آپ «اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات ، کاشف عرفان» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 36: سطر 36:
*جدیدیت لفظ ومعنی کے رشتے تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کاتعلق ساختیات سے ہے ۔
*جدیدیت لفظ ومعنی کے رشتے تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کاتعلق ساختیات سے ہے ۔


اردو شاعری کے حوالے سے جب ہم جدیدیت کے ان نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں [[علامہ اقبال | اقبال ]]کے ہاں اجتماعی شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔
اردو شاعری کے حوالے سے جب ہم جدیدیت کے ان نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں اقبال کے ہاں اجتماعی شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔


بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیاہے
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیاہے
سطر 72: سطر 72:
*مابعد جدیدیت تاریخ ، عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے ۔
*مابعد جدیدیت تاریخ ، عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے ۔


([[نعت نگاری]] میں تاریخی تناظر ات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِ اثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کاموضوع رہی ہے ۔)
(نعت نگاری میں تاریخی تناظر ات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِ اثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کاموضوع رہی ہے ۔)


*مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity) کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔
*مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity) کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔
سطر 78: سطر 78:
*معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کااہم موضوع ہے ۔
*معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کااہم موضوع ہے ۔


[[نعت گوئی | نعتیہ میدان ]] میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبال ]] کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظرآتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کانظر یہ اشارہ کرتا ہے ۔اردو میں نعتیہ تنقید کوسب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اُس نے [[علامہ اقبال | اقبال ]] کو معیار (Standard)اور مرکز مان کربات کوآگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اُس درجے کو نہیں چُھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے مابعد جدیدیت کاایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدودیت کوسمجھنے کے عمل سے متعلق ہے ۔ اردو نعت میں کائنات کی لامحدودیت کواللہ کے حکم سے تسخر کرنے کا عمل واقعہ معراج میں نظر آتا ہے ۔ اردو نعت میں واقعہ معراج کو مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیاہے ۔ اِس موضوع کے بیا ن میں عام طور پر شعرا ء ندرتِ بیان اور نزاکت خیال کے ساتھ فکری گہرائی کااحساس نہیں رکھ پاتے یوں بہت سے عمدہ نعت گو بھی افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں ۔
نعتیہ میدان میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظرآتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کانظر یہ اشارہ کرتا ہے ۔اردو میں نعتیہ تنقید کوسب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اُس نے اقبال کو معیار (Standard)اور مرکز مان کربات کوآگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اُس درجے کو نہیں چُھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے مابعد جدیدیت کاایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدودیت کوسمجھنے کے عمل سے متعلق ہے ۔ اردو نعت میں کائنات کی لامحدودیت کواللہ کے حکم سے تسخر کرنے کا عمل واقعہ معراج میں نظر آتا ہے ۔ اردو نعت میں واقعہ معراج کو مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیاہے ۔ اِس موضوع کے بیا ن میں عام طور پر شعرا ء ندرتِ بیان اور نزاکت خیال کے ساتھ فکری گہرائی کااحساس نہیں رکھ پاتے یوں بہت سے عمدہ نعت گو بھی افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں ۔


[[سید عارف]] کااسی موضوع پرایک خوبصورت شعر دیکھیے۔
سید عارف کااسی موضوع پرایک خوبصورت شعر دیکھیے۔


میں اُس کی وسعتوں کولفظ پہناؤں توکیا جس کا  
میں اُس کی وسعتوں کولفظ پہناؤں توکیا جس کا  
سطر 87: سطر 87:
(سیدعارف)  
(سیدعارف)  


واقعہ معراج کو وسعت کائنات اور لامحدودیت کے حوالے سے سائنسی اور منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیں دوسرے کئی شعراء کے ہاں نظر آتی ہے تاہم [[ علامہ اقبال | اقبال]] اِس حوالے سے بھی سر خیل ٹھہرتے ہیں ۔
واقعہ معراج کو وسعت کائنات اور لامحدودیت کے حوالے سے سائنسی اور منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیں دوسرے کئی شعراء کے ہاں نظر آتی ہے تاہم اقبال اِس حوالے سے بھی سر خیل ٹھہرتے ہیں ۔


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے  
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے  


کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
([[علامہ اقبال | اقبالؔ]] )
(اقبالؔ )


مابعد الطبیعات اور طبیعات کے درمیان موجود آفاقی رشتے کی کڑیاں معراجِ مصطفیؐ سے ہی دریافت ہوتی ہیں اور اقبال اِس کے منطقی استدلال کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں ۔
مابعد الطبیعات اور طبیعات کے درمیان موجود آفاقی رشتے کی کڑیاں معراجِ مصطفیؐ سے ہی دریافت ہوتی ہیں اور اقبال اِس کے منطقی استدلال کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں ۔
سطر 114: سطر 114:
تینوں واقعات میں وقت کی تفہیم اُس پیمانے کے مطابق نہیں ہوئی جوہماری دنیا میں رائج ہے گویا موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے ۔رب کریم نے اپنے محبوب بندوں کے لیے موجود پیمانوں میں تبدیلی کی اور وقت کواُن محترم شخصیات کی خاطر ٹھہرایا جس کا بیّن ثبوت ہمیں قران کریم میں ملتا ہے ۔
تینوں واقعات میں وقت کی تفہیم اُس پیمانے کے مطابق نہیں ہوئی جوہماری دنیا میں رائج ہے گویا موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے ۔رب کریم نے اپنے محبوب بندوں کے لیے موجود پیمانوں میں تبدیلی کی اور وقت کواُن محترم شخصیات کی خاطر ٹھہرایا جس کا بیّن ثبوت ہمیں قران کریم میں ملتا ہے ۔


[[ علامہ اقبال | اقبال ]] کے مذکورہ بالا شعر میں پہلی بارانسانوں میں سب سے کامل انسان اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معراج پرتشریف لے جانے سے سائنسی ،منطقی اورارضی سطح پرایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ عشق اور فلسفہ تحرک کی روشنی میں اگر اس شعر پرغور کیاجائے تویہ شعر معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے تناظر میں عظمتِ انسان اور معراجِ انسانیت کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔
اقبال کے مذکورہ بالا شعر میں پہلی بارانسانوں میں سب سے کامل انسان اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معراج پرتشریف لے جانے سے سائنسی ،منطقی اورارضی سطح پرایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ عشق اور فلسفہ تحرک کی روشنی میں اگر اس شعر پرغور کیاجائے تویہ شعر معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے تناظر میں عظمتِ انسان اور معراجِ انسانیت کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔


وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے روحانی اور مابعد الطبیعاتی نظام کے متوازی سائنس نے بھی ایک مختلف نظام وضع کیاہے جوطبیعات میں تجرباتی بنیادوں کو مَس کرتا نظرآتا ہے ۔آئن سٹائن نے طبیعات میں ایک نظریہ پیش کیاجسے آئن سٹائن کانظریہ اضافت (Theorey of Relativity) کہاجاتا ہے جسے طبیعاتی شکل میں کچھ یوں لکھاجاسکتا ہے  
وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے روحانی اور مابعد الطبیعاتی نظام کے متوازی سائنس نے بھی ایک مختلف نظام وضع کیاہے جوطبیعات میں تجرباتی بنیادوں کو مَس کرتا نظرآتا ہے ۔آئن سٹائن نے طبیعات میں ایک نظریہ پیش کیاجسے آئن سٹائن کانظریہ اضافت (Theorey of Relativity) کہاجاتا ہے جسے طبیعاتی شکل میں کچھ یوں لکھاجاسکتا ہے  


E=mc2
(Speed of Light)2 235 Mass236Energy
m C2 236E


E= Energy توانائی
2(روشنی کی رفتار) 235 مادہ 236 توانائی
 
m=mass  مادہ
 
C= Speed of light روشنی کی رفتار


مادہ اور توانائی کے درمیان قائم رشتے کو سائنسی ،منطقی اور تجرباتی سطح پر ثابت کرنے سے وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ایک نئے عمل کاآغاز ہوا۔ یہ نظریہ ہمیں وقت کے ایک نئے پہلو سے آگاہ کرتا ہے ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان اگرروشنی کی رفتار کے مربع (C) سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تووہ اپنی مادی حیثیت کوتبدیل کرکے توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گا گویا وہ اپنی مادی شکل وصورت کے بجائے توانائی کی لہروں یا بنڈلز کی صورت اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں وہ مادے کی نسبت لاکھوں گُنا تیز رفتاری سے سفر کرسکے گا۔ اِس بات کوایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کسی بھی طرح توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے تووہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔
مادہ اور توانائی کے درمیان قائم رشتے کو سائنسی ،منطقی اور تجرباتی سطح پر ثابت کرنے سے وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ایک نئے عمل کاآغاز ہوا۔ یہ نظریہ ہمیں وقت کے ایک نئے پہلو سے آگاہ کرتا ہے ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان اگرروشنی کی رفتار کے مربع (C) سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تووہ اپنی مادی حیثیت کوتبدیل کرکے توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گا گویا وہ اپنی مادی شکل وصورت کے بجائے توانائی کی لہروں یا بنڈلز کی صورت اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں وہ مادے کی نسبت لاکھوں گُنا تیز رفتاری سے سفر کرسکے گا۔ اِس بات کوایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کسی بھی طرح توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے تووہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے واقعہ معراج کو [[عارف عبدالمتین]] نے کچھ یوں دیکھا :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے واقعہ معراج کو عارف عبدالمتین نے کچھ یوں دیکھا :


مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد
مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد
سطر 148: سطر 145:
یہ شعر پہلے بھی کئی بار پڑھا تھا۔ عقیدت ومحبت کے جذبات دِل پر اثر انداز ہوئے لیکن سچ پوچھیں توشعر کی گرہیں کُھل نہ پائیں ۔مابعد جدید یت کے نظریے اور طبیعاتی سائنس کی دریافتوں کے باعث ’’روحِ عصر کاادراک‘‘ ہواتو معلوم ہواکہ وقت کی حیثیت اِس کائنات میں مستقل نہیں ۔ زمان ومکان ایک خاص طرح کے جبر میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں ۔حال موجود میں رہتے ہوئے بھی پیچھے ماضی کی جانب اور آگے مستقبل کی طرف اللہ کے حکم سے ہاتھ بڑھا سکتا ہے ۔
یہ شعر پہلے بھی کئی بار پڑھا تھا۔ عقیدت ومحبت کے جذبات دِل پر اثر انداز ہوئے لیکن سچ پوچھیں توشعر کی گرہیں کُھل نہ پائیں ۔مابعد جدید یت کے نظریے اور طبیعاتی سائنس کی دریافتوں کے باعث ’’روحِ عصر کاادراک‘‘ ہواتو معلوم ہواکہ وقت کی حیثیت اِس کائنات میں مستقل نہیں ۔ زمان ومکان ایک خاص طرح کے جبر میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں ۔حال موجود میں رہتے ہوئے بھی پیچھے ماضی کی جانب اور آگے مستقبل کی طرف اللہ کے حکم سے ہاتھ بڑھا سکتا ہے ۔


انسان کی عظمت کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبال]] یوں رقمطراز ہیں ۔
انسان کی عظمت کے حوالے سے اقبال یوں رقمطراز ہیں ۔


عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو  
عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو  
سطر 172: سطر 169:
(اقبال)
(اقبال)


اقبال کایہ شعر کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کوعظمت انسان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ایک قدم کافاصلہ کبھی کائنات کے پھیلاؤ سے زیادہ ہے ۔ اگر اللہ کی مدد سے سرورِ کائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاایک غلام [[علامہ اقبال | محمد اقبال ؔ]] کے عشق کاایک قدم زمین وآسماں کی وسعتوں کو چھو سکتا ہے تو پھرامام الانبیاء کااللہ کے حکم سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات عین برحق بھی ہے ۔اورامّت کے لیے رب کا انعام بھی ۔اللہ کی اپنے محبوب سے محبت کایہ عالم کہ جہاں وقت کوموجود اور ماوراء کے درمیان معلق کردیاجائے اورزمان ومکاں کوکائناتی نظم وضبط سے آزاد کردیا جائے صرف واقعہ معراج میں ہی نظر آتا ہے ۔ وقت کی رفتار کواللہ تعالیٰ کی جانب سے روکنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ا ورامت نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ایک تحفہ تھا جو ہمیں رب کریم کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اِس پر غور وفکر کی دعوت بھی۔
اقبال کایہ شعر کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کوعظمت انسان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ایک قدم کافاصلہ کبھی کائنات کے پھیلاؤ سے زیادہ ہے ۔ اگر اللہ کی مدد سے سرورِ کائنات حضرت محمدمصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاایک غلام محمد اقبال ؔ کے عشق کاایک قدم زمین وآسماں کی وسعتوں کو چھو سکتا ہے تو پھرامام الانبیاء کااللہ کے حکم سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات عین برحق بھی ہے ۔اورامّت کے لیے رب کا انعام بھی ۔اللہ کی اپنے محبوب سے محبت کایہ عالم کہ جہاں وقت کوموجود اور ماوراء کے درمیان معلق کردیاجائے اورزمان ومکاں کوکائناتی نظم وضبط سے آزاد کردیا جائے صرف واقعہ معراج میں ہی نظر آتا ہے ۔ وقت کی رفتار کواللہ تعالیٰ کی جانب سے روکنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ا ورامت نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ایک تحفہ تھا جو ہمیں رب کریم کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اِس پر غور وفکر کی دعوت بھی۔


مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنے کاعمل ہے۔اردو نعت نگاری کارشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے۔ برصغیر کی ثقافت اورزبان کارچاؤ جتنا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے ہاں نظرآتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچاؤ موجود ہو۔
مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنے کاعمل ہے۔اردو نعت نگاری کارشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے۔ برصغیر کی ثقافت اورزبان کارچاؤ جتنا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے ہاں نظرآتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچاؤ موجود ہو۔
سطر 178: سطر 175:
آفاقی شاعری کی ایک خاص خوبی اُس کاعلامتی پیرایہ ہوتی ہے ۔شاعری میں وسعت پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب شاعر شعوری سطح پرعلامت کوتہذیبی عنصر کے طور پر برتے ۔مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔
آفاقی شاعری کی ایک خاص خوبی اُس کاعلامتی پیرایہ ہوتی ہے ۔شاعری میں وسعت پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب شاعر شعوری سطح پرعلامت کوتہذیبی عنصر کے طور پر برتے ۔مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔


[[اسد اللہ خاں غالب | غالب]] کاایک شعر ہے ۔
غالب کاایک شعر ہے ۔


سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر
سطر 194: سطر 191:
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت


([[الطاف حسین حالی |حالیؔ]])  
(حالیؔ )  


لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
سطر 200: سطر 197:
آؤ ناہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
آؤ ناہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی


([[اسد اللہ خان غالب | غالبؔ ]])
(غالبؔ )


شہاں کہ کہلِ جواہر تھی خاکِ پاجن کی
شہاں کہ کہلِ جواہر تھی خاکِ پاجن کی
سطر 206: سطر 203:
انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں


([[میر تقی میر | میرؔ ]])
(میرؔ )


باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں
سطر 212: سطر 209:
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر


([[علامہ اقبال | اقبالؔ ]])
(اقبالؔ )


تلمیح اشعار میں کسی تاریخی واقعے ،مقام یاشخصیت کی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ تلمیح کا درست استعمال پورے منظر ،مقام یاشخصیت کی تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے ۔حالیؔ کے شعر میں حضرت یوسف علیہ السلام کواُن کے بھائیوں کی جانب سے کنوئیں میں دھکا دینے کے واقعے کاذکر ہے ۔ غالبؔ کے شعر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پہاڑ پرخدا کی تجلّی کودیکھنے اور پھر اُس نور کی شدت سے پہاڑ کے جل جانے کاذکر ہے ۔ میرؔ کے شعر میں مغل عہد کے آخری حصے میں فرخ سئیر نامی بادشاہ کو تخت کے امید واروں کی جانب سے اندھا کردینے کاذکر ہے جبکہ اقبال کے شعر میں آدم کاخلا سے نکلنے اور دنیا میں آنے کی قرانی کہانی کا ذکر ہے۔اِسی حوالے سے غالب کاایک شعر یادآتا ہے ۔
تلمیح اشعار میں کسی تاریخی واقعے ،مقام یاشخصیت کی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ تلمیح کا درست استعمال پورے منظر ،مقام یاشخصیت کی تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے ۔حالیؔ کے شعر میں حضرت یوسف علیہ السلام کواُن کے بھائیوں کی جانب سے کنوئیں میں دھکا دینے کے واقعے کاذکر ہے ۔ غالبؔ کے شعر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پہاڑ پرخدا کی تجلّی کودیکھنے اور پھر اُس نور کی شدت سے پہاڑ کے جل جانے کاذکر ہے ۔ میرؔ کے شعر میں مغل عہد کے آخری حصے میں فرخ سئیر نامی بادشاہ کو تخت کے امید واروں کی جانب سے اندھا کردینے کاذکر ہے جبکہ اقبال کے شعر میں آدم کاخلا سے نکلنے اور دنیا میں آنے کی قرانی کہانی کا ذکر ہے۔اِسی حوالے سے غالب کاایک شعر یادآتا ہے ۔
سطر 220: سطر 217:
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے  
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے  


([[اسد اللہ خان غالب | غالبؔ ]])
(غالبؔ )


[[نعت نگاری]] میں [[تلمیح | تلمیحات]] کااستعمال بہت زیادہ ہے ۔تاریخی واقعات کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبالؔ ]] کا تنقیدی شعور بہت بلند تھا۔ اقبال کے ہاں مکمل عنوان کے ساتھ نعت کم کم ہی ملتی ہے لیکن  
نعت نگاری میں تلمیحات کااستعمال بہت زیادہ ہے ۔تاریخی واقعات کے حوالے سے اقبال کا تنقیدی شعور بہت بلند تھا۔ اقبال کے ہاں مکمل عنوان کے ساتھ نعت کم کم ہی ملتی ہے لیکن  


[[لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ۔ علامہ اقبال | لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب ]] <ref> [[لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ۔ علامہ اقبال | لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب ۔ مکمل کلام ]]  </ref>
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب


گنبدِ آبگینہ رنگ تیرنے محیط میں جناب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرنے محیط میں جناب
سطر 230: سطر 227:
جیسے اشعار اُس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے محبت کاثبوت دیتے ہیں وہاں اُس کے تاریخ ،ثقافت اورزبان پر عبور کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔
جیسے اشعار اُس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے محبت کاثبوت دیتے ہیں وہاں اُس کے تاریخ ،ثقافت اورزبان پر عبور کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔


اِسی [[نعت]] میں وہ کہتے ہیں:
اِسی نعت میں وہ کہتے ہیں:


شوکتِ سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود
شوکتِ سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود
سطر 236: سطر 233:
فقرِ جنید بایزید تیرا جمالِ بے نقاب
فقرِ جنید بایزید تیرا جمالِ بے نقاب


[[نعت]] کے اِس شعر میں خلافتِ عثمانیہ کے بادشاہوں کے جلال کومثال بناتے ہوئے جمال اور محبت کے پیکر صوفیائے کرام حضرت جنید بغدادیؒ اورحضرت بایزید بسطامیؒ کی زندگی اور فلسف ۂحیات کے ساتھ ساتھ اُن بزرگانِ دین کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کوبھی موضوع بنایاگیا ہے تلمیح کی یہ ایک خوبصورت مثال ہے ۔ [[علامہ اقبال | اقبال]] کی اِس [[نعت]] پر بات کی جائے تو[[علامہ اقبال | اقبال]] اِس نعت میں پرشکوہ الفاظ اور پر جلال ماحول کے ذریعے ایک ایسا افق بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں جلال اور جمال کے ملنے کاخوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے اسی نعت میں وہ آگے کہتے ہیں:  
نعت کے اِس شعر میں خلافتِ عثمانیہ کے بادشاہوں کے جلال کومثال بناتے ہوئے جمال اور محبت کے پیکر صوفیائے کرام حضرت جنید بغدادیؒ اورحضرت بایزید بسطامیؒ کی زندگی اور فلسف ۂحیات کے ساتھ ساتھ اُن بزرگانِ دین کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کوبھی موضوع بنایاگیا ہے تلمیح کی یہ ایک خوبصورت مثال ہے ۔ اقبال کی اِس نعت پر بات کی جائے تو اقبال اِس نعت میں پرشکوہ الفاظ اور پر جلال ماحول کے ذریعے ایک ایسا افق بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں جلال اور جمال کے ملنے کاخوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے اسی نعت میں وہ آگے کہتے ہیں:  


شوق اگر نہ ہو میری نماز کاامام
شوق اگر نہ ہو میری نماز کاامام
سطر 242: سطر 239:
میراقیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب
میراقیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب


محبت اتنی شدت کے ساتھ [[علامہ اقبال | اقبال]] کے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے خصوصی طور پر جلوہ گرنظر آتی ہے اِس پوری نعت میں جلال اور بزرگی کاعنصر کچھ اِس طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ اِسے سنتے یاپڑھتے ہوئے گنبدِ خضریٰ کی سر سبز چھاؤں اور سنہری جالیوں کی روشنی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے ۔بچپن میں یعنی آج سے پچیس تیس سال قبل اِس کلام کو PTVپر محترمہ منیبہ شیخ کی زبانی سنا تھا ۔ پھر کئی نعت خوان خواتین و حضرات نے اِسے پڑھا لیکن کلام کے جلال وجمال کوجس طرح محترمہ نے اپنے ترنم سے زبان دی وہ انہی کاخاصہ ہے ۔ میں اِس کلام کی اتنی خوبصورت اور پر تاثیر ادائیگی پرمحترمہ کے لیے دعاگو ہوں ۔  
محبت اتنی شدت کے ساتھ اقبال کے ہاں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے خصوصی طور پر جلوہ گرنظر آتی ہے اِس پوری نعت میں جلال اور بزرگی کاعنصر کچھ اِس طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ اِسے سنتے یاپڑھتے ہوئے گنبدِ خضریٰ کی سر سبز چھاؤں اور سنہری جالیوں کی روشنی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے ۔بچپن میں یعنی آج سے پچیس تیس سال قبل اِس کلام کو PTVپر محترمہ منیبہ شیخ کی زبانی سنا تھا ۔ پھر کئی نعت خوان خواتین و حضرات نے اِسے پڑھا لیکن کلام کے جلال وجمال کوجس طرح محترمہ نے اپنے ترنم سے زبان دی وہ انہی کاخاصہ ہے ۔ میں اِس کلام کی اتنی خوبصورت اور پر تاثیر ادائیگی پرمحترمہ کے لیے دعاگو ہوں ۔  


UTube (یوٹیوب)کی وساطت سے اِس کلام کو میں نے مکرر سنا اوراسی لطف کوپایا جو ہزار ہا دنوں کی گہرائی میں کہیں کھو گیاتھا۔
UTube (یوٹیوب)کی وساطت سے اِس کلام کو میں نے مکرر سنا اوراسی لطف کوپایا جو ہزار ہا دنوں کی گہرائی میں کہیں کھو گیاتھا۔
سطر 261: سطر 258:


اقبال کے ہاں فکری سطح پرایک خاص طرح کاتوازن دکھائی دیتا ہے جسے وہ مومن کی شان بھی کہتے ہیں ۔ اقبال کے ہاں دو طرح کے فلسفے اُن کی پوری شاعری اور نثر میں دکھائی دیتے ہیں ۔
اقبال کے ہاں فکری سطح پرایک خاص طرح کاتوازن دکھائی دیتا ہے جسے وہ مومن کی شان بھی کہتے ہیں ۔ اقبال کے ہاں دو طرح کے فلسفے اُن کی پوری شاعری اور نثر میں دکھائی دیتے ہیں ۔


==== فلسفۂ عشق ====  
==== فلسفۂ عشق ====  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)