتِ الفت ملی مجھے
لکھتا ہوں جب ثنائے شہِ انبیا کبھی
لگتا ہے یوں کہ آپ کی قربت ملی مجھے
میں اس جنوں کو کس لیے چھوڑوں ، محال ہے
اس میں نبی کی جلوت و خلوت ملی مجھے
لکھوں گا اب تو نعت یہی عہد ہے ظہیر
اہلِ نظر کی اس سے ہی صحبت ملی مجھے
(۲۲)
اے حبیب خدا تم پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰ مجتبیٰ تم پہ لاکھوں سلام
مطلع اصفیا آپ کی ذات ہے
مقطعِ انبیا تم پہ لاکھوں سلام
مصدرِ فیض ہو محورِ جود ہو
خود خدا نے کہا تم پہ لاکھوں سلام
تم نے دنیا کو تہذیبِ نو بخش دی
قائد و رہ نما تم پہ لاکھوں سلام
خود ہدایت ترے در سے لے روشنی
منتہائے ہدا تم پہ لاکھوں سلام
حاضری میں ظہیر آج پہنچے ہو تم
اب کہو بارہا تم پہ لاکھوں سلام
(۲۳)
آئے تو کائنات کا نقشہ بدل گیا
تاریکیوں کو صبح کا سورج نگل گیا
گردن اٹھا کے چل نہ مدینے کی راہ میں
ان کے حضور جو بھی گیا سر کے بل گیا
دشمن جو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا
رخصت کے وقت قدموں پہ ان کے پگھل گیا
خوش بخت ہے ظہیر زیارت کو جب گیا
ہر راستے پہ گاتا انہی کی غزل گیا
(۲۴)
خاتم الانبیا ہو سلام آپ پر
مالکِ دوسرا ہو سلام آپ پر
آپ کو سب ملائک نے سجدہ کیا
شافعِ حشر ہونے کا رتبہ ملا
قائد و پیشوا ہو سلام آپ پر
پہلے بیت المقدس کی تھیں رفعتیںــ
پھر حرم کو ملیں برکتیں عزتیں
مٹ گئے فاصلے مل گئیں قربتیں
اے حبیبِ خدا ہو سلام آپ پر
تیرے آنے سے لوٹ آئیں سب رونقیں
میلے لگنے لگے جم گئیں محفلیں
خلوتیں کم ہوئیں سج گئیں مجلسیں
اے مکین حرا ہو سلام آپ پر
آپ کا پایہ کوئی کہاں پا سکا
جس کا سایہ نہ ہو ایسا کون آسکا
کون رحمت کے پھولوں کو مہکا سکا
رشکِ بادِ صبا ہو سلام آپ پر
دیکھ لینا وہ اک دن اخیر آئے گا
عشق کی بیڑیوں میں اسیر آئے گا
سامنے جب مدینہ ظہیر آئے گا
لب پہ ہوگی دعا ہو سلام آپ پر
(۲۴)
دلوں میں رونقیں آئیں گلستاں پر شباب آیا
نبوت کے فلک پر جگ مگاتا آفتاب آیا
مثال سنگ تھی نوعِ بشر ٹھہری ہوئی، بے بس
رسول ہاشمی کے ساتھ دورِ انقلاب آیا
گڈریوں کی قیادت کو کیا تسلیم دنیا نے
غرض تہذیب کی تاریخ کا رنگین باب آیا
کہاں ہے دعوت ارنی کا طالب اس کو مژدہ دو
شب اسریٰ میں وہ نورِ مجسم بے نقاب آیا
وہ امی جس کے نطق پاک سے قرآن عبارت ہے
امام الانبیا بن کر وہی عالی جناب آیا
ظہیر اپنی تمنا کا صدف بھر لو مبارک ہو
مدینے کی طرف سے نور برساتا سحاب آیا
(۲۵)
گوشۂ دل میں نہاں نعت رسولِ اکرم
حرز جاں وردِ زباں نعتِ رسول اکرم
کتنا خوش بخت ہے وہ جس کے رگ وپے میں ہے
خون کے ساتھ رواں نعت رسول اکرم
اہلِ دل  اہلِ نظر اہل خرد دیکھتے ہیں
غنچہ و گل سے عیاں نعت رسولِ اکرم
کتنی شیرینی سی حلقوم میں گھل جاتی ہے
کر کے دیکھو تو بیاں نعتِ رسولِ اکرم
ہر نئے عہد میں تازہ ہے حایتِ سرور
ہر نئے لمحہ جواں نعتِ رسولِ اکرم
میرے الفاظ بھی سب اس کی عنایت ہیں ظہیر
میں کہاں اور کہاں نعتِ رسولِ اکرم
(۲۶)
کیا جہاں میں اجالا تمہاری آنکھوں نے
جمالِ ذات کو دیکھا تمہاری آنکھوں نے
تمہاری ذات مقدس کی کیا کروں تعریف
کیا نظارۂ عقبیٰ تمہاری آنکھوں نے
تمہارے حسنِ تدبر سے قسمتیں بدلیں
ہر ایک عقدہ کیا وا تمہاری آنکھوں نے
تمہارے جلوے سے ہر ذرہ آفتاب بنا
ہر انجمن کو سجایا تمہاری آنکھوں نے
تمہارا اسمِ گرامی ظہیر کے لب پر
خدا کا چہرہ دکھایا تمہاری آنکھوں نے
(۲۷)
استن حنانہ کو بخشا دوامِ زندگی
مردہ روحوں کو دیا تو نے نظام زندگی
تو اگر چاہے تو جنت کی طرف کردے رواں
تیرے ہاتھوں میں ہے اب میری زمام زندگی
میں غم ہستی کے ہاتھوں ایک مشت خاک تھا
تو کرم فرما کہ میں پاؤں پیام زندگی
تجھ سے پہلے تھا تعصب اور جہالت کا عروج
زیست نے پایا ترے آنے سے نام زندگی
تیری عظمت کے مقابل کج کلاہی مرگئی
تیرے آگے سرنگوں پایا نظام زندگی
تم ثنائے مصطفے کے مے کدے میں ہو ظہیر
ہو مبارک، پالیا ہے تم نے جامِ زندگی
(۲۸)
تم آگئے تو مٹ گئے رنج و محن تمام
سر سبز و تازہ ہوگئے سرو وسمن تمام
شمس و قمر ، نجوم تمھی سے ہیں مستفیض
”روشن تمہارے نور سے ہے انجمن تمام“
ہم کو یہ فخر ہے کہ تمہارے غلام ہیں
تابع تمہاری ذات کے ہیں اہلِ فن تمام
تم کب تھے کس جگہ تھے کہاں تھے کہاں نہ تھے
کون و مکاں تمہارے جدید و کہن تمام
ہر نغمہ گر کو زندگی تم سے ہوئی نصیب
زندہ ہوئے تمھی سے ہیں شعر و سخن تمام
محبوبِ رب کے جلوۂ رنگیں کے سامنے
رعنائیاں بھی ختم ہیں سب بانکپن تمام
ہو جائے گر ظہیر حزیں پر بھی اک نظر
آباد اس کے دل کے ہوں دشت و دمن تمام
(۲۹)
ثریا سے جو بالا تر گیا ہے
سرِ عرشِ بریں سرور گیا ہے
فرشتوں کو تعجب ہو رہا ہے
بشر مہماں خدا کے گھر گیا ہے
ذراسی دیر اور اتنی مسافت
خرد حیران ہے  کیونکر گیا ہے
زبانِ کہکشاں یہ کہہ رہی ہے
”کوئی اس راہ سے ہوکر گیا ہے“
محمد پرتوِ خلق الٰہی
مہ و انجم کا دامن بھر گیا ہے
کوئی اس در سے نہیں آیا ہے خالی
گدا بن کر جو اس در پر گیا ہے
فرشتوں کے جلے ہیں پر جہاں پر
وہاں تک شافع محشر گیا ہے
چھپالو اپنی کملی میں مجھے بھی
قیامت سے مرا دل ڈر گیا ہے
ظہیر اس کا مقدر ہے مقدر
در اقدس پہ جو بھی مر گیا ہے
(۳۰)
شاہِ کونین ہوئے جلوہ نما آج کے دن
اپنی مخلوق سے راضی ہے خدا آج کے دن
آج مظلوم بشر صاحبِ تقدیر ہوئے
ہوئی مقبول یتیموں کی دعا آج کے دن
کس کی آمد ہے کہ ہر سمت میں تا حدِ نظر
جگمگائے ہوئے ہیں ارض و سما آج کے دن
یہ مہک کیسی ہے یہ رنگ انوکھا کیا ہے
حاصلِ موسم گل پھول کھلا آج کے دن
(۳۱)
میں شاعر ہاں دل دی لگن وار دیواں
نبی جی توں شعراں دا فن وار دیواں
حجاز مقدس دے اکلاپیاں توں
حیاتی دی ہر انجمن وار دیواں
عرب تیری دھرتی دے ہر ذرے  اُتوں
چلے وِس تاں انبر دا چن وار دیواں
جنہاں راھواں ماہی دے قدماں نوں چُمیا
انہاں تے میں سرو و سمن وار دیواں
اوہ غاراں جنہاں میرے ماہی نوں تکیا
انہاں تے ہر اک بانکپن وار دیواں
ظہیر اج مری سوچ دا فیصلہ اے
”مدینے دی راہواں توں تن وار دیواں“
o
دلاور علی آزر
تعارف
دِلاوَرعلی آزر 21.11.84 کو پاکستان کے صوبہ پنجابـ میں موجود ضلع اٹکـ کی تحصیل حسن ابدال میں پیدا ہُوئے آپ کے والد کا نام بشیراحمد تھا جو خانیوال کے رہنے والے تھے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اِسی شہر ہی سے حاصل کی آپ کو شاعری کی تمام جملہء اصناف سے رغبت ہے مگر غزَل آپ کی محبوب ترین صنفِ اظہار ہے آپ نے اپنی شاعری کا با قائدہ آغاز بھی اِسی صنفِ سُخَن سے کیا علاوہ ازیں دِلاوَرعلی آزَر نعت ، منقبت ، گیت ، اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔
2013 میں دِلاوَرعلی آزَر کا پہلا مجموعہءکلام ”پانی“ منصہء شہود پر آیا اور پھر 2016 میں دوسرا شعری مجموعہ ”مآخذ“کے نام سے چھپا اِن دونوں میں موجود شاعری نے اپنے قارئین کا ایک وسیع تر حلقہ بنالیا اور ناقدینِ ادَب نے اِس شاعری کو انفرادیت اور گہرائی و گیرائی کے حوالے سے بہت سراہا۔دِلاوَر علی آزَر نے اِسی دوران عصرحاضرکے ممتازشاعر ظفَراقبال کی غزلیات کا ایک انتخاب بھی ”ظفریاب“  کے نام سے  شائع کرایا۔اب دِلاوَرعلی آزَر کی شاعری پر مشتمل مجموعہءغزَل ”ثریا“ اور نعت کا ایک مجموعہ”اُن کے حضور“ بھی اشاعت کے مراحل میں ہے۔۔۔ اس گوشہ میں ہم دلاور علی آزر کی نعتیہ شاعری پر ایک مضمون اور ان کی کچھ نعتیں شامل کر رہے ہیں ۔
(مدیر)
لفظوں کا بھیدی۔۔۔ دلاور علی آذر
از قلم: محمد یونس تحسین۔۔۔گوجرانوالہ
عین سچ ہے کہ مدحت رسول ﷺ چنیدہ لوگ ہی کرتے ہیں اور اس فہرست میں ایک خوش بخت  کا نام دلاور علی آزر ہے ۔ دلاور علی آزر 21 نومبر 1984 کو سر زمین پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال میں پیدا ہوئے  ۔ جناب کے والدِ گرامی بشیر احمد صاحب خانیوال کے رہائشی تھے جو بعد میں حسن ابدال آ کر آباد ہوئے ۔ حسن ابدال کی خوبصورت سرزمین بادشاہوں فقیروں اور درویشوں کا مسکن رہی ہے ۔ مغل بادشاہ ہوں ، گرو نانک ہو یا زندہ پیر ولی۔۔ ان سب کے ٹھکانے اسی شہر میں رہے ، یوں اس شہر سے بین المذاہب مشاہدہ اور ایک روحانی سلسلہ بھی ان کو میسر آیا جس کے جلو میں وہ زندگی کا سفر طے کرنے لگے ۔ پھر یوں ہوا کہ ان کو شعر کے لئے چن لیا گیا اور وہ شاعری کی جملہ اصناف میں ریاضت کرنے لگے ۔ اس ریاضت میں انہوں نے نعت ، منقبت، غزل، نظم اور گیت کہے مگر غزل مرغوب ترین ٹھہری جس میں انہوں نے اپنا ایک خاص اسلوب پیدا کیا جوکہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔
2013 میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "پانی" کے نام سے منظر پر آیا جس نے پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی ۔ 2016 میں غزل ہی کی دوسری کتاب " مآخذ" کے نام سے چھپی  جس نے اس نوجوان کے سخن پر صاحبِ اسلوب شاعر ہونے کی مہر لگا دی ۔ وہ لفظوں کے جادوگر ہیں  اور مالک نے ان کو لہجہ بھی والہانہ عطا کیا ہے یوں وہ اپنی گفتگو اور شاعر ی سے بہت جلد لوگوں کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں ۔ گزشتہ تین دہائیوں سے کسی نوجوان شاعر کی اتنی پختہ شاعری سامنے نہیں آئی تھی ۔ 2014 میں بہاولپور یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر زوار شاہ کی نگرانی میں ان کی کتاب " پانی" پر ایک تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو بہ عنوان " پانی مجموعہءِ کلام دلاور علی آزر کا تجزیاتی مطالعہ " بھی لکھا گیا ۔ حال ہی میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں "پانی"  اور  مآخذ" پر ایک ایم اے کا تھیسس معروف نقاد جناب طارق ہاشمی کی زیرِ نگرانی منظور ہوا ہے۔ اسی دورانیہ میں انہوں نے عہدِ حاضر کے ایک اہم شاعر جناب ظفر اقبال کی 101 غزلوں پر مشتمل ایک انتخاب " ظفریاب" کے نام سے چھپوایا  جو کافی مقبول ہوا۔ دلاور علی آزر غزل کے میدان میں مسلسل مجاہدے کرتے نظر آ رہے ہیں اور عنقریب ان کی ایک اورکتاب  " ثریا " کے نام سے منظر پر آنے والی ہے ۔ غزل کے ساتھ ساتھ نعت کہنا ان کی روحانی سرشاری کا مونہہ بولتا ثبو ت ہے ۔ جلد ان کی کہی گئی نعتوں پر مشتمل کتاب " ان کے حضور " کے نام سے عاشقانِ رسول کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس نوجوانی میں اتنا حوصلہ مند شاعر بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ۔ دلاور کو یہ حوصلہ ان کے امتیازی طرزِ سخن نے بخشا ہے۔
دلاور علی آزر لفظوں کے بھیدی ہیں ، کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا ہے انہیں خوب علم ہے شاعری میں ان کا پہلا قدم ہی پانی" پر پڑا ۔۔۔۔ پانی جو اولین تخلیق ہے ۔ بہت بھاگوان ہے دلاور جسے محبت، لفظ اور شعر کہنے کا سلیقہ عطا ہوا ۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ نعت ہر کوئی نہیں کہہ سکتا یہ توفیق کا معاملہ ہے اور نعت تو ہے بھی ایک پل صراط ۔ خدا اور رسول کے مابین فرق اور امتیاز بڑا کٹھن راستہ ہے ۔ نعت گوئی کا کمال یہ ہے کہ شاعر ہر طرح کے شرک و بدعت سے دامن بچا کر یہ فریضہ سر انجام دے ۔ مدحتِ رسول ﷺ میں جدت اور تنوع کے ان گنت ستارے چمکیں گے اور بارگاہِ رسالت میں نذرانہ پیش کرتے رہیں گے ۔  اس پل صراط کی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ دلاور علی آزر ہے۔  دیوانے کی نعت دیکھیے
بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دوعالم
اس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دوعالم
وہ آنکھ بنی زاویہ ءِمحورِ تخلیق
وہ زلف ہوئی حلقہءِ پرکار دوعالم
سرکار کی آمد پہ کھلا منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں درودیوارِ دو عالم
ہر نقش ہے اس پیکرِ ذی شاں کا مکمل
آزر یہی شہکار ہے شہکارِ دوعالم 
یقین مانیے لفظ ایسے استعمال ہوتے بہت کم دیکھے گئے ہیں ۔اس لہجہ میں نعت کہنا قسمت کے دھنی کا کام ہے ۔ اور یہ لہجہ ان کی اندرونی کیفیت ہی تو ہے ۔ ایک شعر پڑھیں اور عالمِ تصور میں چلے جائیں۔ آنکھیں آبدیدہ ہوجائیں گی اور چاہ کر بھی آپ کپکپانے سے نہیں رہیں گے۔اس شعر میں موجود کرب  قیامت سے کم نہیں ۔
عجب وہ ہستی ہے جو اتاری گئی لحد میں
عجب خزانہ ہے جو دفینے میں اس نے رکھا
ایک اور کیفیت کا اظہار دیکھیے۔۔
ازل سے لے کر ابد کی حد پر محیط ہے وہ
جو دکھ محرم کے اک مہینے میں اس نے رکھا
تاریخ گواہ ہے بہت سے نامور شعرا صرف اس وجہ سے نعت نہ کہتے تھے کہ وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتے اور ان کے شایانِ شان الفاظ اشعار میں لانے سے قاصر ہیں۔ دلاور کے ہاں بھی یہی عقیدہ موجود ہے اور وہ لفظوں کو ان کے شایانِ شان نہیں سمجھتے بلکہ حضورﷺ کی محبت میں خود کو قربان کر دینے کو سعادت سمجھتے ہیں ۔
کس کی ہے مجال اتنی لکھے ان کا قصیدہ
کاغذ کے حوالے کیے میں نے دل و دیدہ
جس پر نہیں کھل پاتی رہِ سمتِ مدینہ
آنکھوں پہ ملے نقشِ کفِ پا کا ملیدہ
نعت گوئی میں دلاور کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزلیہ انداز میں نعت کے اشعار کہے ہیں گویا ان کے باطن میں جو شعر بھی اترتا ہے بنا بنایا اترتا ہے ۔  وہ قاری کو اپنی کیفیت میں لے آتے ہیں  جس کے لئے ان کو دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان کے الفاظ بتاتے ہیں کہ شعر نعت کا ہے یا غزل کا۔  انہوں نے لفظ کی حرمت کو سمجھا ہے تو لفظ نے بھی انہیں معتبر کیا ہے ۔ خود ہی دیکھیے
جمال وحسنِ رخِ یار جب شدید ہوا
یہ آئینہ اسے تکتے ہوئے شہید ہوا
وگرنہ منزلیں مستور ہونے والی تھیں
مسافروں کو ترا نقشِ پا مفید ہوا
دلاور علی آزر اپنے سخن کی ذیل میں عاجزانہ رویہ رکھتے ہیں مگر وہ امتیاز سے بھی واقف ہیں۔ وہ اپنے اس امتیاز کو سراسر صدقہءِ سرکار دوجہاں گردانتے ہیں اور یہی ایک سچے مسلمان اور سخن ور کو سجتا بھی ہے ۔
بخشا ہے اس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے
حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی نکتہ چیں مجھے
نعت میں شہرِ رسول سے محبت کا اظہار بھی اولین نعت سے چلا آ رہا ہے اور اس روایت کو دلاور نے آگے بڑھایا ہے مگر اس کاا نداز جداگانہ ہے اس کے اظہار کا زاویہ علیٰحدہ ہے۔  کون مسلمان ہے جسے مدینہ منورہ سے پیار نہیں وہاں کی خاک بھی عشاق کے ہر دکھ کی دعا ہے ۔ ایک یہی تو ایک جنت ہے جسے ہم دنیا میں رہ کر دیکھ سکتے ہیں ۔  یہ شہر ہی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے ، روضہ رسول ﷺ نور اور رحمت کا سرچشمہ ہے جو عشاق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ دلاور کے ہاں شہر نبوی ﷺ اور مرکزِ انوار وتجلی گنبدِ خضریٰ سے والہانہ عقیدت کا اظہار دیکھئے۔
دھڑکتا دل لا کے میرے سینے میں اس نے رکھا
پھر اس کی دھڑکن کو خود مدینے میں اس نے رکھا
مری نگاہوں کو سبز گنبد کا خواب دے کر
مری محبت کو آبگینے میں اس نے رکھا
۔۔۔
سستا رہا ہوں گنبدِ خضریٰ کے سائے میں
کہہ دو نہیں ہے حاجتِ خلدِ بریں مجھے
۔۔۔
جب تک ترے روضے پہ نظر رکھے رہیں گے
ہم دیکھتے رہنے کا ہنر رکھے رہیں گے
۔۔۔
مدت سے میں ہوں منتظرِ خاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ
سر سبز رہا، آپ سے نسبت رہی جس کو
اور خاک ہوا کینہ ورِ خاکِ مدینہ
---
قدموں سے لپٹتا شہہِ لولاک تمہارے
اے کاش میں ہوتا خس و خاشاکِ مدینہ
اک عرض گزاری ہے جو منظور ہو آزر
ناچیز بھی دیکھ آئے کبھی جا کے مدینہ
عجیب یہ ہے کہ دلاور علی آزر نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہاں کی تہذیب بھی تین بڑے ادیان  سکھ ازم، ہندوازم اوراسلام کے زیرِ اثر ہے ۔ ایسے ماحول میں رہ کر اپنی عقیدت میں اتنا پاکیزہ ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ مبارک باد دلاور علی آزر!۔۔۔ مبارک باد حسن ابدال! کہ تمہاری پہچان تمہارے ایک ہونہار بیٹے سے ہونے لگی ہے۔ دعا ہے حضور کے نعلین کے صدقے اس عاشق کو زندہ و جاوید سخن عطا ہو ۔ ”ان کے حضور“ گلہائے عقیدت کا کتابی شکل میں انتظار رہے گا۔
لکیر میر نے آواز میں بدل دی تھی
علی کے لحن میں ڈھل کر سخن جدید ہوا
(۱)
دھڑکتا دل لا کے میرے سینے میں اُس نے رکھا
پھر اِس کی دھڑکن کو خود مدینے میں اُس نے رکھا
بہَم کیے خاک و نور اُس نے اِک آئینے میں
تضاد مَرنے میں اور جینے میں اُس نے رکھا
مِری نگاہوں کو سبزِ گُنبد کا خواب دے کر
مِری محبت کو آبگینے میں اُس نے رکھا
یہ آنکھ وہ ہے کہ جس کو بخشا ہے نور اُس نے
یہ وہ سَمُندَر ہے جو سفینے میں اُس نے رکھا
عجب وہ ہستی ہے جو اُتاری گئی لحَد میں
عجب خزانہ ہے جو دفینے میں اُس نے رکھا
ازَل سے لے کر ابَد کی حد پر مُحیط ہے وہ
جو دُکھ محرم کے اِک مہینے میں اُس نے رکھا
اُسی سے سارا جہاں معطر ہُوا ہے آزَر
جو عطر سرکار کے پسینے میں اُس نے رکھا
<><>
(۲)
خواہشِ خواب دیدہ اُن کے حضور
سب سے پہلا قصیدہ اُن کے حضور
ایسی حالت میں کوئی کیا مانگے
مَیں ہوں دامن دریدہ اُن کے حضور
یہ جو عالم ہے شاہ ذادوں کا
شاہ زادے خمیدہ اُن کے حضور
مَیں سُناؤں اگر ہو اذنِ کلام
داستاں چیدہ چیدہ اُن کے حضور
نعت منظور ہو کے آئی ہے
یہ نوشتہ ہے دیدہ اُن کے حضور
آئے پیغام جو کبھی اُن کا
جاؤں میں‌ پا بُریدہ اُن کے حضور
لے کے جائیں گے جامی و آزر
اپنا اپنا قصیدہ اُں کے حضور
<><>
(۳)
بخشا ہے اُس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے
حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی نکتہ چیں مجھے
جو کچھ مِلا حضور کے صدقے سے ہے مِلا
اور جو نہیں ہے اُس کی ضرورت نہیں مجھے
میرے لبوں کی پیاس ہے اُن جالیوں کا لمس
مِل جائے تو قبول دم ِ آخریں مجھے
یہ سوچ کر ہے کپکپی طاری وجود پر
دیکھے گا کس نگاہ سے ماہِ مبیں مجھے
سستا رہا ہوں گنبدِ خضرا کے سائے میں
کہہ دو نہیں ہے حاجتِ خلدِ بریں مجھے
مَیں آگیا ہو آپ کے در پر بصد خلوص
اب آپنے آپ سے کوئی خطرہ نہیں مجھے
آزَر نہ کہہ سکوں گا قصیدہ حضور کا
کہنے کا لاکھ شوق ہے اپنے تئیں مجھے
<><>
(۴)
بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم
اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم
جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کُھلتی
اُس پر کہاں کُھل پاتا ہے اَسرارِ دو عالم
آکر یہاں مِلتے ہیں چراغ اور ستارہ
لگتا ہے اِسی غار میں دربارِ دو عالم
وہ آنکھ بنی زاویہء محورِ تخلیق
وہ زُلف ہوئی حلقہء پرکارِ دو عالم
سرکار کی آمد پہ کُھلا منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں در و دیوارِ دو عالم
جُز اِس کے سرِ لوحِ ازَل کچھ بھی نہیں تھا
تجھ اِسم پہ رکھے گئے آثارِ دو عالم
یہ خاک اُسی نور سے مِل کر ہوئی روشن
یوں شکل بنی شکلِ طرح دارِ دو عالم
آہستہ روی پر تِری قربان سبک پا
اے راہبرِ گردشِ سیارِ دو عالم
توقیر بڑھائی گئی افلاک و زمیں کی
پہنائی گئی آپ کو دستارِ دو عالم
ہَر نقش ہے اس پیکرِ ذی شاں کا مکمل
آزَر یہی شہکار ہے شہکارِ دو عالم
<><>
(۵)
کس کی ہے مجال اِتنی لکھے اُن کا قصیدہ
کاغذ کے حوالے کیے مَیں نے دل و دیدہ
دل ہی میں دمکتا ہے رخِ ماہِ منور
آئنوں سے ہوتا نہیں یہ عکس کشیدہ
جس پر نہیں کُھل پاتی رہِ سمتِ مدینہ
آنکھو پہ مَلے نقشِ کفِ پا کا ملیدہ
اے کاش کے آئے مجھے پیغام وہاں سے
اے کاش پہنچ جائے مری آہِ تپیدہ
سب میرے سخن ہی پہ نظر رکھے ہوئے ہیں
پڑھتا ہے کہیں کوئی میرے دل کا جریدہ
یہ بارگہِ شاہِ امم ہے علی آزَر
نظریں بھی خمیدہ ہیں یہاں سر بھی خمیدہ
<><>
(۶)
جب تک تِرے روضے پہ نظَر رکھے رہیں گے
ہم دیکھتے رہنے کا ہنَر رکھے رہیں گے
وہ کربل و کوفہ ہوں ، مدینہ ہو حرم ہو
سرکار جدھر رکھیں اُدَھر رکھے رہیں گے
ہم پڑھتے رہیں گے تِرا پیغامِ محبت
صفحوں میں یونہی مور کے پَر رکھے رہیں گے
راہوں میں تِری نور کا پیمان رہے گا
قدموں میں تِرے شمس و قمَر رکھے رہیں گے
یہ لوگ تِرے چاہنے والے شہِ لولاک
یہ لوگ زمانوں سے اِدَھر رکھے رہیں گے
دنیا میں بھی وہ خیر خبر رکھے ہوئے ہیں
محشر میں بھی وہ ہم پہ نظَر رکھے رہیں گے
اک روز پہنچ جائیں گے تجھ در پہ یقیناً
آنکھوں پہ تِری راہگُذر رکھے رہیں گے
آزر مِرے آقا ہوئے تخلیق کا موجب
آفاق اِسی دہلیز پہ سَر رکھے رہیں گے
<><>
(۷)
جمال و حسنِ رخِ یار جب شدید ہوا
یہ آئنہ اُسے تکتے ہوئے شہید ہوا
وگرنہ منزلیں مستور ہونے والی تھیں
مسافروں کو تِرا نقشِ پا مفید ہوا
تِرے غیاب سے ابھرا ستارہءِ سحری
تو سانس لیتی ہوئی صبح میں فرید ہوا
کھڑے تھے لوگ وہاں مال و زر کے تھال لیے
مگر مَیں جنبشِ یک چشم پر خرید ہوا
تمام لفظ علامت کےدرپئے جاں تھے
جو نا شنید تھا بارے وہی شنید ہُوا
لکیر میر نے آواز میں بدل دی تھی
علی کے لحن میں ڈھل کر سخن جدید ہُوا
<><>
(۸)
مدت سے مَیں ہوں منتظرِ خاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ
سرسبز رہا ، آپ سے نسبت رہی جس کو
اور خاک ہُوا کینہ ورِ خاکِ مدینہ
مجھ کو اُسی مٹی ہی میں تدفین کیا جائے
کھُلتا ہے اگر مجھ پہ درِ خاکِ مدینہ
پوچھیں گے کہ یہ خاک ہُوئی کیمیا کیسے
ہُوگا کوئی صاحِب نظرِ خاکِ مدینہ
مَیں بھی تو اِسی چاک پہ موجود ہوں کب سے
مجھ کو بھی بنا کوزہ گرِ خاکِ مدینہ
قربان میں اُس آمد ِ خوش رنگ پہ آزَر
کیا پھول کھلائے ہیں سرِ خاکِ مدینہ
<><>
(۹)
درود پڑھتے ہُوئے دِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
حضور دیکھیے اِس سِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
ازَل سے آپ کی محفل سجائی جاتی ہے
ازَل سے آپ کی محفل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
بعید کیا ہے مِری خاک بھی چمَک اُٹھے
کہ اُس چراغ کی جِھلمِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
فقط یہ آنکھ نہیں اُن کی دید کو بے تاب
وفورِ جذب سے مُشکِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
ہَوائے شہرِ محبت اُڑا کے لے جائے
سُراغ دیتی ہُوئی گِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
مِلا نہ اذن مدینے میں حاضری کا اگر
کروں گا کیا کہ عنادِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
قبولیت کی گھڑی کا ہے انتظار آزَر
دعا کی آخری منزِل کے ساتھ مَیں بھی تو ہُوں
<><>
(۱۰)
سُخن کے باب میں رحمت نزول ہوگئ تھی
یہ نعت لکھنے سے پہلے قبول ہوگئی تھی
ہمیں یہ حکم مِلا تھا دعائیں دو سب کو
ہمیں بتایا گیا تھا جو بھول ہوگئی تھی
تمام آنکھیں منور تھی اُن کی آمد پر
ہماری دید کی دُنیا رسول ہوگئی تھی
سبھی کو نور کا پیکر دکھائی دے رہا تھا
کہ روشنی ہی ہمارا حصول ہوگئی تھی
ابھی ابھی میں مدینے سے ہو کے آیا ہوں
ابھی ابھی مِری خواہش قبول ہوگئی تھی
بکھر رہے تھے سبھی خواب اور خوشبوئیں
چراغ کانپ رہا تھا کہ بھول ہوگئی تھی
کیا تھا ذکر کبھی مَیں نے اُس پسینے کا
اَک ایک لفظ میں خوشبو حلول ہوگئی تھی
اِسی لیے تو بچی ہے یہ کائنات آزَر
مِرے حضور کے قدموں کی دھول ہوگئی تھی
<><>
(۱۱)
دیکھ آئنہ تمثال جبیں دیکھنے والے
گُم ہُوگئے حیرت کے تئیں دیکھنے والے
کس طرح کسی اور کو مسند پہ بٹھائیں
اِس دل پہ انہیں تخت نشیں دیکھنے والے
ہم دیکھنے آئے ہیں مکینوں کا سراپا
دیوار و در و بام نہیں دیکھنے والے
تجھ پر تو عیاں ہُوگی یہ دیدار کی خواہش
اے دیکھنے والوں کے امیں دیکھنے والے
کیا سوچیں تری سوچ میں ڈوبے ہوئے عشاق
کیا دیکھیں رخِ ماہِ مبیں دیکھنے والے
مَیں نے تو کبھی پردہ گرا کر نہیں دیکھا
ظالم ہیں اُنہیں پردہ نشیں دیکھنے والے
اِن خستہ مکانوں کو حقارت سے نہ دیکھو
رہتے ہیں مکانوں میں مکیں دیکھنے والے
حسرت ہے کوئی روز اِدھر بھی نکل آئیں
کچھ اور بھی دیکھیں یہ زمیں دکھنے والے
سرکار نے مدحت کے لیے ہم کو چنا ہے
ہم لوگ ہیں لفظوں کو نگیں دیکھنے والے
<><>
(۱۲)
لے جائے جو قسمت سوئے املاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ
بوسیدہ ہُوا جاتا ہے یہ جسم بہر طور
سرکار مجھے چاہیے پوشاکِ مدینہ
اِک تار بلاوے کا اِدھر دستِ رفو گر
سی دیجئے یہ خواہشِ صد چاکِ مدینہ
اسبابِ سفر ساتھ ہی رکھنا ہے مناسب
پیغام بھی آ سکتا ہے عشاقِ مدینہ
قدموں سے لپٹتا شہہ ِ لولاک تمہارے
اے کاش مَیں ہُوتا خس و خاشاکِ مدینہ
اِک عرض گُذاری ہے جو منظور ہو آزَر
نا چیز بھی دیکھ آئے کبھی جا کے مدینہ
<><>
(۱۳)
سلام
کچھ بھی نہیں فرات ہماری نگاہ میں
پانی کا شور دَب گیا مِٹی کی آہ میں
اِک روشنی چلی تھی اندھیرے کے بیچ و بیچ
اِک فیصلہ ہُوا تھا سپید و سیاہ میں
آنکھوں سے اب گُذرتے ہیں اشکوں کے قافلے
موتی پِرو دیے ہیں کسی نے نگاہ میں
کیسے یہ جاں کَنی کا سفَر طے ہو زندگی
پڑتی ہے کربَلا ہمیں جنت کی راہ میں
نا حق و حق دست و گریبان ہیں مگر
اُٹھتا نہیں ہے آج کوئی حُر سپاہ میں
اول سے مجھ فقیر پہ اُن کا کرم رہا
مَیں گھوم گھام کر نہ گیا بزمِ شاہ میں
خیمے سے چل پڑی ہے یہ معصوم بے رِدا
رکھے خدا سکینہ کو اپنی پناہ میں
فرست مِلے جو شَر سے تو ماتم کدے میں بیٹھ
تجھ پر بھی اصلِ چہرہ کُھلے رزم گاہ میں
تجھ یاد کی ہَوا نے ہی کاڑھے بدن پہ پھول
گھیرے ہوئے تھے جسم کو کِتنے ہی واہمے
صحرا نے اپنی آگ بجھائی ہے خون سے
مشکیزہ کیوں اُلٹ گیا پیاسوں کی راہ میں
اے آسماں تو اب بھی ہو نالاں تو کیا کریں
ہم جیسا کوئی ایک تو لا کر دکھا ہمیں
آنکھوں کو سرخ دیکھ کے حیراں ہو کس لیے
رکھا گیا ہے رنج ہماری کلاہ میں
صد شکر مدحتِ شہِ اول ہوئی نصیب
ورنہ میں پہلا فرد تھا فردِ سیاہ میں
مَیں نے کِیا قصیدہ بہ نامِ علی رقَم
آزَر مجھے بھی لے چلیں اُس بارگاہ میں
<><>
نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدیتجزیہ 
شاہدؔکمال۔۔۔۔ لکھنؤ، انڈیا
نعت عربی زبان کا ایک برگزیدہ لفظ ہے ۔ ا س لفظ کا سہ حرفی اشتقاق بااعتبار جنس مونث ہے۔ اور اس کا پہلا حرف مفتوح ہے اور بعد کے دونوں حروف ساکن ہیں ۔عربی لسانیات میں اس کا استعمال صفت کے مترادفات میں ہوتا ہے ،اوریہ ایک نحوی اصطلاح ہے،اور لغوی اعتبار سے اس کا استعمال کسی کی مدح و ستائش کے لئے کیا جاتا ہے۔لیکن اس لفظ کے لغوی واصطلاحی معنی حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر وثنا سے مختص ہے اور عمومی اصطلا ح میں اسے شاعری کی مقدس ترین صنف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔جس کا قرآنی تقدس بلا شرکت غیر حضور ختمی مرتبت کی شان جلالت مآب سے ایک نسبت خاص رکھتا ہے۔
فارسی واردو لغات میں بھی لفظ ’’نعت‘‘ کا استعمال بطور صنف شاعری مطلقاً حضور ختمی مرتبت کی تعریف و توصیف سے متعلق ہے۔ ’’لغات کشوری‘‘ جامع اللغات‘‘ ،’’فرہنگ عامرہ‘‘ ’’غیاث اللغات‘‘’’ مہذب اللغات‘‘ فیرو ز واللغات ‘‘ وغیرہ
صاحب ’’غیاث اللغات ’’نعت ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ۔
’’ اگرچہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف است لیکن اکثر استعمال ایں لفظ بمعنی مطلق ستائش و ثنائے رسول ؐ آمدہ است۔‘‘
’’فرہنگ آصفیہ‘‘ نے لفظ نعت کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
’’نعت (ع)اسم مونث ، تعریف و توصیف،مدح وثنا،مجازاً خاص حضرت سید المرسلین ،رحمت اللعالمین ؐکی توصیف‘‘
نوراللغات کے مطابق۔
’’یہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف ہے،لیکن اس کا استعمال آنحضورؐکی ستائش و ثنا کے لئے مخصوص ہے۔‘‘
علمائے ادب نے اس لفظ کی عصمت و نجابت کے پیش نظر بااعتبار صنف اس کی مختلف توضیحات و تشریحات پیش کی ہیں۔ ،جن کی روشنی میں اس لفظ کی حقیقی تفہیم اور اس کے تمام تر معنوی امکانات کے ادراک کی کوشش کریں گے۔اس لئے کہ ’’نعت ‘‘کے مبادیاتی محاسن  اوراس کے ارتقائی پہلو ؤں کا مکمل جائزہ محض کسی فرد واحد کے ذاتی صواب دید کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ اصل میں اس صنف کی تعین قدر کے لئے ضروری ہے، کہ دانشوروں کے نظریات کی تدوین اور اس کی تاریخی تطبیق منطقی اعتبار سے کی جائے۔
’’نعت‘‘ سے متعلق بابا سید رفیق عزیزی کا اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ، احوال ، کردار ،افکار ، اشغال ، عادات ، معاملات ، سخاوت ، عفوو در گزر کے حوالے سے جو شاعری کی جاتی رہی ہے اور کی جارہی ،اس صنف سخن کا نام ’’نعت‘‘ طے پاچکا ہے ، ناقدین ادب نے نعت شریف کے اسالیب اور انداز بیان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔‘‘
(خزینہ نعت ،ص ۷مرتب صدیقی عبد الروف ، ٹریڈ کر انیکل نئی چالی کراچی، ۱۹۹۸)
مجید امجد، نعت کے حوالے سے یوں اظہار خیال فرماتے ہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ جناب رسالتمآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے ،ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آسکتا ہے ذرا سی عجز بیانی اہانت کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
          (’’بام عرش ‘‘صفحہ نمبر ۴ )
پروفیسر ابوالخیر کشفی تحریر فرماتے ہیں۔
’’بارگاہ مصطفیٰ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنیدؔ و بایزیدؔ ہی نہیں الفاظ بھی نفس گم کردہ نظر آتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ یہ شعور کامل جسے نفس گم کردگی سے تعبیر کیا گیا ہے ،شاعر کی ذات میں موجود ہو۔‘‘
          (ورفعنالک ذکرک صفحہ نمبر ۲ )
ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی بااعتبار صنف اس لفظ کی تفہیم اس انداز میں کرتی ہیں۔
’’ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نعت صدیوں کا سفر کرتی ہوئی آج انتہائی عروج پر ہے ۔آج کا دور اپنی مادیت پسندی کے باوجود امن رحمت میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔یہ عہد حاضر کی مجبوری نہیں بلکہ افتخار ہے کہ اس نے اپنے تشخص کا احساس نعت کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کامیاب کوشش۔‘‘
            (’’اردو نعت کے جدید رجحانات ، صفحہ نمبر ۱۴،بزم تخلیق ادب پاکستان ، کراچی ۲۰۱۱ )
پروفیسر عنوان چشتی اس صنف سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
’’نعت کا فن بظاہر آسان مگر بہ باطن مشکل ترین ہے ، ایک طرف و ہ ذات گرامی ہے ہے جس کی مدح رب العالمین نے خود کی ہے اور اس کو ’’نور‘‘ اور ’’مثل بشر‘‘ کہا ہے اور دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں ۔‘‘
(ورفعنالک ذکرک ص ۴)
ابواللیث صدیقی کا یہ نظریہ ہے کہ:
’’ نعت کے موضوع سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ، موضوع کے احترام ،کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردوہ پوشی کرتا ہے، نقاد کو نعت گو سے باز پرس کرنے میں تامل ہوتا ہے ،دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چپھانے کے لئے نعت کا پردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتا ،شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے ،لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے ، اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے۔‘‘
          (لکھنؤ کا دبستان ۔۔۔۔صفحہ ۵۴۴ )
پروفیسر سید محمد یونس گیلانی ’’نعت ‘‘سے متعلق یو ں تحریر فرماتے ہیں۔
’’نعت کا مفہوم اہل لغت کے نزدیک ان اچھی صفات ، عادات و خصائل کا بیان کرنا ہے ، جو خلقتاََ وطبعاً کسی شخص میں پائی جائیں ، یہی وجہ ہے کہ نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی تعریف و توصیف کے لئے مختص ہوگیا ہے۔ نعت رسول مقبول کا بیان روز اول سے لے کر آج تک مسلسل و متواتر جاری ہے اور ابد تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔‘‘
    (تذکرہ نعت گویان اردو ،حصہ اول ،صفحہ ۳ )
احسان دانش کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’صرف الفاظ سے نعت کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ جو جذبہ الفاظ کا جامہ قبول کر کے کاغذ پر قابل اظہار بنتا ہے ، وہی جذبہ ہے ،جسے ثنائے بے نقط کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جذبات کا وہ لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ کائنات میں دل کی دھڑکن کے سوا کوئی آواز نہیں آتی۔ اگر آنسو بھی گرتا ہے تو پہروں روح میں اس کی جھنکار گونجتی رہتی ہے ۔ اس وقت انسان اور خدا لسانی طور ایک سطح پر آجاتے ہیں ، کیوں کہ جب کوئی دورود پڑھتا ہے تو خدا فرماتا ہے کہ میں بھی درود پڑھتا ہوں ، دوسرے لفظوں میں نعت کو پیرایہ درد بھی کہا جاسکتا ہے۔‘‘
(جلوہ گاہ : حافظ مظہر الدین صفحہ نمبر ۱۳ )
ڈاکٹر سید شمیم گوہر کی مطابق:
’’ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نعتیہ شاعری کا آغاز ہوا اور بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آج آفاقی عظمت کی حامل بن گئی ، نعتیہ ادب کی خوشبو قیامت تک مہکتی رہے گی۔‘‘
’ (نعت کے چند شعرائے متقدمین ،ص ۹خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ ۔ الہ آباد ،۱۹۸۹ )
راجہ رشید محمدتحریر فرماتے ہیں:
’’تعریف ، مدح و ثنا، تحمید ، توصیف اور نعت کے الفاظ مختلف مقامات پر حضور رسول انام علیہ الصلواۃ و السلام کی مدح میں استعمال کئے گئے ہیں ۔لیکن جو اصطلاح خاص طورسے کثرت کے ساتھ مدح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہوئی ہے وہ نعت ہے۔‘‘
(پاکستان میں نعت،ص ۱۰ ایجوکیشنل ٹریڈ رز، اردو بازار لاہور ستمبر ۱۹۹۴ )
’الحافظ ابو موسیٰ‘‘ کے مطابق۔
’’النعت وصف الشئی بما فیہ من حسن مالہ الجلیل ولایقال فی المذموم الا بتکلّف فیقول نعت سوء ، فاما الوصف فیقال فیھماای فی المحمود المذموم۔‘‘
’’یعنی نعت وصف محمود کو کہیں گے ۔ اگر بتکلف اس میں وصف مذموم کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو ’’نعت سوء‘‘ سے اسے ظاہر کریں گے۔ نعت جب وصف محمود ہے تو وصف کیا ہے؟ وصف کے معنی ہیں کشف اور اظہار ،شاعرانہ اصطلاح میں وصف کسی چیز کے عوارض اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘
          (جامع الترمذی ، مطبوعہ ’اصح المطابع ‘لکھنؤ سنہ ۱۳۱۷ ھ ص ۵۶۸ حاشیہ ۳)
’’ابن قدامہ‘‘  ’’الحافظ ابوموسی‘‘ کے ’’وصف محمود‘‘ کی مزید توضیح یوں فرماتے ہیں۔
’’ بہترین وصف شاعر وہ ہے جو اپنے شعر میں ان اوصاف کے اکثر حصہ لائے جن سے موصوف مرکب ہے۔ اس کے بعد وہ اوصاف اس قسم کے ہوں جو موصوف میں زیادہ نمایاں ہیں اور اس کے ساتھ زیادہ خصوصیت رکھتے ہیں ۔‘‘
        (شعر الہند حصہ دوم ص ۳۸۹ ’’مولانا عبدالسلام ندوی‘‘ مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڈھ)
مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی نے نعت کی تعریف یوں فرمائی ہے۔
’’نعت عربی زبان کا ایک مادہ ہے۔نعت میں اس کے معنی ہیں ،اچھی اور قابل تعریف صفات کا کسی شخص میںپایاجانا اور ان صفات کا بیان کرنا۔‘‘
    (’’ورفعنالک ذکرک‘‘صفحہ ۱۵)
’’نعت ‘‘کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں دانشوروں کی مذکورہ توضیحات و تشریحات سے اس بات کا وضح انکشاف ہوتا ہے کہ ـ’’نعت‘‘ بحیثیت صنف شاعری اپنا ایک انفرادی موضوع رکھتی ہے ۔اس صنف سخن کی موضوعاتی یکتائیت اور اس کا استمرار ہی اس کا انفرادی تشخص ہے ۔غالباً اس کا یہی انفرادی اختصاص اسے شاعری کی دیگر اصناف سخن سے اسے ممتازکرتا ہے۔ 
سید مرتضی الزبیدی کے مطابق ابتدامیں یہ لفظ(نعت) وصف کے مترادف ضرور سمجھا گیا ۔لیکن بعد میں یہ لفظ ’’نعت‘‘ اپنے جملہ مترادفات سے الگ اپنی ایک انفرادی حیثیت سے متعارف ہوا۔جیسا کہ ’’ابن اثیر نے ’’النہایہ فی غریب الحدیث‘‘ میں اس لفظ ’’نعت‘‘ کی توضیح کچھ اس اندا زمیں پیش کی ۔
’’ یہ لفظ(نعت ) کسی شخص یا کسی چیز کے حُسن و اوصاف بیان کرنے کے لئے ،مختص ہے۔ نہ کہ کسی شخص کے قبح و معائب بیان کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اگر اس لفظ کے توسط سے کسی کی برائی کا تذکرہ مقصود ہو تواُسے اصطلاحاً’’نعت سو‘‘ یا نعت مکروہ ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے‘‘۔ ( تاج العروس جلد اول )
لیکن’’ ابن سیدہ‘‘ کے مطابق لفظ ’’نعت‘‘ اپنے معنوی حُسن کی بنیاد پر ایک بہترین لفظ ہی نہیں ،بلکہ اس لفظ کو ایک تجددآمیزمبالغہ اظہار بیان سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔
’’ابن رثیق ‘‘ نے نعت کے حوالے سے وصف کی نہایت بلیغ توضیح کی ہے ان کا یہ قول ہے کہ۔
’’ ابلغ الوصف ماقلب السمع بصراً‘‘
’’ بلیغ ترین وصف اسے کہتے ہیں جو کان کو آنکھ بنا کر پیش کرے۔‘‘
اس ضمن میںعرب کے ایک مشہور ماہر لسانیات ’’ابن عربی ‘‘ کا اس لفظ ’’نعت‘‘ سے متعلق نظریے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ
”لفظ’’نعت ‘‘ کا معنوی وصف کسی شکیل و جمیل حسین و خوب رو شخص کی توصیف کے لئے مستعمل ہے۔لیکن ایک بنیادی شرط کے ساتھ کہ اس لفظ کا معنوی تعین کسی انسان کے ظاہری خواص یعنی اس کے قدو قامت ،حُسن و رعنائی یا حلیہ وغیرہ کی تعریف و توصیف سے ہی اتصاف ہے۔لیکن اس کے برعکس کسی شخص یا شئے کے معنوی حسن کے بیان کو اس دائرے سے باہر رکھا گیاہے۔‘‘
لیکن ’’نعت ‘‘ سے متعلق اہل عجم ’’ابن عربی‘‘کی اس مشروط تعریف کے متحمل نہیں ہیں ۔چونکہ اہل عجم کے نزدیک ’’نعت‘‘ ایک ایسا وحدہ لاشریک لفظ ہے۔ جس کے تمام ظاہری و معنوی امکانات کا مرکز و محور محض ذات پیغمبر ؐ اسلام ہے۔لہذا اس سے ہٹ کر ’’نعت ‘‘ کا تصور لایعنی ہے۔
’’نعت ‘‘ سے متعلق ڈاکٹر ریاض مجیدکا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’یہ لفظ’’نعت‘‘ خلقتاً عمدہ صفات کے مالک کے لئے استعمال ہوتا ہے، یعنی اس شخص کے لئے جو پیدائشی طور پر خوبصورت ہو ، عمدہ خصلتوں اور اچھے اخلاق والا ہو ،اور یہ لفظ ’’نعت‘‘ اوصاف کے انتہائی درجے کے مفہوم میں آتا ہے۔‘‘
(نعت کالغوی مفہوم)
انور احمد میرٹھی نے’’نعت‘‘ کو شاعر کے عجز بیان سے تعبیر کیا ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’نعت‘‘ عربی کا لفظ ہے ۔ اس کے معنی تعریف و وصف بیان کرنے کے ہیں اگر چہ عربی میں مدح کا لفظ بھی اس مقصد کے لئے مستعمل ہے لیکن ادبیات میں نعت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوصاف و محاسن اور بیان سیرت کے اظہار کے لئے مختص ہے اور یہی وہ صنف سخن ہے جس میں شاعر کا عجز نعت کی خصوصیات کا حصہ ہے چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہو۔عربی شاعری میں اس کی مثال حضرت علی کے ایک شعر سے ملتی ہے  وہ شعر ملاحظہ کریں۔
اللہ یعلم شانہ
وَھو العلیم بیانہ
اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جانتا ہے اور وہ آپ ۔۔۔۔۔کے بیان سے باخبر ہے۔‘‘
    (بہر زماں بہر زماں صفحہ نمبر ۴۳)
لفظ ’’نعت‘‘ کی ان جملہ توضیحات وتشریحات سے الگ ’’مفتی غلام حسین رامپوری کا اپنا خیال ہے کہ
لفظ ’’نعت‘‘ کو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
مفتی غلام کی حسین کی یہ توضیح درست نہیں ہے ۔اس لئے کہ ’’نعت‘‘ کا انطباق محض حضورا کرم کے محامد و محاسن کے بیان پر ہی ہوتا ہے۔اور اہل بیت علیھم السلام کی اور صحابہ کرام کی مدح کے لئے باضابطہ شاعری میں ’’منقبت‘‘ جیسی صنف مروج ہے۔غالباً مفتی غلام حسین رامپوری نے صنف’’نعت‘‘ میں جو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے ذکر کو شامل کیا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ زمانہ رسالتمابؐ اور عہدتابعین وتبع تابعین کے بعض نعت گو شعرا نے خصوصیت کے ساتھ اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کا تذکرہ اپنے نعتیہ قصائد میں ضمنی طور پر کیا ہے ۔ جن میںجناب حسان بن ثابت اور عہد رسالتمآب کے دیگر شعرا اعظام کے علاوہ مشہور نعت گو شاعر جناب عبداللہ شرف الدین محمد بن ابوالبوصیر (جن کا تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا)ان کے نعتیہ قصائد میں اہل بیت علیھم السلام کے حوالے سے بیشتر اشعار موجود ہیں۔مثال کے طورپریہ شعرملاحظہ فرمائیں۔
اٰل بَیت النّبی طِبتم خطاب المدحُ فیکم وطاب الرّثاء
انا حسّانُ مدحکم فَا ذا نحتُ علیکم فاِ فّنی الخنساء
’’ اے اہل بیت نبی ؐ تم پاکیزہ ہو اور تمہارے بارے میں میری مدح و رثا،پاک ہے ، میں مدح نگاری میں تمہارا حسّان ہوں اور جب میں تمہارا نوحہ لکھتا ہوں تو ’’خنسا‘‘ بن جاتا ہوں۔‘‘
اما م شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالاشعر کے دوسرے مصرعہ میں خاص کر عرب کے دو اہم شاعروں کا تذکرہ کیاگیا ہے، پہلے ’’حسان ابن ثابت علیہ الرحمہ،جن کا نام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد میں نعت گویان میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کے سلسلے سے تاریخ میں بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں اور ان کے اشعار آج بھی نعت گوئی کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں ۔(جن کا تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا) اورایک خاتون شاعرہ’’خنسا‘‘ ہے جس کا تذکرہ مذکورہ شعر میں کیا گیا ہے۔لیکن اس مذکورہ بالا شعر کے ضمن میں ’’خنسا ‘‘ کا اجمالی تعارف اپنے قاری کے لئے ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں ، ’’خنسا‘‘ عرب کی ایک فصیح اللسان خاتون تھی اور وہ اپنے وقت کی ایک بہترین شاعرہ تھی۔ جسے شعر گوئی میں ملکہ خاص حاصل تھا، جس کی فصاحت اور بلا غت شعر کی وجہ سے اسے عرب کے اہم شعرا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔اس کا ایک بھائی جس کا نام تاریخ میں ’’صخر‘‘ بیان کیا گیا ہے، وہ اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔لیکن اس کا بھائی ایک جنگ میں ’’خلد بن ولید‘‘ کی تلوار سے مارا گیا ۔تو اس کے مرنے کا غم ’’خنسا‘‘ پر اتنا شدید ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پھٹی ہوئی جوتیوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میںحمائل کئے ہوئے مدینہ کی گلیوں  کوچوں میں پھرنے لگی اور اس نے اپنے بھائی کے قتل ہوجانے پر ایک پُرسوز’’ نوحہ کہا اور جب وہ مدینہ کی گلی اور کوچوں میںپڑھتی اور شدت غم سے یوں سینہ زنی کرتی کہ یہاں تک کے اس کی یہ کیفیت اور اس  کے نوحہ کے اشعار سن کر لوگوں کے دلوں پر ایک غم کی کیفیت طاری ہوجاتی اور لوگوں کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوجاری ہوجاتے۔اس کی مزید تفصیل پڑھنے کے لئے علامہ شبلی نعمانی کی مشہور زمانہ کتاب ’’موزانہ انیس و دبیر‘‘  دیکھی جاسکتی ہے۔
امام شرف الدین بوصیری کے قصیدہ ’’نومیہ‘‘ کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں
علیٰ اَن تذکاری لما قد اصابکم
یجر اٗشبحانی واَن قدُم العھد
’’ جب میں ان مصیبتوں کو یاد کرتا ہوں جو آپ پر (اہل بیت نبی ؐ) پر ڈھائی گئیں تو ایک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی میرے غم تازہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
یہ بات درست ہے کہ اولین نعت گو شعرا میں یہ رجحان عام تھا کہ وہ حضور اکرم سے تقرب اور محبت کے بنیاد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے ساتھ ان کے اہل بیت کا بھی تذکرہ اپنے قصائد میں کرتے تھے۔ جس کا مقصد محض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصول محبت و رافت تھی۔جب کہ موجود ہ عہد میں ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کہ علمائے ادب نے صنف’’نعت‘‘ کے موضوعات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام اور ان کے صحابہ کرام کے توصیف و ثنا کے بیان کے انضمام کو مسترد کرتے ہوئے ’’نعت‘‘ کو محض جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر سے ہی موسوم کیا ہے ۔اور ان کے اہل بیت اور صحابہ کرام کے تذکرے کے لئے’’منقبت ‘‘ جیسی صنف کی ترویج کی گئی جو آج بھی رائج ہے اور صاحبان مودت اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے منقبت کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خانوادہ عصمت و طہارت ونجابت اور ان کے اصحاب ذوالاحترام کی خدمت میں اپنے اظہار عقیدت کے لئے ’’منقبت ‘‘جیسی مقدس صنف کا سہارا لیتے ہیں۔
جب کہ عرب کے نعت گویان کے نعتیہ قصائد میں کثرت کے ساتھ ایسے اشعار مو جود ہیں جس میں رثائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجودان اشعار کا شمار نعت ہی میں کیا جاتا ہے۔حضور اکرم کے وصال کے بعد جن شعرا نے نعتیں کہیں ہیں ۔اس میں رثائی کیفیت کا پایا جانا ایک فطری امر ہے ، اسی وجہ سے بعض محققین اور مولفین نے جب نعت جیسی صنف سخن پر خامہ فرسائی کی اور جب نعتیہ قصائدمیں موجود ان اشعار کی یافت کی تو انھوں نےایک منصوبہ بند زمرہ بندی کے تحت اس کی تفہیم و تعبیر کے بغیراسے مرثیہ اور نوحہ سے بھی تعبیر کیا، جب کہ اس طرح کی تخصیص ایک قابل غور مسئلہ ضرور ہے۔جس پر ایک عمیق نگاہ اور عقلی دیدہ ریزہ کی ضرورت ہے۔حالانکہ صنف نعت میں اس طرح کے تجدد آمیز امتیازات ضرور کئے گئے ہیں۔اس کے لئے آپ ’’حیات عامر حسینی‘‘کی کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ، کیوں کہ تبلیغ و حجت و شہادت دین حق کی تاریخ اور رسول اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم و آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف و متنوع پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے کلی طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔ یہی اس کی Dialecticsکہے اس سے الگ کچھ اور ہوہی نہیں سکتا۔ دین حق کی تبلیغ و حفاظت و سربلندی اور اللہ کی رضا کا حصول اور خلافت ارضی کی ذمہ داری ایک کائناتی عمل ہے اس کی ابتدا و انتہا اور محو ذات اقدس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘
کتاب :نعت،مرثیہ اور عرفان (ایک علمیاتی ،بحث)‘‘
    مطبع زینب پبلی کیشنز علی گڑھ 2016
اس اقتباس سے مولف کی ذہنی کشمکش اوراس کے نفسیات الجھاؤ کو آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں،اس اقتباس میں بہت سے ایسے نکات ہیں ۔جس پر کھل کر بات کی جاسکتی ہے ۔لیکن موضوع کی نزاکت اس بات کی متحمل نہیں ہے، کہ ان نکات کو معرض بحث لایا جائے ۔ لیکن اس اقتباس میں ’’نعت اور مرثیہ‘‘ سے متعلق جو خلط مبحث ہے ۔اس کے درمیان ایک خط امتیاز ضرور قائم کیا جانے چاہئے،مولف نے اردو ادب کی دواہم صنف سخن ’’نعت‘‘ اور مرثیہ ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا ہے۔جو منطقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ’’اردو ادب میں ’’ نعت‘‘ ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے، اور ’’مرثیہ‘‘ بھی رثائی ادب کی ایک مقبول ترین صنف سخن ہے۔ جو کسی طرح کے تعارف کی محتاج نہیں۔لیکن مولف مزید اس کے آگے تحریر فرماتے ہیں۔
  ’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ‘‘
یہ نظریہ اپنے اندر کوئی مستقل منطقی استدلال نہیں رکھتا ۔مولف نےعرب کے ان نعت گو شعرا کے نعتیہ قصائدمیں موجود وہ اشعار جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد کہے گے ہیں ۔ان اشعار میں حضوراکرم کے محاسن و محامد کے بیان کے ساتھ اس خلق مجسم اور سراپا رحمت و رافت کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد، جو محرومیت اور منہومیت اور کربناک اذیت کا احساس اور اس سے پیدا ہونے والے دلوں میں حزن و ملال اور رنج و الم کا اظہار کیا گیا، اسی کو بنیاد بنا کر ’’نعت‘‘ اور ’’مرثیہ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا۔جو قطعی درست نہیں ہے۔اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے توہمارے اردوادب میں موضوعات کے اعتبار سے بہت سی ایسی اصناف سخن ہیں ۔جس میں بیک وقت مختلف موضوعات کی پیش بندی کی جاتی ہے۔
لیکن اس کے بعد بھی اس کے درمیان کوئی خط فاصل نہیں قائم کیا جاتا مثلا قصیدہ میں ،خاص کر تشبیب کے اشعارموضوع کے اعتبار سے مکمل غزل کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان تشبیب کے اشعار کے بنیاد پر قصیدے اور غزل کو ایک ہی صنف نہیں قرار دیا جاتا۔اس لئے کہ غزل ایک الگ صنف سخن ہے اور قصیدہ الگ صنف سخن ہے۔ اسی طرح سے اپنے موضوعات کی بنیاد پر ’’نعت ‘‘ ایک الگ صنف سخن ہے اور’’مرثیہ‘‘ ایک الگ صنف ہے ، لہذا اس بنیاد پر دونوں مختلف صنفوں کو ایک ہی صنف قرار دینا یہ قطعی منطقی نہیں ہے۔
مولف کو یہ تسامح نعتیہ اشعار میں موجود ان اشعار کہ وجہ سے ہوا جس میں رثائی کفیت پائی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مولف اس طرح کے غیر منطقی ارتکاب کے مرتکب ہوے، اور کچھ اشعار مولف نے اپنے جواز کے لئے اس طرح کے اشعار خود اپنی مذکورہ کتاب میں بھی کوڈ کئے ہیں،اور ایسے بہت سے اشعار نعت میں پائے جاتے ہیں جسمیں رثائی کیفیت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے جسے بطور امثال یہاں پیش کرتا ہوں۔
وہ اشعار ملاحظہ کریں ۔جسے جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے اپنے بابا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے ہیں۔جن میں کچھ اشعار اپنے بابا کی مدح میں کہے ہیں ۔جن میں جدائی کی کرب انگیز کیفیت کی براہ راست عکاسی کی گئی ہے۔لہذا مختلف شعرا کے کچھ ایسے نعتیہ اشعار پیش کرتا ہوں جس میں رثائی اور مبکی کیفیت پائی جاتی ہے۔جناب سید ۃ النسالعالمین جناب فاطمہ زہرا صلواۃ اللہ علیھا کے یہ اشعار ملاحظہ کریں۔
ماذاعلی من شم تربتہ احمد
الایشم مدی الزمان غوالیا
’’ وہ شخص جس نے (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے قبر کی مٹی سونگھ لی تو اس پر تعجب کیا ہے کہ وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے‘‘
صبت علی مصائب لو انھا
صب علی الایام عدن لیالیا
’’اے بابا(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ کے بعد مجھ پر وہ مصیبت ڈھائی گئی اگر وہ مصیبتیں اگر دن پر پڑتیں تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہوجاتیں۔‘‘
اِغرّا آفاق السمائ و کوّرت
شمس النّھار وَاظلم الارمان
’’آسمان کی وسعتیں گردآلود ہوگئیں اور دن کی بساط کو لپیٹ دی گئی اور سورج گہن آلود ہوگیا جس کی وجہ سے سارا زمانہ تاریک ہوگیا۔‘‘
ولارض من بعد النبی کَئبۃ
اسفا علیہ کثیرۃُ الاحزان
’’رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وصال کے بعد زمین ابتلائے دردو غم میں ڈوب گئی‘‘
فلیبکہ شرق البلادِ و غربھا
یا فخر من طلعت لہٗ النیران
’’اب مغرب و مشرق ان (رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ہجر میں اشک ریز ہیں ،فخر صرف ان کے لئے ہے جن سے تجلیات الہی کا ظہور ہوا‘‘
یاخاتم الرسل المبارک صنوۃ
صلی علیک منزل القرآن
’’اے خاتم الرسل (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)آپ خرو برکت کے وہ بہتے ہوئے دریا ہیں ، جس پر اللہ تعالی نے قرآن جیسی عظیم کتاب نازل کی اور اُس نے اپنے محبوب کے ذکر کو درودوسلام میں بھی شامل رکھا۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی جو نعتیں کہیں ہیں ان میں سے کچھ اشعار پیش ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیں (حضرت علی علیہ السلام کی نعت گوئی پر آگے تفصیل سے تذکرہ کیا جائے گا) لیکن یہاں پر ان کے چند اشعار ضرور پیش کرتا ہوں اپنے موقف کی دلیل کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
امن بعد تکفین النبی ودفنہ
باثوابہ آسی علی ھالک ثوی
’’نبی کریم( صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کفن پوش ہونے کے بعد ان کے انتقال کے غم میں ،میں غم زدہ ہوں وہ جس نے قبرکواپنی ابدی قیام گاہ بنا لی۔‘‘
زرانا رسول اللہ فینا فلن نری
بذالک عدیلاً ما حیینا من الرویٰ
’’رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی موت کی مصیبت مجھ پر اس طرح نازل ہوئی ،کہ جب تک میں زندہ رہوں گاہر گز اُ ن جیسی شخصیت کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔‘‘
وکان لنا کالحصن من دون اھلہ
لہٗ معقل حرز حریز من الرویٰ
’’رسول کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہمارے لئے ایک مضبوط ترین قلعہ تھے جو دشمنوں سے حرزوامان کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘
وکنا بمراہ نری النور والھدی
صباحاً ماراح فینا او غتدی
’’جب ہم انھیں(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم)دیکھتے ہیں تو وہ سراپا اور مجسم نور ہدایت ہیں،جب ہم انھیں گھر سے نکلتے اور صبح شام چلتے پھرتے تو اہم انھیں دیکھتے تھے۔‘‘
لقد غشیتنا ظلمۃ بعد موتہ
نھاراً فقد زادت علی ظلمہ الدجیٰ
’’ان کے (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کی وفات کے بعد ایسا اندھیر ا چھا گیا کہ یہ دن بھی مانند سیاہ رات کے ہوگیا۔‘‘
(الشہید:661ہجری)
جناب حسان ابن ثابت کے بہت سے ایسےنعتیہ کلام ہیں جس میں رثائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیںان کے مختلف نعتیہ قصائد میں موجودکچھ اشعار آپ بھی ملاحظہ کریں۔
امسی نسائک عطلن البیوت فما
یضربن فوق قضا ستر باوتاد
’’خانوادہ عصمت و طہارت کی خواتین  نےاب اپنے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے ، یہاں تک کہ اب وہ اپنے پردوں کے پیچھے میخیں بھی نہیں لگاتیں۔‘‘
مثل الرواہب یلبسن المباذل قد
ایقن بالبؤس بعد النمۃ البادی
’’یہ خانودہ عصمت کی خواتین (حضور کے وصال کے بعد)راہباؤں کی طرح بہت ہی کم قیمت اور بوسیدہ کپڑے پہنتی ہیں انھوں نے اس نعمت کے اٹھ جانے کے بعد اس کھلی ہوئی مصیبت کو اپنا شعار زندگی بنالیا ہے۔‘‘
کان ایضائً وکان النور نتبعہ
بعدالالہٗ وکان السمع و البصرا
’’وہ(رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نور مجسم تھے خدا کے بعد ہم جن کا اتباع کرتے تھے ،وہ ہماری آنکھ اور کان تھے۔‘‘
فبورکت یاقبر الرسول وبورکت
بلادثوی فیھا الرشید المسدد
’’اے رسول مکرم و معظم وہ قبر بہت بابرکت ہے جوآپ کی ابدی قیام گاہ ہے، اور اس شہر کو بھی اللہ تعالی نے وہ برکت اور وہ عظمت عطا کی جہاں آپ قیام پذیر تھے۔‘‘
وراحوا بحزن لیس فیھم نبیھم
وقد وہنت منہم ظہور واعضد
’’یہ وہ غم رسیدہ اور الم نصیب لوگ ہیں جن کے درمیان ان کا نبیؐ نہیں رہا جس کی وجہ سے ان کی کمریں خمیدہ اور زوربازو کمزور ہوگیے ہیں۔‘‘
یبکون من تبکی السموات یومہ
ومن قد بکتہ الارض فالناس اکمد
’’یہ لوگ اس عظیم ہستی پر گریہ کناں تھے جس کی وفات پر آسمان و زمین رورہے تھے اور لوگ اس سے کہیں زیادہ غمزدہ تھے۔‘‘
فینا ھم فی نعمۃ اللہ بینھم
دلیل بہ نہج الطویقۃ یقصد
’’اچانک جب ان کے درمیان اللہ کی نعمت رسول خدا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی شکل میں موجودتھی،یہ ایک ایسے رہبر تھے جن کی رہنمائی میں ہدایت کا راستہ بہت واضح اور روشن تھا۔‘‘
عزیز علیہ ان یجوروا عن الہدی
حریص علی ان یستقیموا ویھتدوا
’’لوگ ان کی قیادت میں اس راستے پر چل پڑتے تھے ۔ انھیں(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر یہ بات بہت گراں گزار تھی کہ ان کی امت اس صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائیں۔‘‘
عطوف علیھم لایثنی جناحۃ
الی کنف یحنوعلیھم ویمہدوا
’’جو اس بات کے لئے ہمہ وقت فکر مند تھے کہ لوگ صراط مستقیم پر گامزن رہیں وہ (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بڑے شفیق اور مہربان تھے جو کسی سے بے اعتنا ئی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔‘‘
فبیناھم فی ذالل النور اذ غدا
الی نورھم سہم من الموت مقصد
’’وہ نور مجسم لوگوں کے لئے راستہ ہموار کرتے رہتے ، ان پر اپنی مہربانی کا اظہار فرماتے ،لوگ ان سے فیضاب ہورہے تھے کہ اچانک موت کے سفاک تیر نے اس خلق کے مجسم کو اپنی زد میں لے لیا۔‘‘
بطیبۃ رسم للرسول ومعہد
منیر وقد تعفرالرسوم وتہمد
’’مدینہ منورہ میںرسول کریم کے منزل مقام و شرف کے آثار قیامت تک محفوظ رہیں گے،جب کہ دوسروں کے آثار ہمیشہ باقی نہیں رہتے ۔‘‘
ولاتمتحی الآیات من دار حزمۃ
بھا منبر لہادی الذی کان یصعد
’’لیکن اس مکرم اور قابل احترام(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نشانیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی ،یہاں تک وہ منبر بھی موجود ہے جس پر آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے۔‘‘
وواضح اثار وباقی معالم
وریع لہ فیہ مصلی و مسجد
’’آج بھی ان سےآثارکی نشانیاں بہت واضح ہیں،جسمیں ان کا مکان ،ان کی نماز پڑھنے کی جگہ یہاں اتک کہ آپ کی سجدہ گاہ تک باقی ہے۔‘‘
بھا حجرات کان ینزل وسطہا
من اللہ نور یستضا یوقد
’’آپ کا وہ مکان جہاں پر نزول وحی و نور ہوتا تھا جسے اکتساب فیضان کیاجاتا تھا۔‘‘
وھل عدلت یوما رزیۃ ھالک
رزیۃ یوم مات فیہ محمد
’’کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کا دن کسے کے مرنے کے دن کی مصیبت کے برابر ہوسکتا ہے۔‘‘
نقطع فیہ منزل الوحی عنہم
وقد کان ذانور یعور وینجدُ
’’(حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی وفات کی وجہ سے وہ شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا جس پر وحی الہی کا نزول ہوتا تھا اور جس کا نور دنیا کے تمام نشیب وفراز کوروشن کرتا تھا۔‘‘
یدل علی الرحمن من یقتدی بہ
وینقذ من ھول الخرایا ویرشد
’’اُس(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے نور کی ا قتداکرنے والے ہدایت یافتہ ہوگئے ،جنھیں ذلت و رسوائی اور خواری سے نکال کر اُسے عزت وشرف سے آراستہ کردیا۔‘‘
امام لہم بہدیہم الحق جاھداً
معلم صدق ان یطیعوہ یسعدوا
’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک ایسے رہبر اور قائد تھے جو لوگوں کو حق کے راستے کی نشاندہی کرتے تھے، وہ سچائی کا درس دینے والے تھے ، اگر خلق خدا ،اُس کی اقتدا کرتی تو وہ لوگ نیک و سعید بن جاتے تھے۔‘‘
عفو عن الذلات یقبل عذرھم
وان یحسنو افاللہ بالخیر اجوہ
’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) لوگوں کی غلطیوں کو درگرزکردینے والے تھے اور ان کی عذر خواہی کو قبول فرمانے والے تھے اگر کوئی بھلائی کرنے والااور اللہ کی اطاعت کرنے والا ہوتا تو آپ ٔ اس کے لئے بیحد سخاوت فرماتے۔‘‘
وان ناب امرلم یقوموا بجملہ
فمن عندہ تیسیرما یتشدد
’’اگر کوئی دشوارگزار معاملہ پیش آتا جس کی عقدہ کشائی سے لوگ عاجز ہوتے تو آپ اس کے ہر مسئلے اور معاملات کی پیچیدگی کو بڑی خوش اسلوبی سے سلجھانے والے تھے۔‘‘
حضرت عباس بن عبد المطلب نے بھی نعتیں کہیں جن کے کچھ اشعار میں اپنے قارئین کی خدمت میں ضرور پیش کرونگا لیکن حضرت عباس بن عبدالمطلب کا ایک اجمالی تعارف اس ضمن میں پیش کرتا چلوں۔
جناب عبا س بن عبدالمطلب ؑ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا بھی تھے،اسلام کی ترویج اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تحفظ میں ایک اہم خدمت انجام دی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اور آپ اپنے زمانے کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ جن سے کتب احادیث میں کثرت سے احادیث نقل کی گی ہیں، آپ سلسلہ روات میں سلسلۃ الذھب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ سے نقل کی ہوئی احادیث پرعالم اسلام کے تمام تر مسالک اتفاق رکھتے ہیں ۔اور ان کی ذریعہ بیان ہونے والی احادیث درجہ استناد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ نے بھی اپنے بھتیجے اور داعی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیہ اشعار کہےہیں ۔ان اشعار میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت سے انداز ہوتا ہے کہ وہ فصحائے عرب میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے تھے۔انھوں نے جو اشعار حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے کہیں ہیں اس میں جذبات کی ایک سیلانی کیفیت اور محبت کی ایک انجذابی کیفیت پائی جاتی ہے جسے پڑھنے کے بعد روح کو بالیدگی کا احساس ہوتا ہے۔انھوں نے ان اشعار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام ظاہری اور معنوی خواص کا ذکر بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد عشق و عرفانیات کے بہت سے مرموزات قاری پر واشگاف ہوتے ہیں۔ آپ کا انتقال 654 ہجری میں ہوا،جن کی قبر مدینہ منورہ میں ہے جو آج تک امت مرحومہ کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔اس افسوسناک صورت کو دیکھ کر دلی اذیت اور روحانی کرب کا احساس ہوتا ہے،اور دل میں ایک ٹیس اور خلش پیدا ہوتی ہے،جس کا اظہار کرنے کے لئے میرے پاس لفظیں نہیں ہیں۔ دنیا کے تمام قومیں اپنے بزرگوں کی علمی وراثت اور ان کے آثار کو محفوظ رکھتی ہیں ۔لیکن اسلام میں کچھ فسطایت اور صہونیت نظریات کے پروردہ ذہین ان اسلامی شعائر اور ان آثار کو مٹانے کی مسلسل کوشش کررہی ہیں۔جس سے تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب وابستہ ہے اگر اسی طرح ہمارے ماضی کے باقیات اور آثار کو ختم کردیا جاےگا تو آنے والی نسلیں اسلام کی اصل تاریخ سے محروم ہوجائیں گی،اور ہماری اسلام تہذیب و ثقافت کے بیچ ایک ایسا خلا واقع ہوجائے گا کہ جسے پُر کرنا ایک امرناگزیز کی شکل اختیا ر کر لےگا۔لہذا اس موضوع پر تمام عالم اسلام کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔یہ میرا ذاتی کرب تھاجسے کا اظہار کرنا میں نے مناسب سمجھا اس لئے اسے زیب تحریر کرردیا ۔ حالانکہ یہ موضوع اس بات کامتقاضی نہیں ہے۔لیکن میں یہاںبطور امثال چند اشعار اپنے قارئین کی خدمت میں ضرور پیش کرونگا۔
من قبلھا طبت فی الظلال وفی
مستودع حیث یخصف الورق
’’آپ (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس سے پہلے خاص طرز عاطفت میں زندگی بسرکی اور ایک ایسی پناہ گاہ میں جہاں کھانے کے لئے پتے اور بدن ڈھاکنے کے لئے پتوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘
اس شعر میں حضرت عباس بن عبدالمطلب نے شعیب ابی طالب کا ذکر کیا ہے جب مکہ کے کفار و مشرکین حضور اکرم کے’’ اعلائے کلمۃ الحق‘‘اور عربی قبائلی رسوم کے خلاف اپنی آواز بلند کی تو روسائے اور امرائے مکہ جو مشرکین اور کفاروں میں سے تھے انھوں نے پہلے اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے چچا سید البطحا جناب ابوطالب علیہ السلام کی کفالت اور ان کی سرپرستی کی وجہ سے جب یہ ممکن نہیں ہوسکا ،تو انھیں مادی چیز وں کی لالچ دی گئی لیکن یہ طریقہ کار موثر نہیں ہوسکا،آخر میں کفارو مشرکین کے مختلف قبائل کے آپسی مشورت اور اجماع سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی استعانت کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا جائے۔لہذا ایک معاہدہ کے تحت آپ کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا، جناب ابوطالب علیہ السلام نے اپنے بھتیجے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پہاڑی کے درے میں اقامت پذیر ہوئے ،جسے آج شعیب ابی طالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ثم ھبطت البلاد و لابـشر
انت ولامضغۃ ولا علق
’’پھر آپ کا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا نزول ایک شہر میں ہوا نہ تو آپ اسوقت ’’مضغہ‘‘ تھے اور نہ ’’علقہ‘‘
بل نطفۃ ترکب السفین وقد
الجم نـسراً واھلہ الغرق
’’وہ آب صفاف کشتیوں پر سوار تھا جب سیلاب کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجیں پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہی تھیں،اور لوگ غرق آب ہورہے تھے۔‘‘
یہ بہت ہی خوبصورت تلمیحی شعر ہے اس شعر میں جناب عباس ابن عبدالمطلب علیہ السلام نے جناب نوح کے سیلاب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب جناب نوح علیہ السلام کی امت پر ان کی تبلیغ کا اثر نہیں ہوا بلکہ وہ اور زیادہ جسور اور کھلے عام گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے پیغمبر خدا کے سمجھانے کے باوجود تو جناب نوح علیہ السلام نے اپنی امت کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کریم کی بارگاہ میں بدعا کی تو اللہ تعالی نے جناب نوح علیہ السلام کی امت پر پانی کی شکل میں عذاب نازل کیا جس کی وجہ سے تمام لوگ غرق آب ہوگئے سوائے ان لوگوں کے جو جناب نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار تھے۔اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی وہ ذات مقدس تھی جس نے جناب نوح علیہ السلام کی کشتی کو اس سیلاب سے نجات دی تھی۔
تنقل من صالب الی رحم
اذا مـضیٰ عالم بداطبق
’’آپ کا نور اصلاب مطہرہ میں منتقل ہوتا رہا ایک دن وہ آیا جب آپ کا نور اس پاکیزہ صلب سے ظہور پذیر ہوا۔‘‘
وردت نار الخلیل مکتتماً
فی صلبہ انت کیف یحترق
’’جب خلیل خدا آتش نمرود میں تھے تو آپ کا(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو نور صلب ابراہیم علیہ السلام میں پوشیدہ تھا۔‘‘
حتی احتویٰ بینک المھیممن منَّ
خندف علیا تحتہا النطق
’’یہاں تک کہ آپ کو وہ مقدس اور شان جلالت مآب گھرانہ جو خندف جیسی عظیم المرتبت خاتون کا ہے ،جس کادامن رحمت زمین پر سایہ فگن ہے۔‘‘
وانت لمال ولدت اشرقت الا
رضی وضات بنور کالافق
’’جب آپ کے(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نور مقدس کا ظہور ہوا تو ، تمام و شرق و غرب آپ کے نور کی ضیاپاشی سے روشن ہوگیا۔‘‘
فنحن فی ذالک الضیاٗ و فی النور
وسسبل الرساشاد نخترق
’’ہم لوگ اسی کے نور کی روشنی میں ہدایت اور استقامت کی راہیں نکال رہے ہیں۔‘‘
ان مذکورہ اشعار میں جناب عباس بن عبدالمطلب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان تمام محاسن کو بیان کیا ہے ،جو معنوی عرفان کےتمام مرموزات کو واضح کررہا ہے۔ حالانکہ ان مذکورہ اشعار میں خارجی طور سے رثائی کیفیت کا احساس نہیں ہوتا ۔لیکن ان اشعار کی زیریں لہروں میں ایک ایسے نارسائی کا احساس پوشیدہ ہے ،جو اس نعمت عظمیٰ کے محرومی کے احساس سے عبارت ہیں۔
جناب کعب بن مالک بھی حضور اکرم کے نعت گویان میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں (جن کا تفصیلی تذکرہ آگے کیا جائے گا) ان کے نعتیہ اشعار میں بھی حضور کے وصال کے پُردرد اشعار موجود ہیں میں یہاں ان کےکچھ اشعار اپنے بات کے وثوق اور دلیل کی لئے ضرور نقل کرونگا۔
یاعین بکی بدمع ذری
لخیر البریۃ والمصطفیٰ
’’اے میری آنکھ کائنات کی اس عظیم اور برگزیدہ شخصیت پر اس طرح سے گریہ کر کہ آنسووں کا تسلسل بن جائے۔‘‘
وبکی الرسول وحق البکا
علیہہ لدی الحرب عند اللقا
’’اس برگزیدہ شخص پر رو اس لئے کہ اس پر رونا جائز ہے ، یہاں تک جب دشمن بھی میدان جنگ میں صف بستہ ہوں اور اس مشکل کی گھڑی میں بھی۔‘‘
علی خیر ماحملت ناقۃ
واتقی البریۃ عند التقیٰ
’’اے میری آنکھ اس پر اشکبار ہو جس کی ذات مقدس کے بار کو اس اونٹنی (ناقہ کسوی) نے نہیں اٹھایا سوائے اس کے جس کی ذات کائنات میں اللہ کی سب سے برگزیدہ شخصیت تھی۔
علی سی ماجد جحفل
وخیر الانام و خیر اللُھا
’’اے میری آنکھ اس پر اشکبار ہو جو تمام نبیوں کا سردار وبلند کرداراور عظیم المرتبت تھا،جس کی سخاوت تمام مخلوق خدا میں بے نظیر و بے مثال تھی۔‘‘
لہ حسب فوق کل الانام
من ہاشم ذالاک المرتجیٰ
’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) خاندان بنی ہاشم ہے، جس کا خاندان اشراف عرب میں سب سے زیادہ عظمتوں کا حامل تھا،جس کا کوئی ہمسر نہیں  اور سب کی امیدیں اُسے سے وابستہ تھیں۔‘‘
نخص بما کان من فضلہ
وکان سراجاًلنا منذرا
’’جن کی دادو دہش سے سب سرفراز ہوتے اور وہ تاریکیوں میں ایک روشن چراغ تھا۔‘‘
وکان بشیر النا منذرا
نور الناضوہ قداسنا
’’وہ بشارت دینے والااور آخرت کے عذاب سے ڈرانے والا تھااور وہ ایک ایسا نور تھا جس سے سارے عالم میں روشنی تھی۔‘‘
فانقذنا اللہ فی نورہ
ونحن برحمۃ من لظیٰ
’’خداوند عالم نے اسی کے وسیلے سے ہی ہمیں تاریکی سے روشنی کی ہدایت کی اور وہی نجات دہندہ ہے اور جہنم کی آگ سے بچانے والاہے۔‘‘
مذکورہ نعتیہ قصائدمیں نعتیہ اشعار کے ساتھ مرثیہ کے بھی اشعار ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن کیا ان رثائی اشعار کی بنیاد پر دومختلف صنف سخن کا انضمام درست ہے اگر یہ درست ہے تو اس کے لئے کوئی منطقی استدلال ضرور ہونا چاہئے۔ان نعتیہ اشعار میں پائی جانے والی رثائی کیفیت کو نعت کے معنوی تلازمات سے الگ کر کے دیکھنا یہ نعت کےجملہ اوصاف کے منافی ہے۔لہذا ان اشعار کو بھی نعت کے ہی ضمن میں رکھا جانا چاہئے۔
لیکن ’’حیات عامر ‘‘ نے اپنی کتاب ’’نعت، مرثیہ اور عرفان‘‘(ایک علمیاتی بحث)میں نعت میں ایک مکمل موضوعاتی صنف سخن مرثیہ کا اختصاص نعت کے ساتھ کیا تو ضرور ہے لیکن آگے چل کر اسی کتاب میں مولف محترم اپنے اس موقف کو خود مسترد کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’یوں نعت اور مرثیہ اہل بیت طاہرین ؑ کا چولی دامن کا ساتھ ہے حالاں کہ نعت اور مرثیہ دو الگ اصناف سخن ہیں لیکن اس کے باوجودبہت اعلیٰ نعت اور مراثی لکھے گئے ، ان میں ایک گہرا تعلق صاف دکھائی دیتا ہے ۔ کبھی نعت مرثیہ کی اور کبھی مرثیہ نعت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔‘‘
مولف کا یہ تذبذبانہ رویہ اور نفسیاتی کشمکش کسی حتمی فیصلہ سے مانع ہے۔ اس لئے وہ کبھی نعت کو مرثیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی مرثیہ کو نعت سے متعارف کراتے ہیں۔اور اس ادغام و انضمام و اتصال میں کسی منطقی انجام کار کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔لہذا یہ کہنا قطعی درست نہیں کہ نعت اور مرثیہ دونوں ایک ہی صنف سخن ہیں۔ یا دونوں کے درمیان ایک ہی جیسا اتصال پایا جاتا ہے۔ نعت اور مرثیہ لغوی اور اصطلاحی اور اپنے موضوعاتی سطح پر بھی اپنے الگ الگ زوایہ انفراد کی عکاسی کرتے ہیں۔مولف محترم کا یہ اقتباس بھی قابل غور ہے۔
’’ حسین ؑ اور آپ کے اہل بیت طاہرین ؑ نورمحمدی کا مظہر ہیں اور اس نورانی کاروان کے درخشاں ستارے جس نے ہرزمانے میں سیاہی و تاریکی کے پردوں کو تار تار کرکے توحید کے حقیقی پیغام کو انسانیت تک پہنچایا۔ آپ کی ذات گرامی اور آپ کے اہل بیت طاہرین ایک جسد واحد ہیں انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا ایسا کرکے نہ انھیں اور نہ ان کے عظیم مشن کو سمجھا جاسکتا ہے۔‘‘
’’نعت ، مرثیہ اور عرفان (ایک علمیاتی بحث ؍ص؍18 ) مولف حیات عامر حسینی‘‘
مولف کے اس اقتباس سے قطعی انحراف و انصراف نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آولاد اطہار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ۔لیکن جہاں تک صنف سخن کی بات ہے تو محض کسی ذاتی سبب عقیدت و محبت کی بنیاد پر کسی صنف سخن میں ترمیم و تنسیخ کہاں تک درست ہے یہ اہل علم فراست مجھ سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں۔لیکن مولف نے اپنے موقف کی توثیق کے لئےبطور استدلال اکابرین شعرا کے بعض اشعار اپنے موقف کی مزید تو‌ثیق کے لئے پیش کئے ہیں ۔جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیں۔ان اشعار کے متون میں رثائی آثار اور مبکی کیفیت کی آمیزش پائی جاتی ہے۔جس کی بنیاد پر مولف نے اسے مرثیہ قرار دیا ہے۔جب کہ میں اس سے قطی اتفاق نہیں رکھتا۔چونکہ نعت خالص محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی سے اتصاف رکھتی ہے ۔لہذا، اگر جن شعرا نے نعت کے اشعار کےساتھ کچھ مبکی اشعار کہیں ہیں تو موضوعاتی اعتبار سے اُسے نعت کا ایک ضمنی لاحقہ کی طور پر دکھا جانا چاہئے،بجائے اس کے کہ اُسے مرثیہ سے تعبیر کیا جائے۔
اسی موضوع کے ضمن میںابن العربی ابوبکر الدین (الشیخ لاکبر) یہ اپنے عہد کے بڑے فلسفی اور تصوف میں ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی بہت سی مشہور کتابیں ہیں جو آج مختلف مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں ۔’’فصوص الحکم‘‘ شیخ اکبر کی یہ کتاب بہت ہی نادرو نایاب ہیں۔ انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیں بھی کہیں ہیں۔ جن میں رثائی کیفیات کی بھرپور آمیزش پائی جاتی ہے۔جن کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
الابابی من کان ملکا وسیداً
وآدم بین المائ والطین واقف
’’میرےماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ وہ کون تھا کہ جب ’’آدم آب وگِل‘‘ کے درمیان تھے تب بھی وہ سید و سردار تھا۔‘‘
فذاک رسول الابطحی محمد
لہٗ فی العلا مجد تلید وطارف
’’وہ محمد رسالتمآب جن کو اللہ تعالی نے ہر رفعت وشرف سے مشرف فرمایا چاہے وہ جدید ہو قدیم‘‘
اتی بزمان السعد فی آخر المدیٰ
وکانت لہ ٗ فی کل عصر مواقف
’’وہ اپنی تمام سعادتوں کے ساتھ آخری زمانے میں تشریف لائے لیکن وہ زمانے میں سب  بلند مرتبت اور مقام فضیلت کے حامل ہیں۔‘‘
اتی الانکار الدہر یحبرصدعہ
فاثنت علیہ السن وعوارف
’’ان کی آمد نے ٹوٹے ہوئے زمانے کی خلیج کو پُر کردیا اس کی ذات پر زبانیں اور عطیات خداوندی ثنا خواں رہیں۔‘‘
اذا رام امراً الایکون خلافہ
ولیس لذاک الامر فی الکون صارف
’’ وہ جس بات کے لئے ارداہ کرلیتے تو وہ اس پر ثابت قدم رہتے یہاں تک کی کائنات کی کوئی چیز ان کے بات سے انھیں منحرف نہیں کرسکتا۔ ‘‘
اس بحث کو مزید استدلالی استناد کے لئے کچھ محققین اور دانشوروں کے ان نظریات کو پیش کرنا ضرور سمجھتا ہوں جنھوں نے نعت جیسے عظیم صنف سخن کے سلسلےمیں اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔
اسی ضمن میں پرفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی یہ تعریف ’’نعت‘‘ کے قطعی معنی کے تعین میں ایک اہمیت رکھتی ہے ۔
’’  ادبیات اور اصطلاحات شاعری میں ’’نعت ‘‘ کا لفظ اپنے مخصوص معنی رکھتا ہے ،یعنی اس سے صرف آنحضرت کی مدح مراد لی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت کے سوا کسی دوسرے بزرگ یا صحابی و امام کی تعریف بیان کی جائے تو اُسے منقبت کہیں گے۔‘‘
  (’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘ صفحہ ۲۱،ڈاکٹرفرمان فتحپوری آئینہ ادب چوک مینار انار کلی ،لاہور ،۱۹۷۴)
برصغیر کے معروف محقق ڈاکٹر عاصی کرنالی ’’نعت ‘‘ کے لغوی و اصطلاحی معنی کے ضمن میں یہ بات بڑے وثوق سے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’لغوی معنی و مفاہیم کے باوجود اصطلاحی طور پر نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور صفات حمیدہ و طیبہ ہی کے بیان کے لئے مخصوص ہے جبکہ دوسری ہستیوں کے لئے وصف مدح ، مدحت ، منقبت ، تعریف ، توصیف کے الفاظ کا استعمال انھیں ممتاز ومختلف کرتا ہے ۔‘‘
  ’’اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘‘  صفحہ ۶۲؍۶۳)
’’نعت ‘‘کے اسی اختصاصی معنی کے جواز میں مبین مرزا کی یہ تشریح بہت اہمیت کی حامل ہے ، جس سے گریز نہیں کیا جاسکتا ۔
’’اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ ’’نعت‘‘ کا اطلاق رسول اللہ کی مدح کے سوا کسی اور شخص کی مدح پر ہو سکتا ہے ؟’’نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنی تعریف ، تو صیف ،اور مدح کے ہیں ،تاہم اب یہ لفظ ہمارے یہاں اپنے لغوی معنوں میں نہیں بلکہ اصطلاحی معنوں میں رائج ہے۔اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوم توصیف ، اہل علم اور اہل زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ اصطلاحی معنی اختیا ر کرلے تو اس کے استعمال میں احتیاط برتتے ہیں ،ہم نے کبھی کہیں یہ نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی کو کسی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں شخص فلاں صاحب کی بہت ’’نعت کر رہا تھا‘‘ یعنی(تعریف کر رہا تھا)اس لئے نہیں سنا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر کم علم بلکہ مطلق لاعلم شخص تک سب کے سب یہ بات قطعی واضح طور پر جانتے ہیں کہ لفظ’’ نعت‘‘ محض محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی گرامی کے توصیفی تذکرے کا مفہوم رکھتا ہے اور اسے کسی اور کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
  (مبین مرزا’’لفظ نعت کا استعمال ایک توجہ طلب مسئلہ ‘‘ نعت رنگ ‘‘ شمارہ ۱۱کراچی پاکستان) 
یہ مذکورہ اقتباس اس لئے اہم ہیں کہ موجودہ عہد میں ’’نعت‘‘ کو اس کے معنوی زوایہ انفراد اور اس کے اختصاصی موضوع سے الگ ہٹ کر عمومی سطح پر ایک جدید تصرف کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔جو قطعی درست نہیں اس لئے کہ ’’نعت‘‘ اپنے تمام تر لغوی و اصطلاحی معنی میں ایک ایسا جامع لفظ ہے ۔جو اپنے اندر کسی بھی طرح کی تصریف و تصحیف کی جسارت کو برداشت نہیںکرتا ۔لہذا اس میں کسی طرح کے ادبی اجتہادات کی گنجائش نہیں ۔
مبین مرزا کے مضمون’’لفظ نعت کا استعمال ایک توجہ طلب مسئلہ‘‘ کا اقتباس جسے حوالہ کے طور پراوپر پیش کیا گیا ہے۔ اصل میں یہ مضمون ’’نعت‘‘ کے حوالے سے کئے جانے والے اسی اجتہاد کے استراد میں لکھا گیا ہے۔جس کی کوشش صلاح الدین پرویز نے اپنے ادبی رسالے’’ استعارہ‘‘ میں کی ہے ،اس رسالے کے پشت ورق پر ’’شری کرشن جی‘‘ کے نام سے لکھی گئی ہندی میں ایک نظم کے اس عنوان سے ہے جسے ’’نعت ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے ۔جس کا تذکرہ پروفیسر جیلانی کامران نے ماہنامہ ’’علامت‘‘ جولائی سن ۲۰۰۰ کے شمارہ کے’’ ادبی زوایہ ‘‘میں بھی کیا ہے۔
اردو ادب کے بعض ناقدین و مفکرین نے ادب کے دو اہم صنف نظم اور نثر میں کی جانے والی جناب رسول خدا کی مدح و ثنا کو مجموعی طور پر نعت کہا ہے ۔
ڈاکٹر فرمان فتحپوری کا یہ اقتبا س بھی ملاحظہ کریں۔
’’اُصولاً آنحضرت ؐ کی مدح کے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا، لیکن اردو اور فارسی میں جب نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرتؐ کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے۔‘‘
(اردو کی نعتیہ شاعری ، ص ۲۱)
ڈاکٹر فرمان فتحپوری مزید تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’۔۔۔آنحضرت ؐ کی مدح کے متعلق نثر ونظم کے ہر ٹکڑے کونعت کہا جائیگا۔۔۔‘‘
        (نعت کالغوی مفہوم)
راجہ محمودرشید کا بھی یہی نظریہ ہے ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’وہ بیان یا تحریر جو نظم یا نثر میں آقائے کائنات علیہ السلام و الصلواۃ کی مدح میں تخلیق ہو نعت ہے۔‘‘
      (پاکستان میں نعت: راجا محمود رشید ،ایجوکیشنل ٹریڈرز ،اردوبازار لاہور۱۹۹۴ ) میرے ذاتی نظریہ کے مطابق یہ درست نہیں ہے ۔چونکہ یہ نظریہ اپنی دلیل میں کوئی منطقی جواز نہیں رکھتا ۔اس لئے کہ علمائے ادب نے حضور سے متعلق منثور موضوعات کو نعت کے زمرے میں نہیں رکھا ہے۔ محض ’’نعت ‘‘کےانھیں موضوعات کو نعت کا جز قرار دیا گیا ہے ،جو نظم کی صورت میںبیان کئے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں معروف دانشور علی جواد زیدی نے بھی اس کی تردید فرمائی ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’نعت کا اطلاق صرف شاعری پر کیا گیا ہے اور نثر میں سیرت و اکتسابات نبوی کے بارے میں جو لکھا گیا ہے اور نبی اکرم ؐ کے جو  اوصاف و محامد بیان ہوئے ہیں وہ سیرت و تاریخ کہلائے نعت نہیں۔‘
  (نعت خیر المرسلین نمبر اگست ۱۹۹۴ ص۶)
ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ نے بھی اس نظریہ کی تردید کی ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ نعت اس کلام منظوم کو کہتے ہیں ،جو حضور انور محمد رسول اللہ کی شان اقدس میں زیب قرطاس ہو۔‘‘
    (اردو کی نعتیہ شاعری ،ص ۶ دانش اکیڈمی آرا بہار۱۹۷۴ )
نعت کے اسی اصطلاحی مفہوم کے ضمن میں ممتاز حسین کا یہ اقتباس لفظ ’’نعت‘‘ کی عمومی تفہیم میں مزید اہمیت کا حامل ہے اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ میرے نزدیک ہر وہ شعر نعت ہے جس کا تاثر ہمیں حضور ؐ کی ذات گرامی سے قریب لائے جس میں حضور کی مدح ہو یا حضور سے خطاب کیا جائے ، صحیح معنوں میں وہ نعت  ہے ۔‘‘
(ممتاز حسین ’’خیر البشر کے حضور میں‘‘ ص ۱۵)
لفظ ’’نعت ‘‘ سے متعلق علی جواد زیدی کایہ ادبی و تاریخی تجزیہ بھی ’’نعت‘‘ کی لفظی و معنوی توضیح و تشریح میں بہت اہمیت رکھتا ہے اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ نعت کی اصطلاح لغت عربی سے ماخوذ ضرور ہے ،لیکن وہاں کافی دنوں کے بعد یہ ایک صنف کی حیثیت سے اُبھری۔شروع میں یہ حماسی قصائد کی ایک شاخ ہی تھی۔ ابتداًفضائل ، مناقب ، مدح اور نعت کا استعمال کسی تفریق کے بغیر ہوتا رہا ، احادیث کے مجموعوں بلکہ ’صحاح‘ تک میں فضائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’کتاب الفضائل‘‘ (صحیح مسلم ، اور قریش کے فضائل ’’کتاب المناقب القریش‘‘ (صحیح بخاری کے تحت درج ملتے ہیں ۔ عربی میں کافی دنوں تک ’’نعت ‘‘ کا استعمال کئی طریقوں سے جاری رہا ۔لیکن آہستہ آہستہ ــ’’منقبت ‘‘ کا اطلاق مدح اہلبیت ؑ اور مدح صحابۂ کبار بلکہ مدح اولیا تک کے لئے ہونے لگا اور نعت مدح رسول ؐ سے مختص ہوگئی ۔ اس اختصاص کی وجہ سے اس دائرے کی حد بندی علمائے نقد و ادب کے ہاتھوں سے نکل کر فقیہوں بلکہ عام واعظوں اور مبلغوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔‘‘
(نعت خیر المرسلین نمبر اگست ۱۹۹۴ ء)
یہ اقتباس لفظ ’’نعت‘‘ کے معنوی اختصاص پر بھر پور روشنی ڈالتا ہے ۔لیکن اسلامی ادبیات میں’’ نعت‘‘ کا سب سے پہلا تصرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا ہے۔جس کا تذکرہ (جامع ترمذی ص ۵۶۷)میں کیا گیا ہے۔
’’شمائل ترمذی‘‘ میں بھی یہ روایت کچھ اس انداز سے نقل ہوئی ہے ،کہ حضرت علی علیہ السلام نے مدح نبوی میں سب سے پہلے ’’نعت ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا۔
’’مَن رَاہ بدیھۃ حصابہ و من خالطہ معرفہ ، احبہ یقول ناعتہ لم ارا قبلہ ولابعدہ مثالہ۔‘‘
’’جس شخص کی نظر آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم ) پر یکبارگی پڑتی وہ ہیبت کھا تا ہے، جو آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )سے زیادہ ملاقات کرتا رہتا وہ آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )سے محبت کرنے لگتا، اور ’’ناعت‘‘یعنی (نعت کہنے والا) یہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس نے آپ  (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )کے مثل نہ اس سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ بعد میں۔‘‘
(جامع ترمذی ص ۵۶۷)
اس قول کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ و علیہ والہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے لئے ’’واصف‘‘ کے بجائے ’’ناعت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ’’ناعت ‘‘ عربی کا لفظ ہے اور یہ فاعل کا صیغہ ہے ۔جس کے معنی ہیں ’’نعت کہنے والا حضرت علیؑ کا‘‘ لفظ’’ واصف‘‘ کے مقابل لفظ ’’ناعت‘‘کا توضیحی استراد ،اصل میں یہ ایک ادبی و منطقی پیش رفت تھی، عربی اصناف سخن میں نعت جیسی صنف سخن کی ظہوپذیریت کی طرف۔ ورنہ عربی میں اس کے مرادف ’’مدح‘‘ کا لفظ عمومی طور سے مستعمل ہے۔ جس کا اطلاق نثر او ر نظم دونوں پر ہوتا ہے۔ انبیاء کرام، اولیا اللہ،خاصان خدا اور عام انسان کی تعریف و توصیف بھی اس ضمن میں آتی ہے۔لیکن ’’نعت‘‘ مدح و ستائش کی انفرادی شکل ہے۔اور اس کےلغوی اور اصطلاحی تصرفات کا لسانی و ادبی جواز محض نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔اس سے ہٹ کر نعت کی کوئی ادبی و لسانی حیثیت نہیں ہے۔
نعت کے بنیادی ماخذ
دنیا کی ہر تخلیق کا ایک نقطہ مستقر ہوتا ہے۔جہاں سے وہ اپنے ارتقائی سفر کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنے تمام تشکیلی مراحل سے گزر کر ایک نئی شکل و صورت کے ساتھ نمو پذیر ہوتی ہے۔کم و بیش یہی صورت زبان وادب کی بھی ہے۔ہر اصناف سخن کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے ۔چاہے وہ غزل ہو مثنوی  واسوخت،،رباعی، قصیدہ، مرثیہ ،نوحہ یا نعت ہو،ان کے اپنے اپنے مخصوص موضوعات ہیں،اور ان تمام اصناف سخن میں وقت اور حالات کے ساتھ اسلوبیاتی و موضوعاتی سطح پر ضمنی طور پر توسیع و تغیر ہوتا رہتاہے ۔لیکن اس کے بنیاد ی ماخذ میں ترمیم و تنسیخ نہیں واقع ہوتی ۔اگر ان اصناف سخن کے بنیادی ماخذ میں ترمیم وتنسیخ کا عمل شروع ہوجائے ،تو اس اصناف سخن کی اصلی حالت بدل جائے گی مثلا اگر غزل کے بنیادی ماخذمیں تنسیخ واقع ہوجائے ،تو ہوسکتا ہے ۔غزل محض غزل نہ ہوکر کوئی اوردوسری صنف سخن کی شکل اختیار کر لے اور قصیدہ قصیدہ نہ ہوکر مرثیہ ہوجائے ۔ لہذا یہ ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح سے نعت کا بنیادی ماخذ قرآنی آیات و احادیث اور روایات ہیں ۔جہاں سے نعت اپنے موضوعات کا اکتساب کرتی ہے، اور ان موضوعات کا تعلق براہ راست حضور گرامی قدر کی ذات بابرکت سے انسلاک رکھتا ہے ۔لہذا ایک شاعر کے لئے حضور کی ذات والا صفات سے عشق اوراس کا عرفان ہونا ضروری ہے۔ ورنہ عشق کے بغیر یہ نعت گوئی اُس موذن کے اذان کی طرح ہے ۔جس کا دل اسرار اُلوہیت کے سرمدی ساز اور روح بلالی کے ابدی سوزسے محروم ہو۔
’’نعت ‘‘ ایک مشکل صنف سخن ضرور ہے لیکن ایک شاعر کے لئے نعت کہنا اس سے مشکل ترین امرہے۔
نعت سے متعلق پروفیسر سید رفیع الدین اشفاق کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’ ۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع(نعت) ایسا نہیں جس پر ہر کس و ناکس تخیل اندازی اور خامہ فرسائی کر سکے ۔ اس راستے میں شاعر کو جگہ جگہ رکاوٹیں پیش آتی ہیں ۔ایک تو موضوع اک احترام شاعر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ نپے تلے الفاظ ، حسن خطاب اور حسن بیان کے ساتھ عقیدے کی تفصیلات اور باریکیوں کو صحت کے ساتھ لے کر چلے اور قدم قدم پر اس کا لحاظ کرے کہ تخیل کی پرواز کہیں ان مقامات تک نہ پہنچا دے جن سے صادق البیانی پر حرف آئے اور نتیجۃً نعت ، نعت نہ رہے ۔۔۔۔‘‘
(اردومیں نعتیہ شاعری  ص ۵۴مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ کراچی)
چونکہ نعت گوئی وارفتگی عشق کا نام ہے اور عشق تجلیات پروردگار کا ایک ایسا مظہر ہے جو حقیقت محمدؐ کی شکل میں مجسم ہوتا ہے،اور حقیقت محمد ؐ ہی اس کائنات کا تخلیقی جواز ہے ۔جس کے بغیر وجود و عدم کا تصور لایعنی ہے۔ اس کی تائید و توثیق میں قرآن مجید میں کثرت سے آیات وارد ہوئی ہیں۔قرآن مجید میں خالق موجودات نے اپنے برگزیدہ بندے محمد ؐ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائی ہے ۔محمد ٔ کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے، جسے پروردگار عالم نے تشنہ مفہوم رکھا ہو۔جناب رسول خدا کی تمام انبیائے ماسلف پر فوقیت و برتری،تمام موجودات عالم پر آپ کا تصرف و قدرت ،آپ کا اسوہ حسنہ ،اللہ جل شانہ سے آپ کا تقرب ،محبوبیت ، عبدیت اور رسالت جیسے منصب جلیل پر فائز ہونااوراللہ تعالی کاتمام موجودات عالم پر اپنے حبیب کی محبت کو فرض قرار دینا وغیرہ۔
اللہ جل شانہٗ نے جس طرح قرآن مجید میں اپنے مقرب ترین محبوب کی مدح سرائی فرمائی ہے، ایسی مدح وستائش انسانی قوت فکر اور اس کی ذہنی وسعت سے کہیں بالاتر ہے۔آپ  اللہ جل شانہٗ کی نعت گوئی کا انداز ملاحظہ کریں۔جب پرور دگا عالم نے اپنے حبیب کے بچپن کی زندگی دیکھی تو "سورة الضحى" میں ارشاد فرمایا۔
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾
’’(اے میرے حبیب)جب میں نے تمہیں یتیم دیکھا تو کیا میں نے تمہیں(رسول اللہ صلی اللہ  علیہ والہ وسلم)پناہ نہیں دی۔‘‘
اور جب اپنے محبوب کی تنگدستی دیکھی،تو اس قادر مطلق نے ارشاد فرمایا کہ۔
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾
’’(اے میرے محبوب )جب میں نے تمہیں نادار پایا تو کیا میں نے تمہیں مالدار نہیں بنایا۔‘‘
(اس آیت کی تفسیر ضرور پڑھیں کہ اللہ تعالی نے کس وسلیے سے اپنے حبیب کی مالی طور سے امداد فرمائی)اسی سورہ میں اللہ تعالی آگے براہ راست اپنے حبیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرما رہا ہے کہ۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ﴿٥﴾
’’اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔‘‘
اس آیت میں کتنی نرالی شان سے اللہ اپنے محبوب بندے کی نازبرداری کررہا ہے ۔کہ میں تمہیں اتنا عطا کرونگا کہ تم مجھ سے راضی ہوجاوگے۔اب اس سے بڑا اعزاز ایک بندے کے لئے کیا ہوگا کہ اُس کا رب خود اس کے رضا کا اتنا خیال رکھتا ہو،اور یہاں تک کہہ دے کہ میں تمہیں اتنا عزو شرف بزرگی و بلندی کرامت و عظمت سے نوازونگا، اس سےبڑھ کر نعت اور کیا ہوسکتی ہے۔اوریہاں تک جس شہرمیں اپنے حبیب کو رہائش پذیر دیکھا اس شہر کے لئے ارشادفرمایا۔
لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١﴾ وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾
’’میں (اللہ )قسم کھاتا ہوں اس شہر کی جس شہر میں تُو(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم )رہتا ہے۔‘‘
اور جب اُس (اللہ تعالی)نے اپنے محبوب کو سفر میں دیکھا تو ارشاد فرمایا۔
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ﴿٧﴾
جب اپنے حبیب کے حسن عمل کو دیکھا تو ارشاد فرمایا ۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
’’بیشک تمہارا حسن عمل لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔‘‘
جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کے اخلاق کریمانہ کو دیکھا تھا فرمایا۔
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾
’’بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہو۔‘‘
جب خداے کریم نے آپ(رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو اُس نے ارشاد فرمایا۔
وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾
’’سورج اوراس کی دھوپ کی قسم‘‘
کیا خوبصورت تمثیل پیش کی ہے سورج اور دھوپ کے استعمال سے خداوند کریم نے یعنی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے چہرے کا نور ایسا روشن اور تابناک ہے جس پر کسی کی نگاہ نہیں ٹھہر سکتی ۔
اور جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کی زلفوں کو دیکھا تو ارشاد فرمایا۔
وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿٤﴾
’’اور رات کی قسم جب وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری حسن کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ خدا نے ان کے چہرے کی تشبیہہ سورج سے دی اور ان کی زلفوں کی تعریف اس سیاہ رات سے کی جو سورج کو بھی اپنے دامن میں پوشیدہ کر لیتی ہے ۔
جب خدا نے اپنی محبوب کی زبان کو دیکھا تو اس سے صادر ہونے والے کلمات کی تائید و توثیق اس آیت کے ذریعہ فرما دی۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
’’وہ اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتا جب تک کہ اُس پر وحی نازل نہیں ہوتی۔‘‘
جب خدا نے اپنے بندے اور محبوب کے قلب مطہر کو دیکھا تو اُس نے ان کے قلب مطہر کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿١﴾
’’اے مرے (نبیؐ) کیا میں نے تمہارا شرح صدر نہیں فرمایا۔‘‘
جب اُس (اللہ تعالی) نے اپنے حبیب کی پشت نبوت پسند کو دیکھا توقرآن شریف میں ارشاد فرمایا کہ ۔
وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ﴿٢﴾ 
’’اور میں نے تمہاری پشت کوسبک بار کردیا۔‘‘
’’جب خدائے عظیم نے اپنے محبوب نبی کے دست حقیقت پسند کو دیکھا تو اُس نے ان کے ہاتھ کی تعریف کرتے ہوئےارشاد فرمایا۔
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ ۚ
’’اے میرے محبوب تم نے جو تیر پھینکا  ہے تم نے نہیں بلکہ اُسے میں نے پھینکا۔‘‘
جب خدا نے اپنے محبوب کی عبا اور قباکو دیکھا تو اس کی تعریف میں ارشاد فرمایا۔
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾
’’اے میرے کملی پہننے والےاور عبا اوڑھنے والے‘‘
جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کے گھر کو دیکھا تو ارشاد فرمایا۔
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ
’’(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ۔‘‘
اللہ تعالی جلہ شانہ نے جب اپنے حبیب کے اہل بیت کو دیکھا تو فرمایا کہ۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾
’’بیشک اللہ تعالی نے اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے تمام رجس و کثافت سے دور رکھا ہے جیسا کہ دور رکھنے کا حق ہے۔‘‘
جب اُ س نے اپنے حبیب کی رحمت و رافت و محبت کو اپنے بندوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ کو دیکھا تو اُس(اللہ تعالی)نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے عمل کو پوری کائنات انسانیت کے لئے اتباع کا حکم دیتے ہوے ارشاد فرمایا۔
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ
’’ جس نے رسول کی اطاعت (حکم مانا)کی بیشک اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اس آیت کا کلیدی مفہوم اللہ کی تمام عبادت اور حکم کا مرجع اطاعت رسول خدا کی ذات بابرکت ہے ۔گویا اُس کے رسول کے حکم عدولی اللہ کے حکم کی نافرمانی  کے مترادف ہے۔جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کی پوری زندگی کے ہر پہلو کو روشن اور پوری انسانیت کے لئے ایک مثالی زندگی دیکھی تو اُ س نے سارے عالم کو خطاب کرتے ہوئے قرآن شریف میں بڑے واضح اور وشگاف لہجہ میں ارشاد فرمادیا کہ ۔
’’قُل ان کنتم تُحبّون َ اللہ فَاتّبعونی یُحببکم اللہ ۔‘‘
’’ اے رسول کہدیجئے کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرااتباع کرو اور اگر تم ایسے کروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول کی برگزیدگی اور محبوبیت کا اتنا پاس رکھا ہے کہ اس نے اپنے محبت کی بنیاد جناب رسول خدا کی محبت پر رکھی اس شرط کے ساتھ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے تو تم میرے رسول سے محبت کرو ،یعنی اگر کوئی شخص محض اللہ کی محبت کا دعویٰ دار ہو اور وہ جناب رسول خدا سے محبت نہ کرتا ہو تو وہ اللہ کا محبوب بندہ نہیں ہوسکتا ۔ اللہ جل شانہ نے جب اپنے حبیب میں اپنی رحمت و لطف وکرم کے حسن مجسم کو دیکھا تو اُس نے براہ راست ارشاد فرمایا کہ۔
’’وَمَا اَرسلنا ک اِلّا رحمۃًللّعالمین۔‘‘ (سورہ انبیا :۸۷)
(اور ہم نے تمام عالمین کے لئے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔)
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾
"اے میرے نبی ؐمیں نے تمہیں گواہ ، خوشخبری دینے والااور لوگوں کو (اللہ تعالی) کے عذاب سے ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے۔‘‘
جب خدائے عظیم نے اپنے محبوب ترین بندے سے ملاقات کا ارداہ ہوا تو اُس(اللہ تعالی)نے خود اسے فرش زمین سے عرشی معلی پر بلایا اور اپنے محبوب سے باتیں کیں ، جس کا تذکرہ بڑے فخر سے اللہ تعالی نے خود فرمایا۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الـْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾
’’بابرکت اورپاکیزہ ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد قصیٰ کی سیرکرائی تاکہ وہ اپنے (محبوب) کو اپنی نشانیاں دکھائے،اس لئے کہ اللہ تعالی سمیع اور بصیر ہے، یعنی دیکھنے اور سننے والاہے۔‘‘
جب اللہ تعالی نے اپنے نبی رحمت کی زندگی کے معمولات، ان کےحسن کرم ا ور اخلاق کا مشاہدہ کیا اوران کی بزم میں کچھ بیٹھنے والوں کو دیکھا کہ وہ نبی سے طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور ان لوگوں کا انداز تخاطب نبی کریم کے شایان نہیں ہے تو اس کریم خدا نے یہ آیت نازل فرما دی کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٢﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہیں۔‘‘
وہ شخصیت کتنی عظمتوں ،برکتوں ،اعلی مدارج کی حامل ہوگی جس کا ذاکر خود اللہ تعالی ہو
جو خالق کون ومکاں اور عالمین کا پیدا کرنے والاہے ۔وہ اپنے محبوب کا تذکرہ کتنی جلالت وتمکنت و بے نیازی کے ساتھ کررہا ہے،اگر ساری دنیا مل کر اب اس کی محبوب کا ذاکر ہوجائے تو اللہ کا اپنے محبوب کی شان میں کی جانے والی ایک آیت کا بھی حق نہیں ادا کرسکتا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے مومن بندوں کو اپنے محبوب کے ذاکروں میں شامل کرنے کے لئے ارشاد فرمادیا کہ۔
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾
’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو ۔‘‘
مزید آیات اور احادیث و روایات کا ذکر انشااللہ مزید تفصیل کیا جائے گا۔
جناب رسول خدا کی عظمت و جلالت اور ان کے اخلاق و کردار کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ۔ قرآن نے صبح قیامت تک آنے والی نسل آدمیت کو احترام محمد مصطفی ؐ کے الہیٰ آئین کا درس دیا ہے ۔یہاں تک ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے گفتگو کرنے کا سلیقہ اور ان کی بزم میں نشست وبرخواست کے ادب بھی بتا دیئے ہیں۔ اسلامی نصائص کی بنیاد پر نعت نگاری کے مبادیاتی اصول انھیں ضوابط پر استوارکئے گئے ہیں۔ لہذا اس محترم صنف سے ارادتمندانہ نسبت رکھنے والے اور نعت گو شعرا کے لئے نعت گوئی کے اداب کا رمزشناس ہونا جتنا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کہ وہ اس کی تاریخ سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔
بعض علمائے ادب نے ایک مخصوص رجحان اور نظریہ کے تحت نعت کی اجتہادانہ تقسیم بندی کی ہے ۔جس کی اقتدا کرتے ہوئے  پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے نعت گوئی کی قسمیں بیان کی ہے۔ان کے مطابق نعت کی تین قسمیں ہیں۔
”(۱) ایک وہ نعت جو عقیدۃً یا تبرکا اور رسماً برائے نام لکھی گئی ۔
(۲) دوسری مقصدی نعت جو شعرانے مستقلاً لکھیں۔
(۳) تیسری قسم کو اصلاحی نعت قرار دیں گے جو در اصل مقصدی نعت ہی کی ایک قسم ہے۔‘‘
(اردو میں نعتیہ شاعری ص ۶۰)
صاحب تصنیف نے ان اقسام کی تشریح اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کی ہے۔میرے نزدیک نعت کی یہ اجتماعی تقسیم غیر منطقی ہے ۔اس لئے کہ یہ تقسیم نعت کے مکمل موضوعات پر بسیط نہیں ہے ۔بلکہ یہ جزوی موضوعات کی مشروط کیفیت کی عکاسی کرتی ہے ،جو نعت کے فطری اظہار بیان کے منافی ہے۔ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو عقیدہ و مقصد چاہے وہ اصلاحی صورت میں ہو یا رسمی طور پر ہر نعت گو شاعر اپنے اظہار بیان میںشعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا پاس و لحاظ حتماً کرتا ہے۔ لہذا یہ تقسیم مقتضایات نعت کے مکتفی نہیں ہے۔ لیکن عرب کے کچھ ناقدین مثلاً ابن عربی وغیرہ نے صنف نعت کی قسمیں ضرور بیان کی ہیں ۔ جس سے کچھ مفکرین اتفاق بھی رکھتے ہیں ۔
نعت کی دوقسمیں ہیں۔
(۱) ’’نعت مطلق‘‘
(۲) ’’نعت سُو‘‘
’’نعت مطلق‘‘ اس نعت کو کہتے ہیں جس میں شاعر نعت کے اختصاصی موضوعات کا اظہار اس کے متعین حدود میں رہ کے اس کے تمام فنی و ادبی محاسن کے ساتھ کرے۔جس میں ممدوح کی ہتک حرمت کا شائبہ نہ پائے جائے۔اسے نعت مطلق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’’نعت سُو‘‘ اس نعت کو کہتے ہیں جس میں نعت کے اختصاصی موضوعات کے اظہار بیان میں ممدوح کے احترام کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے ، اسے ’’نعت سُو‘‘ کہتے ہیں۔
اسی طرح سے علمائے عجم نے بھی نعت کی ادبی و مذہبی افادیت کی بنیادپر نعت کے اساسی موضوعات کی تقسیم دو طرح سے کی ہے۔
(۱)  اس تقسیم کے پہلے زمرے میںحضور گرامی قدر کی دنیا میں آمد سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ جس کا ذکر کتب سماوی میں کیا گیا ہے ، آپ کے آمد کی وہ بشارتیں اور آتیں جس کے بارے میں انبیائِ ما سلف نے اپنی اپنی امتوں کو دی تھیں،آپ کے نور کا صلب عبداللہ میں منتقل ہونے والے آثار و بیانات کا ذکرآپ کی نسبی افضلیت آپ کے آ باو اجداد کی علمی و روحانی فیض رسانی کے واقعات ،آپ کا سبب خلقت کائنا ت ہونا ، آپ کے خلق عظیم و رحمت و رافت کا ذکر آپ کے مبعوث بر رسالت ،خاتم النبین اور رحمۃ اللعالمین کا ذکر وغیرہ کو پہلے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
(۲) اس کے دوسرے حصے میں آپ کے ظہور کے وقت اس دنیا مین رونما ہونے والے معجزات اور،آپ کے بچپن سے متعلق ظہور کرنے والےحیرت انگیز واقعات کا بیان ،مکہ میں دین اسلام کی تبلیغ اس کی راہ میں پیش آنے والی زحمتیں ،اور آپ پر کفا ر مشرکین کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ ،اعلائے کلمۃ الحق کی جزا کے طور پر آپ کا سماجی بایئکاٹ ،معجزؤ شق القمر ، رجعت الشمس ،سنگریزوں کا آپ کے ہاتھوں پر کلمہ پڑھنا ، حیوان و نباتات و جمادات کا آپ کے حضور سجدہ تعظیمی کرنا واقعہ معراج کا بیان،دعوت ذوالعشیرہ کا اہتمام آپ کی زندگی میں ہونے والے غزوات ( جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ وغیرہ)بنی نوع انسان پر آپ کے احسانات ، آپ کی امانت داری ، دیانتداری ، صداقت بیانی، عدالت ، شجاعت ، نجابت ، سخاوت ، شرافت ، اخوت، محبت ، جو د وبخشش اور علم و حلم کا تذکرہ ،آپ کی خدمات ،خطبات ، فرمودات، ارشادات اور نزول قران کا ذکر ، اور اس کے ساتھ آپ کے حلیہ مبارک اور آپ کا طرز معاشرت اٹھنے بیٹھنے کا انداز گفتگو کرنے کا سلیقہ اور آپ کی جامہ زیبی خوش قامتی ،حسن وجمال ، سراپا نگاری علم لدنی انبیاء ماسلف سے تقابل و تماثل ، اماکن و مساکن ،اور خواص اسم محمد کے ساتھ تذکرہ درو دو سلام جیسے موضوعات کو رکھا گیا ہے۔
اور بیشتر علمائے ادب نے ان دو موضوعاتی تقسیم کے ضمنی موضوع کے طور پر حضور اکرم سے امید شفاعت ، استغاثہ و مناجات جیسے موضوعات کا بھی ذکر کیا ہے۔
اگر اس ضمن میں نعت کی ہیت کی بات کی جائے تونعت گوئی کے لئے کسی خاص ہیت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔شعرائے متقدمین جدیدیت و مابعد جدیت کے تمام نعت گوشعرا نے مختلف فارم میں نعتیں کہیں ہیں ۔جس کا تذکرہ اس کے آگے تفصیل سے کیا جائے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدحتِ مصطفٰے ﷺ کے متنی تقاضے !
ڈاکٹر عزیزؔ احسن
میں کسی نعت کو اسلوبیاتی اور متنی دونوں سطحوں پر پرکھنے کے بعد نعتیہ ادب کا حصہ تسلیم کرنے کا قائل ہوں۔اسلوبیاتی سے میری مراد حسنِ اظہار اور متنی (Textual) سے مراد شاعری کا مافیہ یا Content ہے۔  یہی وجہ ہے کہ نعتیہ شاعری کی بوطیقا (Poetics) اسی حوالے سے زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ نعت میں شعری جمالیات کے تو وہی پیمانے ہوتے ہیں جو عام شاعری کو قابلِ قبول بناتے ہیں لیکن متنی تقاضے (Textual Requisites)  قرآن و حدیث کی روشنی میں طے ہوتے ہیں۔قرآنِ کریم کا اسلوب اور احادیث کی جامعیت سے حسنِ اظہار بھی سیکھا جاسکتا ہے۔  آج مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں نعتیہ شعریات کے باب میں کچھ عرض کرنا ہے۔  لیکن پہلے یہ جان لیں کہ شاعر کے بارے میں حکما کی کیا رائے ہے:
مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:
’’یونانی زبان میں شاعر کو POET یعنی صانع اور خالق کہتے تھے۔اور اہل روما شاعر اور نبی یعنی غیب کی خبر دینے والے کے لیے ایک ہی لفظ VATES  استعمال کرتے تھے۔عربی، فارسی اور اردو میں شاعر کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے اصل معنی ،باخبر اور ادراک کرنے والے کے ہیں‘‘۔(۱)
ہماری شعری روایت میںشعراء کو تلامیذالرحمٰن کہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ شاعری کی صلاحیت ،بڑی انوکھی اور خاص خاص لوگوں کے حصے میں آنے والی صلاحیت ہے۔باخبر اور ادراک  کرنے والے اشخاص یقینا کچھ خاص لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں انھیں شعر گوئی کی صلاحیت پانے یا عطا کیے جانے کے مقاصدسے آگاہ ہونے کے ساتھ اس صلاحیت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے رموز سیکھنے چاہئیں ۔ 
اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو کوئی صلاحیت بے وجہ عطا نہیں ہوئی۔ شعر گوئی کی صلاحیت بھی بلا جواز نہیں ملی ہے۔ اس لیے شاعری بھی اپنے وجود کے لیے جواز چاہتی ہے۔اس جواز کی تفصیل جاننے کے لیے ہمیں  خالق ِ انسان سے انسان کا مقصدِ تخلیق دریافت کرنا ہوگا ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
’’[ترجمہ]اور نہیں پیدا کیا  ہے میں نے جن و انس کو مگر محض اس غرض سے کہ میری عبادت کریں۔ (۲)
تفسیرِ مظہری میں قاصی ثنا ء اللہ پانی پتی نے لکھا ہے :
’’حضرت علیؓ  نے آیت کا تفسیری ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا، مگر صرف اس لیے کہ ان کو اپنی عبادت کا حکم دوں۔یعنی اپنے احکامات کا مکلف بناؤں۔اسی مفہوم کو دوسری آیت میں بیان کیا ہے اور فرمایا ہے‘ یعنی ان کو صرف ایک معبود کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔(۳)
تفسیرِ مظہری میں اس آیت کی تشریح  کے سلسلے میں ایک حدیث بھی لکھی ہے:
’’حدیث مبارک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
  ’’کُلٌّ مُّیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ ‘‘
ہر ایک کے لیے وہ کام آسان کردیا جاتا ہے (یعنی اس کام کی توفیق دی جاتی ہے) جس کے لیے اس کو پیدا کیاگیا ہے‘‘۔(۴)
ابوالا علیٰ مودودی نے بھی تفہیم میں، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے…اس کا پورا مفہوم یہ ہے جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش ، اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں‘‘۔(۵)
قرآن کی درجِ بالا آیت اور تفسیری حاشیوں کے مطالعے سے درجِ ذیل نکات اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ:
عبادت، صرف روزہ نماز، حج،زکوٰۃ ہی کا نام نہیں  بلکہ انسان(اور جن )کی پوری زندگی عبادت ہے۔ اس لیے انسان (اور جن) سے شعوری طور پر اپنی صلاحیتوں کا ایسا استعمال مطلوب ہے جو خالق کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔با ایں ہمہ انسان سے اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کا مطالبہ بھی جبر پر مبنی نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمادیا ہے:
’’ [ترجمہ] بے شک ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے تاکہ امتحان لیں اس کا اس لیے بنایا ہے ہم نے اسے سننے والا ، دیکھنے والا[۲]ہم نے دکھا دیا ہے اسے راستہ اب چاہے (بن جائے)شکر کرنے والا یا کفر کرنے والا(۶)۔
یہی بات بڑے واضح انداز میں سورۂ الکھف میں بھی فرمادی گئی ہے:
’’[ترجمہ]اور کہہ دیجیے کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘( ۷)۔
منشائے تخلیقِ انسانی،مقصدِ زندگی اور ایمان یا کفر کے اختیار کرنے کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے فرمادیا کہ موت اور زندگی اس بات کی آزمائش ہے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے:   
’’[ترجمہ]وہ  ذات جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کوتاکہ آزمائش کرے تمہاری کہ کون تم میں سے زیادہ اچھا ہے عمل میں۔(۸)
اب آئیے شاعر اور شاعری کی طرف۔شاعر انسان ہے اس لیے اسے زندگی میں خسران سے بچنے کا نسخہ پہلے جاننا چاہیے جو سورۂ العصر میں واضح کردیا گیا ہے:
’’[ترجمہ]قسم ہے زمانے کی[۱] یقینا، انسان خسارے میں ہے[۲] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور کرتے رہے نیک عمل اور نصیحت کرتے رہے ایک دوسرے کو صبر کی۔(۹)
سوہء العصر میںپوری نوع انسانی کو خسارے میں دکھایا گیا ہے  ۔ صرف چار کام کرنے والے مستثنیٰ ہیں…جو [۱]ایمان قبول کریں[۲]ایمان  اعمالِ صالحہ اختیار کریں[۳]حق یعنی دین کی طرف لوگوں کو بلائیں اور [۴]ایمان اور اعمالِ صالحہ کی زندگی بسر کرنے میں جو مشکلات پیش آئیں ان پر خود بھی صبر کریں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہیں۔
دراصل حق کی ترویج و اشاعت ہی مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے۔شاعر کو چوں کہ خصوصی صلاحیتوں سے نوازا جاتا ہے اس لیے اس پر حق کے پرچار کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔عہدِ رسالت مآب ﷺ میں عرب دنیا میں پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ شعر تھا۔اسی لیے حضورِ انور جناب رسالت مآب ﷺ نے شعراء کو دین کی اچھائیاں ظاہر کرنے اور مخالفین کے ذاتِ نبوی پر رکیک حملوں کے جواب کے لیے ابھارا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا…لیکن شاعری کے لیے بھی کچھ ضابطوں کی تعیین کی ضرورت تھی۔سو بالکل اسی طرح  شعراء کو بھی  خسارے سے بچنے کے اصول بتائے گئے جس طرح بنی نوعِ انسان کو بتائے تھے۔ سورۃ الشعراء میں،تقریباً اسی لہجے اور انہی الفاظ میں شعراء  سے خطاب فرمایا گیا :
’’[ترجمہ]اوررہے شعراء تو چلا کرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگO کیا نہیں دیکھتے ہو تم کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیںO اور بلا شبہ وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیںO مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل اور ذکر کیا اللہ کا کثرت سے اور بدلہ لیا انہوں نے اس کے بعد کہ زیادتی کی گئی ان پر اور عنقریب معلوم ہوجائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے زیادتی کی کہ کس انجام سے وہ دوچار ہوتے ہیں‘‘۔(۱۰)
سورۂ العصرمیں تمام بنی نوعِ انسان کوجس لہجے میں مخاطب کیا گیاتھا ،بعینہٖ اسی لہجے میں شعراء کی پوری برادری سے خطاب فرمایا گیا۔ شعراء کے پیچھے چلنے والے لوگ سب گمراہ ہیں اور شعراء بدرجہء اولیٰ گمراہ ہیں۔پھر ایسے شعراء کومستثنیٰ کیا گیا جو ایمان لا کر اعمالِ صالحہ کے عملی مظاہرے کریں۔ تاہم یہاں موقع کی مناسبت سے  جو تیسری شرط رکھی گئی وہ اللہ کے ذکر کی کثرت ہے۔ کیوں کہ شعراء اپنے کلام میں جس قدر بھی اللہ کا ذکر کریں گے، وہ دین کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ بنے گا۔(حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے  تفسیری حاشیے میں ’’وَذَکَرُ ا اللّٰہَ کَثِیْرًا‘‘ کی تشریح میں ’’فی الشعر‘‘ کے الفاظ ہی لکھے ہیں)۔(۱۱)۔
چوتھی شرط یہ لگائی کہ دنیائے کفر کی جانب سے جو  ہرزہ سرائی اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے کی جائے ، اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ابولاعلیٰ مودودی نے ظلم کے لیے بدلہ لینے کے ذکر سے مملو آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا‘‘ ۔ (۱۲)
اس سے ظاہر ہوا کہ بدلہ لیتے وقت بھی اعتدال کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، یہاں بھی مبالغہ آمیز جواب کی راہ مسدود کردی گئی ہے۔
سورۃ العصر اور سورۃ الشعراء کی چند آیات کی مماثلت اس بات کا  اشاریہ ہے کہ بنی نوعِ انسان کے لیے خسارے سے بچنے والا نسخہ ،شعراء  کے لیے خصوصی طور پر تجویز کیا گیا۔ تاہم یہ بھی بتادیا گیا کہ:   
’’[ترجمہ]اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی ﷺ کو  شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز‘ ‘…(۱۳)
نبی علیہ السلام کے لیے علمِ شعر کی نفی کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ کی ہر بات یقینی ہے جبکہ شعر میں تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے۔تخیل چاہے کتنا ہی راہِ راست پرکیوں نہ چلے ’’وحی‘‘ کے ذریعے عطا کیے جانے والے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔جو قطعیت اور یقین کی کیفیت،  وحی کے ذریعے عطا کیے جانے  والے علم میں ہوتی ہے وہ انسانی کوشش سے لکھی جانے والی کسی تحریر میں پیدا نہیں ہوسکتی۔اس کے باوجود وحیِ ربانی کے تحت حاصل ہونے والی ہدایت اور اتباعِ نبوی میں عمل کی راست سمتی ، جس کو بھی حاصل ہوجائے، وہ عام انسان بھی اللہ کا پسندیدہ بن جاتا ہے اور اگر وہ شاعر ہو تو اس کے مراتب اور بلند ہوجاتے ہیں۔ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ شعراء کے لیے اللہ کے نبی جناب رسالت مآب ﷺ سے تخاطب کا اسلوب اختیار کرنے کے حوالے سے قرآنِ کریم میں کیا احکامات ملتے ہیں؟۔۔۔اس ضمن میں ہمیں امت کے عام لوگوں کے لیے جو اصول قرآنِ کریم میں ملتے ہیں  انہی کا اطلاق شعراء پر بھی کرنا ہوگا ۔کیوں کہ شاعر پہلے رسول ﷺ کا امتی ہے اوربعد میں اپنے فنِ شعر کا مظاہرہ کرنے والانظم گوہے۔محمد اکرم اعوان نے ’’اسرارالتنزیل‘‘ میں بڑے پتے کی بات کی ہے ، وہ لکھتے ہیں:
’’شاعر محض خیالی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں جبکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نہ کرتے ہیں اور نہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔سوائے ان شاعروں کے جو ایمان سے مالامال ہوئے اور نیک ا عمال اپنائیں یعنی شعروں میں بھی نیکی ،اللہ کی تعریف اور رسول اللہ ﷺ کی نعت اور اطاعت کی بات کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں، قلبی،عملی اور زبانی ہر طرح سے کہ ان کا شعر بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے اور کفارکے مقابلہ میں ظلم کا جواب دینے کے لیے جنہوں نے شعر کہے یہ ان کا حق تھا کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا۔لہٰذا ٓپؐ کے متبع تو دنیا کے مثالی انسان ہیں‘‘۔(۱۴) 
مزید برآں حضورِ اکرم ﷺ سے مخاطب ہونے  کے آداب بھی اللہ تعالیٰ نے سکھادیے ہیں۔ ارشاد ہوا:
’’[ترجمہ]اے لوگو جو ایمان لائے ہو، راعنا نہ کہا کرو، بلکہ اُنْظُرْنَا  کہو، اور توجہ سے بات کو سنو!(۱۵)
ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم میں لکھا ہے:
’’جب آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھریے،ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ راعنا کہتے تھے۔اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے۔مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔مثلاً عبرانی میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے ’’سُن، تو بہرا ہوجائے‘‘۔اور خود عربی میں اس کے معنی صاحبِ رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سنو، تو ہم تمہاری سنیں۔اور ذرا زبان لچکا دے کر راعینا  بھی بنا لیاجاتا تھا، جس کے معنی ’’اے ہمارے چرواہے‘‘ کے تھے۔اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے انظرنا کہا کرو۔یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔پھر فرمایا کہ ’’توجہ سے بات کو سنو‘‘، یعنی یہودیوں کو تو باربار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی کی بات پر توجہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں الجھے رہتے ہیں، مگر تمہیں غور سے نبی کی باتیں سننی چاہئیںتاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘‘۔(۱۶)
یہاں اس بات کو ملحوظِ خاطررکھا جائے کہ مسلمان اور وہ بھی اصحاب رسول رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین، کبھی  اور کسی صورت میں بھی اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے ﷺ کے لیے کوئی ایسا لفظ نہیں بول سکتے تھے جس میں آپ ﷺ کی ذات کے لیے ذم کا پہلو نکلتا ہو۔راعنا، کے لفظ میں یقینا اچھے معنی بھی تھے یعنی ’’ہماری رعایت فرمائیے یا ہماری بات بھی سماعت فرمالیجیے‘‘ ۔اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت مسلمانوں کے دلوں کا حال بھی جانتا تھا کہ وہ لوگ اپنے نبی ﷺ کی توہین کا خیال تک دل میں نہیں لاسکتے تھے۔ایسی صورت میں صرف یہ حکم دینا شاید کافی ہوتا کہ یہودی اس لفظ ’’راعنا‘‘ میں ذم کے پہلو تلاش کرتے ہیں، اے ایمان والو! تم اس لفظ کے استعمال میں محتاط رہنا!…لیکن ایسا کرنے کے بجائے اس لفظ ہی کو اسلامی لغت سے خارج کردینے کا حکم آیا۔اس کے بجائے ’’انظرنا‘‘ کا لفظ رائج کیا گیا جو ہر طرح اچھے معانی کا حامل تھا۔
سورۂ البقرۃ کی درجِ بالاآیت میں آنے والی ممانعت سے ظاہر ہو ا کہ اللہ رب العزت کو اپنے رسول جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ سے کتنی محبت ہے!…اس موقع پر مجھے سورۃ الحجر کی ایک آیت یاد آرہی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کی قوم کی بد مستی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پیارے نبی حضور ختمی مرتبت ﷺ کو ’’قسم‘‘ کھا کر یہ واقعہ سنایا۔اور قسم بھی ’’حضورِ اکرم ﷺ‘‘ کی جان کی کھائی۔فرمایا:
’’[ترجمہ]قسم ہے تمہاری جان کی (اے نبیؐ) بے شک وہ اس وقت اپنی مستی میں اندھے ہورہے تھے‘‘۔(۱۷)
اسی حوالے سے غالبؔ نے شعر کہا تھا:
ہر کس قسم بد آنچہ عزیز است می خورد
سوگندِ کردگار بجانِ محمدؐ است
(ہر کوئی اس چیز کی قسم کھاتا ہے جو اسے عزیز ہوتی ہے،چناں چہ اللہ تعالیٰ ،محمد ﷺ کی جان کی قسم کھاتا ہے)(۱۸)
سورۃالحجرات کی ابتدائی آیات میں اللہ رب العزت نے  ایمان لانے والوں  سے خطاب فرمایا ہے اور انہیں اپنے نبی علیہ السلام کی جناب میں مُخَا طَبَتْ کے آداب بھی سکھائے ہیں:
’’[ترجمہ]اے لوگو! جو ایمان لائے ہونہ بلند کرو اپنی آوازیں اوپر نبی کی آواز کے اور نہ اونچی کرو اپنی آواز اس کے سامنے بات کرتے وقت جیسے اونچی آوازمیں بولتے ہو تم ایک دوسرے سے،کہیں ایسا نہ ہو کہ غارت ہوجائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر بھی نہ ہوO بلا شبہ وہ لوگ جو پست رکھتے ہیں اپنی آواز رسول اللہ کے حضور، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے تقویٰ کے لیے ان کے لیے ہے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے…  درحقیقت وہ لوگ جو پکارتے ہیں تمہیں حجروں کے باہر سے ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ (۱۹)
  پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
’’اس آیت طیبہ میں بھی بارگاہِ رسالت کے آداب کی تعلیم دی جارہی ہے…بتایا جارہا ہے کہ اگر تمہیں وہاں شرفِ باریابی نصیب ہو اور ہم کلامی کی سعادت سے بہرہ ور ہو تو یہ خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے۔جب حاضر ہو تو ادب و احترام کی تصویر بن کرحاضری دو۔اگر اس سلسلہ میں تم نے ذراسی غفلت برتی اور بے پروائی سے کام لیا تو سارے اعمالِ حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام اکارت ہوجائیں گے۔پہلی آیت میں بھی یا یھا الذین اٰمنوا سے خطاب ہو چکا تھا۔یہاں خطاب کی چنداں ضرورت نہ تھی ، لیکن معاملہ کی نزاکت اور اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ اہلِ ایمان کو یا یھاالذین اٰمنوا سے خطاب کیا۔انہیں جھنجھوڑا اور بتایا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔بلکہ اس پر زندگی بھر کی طاعتوں،نیکیوں اور حسنات کے مقبول و نامقبول ہونے کا انحصار ہے‘‘۔(۲۰)
حضورِ اکرم ﷺکی بارگاہ میں پہنچ کر اب بھی اپنی آواز پست رکھنے کا حکم برقرار ہے۔عام زندگی میں حکمِ قرآن اور حکم نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذراسی بھی سرتابی ، ایسی ہی  ناپسندیدہ ہے جیسے حضورِ اکرم ﷺ کی دنیا میں موجودگی کے وقت تھی۔چناں چہ یہ لازمی ہے کہ قرآن و حدیث کا واضح حکم پاکر کوئی مسلمان اپنی رائے نہ دے۔
شعراء کا ہرشعر مُخَاطَبَبَت کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ تو اپنے تصور میں کائنات کی صامت اشیاء سے بھی مخاطبت کے عادی ہوتے ہیں۔اپنے مجازی محبوب کو بھی اس کی غیر موجودگی میں موجود تصور کرکے ہی شاعری کرتے ہیں۔اس لیے حضور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ میں نعت لکھتے ہوئے ان کا یہ تصور کہ وہ خود بارگاہِ نبوی میں حاضر ہیں، بڑا قوی ہونا چاہیے۔ایسی صورت میں ان کا مخاطبہ ، اپنے آقا ﷺ سے کس نوعیت کا ہونا چاہیے اس کا انہیں ہر لفظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا پڑے گا۔’’نعت‘‘ نگاری کے لیے صلوٰۃ علی الّنَّبِیّ ﷺ کا حکم  بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے:
’’[ترجمہ]بلا شبہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر،اے لو گو جو ایمان لائے ہو درود بھیجو ان پر اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔(۲۱)
قرآن کریم کی درجِ بالا آیت سے قبل بھی ایک آیت میں ’’یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔سورۂ احزاب ہی کی آیت نمبر ۴۳ میں ارشاد ہوا:
’’[ترجمہ]وہی ہے جو رحمت فرماتا ہے تم پر اوراس کے فرشتے بھی (تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں)تاکہ نکال لائے تم کوتاریکیوں سے روشنی میں اور ہے وہ مومنوں پر بہت مہربان‘‘۔(۲۲)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے {ھوالذی یصلی علیکم}کے معانی لکھے ہیں ’’یغفرلکم‘‘ ، اور {وملائکتہ}کے معانی لکھے ہیں ’’یستغفرون لکم‘‘۔(۲۳)
قرآنِ کریم فرقانِ حمید کی زیرِ مطالعہ آیت کے تحت اگر ہم حضور علیہ السلام کی رفعتِ شان کے لیے آپ ﷺ کے ذکر کو بلند کرنے کا اعلانِ ربانی سامنے رکھیں تو بات اور واضح ، صاف ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘اور بلند کردیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر  (۲۴)
اس سورہ کے تفسیری حاشیے میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
’’پھرآیت آئی کہ کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند نہیں کیا اور اس کو شائع نہیں کیا، ہم نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے ناموں کو ملا کر اذان و اقامت و دعا و کلمۂ شہادت میں  ذکر نہیں کیا کہ جب ہماراذکر ہو تو آپ کا ذکر بھی ساتھ ہی ہو؟، حضور ﷺ نے اقرار کیا اور کہا : نعم[ہاں] ‘‘۔(۲۵)
اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی شہادت ہرزمانے میں ملتی رہی ہے۔اذان، اقامت، دعا و کلمہء شہادت کے علاوہ انسانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام قائم فرمایا کہ امت کا ہر فرد زیادہ سے زیادہ حضورِ اکرم ﷺ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہتا ہے۔شعراء کو تو خصوصی طور پر یہ وصف عطا ہوا ہے کہ آپ ﷺ کا ذکر محبت بھرے تخلیقی لہجے میں کرتے رہیں۔مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی حضور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃُ والتسلیم کی عظمت کے گن گاتے رہتے ہیں۔اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
علاوہ ازیں ،قرآنِ پاک میں فرمایاگیا:
’’[ترجمہ] اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو…یعنی اللہ کو جو بات نا پسند ہے، اس سے پرہیز کرو،ایذاء ِ رسول کا ؐ ذکر ہی کیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ نے سدیدًا کا ترجمہ کیا ہے ’’صحیح بات‘‘۔قتادہ نے کہا: انصاف کی بات۔بعض نے کہا:سیدھی بات۔کچھ لوگوں نے کہا:حق تک پہنچنے کا قصد رکھنے والی بات۔تمام اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے یعنی سچی بات جو قطعاً جھوٹ نہ ہو اور نہ اٹکل پر مبنی ہو۔کیوں کہ جھوٹ فنا ہوجاتا ہے اور سچ باقی رہتا ہے‘‘۔(۲۶)
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں خبر دی:
’’[ترجمہ]اور  ہم نے ان [داؤد ؑ]کے لیے  لوہے کو نرم کردیا تھا۔[لوہا آپ کے ہاتھ میں موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح ہوجاتا تھا۔جس طرح چاہتے ہاتھ سے پکڑ کر اس کو موڑ دیتے تھے]…[ہم نے ان کو حکم دیا] کہ ایسی کشادہ پوری لمبی زرہیں بناؤ جو زمین میں گھسٹتی چلیںاور [کڑیوں کے جوڑنے میں]اندازہ رکھو۔[سرد۔کھال کو سینا، مجازاً مراد ہے زرہ بننا، یعنی زرہ کی بناوٹ میں ایک خاص انداز رکھو،کڑیاں اور کیلیں خاص تناسب کے ساتھ بناؤ ۔نہ اتنی پتلی کہ پھٹ جائیں ،نہ اتنی موٹی کہ کڑیاں ٹوٹ جائیں]‘‘۔(۲۷)
یہاں اس بات کا احساس دلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو زرہ بنانا سکھایا تھا تو اس کام میں نفاست پیدا کرنے کی تعلیم بھی دی تھی۔پیر محمد کرم شاہ الازہری نے یہ نکتہ بیان کیا ہے:
’’جو کام کرو بڑے سلیقہ اور ہنر مندی سے کرو، جو چیز بناؤ اس میں پختگی اور نفاست دونوں کاپوراپورا خیال  رکھو۔بے دلی اور بے احتیاطی سے کوئی کام کرنا مسلمان کو زیبا نہیں‘‘۔(۲۸)
یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق میں کجی کو راہ نہیں دی ہے اس لیے وہ کسی سطح پر بھی کجی کو پسند نہیں فرماتا ہے۔
’’[ترجمہ]وہ ذات جس نے بنائے سات آسمان تہہ بہ تہہ نہ دیکھو گے تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی۔ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو بھلا نظر آتا ہے تم کو کوئی خلل؟O پھر دوڑاؤ نظر باربار پلٹ آئے گی تمہاری  طرف نگاہ تھک کر اور وہ نامراد ہوگی (خلل کی تلاش میں)(۲۹)
کلا م اللہ کی ان آیات سے شعراء اپنے کلام کوصداقت اور حسنِ اظہار سے آراستہ کرنے کا درس لے سکتے ہیں۔کیوں  کہ جب اللہ تعالیٰ زرہ جیسی مادی شے کے بنانے میں سلیقے اور معیار کو برقرار رکھنے کا حکم دے رہا ہے تو غیر مادی اور آفاقی قدروں کے ہنر ’’شاعری‘‘ میں نہ تو فکری کجی  پسند فرمائے گا اور نہ ہی بیان میں جھول کو سندِ قبول سے نوازے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو بھی جبلتاً گھونسلے بنا ناسکھایا ہے اور بعض پرندے بڑی نفاست سے اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔شاعر کو جو صلاحیتِ شعر گوئی ودیعت کی گئی ہے اور جو شعور عطا کیا گیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بھی اپنی تخلیق کو سنوارے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کی داد لینے کے لیے اس میں کجی کی نفی نہیں فرمائی ہے بلکہ انسان کو اپنی بے داغ تخلیقات کی طرف اس لیے متوجہ کیا ہے کہ وہ غوروفکرسے کام لے۔اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، اس لیے انسانی کوشش سے وجود میں آنے والی اشیاء اور لطیف تخلیقات میں بھی حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔
قرآنِ کریم کی آیات سے شعر و شاعری میں حزم و احتیاط کے جو اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں جنابِ رسالت  مآب ﷺ نے عملی طور پر ان کی نگہداری کا مظاہرہ فرماکر دنیائے اسلام میں شعرو شاعری کے آفاقی  تقاضوں کو نقش کا لحجر کردیاہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پسند اور ناپسندیدگی ظاہر فرما کر شعر کا معیار قائم فرمادیا۔یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب سورۂ شعراء کی محولہ بالا آیات نازل ہوئیں تو ان میں استثنائی آیات نہیں تھیں، اس پر عبداللہ بن رواحہؓ ، کعبؓ بن مالک اور حسانؓ بن ثابت حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوئے:
’’یا رسول اللہ! اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم شاعر ہیں،اب ہم تو غارت ہوگئے۔اس  پر اللہ نے آیت  ’’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا …نازل  فرمائی۔رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو طلب فرمایا اور یہ آیات پڑھ کر سنائیں‘‘۔(۳۰)
امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف میں کچھ احادیث ’’بَابُ الْبَیَانِ وَالشِّعْرِ‘‘(بیان اور شعر کا بیان) کے تحت جمع کی ہیں۔ کچھ  احادیث کا ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
۱۔’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض بیان سحر ہوتا ہے‘‘۔۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں۔۳۔ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہوگئے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔۴۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن شخص کفار کے ساتھ اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کفار کو شعر اس طرح مارتے ہو جس طرح تیر مارا جاتا ہے۔(روایت کیا اس کو شرح السنۃ میں)(۳۱)
درجِ بالااحادیث میں پہلی حدیث، بعض اشعار میں حکمت کے عنصر کی موجودگی ظاہر کرتی ہے۔اس حدیثِ مبارک کو اگر ہم قرآنِ کریم کی ایک آیت سے ملا کر پڑھیں تو بات اور روشن ہوجاتی ہے:
’’[ترجمہ]اور جسے مل گئی حکمت سو درحقیقت مل گئی اسے خیرِ کثیر‘‘۔ (۳۲)
حضورِ اکرم ہی نے ایک اور مقام پر فرمایا:
’’[ترجمہ]کلمہء حکمت تو مومن کی متاعِ گم شدہ ہے جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا بہتر حقدار ہے‘‘۔(۳۳)…اس سے ظاہر ہوا کہ حکمت کی باتیں غیر مسلموں کے ہاںبھی مل سکتی ہیں۔حکمت کی باتوں کی شعروں میں موجودگی کو جناب ِرسالت مآب محمد مصطفے ﷺ نے بھی سراہا ہے۔اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔بلوغ الارب میں لکھا ہے کہ عنترۃ بن شداد العبسی کے اشعار ، حضورِ اکرم نے سماعت فرماکر اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔عنترۃ بن شداد العبسی کے اشعار درجِ ذیل ہیں:
ترجمہ:’’اس نے جلدی سے مجھے موت سے ڈرایا جیسا کہ میں موت کے نشانے سے ہٹ کر ایک طرف ہوگیا ہوں۔میں نے اسے جواب دیا کہ موت تو ایک گھاٹ ہے (جہاں سب کو وارد ہونا ہے) مجھے بھی ضرور اس گھاٹ کا پیالہ پلایا جائے گا۔تمھارا باپ مرے۔حیا کرو اور یہ جان لو کہ اگر میں قتل نہ بھی ہوا تو جب بھی عنقریب مرجاؤںگا‘‘ ۔
اور جب اس کا یہ شعر پڑھا گیا :
ترجمہ:’’میں دن بھر بھوکوں گزار لیتاہوں اور رات بھی،کھاتا اس وقت ہوں جب عزت کی روٹی ملے‘‘۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کوئی بدوی نہیں ہے جس کے اوصاف میرے سامنے  بیان کیے گئے ہوں اور مجھے اس کے دیکھنے کی خواہش ہوئی ہو،سوا عنترۃ کے‘‘(۳۴)
عنترۃ کے آخری شعر میں حلال رزق اور عزت کی روٹی کمانے کی طرف جو اشارہ ہے وہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے اس لیے حضورِ اکرم ﷺ نے اس کے اشعار پسند بھی فرمائے اور اس کی فکر کی تعریف فرماتے ہوئے اس سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔
اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے لَبِیْد کے شعر کی تعریف فرمائی اور اُمَیَّۃُ بْنِ اَبِیْ الصَلَتْ  کی فکر کو اسلام سے قریب ترقرار دیا:
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنخضرت ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ سچا کلام جو شاعروں نے کہا لبید کا  یہ مصرع ہے…ـ’حق تعالیٰ کے سوا جو کچھ ہے معدوم ہے(یعنی فنا ہونے والا ہے)اور امیہ بن ابی  ا لصلت شاعر تو قریب تھا کہ مسلمان ہوجائے!(۳۵) 
محمود شکر آلوسی نے بلوغ الارب جلد چہارم میں امیہ بن ابی ا لصلت کے حوالے سے بتایا ہے :
’’اس نے توحید اور حکمت میں بہت سے اشعار کہے ہیں اور اسی کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کے اشعار مومن کے سے اشعار ہیں مگر دل کافر کا سا‘‘۔(۳۶)
اسی امیہ بن ابی الصلت کے اشعار سننے کی حضورِ اکرم ﷺ نے فرمائش بھی کی :
’’[ترجمہ]عمروبن شرید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہاایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔آپؐنے فرمایا امیہ بن صلت کے اشعار تجھ کو یاد ہیں میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا پڑھو میںنے آپؐ کو ایک بیت سنایا۔فرمایا اور پڑھو پھر میں نے ایک بیت پڑھا  فرمایا اور پڑھو میں نے (تقریبا)سو اشعار آپؐ کو سنائے(۳۷)
حضورِ اکرم ﷺ جب خیبر کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو ایک صاحب عامر بن الاکوَع نے حدی کے اشعار پڑھنے شروع کیے۔حضور ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کون ہے؟ بتایا گیا عامر بن الاکوع تو آپ ؐ نے فرمایا:’’یَرْحَمُہُ اللّٰہ‘‘[یہ ان کی شہادت کی طرف اشارہ تھا، چناںچہ وہ خیبر میں شہید ہوگئے]۔جو اشعار حضرت عامر بن الاکوَع نے پڑھے تھے وہ بخاریؒ نے نقل ہوئے ہیں۔
اسی طرح بعض مواقع پر حضورِ اکرم ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، میں سے کسی نے کچھ اشعار پڑھے اور حضورر ﷺ نے سماعت فرمائے اور کبھی کبھی خود بھی کوئی شعر پڑھ دیا۔بخاری شریف کی روایت ہے:   
انس بن مالک ؓ[ سے روایت ہے]کہ آنحضرت نے[خندق کھودتے وقت] شعر پڑھا[ترجمہ]:
ہے زندگی تو آخرت کی زندگی جو ہے سدا
نیک کر انصار اور پردیسیوں کو اے خدا (۳۸)
انس ابن مالک ؓ [سے روایت ہے کہ]انصار خندق کے دن یہ شعر پڑھتے تھے[ترجمہ]:
اپنے پیغمبر محمدؐ  سے یہ بیعت ہم نے کی
جب تلک ہے زندگی لڑتے رہیں گے ہم سدا
آنحضرت ﷺ نے ان کو یوں جواب دیا[ترجمہ]:
زندگی جو کچھ کہ ہے وہ آخرت کی زندگی
قدر کر انصار اور پردیسیوں کی اے خدا  (۳۹)
علاوہ ازیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ مسجد کی تعمیر کے موقع پر بھی اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعر پڑھتے تھے اور حضورِ اکرم ﷺ ان کے ساتھ شعر پڑھتے جاتے تھے۔وہ شعر درجِ ذیل ہے[ترجمہ]:
فائدہ جو کچھ کہ ہے وہ آخرت کا فائدہ
کر مدد انصار اور پردیسیوں کی اے خدا(۴۰)
حضرت کعب بن زُہیر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے واقعے سے بھی معلوم ہواکہ حضورِ اکرم ﷺ نے اشعار سماعت فرمائے اور پسندیدگی کے اظہار کے طور پر اپنی چادر عطا فرمائی۔ڈاکٹرعبداللہ عباس ندوی نے ان کے ایمان لانے کا واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔وہ پہلے پہل اپنے بھائی کے ایمان لانے پر مشتعل ہوکر حضورِ اکرم ﷺ کی شان اقدس میں کچھ ہجویہ اشعار کہہ بیٹھے اور جب ان اشعار کی بنیاد پر رسولِ کریم ﷺ کی طرف سے ان کا خون مباح قرار پایا تو ڈرکے انہوں نے توبہ کا ارادہ کیا اور ایک مدحیہ قصیدہ’’بانت سعاد‘‘ لے کر سرکار رسالت مآب ﷺکے دربار میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کی اجازت سے شعر پڑھنا شروع کیا اور جب درجِ ذیل شعر پڑھا تو حضوررﷺ نے اپنی چادر شاعر کو عطا فرمادی:
ان الرسول لنور یستضا ء بہٖ
و صارم من سیوف الھند مسلول
’’رسول اللہ (ﷺ)ایک نور ہیں جن سے اجالا حاصل کیا جاتا ہے، اور وہ نور ایک مضبوط فولاد کی بے نیام تلوار کے مانند ہے‘‘(۴۱)
عبداللہ عباس ندوی نے فوٹ نوٹ میں لکھا ہے:
’’دوسری روایت کے مطابق  ’’و صارم من سیوف اللہ مسلول‘‘ (اللہ کی تلواروں  سے ایک برہنہ تلوار ہے)۔(۴۲)
لیکن مشہور یہ ہے کہ شاعر نے ’’سیوف الھند‘‘ کہا تھا ‘‘ اور حضور اکرم ﷺ کی اصلاح کے بعد ’’سیوف اللہ‘‘ پڑھا تھا۔اس واقعے کو علامہ اقبال نے مثنوی رموزِ بیخودی میں نظم کیا ہے[ترجمہ]:
’’ایک پاک فطرت حضرت کعب ؓ نے حضور اکرم  ﷺ  کی شان میں  ’’بانت سعاد‘‘ کے عنوان سے  قصیدہ  پیش کیا ۔اس قصیدے میں گویا الفاظ کے موتی رولے تھے۔ایک جگہ آپ ﷺ کو ہندی تلواروں میں سے برہنہ تلوار کی تشبیہ دی تو آپ ﷺ  نے ،جن کا رتبہ آسمانوں سے بھی بلند ہے، کسی ملک سے اپنی نسبت کو پسند نہیں فرمایا۔انہیں  اصلاح دیتے ہوئے فرمایا ’’سیف من سیوف اللہ‘‘  کہو۔تم حق پرست ہو، سوائے حق پر چلنے کے دوسری راہ اختیار مت کرو‘‘۔(۴۳)
لیکن علامہ اقبال کی بیان کردہ روایت کا ذکر ہمیں ’’مدارج النبوت ‘‘ مصنفہ علامہ شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی، میں بھی نہیں ملا۔انہوں نے کعب بن زہیرؓ کے شعر کا پہلا مصرع بھی مختلف لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’اس نے کہا’’اِنَّ الرَّسُوْلَ لَسَیْفٌ یُسْتَضَائُ بِہٖ‘‘ بے شک یہ رسول ایسی شمشیر ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔’’مُہَنَّدٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلٌ‘‘۔اللہ کی تلواروں میں سے تیز دھار والی وہ تلوار کاٹنے والی‘‘۔(۴۴)
فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑ سکتے کہ کونسی روایت زیادہ صحیح ہے؟تاہم علامہ اقبال کی بیان کردہ روایت اس لیے مضبوط لگتی ہے کہ ایک ہی مصرع دو طرح سامنے آیا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ شاعر نے خود ہی دونوں طرح پڑھا ہو۔ارشاد شاکر اعوان کی کتاب ’’عہدِرسالت میں نعت‘‘ (مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۹۳ء،ص۱۵۱) اورڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کے مضمون ’’نعت اور نقدِ نعت‘‘( نعت رنگ ۱۵ میں صفحہ ۱۸۳) میں حضورﷺ کی اصلاح کا ذکر ملتا ہے، لیکن حوالہ نہیں ملتا……سند کا درجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ، یہ روایت ہے بہت مشہور۔فکری  بلندی عطا کرنے کے حوالے سے یہ اصلاح ،حضورِ اکرم ﷺکے اعلیٰ شعری ذوق اور بے پناہ تنقیدی شعور کی غماز ہے۔نعتیہ شاعری کی تنقید میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی یہ اصلاح ابدالآباد تک نقادوں کی رہنمائی کے لیے منارۂ نورر ہے گی۔ اس کے علاوہ حضورِ اکرم ﷺ نے خود بھی بعض اشعار پڑھے تھے۔حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حالات  اور قصے بیان کرتے کرتے آنحضرت ﷺ کا ذکر کرنے لگے۔آپﷺ فرماتے تھے، تمہارا بھائی (شاعر)جو بیہودہ نہیں بکتا وہ یوں کہتا ہے۔آپﷺ نے عبداللہ بن رواحہ کو مراد لیا[ترجمہ]:
ایک پیغمبر خدا کا پڑھتا ہے اس کی کتاب
اور سناتا ہے ہمیں جب صبح کی پو پھٹتی ہے 
ہم تو اندھے تھے اسی نے راستہ بتلادیا
بات ہے اس کی یقینی دل میں جاکر کھبتی ہے 
رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ
کافروں کی خواب گہہ کو نیند بھاری کرتی ہے
ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی نے ہجو کے جواز کے لیے بہت پتے کی بات کی ہے:
’’ہجوِ کفار تقابلی سیاست میں ایک ضرورت کے طور پر اپنی اہمیت منوالیتی ہے کیوں کہ مدِّ مقابل کا ہر حربہ ناکام کرنا جنگ میں اپنے دفاع کی خاطر ضروری ہوجاتا ہے۔اسی لیے تو آنحضرت ﷺ نے اس کی ترغیب دی اور شعر کو بطور دفاع  استعمال کرنے پر تحسین فرمائی‘‘۔(۴۵)
اس سلسلے میں حضرت حسانؓ کے انتخاب اور ان کے اعزاز کے معاملات پر کچھ احادیث درجِ ذیل کی جاتی ہیں:
’’[ترجمہ]براء ؓ سے روایت ہے کہ قریظہ کے دن رسول اللہ ﷺ  نے حسان ؓ بن ثابت سے فرمایا مشرکوں کی ہجو کہو،جبریلؑ تمہارے ساتھ ہیں۔رسول اللہ ﷺ حسانؓ کے لیے فرمایا کرتے تھے میری طرف سے جواب دو۔اے اللہ ،روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرما‘‘۔(۴۶)
حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
”[ترجمہ] کہا رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے تھے وہ اس پر کھڑے ہوتے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر کرتے یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدافعت کرتے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے جب تک حسانؓ میری طرف سے فخر یا مدافعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ ، جبریل ؑ کے ذریعے اس کی مدد کرتا ہے‘‘۔(۴۷)
شاعر ی کے اچھے اور برے ہونے کا معیار وہی ہے جو ایمان اور اعمالِ صالحہ سے مشروط زندگی کے لیے ہے ، کہ اس میں ہر وہ کام جواللہ کی مرضی کے تابع، سنتِ رسول ﷺ کی پیروی میں اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہے ، وہ خیر ہے باقی سب شر۔چناں چہ حضورِ اکرم ﷺ نے بڑے بلیغ انداز میں فرمادیا:
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
[ترجمہ] کہا نبی ﷺ کے سامنے شعر کا تذکرہ ہوا آپ ﷺ نے فرمایا ’’شعر کلام ہے، اس کا اچھا ، اچھا ہے، اگر کلام برا ہے وہ برا ہے۔روایت کیا اس کو دارقطنی نے اور شافعی نے عروہ سے مرسل بیان کیا‘‘۔(۴۸)
درجِ بالا حدیث سے شعر کے متن(Text) کی اچھائی برائی ظاہر ہوتی ہے، محض اسلوب سے نہیں۔اسلوب سے تو شعر خوشنما یا بدنما لگ سکتا ہے لیکن مغز تو اس کے معانی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے اِمْرائُ القیس ( جس نے اسلام سے چالیس سال قبل کا زمانہ پایا تھا)کے بارے میں حسبِ ذیل رائے ظاہر فرمائی:
’’ [ترجمہ]وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے‘‘۔(۴۹)
حضورِ اکرم ﷺ کے درجِ بالا تنقیدی تبصرے کے حوالے سے علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنونِ لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع و بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن، یہ کچھ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی ہوں۔ممکن ہے شاعر بہت اچھا شعر کہے لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھادے‘‘(۵۰)
اسی طرح حضورِ اکرم ﷺ نے جو عنترہ کا شعر[ترجمہ]میں نے بہت سی راتیں محنت مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں ا  کلِ حلال کے قابل ہو سکوں) سن کر اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ علامہ اقبال نے لکھا:
’’حضورخواجہء دو جہاں ؐ(بابی و انت و امی) نے جواس قدر شعر کی تعریف فرمائی ہے اس سے صنعت کے ایک دوسرے بڑے اصول کی شرح ہوتی ہے کہ صنعت حیاتِ انسانی کے تابع ہے، اس پر فوقیت نہیں رکھتی‘‘۔(۵۱)
خلاصہء کلام:
قرآن و احادیث کے اس اجمالی مطالعے سے جو نتائج اخذکیے جاسکتے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں:
۱۔اللہ رب العزت نے جو صلاحیت جس انسان کو بھی دی ہے اس صلاحیت کا استعمال اللہ کی مرضی اور منشائے تخلیق کے مطابق ہو تو جائز ورنہ  نا جائز۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے اچھی اور انسانی فلاح کی باتوں کو پسند فرمایا ہے اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے عملاً ایسے نظائر قائم فرمائے ہیں کہ امت کے ہر فرد کے ذہن میں کھرے کھوٹے کا معیار پیوست ہوجائے۔
۳۔شاعری بھی اللہ کی عطا کردہ صلاحیت کے تحت وجود میں آتی ہے، اس لیے اس کی اچھائی برائی بھی دینی معیارات کے تحت ہی طے کی جاسکتی ہے۔
۴۔بری شاعری (بلحاظِ مضمون ) کرنے یا اسے پڑھنے کے حوالے سے بھی حضور علیہ السلام نے دو ٹوک رائے دے دی۔کلام میں مبالغہ کرنے والوں کی ہلاکت کا پیغام بھی حدیث شریف میں دیا گیا ہے ۔بری شاعری کے سلسلے میں ذرا سخت الفاظ میں مذمت بھی ملتی ہے۔مثلاً
’’[ترجمہ]ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرج مقام میں چل رہے تھے ایک شاعر شعرپڑھتا ہوا سامنے آیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شیطان کوپکڑو ۔آدمی کا پیٹ پیپ سے بھرجائے اس سے بہتر ہے کہ وہ اشعار کے ساتھ بھرے۔(روایت کیا اس کو مسلم نے…مشکوٰۃ شریف، جلد دوم، ص ۴۱۶)
اس حدیث کا مطالعہ، امراء القیس کی شاعری پر حضورِ اکرم ﷺ کے تبصرے کے ساتھ کریں تو بات اور واضح ہوجاتی ہے۔
۵۔شاعری میں حسنِ بیان اور ظاہری جمال کو بھی حضورِ اکرم ﷺ نے سراہا ہے، تبھی تو امراء القیس کو ’’اشعرالشعراء‘‘ فرمایا۔
۶۔حضورِ اکرم ﷺ کے فرمودات کی جامعیت اور قرآنِ کریم کا جمالیاتی اسلوب بھی حسنِ اظہار کی سمت نمائی کے لیے کافی ہیں ۔ اس سے متبادر ہوا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جہاں شعری متن (Text) کی راست سمتی کے درس ملتے ہیں وہیں حسنِ بیان کا سبق بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
۷۔شاعری کا زبان کے عام معیارات کے تابع ہونا ،بیان کے جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرنا اور فن کے مروجہ معیارات کا لحاظ رکھ کر بات کرنا ، باعثِ تحسین ہے۔
۸۔اچھے شعر کی شرط صرف متن (Text) کا انسانی زندگی کے لیے کارآمد ہونا اور شعر میںسچائی کا پایا جانا ہے۔
مدحتِ خیرالبشر ﷺ رقم کرتے ہوئے، آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی سے ماخوذ بوطیقایا شعریات (Poetics)  کا خیال رکھنا ہر شاعر کا فرض ہے۔ اس طرح کلام کے متنی تقاضے (Textual requisites) اور شعری جمالیات کے نکات پیشِ نظر ر کھے جائیں تو ممکن ہے شعراء کی  پیش کش کا اہلِ ادب بھی خیر مقدم کریں اور ان کی مدح سرائی کی کاوشوں پر انھیں جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ سے سندِ قبولیت  بھی مل جائے!!! 
حوالہ جات:
حوالہ جات:
۱۔ نگار پاکستان، سالنامہ ۱۹۶۷ء،ص۲۷ ۲۔ آیت ۵۶:سورۂ الذاریات۵۱
۳۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۱ ۴۔ تفسیرِ مظہری۔جلد گیارہ۔ص ۷۲
۵۔ تفہیم القرآن ، جلد پنجم:ص۱۵۶ ۶۔ سورۃُ الدھر۷۶…آیت۲
۷۔ الکھف ۱۸…آیت۲۹ ۸۔ الملک۶۷…آیت ۲
۹۔ العصر۱۰۳ ۱۰۔ الشعراء ۲۶…آیات ۲۲۴۔۲۲۷
۱۱۔ تفسیرِ ابنِ عباس…ص۳۷۶ ۱۲۔ تفہیم القراٰن جلد سوم،ص۵۴۹
۱۳۔ یٰس ٓ۳۶ …آیت ۶۹ ۱۴۔ اسرارالتنزیل جلد ۷، ص ۳۴
۱۵۔ البقرہ۲…آیت ۱۰۴ ۱۶۔ تفہیم القراٰن ،جلد اول، ص۱۰۱
۱۷۔ الحجر۱۵…آیت۷۲ ۱۸۔ کلیاتِ غالب،فارسی، ص ۱۱۳
۱۹۔ الحُجُرات…آیات ۲  تا ۴  ۲۰۔ ضیاء القرآن، جلد چہارم:ص ۵۷۸
۲۱۔ الاحزاب…آیت۵۶ ۲۲۔ الاحزاب…آیت۴۳
۲۳۔ تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ص۴۲۳ ۲۴۔ الم نشرح…آیت۴
۲۵۔ تفسیرِ ابنِ عباسؓ،مترجم، جلد دوم،ص۷۸۵ ۲۶۔ الاحزاب…آیت ۷۰
۲۷۔ سبا…آیت۱۰ ۲۸۔ ضیاء القرآن، جلد چہارم:ص ۱۱۴
۲۹۔ الملک …آیت۳ ۳۰۔ تفسیرِ مظہری،جلد ہشتم ،ص۳۸۵
۳۱۔ مشکوٰۃ شریف جلد دوم ،ص۴۱۲ تا ۴۱۴ ۳۲۔ البقرہ ۔آیت۲۶۹
۳۳۔ بر صغیر پاک و ہندمیں عربی نعتیہ شاعری،ص۲۲۰ ۳۴۔ بلوغ الارب ، جلد چہارم، ص۵۲
۳۵۔ صحیح بخاری [کتاب الادب]جلد سوم، ص۴۸۶  ۳۶۔ بلوغ الارب جلد چہارم ۴،ص۶۲
۳۷۔ مشکوٰۃ شریف، جلد ۲، ص۴۱۲ ۳۸۔ صحیح بخاری،جلد دوم، ص۴۸۰
۳۹۔ ایضاً ص۴۸۱ ۴۰۔ ایضاً ص۵۴۵
۴۱۔ عربی میں نعتیہ کلام، ص۵۹ ۴۲۔ ایضاً
۴۳۔ اسرارورموز[فارسی،اردوترجمہ]ص۱۸۱ ۴۴۔ مدارج النبوت ، جلد دوم، ص۳۶۲
۴۵۔ بر صغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، ص ۲۲۴ ۴۶۔ مشکوٰۃ شریف جلد دوم، ص۴۱۳
۴۷۔ ایضاً ص۴۱۶ ۴۸۔ ایضاً
۴۹۔ سلسلہ درسیاتِ اقبال، سوم، ص ۱۲؍۱۶۴ ۵۰۔ ایضاً، ص۱۳؍۱۶۴
۵۱۔ ایضاً، ص ۱۴؍۱۶۶
کتابیات:
٭القرآن الکریم
۱۔ابنِ عباس رضی اللہ عنہ، تفیسرِ ابنِ عباس، جلد دوم، مترجم : مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی، فرید بک سٹال، اردو بازار، لاہور، ۲۰۰۵ء
۲۔ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن،  ج:سوم ،پنجم،ادارۂ ترجمان القرآن، لاہور
۳۔امیرمحمد اکرم اعوان، اسرار التنزیل، ادارۂ نقشبندیہ اویسیہ، دارالعرفان، مَنارہ، ضلع:چکوال
۴۔ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاریؒ، جلد:۲،۳بخاری شریف، مکتبہء رحمانیہ، اردو بازار، لاہور
۵۔اسحاق قریشی، ڈاکٹر پروفیسرمحمد اسحاق قریشی، بر صغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، مرکز معارف اولیاء ، محکمہء اوقاف، حکومتِ پنجاب، شوال:۱۴۲۳ھ، ۲۰۰۲ء
۶۔اسحاق قریشی محمد،ڈاکٹر، ’’نعت اور نقدِ نعت‘‘مشمولہ نعت رنگ ۱۵ ، نعت ریسرچ سینٹر،کراچی، مئی ۲۰۰۳ء
۷۔آلوسی،محمود شکر آلوسی، بلوغ الارب، ج:چہارم،ترجمہ:پیر محمد حسن، مرکزی اردو بورڈ، لاہور،باراول:مارچ، ۱۹۶۸ء
۹۔ ثناء اللہ، قاضی ثنا ء اللہ عثمانی ؒپانی پتی،تفسیرِ مظہری،جلد:۸،،۹،۱۱ خزینہء علم و ادب، اردو بازار، لاہور،
۱۰۔ارشاد شاکر اعوان ،عہدِرسالت میں نعت ،مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۹۳ء
۱۱۔رشید،عبدالرشید فاضل، پروفیسر، سلسلہء درسیات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۱۶، میکلوڈ روڈ، لاہور، طبع ثانی ۱۹۹۰ء
۱۲۔ شبیر احمد، مولانا سید، ترجمہء قرآن، قرآن آسان تحریک، لاہور
۱۳۔عبداللہ عباس ندوی، عربی میں نعتیہ کلام،میزان ادب، مکتبہ ایوب پیکجز، کراچی،۱۹۷۸ء
۱۴۔عبدالحق، شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوت، جلد:دوم، ضیا ء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، اگست ۲۰۰۵ء
۱۵۔غالب، اسداللہ خان، کلیاتِ غالب،فارسی،جلد سِوَم ،مجلسِ ترقی ادب، لاہور، طباعتِ دوم 2012 ء
۱۶۔غلام جیلانی مخدوم، ڈاکٹر، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور۔، س۔ن
۱۷۔فرمان فتحپوری، ڈاکٹر، اصنافِ شاعری نمبر،نگار پاکستان، سالنامہ ۱۹۶۷ء
۱۸۔کرم شاؒہ، پیر محمد کرم شاہ  الازہری، ضیاء القرآن، جلد:۳،۴۔۵ضیا ء القرآن پبلی کیشنز، لاہور
۱۹۔ ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمریؒ، امام، مشکوٰۃ شریف،جلد:۲، مکتبہء رحمانیہ، اردو بازار، لاہور
انتقاد و تاثرات
جناب شاکر القادری صاحب
مجھے امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہوگا
آپ کے حکم کے تعمیل کے مطابق میں اپنی زیر تصنیف کتاب’’نعتیات‘‘نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے ایک باب سے کچھ ضبط تحیری کئے ہوئے مقالے کا اقتباس آپ کے رسالہ ’’فروغ نعت‘‘ کے اہم رسالہ میں شامل اشاعت کے لئے ارسال کررہا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ اس مضمون کی اشاعت ضرور فرمائں گے۔مجھے امید ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد اس کی ایک کاپی مجھے ضرور ارسال فرمائیں گے۔انشااللہ میں آپ کو نعت سے متعلق اپنا تحریر شدہ مقالات کے اقتباسات برائے اشاعت ارسال کرتا رہوں گا۔اگر آپ سے یہ ممکن ہو تو مجھے نعت سے متعلق کسی بزرگ محقق کی کتاب بھی ارسال فرمائیں تاکہ میں اس مزید استفادہ کرسکوں اور انھیںاپنی اس کتاب میں بطور حوالہ شامل کرسکوں۔میں فروغ نعت کی خدمت میں سلام گزار ہوں اس امید کے ساتھ کہ مجھے دعاوں میں فراموش نہیں فرمایں گے،والسلام
شاہدؔکمال۔۔ لکھنو ،انڈیا
محترم شاکرالقادری صاحب، السلام علیکم
سہ ماہی فروغ نعت کا تیرھواں شمارہ نظر نواز ہوا۔بہت سی معلومات اور تحقیقات کا حامل ہے۔ آپ اور آپ کے رفقائے کار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دور حاضر میں بلا شبہ فروغ نعت اپنے قارئیں کو نہ صرف بیش بہا علمی معلومات فراہم کر رہا ہے بلکہ آقا علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ الفت و محبت کا رشتہ بھی مضبوط کر رہا ہے۔ زیر نظر شمارے میں” حرف تمنا“ کے عنوان سے آپ نے اداریے میں امت مسلمہ کو جگانے کا اہم ترین فریضہ انجام دیا ہے جو کہ یقینا دیر پا اثرات مرتب کرے گا۔ مذمتی اشعار کے  حوالے سے بھی آپ نے نہایت مدلل اور مسکت گفتگو فرمائی ہےجو بہت سے نعت گو اور نعت جو حضرات کے لیے معلومات افزا ثابت ہوگی۔ اشاریہ کی ترتیب و تدوین کے لیے جمیل حیات مبارکبادکے مستحق ہیں تاہم مزید بہتری کی گنجائش ہے امید ہے کہ آئندہ شماروں کے اشاریہ میں اس کمی کو دور کر دیا جائے گا ”مطالعات نعت“ میں جناب محمد علی گوہر کے نعتیہ مجموعہ ”قلزم کیف و سرور“ پر  ڈاکٹر عزیز احسن کا تبصرہ  بہت خوب ہے۔ بشریٰ فرخ کے نعتیہ مجموعہ ”ورفعنا لک ذکرک“ اور طاہر سید کے مجموعہ “حرف ہائے رنگ و بو“ پر آپ کے تبصرے قابل داد ہیں، آپ نے خواتین کی نعتیہ شاعری پر تاریخ سے مستند حوالے پیش کر کے شاعرات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
سید منظور الکونین اقدس کی رحلت بلا شبہ (موتُ العالِم ، موت العالَم) کا مصداق ہے سید صاحب سے میری دیرینہ وابستگی تھی، ہم نے ۱۹۸۶ میں اکٹھے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔آپ نے ان کا قطعہ تاریخ ولادت و وفات کہہ کر کمال کر دیا۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔ فن تاریخ گوئی یقینا ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو فقط عدد شماری سے کام لیا جاتا ہے۔ برجستہ اور معنویت سے بھر پور قطعہ تاریخ کہنا یقینا بہت مشکل ہے آپ اس مرحلہ سے بخوبی گزرے ہیں۔ والسلام مع الاکرام
حافظ نور احمد قادری، سیکرٹری بزم حمد و نعت ۔ اسلام آباد
شاکر القادری صاحب ۔ السلام علیکم
ماشاء اللہ آپ کو بہت توفیق عطا ہوئی ہے نعت کے فروغ کی .اللہ تعالٰی قبول فرمائے اور اجرعطا فرمائے .آمین ۔آپ مجھے یاد رکھتے ہیں .اس بات کا شکریہ بھی قبول کیجے۔آجکل اپنے تیسرے شعری مجموعے کی تکمیل میں لگا ہوا ہوں .آپ سے دعا کی بھی درخواست ہےآپ کے مؤقر جریدے فروغِ نعت کے لیے ایک حمد اور ایک تازہ نعت ارسال ہے.آپ نے کئی بار ازراہ ِ کرم طلب کی لیکن تازہ نعت موجود نہ تھی.اب توفیق ہوئی ہے تو پیش کر رہا ہوں.براہ کرم رسید سے مطلع فرمائیے ۔والسلام
سعود عثمانی۔۔ لاہور

حالیہ نسخہ بمطابق 12:37، 22 ستمبر 2017ء