دبستان ِ نعت پر ایک سرسری نظر - علامہ ڈاکٹر شہزاد مجددی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 14:01، 23 مارچ 2018ء از سید عرفان عرفی (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: علامہ ڈاکٹر محمد شہزاد مجددی (لاہور) ’’ دبستانِ نعت پر ایک نظر‘‘ الحمد للہ منشی الخلق من عدم ثم...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

علامہ ڈاکٹر محمد شہزاد مجددی (لاہور)

’’ دبستانِ نعت پر ایک نظر‘‘


الحمد للہ منشی الخلق من عدم

ثم الصلوٰۃ علی المختار فی القدم

عصر حاضر نعتیہ ادب کے حوالے سے تاریخی اور تجدیدی مراحل طے کرتے ہوئے ایک ایسے موڑ پر آ پہنچا ہے جہاں نعت گوئی کی روایت اپنی تمام تر معنوی خوبیوں کے ساتھ نمایاںہو رہی ہے۔آج نعت محض جذبہ ٔ عقیدت و محبت سے آگے نکل کر اپنی تمام تر تکوینی و تشریعی جہات کے ساتھ حسن اظہار کے اعلیٰ ترین مراتب طے کر رہی ہے۔ نعتیہ تنقید و تحقیق کے باب میں جہت نمااورTrendstterمجلہ ’’ نعت رنگ ‘‘ سے شروع ہونے والی ادبی فکری اور انتقادی تحریک آج ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ ششماہی تک آ پہنچی ہے۔ خلیل آباد ضلع سنت کبیر نگر ( ہند ) سے شائع ہونے والے اس جریدے کے مدیر مکرم ، معروف محقق ڈاکٹر سراج احمد قادری اور سرپرست پروفیسر ڈاکٹر سید حسین احمد ( سجادہ نشین خانقاہ حضرت دیوان شاہ ارزانی ، پٹنہ، بہار ) ہیں۔ معاونین میں ایک طرف سید صبیح الدین صبیح ؔ رحمانی کا نام ہے تو دوسری طرف قاضی اسد ثنائی ( حیدر آباد ، ہند) کا اسم گرامی مسطور ہے جبکہ ڈاکٹر عبد القادرغیاث الدین فاروقی ( نیو یارک ) بھی اس سلک درر میں جگمگا رہے ہیں گویا نعتیہ ادب کی ابعاد ثلاثہ کا حسین امتزاج اس فہرست اسمأ میںجلوہ افروز ہے۔


کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

صاحب نعت و منعوت اعظم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی کا عکس اس وسیع تر تناظر سے نمایاں ہے وہاں نعت کی آفاقیت بھی پاک و ہند سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک پھیلی ہوئی اس نعت شناسی کی کہکشاں سے جھلک رہی ہے۔

’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کی صورت میں خدمت نعت کا یہ سفرا بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ چنانچہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کے مصداق بہت سفر باقی ہے امید ہے مدیر محترم اپنے رفقا ٔ کار کے ساتھ اس سفر ِ سراپا ظفر کے تمام کٹھن مگر ایمان افروز مراحل بخیر و خوبی طے کرنے میں کامیاب و کامران رہیں گے۔

مدیر محترم نے مندرجات کا تعارف بطریق احسن پیش کر دیا ہے لہٰذا اس تفصیل میں جائے بغیر میلاد اکبر کے حوالے سے صفحہ ۱۵پر موجود عبارت محلِ نظر محسوس ہوئی لکھتے ہیں۔

’’میلاد اکبر میں اگر چہ موضوع روایات بھی شامل ہیں مگر فضائل و مناقب میں موضوع روایات موثر ہیں۔ حدیث کے کلیے کے مطابق فضائل و مناقب میں موضوع روایات کا بھی اعتبار ہے ‘‘۔ ( دبستانِ نعت ص۱۵)

یا د رہے موضوع روایت کا مطلب ہے ایسی جعلی اور من گڑھت حدیث جسے غلط طور پر مخبر صادق اور اصدق الصادقین ﷺ کی ذاتِ گرامی سے منسوب کر دیا گیا ہو اس حوالے سے احادیثِ صحیحہ اور متواترہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں متفق علیہ حدیث ہے ، کہ جس نے میری طرف ایسی بات قصداً منسوب کی جو میں نے نہیں کہا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔ ایسے ہی حدیث سُنی سُنائی بات کو آگے پہنچا دینے والے کو جھوٹا اور گنہگار کہا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے راقم کے مضامین مطبوعہ ’’ نعت رنگ ‘‘ شمارہ ۲۰۔۲۳

صفحہ ۶۹ پر محترم ساجد امروہوی کا مضمون ’’ نعت رسول مقبول ﷺ اور اس کا ارتقأ ‘‘ شائع ہوا ہے۔ انداز تحریر کی شستگی اور احسن شعری انتخاب کے ساتھ صفحہ ۷۱ پر یہ عبارت رجوع اور توبہ کی متقاضی ہے۔ لکھتے ہیں۔

’’آخر میں ایک شعر جو فخر ِ موجودات حضور سرور کائنات ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہوا ضرور نذر قارئین کروںگا۔ اصل میں یہ شعر نہیں ہے بلکہ حضور ﷺ کی زبان سے دو جملے غیر ارادی طور سے جنگ خندق میں خندق کھودنے کے دوران نکلے ہوں گے کیوں کہ سبھی صحابہ جو خندق کھود رہے تھے اپنا حوصلہ اور جوش بڑھانے کے لیے رجزیہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ آقائے مکرم ﷺ بھی اپنے حصے کی خندق کھودنے میں مصروف تھے اس وقت مندرجہ ذیل جملے اُنکی زبانِ مبارک سے نکلے جو ایک مطلع کے دو مصرعے بنتے ہیں۔ ؎


انا النبی لا کذب انا ابن عبد المطلب

گزارش ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ٔ خندق( احزاب ) کا نہیں بلکہ غزوہ ٔ حنین ۸ھ؁ کا ہے۔ حضرت مخدوم محمد ہاشم سندھی اپنی کتاب ’’ بذل القوۃ فی حوادث السنی النبوۃ ( مترجم ) میں رقم طراز ہیں۔

’’ غزوہ ٔ حنین میں مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمان مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوئے تو ان میں سے بعض مسلمانوں نے اپنی کثرت پر فخر کرنا شروع کر دیا مشرکین نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور مسلمان اپنی کثرت پر فخر کے باعث ہزیمت اٹھانے لگے اور صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کے ارد گرد بکھر گئے۔ ان حالات میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری کو کفار کی طرف بڑھانا شروع کیا اورآپ کی زبان مبارک پر یہ رجز جاری تھا۔


انا النبی لا کذب

انا ابن عبد المطلب

(صحیح بخاری : کتاب المغازی : من قاد دابۃغیرۃ فی الحرب رقم :۲۸۶۴)

غزوہ ٔ خندق کے موقع پر پڑھے جانے والے اشعار اس سے مختلف تھے جو صحابہ ٔ کرام علیہ الرضوان نے بھی ساتھ مل کر پڑھے تھے۔

جناب محسن ؔملیح آبادی کی تحریر میں صفحہ ۱۴۴ پر موجود شعر


سرورِ دیں کا اگر سامنے کردار رہے

مہکا مہکا ہوا پھر اپنا گلزار رہے

جو شاید کسی نعت کا مطلع ہے اس میں دونوںمصرعوں کا باہمی ربط سمجھ میں نہیں آیا شعر نظرثانی کامحتاج ہے۔

چمنستان نقشبندیہ کے گل سر سبد حضرت مولانا عبد الرحمن جامیؔ رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ، فکری اور ادبی کمالات کے حوالے سے گوشہ ٔ خاص بھی اس دبستان ِ نعت کا ایک لائق تحسین خاصہ ہے اگر چہ ا س میں عاشقان جامی ؔ کی سیرا بی کے لیے تحریری مواد کے جام بقدر طلب

موجود نہیں تھے لیکن بہر حال بقول مولانا جامی ؔ :


بہر یک گل زحمت صد خار می باید کشید

علالت کے باعث اختصار سے کام لے رہا ہوں ، امید ہے یہ سلسلۂ خیر و برکت جاری و ساری رہے گا اور وابستگان نعت ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ برادرِ مکرم جناب فیروز احمد سیفی جیسے متحرک اور مخلص لوگ جس گلشن ادب کی آبیاری فرما رہے ہوں یقینا وہ چمن ہمیشہ بہار کی طرح لہلہاتا رہتا ہے۔