آپ «اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات ، کاشف عرفان» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[کاشف عرفان]] ۔اسلام آباد
کاشف عرفان ۔اسلام آباد


( POST MODERNISM)
( POST MODERNISM)
سطر 8: سطر 8:
such a way that the term covers a vast dimension and immense area of Ideas, trends, and limitless contour of opinions about universe. The concept of Post Modernism covers existing realities which are reflective in literature showing reaction against Modernism. Kashif Irfan is a brilliant young scholar who has tried to apply the theory towards understanding Devotional Poetry. Post Modern thinking trend prefers to find multiple meanings of Text besides its continuity in search of routs of words and thoughts. Kashif has traced effects of post modern thoughts on Naatia Poetry and tried to find out relations of Post Modernism with Modernism and Tradition. Profundity of ideas in the cited article is appreciable.  
such a way that the term covers a vast dimension and immense area of Ideas, trends, and limitless contour of opinions about universe. The concept of Post Modernism covers existing realities which are reflective in literature showing reaction against Modernism. Kashif Irfan is a brilliant young scholar who has tried to apply the theory towards understanding Devotional Poetry. Post Modern thinking trend prefers to find multiple meanings of Text besides its continuity in search of routs of words and thoughts. Kashif has traced effects of post modern thoughts on Naatia Poetry and tried to find out relations of Post Modernism with Modernism and Tradition. Profundity of ideas in the cited article is appreciable.  


=== اردو نعت نگاری پر مابعد جدیدیت کے اثرات ===
==== اردو نعت نگاری پر مابعد جدیدیت کے اثرات ====




سطر 36: سطر 36:
*جدیدیت لفظ ومعنی کے رشتے تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کاتعلق ساختیات سے ہے ۔
*جدیدیت لفظ ومعنی کے رشتے تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کاتعلق ساختیات سے ہے ۔


اردو شاعری کے حوالے سے جب ہم جدیدیت کے ان نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں [[علامہ اقبال | اقبال ]]کے ہاں اجتماعی شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔
اردو شاعری کے حوالے سے جب ہم جدیدیت کے ان نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں اقبال کے ہاں اجتماعی شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔


بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیاہے
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیاہے
سطر 72: سطر 72:
*مابعد جدیدیت تاریخ ، عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے ۔
*مابعد جدیدیت تاریخ ، عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے ۔


([[نعت نگاری]] میں تاریخی تناظر ات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِ اثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کاموضوع رہی ہے ۔)
(نعت نگاری میں تاریخی تناظر ات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِ اثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کاموضوع رہی ہے ۔)


*مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity) کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔
*مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity) کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔
سطر 78: سطر 78:
*معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کااہم موضوع ہے ۔
*معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کااہم موضوع ہے ۔


[[نعت گوئی | نعتیہ میدان ]] میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبال ]] کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظرآتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کانظر یہ اشارہ کرتا ہے ۔اردو میں نعتیہ تنقید کوسب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اُس نے [[علامہ اقبال | اقبال ]] کو معیار (Standard)اور مرکز مان کربات کوآگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اُس درجے کو نہیں چُھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے مابعد جدیدیت کاایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدودیت کوسمجھنے کے عمل سے متعلق ہے ۔ اردو نعت میں کائنات کی لامحدودیت کواللہ کے حکم سے تسخر کرنے کا عمل واقعہ معراج میں نظر آتا ہے ۔ اردو نعت میں واقعہ معراج کو مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیاہے ۔ اِس موضوع کے بیا ن میں عام طور پر شعرا ء ندرتِ بیان اور نزاکت خیال کے ساتھ فکری گہرائی کااحساس نہیں رکھ پاتے یوں بہت سے عمدہ نعت گو بھی افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں ۔
نعتیہ میدان میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظرآتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کانظر یہ اشارہ کرتا ہے ۔اردو میں نعتیہ تنقید کوسب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اُس نے اقبال کو معیار (Standard)اور مرکز مان کربات کوآگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اُس درجے کو نہیں چُھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے مابعد جدیدیت کاایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدودیت کوسمجھنے کے عمل سے متعلق ہے ۔ اردو نعت میں کائنات کی لامحدودیت کواللہ کے حکم سے تسخر کرنے کا عمل واقعہ معراج میں نظر آتا ہے ۔ اردو نعت میں واقعہ معراج کو مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیاہے ۔ اِس موضوع کے بیا ن میں عام طور پر شعرا ء ندرتِ بیان اور نزاکت خیال کے ساتھ فکری گہرائی کااحساس نہیں رکھ پاتے یوں بہت سے عمدہ نعت گو بھی افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں ۔


[[سید عارف]] کااسی موضوع پرایک خوبصورت شعر دیکھیے۔
سید عارف کااسی موضوع پرایک خوبصورت شعر دیکھیے۔


میں اُس کی وسعتوں کولفظ پہناؤں توکیا جس کا  
میں اُس کی وسعتوں کولفظ پہناؤں توکیا جس کا  
سطر 87: سطر 87:
(سیدعارف)  
(سیدعارف)  


واقعہ معراج کو وسعت کائنات اور لامحدودیت کے حوالے سے سائنسی اور منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیں دوسرے کئی شعراء کے ہاں نظر آتی ہے تاہم [[ علامہ اقبال | اقبال]] اِس حوالے سے بھی سر خیل ٹھہرتے ہیں ۔
واقعہ معراج کو وسعت کائنات اور لامحدودیت کے حوالے سے سائنسی اور منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیں دوسرے کئی شعراء کے ہاں نظر آتی ہے تاہم اقبال اِس حوالے سے بھی سر خیل ٹھہرتے ہیں ۔


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے  
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے  


کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
([[علامہ اقبال | اقبالؔ]] )
(اقبالؔ )


مابعد الطبیعات اور طبیعات کے درمیان موجود آفاقی رشتے کی کڑیاں معراجِ مصطفیؐ سے ہی دریافت ہوتی ہیں اور اقبال اِس کے منطقی استدلال کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں ۔
مابعد الطبیعات اور طبیعات کے درمیان موجود آفاقی رشتے کی کڑیاں معراجِ مصطفیؐ سے ہی دریافت ہوتی ہیں اور اقبال اِس کے منطقی استدلال کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں ۔
سطر 114: سطر 114:
تینوں واقعات میں وقت کی تفہیم اُس پیمانے کے مطابق نہیں ہوئی جوہماری دنیا میں رائج ہے گویا موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے ۔رب کریم نے اپنے محبوب بندوں کے لیے موجود پیمانوں میں تبدیلی کی اور وقت کواُن محترم شخصیات کی خاطر ٹھہرایا جس کا بیّن ثبوت ہمیں قران کریم میں ملتا ہے ۔
تینوں واقعات میں وقت کی تفہیم اُس پیمانے کے مطابق نہیں ہوئی جوہماری دنیا میں رائج ہے گویا موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے ۔رب کریم نے اپنے محبوب بندوں کے لیے موجود پیمانوں میں تبدیلی کی اور وقت کواُن محترم شخصیات کی خاطر ٹھہرایا جس کا بیّن ثبوت ہمیں قران کریم میں ملتا ہے ۔


[[ علامہ اقبال | اقبال ]] کے مذکورہ بالا شعر میں پہلی بارانسانوں میں سب سے کامل انسان اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معراج پرتشریف لے جانے سے سائنسی ،منطقی اورارضی سطح پرایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ عشق اور فلسفہ تحرک کی روشنی میں اگر اس شعر پرغور کیاجائے تویہ شعر معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے تناظر میں عظمتِ انسان اور معراجِ انسانیت کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔
اقبال کے مذکورہ بالا شعر میں پہلی بارانسانوں میں سب سے کامل انسان اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معراج پرتشریف لے جانے سے سائنسی ،منطقی اورارضی سطح پرایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ عشق اور فلسفہ تحرک کی روشنی میں اگر اس شعر پرغور کیاجائے تویہ شعر معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے تناظر میں عظمتِ انسان اور معراجِ انسانیت کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔


وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے روحانی اور مابعد الطبیعاتی نظام کے متوازی سائنس نے بھی ایک مختلف نظام وضع کیاہے جوطبیعات میں تجرباتی بنیادوں کو مَس کرتا نظرآتا ہے ۔آئن سٹائن نے طبیعات میں ایک نظریہ پیش کیاجسے آئن سٹائن کانظریہ اضافت (Theorey of Relativity) کہاجاتا ہے جسے طبیعاتی شکل میں کچھ یوں لکھاجاسکتا ہے  
وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے روحانی اور مابعد الطبیعاتی نظام کے متوازی سائنس نے بھی ایک مختلف نظام وضع کیاہے جوطبیعات میں تجرباتی بنیادوں کو مَس کرتا نظرآتا ہے ۔آئن سٹائن نے طبیعات میں ایک نظریہ پیش کیاجسے آئن سٹائن کانظریہ اضافت (Theorey of Relativity) کہاجاتا ہے جسے طبیعاتی شکل میں کچھ یوں لکھاجاسکتا ہے  


E=mc2
(Speed of Light)2 235 Mass236Energy
m C2 236E


E= Energy توانائی
2(روشنی کی رفتار) 235 مادہ 236 توانائی
 
m=mass  مادہ
 
C= Speed of light روشنی کی رفتار


مادہ اور توانائی کے درمیان قائم رشتے کو سائنسی ،منطقی اور تجرباتی سطح پر ثابت کرنے سے وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ایک نئے عمل کاآغاز ہوا۔ یہ نظریہ ہمیں وقت کے ایک نئے پہلو سے آگاہ کرتا ہے ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان اگرروشنی کی رفتار کے مربع (C) سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تووہ اپنی مادی حیثیت کوتبدیل کرکے توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گا گویا وہ اپنی مادی شکل وصورت کے بجائے توانائی کی لہروں یا بنڈلز کی صورت اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں وہ مادے کی نسبت لاکھوں گُنا تیز رفتاری سے سفر کرسکے گا۔ اِس بات کوایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کسی بھی طرح توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے تووہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔
مادہ اور توانائی کے درمیان قائم رشتے کو سائنسی ،منطقی اور تجرباتی سطح پر ثابت کرنے سے وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ایک نئے عمل کاآغاز ہوا۔ یہ نظریہ ہمیں وقت کے ایک نئے پہلو سے آگاہ کرتا ہے ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان اگرروشنی کی رفتار کے مربع (C) سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تووہ اپنی مادی حیثیت کوتبدیل کرکے توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گا گویا وہ اپنی مادی شکل وصورت کے بجائے توانائی کی لہروں یا بنڈلز کی صورت اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں وہ مادے کی نسبت لاکھوں گُنا تیز رفتاری سے سفر کرسکے گا۔ اِس بات کوایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کسی بھی طرح توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے تووہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے واقعہ معراج کو [[عارف عبدالمتین]] نے کچھ یوں دیکھا :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے واقعہ معراج کو عارف عبدالمتین نے کچھ یوں دیکھا :


مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد
مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد
سطر 148: سطر 145:
یہ شعر پہلے بھی کئی بار پڑھا تھا۔ عقیدت ومحبت کے جذبات دِل پر اثر انداز ہوئے لیکن سچ پوچھیں توشعر کی گرہیں کُھل نہ پائیں ۔مابعد جدید یت کے نظریے اور طبیعاتی سائنس کی دریافتوں کے باعث ’’روحِ عصر کاادراک‘‘ ہواتو معلوم ہواکہ وقت کی حیثیت اِس کائنات میں مستقل نہیں ۔ زمان ومکان ایک خاص طرح کے جبر میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں ۔حال موجود میں رہتے ہوئے بھی پیچھے ماضی کی جانب اور آگے مستقبل کی طرف اللہ کے حکم سے ہاتھ بڑھا سکتا ہے ۔
یہ شعر پہلے بھی کئی بار پڑھا تھا۔ عقیدت ومحبت کے جذبات دِل پر اثر انداز ہوئے لیکن سچ پوچھیں توشعر کی گرہیں کُھل نہ پائیں ۔مابعد جدید یت کے نظریے اور طبیعاتی سائنس کی دریافتوں کے باعث ’’روحِ عصر کاادراک‘‘ ہواتو معلوم ہواکہ وقت کی حیثیت اِس کائنات میں مستقل نہیں ۔ زمان ومکان ایک خاص طرح کے جبر میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں ۔حال موجود میں رہتے ہوئے بھی پیچھے ماضی کی جانب اور آگے مستقبل کی طرف اللہ کے حکم سے ہاتھ بڑھا سکتا ہے ۔


انسان کی عظمت کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبال]] یوں رقمطراز ہیں ۔
انسان کی عظمت کے حوالے سے اقبال یوں رقمطراز ہیں ۔


عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو  
عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو  
سطر 172: سطر 169:
(اقبال)
(اقبال)


اقبال کایہ شعر کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کوعظمت انسان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ایک قدم کافاصلہ کبھی کائنات کے پھیلاؤ سے زیادہ ہے ۔ اگر اللہ کی مدد سے سرورِ کائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاایک غلام [[علامہ اقبال | محمد اقبال ؔ]] کے عشق کاایک قدم زمین وآسماں کی وسعتوں کو چھو سکتا ہے تو پھرامام الانبیاء کااللہ کے حکم سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات عین برحق بھی ہے ۔اورامّت کے لیے رب کا انعام بھی ۔اللہ کی اپنے محبوب سے محبت کایہ عالم کہ جہاں وقت کوموجود اور ماوراء کے درمیان معلق کردیاجائے اورزمان ومکاں کوکائناتی نظم وضبط سے آزاد کردیا جائے صرف واقعہ معراج میں ہی نظر آتا ہے ۔ وقت کی رفتار کواللہ تعالیٰ کی جانب سے روکنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ا ورامت نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ایک تحفہ تھا جو ہمیں رب کریم کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اِس پر غور وفکر کی دعوت بھی۔
اقبال کایہ شعر کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کوعظمت انسان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ایک قدم کافاصلہ کبھی کائنات کے پھیلاؤ سے زیادہ ہے ۔ اگر اللہ کی مدد سے سرورِ کائنات حضرت محمدمصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاایک غلام محمد اقبال ؔ کے عشق کاایک قدم زمین وآسماں کی وسعتوں کو چھو سکتا ہے تو پھرامام الانبیاء کااللہ کے حکم سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات عین برحق بھی ہے ۔اورامّت کے لیے رب کا انعام بھی ۔اللہ کی اپنے محبوب سے محبت کایہ عالم کہ جہاں وقت کوموجود اور ماوراء کے درمیان معلق کردیاجائے اورزمان ومکاں کوکائناتی نظم وضبط سے آزاد کردیا جائے صرف واقعہ معراج میں ہی نظر آتا ہے ۔ وقت کی رفتار کواللہ تعالیٰ کی جانب سے روکنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ا ورامت نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ایک تحفہ تھا جو ہمیں رب کریم کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اِس پر غور وفکر کی دعوت بھی۔


مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنے کاعمل ہے۔اردو نعت نگاری کارشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے۔ برصغیر کی ثقافت اورزبان کارچاؤ جتنا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے ہاں نظرآتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچاؤ موجود ہو۔
مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنے کاعمل ہے۔اردو نعت نگاری کارشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے۔ برصغیر کی ثقافت اورزبان کارچاؤ جتنا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے ہاں نظرآتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچاؤ موجود ہو۔
سطر 178: سطر 175:
آفاقی شاعری کی ایک خاص خوبی اُس کاعلامتی پیرایہ ہوتی ہے ۔شاعری میں وسعت پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب شاعر شعوری سطح پرعلامت کوتہذیبی عنصر کے طور پر برتے ۔مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔
آفاقی شاعری کی ایک خاص خوبی اُس کاعلامتی پیرایہ ہوتی ہے ۔شاعری میں وسعت پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب شاعر شعوری سطح پرعلامت کوتہذیبی عنصر کے طور پر برتے ۔مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔


[[اسد اللہ خاں غالب | غالب]] کاایک شعر ہے ۔
غالب کاایک شعر ہے ۔


سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر


تواِس قدِ دلکش سے جو بازار میں آوے <Ref> مضمون نگار نے شعر میں "بازار" کا قافیہ رکھا ہے ۔  جب کہ نوجوان محقق [[عمر فاروق وڑائچ ]] کے مطابق اس شعر میں "بازار" کی جگہ "گلزار" کا لفظ آئے گا۔  تفصیل اس لنک پر ملاحظہ کریں ۔  [[سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر ۔ پر ایک تحقیق ۔ عمر فاروق وڑائچ ]] </ref>
تواِس قدِ دلکش سے جو بازار میں آوے


(غالب)
(غالب)
سطر 194: سطر 191:
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت


([[الطاف حسین حالی |حالیؔ]])  
(حالیؔ )  


لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
سطر 200: سطر 197:
آؤ ناہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
آؤ ناہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی


([[اسد اللہ خان غالب | غالبؔ ]])
(غالبؔ )


شہاں کہ کہلِ جواہر تھی خاکِ پاجن کی
شہاں کہ کہلِ جواہر تھی خاکِ پاجن کی
سطر 206: سطر 203:
انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں


([[میر تقی میر | میرؔ ]])
(میرؔ )


باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں
سطر 212: سطر 209:
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر


([[علامہ اقبال | اقبالؔ ]])
(اقبالؔ )


تلمیح اشعار میں کسی تاریخی واقعے ،مقام یاشخصیت کی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ تلمیح کا درست استعمال پورے منظر ،مقام یاشخصیت کی تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے ۔حالیؔ کے شعر میں حضرت یوسف علیہ السلام کواُن کے بھائیوں کی جانب سے کنوئیں میں دھکا دینے کے واقعے کاذکر ہے ۔ غالبؔ کے شعر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پہاڑ پرخدا کی تجلّی کودیکھنے اور پھر اُس نور کی شدت سے پہاڑ کے جل جانے کاذکر ہے ۔ میرؔ کے شعر میں مغل عہد کے آخری حصے میں فرخ سئیر نامی بادشاہ کو تخت کے امید واروں کی جانب سے اندھا کردینے کاذکر ہے جبکہ اقبال کے شعر میں آدم کاخلا سے نکلنے اور دنیا میں آنے کی قرانی کہانی کا ذکر ہے۔اِسی حوالے سے غالب کاایک شعر یادآتا ہے ۔
تلمیح اشعار میں کسی تاریخی واقعے ،مقام یاشخصیت کی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ تلمیح کا درست استعمال پورے منظر ،مقام یاشخصیت کی تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے ۔حالیؔ کے شعر میں حضرت یوسف علیہ السلام کواُن کے بھائیوں کی جانب سے کنوئیں میں دھکا دینے کے واقعے کاذکر ہے ۔ غالبؔ کے شعر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پہاڑ پرخدا کی تجلّی کودیکھنے اور پھر اُس نور کی شدت سے پہاڑ کے جل جانے کاذکر ہے ۔ میرؔ کے شعر میں مغل عہد کے آخری حصے میں فرخ سئیر نامی بادشاہ کو تخت کے امید واروں کی جانب سے اندھا کردینے کاذکر ہے جبکہ اقبال کے شعر میں آدم کاخلا سے نکلنے اور دنیا میں آنے کی قرانی کہانی کا ذکر ہے۔اِسی حوالے سے غالب کاایک شعر یادآتا ہے ۔
سطر 220: سطر 217:
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے  
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے  


([[اسد اللہ خان غالب | غالبؔ ]])
(غالبؔ )


[[نعت نگاری]] میں [[تلمیح | تلمیحات]] کااستعمال بہت زیادہ ہے ۔تاریخی واقعات کے حوالے سے [[علامہ اقبال | اقبالؔ ]] کا تنقیدی شعور بہت بلند تھا۔ اقبال کے ہاں مکمل عنوان کے ساتھ نعت کم کم ہی ملتی ہے لیکن  
نعت نگاری میں تلمیحات کااستعمال بہت زیادہ ہے ۔تاریخی واقعات کے حوالے سے اقبال کا تنقیدی شعور بہت بلند تھا۔ اقبال کے ہاں مکمل عنوان کے ساتھ نعت کم کم ہی ملتی ہے لیکن  


[[لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ۔ علامہ اقبال | لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب ]] <ref> [[لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ۔ علامہ اقبال | لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب ۔ مکمل کلام ]]  </ref>
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب


گنبدِ آبگینہ رنگ تیرنے محیط میں جناب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرنے محیط میں جناب
سطر 230: سطر 227:
جیسے اشعار اُس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے محبت کاثبوت دیتے ہیں وہاں اُس کے تاریخ ،ثقافت اورزبان پر عبور کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔
جیسے اشعار اُس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے محبت کاثبوت دیتے ہیں وہاں اُس کے تاریخ ،ثقافت اورزبان پر عبور کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔


اِسی [[نعت]] میں وہ کہتے ہیں:
اِسی نعت میں وہ کہتے ہیں:


شوکتِ سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود
شوکتِ سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود
سطر 236: سطر 233:
فقرِ جنید بایزید تیرا جمالِ بے نقاب
فقرِ جنید بایزید تیرا جمالِ بے نقاب


[[نعت]] کے اِس شعر میں خلافتِ عثمانیہ کے بادشاہوں کے جلال کومثال بناتے ہوئے جمال اور محبت کے پیکر صوفیائے کرام حضرت جنید بغدادیؒ اورحضرت بایزید بسطامیؒ کی زندگی اور فلسف ۂحیات کے ساتھ ساتھ اُن بزرگانِ دین کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کوبھی موضوع بنایاگیا ہے تلمیح کی یہ ایک خوبصورت مثال ہے ۔ [[علامہ اقبال | اقبال]] کی اِس [[نعت]] پر بات کی جائے تو[[علامہ اقبال | اقبال]] اِس نعت میں پرشکوہ الفاظ اور پر جلال ماحول کے ذریعے ایک ایسا افق بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں جلال اور جمال کے ملنے کاخوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے اسی نعت میں وہ آگے کہتے ہیں:  
نعت کے اِس شعر میں خلافتِ عثمانیہ کے بادشاہوں کے جلال کومثال بناتے ہوئے جمال اور محبت کے پیکر صوفیائے کرام حضرت جنید بغدادیؒ اورحضرت بایزید بسطامیؒ کی زندگی اور فلسف ۂحیات کے ساتھ ساتھ اُن بزرگانِ دین کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کوبھی موضوع بنایاگیا ہے تلمیح کی یہ ایک خوبصورت مثال ہے ۔ اقبال کی اِس نعت پر بات کی جائے تو اقبال اِس نعت میں پرشکوہ الفاظ اور پر جلال ماحول کے ذریعے ایک ایسا افق بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں جلال اور جمال کے ملنے کاخوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے اسی نعت میں وہ آگے کہتے ہیں:  


شوق اگر نہ ہو میری نماز کاامام
شوق اگر نہ ہو میری نماز کاامام
سطر 242: سطر 239:
میراقیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب
میراقیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب


محبت اتنی شدت کے ساتھ [[علامہ اقبال | اقبال]] کے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے خصوصی طور پر جلوہ گرنظر آتی ہے اِس پوری نعت میں جلال اور بزرگی کاعنصر کچھ اِس طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ اِسے سنتے یاپڑھتے ہوئے گنبدِ خضریٰ کی سر سبز چھاؤں اور سنہری جالیوں کی روشنی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے ۔بچپن میں یعنی آج سے پچیس تیس سال قبل اِس کلام کو PTVپر محترمہ منیبہ شیخ کی زبانی سنا تھا ۔ پھر کئی نعت خوان خواتین و حضرات نے اِسے پڑھا لیکن کلام کے جلال وجمال کوجس طرح محترمہ نے اپنے ترنم سے زبان دی وہ انہی کاخاصہ ہے ۔ میں اِس کلام کی اتنی خوبصورت اور پر تاثیر ادائیگی پرمحترمہ کے لیے دعاگو ہوں ۔  
محبت اتنی شدت کے ساتھ اقبال کے ہاں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے خصوصی طور پر جلوہ گرنظر آتی ہے اِس پوری نعت میں جلال اور بزرگی کاعنصر کچھ اِس طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ اِسے سنتے یاپڑھتے ہوئے گنبدِ خضریٰ کی سر سبز چھاؤں اور سنہری جالیوں کی روشنی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے ۔بچپن میں یعنی آج سے پچیس تیس سال قبل اِس کلام کو PTVپر محترمہ منیبہ شیخ کی زبانی سنا تھا ۔ پھر کئی نعت خوان خواتین و حضرات نے اِسے پڑھا لیکن کلام کے جلال وجمال کوجس طرح محترمہ نے اپنے ترنم سے زبان دی وہ انہی کاخاصہ ہے ۔ میں اِس کلام کی اتنی خوبصورت اور پر تاثیر ادائیگی پرمحترمہ کے لیے دعاگو ہوں ۔  


UTube (یوٹیوب)کی وساطت سے اِس کلام کو میں نے مکرر سنا اوراسی لطف کوپایا جو ہزار ہا دنوں کی گہرائی میں کہیں کھو گیاتھا۔
UTube (یوٹیوب)کی وساطت سے اِس کلام کو میں نے مکرر سنا اوراسی لطف کوپایا جو ہزار ہا دنوں کی گہرائی میں کہیں کھو گیاتھا۔
سطر 308: سطر 305:
(اشفاق انجم)
(اشفاق انجم)


مابعد جدیدیت ایک متن پر دوسرے متن کے تخلیق کے رجحان کواہمیت دیتی ہے ۔[[نعت نگاری]] میں ایک متن کے حوالے سے متن میں دوسرے تخلیقی رجحان کو [[علامت | علامت نگاری]] کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شاعری میں [[علامت]] تخلیقی بنیادوں پرآتی ہے لہٰذا لفظ ہمہ جہت ہوجاتا ہے اوراُس کے کئی معنی لیے جاسکتے ہیں ۔
مابعد جدیدیت ایک متن پر دوسرے متن کے تخلیق کے رجحان کواہمیت دیتی ہے ۔نعت نگاری میں ایک متن کے حوالے سے متن میں دوسرے تخلیقی رجحان کو علامت نگاری کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شاعری میں علامت تخلیقی بنیادوں پرآتی ہے لہٰذا لفظ ہمہ جہت ہوجاتا ہے اوراُس کے کئی معنی لیے جاسکتے ہیں ۔


اِس حوالے سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی رائے بڑی دلچسپ ہے ۔
اِس حوالے سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی رائے بڑی دلچسپ ہے ۔
سطر 314: سطر 311:
’’میرے نزدیک اِ س سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے ۔لُغت کی کتاب میں اِس لفظ کاجو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتاہے ۔اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘(5)
’’میرے نزدیک اِ س سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے ۔لُغت کی کتاب میں اِس لفظ کاجو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتاہے ۔اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘(5)


آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ [[علامت]] [[تشبیہ]] اور[[استعارہ]] سے مختلف ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔
آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ علامت تشبیہ اوراستعارہ سے مختلف ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔


’’[[علامت]] مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ (6)
’’علامت مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ (6)


علامت ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔
علامت ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔
سطر 344: سطر 341:
(محمد اظہار الحق)
(محمد اظہار الحق)


اردو نعت نگاری میں [[علامت]] کاگہرا اور تہذیب میں گُندھا ہوا استعمال خال خال ہی نظرآتا ہے ۔اِس کی بنیادی وجہ شعراء کی تن آسانی اور سامع کی آسان پسندی ہے ۔ نعت خوانی میں ایسے کلام کا چناؤ جس کی شاعرانہ حیثیت مُسّلم نہ ہو عوامی مزاج کے بگاڑ کاسبب بنا پھراردو غزل کابڑا شاعر نعت کی جانب آنے میں ہچکچا ہٹ محسوس کرتا رہا۔ ان سب وجوہات کے باوجود ایسا نہیں کہ [[نعت گوئی | اردو نعت]] میں بڑی علامتی شاعری بالکل ہی نہیں ہوئی ۔اردو نعت نگاری میں علامت کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیں ۔
اردو نعت نگاری میں علامت کاگہرا اور تہذیب میں گُندھا ہوا استعمال خال خال ہی نظرآتا ہے ۔اِس کی بنیادی وجہ شعراء کی تن آسانی اور سامع کی آسان پسندی ہے ۔ نعت خوانی میں ایسے کلام کا چناؤ جس کی شاعرانہ حیثیت مُسّلم نہ ہو عوامی مزاج کے بگاڑ کاسبب بنا پھراردو غزل کابڑا شاعر نعت کی جانب آنے میں ہچکچا ہٹ محسوس کرتا رہا۔ ان سب وجوہات کے باوجود ایسا نہیں کہ اردو نعت میں بڑی علامتی شاعری بالکل ہی نہیں ہوئی ۔اردو نعت نگاری میں علامت کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیں ۔


سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب  
سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب  
سطر 394: سطر 391:
بخشے گئے تھے قتلِ عمد کے قصور تک
بخشے گئے تھے قتلِ عمد کے قصور تک


([[کاشف عرفان]])
(کاشف عرفان)


اکیسویں صدی کے آغاز میں نائن الیون (11/9)نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسائل کے انبار لگا دیے ۔دنیا تہذیبی ٹکراؤ کے دہانے تک پہنچ چکی ہے ۔آج خصوصاً عراق شام افغانستان ،ایران اور پاکستان کے مسلمان عیسائی دنیا کی نفرت کاشکار ہیں اُس پرزیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہیں۔فرقہ بندی اور مسالک کی جنگ نے ہمیں تنہا کردیا ہے ۔چھوٹے چھوٹے گروہوں نے استعماریت کے خلاف اپنی اپنی جنگ شروع کردی ہے ۔ دین کی جس شکل کوجس نے پسند کیااُس پر نہ صرف خود عمل شروع کردیا بلکہ ساتھ ہی بزورِ بازو وہتھیار دوسرے کوبھی اِسی شکل پر عمل کرنے پر مجبور کیا یوں ہم مسلمان نفرتوں کے ایک ایسے جنگل میں گم ہوگئے ہیں جہاں سے ہمیں صرف سیرتِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی نکال سکتی ہے اِسی حوالے سے [[صبیح رحمانی ]] کی ایک نعتیہ نظم دیکھیے ۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں نائن الیون (11/9)نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسائل کے انبار لگا دیے ۔دنیا تہذیبی ٹکراؤ کے دہانے تک پہنچ چکی ہے ۔آج خصوصاً عراق شام افغانستان ،ایران اور پاکستان کے مسلمان عیسائی دنیا کی نفرت کاشکار ہیں اُس پرزیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہیں۔فرقہ بندی اور مسالک کی جنگ نے ہمیں تنہا کردیا ہے ۔چھوٹے چھوٹے گروہوں نے استعماریت کے خلاف اپنی اپنی جنگ شروع کردی ہے ۔ دین کی جس شکل کوجس نے پسند کیااُس پر نہ صرف خود عمل شروع کردیا بلکہ ساتھ ہی بزورِ بازو وہتھیار دوسرے کوبھی اِسی شکل پر عمل کرنے پر مجبور کیا یوں ہم مسلمان نفرتوں کے ایک ایسے جنگل میں گم ہوگئے ہیں جہاں سے ہمیں صرف سیرتِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی نکال سکتی ہے اِسی حوالے سے صبیح رحمانی ؔ کی ایک نعتیہ نظم دیکھیے ۔


(نعتیہ نظم)
(نعتیہ نظم)
سطر 420: سطر 417:
آپؐ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے
آپؐ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے


([[صبیح رحمانی]])
(صبیح رحمانی)


انسان دوستی کے عناصر کا [[نعت]] میں شامل ہونا شعراء سے بہت سے مطالعے اور ریاضت کامتقاضی ہے ۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ اورآپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی زندگی کے اُن گوشوں کواردو نعت کاحصہ بنانا اورلوگوں تک پہنچانا نہایت ضروری ہے جہاں ابھی شعراء کی نظر نہیں پہنچی۔ نعت کے شاعر کاتخیّل بلند ہونے کے باوجود ادھر اُدھر بھٹکتا ہوا نہیں ہونا چاہیے نعت نگار جتنا Focused(متوجہ موضوع) ہوگا اُس کے لیے اچھی نعت کہنا آسان ہوگا ۔ عمومی شاعری اور نعتیہ شاعری میں فرق کے حوالے سے عزیز احسن کہتے ہیں ۔
انسان دوستی کے عناصر کا نعت میں شامل ہونا شعراء سے بہت سے مطالعے اور ریاضت کامتقاضی ہے ۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ اورآپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی زندگی کے اُن گوشوں کواردو نعت کاحصہ بنانا اورلوگوں تک پہنچانا نہایت ضروری ہے جہاں ابھی شعراء کی نظر نہیں پہنچی۔ نعت کے شاعر کاتخیّل بلند ہونے کے باوجود ادھر اُدھر بھٹکتا ہوا نہیں ہونا چاہیے نعت نگار جتنا Focused(متوجہ موضوع) ہوگا اُس کے لیے اچھی نعت کہنا آسان ہوگا ۔ عمومی شاعری اور نعتیہ شاعری میں فرق کے حوالے سے عزیز احسن کہتے ہیں ۔


’’نعت کی زبان فصاحت ،بیان ،متانت، اظہارِ ادراکِ رسالت اور تفہیمِ کارِ نبوت کانمائندہ ہوا ور مقصدِ اظہار‘ ترویجِ منشا ئے رب العزت ،تبلیغِ دینِ متین اوردفاعِ ناموسِ رسالت ٹہرے اور مجموعی تاثر اتبائے محبوب رب العالمین کے جذبوں کو بیدار کرنے والا ہو۔‘‘ (7)
’’نعت کی زبان فصاحت ،بیان ،متانت، اظہارِ ادراکِ رسالت اور تفہیمِ کارِ نبوت کانمائندہ ہوا ور مقصدِ اظہار‘ ترویجِ منشا ئے رب العزت ،تبلیغِ دینِ متین اوردفاعِ ناموسِ رسالت ٹہرے اور مجموعی تاثر اتبائے محبوب رب العالمین کے جذبوں کو بیدار کرنے والا ہو۔‘‘ (7)
سطر 433: سطر 430:




==== حوالہ جات وکتابیات: ====


حوالہ جات وکتابیات:
۱)مضمون ’’روایت اور نئی تخلیق ‘‘ ،ٹی ایس ایلیٹ، (مترجم) صدیق کلیم ،نئی تنقید ،نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد، ۲۰۰۷ء
۱)مضمون ’’روایت اور نئی تخلیق ‘‘ ،ٹی ایس ایلیٹ، (مترجم) صدیق کلیم ،نئی تنقید ،نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد، ۲۰۰۷ء
۲)مضمون ’’جدیدیت اور مابعد جدیدیت ‘‘ ،مشمولہ معنی اور تناظر ،ڈاکٹر وزیرآغا،مکتبہ نرد بان سرگودھا ،دسمبر۱۹۹۸ء
۲)مضمون ’’جدیدیت اور مابعد جدیدیت ‘‘ ،مشمولہ معنی اور تناظر ،ڈاکٹر وزیرآغا،مکتبہ نرد بان سرگودھا ،دسمبر۱۹۹۸ء
۳)اردو فکشن میں وقت کاتصور ،ڈاکٹر ناہید قمر ،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۲۰۰۸ء  
۳)اردو فکشن میں وقت کاتصور ،ڈاکٹر ناہید قمر ،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۲۰۰۸ء  
۴)وقت کی ماہیت کے حوالے سے سائنسی معلومات طبیعات (Physics) کے حوالے سے Website سے لی گئیں ۔
۴)وقت کی ماہیت کے حوالے سے سائنسی معلومات طبیعات (Physics) کے حوالے سے Website سے لی گئیں ۔
۵)مضمون ’’تخلیقی صلاحیت ‘‘،مضمون نگار: ڈاکٹر گوہر نوشاہی، مطبوعہ ،نئی شاعری ( مُرّتبہ افتخار جالب ) نئی مطبوعات لاہور،۱۹۶۶ء
۵)مضمون ’’تخلیقی صلاحیت ‘‘،مضمون نگار: ڈاکٹر گوہر نوشاہی، مطبوعہ ،نئی شاعری ( مُرّتبہ افتخار جالب ) نئی مطبوعات لاہور،۱۹۶۶ء
۶)اردو افسانے میں علامت نگاری ،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ریز پبلی کیشنز، مری روڈ راولپنڈی ،دسمبر ۲۰۰۲ء  
۶)اردو افسانے میں علامت نگاری ،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ریز پبلی کیشنز، مری روڈ راولپنڈی ،دسمبر ۲۰۰۲ء  
۷)نعت کی تخلیقی سچائیاں ،ڈاکٹر عزیز احسن،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ،مارچ ۲۰۰۳ء  
۷)نعت کی تخلیقی سچائیاں ،ڈاکٹر عزیز احسن،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ،مارچ ۲۰۰۳ء  
اِس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل رسائل اور کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔
اِس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل رسائل اور کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔
۱)کلیات اقبال ،علامہ محمداقبال ،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، س۔ن ۔
۱)کلیات اقبال ،علامہ محمداقبال ،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، س۔ن ۔
۲)اردو غزل ،نئی تشکیل ،طارق ہاشمی ،نیشنل بک فانڈیشن اسلام آباد ۲۰۰۸ء
۲)اردو غزل ،نئی تشکیل ،طارق ہاشمی ،نیشنل بک فانڈیشن اسلام آباد ۲۰۰۸ء
۳)نعت رنگ شمارہ ۲۳ ،مرتب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی
۳)نعت رنگ شمارہ ۲۳ ،مرتب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی
۴)نعت رنگ شمارہ ۲۴،مرتّب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی
۴)نعت رنگ شمارہ ۲۴،مرتّب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی
=== مزید دیکھیے ===
[[ نعت رنگ ]] | [[ماہنامہ کاروان نعت لاہور | کاروان ِ نعت ]] | [[ سہ ماہی فروغ نعت | فروغ نعت ]]
[[ نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 ]]
=== حواشی و حوالہ جات ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)