"اردو نعت میں تجلیاتِ سیرت۔ایک مطالعہ ۔ ڈاکٹر نثار احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 3: سطر 3:


مضمون نگار : [[نثار احمد، ڈاکٹر | ڈاکٹر نثار احمد۔کراچی]]
مضمون نگار : [[نثار احمد، ڈاکٹر | ڈاکٹر نثار احمد۔کراچی]]
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26]]


=== اردو نعت میں تجلیاتِ سیرت۔۔۔۔۔ایک مطالعہ ===
=== اردو نعت میں تجلیاتِ سیرت۔۔۔۔۔ایک مطالعہ ===

حالیہ نسخہ بمطابق 20:25، 6 دسمبر 2017ء

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر نثار احمد۔کراچی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

اردو نعت میں تجلیاتِ سیرت۔۔۔۔۔ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Sabih Rehmani has compiled a book containing 8 articles of different writers. All the articles comprise of couplets having fragrance of high and most unmatched good character of human being possessed by Prophet Muhammad (S.A.W). The text contains beauty of poetic expression with light of true reflection of essence of character of Muhammad (S.A.W) and commentaries of authors of articles therein.The article presented here is an introduction of Sabih Rehmani's book.

واہ واہ!سبحان اللہ!عزیزی صبیح رحمانی کے ذہن رسا کوداد دینی پڑتی ہے کہ موصوف نے نعت کے بحر زخار میں بھی تجلیات سیرت کے جزیرے تلاش کرلیے اورپھربادبانِ محبت سجا کرسفینۂ ہستی کو موج درموج ساحل آشنا کرتے چلے گئے۔

اب تو زمانہ گذر گیاکہ نعت ہی ان کا اوڑھنا اور بچھوناہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سالہا سال کی محنت و مشقت کے بعد آنجناب میدان نعت میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں کہ دنیائے شعر و سخن میں انھیں اعتبار حاصل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نعت جو پہلے کبھی شعرا اپنے دیوان کی ابتداء میں محض تبرکاً شامل کرلیاکرتے تھے اور گاہے بگاہے اپنے عقیدت و محبت کے اظہارکے لیے کچھ نہ کچھ کرلیاکرتے تھے اب انھیں ایک بھرپور ماحول میسر آگیاہے چناں چہ پوری شعوری کوششوں کے ساتھ اس صنف سخن کو پایندہ وتابندہ بنا رہے ہیں چناں چہ نعت اب علم و فن سے آگے بڑھ کر ایک تحریک اور عزوقار سخن کا باعث بن چکی ہے اور سب کی پسندیدہ بھی۔

عزیز موصوف کی زیر نظر کتاب سے اندازہ ہوتاہے کہ پہلے تو انھوں نے مجموعہ ہائے نعت میں سے جہان ِسیرت کو تلاش کیا اور اب اسے ’’تاریخیت ‘‘ سے مزین کررہے ہیں تاکہ عروض و قوافی کے پیمانوں میں اسنادواستناد کا رنگ وآہنگ بھی نمایاں ہوجائے۔ چناںچہ نعت کے تبلیغی کردار یااس کے ذریعہ اخلاقی اقدا ر کا پرچار اور اسوۂ حسنہ کی بہار اپنی جگہ اب ان کے پیش نظر یہ ہے کہ منظوم سیرت نگاری سے الگ بیان سیرت کی ایک نئی جہت پیکر سخن میں آراستہ ہوجائے اور دل و نگاہ کو محبت و مسرت سے سرشار کردے۔ شاید اسی مقصد سے موجودہ کاوش کے تحت انھوں نے نعت اور سیرت کے تاریخی حوالوں سے بھرپور ایسے آٹھ مضامین کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ معیاری ہیں بلکہ ان میں شامل منتخب اشعار قاری کو تسکین قلب ونظر سے متمتع کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے فاضل مرتب نے نعت وسیرت کے مطالعہ کی ایک نئی جہت اورنئی پیشکش کا اہتمام کرکے نعت کے وسیع و عریض میدان میں محبت کی فراوانی کودوام بخشا ہے اس کے لیے جناب مرتب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

کتاب ہذا کی ترتیب وتدوین بڑے سلیقے سے کی گئی ہے اس کی نمایاں خوبی ایک تو یہ ہے کہ جن مضامین کو شامل کیا گیا ہے وہ علمی فکری تحقیقی شان لیے ہوئے ہیں۔زبان و بیان عمدہ،نکتہ شناسی سے آراستہ ہیں۔دوسرے یہ کہ انتخاب مضامین میں معنویت پیدا کرنے کے لیے واقعات سیرت کی تاریخی ترتیب برقرار رکھی گئی ہے جس کے سبب ایک قاری صرف لطف کلام سے ہی متمتع نہیں ہوتا بلکہ ایک دلکش پس منظر کے ساتھ ایک مربوط تاریخ سے بھی بہرہ ورہوتا چلا جاتاہے بنابریں ہر نکتہ کی تشریح کے لیے نعت کی نظموں اور غزلوں میں سے بہترین اشعار کا انتخاب احوال وآثار کی تصویر سامنے لے آتاہے یہاں تک کہ پڑھنے والے کو ذہنی آسودگی ہی میسر نہیں آتی بلکہ کلام اس کے فہم وشعور کو بھی جلا بخشتاہے۔مثلاً سب سے پہلے ’’ظہور قدسی کاپس منظر‘‘بیان کیا گیا ہے تاکہ ابتدا میںہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مسعود کی آمد متحقق ہوجائے اوریہ اہمیت بھی واضح ہوجائے کہ آنحضور ؐ کی ذات ِ گرامی ہم مسلمانوں پرہی اللہ رب العالمین کا احسان عظیم نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے باعث ہدایت اور موجب رحمت وبرکت ہے اور روئے زمین پرآج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اجمل ،احسن اوراکمل انسان ظہور پذیر ہواہے اورنہ آئندہ ہوگا یہ حقائق منتخبہ اشعار میں نکھر کرسامنے آجاتے ہیں مثلاً:


ترے آستاں سے پہلے کوئی آستاں نہیں تھا

وہ زمیں تھا میں کہ جس کا کوئی آسماں نہیں تھا

توجوازِ دوجہاں ہے تو ہی رازِ کن فکاں ہے

تو کہاں کہاں نہیں ہے توکہاں کہاں نہیں تھا

(سلیم گیلانی)


یہ ایک مستقل تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی تشریف آوری سے پہلے جزیرۃ العرب کی اخلاقی ،فکری،سیاسی،سماجی اور مذہبی صورت حال انتہائی دگرگوں تھی اور صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہراعتبار سے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہواتھا اورمکمل تاریکی ایسی رات کی مانند ہو گئی تھی جس کے بعدا یک ’’سراج منیر‘‘کا طلوع اورایک ’’رحمتہ للعالمین‘‘کی آمدناگزیر ہوچکی تھی:


عرب کی سرزمیں پرخیمہ زن گہرا اندھیرا تھا

جہاں تک کام آتی تھی نظر ظلمت کا ڈیرا تھا

غرض دنیا میں چاروں سمت اندھیرا ہی اندھیرتھا

نشان ِنور گم تھا اور ظلمت کا بسیرا تھا

(جگن ناتھ آزاد)


بزمِ طرب نہ کلبۂ احزاں میں روشنی

گلشن میں روشنی نہ بیاباں میں روشنی

انساں بھٹک رہا تھا اندھیرے حصار میں

قلب ِحزیں نہ ذھن پریشاں میں روشنی

(عارف سیمابی)


جملہ مذاہب عالم کی حقیقی تعلیمات مسخ ہوچکی تھیں۔نظریہ ٔ توحید آتش پرستی اور بت پرستی کے نرغہ میں تھا آسمانی ہدایات فراموش ،مذہبی فرقوں کی فراوانی ،کفر وشرک کے پجاری بہ افراط ،بت تراشی اور مجسمہ سازی مستقل فن،زمانہ کا چلن بن چکی تھی ۔لوگ آخرت میں اعمال کی جواب دہی سے بے نیاز تھے۔آگ ،سورج ،جن ،فرشتے اورچاند ،ستارے معبود قرار دئیے جاچکے تھے ۔عبادت گاہیں عیاشوں کے اڈے تھے،معاشرہ اعتدال او رحسن توازن سے محروم ظہر الفسادفی البروالبحر کی مکمل تصویر بن چکی تھی چناں چہ:


نقطۂ آغاز بھی اور ارتقاء بھی تھا وہی

انتہا بن کرجو آیا ابتدا بھی تھا وہی

پیشوائی کو ہزاروں انبیاء بھیجے گئے

اس کی خاطر روشنی کے دائرے کھینچے گے

اس لیے آخر میں آیا وہ حبیب کردگار

تاکہ دنیا سیکھ جائے احترامِ انتظار

(صہبا اختر)


ایسے عالم میں رب تعالیٰ کو پھر

اپنی مخلوق پر رحم آہی گیا

تاج رحمت کو سرپہ سجائے ہوئے

پرچم عدل و احساں اٹھائے ہوئے

وہ جو آئے توعہد بہار آگیا

عشق کو جن کے دل کی شریعت کہیں

ذکر کو جن کے جاں کی عبادت کہیں

وہ حبیب خدا احمد مجتبیٰ!

ان پر قرباں ہمارے تمہارے وجود

ان پہ پیہم سلام ان پہ دائم درود

(صبیح رحمانی)


تاریخی ترتیب کے اعتبار سے پہلا مرحلہ چوں کہ ’’ظہور قدسی کا پس منظر‘‘تھا۔اس لیے دوسرے مرحلے میں ’’ظہور قدسی ‘‘کا بیان گویا منطقی اور لازمی تھا ۔ظہور قدسی کا باب (ص۳۸سے ص۸۸)تک پھیلا ہوا ہے اوراس میں بالترتیب صبح سعادت (ص ۵۸) کی دلاویزی،انقلاب عظیم کا وردِمسعود اورپھر خلاصۂ منصب و تعلیم ،نشر توحیدآپ کی شخصیت مطہرہ اورآپ کے اخلاق مبارکہ کے اوصاف جمیلہ مثلاً رحمت ورافت(ص۲۴)،خلق عظیم(ص ۶۹)، عدل ومساوات (ص ۷۳)، فقرو غنا (ص۷۵)، علم ودانش(ص ۷۸)،شجاعت(ص ۸۲)،جودوسخا(ص۸۴)اور معجزات(ص۸۵) وغیرہ کی کہکشاں کی تابانی عطاکررہی ہے۔ اس کا کچھ اندازہ انتخاب درانتخاب کی مشکلات کے بعد چند اشعار سے ہوسکتاہے۔


سیدالکونین ہے جس کا لقب

رحمت دارین ہے جن کا خطاب

جس کی تعلیمات سے برپا ہوا

ایک عالمگیر فکری انقلاب

(ضیاء احمد ضیاء )


کعبۂ جاں قبلۂ قلب و نظر پیدا ہوئے

خواجہ کونین شاہِ بحروبر پیدا ہوئے

عارفِ ارض وسما میر بساطِ کائنات

خیر سے خیرالامم خیرالبشر پیدا ہوئے

(احسان دانش )


عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرۂ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب

(اقبال)


مہر توحید کی ضو اوج شرف کا مہِ نو

شمع ایجاد کی لو بزم رسالت کا کنول

(محسن کاکوروی)

مظہر رحمت مصدررافت مخزن شفقت عین عنایت

ہے کیا عالی شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

(کافیؔ)


حسن کی جان ایمان محبت صلی اللہ علیہ وسلم

سرتا پا رحمت ہی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم

(ماہر القادری)


ترے خلق کوحق نے عظیم کہا ترے خلق کو حق نے جمیل کہا

کوئی تجھ ساہواہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن وادا کی قسم

(احمد رضا خاں)


قول فیصل ہے یہی خلق ہے تیرا قرآن

تیری سنت ہے شب تار جہاں میں مشعل

(علیم ناصری)


ہر قوم ہے شرمندۂ احسانِ محمد

اے مرد خدا عام ہے فیضانِ محمد

(محشر رسول)


پاکر تری انگشتِ شہادت کا اشارہ

مہتاب کا سینہ ہوا شق ہادی برحق

(حفیظ تائب)


خورشیدِ فلک آپ ہیں مہتابِ زمیں آپ

تابندہ نظر آپ ہیں فرخندہ جبیں آپٍ

معیار ہے دنیا کے لیے اسوۂ حسنہ

سرنامۂ توحید کے ہیں نقشِ حسیں آپ

(عبدالکریم ثمر)


سرمایۂ حیات ہے سیرت رسول کی

اسرار کائنات ہے سیرت رسول کی

(ساغر صدیقی)


تخلیق کائنات بھی صدقہ حضور کا

ترئینِ کائنات بھی سرکار سے ہوئی

(مظفر وارثی)


کیا مجھ سے بیاں ہوں ترے اوصاف کہ آقا

تو حیطۂ امکان و تخیل سے ورا ہے

میں بندۂ کج فکر و فرومایۂ عالم

توزینتِ کونین ہے ممدوح خدا ہے

(احمد ادیب)


جو اشک ندامت مری پلکوں پہ گرا ہے

اے بحر کرم وہ ترے جلووں کی عطا ہے

جاری ہے دو عالم میں ترے فیض کا چشمہ

تو بحرِ کرم بحرِ عطا بحرِ سخا ہے

(طاہرسلطانی)


اس طرح جان دوعالم ہے دل وجان کے ساتھ

جیسے قرآن ہو خود صاحبِ قرآن کے ساتھ

(صبیح رحمانی)


کتاب ہذا کی ایک خاص بات جو میرے نزدیک جناب صبیح ؔرحمانی کی ندرت فکر کے ساتھ ساتھ سلامتیٔ فکر کو بھی ظاہر کرتی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی تما م کدوکاوش جامعیت کبریٰ کی حامل ہے۔یہ جامعیت کئی پہلوؤں سے نمایاں ہے مثلاً:انتخاب مضامین کے تحت موضوعات کی جامعیت،نمونہ ٔ کلا م کے انتخاب میں قدیم عہد سے لے کر دورحاضر کے کم وبیش تما م قابل ذکر شعرا سے استفادہ۔اس سلسلہ میں نہ کسی مسلک یا مکتب فکر کی رعایت برتی گئی ہے نہ حفظ مراتب کے تکلفات کی۔تمام صاحبان فکر و فن اور استادان شعر و سخن کی بھرپور نمائندگی برقرار رکھی گئی ہے یہاں تک کہ فکر ادب اسلامی کے نامور ادیب و شعرا مثلاً ماہرالقادری اور نامور ادیب و شاعر اور سیرت نگار جناب نعیم صدیقی ،جو اگرچہ اپنی شہرۂ آفاق نعت:حضور میں ایک نعت کہوں سوچتاہوں کیسے کہوں!کے لیے معروف و مشہور ہیں تاہم اس کتاب میں شامل اُن کے دوشعر مشاعرہ لوٹنے والے ہیں ۔ادب ،تہذیب، سلیقہ اظہار، صورت وآہنگ ،مضمون کی وسعت،جذب و روانی،قافیہ پیمائی ،بندش اور ندرت بیان کوخود ملا حظہ کر لیجیے:


ادب، انکسار، غنا، حیا، غمِ حشر، صدق و صفا، دعا

جویہ سات رنگ ہوئے بہم تری شخصیت کی بنی دھنک

ترے سب زماں تراکل مکاں ترے مہرومہ تری کہکشاں

توادھر سے اٹھ توادھر سے آتویہاں چمک تووہاں دمک

(نعیم صدیقی)


جامعیت کی اسی قبیل سے عاصی ؔکرنالی کی تجنیس ،صوتی،نغمگی،روانی،برجستگی سے بھرپور نعت قابل ذکر حیثیت رکھتی ہے:


اب نغمہ نغمہ، نغمہء تارِ حیات ہے

اب نشہ نشہ ،نشۂ عرفان ذات ہے

اب پردہ پردہ، پردۂ سازِ جمال ہے

اب بادہ بادہ ،بادۂ عرفان حال ہے

اب جرعہ جرعہ، جرعۂ جام الست ہے

اب ذرہ ذرہ، ذرۂ خورشید مست ہے

اب قطرہ قطرہ، قطرۂ اشکِ نیاز ہے

اب توبہ توبہ، توبۂ سوز و گداز ہے

اب غنچہ غنچہ، غنچۂ زلفِ نگار ہے

اب لالہ لالہ، لالۂ رخسارِ یار ہے

اب جلوہ جلوہ، جلوۂ سرو سمن ہوا

اب خندہ خندہ، خندۂ صبح چمن ہوا

اب جذبہ جذبہ، جذبۂ عشقِ رسول ہے

اب شیوہ شیوہ، شیوۂ عدل و اصول ہے

اب نعرہ نعرہ، نعرۂ توحید بن گیا

اب سجدہ سجدہ، سجدۂ امید بن گیا


اورسب سے آخر میں بالکل غیر متوقع طور پر رحمن کیانی جیسے بے باک ،صاحب سیف وقلم ، شاعررزم وبزم کے کلام سے انتخاب بڑا خوشگوارتاثر مرتب کرتاہے ۔رحمن کیانی اگرچہ رزمیہ نعت کے بانی ،نقیب ملت بیضاکی حیثیت سے بالکل منفرد رنگ وآہنگ رکھتے ہیں اور بقول خود ان کے ’’جس کی زباں اور بیاں اور،سخن اور‘‘کے ساتھ ساتھ نبی الملاحم،انا النبی لاکذب ،حب رسول اور پیغمبر اسلام جیسے نعتیہ کلام کے خالق ہیں اور جن کا کام بقول جناب حفیظ جالندھری ’’ایک سچے مسلمان کاہے‘‘اور فاتبعونی یحببکم اللہ کے زیر عنوان نعت کا جوا قتباس زیر نظر کتاب کی زینت ہے شاعر کے اخلاص و للہیت اور جذب دروں کا عکاس ہے:


شرط ایماں مصطفی سے والہانہ پیارہے

پیار لیکن پیروی ہے پیروی دشوار ہے

ہرقدم اقراء سے اکملت لکم تک راہ میں

زہر ہے زنداں ہے مقتل ہے صلیب و دار ہے

پیروی سے عاشقی آسان ہے اوراس لیے

جس کو دیکھو ان کا دیوانہ سربازارہے

معجزہ سب سے نمایاں سید الابرار کا

آپ کی بے داغ سیرت بے خطا کردارہے


حسن صورت وسیرت کی حامل اس ضخیم کتاب میں جامعیت کی آخری دلیل کلام شاعر ات سے انتخاب ہے جو قدرے تشنہ معلوم ہوتاہے ۔جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں ایک جگہ تہنیت النساء بیگم تہنیت کے دواشعار نمائندگی کررہے ہیں:


کوئی خالی ہاتھ اُن کے در سے نہ آیا

عجب بخت والے ہیں واں جانے والے

کرو تہنیت قصد طیبہ یہ کہہ کر

نہیں لوٹ کر اب کے ہم آنے والے


جب کہ ایک دوسرے مقام پرمحترمہ ادا جعفری کا محض ایک شعر درج ہے:


ہادی بھی آپ نازِ ہدایت بھی آپ ہیں

صادق بھی اور یقین صداقت بھی آپ ہیں


محترمہ اداجعفری ایک بزرگ شاعرہ ہیں جنھیں ’’اردو شاعری کی خاتون اول‘‘کہا جاتا ہے۔ [افسوس کہ ابھی حال ہی میں ۹۱ سالہ بھرپور زندگی گذار کر ہمیں داغ مفارقت (۱۳ مارچ۲۰۱۵ء) دے گئی ہیں]یہ خاکسار جناب مرتب کی اجازت حاصل کیے بغیر مناسب سمجھتا ہے کہ ذیل میں ان کے نذرانہ ٔعقیدت کے دواور نمونے ہدیہ قارئین کردیے جائیں:


جب نگاہوں میں ہو نکہتوں کی سی خو تب انھیں سوچنا

دردِ محراب جاں، آنکھ ہو باوضو تب انھیں سوچنا

روشنی کے حوالوں سے لکھنا وہ اسم جمالِ بشر

بارش رنگ ہو پھول ہوں چار سوتب انھیں سوچنا

جن کا مداح ہے خالق دوجہاں، مالک ہرمکاں

حرف سے ماورا ہوسکے گفتگو تب انھیں سوچنا

اب ستارے مژہ پرنہ رک پائیں گے ہے یہ شہر نبی

کہکشاں جب ہو زیر قدم چار سو تب انھیں سوچنا

وہ محیط کرم وہ نوید عطا مجھ سے دل نے کہا

ڈھونڈنی ہو اگر دشت میں آبجو تب انھیں سوچنا

……

ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

اس دل میں اجالے اتر آئے ہیں کہاں سے

لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے

تحریر کروں اسم نبی ہدیۂ جاں سے

کرنیں ہی چھٹک جائیں اسی حجرہ ٔ دل میں

تم ان کو پکارو توحضورِ دل و جاں سے

ہر دور کی امید ہے ہر عہد کا پیغام

پہچان ہے ان کی نہ زمیں سے نہ زماں سے

مختصر یہ کہ ’’اردو نعت میں تجلیات ِسیرت‘‘سے بھر پور یہ کتاب اب آپ کے سامنے ہے مجھے پسند ہے اور مجھے امیدہے کہ اس نئی پیشکش سے آپ بھی متاثر ہوں گے اور اس وقیع کا م پر جناب صبیح رحمانی کودعائیں دیں گے۔