"آبروئے ما ۔ ریاض حسین چودھری" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ریاض حسین چودھری نے اپنے مجموعہ کلام ’’آبروئے ما‘‘ (12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء) ’’اپنے پیار...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ریاض حسین چودھری]] نے اپنے مجموعہ کلام ’’آبروئے ما‘‘ (12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء) ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔‘‘ سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں: ’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔‘‘ زودگوئی کے باوجودریاضؔ چودھری کا اسلوب یکسانیت سے پاک ہوتا ہے۔ اس میں ایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ بارگاہِ رسالت میں پوری اُمت کا استغاثہ ہے ۔ وہ اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہے ؎ اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا.
[[ریاض حسین چودھری]] نے اپنے مجموعہ کلام ’’آبروئے ما‘‘ (12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء) ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔‘‘ سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں: ’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔‘‘ زودگوئی کے باوجودریاضؔ چودھری کا اسلوب یکسانیت سے پاک ہوتا ہے۔ اس میں ایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ بارگاہِ رسالت میں پوری اُمت کا استغاثہ ہے ۔ وہ اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہے ؎ اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا.
http://riaznaat.com/bookid/10

نسخہ بمطابق 12:04، 23 اکتوبر 2019ء

ریاض حسین چودھری نے اپنے مجموعہ کلام ’’آبروئے ما‘‘ (12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء) ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔‘‘ سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں: ’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔‘‘ زودگوئی کے باوجودریاضؔ چودھری کا اسلوب یکسانیت سے پاک ہوتا ہے۔ اس میں ایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ بارگاہِ رسالت میں پوری اُمت کا استغاثہ ہے ۔ وہ اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہے ؎ اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا.


http://riaznaat.com/bookid/10