"امید فاضلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 2: سطر 2:
[[ملف:Umeed.jpg]]
[[ملف:Umeed.jpg]]


اردو کے ممتاز شاعر  امید فاضلی کا اصل نام ارشاد احمد تھا اور وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم


ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔
=== مختصر حالات زندگی ===


قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔
اردو کے ممتاز شاعر  امید فاضلی کا اصل نام ارشاد احمد تھا اور وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔


امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو اور اہم مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے بعدازاں انہوں نے
ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے ہی پانے کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ ملازمت کا آغاز 1944ء میں


امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔
کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے کیا  اور  قیام پاکستان کے بعد کراچی  میں بھی اسی  اسی محکمے سے وابستہ رہے۔


امید فاضلی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی
امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو اور اہم مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں وہ امید ڈبائیوی کےنام سے شاعری


انعام بھی عطا ہوا تھا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبتوں کا مجموعہ مناقب اور قومی شاعری کا مجموعہ پاکستان زندہ باد اور
کی بعد ازاں امید فاضلی  کے نامِ نامی سے شہرت پائ ۔


تب و تاب جاودانہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے جبکہ ان کا آخری مجموعۂ کلام زندہ گفتگو ہنوز تشنہ ٔ طباعت ہے۔امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام


میرے آقا پر بھی انہیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔
=== تصانیف ===
 
میرے آقا ( نعتوں کا مجموعہ)
 
دریا آخر دریا  ( غزلیات کا پہلا مجموعہ )
 
سر نینوا  (  مرثیوں کا مجموعہ  )
مناقب (منقبتوں کا مجموعہ )
 
پاکستان زندہ باد  ( قومی شاعری کا مجموعہ )
 
تب و تاب جاودانہ  (قومی شاعری کا مجموعہ)


28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کراچی میں وفات پاگئے۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک


ہیں۔
=== نمونہ کلام ===


ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
سطر 31: سطر 40:
بند بنا کر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے
بند بنا کر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے


…٭٭٭…


دلوں کو زخم نہ دو حرفِ ناملائم سے
دلوں کو زخم نہ دو حرفِ ناملائم سے
سطر 37: سطر 45:
یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے
یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے


…٭٭٭…
 


کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
سطر 43: سطر 51:
خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے


…٭٭٭…




سطر 120: سطر 127:
https://www.youtube.com/watch?v=ZrRw1yiwim8
https://www.youtube.com/watch?v=ZrRw1yiwim8


  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   
 
=== وفات ===
 
 
28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کراچی میں وفات پاگئے۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک
 
ہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نسخہ بمطابق 11:30، 14 جنوری 2017ء

امید فاضلی

Umeed.jpg


مختصر حالات زندگی

اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کا اصل نام ارشاد احمد تھا اور وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے ہی پانے کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ ملازمت کا آغاز 1944ء میں 

کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے کیا اور قیام پاکستان کے بعد کراچی میں بھی اسی اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو اور اہم مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں وہ امید ڈبائیوی کےنام سے شاعری

کی بعد ازاں امید فاضلی کے نامِ نامی سے شہرت پائ ۔


تصانیف

میرے آقا ( نعتوں کا مجموعہ)
دریا آخر دریا  ( غزلیات کا پہلا مجموعہ )

سر نینوا ( مرثیوں کا مجموعہ )

مناقب (منقبتوں کا مجموعہ )

پاکستان زندہ باد  ( قومی شاعری کا مجموعہ )

تب و تاب جاودانہ (قومی شاعری کا مجموعہ)


نمونہ کلام

ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔


جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے

بند بنا کر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے


دلوں کو زخم نہ دو حرفِ ناملائم سے

یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے


کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے


نعت گوئی

امید فاضلی نے نعت گوئی بھی اپنا منفرد اور پر اثر اسلوب قائم رکھا ہے ۔


نعتِ رسولِ مقبول (ص)


انﷺ کی مدحت کو قلم تحریر کر سکتا نہیں

حرفِ موجِ نور کو زنجیر کر سکتا نہیں


جس کا مسلک پیرویٔ اسوۂ سرکار ﷺہے

کوئی اس انسان کو تسخیر کر سکتا نہیں


ذہن و دل کا مرکز ومحور نہ ہو جب تک وہ ذات

کوئی اپنی ذات کی تعمیر کر سکتا نہیں


لا سے الا اللہ تک گر مصطفی ﷺ رہبر نہ ہوں

منزلوں کا فیصلہ راہ گیر کر سکتا نہیں


آپ ﷺہی سے زندگی نے پائے ہیں ایسے چراغ

کوئی جھونکا جن کو بے تنویر کر سکتا نہیں


معرفت اسمِ محمد ﷺ کی نہ ہو جب تک امید

آدمی قرآن کی تفسیر کر سکتا نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ان کی نعت گوئی سے متعلق اے ، آر ، وائی چینل پر خوشبوئے حسان کے عنوان سے بھی باقاعدہ پروگرام پیش ہوئے ۔

خوشبوئے حسان (رض)

شاعر : امید فاضلی

پیشکش : اے آر وائی ڈیجیٹل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حصہ اول

https://www.youtube.com/watch?v=6bq2uE1q3kc


حصہ دوم

https://www.youtube.com/watch?v=LhaOqTCoh0A

حصہ سوم

https://www.youtube.com/watch?v=ZpbAq6pbzJE

حصہ چہارم

https://www.youtube.com/watch?v=dc2ykFPrZvg

حصہ پنجم

https://www.youtube.com/watch?v=ZrRw1yiwim8


وفات

28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کراچی میں وفات پاگئے۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک

ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔