"تبادلۂ خیال:ارشد محمود ناشاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(تمام مندرجات حذف)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:


نعت رسولِ اکرم ﷺ
_____ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
فاراں کی چوٹیوں پہ جو چمکا عرب کا چاند
ہر سمت کر گیا ہے اُجالا عرب کا چاند
وہ سرزمین بوسہ گۂ قدسیاں ہوئی
جس سرزمیں کی خاک پہ اُترا عرب کا چاند
اُس پر بصارتوں کا صحیفہ تمام ہے
جس خوش نصیب آنکھ نے دیکھا عرب کا چاند
رخشندگی میں کون عدیم المثال ہے؟
لوحِ تخیلات پہ اُبھرا عرب کا چاند
مہر و مہ و نجوم کی دُنیا ہو مضطرب
کر دے جو اِک ذرا سا اشارا عرب کا چاند
سدرہ سے اُس طرف کے مناظر بدل گئے
معراج رات عرش پہ پہنچا عرب کا چاند
خوفِ غروب جس کو نہ رنجِ کُسوف ہے
نقشِ ابد نشاں ہے وہ پُورا عرب کا چاند
ز
نعت رسولِ اکرم ﷺ
_____ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
لطفِ عمیم ہو گیا ، رحمتِ عام کے سبب
بزمِ جہاں ہے نور نور ، ماہِ تمام کے سبب
شرک کی سانس اُکھڑ گئی ، کفر کا دم نکل گیا
تیرے پیام کے طفیل ، تیرے نظام کے سبب
تُجھ سے ہوا جو منتسب ، اُس کا نصیب جاگ اُٹھا
خاکِ عرب ہے سر بلند ، تیرے قیام کے سبب
خلق کو راستہ ملا ، تیرے عمل کے حسن سے
رازِ حیات منکشف ، تیرے کلام کے سبب
ہونٹوں پہ دل کشی رہے ، دل کی کلی کھلی رہے
گاہے درود کے سبب ، گاہے سلام کے سبب
بے کس و بے مقام بھی ، اُن کے طفیل باشرف
صنفِ لطیف معتبر ، فخرِ انام کے سبب
کُچھ بھی نہیں ہے زادِ ھشر ، خالی ہے کاسۂ عمل
پھر بھی یقیں نجات کا ، ہاں! ترے نام کے سبب
ز
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
اے شۂ انس وجاں،زینتِ این وآں ، بزمِ ہستی کی ہے دل کشی آپؐ سے
آپ آئے تو دُنیا مہکنے لگی ، گل بہ داماں ہوئی زندگی آپ سے
چار سو راج کرتی تھیں تاریکیاں ، ظلمتیں خیمہ زن تھیں یہاں اور وہاں
آپ کے دم سے جگ مگ ہوا سب جہاں ،  مل گئی خلق کو روشنی آپ سے
آپ کا دستِ شفقت بنا سائباں ، خستہ حالوںکا گھر آپ کا آستاں
زندہ تر آپ سے نقشِ آدم گری ، تازہ تر حسنِ چارہ گری آپ سے
آپ نے خاک کو آسماں کر دیا ، ریگ زاروں کو رشکِ جناں کر دیا
آپ کے لمس سے ہر زمانہ ہَرا ، ہوگئی ہر فضا شبنمی آپ سے
آپ کے دم سے گونجی ہے حق کی اذاں ، آپ نے کی رقم صدق کی داستاں
خاک میں مل گیا بُت گری کا گُماں ، مٹ گئی شوکتِ کافری آپ سے
مجھ کو کیسے پریشاں زمانہ کرے ، غیر کے در پہ کیوں میری گردن جھکے
آپ کے نام سے مجھ کو عزت ملی ، مجھ کو حاصل ہے آسودگی آپ سے
گرچہ شاخِ عمل ہے مری بے نمو ، دل میں لیکن مچلتی ہے یہ آرزو
بات کرتا رہوں ہر گھڑی آپ کی ، بات کرتا رہوں ہر گھڑی آپ سے
ز
نعت
________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
زہے نصیب ! یہ دولت اگر بہم ہو جائے
میں تیرا ذکر کروں اور آنکھ نم ہو جائے
اُسی کے تاج میں سجتا ہے دو جہاں کا شرف
وہ سر جو آپ کی چوکھٹ پہ آ کے خم ہو جائے
حضورؐ! دل میں عجب خواہشوں کا ڈیرا ہے
یہ بُت کدہ ترے الطاف سے حرم ہو جائے
ترے دیار کی گلیوں کا میں طواف کروں
مرا وجود تری خاکِ رہ میں ضم ہو جائے
(ق)
حضورؐ! میرا وطن بے کلی کی زد میں ہے
حضورؐ! آپ جو چاہیں تو یاں کرم ہو جائے
حضورؐ! سیلِ محبت یہاں سے جاری ہو
حضورؐ! بغض و عداوت یہاں سے کم ہو جائے
مرے حروف میں اُترے ترے جمال کا رنگ
مرا ہُنر تری نسبت سے محترم ہو جائے
ز
نعت
________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
آنکھ میں جب مری وہ گنبدِ اخضر چمکا
ایک خورشید مری روح کے اندر چمکا
بزمِ ہستی تھی اندھیروں کے طلسمات میں گم
آپ آئے تو اندھیروں کا مقدر چمکا
شعلہِ عشقِ محمدؐ سے فروزاں ہے بلالؓ
حسنِ نسبت کے شرف سے ہی ابوذرؓ چمکا
مجھ پہ وہ ابرِ گہر بار مسلسل برسا
مجھ پہ وہ مہرِ ضیا پاش برابر چمکا
جس کے ہونٹوں پہ ترے نام کی کلیاں چٹکیں
اُس کی پلکوں پہ تری یاد کا اختر چمکا
دیکھ کر مسجد و محراب و ریاض الجنۃ
چشمِ حیرت میں ترے عہد کا منظر چمکا
ز
[للہ الحمد کہ یہ نعت گنبدِ خضرا کے سائے میں لکھی گئی۔]

نسخہ بمطابق 12:58، 25 اکتوبر 2017ء

نعت رسولِ اکرم ﷺ _____ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

فاراں کی چوٹیوں پہ جو چمکا عرب کا چاند ہر سمت کر گیا ہے اُجالا عرب کا چاند

وہ سرزمین بوسہ گۂ قدسیاں ہوئی جس سرزمیں کی خاک پہ اُترا عرب کا چاند

اُس پر بصارتوں کا صحیفہ تمام ہے جس خوش نصیب آنکھ نے دیکھا عرب کا چاند

رخشندگی میں کون عدیم المثال ہے؟ لوحِ تخیلات پہ اُبھرا عرب کا چاند

مہر و مہ و نجوم کی دُنیا ہو مضطرب کر دے جو اِک ذرا سا اشارا عرب کا چاند

سدرہ سے اُس طرف کے مناظر بدل گئے معراج رات عرش پہ پہنچا عرب کا چاند

خوفِ غروب جس کو نہ رنجِ کُسوف ہے نقشِ ابد نشاں ہے وہ پُورا عرب کا چاند ز


نعت رسولِ اکرم ﷺ _____ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

لطفِ عمیم ہو گیا ، رحمتِ عام کے سبب بزمِ جہاں ہے نور نور ، ماہِ تمام کے سبب

شرک کی سانس اُکھڑ گئی ، کفر کا دم نکل گیا تیرے پیام کے طفیل ، تیرے نظام کے سبب

تُجھ سے ہوا جو منتسب ، اُس کا نصیب جاگ اُٹھا خاکِ عرب ہے سر بلند ، تیرے قیام کے سبب

خلق کو راستہ ملا ، تیرے عمل کے حسن سے 

رازِ حیات منکشف ، تیرے کلام کے سبب

ہونٹوں پہ دل کشی رہے ، دل کی کلی کھلی رہے گاہے درود کے سبب ، گاہے سلام کے سبب

بے کس و بے مقام بھی ، اُن کے طفیل باشرف صنفِ لطیف معتبر ، فخرِ انام کے سبب

کُچھ بھی نہیں ہے زادِ ھشر ، خالی ہے کاسۂ عمل پھر بھی یقیں نجات کا ، ہاں! ترے نام کے سبب

ز



نعتِ رسولِ مقبول ﷺ ________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

اے شۂ انس وجاں،زینتِ این وآں ، بزمِ ہستی کی ہے دل کشی آپؐ سے آپ آئے تو دُنیا مہکنے لگی ، گل بہ داماں ہوئی زندگی آپ سے

چار سو راج کرتی تھیں تاریکیاں ، ظلمتیں خیمہ زن تھیں یہاں اور وہاں آپ کے دم سے جگ مگ ہوا سب جہاں ، مل گئی خلق کو روشنی آپ سے

آپ کا دستِ شفقت بنا سائباں ، خستہ حالوںکا گھر آپ کا آستاں زندہ تر آپ سے نقشِ آدم گری ، تازہ تر حسنِ چارہ گری آپ سے

آپ نے خاک کو آسماں کر دیا ، ریگ زاروں کو رشکِ جناں کر دیا آپ کے لمس سے ہر زمانہ ہَرا ، ہوگئی ہر فضا شبنمی آپ سے

آپ کے دم سے گونجی ہے حق کی اذاں ، آپ نے کی رقم صدق کی داستاں خاک میں مل گیا بُت گری کا گُماں ، مٹ گئی شوکتِ کافری آپ سے

مجھ کو کیسے پریشاں زمانہ کرے ، غیر کے در پہ کیوں میری گردن جھکے آپ کے نام سے مجھ کو عزت ملی ، مجھ کو حاصل ہے آسودگی آپ سے

گرچہ شاخِ عمل ہے مری بے نمو ، دل میں لیکن مچلتی ہے یہ آرزو بات کرتا رہوں ہر گھڑی آپ کی ، بات کرتا رہوں ہر گھڑی آپ سے

ز

نعت ________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

زہے نصیب ! یہ دولت اگر بہم ہو جائے میں تیرا ذکر کروں اور آنکھ نم ہو جائے

اُسی کے تاج میں سجتا ہے دو جہاں کا شرف وہ سر جو آپ کی چوکھٹ پہ آ کے خم ہو جائے

حضورؐ! دل میں عجب خواہشوں کا ڈیرا ہے یہ بُت کدہ ترے الطاف سے حرم ہو جائے

ترے دیار کی گلیوں کا میں طواف کروں مرا وجود تری خاکِ رہ میں ضم ہو جائے

(ق) حضورؐ! میرا وطن بے کلی کی زد میں ہے حضورؐ! آپ جو چاہیں تو یاں کرم ہو جائے

حضورؐ! سیلِ محبت یہاں سے جاری ہو حضورؐ! بغض و عداوت یہاں سے کم ہو جائے

مرے حروف میں اُترے ترے جمال کا رنگ مرا ہُنر تری نسبت سے محترم ہو جائے

ز نعت

________ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

آنکھ میں جب مری وہ گنبدِ اخضر چمکا ایک خورشید مری روح کے اندر چمکا

بزمِ ہستی تھی اندھیروں کے طلسمات میں گم آپ آئے تو اندھیروں کا مقدر چمکا

شعلہِ عشقِ محمدؐ سے فروزاں ہے بلالؓ حسنِ نسبت کے شرف سے ہی ابوذرؓ چمکا

مجھ پہ وہ ابرِ گہر بار مسلسل برسا مجھ پہ وہ مہرِ ضیا پاش برابر چمکا

جس کے ہونٹوں پہ ترے نام کی کلیاں چٹکیں اُس کی پلکوں پہ تری یاد کا اختر چمکا

دیکھ کر مسجد و محراب و ریاض الجنۃ چشمِ حیرت میں ترے عہد کا منظر چمکا

ز

[للہ الحمد کہ یہ نعت گنبدِ خضرا کے سائے میں لکھی گئی۔]