اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے


نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما

غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے


جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشقِ چشم والا

کبابِ آہو، میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے


انھیں کی بو مایہٴ سمن ہے انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے

انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے


سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلےٰ

ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے


وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے

گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے


جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوہٴ مُبارک

دکھادو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے


کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور!

بچالو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے


خدائے قہّار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر

بچالو آکر شفیع محشر تمہَارا بندہ عذاب میں ہے

کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے

بتاوٴ اے مفلسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے

کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما

تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے