بہزاد لکھنوی کی نعتیں
نمونہ کلام
پھر در مصطفی کی یاد آئی
پھر در مصطفی کی یاد آئی
کعبہ مدعا کی یاد آئی
کھل گیا جس سے دائمی گل دل
اس صبا اس ہوا کی یاد آئی
جو تھا ورد زماں مواجہہ میں
اس درد وفا کی یاد آئی
ہے جو تزئین مسجد نبوی
پھر اسی نقش پا کی یاد آئی
جالیوں کی قریں جو مانگی تھی
اس مرادوں و دعا کی یاد آئی
دیکھ کر اپنا عالم مسرور
ان کے لطف و عطا کی یاد آئی
ہوگئی پھر جبین دل بیتاب
قبلتیں و قبا کی یاد آئی
بن گیا قلب منبع انوار
گنج نور و ضیا کی یاد آئی
پھر مچلنے لگا ہے دل بہزاد
خاتم الانبیاءﷺ کی یاد آئی
تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے
تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے
کہ جیسے وہ روضہ قریب آ رہا ہے
جسے دیکھ کر روح یہ کہہ رہی ہے
مرے درد دل کا طبیب آ رہا ہے
یہ کیا راز ہے مجھ کو کوئی بتائے
زباں پر جو اسم حبیب آ رہا ہے
الہی میں قربان تیرے کرم کے
مرے کام میرا نصیب آ رہا ہے
وہی اشک ہے حاصل زندگانی
جو ہر آنسو پہ یاد حبیبﷺ آ رہا ہے
جسے حاصل کیف کہتی ہے دنیا
خوشا اب وہ عالم قریب آ رہا ہے
جو بہزاد پہنچا تو دنیا کہے گی
در شاہ پر اک غریب آ رہا ہے
تصور میں مدینہ آ گیا ہے
تصور میں مدینہ آ گیا ہے
فضا پر نور سا چھا گیا ہے
خوشا دل کو ملا عشق محمدﷺ
مراد زندگانی پا گیا ہے
وسیلے سے انہیں کے بڑھ رہی ہیں
دعاعں کا سلیقہ آ گیا ہے
وہ نقش پا ہے محراب النبی میں
مزا سجدوں کا اس جا آ گیا ہے
نظر میں اس کی کیا مستی کونین
جو دل کیف حضوری پا گیا ہے
جوڑتا ہے محمدﷺ ہی محمدﷺ
وہی راز محبت پا گیا ہے
کوئی ہی کان میں کہتا ہے بہزاد
مدینے سے بلاوا آ گیا ہے
جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے
جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے
مسلماں نہیں ہے، مسلماں نہیں ہے
نہ ہوں جس میں نور نبیﷺ کی ضیائیں
وہ ایماں نہیں ہے وہ ایماں نہیں ہے
نہ ہو جس میں دید مدینہ کا اماں
وہ دل دل نہیں ہے، وہ جاں جاں نہیں ہے
وہی تو ہیں وجہ بنائے دو عالم
بھلا ان کا کس شے پہ احساں نہیں ہے
رسائی نہیں اس کی ذات خدا تک
جسے ذات احمدﷺ کا عرفاں نہیں ہے
انہیں کی ضیائیں ہیں کون و مکاں میں
کہاں یہ تجلی فروزاں نہیں ہے
پڑھوں نعت بہزاد طیبہ میں جا کر
بجز اس کے اب کوئی ارماں نہیں ہے