تیرے آستاں سے پہلے کوئی آستاں نہیں تھا
وہ زمیں تھا میں کہ جس کا کوئی آسماں نہیں تھا
سفرِ سما سے پہلے تیرے نقشِ پا سے پہلے
یہ تبسمِ کواکب سرِ کہکشاں نہیں تھا
نہ خرد کی روشنی تھی نہ جنوں کی آگہی تھی
تیری رہبری سے پہلے یہ جہاں جہاں نہیں تھا
کئی آنسوؤں کے قلزم تیرے در پہ بہہ چکے ہیں
غمِ دل کا تجھ سے پہلے کوئی رازداں نہیں تھا
وہ شہِ ورائے دیدہ میں نوائے نارسیدہ
تیری رحمتوں سے پہلے کوئی درمیاں نہیں تھا
تو جوازِ دو جہاں ہے تو ہی رازِ کُن فکاں ہے
تو کہاں کہاں نہیں ہے تو کہاں کہاں نہیں تھا
تیرے شہر کی ہوا سے دل و جاں مہک رہے ہیں
مجھے بختِ نارسا پر کبھی یہ گماں نہیں تھا
|