رنج و غم زیست کے جس وقت ستاتے ہیں مجھے ۔ سید وحید القادری عارف

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

رنج و غم زیست کے جس وقت ستاتے ہیں مجھے

ایسے لگتا ہے وہ دامن میں چھُپاتے ہیں مجھے


وہ مری اپنی بھی پہچان بھُلا دیتے ہیں

یاد آتے ہیں تو اِس طرح سے آتے ہیں مجھے


کیا تصور ہے کہ میخانہء عرفاں ہے کھلا

میرے آقا ہیں کہ نظروں سے پلاتے ہیں مجھے


اُن کی نسبت ہے کہاں مجھ سا گنہ گار کہاں

اپنے الطاف سے وہ اپنا بناتے ہیں مجھے


اِک فقط اُن کے کرم کا ہے سہارا ورنہ

میرے اپنے بھی جو ہیں بھولتے جاتے ہیں مجھے


اُن کی ہر ایک ادا اُسوہء حسنہ ٹہری

طور جینے کے بہر طور سکھاتے ہیں مجھے


نعت کہتا ہوں تو اک کیف میں یہ کون و مکاں

جیسے ہر دم مرے اشعار سُناتے ہیں مجھے


وہیں جینے وہیں مرنے کی ہے خواہش میری

بارہا لوگ مدینے میں جو پاتے ہیں مجھے


میں جو جاتا ہوں وہاں میں نہیں جاتا عارف

اپنے در پر مرے سرکار بُلاتے ہیں مجھے