تبادلۂ خیال:حدائق بخشش

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو .......................................................

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا

فرش والے تیری شوکت کا عُلو کیا جانیں خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

خوار و بیمار و خطاوار و گنہ گار ہوں میں رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا

میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کردے کہ ہے محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا

تیرے صدقے مجھے اِک بوند بہت ہے تیری جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو

کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی یوں جایئے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو

ایسا گُمادے ان کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو

آ دِل حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو

اے شوقِ دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو

ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں جہاں گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو