"اسلام آباد کا ادبی منظر نامہ ۔ عرش ہاشمی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: دارالحکومت اسلام آباد کا نعتیہ ادبی منظرنامہ ( پس منظر ، پیش منظر) عرش ہاشمی کے قلم سے یادش بخیر...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 42: سطر 42:
  رشید ساقی | آئینہءعقیدت]] گذشتہ چند برسوں میں سامنے آئے اور یہ تینوں نعتیہ مجموعے حکومت کی جانب سے انعام کے مستحق قرار پائے ہیں۔  
  رشید ساقی | آئینہءعقیدت]] گذشتہ چند برسوں میں سامنے آئے اور یہ تینوں نعتیہ مجموعے حکومت کی جانب سے انعام کے مستحق قرار پائے ہیں۔  


رشید ساقی کے علا وہ علامہ بشیر حسین ناظم کا نعتیہ مجموعہ : جمال جہاں فروز، علامہ قمر رعینی کا ولائے رسول ، ڈاکٹر سید ہلال جعفری مرحوم کے مجموعے ہلال حرم، کاسہءہلال، کشکول ہلال ( بعض شہرہ آفاق نعتوں پر لکھی تضامین کا مجموعہ) ، اور آخری مجموعہ توشہءہلال (جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوسکا ) ، پیر سید نصیر الدین نصیر(گولڑہ شریف) کا مجموعہءنعت دیں ہمہ اوست ، ڈاکٹر توصیف تبسم کا سلسبیل ، محمد حنیف نازش قادری کے مجموعے ۔۔ آبرو ۔۔ اور نیاز ، محمد سبطین شاہجہانی کا قلزم انوار ۔ نسیم سحر کا نعت نگینے ، شرف الدین شامی کا حسین مجموعہ : مقامات ، شہاب صفدر کا سبیل © ، سید محمد حسن زیدی کا کیف دوام حافظ نور احمد قادری کا پہلا نعتیہ مجموعہ متاع نور اور محترمہ نورین طلعت عروبہ کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے ربنا ، حاضری اور زہے مقدر خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
رشید ساقی کے علا وہ علامہ بشیر حسین ناظم کا نعتیہ مجموعہ : جمال جہاں فروز، علامہ قمر رعینی کا ولائے رسول ، ڈاکٹر سید ہلال جعفری مرحوم کے مجموعے ہلال حرم، کاسہءہلال، کشکول ہلال ( بعض شہرہ آفاق نعتوں پر لکھی تضامین کا مجموعہ) ، اور آخری مجموعہ توشہءہلال (جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوسکا ) ، پیر سید نصیر الدین نصیر(گولڑہ شریف) کا مجموعہءنعت دیں ہمہ اوست ، ڈاکٹر توصیف تبسم کا سلسبیل ، محمد حنیف نازش قادری کے مجموعے ۔۔ آبرو ۔۔ اور نیاز ، محمد سبطین شاہجہانی کا قلزم انوار ۔ نسیم سحر کا نعت نگینے ، شرف الدین شامی کا حسین مجموعہ : مقامات ، شہاب صفدر کا سبیل © ، سید محمد حسن زیدی کا کیف دوام حافظ نور احمد قادری کا پہلا نعتیہ مجموعہ متاع نور اور محترمہ نورین طلعت عروبہ کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے ربنا ، حاضری اور زہے مقدر خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


مقتدر نعت گو شعرائے کرام کے نعتیہ مجموعوں کے علاوہ [[2003]]ء میں دارالحکومت میں لکھی جانے والی نعتوں کا ایک خوبصورت انتخاب ، شعراءکے جامع تعارف کے ساتھ علامہ قمر رعینی مرحوم نے ۳۰۰۲ ء میں تذکرہ نعت گویان راولپنڈی۔اسلام آباد کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے قیام پاکستان سے قبل سے لے کر ۳۰۰۲ ء تک کے ایک سو سے زائد شعراء کا تعارف اور نمونہءکلام شامل کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نعت گو شعراءکے علاوہ ان شعراءکو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا مجموعہءکلام ابھی منصئہ شہود پر نہیں آیا۔ علامہ رعینی مرحوم سے جب محافل میں ملاقات ہوتی ، ہمیشہ مجھ سے اپنا نعتیہ مجموعہ جلد شائع کرانے پر اصرار کرتے، (اگرچہ یہ کام اس وقت میری ترجیحات میں نہ تھا، نہ اب ہے،) اور میں ان کے خلوص اور شفقت بھرے اصرار پر ہر مرتبہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس سلسلے میںکوشش کرنے کا وعدہ کر لیتا ۔وہ کہتے میری بڑی خواہش ہے کہ میری زندگی میںتمھارا مجموعہءکلام چھپ جائے ۔ افسوس کہ میں ان کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکااور وہ آخر دم تک مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔
مقتدر نعت گو شعرائے کرام کے نعتیہ مجموعوں کے علاوہ [[2003]]ء میں دارالحکومت میں لکھی جانے والی نعتوں کا ایک خوبصورت انتخاب ، شعراءکے جامع تعارف کے ساتھ علامہ قمر رعینی مرحوم نے ۳۰۰۲ ء میں تذکرہ نعت گویان راولپنڈی۔اسلام آباد کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے قیام پاکستان سے قبل سے لے کر ۳۰۰۲ ء تک کے ایک سو سے زائد شعراء کا تعارف اور نمونہءکلام شامل کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نعت گو شعراءکے علاوہ ان شعراءکو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا مجموعہءکلام ابھی منصئہ شہود پر نہیں آیا۔ علامہ رعینی مرحوم سے جب محافل میں ملاقات ہوتی ، ہمیشہ مجھ سے اپنا نعتیہ مجموعہ جلد شائع کرانے پر اصرار کرتے، (اگرچہ یہ کام اس وقت میری ترجیحات میں نہ تھا، نہ اب ہے،) اور میں ان کے خلوص اور شفقت بھرے اصرار پر ہر مرتبہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس سلسلے میںکوشش کرنے کا وعدہ کر لیتا ۔وہ کہتے میری بڑی خواہش ہے کہ میری زندگی میںتمھارا مجموعہءکلام چھپ جائے ۔ افسوس کہ میں ان کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکااور وہ آخر دم تک مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔

نسخہ بمطابق 01:18، 12 اگست 2017ء

دارالحکومت اسلام آباد کا نعتیہ ادبی منظرنامہ ( پس منظر ، پیش منظر)

عرش ہاشمی کے قلم سے

یادش بخیر یہ 80 ء کی دہائی کا ذکر ہے، وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد کی ادبی فضا بھی ایسی ہی تھی جیسی معروف ادبی مر اکز سے دور دراز کسی بھی مقام کی ہوا کرتی ہے۔یہ بات نہیں کہ یہاں نہیں تھے، البتہ جو اہل قلم یہاں قیام پذیر تھے بھی، ان میں آپس میں رابطوں اور سرگرم تعلق کی صورت نہ تھی۔ چند ادبی تنظیمیں بھی قائم تو ہو چکی تھیں، تاہم یہ سب بہاریہ شاعری کی ماہانہ ادبی نشستوں کا اہتمام کرنے تک محدود تھیں۔ ابتدا میں غزل کے طرحی مشاعروں میں سامع کی حیثیت سے شرکت ہوتی رہی ، پھر جب ایک مرتبہ ربیع الاول کی مناسبت سے نعتیہ نشست ہوئی تو مصرعہ طرح پر چند اشعار پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔ بعد میں غزل کی طرحی نشستوں میں بھی نعت لکھ کر ہی شریک ہوتا رہا۔ الحمد للہ ،کہ آج تک صرف حمد و نعت ہی لکھنے کو اپنے لئے بہت بڑا شرف جانا ہے، اور اسی پر اکتفا کیا ہے ۔۔


ع۔ گر قبول افتد ، زہے عز و شرف ۔۔ !

اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں اگرچہ کئی اہم قیام پذیر تھے مثلا حافظ مظہرالدین مظہر، حکیم سرو سہارنپوری، اختر ہوشیار پوری، اختر عالم صدیقی وغیرہ، جو کہ کبھی کبھی ریڈیو یا ٹی وی پر منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اسلام آباد میں اس وقت کہنہ مشق اور اکابرشعراء اور اہل قلم کی کوئی کمی نہ تھی، یہاں استاذ الشعراءجام نوائی بدایونی ( دلاور فگار اور شکیل بدایونی جیسے منفرد اور مقبول شعراء بھی جن کے شاگردوں میں شامل تھے) ،ابوالاثرحفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، پروفیسر کرم حیدری ، مضطر اکبر آبادی، ظفر اکبر آبادی، ادا جعفری، ڈاکٹر توصیف تبسم، ابرار علی صدیقی اور محب اللہ عارفی، جیسے کہنہ مشق اہل قلم کی موجودگی یہاں ایک مستحکم ادبی منظرنامے کی بنیاد رکھنے کے لئے بہت کافی تھی۔تاہم نعتیہ مشاعرے ربیع الاول یا رمضان المبارک جیسے خاص موقعوں پر ہی منعقد کئے جاتے ۔ اور ان کی صورت بھی یہ ہوتی کہ زیادہ تر غزل گو شعراء ہی ان نشستوں میں شرکت کرتے ۔

ہمارے دیرینہ دوست اور معروف کالم نگار میاں تہور حسین نے اپنے ایک ادبی کالم میں اسلام آباد کے ابتدائی دور کی ادب کے حوالے سے صورت حال کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:


نعتیہ ادب کے حوالے سے اسلام آباد میں موجودہ سازگار فضا دارالحکومت کے قیام کے بعد ابتدائی دو عشروں کے اواخر تک بھی کہیں دکھائی نہ دیتی تھی۔ اگرچہ حلقہ ارباب ذوق، بزم شعر و ادب، گوشہءادب، وغیرہ ایسی تنظیمیں تھیں، جو ادب کے فروغ کے لئے اپنی ماہانہ نشستیں منعقد کیا کرتی تھیں، تاہم خصوصیت کے ساتھ نعتیہ ادب کا فروغ ان کا مطمح نظر نہ تھا ،چنانچہ یہ نشستیں بالعموم غزل و نظم یا افسا نہ و ا نشائیہ تک محدود رہتیں ۔، پھر یہ بھی ہوا کہ کچھ ادبی تنظیمیں وقتی جوش اور ولولے کے تحت قائم تو کر لی گئیں مگر ان کی سرگرمیاں ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ جاری نہ رکھی جا سکیں اور وقت گذرنے کے ساتھ یہ ادبی انجمنیں بھی قصہ پارینہ ہو گئیں ، ان میں منشاءیاد کی لکھنے والوں کی انجمن(۷۶۹۱ئ) ، ادیبوں کی مجلس عمل (۳۷ئ) ، رابطہ (۵۸ئ) اور فکشن فورم (۷۰۰۲ئ) ، اسلم ساگر کی پیپلز آرٹس کونسل (۵۷۹۱ئ)، سی ڈی اے کی بزم ادب و ثقافت( ۶۷۹۱ئ)، جمال حیدر صدیقی اور شکیل اختر کی ینگ رائٹرز فورم (۲۸ئ) ، شوکت واسطی کی بزم علم و فن(۵ ۸ئ)، ملک فدا الرحمن کی آئینہ (۶۸ئ)، اکبر حمزئی کی بزم اسعد (۶۸ئ)، اعتبار ساجد کی حصار (۴۸ئ) ، سید ظہیر زیدی کی بزم سلام (۲۰۰۲ئ)، وغیرہ کا تذکرہ مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد کی شائع کردہ کتاب : © اسلام آباد ۔ ادبی روایت کے پچاس سال، میں بھی موجود ہے۔ اس کتاب کی تحقیق و تالیف میں محبی جنید آزر نے واقعی خاصی عرق ریزی و جانفشانی سے کام لیا ہے۔ اسی کتاب میں جڑواں شہر راولپنڈی میں اس وقت مصروف عمل بزم فکر و فن، پنجابی ادبی محفل، پوٹھوہار اکیڈمی، رائٹرز کلب، رائٹرز گلڈ اور نیشنل یونین آف رائٹرز کا سرسری تذکرہ بھی ملتا ہے ۔

آج کل اسلام آباد ´ راولپنڈی میں سرگرم عمل دائرہ ، امکان، زاویہ، بزم ندیم ، انحراف، سخنور ، بزم اکبر اور کچھ دیگر ادبی تنظیمیں اپنے ادبی اجلاس یا تقریبات گاہے گاہے منعقد کر تی ہیں، نسیم سحر، سرفراز شاہد، غضنفر مہدی ، محسن شیخ، محبوب ظفر ،سید ضیاء الدین نعیم او ر جناب انجم خلیق جیسے معروف اہل قلم ان ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور نعتیہ ادبی نشستوں میں بھی اکثر و بیشتر نہ صرف شرکت کرتے رہتے ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر احباب نعتیہ مشاعروں کی میزبانی کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔

مارچ 1998ءمیں یہ تھا وہ عمومی ادبی منظر نامہ جس میں اسلام آباد میں پہلی مرتبہ راقم الحروف کی جانب سے اپنے گھر پر منعقدہ ایک نعتیہ مشاعرے کے اختتام پر شرکاءکے سامنے ایک باقاعدہ نعتیہ ادبی تنظیم کے قیام کی تجویز پیش کی گئی اور اسے بھرپور تائید حاصل ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ اس یادگار محفل میں اسلام آباد کے معروف نعت گو اور سیرت نگار علامہ بشیر حسین ناظم ، پروفیسر کرم حیدری، رئیس احمد صدیقی بدایونی، سبطین شاہجہانی،آل احمد رضوی اور صابر کاسگنجوی وغیرہ سبھی شریک تھے ، ( اب ا ن میں سے جناب سبطین شاہجہانی کے علاوہ سب ہی شخصیات ہمیں داغ مفارقت دے کر عالم بقا کا سفر اختیار کر چکی ہیں ) ۔ ہمارے مخلص دوست اور فروغ نعت کے مشن کے لئے آج خود کو وقف کر دینے والے، جناب نور احمد قادری بھی اس محفل میں شریک تھے، اگرچہ ابھی شعراءکی فہرست میں ان کا نام درج نہیں ہوا تھا۔ اسلامی کلینڈر کے مطابق یہ ۱۴۰۹۱ ھ کے ماہ رجب المرجب کی ۲۹ تاریخ تھی ۔ پروفیسر کرم حیدری جو اس محفل میں مہمان خصوصی تھے، کی تائید سے اس نعتیہ ادبی تنظیم کے لئے محفل نعت اسلام آبا د کا نام طے پایا او ر اگلے ہی ماہ یعنی اپریل 1998ءمیں اس تنظیم کی باقاعدہ تشکیل کے بعد پہلا ماہانہ نعتیہ مشاعرہ نو منتخب صدر جناب سبطین شاہجہانی کی اقامت گاہ پر ماہ رمضان المبارک کی با برکت ساعتوں میں منعقد ہوا۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ محفل نعت کا تاسیسی اجلاس جناب سبطین شاہجہانی کے دفتر میں ہوا تھا، وہ اس وقت وزارت مذہبی امور ، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس اجلاس میں کچھ بنیادی باتیں بھی طے کی گئیں اور تنظیم کے عہدیداران اور اراکین مجلس عاملہ کا تقرر بھی عمل میں آیا۔ متفقہ طور پر طے پانے والے اس انتخاب کی تفصیل کچھ یوں تھی:

صدر : محمد سبطین شاہجہانی، نائب صدر: : صابر کاسگنجوی، سکریٹری : عرش ہاشمی، جوائنٹ سیکریٹری: میاں تنویر قادری۔ اراکین مجلس عاملہ میں رئیس احمد صدیقی بدایونی، سید آل احمد رضوی، محمد عارف صدیقی، اقتدارالدین ساجد اور شیدا چشتی شامل تھے۔ آنے والے برسوں میں اس کاروان شوق میں بعض د یگر اہل محبت بھی شامل ہوئے اور اس تنظیم کو آگے لے جانے میں انھوں نے ایک فعال کردار ادا کیا ۔ ان میں موجودہ صدر تنظیم پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر، سید محمد حسن زیدی، سید آصف اکبر، حافظ نور احمد قادری، ڈاکٹر عزیز احسن اور سید ذاکر شاہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

یہاں یہ تذکرہ بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ یہ مضمون نگار ابتدا ہی سے اس کاروان مدحت میں نہ صرف یہ کہ شامل رہا بلکہ اسے بطور سیکریٹری خدمات انجام دینے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ البتہ جب 1995ء کے اواخر میں بعض احباب کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ،تنظیم کے مفاد میں ، اب کسی دوسرے رکن مجلس عاملہ کو ( عرش کی جگہ ) سکریٹری کے فرائض کا موقع ملنا چاہیئے۔ جب نئے انتخاب کے لئے تاریخ مقرر کی گئی ، ان دنوں اہلیہ کی علالت کے سبب راقم نے اپنی ممکنہ غیر حاضری سے صدر تنظیم کو مطلع کر دیا۔ ادھر وقت مقررہ پر ، جب اہلیہ کی حالت ذرا بہتر ہو گئی تو راقم ہسپتال سے سیدھا ماڈرن بک ڈپو پرہونے والے اجلاس میں جا پہنچا ۔ بہر حال جب مختلف عہدوں کے لئے نام پیش کئے گئے تو سب اراکین کی تائید اور اتفاق رائے سے صدراور نائب صدر کا فیصلہ ہو گیا۔سکریٹری کے لئے جب ایک نیا نام تجویز کیا گیا تو راقم کی رائے تھی کہ تنظیم کے مفاد میں ،آئندہ مدت کے لئے بھی موجودہ سکریٹری کو ہی کا م کرنے دیا جائے کیونکہ ہمارے نامزد ساتھی کے لئے سکریٹری کے فرائض کے سلسلے میں شاید اتنا وقت دینا ممکن نہ ہو اور اس طرح تنظیم کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم بعض اراکین کا اصرار تھاکہ اگرچہ کام مناسب انداز سے چل رہا ہے پھر بھی کسی دو سرے رکن کو بھی سیکریٹری کے فرائض انجام دینے کا موقع ملنا چاہیئے، چنانچہ کثرت رائے سے فیصلہ ان صاحب کے حق میں ہو گیا اور تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد اراکین سے فیصلوں پر دستخظ لئے جانے لگے۔ اب ہوا یہ کہ سید ذاکر شاہ ، جنھیں صدر کے عہدے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ،نے دستخط کرنے کی بجائے اچانک اپنا نام واپس لےنے اور اپنی جگہ عرش ہاشمی کا نام تجویز کرتے ہوئے اراکین کی رائے طلب کر لی۔ اس غیر متوقع صورت حال میں بعض اراکین نے اس تجویز کی تائید کر دی،۔ جبکہ بعض نے کہا کہ اگر ہاشمی (یعنی راقم الحروف) اس ذمہ داری کے لئے تیار ہوں تو انھیں بھی کوئی اعتراض نہیں ! چنانچہ اس طرح راقم الحروف ایک ڈرامائی صورت حال میں اور گویا بالکل حادثاتی طور پر صدر محفل نعت کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ( یہ البتہ ایک علیحدہ امر ہے کہ ہمارے جو ساتھی سیکریٹری کے عہدے پر منتخب ہو گئے تھے ، انھیں کچھ ہی عر صے میں ذیابیطس اور گردوں کے عارضے میں اچانک شدت کے سبب سکریٹری محفل نعت کے طور پر چند ماہ بھی کام کرنے کی مہلت نہ ملی اور وہ تقریبا سال بھر تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران محفل نعت کے صدر اور سیکریٹری کی تمام ذمہ داریاںبھی اس مضمون نگار کو ہی سنبھالنا پڑیں ۔ اور یہ سلسلہ کئی برس تک اسی طرح چلتا رہا۔ بعد میںجب 2004ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو خود اپنی استدعا پر، راقم کو ایک بار پھر متفقہ طور پر سیکریٹری محفل نعت کی ذمہ داری تفویض کر دی گئی، جو کہ آج تک راقم کے پاس ہی ہے ۔ جبکہ دیگر موجودہ عہدیداروں میں صدر :پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر، نائب صد ر :سید محمد حسن زیدی، جوائنٹ سیکریٹری : سید آصف اکبر اور سیکرٹری نشر و اشاعت : عبدالرشید چوہدری شامل ہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا کہ 1989ءسے قبل، دارالحکومت میں کسی باقاعدہ نعتیہ ادبی تنظیم کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ تاہم محفل نعت کے تاسیسی اجلاس میں ہی کچھ رہنما اصول و ضوابط کار متعین کر لئے گئے تھے ، مثلا :

الف ۔ یہ کہ نعت گو شعراءاور شاعرات کے مخلوط اجلاس یا ادبی نشستیں منعقد کرنے سے احتراز کیا جائے گا،

ب۔ یہ کہ ماہانہ نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کے لئے کوئی ایک جگہ متعین کرنے کی بجائے ہر ماہ دارالحکومت کی حدود میں واقع کسی سیکٹر یا مضافاتی علاقے میں وہاں کے کسی اہل قلم یا ادب دوست شخصیت کی میزبانی میں نشست منعقد کی جائے گی۔

ج۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ ماہانہ نشستوں کے سلسلے میں کسی شاعر یا اہم شخصیت کو صدر یا مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنے کی روایت بھی یہاں ختم کی جائے گی۔ اور

د۔ ہر ماہ میزبان کی سہولت کے پیش نظر نشست کے لئے مناسب تاریخ اور وقت مقرر کیا جا سکے گا۔ مزید یہ کہ شعرائے کرام کو ہر ماہ سکریٹری محفل نعت کی طرف سے دعوت دی جائے گی جب کہ سامعین کو مدعو کرنے میں میزبان اپنی سہولت کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ الحمد للہ عزوجل ان

تمام تر اصولوں پر اب تک نہایت کامیابی سے عمل کیا جا رہا ہے اور اس کے نہایت مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ اب ماہ بہ ماہ منعقد ہونے والی ان محافل مشاعرہ میں کیفیات اور برکات نہایت بھرپور اور واضح طور پر محسوس کی جانے لگی ہیں اور ان محافل میں شرکاءکی تعداد اور کلام کے معیار میں بھی خاصی بہتر ی آئی ہے ۔ جہاں تک ان نعتیہ ادبی محافل کے ثمرات کا تعلق ہے، یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران متعدد غزل گو شعراء نعت لکھنے کی طرف راغب ہوئے ہیں بلکہ بعض شعراء نے اپنی تمام تر فکر سخن نعت گوئی پر ہی مرکوز کر تے ہوئے غزل گوئی سے کنارہ کر لیا ہے۔ اسی طرح ایک تسلسل سے نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کا ایک اورخوش گوار ثمرہ اس دوران نئے نئے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام کا ایک تواتر سے سامنے آنا بھی ہے ۔

اگر ہم گذشتہ چند برسوں کے دوران اسلام آباد سے شائع ہونے والے نعتیہ مجموعوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد اہل قلم خواتین و حضرات کے نعتیہ مجموعے سامنے آئے ہیں اور کچھ اہل قلم خود بھی یہ اعتراف کرتے سنے گئے ہےں کہ ماہ بہ ماہ منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کا بھی ان کی نعت گوئی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بزم حمد و نعت اسلام آباد کے موجودہ صدر اور کہنہ مشق نعت گو شاعر رشید ساقی کے تین نعتیہ مجموعے تقدیس قلم، حدیث شوق او ر [[آئینہءعقیدت ۔

رشید ساقی | آئینہءعقیدت]] گذشتہ چند برسوں میں سامنے آئے اور یہ تینوں نعتیہ مجموعے حکومت کی جانب سے انعام کے مستحق قرار پائے ہیں۔ 

رشید ساقی کے علا وہ علامہ بشیر حسین ناظم کا نعتیہ مجموعہ : جمال جہاں فروز، علامہ قمر رعینی کا ولائے رسول ، ڈاکٹر سید ہلال جعفری مرحوم کے مجموعے ہلال حرم، کاسہءہلال، کشکول ہلال ( بعض شہرہ آفاق نعتوں پر لکھی تضامین کا مجموعہ) ، اور آخری مجموعہ توشہءہلال (جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوسکا ) ، پیر سید نصیر الدین نصیر(گولڑہ شریف) کا مجموعہءنعت دیں ہمہ اوست ، ڈاکٹر توصیف تبسم کا سلسبیل ، محمد حنیف نازش قادری کے مجموعے ۔۔ آبرو ۔۔ اور نیاز ، محمد سبطین شاہجہانی کا قلزم انوار ۔ نسیم سحر کا نعت نگینے ، شرف الدین شامی کا حسین مجموعہ : مقامات ، شہاب صفدر کا سبیل © ، سید محمد حسن زیدی کا کیف دوام حافظ نور احمد قادری کا پہلا نعتیہ مجموعہ متاع نور اور محترمہ نورین طلعت عروبہ کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے ربنا ، حاضری اور زہے مقدر خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

مقتدر نعت گو شعرائے کرام کے نعتیہ مجموعوں کے علاوہ 2003ء میں دارالحکومت میں لکھی جانے والی نعتوں کا ایک خوبصورت انتخاب ، شعراءکے جامع تعارف کے ساتھ علامہ قمر رعینی مرحوم نے ۳۰۰۲ ء میں تذکرہ نعت گویان راولپنڈی۔اسلام آباد کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے قیام پاکستان سے قبل سے لے کر ۳۰۰۲ ء تک کے ایک سو سے زائد شعراء کا تعارف اور نمونہءکلام شامل کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نعت گو شعراءکے علاوہ ان شعراءکو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا مجموعہءکلام ابھی منصئہ شہود پر نہیں آیا۔ علامہ رعینی مرحوم سے جب محافل میں ملاقات ہوتی ، ہمیشہ مجھ سے اپنا نعتیہ مجموعہ جلد شائع کرانے پر اصرار کرتے، (اگرچہ یہ کام اس وقت میری ترجیحات میں نہ تھا، نہ اب ہے،) اور میں ان کے خلوص اور شفقت بھرے اصرار پر ہر مرتبہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس سلسلے میںکوشش کرنے کا وعدہ کر لیتا ۔وہ کہتے میری بڑی خواہش ہے کہ میری زندگی میںتمھارا مجموعہءکلام چھپ جائے ۔ افسوس کہ میں ان کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکااور وہ آخر دم تک مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔

2014ء میں ایک اور بہت جامع اور وقیع انتخاب نعت سامنے آیا۔ اسے برادر محترم خورشید ربانی ( جو نعت گو شاعر ہونے کے ساتھ شعبہءصحافت سے تعلق رکھتے ہیں)، نے نئی صدی، نئی نعت کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس انتخاب میں وطن عزیز کے قدیم و جدید شعراءکی ایک ، ایک نعت شامل کی گئی ہے۔ مقتدر اور نامور شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ راولپنڈی، ´ اسلام آباد کے پچاس کے قریب نعت گو شعراءو شاعرات کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ بلا شبہ ، یہ حسین انتخاب جہاں اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں وطن عزیز میں لکھی جانے والی نعت کے خد و خال ا و ر تازہ رجحانات سے اپنے قاری کو کامیابی سے روشناس کراتا ہے، وہیں یہ کتاب اپنے مرتب کی محنت، عرق ریزی اور اعلے ذوقی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے ۔ 2001ء میں اسلام آباد میں فروغ نعت کے مقصد کو لے کر قائم کی جانے والی دوسری تنظیم بزم حمد و نعت کے نام سے سامنے آئی۔ اس کے مدارالمہام۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عوام کی زبان میں ۔کرتا دھرتا ۔۔۔۔ جناب حافظ نور احمد قادری ہیں جو اس تنظیم کے بانی جنرل سیکریٹری ہیں اور اس بزم کو حتی المقدور سرگرم اور فعال رکھنے کا سہر ا بھی ان کے سر ہے۔ کئی نعتیہ مجموعوں کے خالق اور منفرد لب و لہجہ کے نعت گو شاعر سید ہلال جعفری (مرحوم ) بزم حمد و نعت کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے ۔ اکتوبر ۱۰۰۲ ء میں جعفری صاحب کے انتقال کے بعد علامہ بشیر حسین ناظم (مرحوم )کئی برس تک اس تنظیم کے صدر رہے۔ جون ۲۱۰۲ءمیں جب انھوں نے بھی عالم جاودانی کا سفر اختیار کیا تو ان کی جگہ موجودہ صدر جناب رشید ساقی کا انتخاب کیا گیا۔ جبکہ اراکین مجلس عاملہ میں جناب جنید آزر، کاشف عرفان، اطہر ضیا ء اور دیگر شامل ہیں۔ یہ بزم نہ صرف باقاعدگی سے ماہانہ نعتیہ مشاعرہ ،( بالعموم ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو) منعقد کرتی آ رہی ہے بلکہ اس کی تقریبات میں کیفیت اور شرکاءکی تعداد و معیار کے لحاظ سے خاصی پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ بزم حمد و نعت ، اسلام آباد کی ماہانہ شعری نشست معاصر دینی و فلاحی تنظیم المصطفے ﷺ ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے ، سوسائٹی کے دفتر ہی میں منعقد کی جاتی ہے۔ ہر سال ربیع الاول شریف کے مہینے میں بزم کا سالانہ مشاعرہ نہایت اہتمام و انصرام کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ بات خصوصیت سے لائق تحسین ہے کہ اتنے برسوں سے ہر ماہ محفل کے لئے جملہ انتظامات بشمول نشست کے اختتام پر شرکاءکے لئے ماحضر پیش کرنے کی سعادت حافظ نور احمد قادری کو حاصل ہو ر ہی ہے ۔

یہاں یہ امر لائق ستائش ہے اور میں بصد مسرت اسے یہاں بیان کرنا چا ہتا ہوں کہ پہلے سے سرگرم عمل محفل نعت پاکستان، اور بزم حمد و نعت کے تمام اراکین کے آپس میں بڑے پر خلوص اور دوستانہ روابط ہیں۔ باہمی تعاون اور رابطے کے سلسلہ میں تمام تر کریڈٹ جنرل سیکریٹری بزم حمد و نعت جناب حافظ نور احمد قادری کو جاتا ہے، کہ وہ خود بھی محفل نعت کے ماہانہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں اور اپنی بزم کی ادبی نشستوں کی دعوت بھی اراکین محفل نعت کو ہر ماہ باقاعدگی سے پہنچاتے ہیں۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ۱۰۰۲ءمیں بزم حمد و نعت کی تشکیل سے قبل جناب حافظ نور احمد قادری بھی نہ صرف محفل نعت کے اہم اراکین میں شامل تھے، بلکہ کچھ مدت کے لئے انھیں محفل نعت کے جوائنٹ سکریٹری اور سکریٹری نشر و اشاعت کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنے کی سعادت بھی ملی ہے۔ حافظ نور احمد قادری اور عرش ہاشمی (راقم الحروف) کے درمیان گذشتہ چار عشروں سے نہایت پر خلوص اور برادرانہ تعلقات رہے ہیں اور یہ تعلقات محفل نعت پاکستان اور بزم حمد و نعت کے قیا م کے بعدبھی آج پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکے ہیں ۔

نعت گوئی کے حوالے سے متعدد ایسی اہم شخصیات ماضی میں اسلام آباد میں قیام پذیر رہی ہیں، جن کی یہاں موجودگی کے نعتیہ ادبی منظر نامے پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔ بعد میں یہ اہل قلم دیگر شہروں میں قیام پذیر ہو گئے اور وہاں کی ادبی سرگرمیوں میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر عزیز احسن،سید ناصر زیدی، عقیل عباس جعفری، کرامت بخاری او ر کچھ دیگر اہل قلم شامل ہیں۔ خاص طور سے جناب ڈاکٹر عزیز احسن اور سید ناصر زیدی نے اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران یہاں ہونے والے ماہانہ نعتیہ مشاعروں کے سلسلے میں بہت زیادہ فعال اور اہم حصہ لیا۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان محافل میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے، بلکہ ان شخصیات کی وساطت سے کئی دوسر ے پرخلوص حضرات بھی نعتیہ ادبی ماحول سے متعارف ہوئے۔ جناب سید ناصر زیدی چونکہ صحافتی حلقوں سے بھی تعلق رکھتے تھے، لہذا انھوں نے اپنے اخباری کالموں میں بھی ان نعتیہ مشاعروں کا نہایت خوبصورت انداز سے تذکرہ کرتے ہوئے نعتیہ ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا۔ جناب عزیز احسن محفل نعت ، اسلام آباد کی مجلس عاملہ کے فعال اور سرگرم اراکین میں شامل تھے ، حتی کہ ایک مرحلے پر انھیں کچھ عرصے کے لئے تنظیم کے صد ر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنی پڑیں ۔

اسی طرح بعض ادب دوست اور سخن فہم حضرات نے بھی اسلام آباد کی نعتیہ ادبی سرگرمیوں میں بھرپور دلچسپی لی اور نعتیہ ادبی محافل کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان میں دارالحکومت میں سب سے پہلا قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے والے جناب عبدالرشید منہاس بھی ہیں، جن کے نام سے سیکٹر جی الیون ون میں منہاس چوک بھی موجود ہے ،( کچھ ہی عرصہ قبل ان کا انتقال ہوا) ۔انھوں نے نہ صرف محفل نعت کے تحت مختلف نشستوں میں شرکت کی بلکہ خود متعدد مرتبہ میزبانی کی سعادت بھی حاصل کی۔

ایسی ہی ایک اور شخصیت ، ماڈرن بک ڈپو، سوک سنٹر، اسلام آباد کے مالک جناب سید ذاکر شاہ کی ہے ، جو کہ محفل نعت پاکستان کے ابتدائی ایام کے اراکین میں سے ہیں۔ آپ کئی مرتبہ ماہانہ مشاعروں کی میزبانی کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی خدمات کے اعتراف میں جب ایک مرتبہ انھیں صدر محفل نعت کے طور پر منتخب کر لیا گیا ، تو انھوں نے معذرت کی اور اپنا نام واپس لیتے ہوئے اپنی جگہ راقم الحروف کا نام پیش کیا اور ان کے احترام میں تمام اراکین مجلس عاملہ نے آپ کی تجویزکو قبول کیا۔( اس واقعے کی تفصیل آپ پہلے ہی ملاحظہ کر چکے ہیں)۔

ایک اور علمی شخصیت قاضی اقتدارالاسلام ہاشمی(مرحوم) کی تھی، تا ریخ اسلام جن کا خاص مضمون تھا۔ جو خود نعت گو شاعر تو نہ تھے ،تاہم سرکار رسالت مآبﷺ کے عشق سے آپ کا سینہ معمور تھا اور طبعیت ایسی پر سوز ، کہ ادھر کسی نعت خوان نے نعت شریف کا مطلع پیش کیا ، ادھر ان کی آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ گئی۔ مکمل ڈوب کر نعتیہ کلام سنتے اور ایسا ہی استغراق نعت خوان سے بھی چاہتے۔ راقم الحروف پر خصوصی شفقت فرماتے۔ محفل نعت کے ابتدائی دنوں میں ، ایک مرتبہ اس مضمون نگار کے عرض کرنے پر انھوںنے بھی ایک نعتیہ مشاعرہ اپنی رہائش گاہ پر منعقد کروایا ۔ اس محفل کی صدارت جناب ڈاکٹر توصیف تبسم نے کی تھی جبکہ ڈاکٹر خورشید رضوی اس موقع پر مہمان خصوصی تھے اور یہ بھی نہایت کامیاب اور یادگار نشستوں میں سے ایک تھی۔

اسلام آباد میں نعتیہ ادبی نشستوں کی داغ بیل ڈالنے کی غرض سے مختلف اخبارات کے مدیران سے بھی رابطے کئے گئے اور انھیں اپنے دفاتر میں ایسی نشستیں منعقد کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔ چنانچہ ۵۹۹۱ ء میں ماہ رمضان المبارک کی با برکت ساعتوں میں روزنامہ خبریں کے زیر اہتمام ایک یادگار نعتیہ مشاعرہ علامہ بشیر حسین ناظم کی صدارت میں شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوا ۔جس میں اخبار کے ایڈیٹر جناب خوشنود علی خاں خود شریک ہوئے اور یہ محفل افطار اور نماز مغرب پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس محفل کی نظامت کی سعادت بھی راقم التحریر کے حصے میںآ ئی تھی۔ اسی طرح روزنامہ ڈیلی میل ، روزنامہ ہمدرد، روزنامہ دنیا اور روزنامہ پاکستان ، اسلام آباد کے دفاتر میں بھی نعتیہ مشاعرے کی خصوصی نشستیں منعقد کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

اسلام آباد میں متعدد سرکاری ادارے ایسے ہیں جن کا مثبت کردار یہاں نعتیہ ادب کے فروغ میں ممد و معاون رہا ہے۔ اور ان اداروں میں سر فہرست اکادمی ادبیات پاکستان ہے ۔ جنرل شفیق الرحمن اور افتخار عارف جیسے ممتاز اور معروف اہل قلم ماضی میں اکادمی کے سربراہ رہے ہیں، اور آج کل اس کے چیئر مین جناب محمد قاسم بگھیو ہیں، ۔۔۔ اکادمی ادبیات کے کانفرنس ہال میں سارا سال ہی ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، ہر سال ربیع الاول شریف کے مہینے میں اکادمی کے تحت بھی نعتیہ مشاعرہ اور محرم الحرام میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بعد میں ان تقریبات کی خبریں اکادمی کے خبرنامے میں نمایاں طور پر شائع کی جاتی ہیں ۔ سہ ماہی ادبیات اکادمی ادبیات پاکستان کا سرکاری جریدہ ہے۔ اکادمی کے جریدے اور خبرنامے کی اشاعت میں باقاعد گی اور مندرجات کے معیار میں بھی حالیہ برسوں میں مزید بہتری آئی ہے۔ اکادمی نے ۴۱۰ ۲ ء میں اپنے مجلے ادبیات کا ایک نہایت ضخیم اور وقیع نعت نمبر شائع کیا ، جسے ادبی حلقوں کی جانب سے خاصی پذیرائی ملی۔ اگرچہ اس خاص نمبر میں کچھ اہم اہل قلم ،( مثلا اردو اور پنجابی میں متعدد نعتیہ مجموعوں کے خالق محمد حنیف نازش قادری اور سابق چیئرمین ، اکادمی ادبیات اور منفرد لہجے کے شاعر جناب افتخار عارف ) شامل ہونے سے رہ گئے تھے، تاہم اس نعت نمبر کو اکادمی ادبیات کی ایک کامیاب کوشش کہا جا سکتا ہے۔

ایک طرف اکادمی کی اپنی علمی و ادبی تقریبات کا سلسلہ رہتا ہے تو دوسری طرف مختلف ادبی تنظیموں اور اکادمی ادبیات کے باہمی اشتراک و تعاون سے ممتاز اہل قلم کے اعزاز میں سجائی جانے والی تقریبات پذیرائی او ر مختلف مجموعہ ہائے کلام کی تقریبات رونمائی بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ۶۱۰۲ ء میں بزم حمد و نعت نے بھی اکادمی ادبیات کے تعاون سے اسلام آباد کے بزرگ ترین شاعر اور متعددنعتیہ مجموعوں کے خالق جناب رشید ساقی کے لئے ایک تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا اور یہ تقریب بہت ہی کامیاب رہی۔ اس سے کچھ عرسہ پیشتر، محفل نعت پاکستان کے زیر اہتمام بھی جناب شاہد کوثری کے نعتیہ مجموعے ہا لہ ءرحمت کی رونمائی کی تقریب اکادمی کے کانفرنس ہال میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ کے زیر صدارت منعقد کی گئی تھی ۔ اس تقریب میں ممتاز نعت گوشاعر اور محقق جناب ڈاکٹر ریاض مجید مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے تھے۔

تا حال دارالحکومت سے کوئی نعتیہ ادبی جریدہ تو جاری نہیں ہو ا ہے۔ کچھ دینی اداروں اور مدارس کے زیر انتظام دینی نوعیت کے ماہانہ رسائل نکلتے ہیںمگر ، جیسا کہ ظاہر ہے، ان کی اشاعت اور دائرہ اثرزیادہ تر ایک حلقہء ارادت و عقیدت تک ہی ہوتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان رسائل میں شامل تحریری مواد کا ادبی لحاظ سے معیاری ہونا بھی ضروری اور لازمی نہیں ہوتا۔ اس صورتحال میں سید منصور عاقل (جو ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بھی شاعری اور نقد و نظر دونوں اعتبارسے منفرد مقام رکھتے ہیں)کی الاقرباءفاوئنڈیشن کے زیر انتظام ایک بلند پایہ ادبی و تحقیقی مجلہ ،سہ ماہی الاقرباء کا اجراء اہل ادب کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس جریدے کاامتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ممتاز اہل قلم سے ان کی غیر مطبوعہ نگارشات حاصل کر کے شائع کی جاتی ہیں ۔ الاقرباء کے ذریعے جناب سید منصور عاقل، وطن عزیز میں اردو زبان کے سرکاری زبان کی حیثیت سے نفاذ کے لئے نہایت موثر انداز میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں ۔ ہر سال جنوری میں اس جریدے کا نہایت وقیع سالنامہ شائع کیا جاتا ہے۔ اس جریدے کو بین الاقوامی معیار تک پہنچانے اور پھر اس کا اعلے معیار برقرار رکھنے کی خاطر سید منصور عاقل جس قدر جانفشانی اور عرق ریزی سے کام لیتے ہیں ، وہ اپنی جگہ ایک روشن مثال ہے۔ پاک و ہند کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی نامور اہل قلم کی نگارشات سے مزین اس ادبی جریدے کے ہر شمارے میں ممتاز نعت گو شعراء کی ایک کہکشاں بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

برادرم سید صبیح رحمانی نے کراچی سے نعتیہ ادبی اور تحقیقی و تنقیدی مجلہ نعت رنگ جاری کیا تو اسلام آباد میںنعتیہ ادب کے فروغ کے لئے کوشاں اہل قلم کا بھی جناب ڈاکٹر عز یزاحسن کی وساطت سے اس مجلے سے رابطہ ہوا۔ چنانچہ جب ۵۰۰۲ء میں امام نعت گویاں ، اعلیحضرت الشاہ احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کی نعت گوئی کے حوالے سے نعت رنگ کا خصوصی نمبرشائع کرنے کا فیصلہ کیاگیا، تو جناب صبیح رحمانی کی تحریک پر اس خاص نمبر کے لئے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمتہ کے نعتیہ کلام کے حوالے سے اسلام آباد میں بھی ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ مذاکرہ کی نشست علامہ قمر رعینی مرحوم کی اقامت گاہ پر ہوئی تھی اور شرکائے گفتگو تھے علامہ بشیر حسین ناظم (مرحوم)، علامہ قمر رعینی (مرحوم)، سید آصف اکبر، ڈاکٹر عزیز احسن اور یہ راقم التحریر (عرش ہاشمی )۔ اس مذ اکرے میں اس دور میں انگریزوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کی اسلام دشمن سازشوں کے پس منظر میں اعلیحضرت علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے حق کی طرف سے کی جانے والی کوششوں اور بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول کی شمع از سر نو روشن کرنے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ نعت رنگ شمارہ ۸۱(اعلیحضرت احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نمبر) میں یہ مذاکرہ شامل ہوا تھا۔

حکومت پاکستان نے دارالحکومت کے شہریوں، با لخصوص سرکاری ملازمین کی سماجی و معاشرتی تقریبات وغیرہ کے لئے متعدد مراکز ( کمیونٹی سنٹرز ) مختلف سیکٹرز میں قائم کئے ہیں ، ان مراکز کے افسران کی جانب سے بھی نعتیہ ادبی نشستوں کے انعقاد کے سلسلے میں ہمیشہ تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔ محفل نعت پاکستان کے زیر اہتمام وقتا فوقتا ان سنٹرز پر بھی نعتیہ مشاعرے کی نشستیں منعقد کی جاتی رہی ہےں ، اور ایسی نشستیں عوام کو شرکت کے لئے ایک بہتر ین موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ مراکز عوامی سہولت کے پیش نظر ایسی مرکزی جگہوں پر قائم کئے گئے ہیں جہاں ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی زیادہ تر بآسانی دستیاب ہوتی ہے، لہذا ایسی تقریبات میں اہل قلم بھی بآ سانی شریک ہو سکتے ہیں ۔۶۱۰۲ءکے اواخر میں ایسی ہی ایک محفل مشاعرہ ، جی سیون مرکز میں قائم چوہدری رحمت علی کمیونٹی سنٹر کے تعاون سے منعقد کی گئی جس میں کمیونٹی سنٹر کے سربراہ جناب چوہدری محمدحفیظ اللہ نے بھی شرکت کی اور آ ئندہ بھی اپنی جانب سے مکمل تعاون کی پیشکش کی ۔ اسی طرح دسمبر ۶۱ء میں ایک تقریب نامور نعت گو شاعر جناب محمد حنیف نازش قادری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تقریب پذیرائی کے عنوان سے راولپنڈی آرٹس کونسل میں بزم حمد و نعت کی جانب سے منعقد کی گئی جو بلاشبہ ایک نہایت یادگار اور کامیاب تقریب تھی۔

محفل نعت پاکستان ، اسلام آبادکے زیر اہتمام مشاعرے کی خاص خاص نشستیںاب تک میریٹ ہوٹل، لوک ورثہ کے قومی ادارے، اسلام آباد کلب، راولپنڈی آرٹس کونسل، اکادمی ادبیات کے کانفرنس ہال کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں منعقد کی جا چکی ہیں۔ ماہانہ مشاعروں کے اس سلسلے کی نشستیں نہ صرف دارالحکومت کے تمام شہری علاقوں (سیکٹرز) میں منعقد کی جا چکی ہیں بلکہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں سے روات، سہالہ، بھارہ کہو، گارڈن ٹاﺅن، بحریہ ٹاﺅن، نیول اینکریج ، فضائیہ کالونی ، ڈی ایچ اے، مارگلہ ٹاﺅن ، ، گولڑہ شریف وغیرہ میں بھی منعقد کی جا چکی ہےں ۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ کسی محفل میں بطور سامع شرکت کرنے والے خوش نصیب کو آئندہ میزبانی کی سعادت حاصل ہو گئی۔ ایسے ہی ایک مرتبہ انجینیئر محمد عثمان قریشی جو عمدہ ادبی ذوق رکھنے کے علاوہ شطرنج اور برج کے مشاق کھلاڑی بھی تھے اور نہایت خوش لباس و خوش وضع شخصیت تھے، سید آصف اکبر کی دعوت پر سامع کی حیثیت سے ایک نعتیہ نشست میں شریک ہوئے۔ پہلی مرتبہ نعت گو شعراءکو قریب سے سننے اور محفل کی کیفیات سے ایسے متاثر ہوئے کہ چند روز بعد انھوں نے اس مضمون نگار کے دفتر آ کر آئندہ کسی محفل کی میزبانی کی سعادت پانے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ کہنے لگے ، اگرچہ میں یہاں فیملی کے بغیر ، کرایہ پر کمرہ لے کر رہ رہا ہوں، پھر بھی اگر آپ چاہیں تو یہ نعتیہ نشست اسلام آباد کلب میں بھی منعقد کروائی جا سکتی ہے !۔ چنانچہ چند ماہ بعد شعرائے کرام اس صورت حال کا مشاہدہ کر کے حیران تھے کہ اسلام آباد کلب کے شاندار ماحول میں باقاعدہ فرشی نشست کے اہتمام و انصرام اور شاندار ڈنر کے ساتھ ماہانہ نعتیہ نشست قریشی صاحب کی میزبانی میں سجائی گئی تھی۔ افسوس کہ کچھ عرصہ پیشتر عثمان قریشی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ع۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا !

ہر سال مارچ کے مہینے میں دارالحکومت کی اولین نعتیہ ادبی تنظیم ، محفل نعت پاکستان کے سال کی تکمیل ہوتی ہے اور اپریل میں ایک شاندار سالانہ مشاعرے کے انعقاد کے ساتھ نئے ادبی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ شعرائے کرام کی سہولت کی خاطر پہلے پہل سالانہ مشاعرہ بھی کسی ردیف کی پابندی کے بغیرمنعقد کیا جاتا تھا۔ البتہ آج سے کوئی دس برس قبل، دبستان وارثیہ ، کراچی کے ناظم اعلی اور ممتاز نعت گو شاعر ، جناب قمر وارثی نے سیکریٹری محفل نعت سے فو ن پر رابطہ کیا اور دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی(محفل نعت کے اشتراک سے) ردیفی نعتیہ مشاعرہ کے انعقاد کی خواہش ظاہر کی۔ اس طرح ہر سال (اپریل میں) سالانہ نعتیہ مشاعرہ ردیفی مشاعرے کے طور پر منعقد کرنے کا سلسلہ ۸۰۰۲ ء سے شروع ہوا۔ پہلے سال مشاعرے کے لئے ردیف © ہزاروں ، کا انتخاب کیا گیا۔ یہ محفل توقع سے بڑھ کر کامیاب ہوئی۔ دبستان وارثیہ کی وساطت سے دی گئی ردیف کا ملک بھر میں شعرائے کرام تک کافی عرصہ پہلے سے پہنچ جانا ، اس کا ایک سبب تھا۔ اسی طرح بعد کے برسوں میں سالانہ مشاعروں کے لئے اسوہءنبی ﷺ ، یقیں ، گفتگو ؛؛ ، ضوفشاں ، مطمئن ، شب و روز ، اوصاف حمیدہ ، اور آپ سے کی ردیفیں دی گئیں اور نہایت بھرپور اور کامیاب نعتیہ مشاعرے ان ردیفوں پر منعقد ہوئے۔ اس طرح ایک طرف طرحی مشاعروں میں، در آ نے والی، مصرعوں اور قوافی کی یکسانیت سے بچتے ہوئے، ایک ہی ردیف مگر مختلف بحور اور قوافی کے ساتھ تازہ بہ تازہ نعوت پاک کا نذ رانہ بارگاہ سرور کونین ﷺ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا ممکن ہو گیا۔ امسال(۷۱۰۲ئ) ماہ اپریل میں اسی روایت کے تسلسل میں دبستان وارثیہ کراچی کے اشتراک سے محفل نعت پاکستان کے زیر اہتمام © © کے سببکی ردیف میں سالانہ ردیفی مشاعرہ اکادمی ادبیات ، اسلام ا ٓباد کے کانفرنس ہال میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت کراچی سے تشریف لانے والے ممتاز نعت گو شاعر جناب قمر وارثی نے کی جبکہ اس موقعہ پر حضرت پیر فیض الامین فاروقی چشتی سیالوی، جو گجرات سے خاص طور سے اس محفل کے لئے تشریف لائے تھے، مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔۔

اس مرتبہ سالانہ محفل میں جو نعت گو شعرائے کرام شریک ہوئے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: جناب قمر وارثی(کراچی)،پیرفیض الامین فاروقی اور صاحبزادہ نجم الامین عروس فاروقی(گجرات) ، ،جناب سید ابرار حسین(آپ وطن عزیز کے سفیر متعینہ کابل ہیں، جو اس محفل میںخاص طور سے شریک ہوئے) ، جناب شہاب صفدر (ڈی آئی خان)، جناب سید طاہر(ڈی جی خان)، جناب شبیر احمد موج( جیکب آباد)،جناب محمد آصف قادری اور جناب قیصر ابدالی(واہ کینٹ) ، جناب پیر عتیق احمد چشتی(گوجر خان)، اور جناب ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش(حسن ابدال) ۔ اسلام آباد ؛راولپنڈی کے جڑواں شہروں سے: جناب ڈاکٹر احسان اکبر(صدر محفل نعت پاکستان)، جناب رشید ساقی(صدر بزم حمد و نعت) جناب نسیم سحر، جناب عبد القادر تاباں، جناب سید ضیاءالدین نعیم، ،جناب میاں تنویر قادری، جناب شاہد کوثری، جناب حافظ نور احمد قادری، جناب رشید امین، جناب سعید انور، جناب علی یاسر، جناب سید محمد حسن زیدی، جناب علی احمد قمر، جناب ڈاکٹر عزیز فیصل، جناب سید تنویر حیدر، جناب سید جاوید رضا، جناب شاہدالرحمن، جناب اسلم ساگر، جناب احمد محمود الزماں اور راقم ، عرش ہاشمی(ناظم مشاعرہ ، سکریٹری، محفل نعت پاکستان، اسلام آباد) ۔

شریک محفل شعرائے کرام کے علاو ہ بعض نعت گو شعر اءکی جانب سے صرف ردیفی نعت شریف ہی موصو ل ہو سکی ، ان میں صحت کی خرابی کے سبب سے جناب الحاج محمد حنیف نازش قادری اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، جبکہ دیگر ناگزیروجوہ سے ڈاکٹر انیس الرحمن خان(سکھر)، جناب شاکرالقادری( مدیر سہ ماہی فروغ نعت اٹک)، جناب افتخار یوسف اور جناب وقار عمران کے علاوہ دو خوبصورت ردیفی نعتیں محترمہ نورین طلعت عروبہ اور محترمہ در شہوار توصیف کی جانب سے عین دوران مشاعرہ، انٹرنیٹ کے ذریعے وصول ہوئیں۔

اس مرتبہ سالانہ محفل کی میزبانی کی سعادت جناب سید محمد حسن زیدی اور جناب سید ابرار حسین نے مشترکہ طور پر حاصل کی۔( سالانہ مشاعرے کی تفصیلی روداد بھی آپ اسی شمارے میں ملاحظہ کر یں گے)۔

گذشتہ برسوں کے دوران اسلام آباد ،راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی سے جناب قمر وارثی ، جناب امین بنارسی اور جناب شوکت قادری (مرحوم) ،سکھر سے ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر انیس الرحمن خان، جیکب آباد سے جناب شبیر احمد موج، لاہور سے عارف منصور ( مرحوم)، ڈی جی خان سے جناب سید طاہر، ملتان سے محمد حسین سحر(مرحوم)، فیصل آباد سے جناب ڈاکٹر ریاض مجید، راولپنڈی سے حکیم سرو سہارنپوری (مرحوم) گولڑہ شریف سے حضرت پیر سیدنصیرالدین نصیر ( مرحوم)، بہاولپور سے جناب تابش الوری، اٹک سے جناب سجاد حسین ساجد، واہ کینٹ سے جناب محمد عارف قادری ، محمد آصف قادری اور جناب قیصر ابدالی اور حسن ابدال سے ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش کے علاوہ کوئٹہ اور کئی ´دیگر شہروں سے بھی مقتدر نعت گو شعرائے کرام ان یادگار اور پر کیف سالانہ ردیفی محافل مشاعرہ میںشرکت کی سعادت پاتے رہے ہیں۔

ماہانہ نعتیہ مشاعروں او ر اسی طرح محفل نعت پاکستان اور بزم حمد و نعت کی دیگر تقریبات کی تفصیلی روداد (رپورٹ) اسلام ا ٓباد کے مختلف اخبارات کو جاری کی جاتی رہی ہے جس سے عوام کو بھی نعتیہ ادبی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے ۔ اکثر ان ادبی رپورٹوں میں منتخب گلہائے نعت بھی شائع کئے جاتے ہیں، جو کہ عوام کی دلچسپی اور ان کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہیں۔

اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کے ادبی ایڈیشن کے سابق مدیر جناب سید عارف (مرحوم ) کا تعاون خصوصی طور پر یاد رہے گا۔ سید عارف مرحوم خود بھی ایک صاحب طرز نعت گو شاعر تھے اور ہمیشہ نعتیہ نشستوں کی روداد ادبی صفحے پر نمایاں طور شائع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح روزنامہ پاکستان اسلام آباد کی ہفتہ وار ادبی اشاعت ایوان ادب میں بھی نعتیہ ادبی نشستوں کی روداد ایک تسلسل سے شائع کی جاتی ہے۔ اس کے لئے برادر گرامی سید رسول ترگوی ادبی حلقوں کے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔

آج سے کافی عرصہ پیشتر، جب روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے نگران جناب مظہر الا سلام ہوا کرتے تھے ، تو ہمیشہ نعتیہ ادبی سرگرمیوں سے متعلق خبروں اور رپورٹس کی ادبی صفحے پر اشاعت کے سلسلے میں ان کا تعاون بھی ہمیں حاصل رہا۔ بعد میں جب یہ ذمہ داری ان کے پاس نہ رہی ، تب بھی ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے ملتے ۔ ان کا دھیما دھیما انداز گفتگو آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ بعد میں جب وہ لوک ورثہ کے قومی ادارے میں تعینات تھے تو ایک مرتبہ سالانہ نعتیہ مشاعرے کی یادگار محفل ان کے تعاون سے ادارے کے مرکزی آڈیٹوریم میں منعقد کرانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس محفل مشاعرہ کے دو دور ہوئے تھے۔ پہلے دور کی صدارت پیر سید نصیرالدین نصیر (گولڑہ شریف) نے جبکہ دوسرے دور کی جناب تابش الوری نے کی تھی ۔ اس یادگار مشاعرے کی نظامت کی سعادت راقم(عرش ہاشمی) کے حصے میں آئی تھی۔

اسلام آباد میں نعتیہ ادب کے فروغ میں اپنا بیش بہا حصہ شامل کرنے والوں میں ایک ادب دوست شخصیت کے طور پر جناب ایس ایم روﺅف (مرحوم )کو بھی ہمیشہ محبت کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے یہاں غیر ملکی زبانوں کے کورسز کرانے کے علاوہ مختلف ٹیکنیکل تربیتی کورسز کا ادارہ ہاﺅس آف نالج قائم کیا تھا اور ادارے کے سربراہ بھی وہ خود تھے ۔ انھوں نے نعتیہ ادب کے فروغ میں ہمیشہ بھرپور دلچسپی لی اور کئی مرتبہ نعتیہ مشاعرے کی نشست کی میزبانی کی سعادت حاصل کی۔ روﺅف صاحب خود سخنور نہ سہی ، اچھے خاصے سخن فہم ضرور تھے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک صاحب دل انسان تھے۔ جب جب ان کی میزبانی میں ہاﺅس آف نالج میں نعتیہ مشاعرے کا انعقاد ہوتا، روﺅف صاحب کی کسر نفسی اور عاجزی کے علاوہ ذکر رسول سے قلبی تعلق اور سچی لگن کا مشاہدہ شعرائے کرام کو بے حدمتاثر کرتا۔

ایک مرتبہ جب ان کے ادارے میں نعتیہ مشاعرے کی محفل جاری تھی اور ابھی اگلے شاعر کا نام پکارا ہی جا رہا تھا کہ دفعتا روﺅف صاحب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ جس طرح اچانک کوئی خیال ، کوئی شعر یا مصرعہ کسی شاعر کے ذہن میں آ جاتا ہے، اسی طرح بالکل ابھی ابھی یہ خیال میرے ذہن میں آ یا ہے کہ آ ج کی محفل میں شریک نعت گو شعراء میں سے ایک خوش نصیب کو بذریعہءقرعہ اندازی منتخب کر کے ہاﺅس آف نالج کی طرف سے عمرے کے لئے بھیجا جائے گا۔ چنانچہ تمام شعراءمیں اس مبارک اعلان کے بعد جذب و شوق کا گویا اب عالم ہی اور تھا ، کہ اتنے میںسامعین میں سے ایک صاحب نے نہایت پر زور طریقے سے سامعین کے نام بھی قرعہ اندازی میں شامل کئے جانے کی تجویز پیش کر دی ۔

چنانچہ پھر ہوا یہ کہ محفل کے اختتام پر پہلے اس تجویز پر قرعہ اندازی کی گئی اور اس کے نتیجے میں سامعین کے نام بھی شامل کئے گئے۔ تاہم اس روز قرعہ ءفال غزل اور نعت کے منفرد لہجے کے شاعر جناب مسرور جالندھری (مرحوم) کے نام کا نکلا اور کچھ عرصہ بعد ہی انھوں نے ہاﺅس آف نالج کی طرف سے عمرے کی سعادت حاصل کی۔ آج ہاﺅس آف نالج میں ایس ایم روﺅف صاحب تو موجود نہیں ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور تا دیر باقی رہیں گی۔ انھی کے رفقاءکار میں سے ایک جناب ارشد اقبال سے راقم کی دوستی آج بھی قائم ہے او ر ارشد صاحب بھی جناب ایس ایم روﺅف(مرحوم) ہی کی طرح محفل نعت پاکستان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں نعتیہ ادبی منظرنامے کی تشکیل و ترویج یقینا رفتہ رفتہ ہوئی ہے۔ گویا یہ چوتھائی صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ فروغ نعتیہ ادب کے لئے یہ سازگار ماحول جیسا آج ہماری نظروں کے سامنے ہے، اس کے پیچھے کتنے ہی خوش نصیب ا دب دوست حضرات کی پیہم کاوشیں اور کوششیں کار فرما رہی ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی بزرگ اہل قلم اپنی محنتوں کا مبارک ثمرہ دیکھنے کو آج ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ اللہ عز و جل انھیں اپنی رحمتوں سے نوازے، آمین۔ ان میںکچھ ایسے نعت گوشعراءبھی ہیں جنھوں نے نہ شدید موسمی حالات کی پروا کی اور نہ ان میں سے بعض کی پیرانہ سالی یا کوئی اور ذاتی مصروفیت کبھی اس راہ میں ان کے آڑے آئی۔ یہ مبارک سلسلہءتوصیف سرکار رسالت مآب ﷺ زیادہ تر ان شعراء نے مل کر کامیابی سے آگے بڑھایا جو خود اس وقت بالعموم غزلیہ شاعری کر رہے تھے مگر اب نعتیہ نشستوں کو کامیاب بنانے کے لئے ان میں شرکت کر کے نذرانہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔ ان میں جناب رئیس بدایونی ، جناب علامہ قمر رعینی ، جناب نیساں اکبر آبادی، جناب مسرور جالندھری، جناب شکیل فاروقی، جناب سید سلمان رضوی، جناب شمیم متھراوی، جناب صابر کاسگنجوی ، جناب پروفیسر محمد جان عالم، جناب پروفیسر انور حسین انور، جناب سید ظہیر حیدر زیدی، جناب سید عارف، جناب احمد ہاشمی، جناب شوکت مہدی، جناب حسن نجمی، جناب آفتاب ضیا، جناب رئیس الدین طہور جعفری، جناب مصطفے علی سید ، جناب نثار رزمی، جناب اختر شیخ، جناب اکبر حمزئی، جناب محبوب عزمی، جناب بیدل جونپوری ، جناب محمد یوسف اور جناب ندیم رسول سحراور دیگر شامل ہیں۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان تمام حضرات کی نیکیاں قبول فرما تے ہوئے ان کی بشری خطائیں معاف فرمائے(آمین)

یہاںمیں ان خوش ذوق اور نعتیہ ادب سے قلبی تعلق رکھنے والے حضرات کو بھی خراج تحسین پیش کرنا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتا ہوں جنھوں نے سخن ور نہ ہوتے ہوئے بھی اسلام آباد میں ما ہانہ نعتیہ نشستوں کے انعقاد میں ہر طرح سے تعاون کیا اور اپنی سخن فہمی اور ادب دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف مواقع پر ان محافل کی مےزبانی کو بھی اپنے لئے سعادت جانا۔ ان خوش نصیب حضرات میں سر فہرست سی ڈی اے کے جناب محی الدین جمیلی ہیں ، جنھوںنے متعدد مرتبہ سالانہ نعتیہ مشاعرے کی میزبانی کی سعادت پائی۔ جناب کنور قطب الدین، (معروف سیاسی و سماجی شخصیت ) بھی ہیں اور جناب اقتدار الاسلام ہاشمی،(مرحوم) بھی ، جو ایک بلند پایہ محقق اور تاریخ اسلام کے اسکالر تھے۔ (ایک عرصے تک ریڈیو سے ان کی تحریر کردہ گفتگو تاریخ اسلام سے ایک ورق کے عنوان سے روزانہ شام ایک ہی وقت پر نشر ہوتی رہی اور اس علمی گفتگو سے استفادہ کر نے والوں میں ہم بھی شامل رہے ہیں)۔ ا ن ہستیوں میں محترم سید نظر علی زیدی (مرحوم) ریٹائرڈ اعلے سرکاری افسر تھے ( ان کے برادر حقیقی جناب سید محمد حسن زیدی بھی اعلے سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور وہ نہایت خوبصورت ترنم سے پڑھنے والے شاعر بھی ہیں)، جناب اعجاز کلیم اشرف، جناب ارشاد کلیمی، جناب مجتبے حسین ہاشمی، جناب عباس ہاشمی، جناب کوکب اقبال ایڈووکیٹ، (آپ عدالت عظمی کے معروف سینئیر وکیل ہیں ۔ اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنے گھر پر ہر ماہ پابندی سے گیارہویں شریف اور چھٹی شریف کی محافل منعقد کرتے ہیں) جناب ڈاکٹر قاری محمد یونس(آپ ٹی وی ´ اور ریڈیو کے اعلے ترین درجہ کے قاری اور نعت خوان ہیں) ۔ ان کے علاوہ جناب خان جی ربانی، جناب محمدشوکت صدیقی، جناب شوکت علی خان، جناب عبید اللہ فاروق ملک، جناب قاری عبید احمد ستی، جناب سلطان احمد ہاشمی، جناب نورالہدے صدیقی(مرحوم)، جناب ڈاکٹر شمیم احمد شمیم اور بہت سے دیگر صاحبان شامل ہیں۔ میں اللہ رب العزت سے ان کی کاوشوں کے مقبول و منظور ہونے اور ان حضرات کیلئے بہترین اجر و ثواب کی دعا کرتا ہوں۔آمین۔

اپنی اس تحریر کو سمیٹتے ہوئے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دبستان اسلام آباد کے ا ن تمام خوش نصیب اہل قلم کے اسمائے گرامی بھی ریکارڈ کے لئے یہاں تحریر کر دیئے جائیں:، جو ماہ بہ ماہ منعقد ہونے والی نعتیہ ادبی محافل میں ایک جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں یا ہوتے ہیں او ر ان نعتیہ ادبی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے میں ان کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔۔ بلا شبہ یہ تمام اہل قلم نعتیہ ادبی تنظیموں کے بھرپور شکریے کے حق دار ہیںکہ اپنی اہم نجی اور سرکاری و سماجی ذمہ داریوں اور مصروفیتوں کے با وجود ، جہاں تک بھی ممکن ہو تا ہے ، ما ہانہ نعتیہ ادبی نشستوں کے لئے وقت نکالتے اور دور و نزدیک سے پہنچ کر شریک ہونے کو اپنے لئے سعاد ت سمجھتے ہیں :۔

جنا ب ڈاکٹر احسان اکبر، صدر محفل نعت پاکستان، اسلام آباد ، الحاج محمد حنیف نازش قادری، جناب رشید ساقی صدر بزم حمد و نعت اسلام آباد، جناب ڈ اکٹر توصیف تبسم، جناب سید منصور عاقل، جناب انور مسعود، جناب جلیل عالی، جناب نسیم سحر، جناب محسن شیخ ، جناب شاہ محمدسبطین شاہجہانی ، جناب جمیل یوسف، جناب سیدشاکر القادری، جناب سیدآصف اکبر، جناب سید ابرار حسین، جناب شہاب صفدر، جناب سیدمحمد حسن زیدی،(نائب صدر محفل نعت ) ، جناب شرف الدین شامی، جناب ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، جناب عبدالقادر تاباں، جناب سید ضیاءالدین نعیم، جناب ڈاکٹر عزیز فیصل، جناب ڈاکٹر فرحت عباس، جناب خرم خلیق، جناب انجم خلیق، جناب محمدعار ف قادری ، پیر عتیق احمد چشتی، جناب حافظ نور احمد قادری، جناب اسلم راہی، جناب جنید نسیم سیٹھی، جناب محبوب ظفر، جناب شاہد کوثری، جناب رشید امین ، جناب سعید انور ، جنا ب خو رشید ربانی، جناب علی احمد قمر، جناب علی یاسر، جناب الیاس بابر اعوان، جناب نوید ملک، جناب پروفیسر عطا اللہ خان عطا ، ، جناب حسنین نازش ، جناب ملک ذوالفقار علی دانش، جناب حافظ عبدالغفار واجد، جناب ابرار نیر، جناب جنید آزر، جناب کاشف عرفان، جناب اطہرضیائ، جناب وفا چشتی، ،جناب شاہنواز سواتی، جناب پرویز طاہر، جناب سید جاوید رضا، جناب عبدالرشید چوہدری، جناب طارق نعیم، جناب اصغر عابد، جناب شفقت سیٹھی، جناب احمد محمود الزماں، جناب شاہد فرجام، جناب اقبال ظفر ٹوانہ، جناب شیدا چشتی، جناب فرید احمد، جناب اسلم ساگر، جناب خالد رومی ، جناب حکیم نور جیلانی۔

جہاں تک دبستان اسلام آباد کی نعت گو شاعرات کا تعلق ہے، تو اس بارے میں صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہاں باقاعدگی سے حمد و نعت لکھنے اور اسے اپنی علیحدہ شناخت بنانے کے حوالے سے صرف ایک ہی شاعرہ کا نام اب تک سامنے آیا ہے، اور و ہ ہیں محترمہ نورین طلعت عروبہ ۔ دیار عرب میں ایک مدت قیام کے انوارات ان کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ا ٓج بھی خوب جھلکتے ہیں۔ اب تک ان کے دو نعتیہ مجموعے حاضری اور زہے مقدر کے ناموں سے منصہءشہود پر آ کر ادبی حلقوں سے خراج تحسین وصول کر چکے ہیں ۔اب کچھ عرصہ پیشتر ربنا کے مبارک نام سے حمدیہ کلام کا مجمو عہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ یہ مجموعہ کلام بھی نہایت پر کیف اور پر اثر ہے۔ ان کے علاوہ ، نظمیں اور غزلیں لکھنے اور اپنی بہاریہ شاعری کے مجموعے سامنے لانے والی شاعرات تو اور بھی ہیں ، البتہ ان میں جو شاعرات نعوت شریف لکھنے کی سعادت بھی حاصل کر رہی ہیں، ان میں محترمہ سیدہ عابدہ تقی، محترمہ عائشہ مسعود ملک، محترمہ راشدہ ماہین ملک ، محترمہ در شہوار توصیف ، محترمہ مدیحہ زاہد ، محترمہ صائمہ بتول نقوی اور کچھ دیگر شاعرات شامل ہیں۔

آخر میں یہ بھی عرض کروں گا کہ حضور ختمی مرتبت سیدالعرب والعجم ، سرور کونین ﷺ کے مبارک ظاہر و باطن کا بے مثل و مثال جمال و کمال واقعتہ ہمارے فکر و خیال کی حدود سے بھی ماوراءہے ، یعنی

توصیف تری ﷺ حرف سخنور سے ہے بالا

الفاظ اگر ساتھ بھی دیں گے، تو کہاں تک!

(کاشف عرفان)

البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہم امتی اگر آقا و مولا ، صاحب لولاک سید الانبیائ، حضور شفیع الامم ،روﺅف و رحیم ،علیہ احسن الصلوہ والتسلیم ﷺ کی توصیف و ثنا کے لئے اپنی بساط بھر لب کشائی کریں بھی تو بارگاہ الہی عزوجل میں اس کا شرف قبولیت پانا ہمارے جذ بوں اور ہماری نیتوںکے ا خلاص کے ساتھ مشروط ہے۔